صبح 9 بجے کا وقت تھا جب تیمور خان شہر سے واپس لوٹ کر حویلی کی طرف آ رہا تھا، دو دن پہلے وہ ضیغم جتوئی کے فلیٹ میں گیا تھا روشانے کو اچھی طرح باور کروانے کہ وہ روشانے کی زندگی سے کبھی نہیں نکلنے والا نہ ہی روشانے اسے بھولنے کی غلط کرے۔۔۔ اندھیرے میں بھی وہ روشانے کی آنکھوں میں خوف محسوس کر سکتا تھا جو اُسے تسکین بخش رہا تھا وہ ساری زندگی روشانے کو یونہی ڈرا ہوا سہما ہوا دیکھنا چاہتا تھا۔۔
بےشک اب وہ تیمور خان کی نہیں رہی تھی، نہ اُسے حاصل کرنا تیمور خان کا مقصد تھا مگر وہ اُس حویلی میں ضیغم جتوئی کی بیوی کی حیثیت سے رہے تیمور خان ایسا بھی نہیں چاہتا تھا۔۔ نہ ہی وہ اپنے دشمن ضیغم جتوئی کو خوش اور آباد دیکھ سکتا تھا اس نے سوچ رکھا تھا کہ روشانے کو واپس اپنی حویلی لے کر آئے گا جہاں وہ پلی بڑھی ہے، روشانے کو واپس حویلی لا نا ہی اُس کا مقصد تھا
تیمور خان ڈرائیونگ کرتا ہوا یہی باتیں سوچ رہا تھا۔۔۔ وہ اپنے علاقے کی حدود میں داخل ہو چکا تھا تھوڑے فاصلے پر ہی ژالے کی خالہ کا گھر موجود تھا اب تیمور خان کا دھیان روشانے سے ژالے کی طرف چلا گیا تھا
کئی دنوں سے وہ ژالے کی آنکھوں میں اپنے لیے نفرت اور غصہ دیکھ رہا تھا جو اب اُسے بری طرح چُبھ رہا تھا۔۔۔ جیسے وہ روشانے کی آنکھوں میں اپنے نام پر خوف دیکھنا پسند کرتا تھا۔۔ ویسے ہی وہ ژالے کی آنکھوں میں اپنے لیے محبت دیکھنا پسند کرتا تھا جو کہ شروع سے دیکھتا آ رہا تھا اور وہ اسی کا عادی تھا
ژالے سے نکاح کرکے وہ اگر بہت زیادہ خوش نہیں تو، اسے کچھ خاص برا بھی نہیں لگ رہا تھا،، کیونکہ ژالے ایک اچھی لڑکی تھی بس روشانے کی طرح اُس سے ڈرتی نہیں تھی مگر وہ رخصتی کے بعد ژالے کو سیدھا کر لے گا تیمور خان سوچتا ہوا ڈرائیونگ کر رہا تھا تب اس کی نظر سامنے سے آتی ہوئی گاڑی پر پڑی جو اُسی کا ڈرائیور ڈرائیو کر رہا تھا۔۔۔ پیچھے بڑی سی چادر سر پر اوڑھے ژالے موجود تھی تیمور خان نے اپنی گاڑی کو ژالے کی گاڑی کے آگے روک دیا جس کی وجہ سے ڈرائیور کو بھی گاڑی روکنا پڑی ڈرائیور کے گاڑی روکنے پر تیمور خان اپنی گاڑی کا دروازہ کھول کر تیزی سے نکلا
“یہ کیا حرکت ہے خان، ہاتھ چھوڑو میرا”
تیمور خان ژالے کی طرف کا دروازہ کھول کر ژالے کی کلائی کو پکڑتا ہوا اسے گاڑی سے باہر نکال چکا تھا جس پر ژالے اپنی کلائی چھڑواتی ہوئی تیمور خان سے بولی
“یہ گاڑی واپس حویلی کر جاؤ”
تیمور خان ڈرائیور کو حکم دیتا ہوا ژالے کی کوئی بھی بات سنے بغیر اُسے اپنی گاڑی میں بٹھا چکا تھا
“کس نے مشورہ دیا ہے تمہیں کہ ہر روز صبح صبح اپنی خالہ کے گھر جا کر حاضری لگاؤ”
وہ ژالے کے غُصے کی پرواہ کیے بغیر گاڑی اسٹارٹ کرتا ہوا ژالے سے بولا
