عائزہ نے زیب کے رشتے کے لیے ہاں کہہ دی تھی مگر دل میں اک خوف سا بھی تھا۔جب بھی اپنے لیے وہ چاۓ بناتی وہی منظر آنکھوں کے سامنے آجاتاا۔وہی لمس اپنی کلائی پر محسوس ہوتا۔
تو کیا یہ رشتہ ان کی مرضی سے ہو رہا ہے یا.. اسے یہ سوال ہمیشہ پریشانی سے دو چار کرتا۔۔۔۔
۔۔۔۔
یونیورسٹی سے گھر آکر جوں ہی ا سنے لاؤنج میں قدم رکھا نظر سامنے بیٹھے عرفان پر گئی جو اسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔
عرفان بھائی آپ۔کیسے ہیں؟ آپی بھی آئی ہیں ؟ اسے حیرت کیساتھ خوشی بھی ہوئی۔
جی جناب۔کچن میں ہمارے من پسند کھانے بنا رہی ہیں۔
آپ اندر کیسے آۓ؟ گیٹ پر تو تالا لگا ہوا تھا؟
تالا توڑا بھی تو جا سکتا ہے مگر ہم نے نہیں توڑا۔ہم ولید بھائی سے چابی لے کر یہاں آۓ۔تاکہ تمہی سرپرائز دیں اور مبارک باد بھی۔فائزہ نے یہ کہتے ہوۓ اسے گلے لگایا۔
سالی صاحبہ تو پھر مٹھائی؟
بچی کو سانس تو لینے دیں تھکی ہوئی آئی ہے۔فائزہ نے بلش کرتی عائزہ کی طرف دیکھ کر کہا۔وہ عرفان کیساتھ والے صوفے پر بیٹھ گئی عرفان اسے چھیڑنے سے باز نہیں آیا۔
کیا بنا رہی ہیں؟ فائزہ واپس کچن کیطرف مڑنے لگی تھی جب عائزہ نے پوچھا۔
بریانی۔
واہ آپی میں ابھی فریش ہو کر آئی۔بریانی کی سن کر اسے سخت بھوک محسوس ہونے لگی۔
وہ دونوں رات کا کھانا کھا کر دس بجے گھر آۓ۔جاوید صاحب ، مسز جاوید اور کومل لاؤنج میں بیٹھے کوئی شو دیکھ رہے تھے۔
وہ دونوں بھی ان کے پاس ہی صوفے پر بیٹھ گئے۔
بیوی کو گھمانے اتوار کو لے جایا کرو۔میں کب تک آفس کی ذمہ داری سنبھالوں تمہیں بیوی کے ناز نخرے اٹھانے سے فرصت نہیں ملتی۔جاوید صاحب نے ایک نظر اس پر ڈال کر کہا۔
ایک ہی تو چھٹی کی ہے۔
شادی کو دن ہی کتنے ہوۓ ہیں۔یہی دن ہوتے ہیں گھومنے پھرنے کے۔مسز جاوید نے بھی گفتگو میں حصہ لیا جو جاوید صاحب اور کومل کو سخت گراں گزرا۔
تم خاموش رہو۔تمہارے لاڈ پیار نے اسے بگاڑا ہے تمہاری شہہ پر یہ اس دو ٹکے کی لڑکی کو بیاہ کر لے آیا اور اب کتنے دھڑلے سے یہ اسکا پلو تھامے گھومتا ہے۔
انکل ٹھیک کہہ رہے ہیں اتنا بھی انسان کو بیوی کا مرید۔۔۔۔۔
جسٹ شٹ اپ۔میرے ہی گھر کھڑے ہو کر تم مجھے ایسا بول رہی ہو۔ عرفان کو بھی غصہ آگیا وہ کسی صورت بھی فائزہ کی انسلٹ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔
یہ گھر تمہارا نہیں میرا ہے اور اس پر کومل کا پورا حق ہے۔
