وہاب کے لیے انجبین کی بتائی ہوئی بات گڈ نیوز نہیں تھی۔ اس میں ہاتھ اٹھانے کی تو کوئی بات نہیں تھی۔وہ غصہ بھی کر کے روک سکتا تھا۔
ہوا کچھ ایسے تھا کہ” جبین کی رخصتی کے ساتھ ہی وہاب انجبین کو واپس لاہور لے آیا تھا، یہ کہ کر کے اسے اپنے کاروبار کو دیکھنا ہے ورنہ بہت نقصان ہو جائے گا۔ انجبین اپنی سہیلی کی شادی ادھوری چھوڑ کر کیسے جا سکتی تھی۔ایسی کوئی بات ہوتی تو واجد بھائی بھی تو جلد بازی کرتے۔انجبین نے زیادہ ضد کرنا مناسب نہیں سمجھا۔اور چپ چاپ گھر چلی آئی۔ گھر آکر اسے خبر ملی کے دعوت ولیمہ چند دنوں کے لیے موخر کر دی گئی ہے۔ وہ خوشی خوشی یہی بات تو بتانے گئی تھی۔
مگر وہاب تو نہ جانے کیوں اس قدر غصہ میں تھا کہ زیان کا نام سن کر اس نے انجبین کو ایسے دیکھا تھا جیسے وہ اسکا خون پی جائے گا۔
انجبین: اب تو ہم جا سکتے نا ولیمہ کے لیے واپ ۔۔۔۔
انجبین کا جملہ مکمل بھی نہ ہو پایا تھا کے زیان نے انجبین کے منہ پے اس قدر زور سے چانٹا مارا کے انجبین گھوم کے بیڈ پہ جا گری۔
وہ سکتے میں آگئی تھی۔اس نے پلٹ کر وہاب کو نہیں دیکھا،وہ اس وہاب کو دیکھنے کو تیار نہیں جس نے الفاظ کے بجائے ہاتھ کا استعمال کر کے روکنا چاہا تھا۔
وہاب کے سو جانے کے بعد وہ بلکونی میں چلی آئی تھی۔وہ رو رہی تھی۔اسکے من کے مندر میں رکھی ہوئی وہاب نام کی مورتی میں دڑار پر گئی تھی۔
________________
زیان کو یاد ہی نہیں رہا تھا کہ اسے الارم کا وقت بدلنا ہے۔شادی کے بعد کون دوسرے ہی روز آفس جاتا ہے۔نماز فجر سے بھی پہلے کے وقت کا الارم لگا ہوا تھا۔۔زیان باقئدگی سے تو نماز نہیں پڑھتا تھا،مگر فجر کی نماز وہ پڑھ ہی لیا کرتا تھا۔آنکھ کھلتے ہی اس نے جلدی سے الارم کو بند کر دیا تاکہ مہجبین کی نیند میں خلل نہ پرے۔الارم بند کر کے بستر پہ نظر ڈالی،
“یہ کدھر گئی؟ بستر تو خالی ہے” باتھ میں ہو گی۔مگر یہ تو دروازہ بھی کھلا ہوا ہے اور لائٹ بھی بند ہے۔وہ اٹھ بیٹھا،وہ گھبرا گیا تھا۔ اس کے چہرے پہ ہوائیاں اڑنے لگیں تھی۔۔اس سے پہلے ک وہ باہر جا کر مہجبین کو تلاش کرتا۔ اس نے ٹیبل لمپ آن کیا۔لمپ کی مدھم سے روشنی میں اسے پلنگ کے دوسری طرف سجدے سے سر اٹھاتی ہوئی مہجبین نظر آگئی۔ اسے دیکھتے ہی زیان کی پریشانی ختم ہو گئی وہ ایک پل میں جیسے جی اٹھا تھا۔سلام پھیرنے کے بعد جبین نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے تھے۔
ٹیبل لیمپ کے بلب کی مدہم سی روشنی کے باوجود مہجبین کا چہرہ نہایت روشن دیکھائی دے رہا تھا۔ اپنے نام کے عین مطابق “پیشانی میں چاند”۔۔۔ مہجبین سچ مچ میں چمک رہی تھی۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی تھی۔وہ بہت انہماق سے دعا مانگ رہی تھی۔ زیانبے اختیار تھا اسے دیکھے جانے میں۔
مہجبین نے دعا منگنا ختم کی تو زیان بولا،
زیان: ابھی تو اذان نہیں ہوئی۔
مہجبین: جی نہیں ہوئی میں جانتی ہوں۔وہ اپنی جگہ بیٹھی رہی تھی،وہ مسکرا رہی تھی۔
زیان: تہجد پڑھتی ہو؟
مہجبین: نہیں آج ہی پڑھی!
