بیسویں صدی میں آبادی بڑھنے کی رفتار اتنی تیز کیوں ہو گئی؟ اس سے پہلے ایسا کیوں نہیں ہوا؟ اور مستقبل میں یہ کیا رہے گا؟
ایک شرح لوگوں کے دنیا میں آنے کی ہے (شرحِ پیدائش) اور ایک شرح دنیا سے جانے کی (شرحِ اموات)۔ جب دونوں برابر ہوں تو آبادی ایک سطح تک رہتی ہے۔ ان میں فرق آ جائے تو اضافہ یا کمی ہونے لگتی ہے۔ اور ایک بار یہ کم یا زیادہ ہو جائیں تو وہ آبادی اگلی سطح بن جائے گی، خواہ شرح میں اس فرق کو ختم کر بھی لیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ابتدائی برسوں سے لے کر انیسویں صدی تک شرحِ پیدائش اور شرحِ اموات، ان دونوں کی اوسط بلند تھی۔ ایک خاتون کے اوسط بچے آج کے مقابلے میں زیادہ ہوتے تھے لیکن ان کے بڑھاپے تک پہنچنے کا امکان بھی کم تھا۔ صنعتی دور سے قبل قحط، جنگ اور بیماریاں شرحِ اموات کو بلند رکھتی تھیں۔ نتیجے میں، عالمی آبادی کے بڑھنے کی رفتار زیادہ نہیں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انیسویں صدی کے آخر میں یہ تبدیل ہونے لگا۔ مغربی یورپ، شمالی امریکہ اور جاپان میں خوراک کی پیداوار اور تقسیم میں مشینوں کی آمد نے قحط سے ہونے والی اموات کم کر دیں۔ مضبوط مرکزی حکومتوں کے ابھرنے کا مطلب یہ نکلا کہ مقامی جنگوں کی تعداد کم ہو گئی۔ نئے میڈیکل پروسیجر، ادویات اور ہائی جین نے شرحِ اموات گرانا شروع کر دی۔ لیکن شرحِ پیدائش میں کمی ہونے کی رفتار کم تھی۔ کلچرل توقعات اور معمولات آسانی سے نہیں بدلتے۔ انسانی آبادی کا ٹیک آف ہو گیا۔ 1950 میں نیویارک پہلا شہر تھا جہاں آبادی ایک کروڑ تک پہنچ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ صرف صنعتی دور مشین اور ادویات لے کر آیا بلکہ اس کی وجہ سے لوگوں نے شہروں کا رخ کیا۔ آہستہ آہستہ لوگ چیزیں خود اگانے یا بنانے کے بجائے اشیا خریدنے لگے۔ گھروں کی قیمت چڑھنے لگی، معیشت بڑھنے لگی۔ خواتین زیادہ تعداد میں کالج اور دفاتر کا رخ کرنے لگیں۔ اس کا مطلب یہ نکلا کہ بچوں کی تعداد گرنے لگی۔ خاندانوں کے سائز سکڑنے لگے۔ جب یہ اتنی کم ہو جائے کہ پیدائش اور موت کی شرح برابر ہو جائے تو آبادی میں اضافہ ہونا بند جائے گا۔ صنعتی معاشرے اس سائیکل سے گزر چکے ہیں۔ اور اب چھوٹے، غریب، کثرت الاولاد اور اموات کی بھرمار کے بجائے یہ بڑے، امیر، طویل عمر رکھنے والے اور کم بچوں کے خاندانوں والی سوسائٹی میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
واقعات کی یہ زنجیر، جس میں آبادی میں پہلے تیز اضافہ ہوتا ہے، پھر یہ جدت کی قوتوں کی وجہ سے مستحکم ہوتا ہے “demographic transition” کا عمل کہلاتا ہے اور یہ ڈیموگرافکس کے علم کا کلیدی تصور ہے۔
اور اس میں آبادی کی رفتار کے حوالے سے دو الگ تبدیلیاں ہیں۔ شرحِ اموات میں کمی اور شرحِ پیدائش میں کمی۔ یہ اکٹھی نہیں ہوتیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ میڈیسن اور خوراک کی پیداوار میں ٹیکنالوجی کی جدت کو بہت جلد قبول کر لیتے ہیں۔ اس وجہ سے شرحِ اموات تیزی سے گرتی ہے۔ لیکن شرحِ پیدائش کی کمی کے وجہ تعلیم میں اضافہ، خواتین کو پاور دینا، شہری طرزِ زندگی، فیملی پلاننگ کے طریقوں تک رسائی، چھوٹی فیملی کی سماجی قبولیت اور دوسرے کلچرل تبدیلیاں سست رفتار ہیں اور زیادہ وقت لیتی ہیں۔ اس کی وجہ سے تیز رفتار اضافہ اور پھر بڑھی ہوئی آبادی کی تعداد میں استحکام نظر آتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیسویں صدی میں، ایک ڈیموگرافک ٹرانزیشن مکمل ہوئی لیکن ایک دوسری شروع ہوئی۔ یورپ اور شمالی امریکہ میں اس تبدیلی میں 1750 سے 1950 کا عرصہ لگا۔ اس دوران یہاں آبادی میں بہت اضافہ ہوا جبکہ ایشیا اور افریقہ میں یہ اضافہ سست رفتار تھا۔ جب صنعتی ممالک نے اپنی ٹرانزیشن مکمل کر لی تو ان میں اضافے کی شرح صفر کے قریب آ چکی تھی۔
لیکن ترقی پذیر دنیا میں یہ سائیکل تاخیر سے شروع ہوا۔ ویکسین، اینٹی بائیوٹکس، ملیریا کی روک تھام جیسے اقدامات سے اموات تو بہت کم ہو چکیں لیکن پیدائش کی شرح میں کمی آہستہ ہے۔ کئی ممالک میں یہ ابھی کم ہونا بھی شروع نہیں ہوئی۔ اور یہاں پر ایک سوالیہ نشان بھی ہے۔ کہ آیا یہ ہر جگہ پر یہ مغربی دنیا کی طرح ہی ہو گا یا نہیں۔ اگرچہ زیادہ تر جگہوں پر شرحِ پیدائش میں کمی ہو رہی ہے لیکن فرق ابھی بہت ہے۔ اور دوسری ڈیموگرافک ٹرانزیشن ختم ہونے میں وقت لے گی۔ اس لئے اگلی چند دہائیوں تک عالمی آبادی میں اضافہ جاری رہے گا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...