آپ کو اپنا گھر مبارک ہو میں ایسی جگہ رہنا پسند بھی نہیں کروں گا جہاں میری اور میری بیوی کی کوئی عزت نہ ہو۔اس نے فائزہ کا ہاتھ پکڑ لیا۔
خاموش ہو جائیں یہ کیا تماشہ لگا رکھا ہے۔عرفان اور فائزہ آپ دونوں جاؤ اپنے کمرے میں۔ مسز جاوید نے ان دونوں سے التجا کی۔اس سے پہلے کہ معاملہ مزید سنگین ہوتا فائزہ نے اسکا ہاتھ پکڑا اور کھیچتے ہوۓ کمرے میں لا کر دروازہ لاک کیا۔
عرفان ہوش کریں۔وہ آپ کے پاپا ہیں۔مانا کہ وہ غلط کر رہے ہیں مگر جو آپ کر رہے ہیں وہ ٹھیک نہیں ہے۔فائزہ نے اسے گلاس میں پانی ڈال کر دیا۔
وہ تمہاری کس طرح انسلٹ کر رہے تھے اور وہ کومل چپکلی۔ عرفان نے غصے سے دانت پیسے۔
پلیز عرفان غصہ مت ہوں۔جاوید صاحب کی باتوں نے اسے بھی ہرٹ کیا تھا مگر وہ عرفان کو سمجھا رہی تھی کیوں کہ وہ جذبات میں کچھ بھی کر سکتا تھا۔
اب میں سمجھا یہ چپکلی کیوں یوں اچانک آئی ہے ہممم۔دیکھ لوں گا اسے بھی۔ اس نے پانی پی کر گلاس فائزہ کیطرف بڑھایا۔
پہلے مجھے تو دیکھ لیں۔
ہاہاہا۔پیار سے دیکھوں؟ عرفان نے اسکا ہاتھ پکڑ اپنے پاس بٹھایا اور اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ بولا۔
فائزہ کو اپنی جلد بازی پر غصہ آیا۔
آ آپ ابھی کچھ کہہ رہے تھے؟ فائزہ نے ہکلاتے ہوۓ کہا۔
کیا کہہ رہا تھا؟ وہ انجان بنا۔
یہی کہ چپکلی یہاں کیوں آئی؟
کیوں آئی؟ وہ اسے تنگ کرنے سے باز نہ آیا۔
مجھے نہیں پتہ۔وہ اپنا بازو چھڑوانے لگی۔
پریشان مت ہونا۔پاپا پھپھو کی زیادہ سنتے ہیں اور انہی کی پڑھائی ہوئی باتوں پر چلتے ہیں۔تم میرے لیے بہت اہم ہو پریشان مت ہونا میں بہت جلد یہاں سے تمہیں لے کر چلا جاؤں گا۔
نہیں۔ہم یہی رہیں گے۔یہاں آپ کی ماما ہیں اور پاپا کو بھی کبھی نہ کبھی اپنی غلطی کا احساس ہوگا آپ میری فکر مت کریں میں بڑوں کی باتوں کا برا نہیں منایا کرتی۔۔
۔تم بہت اچھی ہو مجھے تمہارے جیسے ہمسفر کی تلاش تھی تم ہیرا ہو جسے پاپا پہچان نہیں رہے۔
اب سو جائیں صبح آفس بھی جانا ہے۔
ہاں۔سر دبا دو گی ہلکہ ہلکہ درد ہو رہا ہے۔
بہت زیادہ درد ہو تو پینکلر دے دوں۔وہ اسکا سر دباتے ہوۓ بولی۔مگر وہ اسکے نرم ہاتھوں کے لمس کو اپنے سر محسوس کرتا ہوا نیند کے گھوڑے پر سوار ہوگیا ۔۔
کیوں آپ اپنے بیٹے کی خوشی چھیننا چاہتے ہیں؟ ایک ہی بیٹا ہے ہمارا۔اب یہ ناراضگی ختم کر دیں اگر خدا نخواستہ وہ گھر چھوڑ گیا تو ۔مسز جاوید اپنے شوہر کی برین واشنگ کر رہی تھی مگر ان پر کچھ اثر نہیں ہورہا تھا۔بیٹے نے اپنی ضد پوری کر لی تھی اب باپ بھی اپنی ضد پوری کرنا چاہتا تھا بیٹے کی خوشی بلکہ سب کچھ چھین کر۔