“اس بات سے تمہیں کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے خان”
ژالے تیمور خان کی بات سن کر کافی بدتمیزی سے بولی جس پر تیمور خان اسے آنکھیں دکھانے لگا
“مجھے غرض ہے تبھی بول رہا ہوں اور یہ زبان کیسے چلا رہی ہوں تم مجھ سے، قابو میں کرو اسے ورنہ دو منٹ لگیں گدی سے کھینچنے میں”
تیمور خان ڈرائیونگ کرنے کے ساتھ ساتھ غصے میں اُس کی طبیعت صاف کرتا ہوا بولا
“کیا غرض ہے تمہیں مجھ سے ذرا مجھے بھی تو معلوم ہو، تم مجھے میری خالہ کے گھر جانے پر نہ مجھ پر اعتراض کر سکتے ہو، نہ مجھ پر پابندی لگا سکتے ہو، بھلے میری زبان کو گدی سے کھینچ ڈالو مگر مجھے کبھی بھی اپنی تابع نہیں کر سکتے تم”
ژالے اس کے غُصّے کی پرواہ کیے بغیر دو بدو جواب دیتی ہوئی بولی جس پر تیمور خان نے بریک لگا کر گاڑی کو روکا تیمور خان کے غصے کی پروا کیے بغیر وہ اسے بے خوفی سے دیکھنے لگی
“اس گاڑی کے اندر بتا دو کہ تم سے کیا غرض ہے مجھے، اب تو نکاح بھی ہو چکا ہے تمہارے ساتھ میرا، غرض اور مفاد جب چاہے نکال سکتا ہوں بلکہ تم پر اعتراضات بھی اٹھا سکتا ہوں اور پابندی لگا سکتا ہوں۔۔۔ ویسے روز روز اپنی خالہ کے گھر کس لئے جاتی ہو اُس خرم کا دل بہلانے،، اسے گدھے کو بولو اپنی بیوی کو جاکر میکے سے لے آئے اور اُسی سے اپنا دل بہلائے”
ژالے کی آنکھوں میں اُس کے لیے نہ عزت تھی نہ محبت۔۔ اس لئے تیمور خان اپنے لفظوں کے تیر و نشتر چلاتا ہوا اُسے زخمی کرنے لگا
“مجھے تمہاری گھٹیا باتوں پر رتی برابر بھی افسوس نہیں ہے خان کیونکہ اب مجھے اچھی طرح اندازہ ہو چکا ہے تم کچھ بھی کر سکتے ہو کچھ بھی بول سکتے ہو۔۔۔ مگر میری ایک بات یاد رکھنا میں ژالے ہو،، روشانے نہیں۔۔۔ تم یہ آقا اور غلام والا کھیل میرے ساتھ مت کھیلنا اور ایک بات اور بھی اپنے دماغ میں بٹھالو ہم دونوں کا صرف نکاح ہوا ہے رخصتی نہیں،، اس لیے اپنے تمام تر غرض اور اپنی مفادات اپنے تک محدود رکھو”
اس نے روشانے کے ساتھ بھی یہی کیا تھا،، شمروز جتوئی کے گھر سے لاکر روشانے کی کردار پر سوال اٹھایا تھا۔۔۔ اب وہ خرم کو لے کر اُس کے کردار پر بات کر رہا تھا۔۔۔ اسی لئے ژالے نے اس کو منہ توڑ جواب دیا۔۔۔ روشانے کے نام پر وہ بری طرح تلملا گیا تھا اس لیے ژالے کی کالائی کو سختی سے پکڑتا ہوا بولا
“صرف نکاح ہوا ہے، رخصتی نہیں۔۔۔ رخصتی میں کتنی دیر لگتی ہے،، یہاں سے سیدھا حویلی پہنچ کر تمہارا ہاتھ پکڑتا ہوا،، اگر اپنے کمرے میں لے کر چلا جاؤ تو پھر کون روکے گا مجھے، تم یا پھر گھر والے۔۔۔ اگلی بار اگر تم مجھے اِس گھر کے قریب دکھی ناں تو ایسا ہی کروں گا میں، اُس رات میرا جانوروں والا روپ تمہیں ذرا پسند نہیں آیا ہوگا اس لئے اب تمہیں بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے۔۔۔ اچھی بیویوں کی طرح برتاؤ کرو یہی آگے جا کر تمہارے حق میں بہتر ہوگا”