زیان: آج ہی کیوں؟؟
مہجبین: میں نے کہیں پڑھا تھا کہ فرض نمازوں کے بعد جو سب سے پسندیدہ نماز ہے وہ تہجد ہے۔ مہجبین نے سکون سے جواب دیا۔
زیان: مگر پھر بھی یہ وقت کیوں؟ وہ وجہ جانے کے لیے اصرار کر رہا تھا۔
مہجبین: کیوں کے مجھے شکریہ کہنا تھا اور دعا کرنا تھی۔کچھ مانگنا تھا۔
اب آپ اٹھیں نماز کا وقت ہو رہا ہے۔ مہجبین کی بات پہ اس نے چونک کر دیکھا، “نماز”۔۔وہ بے ارادہ بول اٹھا۔۔
مہجبین: جی نماز! کبھی نہیں پڑھی کیا؟ جبین شرارت سے ہنسی ۔ اسکی ہنسی بے حد دلکش تھی۔
زیان: فجر کی پڑھتا ہوں! زیان آہستہ سے بولا۔ وہ کچھ شرمندہ سا محسوس کر رہا تھا۔ وہ کیسے بتاتا کے اسکے جیسی نماز تو اس نے کبھی پڑھی ہی نہیں۔نہ کبھی اس طرح سے دعا مانگی۔ کاش کے مانگی ہوتی دعا! شاید وہ مل جاتی۔۔
جبین: کیا سوچ رہے ہیں آپ؟ کہاں کھو جاتے ہیں پل بھر میں۔ جبین نے زیان کو سوچوں میں ڈوبے ہوئے پایا تو پوچھے بنا نہ رہ سکی۔آلتی پالتی مارے بیٹھی مہجبین ہاتھ کی انگلیوں پہ تسبیح کر رہی تھی۔
جبین کے پوچھنے پے زیان بس مسکرا دیا اور مہجبین کے ہلتے ہوئے لبوں کو دیکھتے ہوئے بولا، “میں تمھاری گود میں سر رکھ کر لیٹ جاؤں تھوڑی دیر!”
مہجبین: جی جی آئیں نا لوری سنا کے سلادیتی آپکو! جلدی کریں نماز پڑھیں! بڑے آئے “میں تمھاری گود میں سر رکھ کر لیٹ جاؤں تھوڑی دیر!” ہونہہ! جبین نے زیان کی بات دوہرائی اور نقل بھی اتاری۔۔
زیان کو یہ اچھا لگا تھا وہ مسکراہٹ سجائے نماز کی تیاری کرنے چلا گیا۔۔۔۔
____________ _________
وہاب نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا تھا ناشتے کی ٹیبل پر اور آہستہ سے اپنی جانب کھینچ بھی لیا تھا۔انجبین بنا کسی مزاحمت کے اس کی جانب جھک گئی تھی۔اس کے چہرے پہ ایک مردہ سی مسکراہٹ تھی۔
وہاب نے انجبین کا ہاتھ اپنے لبوں سے لگایا اور اسے چوم لیا۔وہ انجبین کی لال بھبوکہ ہوتی ہوئی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔جہاں آج اس کے لیے اپنائیت کی جگہ بیزاری تھی،ایک اجنبیت تھی۔۔”ولیمہ کیوں لیٹ کر دیا گیا؟” وہاب کا لہجہ اور مزاج ایسا تھا جیسے وہ رات کی بات کو بھول چکا ہے۔
انجبین نے حیرت سے وہاب کی طرف دیکھا۔اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس کے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔وہ کیا جواب دے۔اسے وہاب کے ہاتھ میں اپنا دیا ہوا ہاتھ کچھ درد محسوس کرنے لگا تھا۔
وہاب: میری بات کا جواب نہیں دیا تم نے۔
انجبین: جج جی وہ زیان کے بہنوئی جب آئیں گے چھٹی پہ ایک دو ہفتوں کے اندر تو تب ولیمہ کیا جائے گا۔انجبین نے جلدی جلدی میں جواب دیا،اس جلدبازی کی وجہ یہ تھی کہ وہاب کو دوبارہ غصہ نہ آجائے۔
