“فریحہ اٹھو دس بج گئے ہیں باہر سب ہمارا ویٹ کر رہے ہیں “آزر نے ریحہ کو اٹھاتے ہوے کہا۔
“کیا ہے ماما سونے دیں نا صبح صبح تنگ نہ کریں “اس نے منہ پھلا کر نیند میں کہا۔
اسنے ابھی تک اپنی آنکھیں نہیں کھولی تھیں۔
اسکی بات سن کر آرز کو اسکو بےحد پیار آیا تھا۔
لیکن خود پر کنٹرول کرتے ہوئے اسنے پھر سے جگانے کی کوشش کی۔
“ماما کیوں پریشان کرتی ہیں آپ جب میں نے کہا میں اٹھ۔۔۔”آزر کے دوبارہ جگانے پر وہ تپ کر اٹھکر بولتے ہوئے جیسے ہی اپنی آنکھیں کھولیں تو اسکی بولتی بند ہوگئی تھی اسے یاد آیا وہ اپنے گھر نہیں ہے اب جگہ بدل چکی ہے۔
“وہ۔۔۔آ۔۔آپ۔۔۔”وہ جی بھر کر شرمندہ ہوئی۔
“جی آپ شاید خود کو اپنے گھر میں سمجھ رہی تھیں”آزر نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
“جی یہیں بات ہے”وہ شرمندہ شرمندہ سی بولی۔
آزر کے کل رات کی باتوں سے اسنے اندازہ لگایا آزر ایک اچھا انسان ہے جس نے اپنی خواہش سے زیادہ اپنی بیوی کی خواہش کا خیال رکھا۔
“کوئی بات نہیں یہ آپکا پہلا دن ہے نا آہستہ آہستہ عادت ہوجائیگی آپ جلدی سے فریش ہو جائے ساتھ چلینگے نیچے سب ہمارا انتظار کررہے ہونگے”آزر نے مسکراتے ہوئے کہا۔
“جی ٹھیک ہے”وہ کہتے ہوئے اٹھی اور بیگ سے اپنے کپڑے نکال کر فریش ہونے واشروم کی طرف چلی گئی۔
آزر نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا اور اپنا لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ گیا وہ پہلے ہی تیار ہو چکا تھا ۔
***
حمدانی فیملی کی کچھ لڑکیاں ناشتہ دینے آئیں ہوئیں تھیں۔
“انٹی ریحہ کو بلوادیں ساڑھےدس ہوگئے ہیں ہمیں گھر بھی جانا ہے ولیمے کی تیاریاں بھی کرنی ہے”ندا جو کب سے بیٹھی بور ہوگئی تھی اکتاکر بولی۔
“بیٹا ابھی نشاء گئی ہے بلانے آپ تھوڑا صبر کرلو”شیلا بیگم نے اسے پیار سے کہا۔
باقی لڑکیاں باتوں میں مصروف تھیں۔
“اسلام علیکم”آزر اور ریحہ نے سلام کیا وہ تیار ہوکر آچکے تھے۔
“وعلیکم السلام ہم کب سے آپ دونوں کا ویٹ کررہے تھے ناشتہ دینے آئے تھے سوچا ریحا سے بھی مل کر واپس جائیں”سارہ نے آزر سے کہا۔
“اچھا آپ لوگ بھی ناشتہ کرکے جانا”مہرین نے اپنی بیٹی کو سنبھالتے ہوئے کہا۔
“نہیں نہیں ہم بس ریحا سے ملنا چاہتے تھے”نیہا نے جلدی سے کہا۔
“ایسا نہیں ہوسکتا ناشتہ کرکے ہی جانا پڑیگا ورنہ ہم جانے نہیں دینگے”شیلا بیگم نے دھونس سے کہا۔
“نہیں آنٹی ہمیں دیر ہو جائے گی بچوں کو گھر چھوڑ آئی ہوں “نیہا نے گھبرا کر کہا۔
“ناشتہ کرنے میں کونسا زیادہ ٹائم لگے گا آپ بیٹھ جاؤ میں ناشتہ لگواتی ہوں ہم آپ کو بغیر ناشتہ کئے جانے نہیں دیں گے “شیلا بیگم نے بات ختم کرتے ہوے کہا۔
ان کی بات پر سب خاموش ہوگئیں۔
“اکرم جاؤ ناشتہ لگاؤ “مہرین نے ملازم سے کہا۔
“جی بی بی جی ابھی لگاتا ہوں “وہ کہتے ہوئے کچن کی طرف چلا گیا۔
“فریحہ کیسی طبیعت ہے تمہاری سب کچھ ٹھیک تو ہے نا یہاں پر کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی “نیہا نے آہستہ سے فریحہ کے کان میں پوچھا۔
“نہیں آپی کوئی بھی پریشانی نہیں ہوئی سب ٹھیک ہے “اس نے آہستہ سے جواب دیا۔
“اچھا جیجو نے منہ دکھائیں میں تمہیں کیا گفٹ دیا”سارا نے سرگوشی سے پوچھا۔