وہ تیمور خان کو گھور رہی تھی تب تیمور خان آخری بات بولتا ہوا ژالے کا گال چھونے لگا۔۔۔ جس پر ژالے نے غُصے میں اُس کا ہاتھ دور جھٹکا۔۔۔ ہاتھ جھٹکنے کی دیر تھی تیمور خان چادر سمیت ژالے کے بالوں کو اپنے ہاتھ کی مٹھی میں بھر چکا تھا
“یہ آنکھیں نیچے کرو اپنی،، ورنہ ابھی یہی گاڑی میں تمہارا حشر بگاڑ دوں گا میں”
وہ اپنے بالوں کو آزاد کروائے بغیر، تیمور خان کی دھمکی کی پرواہ بنا ابھی بھی بےخوفی سے اُسے دیکھ رہی تھی
“یعنی کہ خان کا حکم نہیں ماننا ہے تمہیں”
تیمور خان ژالے کے بالوں پر مزید گرفت سخت کرتا ہوا اس کا چہرہ اپنے چہرے کے قریب لاکر ژالے سے پوچھنے لگا۔۔۔
مگر وہ ابھی بھی اپنی نظریں نیچے کیے بنا ڈھیٹ بنی تیمور خان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اُسی کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ وہ اپنے سامنے ژالے کی نظریں جھکانا چاہتا تھا تبھی اس کے ہونٹوں پر جُھکنے لگا۔۔ جس پر ژالے نے اُسے پوری طاقت سے پیچھے دھکا دیا اور خود گاڑی کے شیشے سے جا لگی
اُسی وقت گاڑی کی فرنٹ شیشے پر فائر آکر لگا جس سے گاڑی کا شیشہ چکنا چور ہوا۔۔۔ ژالے کے منہ سے زور دار چیخ نکلی مگر تیمور خان کی نظر سامنے درخت پر تھی جس پر سے کوئی نیچے کودا اور بھاگنے لگا۔۔۔
تیمور خان ہاتھ میں ہتھیار لے کر برق رفتاری سے گاڑی سے باہر نکلا اور بھاگتے ہوئے اس آدمی کے پیچھے لپکا جو کہ چادر میں لپٹا ہوا تھا۔۔۔ تیمور خان نے بڑی سی گالی دیتے ہوئے اس آدمی پر فائر کھولا، جس نے اس کی گاڑی کو نشانہ بنایا تھا۔۔۔۔ وہ فائر اُس آدمی کی ٹانگ پر لگا اور وہ نیچے گر گیا
“خان”
اِس سے پہلے تیمور خان اُس آدمی تک پہنچتا ژالے کی آواز جس میں تکلیف کا عنصر شامل تھا،، تیمور خان پلٹنے پر مجبور ہوا
ژالے کا خیال آتے ہی وہ اُس آدمی کو چھوڑ کر اپنی گاڑی کی طرف بھاگا
“ژالے یہاں دیکھو میری طرف”
ژالے کی پیشانی پر خون دیکھ کر وہ بدحواس ہو چکا تھا وہ اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھے بری طرح رو رہی تھی اس کی پیشانی سے نکلتا ہوا خون اس کے چہرے کو سرخ کر چکا تھا۔۔۔ اُس کا خون سے تر چہرا تیمور خان کو اندر تک ڈرا چکا تھا
“ژالے یہاں دیکھو میری طرف،، بالکل مت پریشان ہونا ہم ڈاکٹر کے پاس جارہے ہیں، تم آنکھیں مت بند کرنا پلیز”
شیشے کا ایک بڑا ٹکڑا ٹوٹ کر ژالے اس کے ماتھے پر لگا تھا۔۔۔ جو اسے بری طرح زخمی کر گیا تھا۔۔۔ ڈرائیونگ کرتے ہوئے تیمور خان بار بار ژالے کو دیکھ رہا تھا جہاں ژالے اپنی آنکھیں بند کرنے لگتی۔۔ تیمور خان اس کا ہاتھ زور ہلاتا ہوا یا اُسے آواز دے کر واپس ہوش کی دنیا میں لے آتا
