عمرہ اور زیارات کے بعد ہر جگہ کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر لینے کے بعد آخر قاسم علی پاکستان آ گیا۔کچھ دن تو بچوں میں ہنسی خوشی گزارے پھر سوچا ہاتھ پہ ہاتھ رکھنے سے بہتر ہے کچھ کیا جائے کاروبار کیا جائے۔۔ وہ مارکیٹ مارکیٹ گھوم کر چیک کرنے لگا کہ کون سا بزنس کیا جائے۔۔
بیٹا ایک بات کہوں۔۔
شام میں جب قاسم علی گھر آیا تو ناظم علی نے کہا۔
جی ابو جی ضرور کہیں۔۔ لیٹا ہوا قاسم علی باپ کے آنے سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔
بیٹا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اچھے بازار میں 2 دوکانیں دی ہے تم وہاں کام کیوں نہیں کرتے میں بھی تمہارے پاس بیٹھ جایا کروں گا اور چھٹی کو بچے بھی ہاتھ بٹا دیا کریں گے۔ناظم علی نےکہا۔
ابو جی کہہ تو آپ ٹھیک رہے ہے میرا بھی ارادہ یہ ہی ہے مگر سوچ رہا ہوں کہ سامان کون سا رکھیں۔۔
بابا بابا۔ یہ دیکھیں بلال میرا بیٹ بال نہیں دے رہا۔۔ اتنے میں احمد علی کمرے میں بلال کے پیچھے بھاگتے ہوئے آیا اور کہنے لگا۔۔
ناظم علی کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔۔ اور کہنے لگے۔۔۔ یہ لو بیٹا اللہ کے ننے فرشتوں نے اشارہ دے دیا۔۔
کیا مطلب ابو جی میں سمجھا نہیں۔۔ قاسم علی حیرت سے بولا۔
بچے اللّٰهُ کے فرشتے ہوتے ہیں بچے نے ابھی کہا نا بیٹ بال۔۔ تو بیٹا میرا مشورہ ہے کہ کل بازار جاؤ اور دیکھو وہاں کھیلو کے سامان کی کتنی دوکانیں ہیں۔۔
اگر بہت زیادہ ہے تو پھر کچھ اور دیکھیں گے اگر ایک دو ہیں تو پھر بسم اللّٰهُ کرو۔۔
قاسم علی بھی خوش هو گیا اور باپ سے کہا جی ابو جی میں کل ہی پتہ کرتا ہوں
دوسرے دن اس نے سارا بازار گھوم کر دیکھ لیا وہاں ہر طرح کی دوکانیں موجود تھی مگر کھیلو کے سامان کی ایک بھی نہیں۔۔ وہ بہت خوش ہوا۔۔
آگلے دن اس مہم پہ کام شروع کر دیا۔۔
اس سلسلے میں اسے سیالکوٹ جانا پڑا۔۔ اس نے اپنی تمام جمع پونجی دکانوں پہ لگا دی اچھی کوالٹی کے فٹبال بیٹ ہاکی اور کھلاڑیوں کی ٹی شرٹ ٹروزر۔۔ مطلب کھیلوں میں َاستمال کی ہر چیز اس نے اپنی دوکانوں میں رکھی۔۔
قاسم علی نے 50 سے 60 لاکھ کا مال دوکانوں میں ڈالا اور کاروبار شروع کر دیا۔۔ کاؤنٹر پہ اپنے والد کو بیٹھا دیا۔۔ تاکہ وہ صرف پیسوں کا حساب دیکھیں۔۔
قاسم علی کی پہلی کوشش ہوتی اپنے گاہک سے اخلاق سے پیش آئے اور سامان اچھی کوالٹی کا گاہک کو دے تاکہ گاہک کبھی شکایت نہ کرے۔۔
وہ گاہک کو پہلے ہی ہر مال کی کوالٹی بتا دینا۔۔ تاکہ جس کی جتنی پہنچ ہو اس مطابق چیز لے سکے۔۔
اللّٰهُ تبارک تعالیٰ نے اسے دن دگنی رات چوگنی ترقی دی۔۔