کیا ہوگا چھوڑگیا تو دو دن بعد زمانے کی ٹھوکریں کھا کر واپس ادھر ہی آۓ گا۔
پسند کی شادی کرنا کوئی گناہ نہیں ہے اسے معاف کر دیں جاوید۔میں گھر کو اس طرح تباہ ہوتے نہیں دیکھ سکتی۔
بیٹے کی خوشی پوری کر لی اب میری خوشی بھی پوری کرو۔
کیسی خوشی؟
عرفان کی دوسری شادی کی خوشی۔میں اسکی دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں کومل کیساتھ۔ جاوید صاحب کی بات سے مسز جاوید کو ایسا لگا جیسے پگھلا ہوا سیسہ کسی نے کانوں میں ڈال دیا ہو۔
کیاااا۔؟؟
کیاااا؟ میں ایسا کبھی نہیں ہونے دوں گی میں اپنے بیٹے کی زندگی برباد نہیں ہونے دوں گی۔
میں اسکا باپ ہوں۔اسکے لیے کیا اچھا ہے کیا برا سب جانتا ہوں۔اس لڑکی اور اسکا کوئی جوڑ نہیں ہے وہ امیر باپ کا بیٹا اور وہ غریب خاندان کی لڑکی۔
مگر اب وہ اس کی بیوی ہے۔آپ سمجھتے کیوں نہیں ہیں؟
بیوی ہنہہ۔ تم ماں بیٹا اس لڑکی کے جال میں آگئے ہو مگر میں اس لڑکی کو اس گھر میں اور برداشت نہیں کروں گا اس گھر سے باہر کروں گا اسے۔
آپ عرفان کے بارے میں سوچیں وہ کتنا اس سے پیار کرتا ہے آپ کا کوئی بھی ایسا قدم اسکی ذات کو ادھیڑ دے گا۔
اس گھر میں کومل عرفان کی بیوی اور میری بہو بن کر آۓ گی میں اس لڑکی کو بہو نہیں مانتا۔اب اس سے آگے میں کچھ سننا نہیں چاہتا۔
وہ انگلی اٹھا کر وارننگ دیتے ہوۓ بولے۔
(یا اللہ اس گھر کی خوشیوں کو کس کی نظر لگ گئی۔یا اللہ اس گھر کی خوشیاں واپس لٹا دے۔اس گھر کے مکینوں کے لیے آسانیاں پیدا کر) وہ دل میں خدا سے مخاطب تھی۔
ایک ہفتے بعد عائزہ کی منگنی کی تقریب منعقد کی گئی تھی۔فائزہ نے اسے کال کر کے مبارک بعد دی تھی مگر عرفان کی آفس میں مصروفیات کی وجہ سے وہ میکے نہ جا سکی۔
وقت پلک جھپکتے گزر گیا کہ منگنی کا دن بھی سر پہ آن پہنچا۔منگنی کی تقریب شام چھے بجے کو تھی۔وہ دن کے دو بجے سے نک سک تیار ہو کر عرفان کا انتظار کر رہی تھی مگر اسکا کوئی اتا پتہ ہی نہیں تھا۔ولید بھی دو بار کال کر کے جلدی آنے کا کہہ چکا تھا۔اس نے عرفان کا نمبر ڈائل کیا۔
ہیلو عرفان کدھر ہیں آپ۔
پہلی بیل پر کال ریسیو کر لی گئی تھی۔
آفس سے نکلنے لگا ہوں تم تیار رہنا۔عرفان کی مصروف سی آواز آئی۔
اوکے باۓ۔ عرفان نہیں جانتا تھا وہ کب سے تیار بیٹھی ہے۔۔
۔۔۔۔
وہ آفس سے باہر آیا اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھا۔ڈرائیونگ سیٹ سنبھال کر اس نے گاڑی اسٹارٹ کی کوشش کی۔