ڈاکٹر کے پاس پہنچنے سے لے کر ٹانکے لگانے تک ژالے وقفے وقفے سے روتی رہی تھی اس سارے عرصے تیمور خان نے اُس کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے رکھا تھا۔۔۔ تاکہ ژالے کو احساس رہے کہ وہ اُس کے پاس موجود ہے۔۔۔ ژالے کو تکلیف میں دیکھ کر وہ خود بھی بے چین ہوگیا تھا۔۔۔ وہ اتنا خود غرض ہرگز نہیں تھا کہ اُسے کسی خاص غرض کے لیے بے چینی ہوتی۔۔۔ وہ اب اس کی بیوی تھی اُس سے رشتہ جڑ چکا تھا۔۔۔ اُس لیے اُس کا پریشان ہونا بنتا تھا۔۔
تیمور خان ڈاکٹر کے پاس سے ژالے کو واپس حویلی لے جاتے ہوئے ڈرائیونگ کے دوران بار بار ژالے کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ وہ نیم غنودگی میں گاڑی کی سیٹ سے ٹیک لگائی ہوئی تھی۔۔۔ اُس کے ماتھے پر زخم دیکھتے ہوئے اب تیمور خان کو غُصہ آنے لگا تھا۔۔۔ یہ زلیل حرکت یقیناً فیروز جتوئی کی تھی جو اُس نے اپنے کسی آدمی سے کروائی تھی۔۔۔ اب وہ فیروز جتوئی کو چھوڑنے والا نہیں تھا اور نہ ہی اس کے بیٹے ضیغم جتوئی کو
****
“کیا سوچ رہی ہو اترو گاڑی سے”
ضیغم روشانے کو دیکھتا ہوا بولا تو وہ پریشان نظروں سے اسے دیکھنے لگی
آج وہ پورے ایک ماہ بعد اس حویلی میں قدم رکھ رہی تھی کل رات کال پر کشمالا کی طبیعت خرابی کا سن کر ضیغم کا دوپہر تک یہاں آنے کا پروگرام بن گیا تھا وہ روشانے کو اکیلا چھوڑ کر نہیں آ سکتا اِس لئے اپنے ساتھ لا آیا
“سائیں مامی مجھے دیکھ کر بہت خفا ہوگیں ان کی طبیعت پہلے ہی ٹھیک نہیں ہے”
روشانے افسوس کرتی ہوئی ضیغم کو کہنے لگی وہ سارے راستے یونہی خاموش سفر کرتی ہوئی آئی تھی
“معلوم ہے، تمہیں دیکھ کر ماں کا بخار دُگنا ہو جائے گا لیکن تمہیں چھوڑ کر بھی تو نہیں آسکتا تھا ورنہ تمہیں دیکھے بنا مجھے بخار چڑھ جانا تھا”
ضیغم شرارتی انداز میں روشانے کو دیکھ کر بولا تو وہ خفا ہو کر ضیغم کو دیکھنے لگی۔۔۔ ضیغم نے مسکرا کر اس کا ہاتھ تھاما
“یار ساس بہو کا رشتہ تو ایسا ہی ہوتا ہے، اتنا مت سوچو،، ہفتے بھر کی تو بات ہے پھر میں ہوں تو تمہارے ساتھ”
ضیغم اُس کا ہاتھ تھامے اُسے حوصلہ دینے والے انداز میں بولا تو روشانے اثبات میں سر ہلا کر گاڑی سے باہر نکلی۔۔۔ سچ تو یہ ہے کہ اُسے کشمالا سے بہت ڈر لگتا تھا کشمالا اُسے دادی حضور کی طرح سخت گیر خاتون لگتی
“یوں اچانک چلے آئے ہو تم بیوی کو لے کر، آنے سے پہلے اطلاع تو دینی چاہیے تھی میں ڈرائیور کو بھیج دیتا۔۔۔ یوں اکیلے آنا خطرناک ہے”
حویلی کے داخلی راستے سے اندر آتے ہی فیروز جتوئی روشانے کو سلام کا جواب دیتا ہوا ضیغم سے بغلگیر ہو کر بولا
ہفتے بھر پہلے ہی اس نے تیمور خان پر جان لیوا حملہ کروایا تھا مگر اس کی قسمت اچھی تھی کہ وہ بچ گیا۔۔۔ لیکن کل ہی اُسے اپنے آدمی کی لاش نالے سے ملی جس سے اُس نے تیمور خان پر حملہ کروایا تھا
