۲۷ مئی ۲۰۱۹ء اور رمضان شریف کی ۲۱ تا ریخ تھی ۔ میں چار دن Credit Valley Hospital میں رہ کر آج گھر آئی تھی ۔عبداللہجاوید نے مجھ سے کہا ’’بہت دنوں سے حیدر قریشی سے بات نہیں ہوئی ۔ ‘‘ میں نے گھڑی کی طرف نظر ڈالی ، ہمارے پاس(کینیڈا میں ) شام کے چار بج رہے تھے ۔’’اس وقت جرمنی میں رات کے دس بج رہے ہوں گے ۔ بات تو کی جا سکتی ہے‘‘ یہ سوچتے ہوئے میں نے فون ملایا ۔ فون حیدر قریشی صاحب نے اٹھا یا ۔ میں نے ان کو بتا یا کہ ہسپتال میں میری انجیو گرافی ہوئی ، سی ٹی اسکین ہوا اور دن میں دو مرتبہ بلڈ ٹیسٹ ہو تا تھا ۔ آج صبح میرے ہارٹ اسپیشلسٹ ڈاکٹر Dr Harrisonمیرے روم میں آئے اور بتایا کہ میری تمام رپورٹس نارمل ہیں ۔ حیدر قریشی صاحب صبر سے سنتے رہے ، جیسے ہی میرا جملہ مکمل ہوا تو بو لے:
’ ’ ایک بہت افسوسناک خبر ہے ۔‘‘
میں ایک دم خاموش ہو گئی ۔ میرا دل زور زور سے د ھڑکنے لگا ، میں سوچ رہی تھی نجانے کیا خبر ہو گی؟ پھر بو لے ’’ مبارکہ بیگم کاآج صبح انتقال ہو گیا ۔ ‘‘
یہ خبر با لکل غیر متوقع تھی ، میں سْن ہو گئی تھی ، ایسا لگ رہا تھا میرا تمام وجود ، میرے اعصاب سب جم گئے ہوں ۔ بڑی مشکل سے میں نے اپنے آپ کو سنبھا لا اور انا لللہ و انا الیہ راجعون کہا اور حیدر قریشی صاحب سے پو چھا یہ سب کیسے ہوا۔؟انہوں نے بتا یا:
’’ صبح سواچاربجے مبارکہ نماز کے لئے اٹھیں ، بائیں بازو پر ڈایلے سز کے لئے جو شنٹ (Shunt) لگا ہوا تھا اس کا پلاسٹر ہٹا کر خارش کرنا چاہی (وہ اکثر ایسا کرتی تھیں ) لیکن اس دن وہ ٹیوب باہر سرک آئی، خون کا فوارہ بہہ نکلا اور خون کسی صورت نہیں رکا۔‘‘
اس سے آگے مجھ سے کچھ سنا نہیں گیا اور میں نے ریسیور عبداللہ جا وید کی طرف بڑھا دیا ۔
حیدر قریشی صاحب سے ہمارے تعلقات کافی عرصے سے ہیں عبداللہ جاوید اور میری اکثر ان سے بات ہوتی رہتی ہے ۔مبارکہ بھابی سے بھی کبھی کبھی میری بات ہو جا تی تھی ۔کبھی کسی تقریب کے موقع پر یا پھر ان کی طبیعت خراب ہو تو خیریت وغیرہ کے لئے میں فون کر لیتی تھی ۔
خوشی کی بات ہو تو بھابی بہت خوشی کا اظہار کر تی تھیں، اور متعلقہ تقریب کا بھی تھوڑا بہت ذکر کرتی تھیں ۔ طبیعت کی خرابی کے موقعے پر جب بھی فون کرکے ان کی خیریت پوچھتی توان کا پہلا جملہ یہ ہو تا ۔ ’’ اللہ کا شکر ہے میں ٹھیک ہوں ۔‘‘ بعد میں بھی نہ کو ئی شکایتی لہجہ نہ کوئی شکایتی الفاظ، ہنس کر کہتیں ’’ گزر رہی ہے اللہ کے کرم سے ۔ ‘‘
میں نے ان کی تصویر پہلی مرتبہ ان کے پوتے کے عقیقے پر دیکھی تھی ۔ حیدر قریشی صاحب نے انٹر نیٹ پر لگا ئی تھی ۔ میں نے ان کی آنکھوں میں پیار اور محبت کے دیئے جلتے دیکھے اور چہرے پر نرمی ۔ اور یہی نرمی اور محبت میں نے ان کی آ واز میں بھی پا ئی ۔
حیدر قریشی صاحب نے بتا یا کہ انہوں نے ایک دن اپنے بچوں سے کہا
’’ تم سب علیٰحدہ علیٰحدہ سو چو کہ کیا تمہاری ماں کاکبھی کسی سے جھگڑا ہوا تھا ۔ ‘‘
بچوں نے بڑے غور و فکر اور سوچ کے بعد کہا ’’ ہمیں یاد نہیں کہ امی کا کبھی کسی سے جھگڑا ہوا ہو۔ بلکہ اگر کبھی کوئی جھگڑنا بھی چاہتا تو امی در گزر کر دیتیں ۔ ‘‘