یہ کیا؟ صبح تک تو گاڑی ٹھیک تھی مگر ابھی کیا ہوا اسے۔وہ گاڑی سے اترا۔
اوہ شٹ۔ اب کیا کرو لیٹ ہو رہا ہوں۔اس نے گھڑی پر وقت دیکھا جو سوا دو بتا رہی تھی۔
اس نے گاڑی کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی جو ناکام رہی۔
وہ پریشان سا گاڑی کے ساتھ ٹیک لگاۓ کھڑا تھاجب اس کی بیک سے کومل کی آواز ابھری۔
ہیلو کزن۔
وہ اسکے ہیلو کو نظر انداز کرتا دوسری طرف دیکھنے لگا۔
پریشان ہو کیا مسلہ ہے؟ وہ اس کے قریب آئی۔
میرا مسلہ ہے تمہارا نہیں۔تم اپنے کام سے کام رکھو۔اسے گھر پہچنے کی جلدی تھی اب گاڑی بھی خراب تھی اور اسکا دماغ خراب کرنے کومل کھڑی تھی۔
وہ گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی اسٹارٹ کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور کومل شیطانی مسکراہٹ سے اسے بے بس دیکھ رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔
وہ پریشان سی بیٹھی عرفان کی منتظر تھی جب موبائل پر بپ ہوئی۔
بھائی کی پھر کال آگئی کیا کہوں اب۔اس نے کال ریسو کی
ہیلو بھائی۔
کب پہنچو گئے آپ لوگ۔وقت دیکھو کیا ہو گیا ہے۔
وہ بھائی عرفان کی میٹنگ تھی وہ پہچنے والے ہیں پھر ہم آجائیں گے۔(کومل نے بھی اندر داخل ہوتے ہوۓ اسکی بات سنی)۔۔
کال ڈسکنٹ ہو گئی تھی وہ جانتی تھی ولید بھائی غصے میں ہوں گئے۔
کونسی میٹنگ تھی عرفان کی وہ تو میرے ساتھ تھا۔کومل اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھتے ہوۓ بولی۔
تو ابھی کدھر ہیں؟ گاڑی ٹھیک کروا رہا ہے اسکی گاڑی خراب ہوگئی تھی میں ٹیکسی لے کر آگئی۔
اوہ اچھا۔فائزہ اسکی کسی بات پر یقین کرنے والی نہیں تھی۔
اب بہت جلد میں اور عرفان ایک ہو جائیں گے اور تم ہاہاہا اسکی زندگی اور اس گھر سے باہر۔اس نے ہاتھ سے باہر کی طرف اشارہ کیا۔وہ نہ جانے اور کیا کیا کہ رہی تھی مگر فائزہ نے اسکی کسی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔
تم پریشان نہیں ہو اپنے شوہر کو میرے ساتھ دیکھ کر۔
میں کیوں ہوں پریشان؟ فائزہ نے اس سے الٹا سوال کر دیا۔
آخر کو تمہارا شوہر ہے نہ کسی اور کے ساتھ دیکھو گی تو اداس نہیں ہو گی۔
بالکل بھی نہیں۔جو میرا ہے وہ میرا ہی رہے گا چاہے لاکھ اسے کوئی چھیننے کی کوششیں کرے اور جو میرا نہیں ہوگا وہ میرے لاکھ روکنے پر بھی کسی اور کا ہو جاۓ گا اور عرفان پر مجھے بھروسہ ہے۔(عرفان کی کال آرہی تھی جو اس نے ریجیکٹ کر دی)