اس جلد بازی میں انجبین کے منہ سے زیان کا نام نکل گیا تھا۔جو کافی تھا وہاب جیسے ضدی آدمی کے موڈ کو خراب کرنے کے لیے۔اس نے انجبین کے پکڑے ہوئے ہاتھ کو اتنی شددت سے دبایا اور دبا کر جھٹک دیا کہ انجبین کی چیخ نکل گئی درد کی شددت سے۔انجبین کی آنکھوں میں آنسوں تیرنے لگے تھے۔ اٹھتے اٹھتے وہاب نے کرسی کو اس انداز سے ٹھوکر ماری کہ وہ انجبین کو جا لگی۔اور وہ اس طرح چوٹ کھا کر لڑکھڑاتی ہوئی دیوار سے جا لگی۔ دیوار سے لگتے ہی انجبین کا ماتھا دیوار سے جا لگا، اور خون کا فوارہ پھوٹ پڑا۔
درد اور تکلیف کے باعث انجبین کی چیخ سسکی میں بدل گئی۔وہاب جا چکا تھا اور انجبین فرش پہ بیٹھی اپنے ماتھے سے بہنے والے خون کو ہاتھ سے روکنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔۔۔
انجبین نے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کے لیے نائلہ آپی کو کال کردی تھی۔اس نے اپنے زخمی ہونے کی وجہ کے بارے میں نہیں بتایا تھا،وہ یہاں کسی کو جانتی بھی تو نہیں تھی۔ویسے تو نائلہ آپی بھی ابھی پنڈی میں تھی،لیکن کوئی تو ہو سکتا ان کا جاننے والا۔
واجد بھائی کے دوست اور ان کی بیوی انجبین کی مدد کے لیے آنے لگے تھے۔
مشتاق بھائی اور روزینہ بھابھی جب تک آئے تب تک انجبین خون بہ جانے کی وجہ سے نڈھال ہو چکی تھی۔اس کا بلڈ پریشر بھی لو ہو گیا تھا۔انجبین نے بمشکل دروازہ ہی کھولا اور نقاہت کے باعث روزینہ بھابھی کے ساتھ جا لگی۔ انجبین کو اس قدر زخمی دیکھ کر مشتاق اور روزینہ گھبرا گئے تھے انہوں نے وہاب کو کال کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی اسکا نمبر بند جا رہا تھا۔اسی پریشانی میں انہوں نے نائلہ اور واجد کو فون کر کے انجبین کی حاکت میں بتانا مناسب سمجھا۔۔۔
___________—–_________
زیان آپ جاننا چاہتے تھے کہ نے کیا دعا کی یا کس بات کا شکر کیا! ۔۔۔ مہجبین کتاب کی ورک گردانی کرتے ہوئے زیان ک پہلو میں آبیٹھی اور سر زیان کے شانے پہ ٹکا دیا۔وہ اس قدر بے باک تھی اظہار کے معاملے میں کہ زیان ایک ہی دن میں اس سے کترانے لگا تھا جیسے وہ زیان کی روح ک اندر تک اتر کر اس کا سچ جان لے گی۔
زیان میں نے شکر ادا کیا کے مجھے آپ ملے ہیں۔ یہ دیکھیں تو آپ نے واصف علی واصف کی کتاب رکھی اس کو پڑھا بھی کریں۔مہجبین اپنی ہی دھن میں بولتی جا رہی تھی۔اس نے پلٹ کر یہ تک نہیں دیکھا کہ زیان دیکھ بھی رہا ہے کہ نہیں سن بھی رہا ہے یا نہیں۔۔۔