دنوں میں اس کی دوکانیں پورے علاقے میں مشہور هو گئی۔۔ کیونکہ یہ دوکانیں کافی بڑی بڑی تھی اس وجہ سے چھوٹی چھوٹی دوکانوں والے خود سیالکوٹ جانے کی بجائے قاسم علی سے مال اٹھانے لگے۔۔
کاروبار ماشاءاللہ بڑھنے لگا۔۔ اور جیسا کہ ہر کاروبار میں لین دین چلتا ہی رہتا ہے مگر قاسم علی کی کوشش ہوتی وہ جو ادھار لے اسے فورن سے پہلے واپس کرے۔۔
مگر پھر بھی بھول چوک هو ہی جاتی ہے۔۔ کاروبار میں بندہ لاکھوں ہزاروں کا قرضہ تو یاد رکھتا ہے مگر بعض اوقات 5 10 20 50 100 بھول جاتے ہیں۔۔ اور شاید ان کی نظر میں ان کی کوئی اہمیت بھی نہیں ہوتی۔۔ مگر ادھار ایک روپے کا هو یا ایک لاکھ کا ھوتا ادھار ہی ہے۔۔۔
________________________________——–
قاسم علی کی زندگی کی گاڑی پاکستان میں بھی بہت شاندار طریقے سے چلنے لگی۔۔
کاروبار چمک گیا بچے اچھے سکولوں میں پڑھنے لگے۔۔
ماں باپ اس سے خوش۔ بیوی کی محبت اس پہ نثار۔
ساری بہنیں بھائی پہ صدقے واری۔۔ سوائے ایک کے اور یہ کسک اکثر اس کے دل کو زخمی کر دیتی۔۔
فرواہ صرف اس کی بہن نہیں دوست تھی ایک وہی تھی جس نے اس کے دل کی بات سمجھ کر منال کو اس کی زندگی بنایا تھا۔۔
اور وہ تھا کہ اپنی بہن کے دل کی بات نہ سمجھ پایا۔۔
شادی کی دوسری رات منال نے اس سے پوچھا تھا۔۔
قاسم ایک بات پوچھوں اگر برا نہ مانیں تو۔۔
ہاں پوچھو۔
فرواہ اپنی شادی سے خوش تو تھی نا۔۔
ہاں خوش تھی خوش کیوں نہیں هو گی نعمان اس کے بچپن کا منگیتر تھا۔۔ اگر ایسی ویسی بات ہوتی تو وہ ہمیں بتاتی۔
قاسم لڑکیاں کبھی بھی اپنے منہ سے اظہار نہیں کرتی۔ ماں باپ کی عزت کی خاطر قربان هو جاتی ہیں۔۔ منال نے کہا۔۔
ہاں یہ بات تو میں بھی سمجھتا ہوں۔
تو پھر کبھی فرواہ نے باتوں باتوں میں کچھ سمجھانے کی کوشش کی هو منال نے پوچھا۔۔
قاسم علی دماغ پہ زور دینے لگا۔۔ تو اسے سمجھ آیا کہ فرواہ تو ہر بار باتوں باتوں میں نعمان کو لوفر لفنگا اور پتہ نہیں کیا کیا بولتی تھی۔۔ اور ہمیشہ اس کے نام پہ چڑ جاتی تھی۔
یار وہ تو میں اسے تنگ کرتا تھا تبھی چڑتی تھی اور کچھ نہیں۔۔ قاسم علی نے منال سے زیادہ خود کو تسلی دی۔
اور اگلے دن ناشتہ لے کر جانے پہ فرواہ کی طبیعت گال پہ پڑے تھپڑ نے ساری بات کھول کر سامنے رکھ دی۔۔
پھر اس کے بعد فرواہ کا اس سے دور ہونا اسے مزید بے چین کر گیا تھا۔۔
فرواہ کبھی اسے خود سے فون نہیں کرتی وہ کرتا تو حال چال پوچھ کر کہتی منال سے بات کروا دیں۔۔
اگر وہ کہتا بھی کہ لاڈو مجھ سے بات نہیں کرو گی تو کہتی آپ سے کیا بات کروں۔حال چال پوچھ لیا نا۔۔ اور اگر یہ کہتا کہ اپنا حال چال بتا دو۔۔ تو کہتی میں بتا دیتی ہوں۔۔
اس کے بعد نہ اسے پتہ چلا کس کو بتاتی ہے نہ اس نے پوچھا۔۔ نہ فرواہ نے کبھی بتایا کہ وہ کس کو بتاتی ہے۔