” انہوں نے مجھے یہ لاکٹ دیا ہے “فریحہ نے اپنے گلے کی طرف اشارہ کیا۔
“واو بہت پیارا ہے لیکن یہاں A نام کیوں ہے “سارا نے تعریف کرتے ہوئے حیران ہو کر پوچھا۔
“ارے بھدو جیجو نے اپنے نام کا لاکٹ دیا ہے”نیہا نے اس کی عقل پر ماتم کرتے ہوئے کہا۔ اس کی بات پر سب مسکرانے لگیں۔
“اور بتائیں جیجو آپ کی طبیعت کیسی ہے “سارا نے مسکرا کر آزرسے پوچھا۔
“میں الحمداللہ بالکل فٹ فاٹ آپ سنائیں آپ کیسی ہیں کہیں میرا حال پوچھنے میں کوئی وجہ تو نہیں اور لوٹنے کا ارادہ کرکے تو نہیں آئی؟” وہ شک بھری نگاہوں سے دیکھ کر پوچھنے لگا۔
“نہیں کل رسم تھی نہ اس لئے وہ رسم پوری کر رہے تھے آج ناشتہ دینے کی رسم تھی اس لئے ہم یہاں چلے آئے “سارہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
“اچھا چلو شکر ہے میں سمجھا آج بھی لوٹنے کے ارادے سے آئے ہیں آپ “آزر نے شرارت سے کہا اس کی بات پر سب ہنسنے لگیں۔
“ماما دولہن کتنی اچھی ہیں “مہرین کی بڑی بیٹی مہر ماہ نے کہا۔
مہرین کے بچے فریحہ کے ارد گرد بیٹھے اس سے باتیں کر رہے تھے اور ریحا ہلکی آواز میں ان کو جواب دے رہی تھی۔
“ہاں اچھی تو ہے لیکن آپ انہیں دلہن نہیں مامی کہنا “آزر نے مسکرا کر کہا اس کی بات پر فریحہ تھوڑا سا بلش ہوگئی۔
“وہ کیوں ماموں یہ تو کل دلہن بنی تھی تو ہم انھیں دلہن کہیں گے “ایان نے کہا۔
“یہ دلہن تو بنی ہیں لیکن رشتے میں آپ کی مامی لگتی ہیں “مہرین نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
“وہ کیسے “وفا نے معصومیت سے پوچھا۔
“وہ اس طرح کہ آزر آپ کے ماموں ہیں اور یہ آپ کے ماموں کی دلہن ہیں اس لیے مامی کہنا پڑتا ہے جیسے مامو،مامی،چچا،چچی” مہرین نے مسکرا کر سمجھایا اسکی بات پر سب بچے سمجھنے کی کوشش کرنے لگے تھے۔
اتنے میں شیلا بیگم نے ناشتہ کے لئے انھیں بلايا۔
سب ناشتے کے لئے ناشتے کی ٹیبل کی طرف چلےگۓ۔
***
ولیمہ بھی خیریت سے ہو چکا تھا وہ لوگ ا بھی ولیمے سے فارغ ہوکر گھر پہنچے تھے۔
” نیشا فریحہ کو آرام سے بٹھادو “شیلا بیگم اپنا ساڑھی کا پلو درست کرتے ہوئے نیشاسے بولیں۔
“آپ یہاں پر بیٹھیں بھابی میں ذرا اکرم کو جوس کا کہہ کر آتی ہوں”نشا اسے صوفے میں بٹھاتے ہوئے بولی اور کچن کی طرف چلی گئی۔
“ماما مجھے سونا ہے نیند آرہی ہے روم میں چلیں “ایان نے اپنی آنکھیں مسلتے ہوئے مہرین سے کہا۔
“سنیں آپ بچوں کو روم میں لے جائے میں بھی تھوڑی دیر تک آتی ہوں “مہرین اپنے شوہر بہزاد سے کہا۔
“ٹھیک ہے میں بھی آرام کرتا ہوں تم جلدی آ جانا “بہزاد بولتے ہوئے بچوں کو لے کر روم میں چلا گیا۔
“آپ تھک تو نہیں گئی اگر تھک گئیں ہیں تو روم میں چلتے ہیں ہم “آزر نے فریحہ کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے پوچھا۔
“نہیں میں ٹھیک ہوں اگر آپ تھک گئے ہیں تو آپ چلے جاۓ روم میں”فریحا نے آہستہ سے اسے کہا۔
“نہیں میں آپ کے خیال سے کہہ رہا تھا “آزر نے مسکرا کر کہا۔
“تم دونوں کیا کھسر پھسر کر رہے ہو”مہرین نے ان دونوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
“کچھ نہیں ہم تو ویسے ہی آپس میں باتیں کر رہے تھے “آزر نے گڑبڑا کر کہا۔