“آنکھ سب دیکھ سکتی ہے،لیکن یہ صرف اپنے آپ کو نہیں دیکھ سکتی۔ خود بینی کے لئے اسے کسی آئینے کی ضرورت ہے۔کسی اور کی ضرورت ہے” تو میرے خود بین یہ تھی وجہ میرے شکر کرنے کی۔آپ ہیں وہ وجہ۔۔۔ مہجبین یہ سب ایک ہی سانس میں بول گئی تھی۔ کمرہ میں خاموشی چھا گئی تھی۔۔۔زیان کوئی بات سوچ رہا تھا۔اسے مناسب الفاظ کی تلاش تھی کہ کیا جواب دے وہ۔ زیان کچھ بھی نہیں کہ سکا تھا کہ دروازے پہ تیز تیز دستک نے دونوں کے درمیان خاموشی کو ختم کر دیا۔
مہجبین: اللّٰہ خیر!۔۔۔ جبین جلدی سے دروازہ کھولنے کو بھاگی۔ دروازے میں نائلہ آپی کھڑی تھیں۔ ان کے چہرے سے عیاں تھا کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ یہ سوال کرنا ہی بےکار تھا۔ جبین کے کچھ کہنے سے پہلے نائلہ آپی بول اٹھیں۔
نائلہ: جبین زیان جاگ رہا ہے نا؟؟ نائلہ نے اپنے آپ کو نارم دیکھائی دینے کی نا ممکن سی کوشش کی۔
جبین نے زیان کی جانب دیکھا، جو خود ہی ان دونوں کی جانب چلا آیا تھا۔
زیان: کیا ہوا آپی سب ٹھیک ہے؟ زیان نے اپنی دھیمی مگر گہری آواز میں پوچھا۔
نائلہ: خیریت نہیں ہے۔ مجھے لاہور جانا ہے، تمھارے بھائج صاحب تو جلدی میں نکل گئے ہیں کہیں!
زیان: لاہور مگر کیوں؟
نائلہ: انجبین کی طبعیت نہیں ٹھیک اسے ہسپتال لے کر گئے ہیں۔ وہ بےہوش ہو کر شاید گر گئی ہے۔
زیان سے پہلے مہجبین بول اٹھی،”آپی میں بھی چلوں گی آپ کے ساتھ پلیز!”
نائلہ: میں کیا کہ سکتی ہوں جبین تمھاری شادی کو ایک دن بھی نہیں گزرا اور کیسے تم ہسپتالوں میں گھومتی پھرو گی۔ زیان جلدی سے تیار ہو جاؤ۔
زیان کو تیار ہونے کا کہ کر نائلہ جلدی سے واپس پلٹ گئی۔مگر مہجبین تو جیسے بت بنی کھڑی کی کھڑی رہ گئی! اس کا دل جیسے دھڑکنا ہی بھول گیا تھا۔اسے سمجھ بھی نہیں آیا کہ کب زیان نے اسکا ہاتھ تھام کر اسے بیڈ میں بیٹھا دیا تھا۔
زیان: مہجبین یہ لو پانی! کیا ہوا ہے تم خود کو تو سنبھال لو نا۔ہسپتال میں لے چلوں گا وعدہ! زیان نے یہ بات اس قدر فیصلہ کن انداز میں کہی تھی کہ جبین کو نہ چاہتے ہوئے بھی یقین سا آگیا تھا۔ مہجبین کے لیے اپنی سہیلی کے بارے میں ایسی خبر سن کر اسے برداشت کر لینا آسان کام نہیں تھا۔ وہ دوست صرف دوست کہان تھی اس میں تو جان تھی مہجبین کی۔بہنوں کی جگہ بھی اس کی دوست نے لے رکھی تھی۔اسکول کالج میں آتے جاتے اگر کوئی لڑکا کوئی الٹی بات کہ دیا کرتا تو مہجبین چپ چاپ سن لیا کرتی تھی مگر انجبین ایسے موقع پہ ایک بھائی کی طرح سامنے آجایا کرتی تھی۔انجبین کے خیالوں میں کھوئی ہوئی مہجبین کو ساتھ لے جانے کی خاطر زیان کو بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
“ماں کو خدشہ تھا کہ شادی کے اگلے ہی دن ایسے ہسپتالوں میں لیے گھومنا وہ بھی نئی نوئیلی دلہن کو،پھر لوگ کیا کہیں گے اور مہجبین کی امی کو کیا جواب دیں گی وہ”
