بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم: اس کے معنی ہیں ’اللہ، رحمٰن، رحیم‘ کے نام سے، یہ اس کا ترجمہ ہے۔ یہ فقرہ پورا نہیں ہے۔ شروع، آغاز، ابتدا ’اللہ، رحمٰن، رحیم‘ کے نام سے ہے، یہاں ابتدا محذوف ہے۔ میں ابتدا کرتا ہوں ’اللہ، رحمٰن، رحیم‘ کے نام سے یا میں شروع کرتا ہوں ’اللہ، رحمٰن، رحیم‘ کے نام سے یا شروع ’اللہ، رحمٰن، رحیم‘ کے نام سے یا ابتداء ’اللہ، رحمٰن، رحیم‘ کے نام سے ہے۔
یہاں غور کرنا چاہیئے کہ ابتداء جو ہے ہر شئے کی ابتدا اللہ، رحمٰن، رحیم کے نام سے ہے اللہ، رحمٰن، رحیم کی ذات سے ابتداء نہیں ہے۔ جیسے یہ روشنی فرش پر پڑ رہی ہے اس کی ابتداء کس سے ہے؟ سورج سے۔ سورج میں جو روشنی ہے اس کی ذات سے ہے، جونہی اس کی ذات یہاں محقق ہو گی ویسے ہی یہ روشنی یہاں محقق ہو جائے گی۔ اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات سے ابتداء ہوتی تو جس وقت سے اللہ تبارک و تعالیٰ ہے اسی وقت سے یہ ہر شئے موجود ہو جاتی۔
ہمارا اور کائنات کا وجود خدا کی ذات سے وابستہ نہیں ہے۔ یاد رکھو یہ اُنہیں دھوکوں میں سے ایک دھوکا ہے جو شیطان نے دیئے ہیں۔ انہیں دھوکوں میں سے ایک یہ قسم ہے جس میں بڑے بڑے جلیل القدر عُقلاء مبتلا ہوئے اساطینِ حکمت، فیثاغورث، سقراط، افلاطون ہے، جلیل القدر حکماء اور سب اسی گمراہی میں مبتلا ہوئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات کا یہ کائنات نتیجہ ہے، یہ غلط ہے ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ اگر ذات سے ہو گا تو جب سے وہ شئے ہو گی جس کا یہ اثر ہے اسی وقت سے یہ اثر ہو گا، یہ نہیں ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ تھا اور کوئی شئے نہیں تھی، عالَم نہیں تھا تو معلوم ہو گیا کہ خدا کی ذات کا یہ نتیجہ نہیں ہے۔ دوسری چیز یہ ہے کہ ابتداء جو ہو گی خدا لا ابتداء ہے، لا ابتداء سے ابتداء کیسے ہو سکتی ہے؟ مخلوق میں ابتداء کی صلاحیت نہیں، کیونکہ جس جگہ سے آپ شروع کریں گے یہاں اس سے قبل جو ہو گی کوئی شئے موجود ہو گی یا اگر معدوم ہو گی تو اس شئے کا عدم اس پر مقدم ہو گا۔ کائنات میں سلسلہ کہیں تک لے جائیں جس جگہ سے وہ شروع ہو گا اس کی ابتداء سے قبل ضرور ہو گی، اس لئے اس میں تو ابتداء کی قابلیت ہی نہیں اور خدا میں یوں ابتداء کی قابلیت نہیں کہ وہ لا ابتداء ہے۔
تو اب ابتداء ہو تو کیسے ہو؟ کائنات کا وجود محقق ہو تو کیسے ہو؟ تو اس نے کہا کہ یہ تدبیر کرو کہ ایک بین بین چیز نکالی جو اسم ہے جو اس کا اسمِ مبارک ہے، وہ کیا ہے؟ واحد اور احد یہ اس مقدس وحدہ لاشریک کا اسم ہے، بغیر واحد کے کوئی شئے متحقق نہیں ہو سکتی۔ یہ لکڑی جب تک ایک نہ ہولے ہونے ہی کی نہیں، یہ ٹوپی جب تک یہ ایک نہ ہو پہلے اس کا وجود نہیں ہو سکتا جہان میں کہیں نہیں پائی جا سکتی۔ یعنی بغیر واحد کے وہ شئے بغیر وحدت کے ہو ہی نہیں سکتی، وجود ہو ہی نہیں سکتا۔ تو ہر شئے کے وجود کو وحدت گھیرے ہوئے ہے، گھیرے ہوئے نہیں بلکہ وہ اس کا عین ہے، اس کی حقیقت ہے اس واحد کے بغیر وہ شئے متحقق نہیں ہونے کی۔ تو ہر شئے کی ابتداء اور وجود اور تحقق اسی واحد کے اسم مبارک یعنی واحد سے ہے اور جہان میں کہیں بھی حقیقی واحد نہیں ہے، اصلی واحد وہی ہے۔
یہ ایک اُنگلی ہے لیکن یہ حقیقی ایک نہیں ہے، یہ تین پوروں کا مجموعہ ہے۔ تو اگر ’اُنگلی‘ اور ’ایک‘ دونوں ایک ہوں تو جو ’ایک‘ ہے وہ اُنگلی ہو جائے گا۔ یہ ایک ہے، یہ لکڑی تو یہ ایک لکڑی بھی بن جائے گی، تو معلوم ہوا کہ یہ حقیقی واحد نہیں ہے وہ تین ہیں۔ ایک تو ’ایک‘ اور ایک وہ شئے جس کی طرف آپ ’ایک اشارہ‘ کر رہے ہیں یعنی ’اُنگلی‘ اور ایک، واحد اور اُنگلی کے درمیان جو علاقہ اور نسبت ہے۔ تو جس شئے کو بھی آپ کہیں گے کہ یہ ایک ہے تو در حقیقت وہ تین ہوں گی۔ تو حقیقی واحد یہاں ہے ہی نہیں اور واحد ہونا ضرور چاہیئے۔ کیونکہ بغیر واحد کے کثرت ہو ہی نہیں سکتی، تو لابُد واحد اس کائنات سے باہ رہے، ان تمام کثرتوں کا وہی خدا ہے، وہی اس کائنات کا مالک و خالق اور رب ہے۔ اسی کے “اسمِ مبارک” کی برکت ہے کہ یہ کائنات کا وجود ہو گیا، وہ نہ ہوتا تو یہ نہیں ہوتی۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...