“یہ لیں جوس پی لیں آپ لوگ “نیشا جوس لے کر آتے ہوئے بولی۔
“شکریہ نیشا اسی کی تمنا ہو رہی تھی”آزر نے جوس لیتے ہوئے نیشہ سے کہا۔
“ویلکم بھائی ” نیشا بھی ٹرے سے جوس لیتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئی۔
“بشیر صاحب آج بہت خوش تھے بار بار اپنی خوشی کا اظہار کر رہے تھے مجھ سے “شہزاد صاحب نے جوس پیتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
“خوش کیوں نہیں ہوں گے آخر اپنی اکلوتی بیٹی کی شادی کر دی ہے تھوڑی پریشانی ختم ہوئی ان کی “شیلا بیگم نے مسکرا کر کہا فریحہ ان کی باتیں سن رہی تھی۔
“ہاں یہ تو ہے اللہ ان کو ہمیشہ خوش رکھے بس اب بیٹا رہ گیا ہے کہہ رہے تھے اس کی بھی جلد شادی کر دیں گے “شہزاد صاحب نے مسکرا کر کہا۔
“ہاں جو انکی بھائی کی بیٹی ہے سارہ اس سے کروائیں گی کہہ رہی تھی فہمیدہ بیگم”شیلہ بیگم نے ان کے معلومات میں اضافہ کیا فریحہ بھی چونک گئی۔
“ماما نے تو کبھی ذکر نہیں کیا اس بارے میں”اس نے دل میں سوچا۔
“اچھا چلو بیگم ہم بھی چلتے ہیں تھک گیا ہوں “شہزاد صاحب جوس کا گلاس ٹیبل پر رکھتے ہوئے اٹھے۔
“جاؤ آزر تم لوگ بھی روم میں جاؤ آرام کرو اور مہرین تم لوگ بھی جاؤ صبح بات کریں گے “شیلا بیگم نے سب کو اپنے روم میں جانے کو کہا اور شہزاد صاحب کے پیچھے چلی گئیں۔
“چلو نیشا جاؤ “مہرین اٹھتے ہوئے بولی اور اپنے روم کی طرف چلی گئی۔
“آئیں ہم بھی چلتے ہیں “آزر نےنیشا کے جانے کے بعد اس کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔
ریحا نے جھجھکتے ہوئے اپنا ہاتھ آزر کے ہاتھ میں رکھا جسے آزرنے مضبوطی سے پکڑ لیا۔
دونوں چلتے ہوئے اپنے روم میں پہنچ گئے فریحہ جھجکتے ہوئے اپنے بیڈ پر بیٹھ گئی۔
“سنیں”اس نے ہلکی آواز میں آزر کو پکارا۔
“جی سنائے “وہ جو اپنی گھڑی اتار رہا تھا اس کے پکارنے پر مڑا۔
“ایک بات پوچھنی تھی آپ سے “فریحہ نے جھجھکتے ہوئے کہا۔
“جی بولیں کیا پوچھنا ہے آپ کو “وہ ہماتن گوش ہوا۔
“م۔۔۔میں۔۔۔نے آ۔۔۔آ۔۔۔آپ کو کل منع کیا ا۔۔۔ا۔۔۔اور ریزن بتایا آپ کو ب۔۔۔ب۔۔۔برا تو نہیں لگا “اسنے اٹک اٹک کر بولتے ہوے پوچھا۔
“نہیں بالکل بھی برا نہیں لگا یہ تو آپ کا حق ہے اور میں کبھی زبردستی نہیں کرنا چاہتا آپ بھاگی تھوڑی جارہی ہیں آپ ہمیشہ یہی رہینگی نا تو جب تک آپکا دل نہیں چاہتا میں آپ کے قریب نہیں آونگا”اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
“آپ کتنے اچھے ہیں “اسنے شرمیلی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
“بس زیادہ تعریف نہ کرے کہیں ایسا نہ ہو کہ میں برا بن جاؤ خود پر کنٹرول کر رہا ہوں کرنے دیں “آزر نے شرارت سے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔
اس کی بات سن کر وہ گڑبڑا گئی اور اپنی نظریں نیچے کی۔
آزر نے اس کی ادا پر اسے نظر بھر کر دیکھا شرماتے ہوئے وہ بہت پیاری لگ رہی تھے مسکراہٹ کی وجہ سے گالوں میں پڑتے ڈمپل اس کی خوبصورتی کو بڑھا رہے تھے اس نے بمشکل اپنی نظریں دوسری طرف تھی۔
“آپ اتنا بھاری میکسی پہن کر بیٹھی ہوئی ہیں الجھن نہیں ہو رہی ہے آپ کو”اس نے تھوڑی دیر بعد اس کے قریب بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