امی کے خدشات بھی بجا تھے، مگر زیان اپنے اس وعدہ کی وجہ سے مجبور تھا جو اس نے مہندی کی رات مہجبین سے کیا تھا۔ ” وہ ساتھ نبھائے گا ” اور یہ بات اس بات کا ثبوت تھی کہ وہ اپنا قول نبھائے گا!۔۔۔۔
مہجبین کو جب پتہ چلا کے اسے جانے کی اجازت مل گئی ہے جانے کی۔ اس نے اس لمحے پلٹ کر جب زیان کی طرف دیکھا تھا تو زیان نے نظریں جھکا لی تھی۔یہ دیکھانے کے لیے کہ جیسے وہ تو مہجبین کو دیکھ ہی نہیں رہا تھا۔
نائلہ سلسبیل زیان اور مہجبین لاہور جا رہے تھے اگلے دس منٹ میں۔
_________________
سوری! سوری! نیم بےہوشی کی حالت میں انجبین کے منہ سے بس یہی الفاظ سنائی دے رہے تھے۔ دو گھنٹے سے بےہوش پڑی انجبین کے شوہر کی ابھی تک کوئی خیر خبر نہیں تھی۔ واجد کے دوست مشتاق نے ایک بار کال ملنے کے بعد پیغام تو پہنچا دیا تھا۔لیکن اس کےبعد سے وہاب کا تو فون بھی مسلسل بند جا رہا تھا۔۔
روزینہ بھابھی کو ڈاکٹرز نے ان گھر والوں کو جلد از جلد یہان بلانے کے لیے کہ رکھا تھا
نائلہ اور مہجبین تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی کمرے کے دروازے کی طرف چلتی ہوئی آرہی تھیں ان کے پیچھے ہی زیان چلا آرہا تھا۔
وہ وہاں کیوں آیا تھا؟
اپنی کھوئی ہوئی محبت کا انجام دیکھنے؟؟ یا اپنی نئی نویلی دلہن کی جان سے پیاری سہیلی کے لیے چلا آیا تھا۔زیان کمرے کے اندر نہیں گیا،اس کے قدم کسی خودکار نظام کے زیر اثر چلتے چلتے رک گئے تھے۔ وہ انجبین کو دیکھنے کا حق تو کھو چکا ہے۔ پھر وہ اندر کس طرح جا سکتا تھا۔وہ انہی سوچوں میں کھویا ہوا تھا کہ نرس نے پیچھے سے آواز دی،
نرس: آپ ہیں اس لڑکی کے شوہر؟ نرس کے چہرے پہ پریشانی کے بجائے مسکراہٹ تھی۔
زیان نے سر نفی میں ہلا دیا۔
زیان: سسٹر آپ مسکرا کیوں رہی ہیں؟
نرس: چھوڑو صاحب آپکے کام کی خبر نہیں۔وہ ٹکا سا جواب دے کر چلتی بنی۔ اسے جاتے دیکھ کر زیان بھی سائڈ پہ رکھے ہوئے ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔ اور یوں ہی آتے جاتے ہوئے لوگوں کو دیکھنے لگا۔ زیان کے دماغ میں بہت سے سوالات جنم لے رہے تھے۔ایک سوال جس نے اسے سوچنے پہ مجبور کر دیا “تکلیف کون سی والی زیادہ ازیت دیتی؟ ذہنی یا جسمانی”۔
_____________________
وہاب آچکا تھا۔ اسکی آنکھیں اتنی لال جیسے کب سے رو رہا ہے،آواز جیسے حلق میں اٹکنے سی لگی ہو۔وہ سیدھا انجبین کے پاس جا بیٹھا،اور اسے سینے سے لگا لیا۔
وہاب: یہ سب کیا ہوگیا انجبین تم مجھے آفس کال تو کر دیتی۔مجھے تو نہ جانے کیوں تم اپنا سمجھتی ہی نہیں۔کیا ہوگیا جو میں ساتھ لے آیا ولیمہ بھی تو لیٹ ہو گیا نا!