رفتہ رفتہ کام کی مصروفیت میں بچوں میں پردیس میں ایسا الجھا کے پھر تو مہینوں بعد ہیلو ہائے یا گھر والوں سے خیریت معلوم هو جاتی۔۔
فرواہ کو بھی الله نے اوپر تلے 3 بیٹے اور 2 بیٹیوں سے نواز دیا۔۔ نعمان کا رویہ کبھی نہیں بدلا وہ ویسے ہی بات بات پرہاتھ اٹھاتا طعنے دیتا اور اب تو نشہ کرنا شروع کر دیاتھا۔۔ لیکن اب اسے اس کی پرواہ بھی نہیں رہی تھی وہ اپنے بچوں کے سہارے جینے لگی تھی۔۔
قاسم علی کی دوکانوں سے جو پیسے آتے اس سے اپنے اور بچوں کی ضرورت پوری کرتی۔۔ کبھی کبھی تو وہ بھی نعمان چھین کر لے جاتا اور یہ روتی رہتی۔اس کی زندگی کے وہ 6 ماہ سکون کے ھوتے جب ماں باپ سعودی سے آتے۔ کیونکہ تب ماں۔ ضد کرکے فرواہ کو اپنے گھر لے آتی بچوں سمیت ان 6 ماہ میں سال بھر کے کپڑے جوتے اور ضروری سامان فرواہ اکٹھا کر لیتی۔۔
آہستہ آہستہ نندوں کی شادی ھوئی تو ساس بھی نرم پڑ گئی۔۔ اس کا ایک دیور تھا جس نے محلے سے لڑکی بھگائی تھی اور کہیں چھپ کر شادی کر چکا تھا یعنی وہ کبھی گھر نہیں آ سکتا تھا لڑکی والوں نے علان کیا تھا جیسے دونوں ملے دونوں کو گولی مار دیں گے۔۔
جمیلہ بی بی بیٹے کی یاد میں روتی رہتی۔۔ فرواہ بچوں کے ساتھ ساتھ اسے بھی سمبھالتی جس کی وجہ سے اس کے دل میں محبت جاگ اٹھی تھی۔
اس محبت کا اتنا اثر ہوا تھا کہ نعمان کو مارنے نہیں دیتی تھی اور بیعزت کرکے گھر سے نکال دیتی تھی۔۔۔
اس ساری صورتحال نے فرواہ کو اللّٰهُ کے بہت قریب کر دیا تھا وہ اپنے ہر دکھ ہر تکلیف کی شکایت صرف اللّٰهُ سے کرتی تھی۔۔
ماں باپ کے پاس آکر سکون تو ملتا تھا مگر کبھی اس نے ماں باپ کا سکون خراب کرنے کی کوشش نہیں کی تھی وہ جانتی تھی ماں فورن خالا کے سر پر پہنچ جائے گی اور بات بگڑ جائے گی۔۔
جتنی اسے اس ماحول سے نفرت تھی اس سے کہیں زیادہ اسے اپنے بچوں سے محبت تھی کچھ بھی تھا وہ نہیں چاہتی تھی اس کے بچوں کے سر سے باپ کا سایہ دور هو۔۔ اور اب تو اللّٰهُ تعالٰی بھی اس پہ مہربان ہو گیا تھا بچے بہت نیک اور سمجھ دار تھے جو ہر طرح سے ماں کا خیال رکھتے اور ساتھ دیتے۔۔
_——————————__——–_——–_—
آج نور کا برتھ ڈے ہے آج ماشاء اللہ میری پرنسسز 6 سال کی هو گئی ہے۔۔ میں اس کی پسند کی ہر چیز لے کر جاؤں گا۔۔ اسے چاکلیٹ بہت پسند ہے اس کے لیے گڑیا بھی لینی ہے۔۔ اور 2 3 فراک لے لونگا جو اسے پسند هو گئی پہن لے گی۔۔
حماد اور احمد اور بلال کے لیے بھی کچھ لے لیتا ہوں۔۔۔
لاہور سے تو ہمیشہ ہی لیتے ہیں چلو آج سب کے لیے سیالکوٹ سے شاپنگ کرتا ہوں۔۔
وہ سیالکوٹ اپنی دوکانوں کے لیے سامان لینے آیا تھا ۔۔
آج واپسی پر بچوں کے لیے شاپنگ کا سوچ کر اس نے گاڑی بازار کی طرف موڑ دی۔۔
نور سب کی آنکھوں کا نور تھی اور کل اس کی سالگرہ ہے۔