“آپ نے تھری پیس سوٹ پہنا ہے آپ کو الجھن نہیں ہو رہی “وہ سمٹتے ہوئے اس کی بات پر مسکرا الٹا اس سے پوچھا۔
“ہم نے دو تین دفعہ باتیں کیں ان باتوں میں آپ نے پہلی دفعہ ٹھیک سے اپنا مصرع پورا کیا وہ بھی بغیر اٹکے” آزر نے شرارت سے مسکرا کر کہا اس کی بات پر وہ شرمندہ ہو گئی۔
“دراصل شروع میں آپ سے گھبراہٹ ہو رہی تھی اس وجہ سے میں اٹک رہی تھی بات کرتے ہوئے “وہ شرمندہ شرمندہ سے بولی۔
“اب گھبراہٹ نہیں ہو رہی مجھ سے “آزر نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
“زیادہ نہیں بس تھوڑی بہت “اس نے آہستہ سے جواب دیا۔
“یہ تھوڑی بہت بھی آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائے گا “اس نے آہستہ سے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔
فریحہ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا جس کی آنکھوں میں اس کے لئے بے انتہا پیار تھا۔
“م۔۔۔م۔۔۔میں فریش ہو جاتی ہو “اس نے گھبرا کر اپنا ہاتھ اس کے ہاتھوں سے نکالتے ہوئے کہا۔
“جی ٹھیک ہےآپ فریش ہوجاۓ “آزر نے اک نظر اس کی طرف دیکھا جو گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی۔
وہ اٹھتے ہوئے ڈریسنگ روم کی طرف چلی گئی آزر ٹھنڈی آہ بھرکے رہ گیا۔
***
سب ناشتے کی ٹیبل میں بیٹھے ہوئے تھے اور ناشتہ کر رہے تھے۔
“بیٹا آج تمہارا شادی کر دوسرا دن ہے بہو کو کہیں گھمانے لے جاؤ یا اس کے میکے میں ملوا کر لے آؤ”شیلا بیگم نے مسکراتے ہوئے آذر سے کہا۔
ان کی بات پر فریحہ نے پیار سے اپنی ساس کو دیکھا جو اس کے دل کی بات سمجھ گئیں تھیں۔
“جی ٹھیک ہے ماما میں جاتے ہوئے فریحہ کو اس کے گھر چھوڑ آؤں گا اور آفس سے آتے ہوئے واپس لے آونگا “اس نے ناشتہ کرتے ہوئے کہا۔
“تم آج آفس جا رہے ہو؟”شیلا بیگم نے چونک کر پوچھا۔
اس کی بات پر سب نے اس کی طرف چونک کر دیکھا تھا۔
“جی ماما “اس نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
“بیٹا آج نہیں جاؤ فریحہ کو اپنے سسرال لےجاؤ اور اپنے سسرالیوں کے ساتھ تھوڑا گپ شپ لگاؤ پھر واپس آ جانا رات کو دونوں “شہزاد صاحب نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
“نہیں بابا ایک ضروری ٹوپک پہ کام کر رہا ہوں شادی کی وجہ سے تھوڑا لیٹ ہو گیا میں رات کو اسے لے آؤنگا “اس نے منع کرتے ہوئے کہا۔
فریحہ خاموشی سے ناشتہ کرنے میں مصروف تھی۔
“پر بیٹا۔۔۔تمہارے سسرالی والے کیا کہینگے “شیلا بیگم نے متفقکر سے کہا۔
“کچھ نہیں کہیں گے ضروری کام ہے اس وجہ سے آفس جانا پڑ رہا ہے رات میں ملوں گا ان سے “اس نے فریحہ کی طرح دیکھ کر کہا۔
“چلو جیسی تماری مرضی “شہزاد صاحب نے ناشتہ کرتے ہوئے کہا۔
“بیٹا اگر تم نے ناشتہ کر لیا ہے تو تیار ہو جاؤ آذر تمہیں گھر چھوڑ آئے گا”شیلا بیگم نے اس کا ناشتہ ختم ہوتے ہوئے دیکھ کر کہا۔
“جی ٹھیک ہے آنٹی میں ابھی تیار ہو کر آتی ہوں “وہ کرسی کھسکاکر کھڑی ہو گئی۔
“میں بھی آفس کے لئے تیار ہو کر آتا ہوں “وہ بھی اپنا ناشتہ ختم کرتے ہوئے اٹھا اور فریحہ کے ساتھ اپنے روم کی طرف چلا گیا۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...