اتنی سخت کیوں روٹھتی ہو آخر مجھ سے۔۔۔وہاب کا چہرہ انجبین کی جانب تھا۔باقی سب لوگ بس اسکی آواز سن سکتے تھے جبکہ وہ صرف انجبین تھی جو ان باتوں کا مفہوم وہاب کے چہرے سے جان سکتی تھی۔
انجبین نے نہ چاہتے ہوئے بھی مسکراتے ہوئے سب کی جانب دیکھا۔
نائلہ: میرا پیارا دیور اتنا خیال رکھتا ہے،اب تو جناب یہ دیکھ بحال تھوڑی سی زیادہ کرنا پرے گی۔نائلہ نے وہاب کو تھپکی دی۔
وہاب: زیادہ مگر کیوں بھابھی؟ وہاب نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے پوچھا۔
نائلہ: کیونکہ اب انجبین اکیلی نہیں ہے اس کے ساتھ ایک ننھی سی جان منسلک ہو چکی ہے، تم ابا بنے والے ہو۔۔
نائلہ کی بات سنتے ہی ہسپتال کے اس کمرے میں جیسے خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ مہجبین تو بنا کچھ دیکھے سنے بھاگتی ہوئی انجبین کے پاس چلی گئی اور اسے گلے لگا لیا اسنے کوئی پرواہ نہ کی کہ وہاب کیا سوچے گا کیا بولے گا۔۔۔وہ تو دیوانی ہو رہی تھی خوشی سے۔سب ہی اس کے اس والہانہ انداز پہ مسکرا دیے۔اس خوشخبری کے بعد تو جیسے سب نے انجبین کی چوٹ کو فراموش ہی کر دیا تھا۔
اسپتال سے فارغ ہو کر وہاب کے لاکھ کہنے کے باوجود بھی سب نے اسی بات پہ اصرار کیا کے ابھی نائلہ آپی کی طرف ہی جایا جائے۔۔ اور وہاں چل کر کھانا کھایا جائے تاکہ یہ اداسی کا ماحول تو ختم کیا جا سکے۔۔۔
_________________
زیان آپکو معلوم ہے میں بہت بہت بہت خوش ہوں آج۔مہجبین نے جی ٹی روڈ کے ساتھ ساتھ بسنے والے دیہات کے وسیع کھیتوں کو غور سے دیکھتے ہوئے سوال کیا۔ زیان گاڑی چلاتے ہوئے باتیں کم ہی کیا کرتا تھا لیکن اپنی بیوی کی خوشی کا باعث بنے والی اس بات کو جاننا چاہتا تھا کہ آخر ایسا کیا ہے جس سے جبین کو خوشی ملی ہے۔
زیان نے سر نفی میں ہلایا منہ سے نہ بولا۔ سر کی جنبش کو مہجبین کیسے دیکھ پاتی وہ تو گاڑی سے باہر کے نظاروں میں کھوئی ہوئی تھی۔ جب اپنی بات کے جواب میں زیان کا کوئی جواب نہ ملا تو جبین نے غصہ میں زیان کے بازو کی چٹکی بھر لی۔۔
چٹکی اس قدر شدید تھی کہ زیان تڑپ اٹھا۔
“ہائے امی جی! اوئی اف اف اوووف ہائے” زیان بچوں کی طرح بلبلا اٹھا۔ وہ یہ سب بے ساختہ کر رہا تھا۔
آہ و بکا سن کر مہجبین کا رنگ فق ہوگیا اور وہ گھبرا کر ایسے دیکھنے لگی جیسے اس نے زیان کی چٹکی نہیں بھری بلکہ گولی مار دی ہے۔
زیان: اللّٰہ تعالیٰ نے یہ پیارا سا منہ دے رکھا ہے اس سے بولا کرو نہ کے چٹکی کاٹ کر توجہ حاصل کرو ظالم “افف”۔۔
مہجبین: “ہائے اللّٰہ جی پیارہ چہرہ اف مائے گاڈ جی” جبین نے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا، اور پھر ایک دم سے جیسے کرنٹ کھا کر ہوش میں آگئی۔”میری بات کے جواب میں تو اس پیارے سے منہ کوئی بات نہیں نکلی اور نصیحت مجھے کر رہے ہیں!”۔۔۔
زیان: سر ہلایا تو تھا! زیان نے بازو کو سہلایا اور گھور کر بیوی کو دیکھا جو زیان کو اس قدر پیار سے دیکھ رہی تھی کہ زیان کی جھنجھلاہٹ فوری طور پہ کافور ہو گئی۔۔
مہجبین: سر ہلایا من بھر کا تولہ زبان نہ ہلی۔ ہائے ہائے صدقے ہی نہ چلی جاؤں میں آپکے۔
زیان: چلی تو جاؤ لیکن ابھی ولیمہ تو ہو لینے دو۔ برجستہ زیان نے بھی جواب دیا۔
مہجبین: زیان!