اور اگر وہ تم سے ملتا ہے تو اسکا کیا جاتا ہے اچھا وقت گزرتا ہے اسکا اور تمہاری تو عزت خراب ہوتی ہے۔خیر ملتی رہو کسی کے شوہر سے۔کچھ لوگوں کسی کا جھوٹا کھانے کی عادت ہوتی ہے۔وہ کھری کھری اسے سنا کر اٹھ گئی۔مسز جاوید نے بھی اسکی باتیں سن لی تھی اور انہیں خوشی ہوئی تھی کہ وہ اپنے حق کے لیے لڑ سکتی ہے۔اور کومل غصے سے آگ بگولہ ہو گئی تھی۔
وہ غصے میں گالی بکتی اپنے کمرے میں چلی گئی۔
کمرے میں آکر اسے کال بیک کی۔
ہیلو۔کہاں ہیں آپ کب سے انتظار کر رہی ہوں۔فائزہ نے چھوٹتے ہی پوچھا۔
یار کیا بتاؤں گاڑی خراب ہو گئی تھی۔ابھی بس گھر پہچنے والا ہوں تم۔تفصیل آکر بتاؤں گا۔
۔۔۔۔
وہ پونے چار بجے گھر پہنچا۔فائزہ اسی کی منتظر تھی۔تیاری مکمل کر کے وہ دونوں گھر سے نکلے۔اسکی ناراضگی عرفان سے چھپی نہ رہ سکی۔مگر اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ معاملہ اس سے ناراضگی کا نہیں کچھ اور ہے۔
ناراض ہو یار۔کیا کرتا گاڑی خراب ہو گئی تھی وہ ٹھیک کرواتے ہوۓ لیٹ ہو گیا اور ایک تو وہ چپکلی دماغ خراب کر گئی میرا۔ عرفان نے اسے اپنی صفائی دیتے ہوۓ کہا۔
کیا کہا اس نے؟
مجھے تو لگتا ہے گاڑی خراب کروانے میں اسکا ہاتھ ہے۔فضول میں دماغ خراب کر رہی تھی میں نے بھی کہہ دیا اپنے کام سے کام رکھو۔
اوہ مجھے تو وہ۔۔۔۔۔فائزہ نے اتنی بات کہہ کر منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔
کیا اس نے تمہیں کچھ کہا ہے؟
ن نہیں تو۔
تم جھوٹ نہیں بول سکتی۔تمہاری آنکھیں حقیقت بتا دیتی ہیں بتا دو کیا کہا اس نے؟
فائزہ نے اسکے اصرار پر کومل اور اپنے درمیان ہونے والی تلخ کلامی عرفان کو بتا دی۔
ہممم ٹھیک کہا تم نے۔اور مجھ پر بھروسہ کرنے کا بہت شکریہ میں کبھی تمہارا ٹرسٹ نہیں توڑوں گا۔مجھے اپنی محبت پر فخر ہے۔
عرفان نے اسے مڑ کر محبت بھری نظروں سے دیکھا۔
یہ لو آگیا گھر۔ عرفان اور وہ دونوں گاڑی سے اترے۔منگنی کا چھوٹا سا فنکشن تھا جو گھر میں ہی منعقد تھا۔زبیدہ اپنے خاص رشتہ داروں کو ساتھ لائی تھی اور ولید کی طرف سے چند لوگ مدعو تھے۔
عائزہ نے گرین کلر کا فراک جس پر سلور کی فینسی اور نازک کڑھائی کی ہوئی تھی زیب تن کیا ہوا تھا اور لائٹ سا میک اپ جس میں وہ نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھی۔فائزہ اسکے پاس جا کر بیٹھی۔
ہاۓ آج تو زیب بھائی گئے کام سے۔
نہ کریں آپی۔وہ شرمانے لگی۔
ہاۓ ہاۓ یہ ادا انہیں لے ڈوبے گی وہ پورے کے پورے لٹو ہو جائیں گے تم پر۔