“آپ ہی نے تو کہا تھا کہ تمہاری ماں یاد کر رہی ہے تمہیں کافی دنوں سے، تو آج دوپہر ہی میں پروگرام بن گیا۔۔۔ ویسے اب خطرے والی کیا بات ہے،، سب ٹھیک ہے ناں”
ضیغم فیروز جتوئی کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا فیروز جتوئی نے ایک نظر روشانے کو دیکھا پھر ضیغم کو دیکھ کر بولا
“ہاں ہاں سب ٹھیک ہے،، بعد میں بات کرتے ہیں،، بابا سائیں اس وقت آرام کر رہے ہیں،، جاؤ جاکر اپنی ماں سے مل لو خوش ہو جائے گی وہ تمہیں دیکھ کر”
فیروز جتوئی ضیغم کو بولتا ہوا حویلی سے باہر نکل گیا
“آؤ”
ضیغم اپنے ہاتھ میں تھاما ہوا بیگ ملازم کو پکڑا کر، روشانے کو دیکھتا ہوا بولا
روشانے اپنی چادر کو مزید اچھی طرح سر پر جماتی ہوئی ضیغم کے پیچھے کشمالا کے کمرے میں جانے لگی۔۔۔ اپنے فلیٹ میں تو وہ صرف دوپٹہ ہی لیتی تھی چادر کا استعمال وہ کالج جاتے وقت کرتی تھی لیکن اُسے یہاں جب تک رہنا تھا اُس بات کا خیال رکھنا تھا کہ دوپٹہ اُس کے سر پر ٹکا رہے۔۔۔ یہ سب باتیں اسے ضیغم نے نہیں بتائی تھی اُسے خود معلوم تھی
ضیغم روشانے کو کشمالا کے کمرے میں سلام کروانے کے غرض سے لے کر جا رہا تاکہ کسی بات کو موضوع بنا کر کوئی مسئلہ نہ اٹھے
“آ گیا تو،، مجھے لگا اپنی ماں کی موت کی خبر سن کر ہی آئے گا اب کی بار تو”
کشمالا بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی، اپنے کمرے میں ضیغم کو آتا دیکھ کر خوشی کے مارے اٹھ بیٹھی ضیغم نے اسے سلام کر کے گلے لگایا تو کشمالا کی نظریں دروازے پر کھڑی روشانے پر پڑی روشانے نے جلدی سے اُسے سلام کیا، اُس کے سلام کو نظرانداز کرتی ہوئی وہ ضیغم سے شکوہ کرنے لگی
“ماں بہت غلط بات کر رہی ہیں آپ،، اپنے لئے اپنی زبان سے ایسے الفاظ مت استعمال کیا کریں مجھے تکلیف ہوتی ہے اور اب خوش ہو جائیں آپ، میں تین چار دن کے لیے نہیں پورے ہفتے بھر کے لئے آیا ہوں آپ کے پاس”
ضیغم کشمالا کو بہلاتا ہوا بولا
“اب دو ہفتوں سے پہلے تھوڑی نہ جانے دوں گی تجھے، اپنی بات منوا کر کی تجھے رخصت کرو گی”
وہ کشمالا کی بات کو خوب جانتا تھا اکثر موبائل پر وہ اس سے پلورشہ کی نند کا ذکر کرتی تھی اور یہ بھی کہ وہ اب دوسری شادی صرف اور صرف اس کی پسند سے کرے گا۔۔۔۔ ضیغم کشمالا کی بات کو نظرانداز کرتا ہوا دروازے پر کھڑی روشانے کو دیکھنے لگا
“وہاں کیوں کھڑی ہو ادھر آؤ ناں ماں سے نہیں ملی تم”
ضیغم روشانے کو دیکھتا ہوا بولا تو روشانے کمرے کے اندر آئی اور کشمالا کو دوبارہ سلام کرنے لگی
“اس کو ساتھ لانا ضروری تھا کیا”
نحوست سے اس کے سلام کا جواب دیتی ہوئی کشمالا ضیغم کو دیکھ کر پوچھنے لگی
“اب اِس کے بغیر آپ کے بیٹے کا گزارا جو نہیں ہے”