حاجی محمد قاسم علی سوچ سوچ کر ہی خوش هو رہا تھا۔۔
اس نے سب کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور لیا۔۔
گاڑی کی ڈیگی بھر گئی تھی وہ سامان دیکھ کر ہی ہنسنے لگا۔۔
اب پوری کوشش تھی مغرب سے پہلے پہلے گھر پہنچا جائے۔۔
منہ میں سورت ملک کا ورد کرتے ہوئے گاڑی سیالکوٹ سے لاہور جانے والی سڑک پر بھگانے لگے۔۔
شہر سے نکلتے ہی نور نے فون کیا۔۔ ہیلو بابا آپ کہاں ہے۔
ہیلو میری گڑیا بابا آ رہے ہے۔۔
بابا میرے لیے گڑیا لائے۔۔۔ ہاں میری پرنسسز بابا سب کچھ لا رہے ہے۔۔
بابا میں نے چاکلیٹ بھی کھانی ہے۔۔۔۔ ہاہاہاہا۔ ہاں میرا بچہ میں لے کر آؤں گا۔۔
ٹھیک ہے بابا جلدی آ جائیں۔۔۔ میں بس ابھی آیا اپنی جان کے پاس۔۔ حاجی قاسم نے لاڈ سے کہا۔۔
ابھی مریدکے سے کچھ دور پیچھے ہی تھے کہ ایک سامان سے لدھا ہوا ٹرک آگے سے آتا ہوا دیکھائی دیا۔
ٹرک ڈرائیور ہاتھ کے اشارے سے سائڈ پہ ھونے کا کہہ رہا تھا کیونکہ اس کے ٹرک کی بریک فیل ہو گئی تھی۔۔
مگر حاجی قاسم علی بچوں کو سرپرائز دینے کی خوشی میں اس قدر مگن تھا کہ اسے سمجھ ہی نہیں آیا۔۔ٹرک ڈرائیور کیا کہہ رہا ہے۔
ٹرک ڈرائیور نے ٹرک کو سمبھالنے کی بہت کوشش کی مگر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔۔
ٹرک کی قاسم علی کی گاڑی سے بری طرح ٹکر هو گئی۔۔ ٹکر اتنی زور دار تھی کہ گاڑی کا اگلا حصہ پچھلے حصے میں دھنس گیا۔۔
قاسم علی کا اچانک پڑی افتاد سے سر گھوم گیا وہ ٹیڑھا میڑھا گاڑی میں دھنس گیا۔۔ بہت سے شیشے ٹوٹ کر اس کے جسم کے پار هو چکے تھے ٹرک بھی ایک طرف کو الٹ چکا تھا اور اس کے ڈرائیور کو بھی بہت زیادہ چوٹیں آئی تھی۔(
میں یعنی قاسم علی۔)
مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی میرے ساتھ هو کیا گیا ہے۔۔ دماغ پہ زور دینے کی کوشش کی تو درد کی بے شمار ٹیسوں کے علاوہ کچھ نہیں سوچ سکا۔
پھر مجھے اپنے اردگرد بہت سے لوگوں کا شور سنائی دیا۔۔ پتہ نہیں وہ کیا بول رہے تھے۔ اففففف میرا سر۔۔۔ میری ٹانگیں کہاں ہیں۔۔ میں ہل نہیں پا رہا۔۔۔
یہ کون شور مچا رہا ہے کہہ رہا ہے باڈی کو جلدی نکالو۔ ورنہ گاڑی کو آگ لگ جائے گی۔کس کی باڈی کو نکال رہے ہیں ۔
ارے میرا بازو نہ کھینچو۔۔
بھائی صاحب پہلے گاڑی کی سیٹ نکال لیں پھر آدمی باہر نکل آئے گا۔۔ کوئی میرے پاس اونچی آواز میں بولا۔۔
آہ آہ کچھ ہاتھوں نے مجھے کھینچا اور کہیں سے نکالا ہے۔۔
میری آنکھیں بند هو رہی ہے او میرے خدایا۔۔ میں کسی گہری کھائی میں گرتا جا رہا ہوں۔۔ مجھے پکڑو پلیز کوئی تو مجھے پکڑو۔۔
اے اللہ میرے پروردگار میں گرتا جا رہا ہوں۔ لااله الا الله محمد رسول۔ ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...