مجھے بچوں کی یہ بات ماننے میںکوئی تامل نہیں ہوا۔مبارکہ بھابی تو لڑنے والی لگتی ہی نہیں تھیں۔وہ رشتوں کی اہمیت کو سمجھتی تھیں اور انہیں جوڑ کر رکھنا جانتی تھیں۔
بچوں کے ساتھ بھابی کی محبت، شفقت اور گہرے روابط کا یہ عالم کہ بچوں نے ان کی زندگی ہی میں ’’ ہماری امی مبارکہ حیدر ‘‘ کے نام سے ایک کتاب مرتب کر ڈالی ۔’ ’ ہماری امی مبارکہ حیدر ‘‘ کی اشاعت سے یہ بات بھی کھل کر سامنے آ گئی کہ مبارکہ بھابی اور ان کے بچوں کے درمیان ’جنریشن گیپ ‘ کا نام و نشان نہیں تھا ۔ ’’ ہماری امی مبارکہ حیدر ‘‘ کی اشا عت کے بعد میں نے بھابی کو مبارکباد دینے کے لئے فون کیا ۔ وہ بہت خوش تھیں ۔ یقینا ان کو اپنی تر بیت پر فخر محسوس ہو رہا ہو گا ۔
حیدر قریشی صاحب بھابی سے بہت محبت کرتے تھے ۔ ۱۹۹۶ء میں جب مبارکہ بھابی Rheumatism کی بیماری میںمبتلا ہو ئی تھیں توانہوں نے بیماری کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے ایک غزل میں یہ شعر کہا تھا ؎
دیکھو مجھے اس حال میں مت چھوڑ کے جا نا
دل پر ابھی میں نے کو ئی پتھر نہیں رکھا
زندگی کے سفر کے اونچے نیچے راستوں میں مبارکہ بھابی، حیدر قریشی کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلتی رہیں یہاں تک کہ ان کی ادبی زندگی کے معاملات میںبھی ساتھ دینے سے گریز نہیں کیا ۔ ’’ جدید ادب ‘‘ جب مالی مشکلات میں مبتلا ہوا تو وہ ان کا ساتھ دینے کے لئے کھڑی ہو گئیں اور کچھ نہیں تو اپنا کوئی زیور ہی آگے کر دیا۔
۲۶ جنوری ۲۰۰۹ ء کا ذکر ہے جب حیدر قریشی صاحب نے خواب دیکھا تھا جس میں ان کی تاریخ وفات ۳ دسمبر بتا ئی گئی تھی (سن نہیں بتا یا تھا ) انہوں نے یہ خواب اپنی ڈائری میں لکھ کر اپنے چھوٹے بیٹے طارق کو پڑھایا اور ساتھ ہی کچھ ہدایات بھی دی تھیں۔
اس سے وعدہ لیا تھا کہ وہ اس کا ذکرکسی سے نہیں کرے گا، اور اپنی امی سے تو بالکل نہیں کرے گا۔ طارق نے دو چار دن بر داشت کیا پھر مبارکہ بھابی کو بتا دیا۔ یہ سن کر وہ بیمار پڑ گئیں اور بیماری اس حد تک گئی کہ وہ گھر سے ہسپتال پہنچائی گئیں ، اور ڈاکٹرز نے ان کی حالت کو اس حد تک نازک بتایا کہ بچ جانے کا صرف ایک فی صد چانس ہے۔لیکن پھر اسی ایک فی صد چانس کو اللہ تعالیٰ نے سوفیصد بنا دیا۔وہ صحت یاب ہو گئیں۔
بھابی حیدر قریشی کو کس قدر عزیزرکھتی تھیںاس کا ایک اور ثبوت اس طرح سامنے آیا جب ان کے چھوٹے بیٹے طارق نے کہا:
’’ ماں اس جمعہ کو آپ میرے لئے خاص دعا کریں ۔‘‘ بھابی نے کہا کسی دوسرے سے دعا کرانے سے پہلے خود دعا کرنا چاہئے۔ اس لئے خود دعا کرو ۔ دعا تو میں کرتی رہتی ہوں تم سب کے لئے ، مزید بھی دعاکر لوں گی ۔لیکن جمعہ کی یہ خاص دعا کسی کے لئے نہیں کر سکتی کیونکہ جب سے میں نے یہ خاس دعا شروع کی ہے صرف اور صرف آپ کے ابو کے لئے کرتی ہوں ۔ ‘‘
لوگ چلے جاتے ہیں یادیں باقی رہ جا تی ہیں ۔ مبارکہ بھا بی بھی سب کو چھوڑ کر چلی گئیں ۔ انا لللہ وانا الیہ راجعون۔
اللہ تعا لیٰ ان کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے ۔ آمین
مبارکہ بھابی سے میرا تعلق اگر چہ کوئی زیادہ نہ تھا لیکن نجانے کیوں ایسا لگتا ہے جیسے کوئی اپنا، بہت ہی اپنا ،مجھ سے جدا ہو گیا ہو ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