آپی آپ شادی کے بعد بہت زیادہ بولنے لگی ہیں۔وہ اسے کافی چھیڑتی رہی۔
انگوٹھی پہنانے کی رسم کے بعد کھانا سرو کیا گیا۔
آہستہ آہستہ مہمان بھی اجازت لے کر جانے لگے۔البتہ فائزہ اور عرفان کو ولید نے رات رہنے کے لیے روک لیا تھا۔۔
ماموں جان میں اب مزید ایک دن بھی یہاں نہیں رکوں گی بہت انسلٹ برداشت کر لی۔آپکا بیٹا مجھے گھاس نہیں ڈالتا اور آپکی وہ دو ٹکے کی لڑکی مجھے باتیں سناتی ہے کہ مجھے دوسروں کا جھوٹا استعمال کرنے کی عادت ہے۔وہ غصے میں آپے سے باہر ہو رہی تھی۔
کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے تم صبر کرو دیکھنا کیسے عرفان کو میں۔۔۔۔
بس ماموں جان بس۔آپ نے جو جھوٹی تسلیاں دینی تھی دے لی اب میں آپ کی باتوں میں آنے والی نہیں ہوں۔میرے دو تین رشتے آۓ ہوۓ ہیں میں ان میں سے کسی ایک کے لیے ہاں کر دوں گی۔
ارے وہ لڑکی تمہیں مات دے گئی اور تم ہمت ہار کر واپس گھر جا رہی ہو پاگل مت بنو کومل ۔جاوید صاحب نے اسے منانے کی آخری کوشش کی۔
تو کیا کروں ماموں جان؟
تم کچھ مت کرو۔اب دیکھنا میں کیسا کھیل کھیلتا ہوں جب گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو انگلی ٹیڑھی کرنی پڑتی ہے اور میں بھی اب ایسا ہی کروں گا۔
کیا کریں گے آپ؟
بس تم دیکھتی جاؤ۔میں اسے گھر سے نکال بھی دوں گا اور بات بھی ہم پر نہیں آۓ گی اب یہ میری ضد ہی نہیں بلکہ انا کا مسلہ بھی بن گیا ہے اور میں اپنی انا کے لیے ہر حد پار کروں گا۔ان دونوں کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ ناچ رہی تھی۔
عرفان آپکی نظر میں کوئی اچھی لڑکی ہے؟ وہ چاروں اسوقت لاؤنج میں بیٹھے ادھر اُدھر کی باتیں کر رہے تھے جب فائزہ بولی۔
کیوں میری دوسری شادی کروانے کا ارادہ ہے۔عرفان نے شرارت سے کہا۔
نہیں بھائی کے لیے۔اور آپ دوسری شادی کا نام لیں تو میں آپکا گلا دبا دوں۔
اسکی بات پر تینوں کا چھت پھاڑ قہقہ بلند ہوا۔
آپی آپ میں سچ میں بیویوں والا رعب آتا جا رہا ہے۔
دیکھا نا عائزہ تمہاری بہن نے کس طرح تمہارے معصوم سے بہنوئی کو ڈرایا ہوا ہے۔عرفان نے مسکین سی شکل بنائی۔۔
ولید انکی باتوں پر ہنس رہا تھا۔
میری بات مت ٹالیں۔فائزہ نے منہ بسورا۔
تمہیں کیا جلدی ہے میری شادی کی۔ولید نے کہا
یہ آپکو بھی قید کرنا چاہتی ہے ہماری طرح۔عرفان شرارت کے موڈ میں تھا۔
کیوں میں نے آپکو قید کیا ہوا ہے کیا؟
مذاق کر رہے ہیں آپی۔سریس نہ لیں۔عائزہ نے اسکے بگڑتے تیور دیکھ کر کہا۔