ضیغم نے سنجیدگی سے کشمالا کو جواب دیا روشانے ایک نظر کشمالا کو دیکھ کر گھبرا کر جلدی سے سُر جھکا لیا
“بے شرم کہیں کا اپنی ماں کے سامنے اس طرح بات کرتے ہیں”
کشمالا ضیغم کے گال پر چپت رسید کرتی ہوئی بولی مگر اندر ہی اندر اسے اپنے بیٹے کی پسند پر آگ لگ گئی تھی
“اِس طرح سے اس لیے بات کر رہا ہوں تاکہ آپ بھی جان لیں، آپ کے بیٹے کی زندگی میں اِس کی اہمیت”
ضیغم نرم لہجے میں کشمالا کو جتاتا ہوا بولا جس پر کشمالا منہ بنا کر خاموش ہو گئی
“کھڑی کیو ہو،، کیا بیٹھنے کے لئے کہنا پڑے گا تمہیں”
ضیغم روشانے کو دوبارہ مخاطب کرتا ہوا بولا تو وہ صوفے پر بیٹھنے لگی
“کوئی ضرورت نہیں ہے یہاں بیٹھنے کی، یہاں سے سیدھا باورچی خانے میں جا اور رات کے کھانے کی تیاری کر”
روشانے جو کہ صوفے پر بیٹھنے لگی تھی کشمالا کی کرخت آواز سن کر دوبارہ کھڑی ہوگئی
“ماں وہ سیدھا کالج سے ہوتی ہوئی یہاں چار گھنٹے کا سفر کرکے پہنچی ہے”
ضیغم نے کشمالا کو دیکھتے ہوئے بتایا کیونکہ وہ صبح آفس سے ضروری کام نمٹانے کے بعد روشانے کو موبائل پر کال کرکے اپنا پروگرام اسے بتا چکا تھا
روشانے نے گھر آکر یونیفارم چینج کیا تھا اور حویلی آنے کے لیے بیگ تیار کیا تھا۔۔۔ دوپہر کا کھانا بھی انہوں نے راستے میں کھایا تھا
“تُو زیادہ میرے سامنے اِس کی وکالت مت کیا کر ضیغم، وہ اپنے سسرال آئی ہے برات میں نہیں اور کھانا بنا کر اس کی ہڈیاں نہیں گِھس جائے گیں”
کشمالا اب غُصے میں ضیغم کو دیکھتی ہوئی بولی
اسے یوں بات بات پر بیوی کی وکالت کرتا دیکھ کر کشمالا کو غصہ آئے جا رہا تھا
“میں بنا لیتی ہوں کھانا کوئی مسئلہ نہیں ہے”
روشانے آہستہ آواز میں بولی۔۔۔ ضیغم نے افسوس بھری نظر کشمالا پر ڈالی
“مسلہ ہونا بھی نہیں چاہیے تجھے، تین چار طرح کے کھانے بنا لینا اور ساتھ میں میٹھا بھی، بابا سائیں کا پرہیزی کھانا بنے گا الگ سے۔۔۔ شانو سے صرف مدد لینا ہے سارا کام خود ہی کرنا تاکہ تیرے دادا سُسر اور سُسر کو تیرے آنے کی خوشی ہو کہ اُن کی بہو آئی ہے”
کشمالا کڑے تیوروں کے ساتھ روشانے کو ہدایت دیتی ہوئی بولی جس پر روشانے جی کہہ کر کمرے سے نکل گئی
اب اسے چادر اتار کر منہ ہاتھ دھو کر سیدھا کچن کا رخ کرنا تھا شاید اُس کی ساس اُس سے اِسی طرح خوش ہو جاتی
“میں تھوڑی دیر آرام کروں گا آپ بھی ریسٹ کریں اب”
ضیغم کشمالا کے رویے پر اچھا خاصہ بد دل ہوا تھا وہ بیڈ سے اٹھنے لگا تبھی کشمالا نے اس کا ہاتھ پکڑ کر واپس اپنے پاس بٹھا لیا
“آرام ہی کرنا ہے تجھے تو یہی میری نظروں کے سامنے کرلے اس طرح تجھے دیکھ کر میری طبیعت بحال ہوتی رہے گی”
کشمالا اب ضیغم کو دیکھتی ہوئے محبت سے بولی تو وہ وہی بیڈ پر لیٹ گیا
*****
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...