یہ نام لینا ہی کافی تھا زیان ہنس دیا اور اپنی بیوی کا اشارہ سمجھ گیا کہ وہ کچھ خاص کہنا چاہتی ہے۔
مہجبین کچھ دیر چپ رہنے کے بعد پھر سے بولی،
مہجبین: میں بہت خوش ہوں میری سہیلی ماں بنے والی ہے۔
جبین کی بات نے زیان کے چہرے پہ چھائی مسکراہٹ کو سنجیدگی میں بدل دیا۔وہ نہ چاہتے ہوئے بھی انجبین کی جانب کیوں لوٹایا جاتا ہے۔وہ نہ بھی سوچنا چاہے تو کیوں یہ بات سوچنے پہ مجبور کیا جاتا ہے۔
زیان: اسے چوٹ کیسے آئی تھی؟ زیان نے مہجبین کی بات کے بجائے الگ ہی سوال کر ڈالا۔
اس بات کی جانب تو کسی کا دیھان نہیں گیا تھا۔سب تو خوشخبری کے سنتے ہی باقی معاملات تو یکسر نظر اندز کر دیے گئے تھے۔
زیان کے بات دوہرانے کی وجہ سے یہ سوال مہجبین کو بھی کھٹکنے لگا تھا۔۔۔لیکن وہ اب یہ سوال کیسے کرے۔۔۔۔۔
_____________
اب یہ میرا باپ بنے والا کیا قصہ ہے؟ وہاب نے کمرے میں داخل ہوتے ہی انجبین سے سوال کیا، اور لاپراہی سے سر کو دونوں ہاتھوں میں تھام کر بیٹھی ہوئی انجبین کو دیکھا۔ انجبین نے ایک بار نظریں اٹھا کر وہاب کی طرف دیکھا۔ انجبین کے دماغ کو جو چند لمحوں کا سکون ملا تھا وہ وہاب کے اس سوال نے پھر سے غارت کر دیا تھا۔
انجبین: باپ بنا قصہ کہانی نہیں ایک حقیقت ہوتی ہے وہاب! آپ کو تو میرے سوالات سے غصہ آتا ہے، مجھے نہ لے کے جائیں ولیمہ پہ مگر اس بات کا غصہ ہمارے ہونے والے بچے پہ تو نہ نکالیں پلیز! انجبین نے اپنی تمام قوت صرف کر دی تھی یہ بات کہنے میں۔۔۔ درد اور نقاہت کی وجہ سے وہ بول بھی نہیں پا رہی تھی۔۔۔
وہاب: ولیمہ پہ تو تم ویسے بھی نہیں جا رہی، اور ایک اور بات!
مجھے اولاد کی کوئی خواہش نہیں ہے۔
وہاب نے بلا جھجک یہ بات کہ ڈالی اور کمرے سے باہر نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہاب کے منہ سے یہ جملہ سن کر انجبین کے اوپر تو جیسے بجلی ہی گر گئی! اسے اپنی سماعتوں پہ جیسے اعتبار ہی نہیں ہو رہا تھا۔شاید چوٹ لگنے سے مجھے ۔۔۔۔انجبین کی آنکھوں میں آنسو تھے۔وہ اپنے پیٹ کو ایک ہاتھ سے تھام کر بیٹھی تھی۔۔۔۔! کوئی کیسے اس سے اس کے بچے سے دور کرنے کی بات کر سکتا ہے۔ایسا سوچ بھی کیسے سکتے وہاب۔ روتے روتے اسے ماں کی یاد ستانے لگی تھی ماں آئی کیوں نہیں!
وہ اس کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی کہ وہاب لوٹ آیا۔
انجبین: امی کو کال کی تھی آپ نے؟
وہاب: نہیں۔
انجبین: کیوں؟
وہاب:کیوں کرتا؟
انجبین: کیونکہ میں انکی بیٹی ہوں اور انکو میرے بارے میں معلوم ہونا چاہئیے۔
انجبین کے لہجے میں احتجاج تھا،اسے وہاب سے اس رویے کی امید نہیں تھی۔وہ تو سمجھتی تھی کہ وہاب کا غصہ تو وقتی ہے مگر۔۔۔ ” میں ان کو خوشخبری تو دے سکتی ہوں،میں ان کو زخمی ہونے کا نہیں بتاؤ گی۔ انجبین نے کال ملا دی تھی۔اور اب کی بار وہاب نے اسے روکا بھی نہیں۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...