عرفان بھائی بتائیں نا ہم بھائی کو قید کرنا چاہتے ہی اچھی سی کیوٹ سی لڑکی بتائیں۔عائزہ نے عرفان سے کہا۔
یار مجھے رشتہ کروانے والی ماسی سمجھ رکھا ہے مجھے کچھ بھی نہیں پتہ۔
اوہ بھائی آپ ہی اپنی پسند بتا دیں؟
مجھے شادی کرنی ہی نہیں تو پسند بتا کر کیا کرنا۔
بھائی پلیز نا۔وہ دونوں اسکی منت سماجت کرنے لگی۔
لڑکی میری طرح ہو سنجیدہ سی، بولتی کم ہو باپردہ ہو۔ ولید نے اپنی پسند بتائی۔
آپکو لڑکی ملنا مشکل ہے؟ عرفان نے سوچ بچار کرتے ہوۓ کہا۔
کیوں کیوں ؟ وہ دونوں یک زبان ہو کر بولی۔
لڑکی بولتی کم ہو یہ نا ممکن۔بھئی آپکے بھائی کنوارے ہی رہیں گے ۔
فائزہ اسوقت کو کوس رہی تھی جب اسنے عرفان سے اس ٹاپک پر بات شروع کی تھی
اگلے دن دوپہر کو گھر پہنچے۔گھر پر مسز جاوید موجود تھی جاوید صاحب آفس میں تھے اور کومل اپنے گھر چلی گئی تھی۔
کیسا رہا فنکشن؟ مسز جاوید نے فائزہ سے پوچھا۔
زبردست۔
ایک خوشخبری ہے؟
ان دونوں نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا۔
کومل اپنے گھر چلی گئی ہے۔
یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ مصیبت ٹل گئی ہے(مگر اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ ایک اور مصیبت آنے والی ہے)۔مسز جاوید کی اس بات نے اسے اندر تک ٹھنڈک پہنچائی تھی۔وہ تینوں اس کے جانے سے مطمئن ہو گئے تھے۔مگر یہ اطمینان کچھ دن کا تھا۔
۔۔۔۔۔
رات کو فائزہ اسکے کپڑے پریس کر رہی تھی اور وہ موبائل میں بزی کمال کیساتھ چیٹ کر رہا تھا جب دروازے پر دستک ہوئی۔
یس۔عرفان نے سوچا شاید صغراں ہوگی مگر دروازے پر جاوید صاحب کو دیکھ کر وہ چونک گیا۔
ارے پاپا آپ مجھے بلا لیا ہوتا آپ ایسے۔۔۔۔وہ اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔فائزہ بھی انہی کی طرف متوجہ ہو چکی تھی۔
آئیے بیٹھیے نا۔
وہ صوفے پر بیٹھ گئے۔
اپنی غلطی کا احساس ہوا تو میں معافی مانگے بنا نہ رہ سکا۔
میں ہمیشہ امیر غریب میں فرق کرتا رہا کبھی یہ نہ سوچا کہ اس دولت سے زیادہ اپنوں کی خوشیاں اہم ہیں مگر آج مجھے احساس ہو گیا ہے۔مجھے تمہارے انتخاب پر فخر ہے۔
عرفان کو جاوید صاحب کی باتیں سن کر خوشی ہوئی اور فائزہ کو بھی۔وہ بہت سی غلطیوں کا اعتراف کر رہے تھے۔
اپنے باپ کو معاف نہیں کرو گے تم دونوں۔انہوں نے ندامت سے ہاتھ جوڑ دیے۔فائزہ نے جلدی سے ان کے ہاتھ تھامے۔
انہوں نے دونوں کو گلے لگایا اور صدا خوش رہنے کی دعائیں دیتے ہوۓ باہر نکل گئے۔۔