دوسرے ہی دن میں پرائیویٹ ہائی سکول کے پرنسپل وبھوتے کے دفتر پہنچ گیا۔ انھوں نے پوچھا، ’’کیوں رے، اتنے دن کہاں تھا؟ ہیں ؟‘‘
سنتے ہی مجھے رونا آ گیا۔
انھوں نے کہا، ’’اچھا اچھا، کوئی بات نہیں۔ رؤ مت، آ جاؤ۔ نیچے چوتھی جماعت میں بیٹھو اور دھیان سے پڑھائی کرو۔‘‘
میری تعلیم پھر سے باقاعدہ شروع ہو گئی۔
مجھے کھیل کود کا بھی کافی شوق تھا۔ ہم بہت سارے طالب علم گاؤں کے باہر والے گھاس کے میدان میں شام کو کھیلنے جایا کرتے۔ وہاں کرکٹ، ہاکی، فٹ بال وغیرہ کھیل کھیلا کرتے تھے۔
ایک بار کرکٹ کی بیٹ ہاتھ میں لے کر میں بڑی اکڑ سے سٹمپس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ پہلی ہی گیند اتنی سنسناتی ہوئی آئی کہ سیدھی میری پنڈلی پر آ لگی۔ درد جھنجھناتا ہوا سر تک پہنچ گیا۔ میں درد کے مارے ایک دم بیٹھ گیا۔
اُس دن سے لیدر بال کا ڈر من میں بیٹھ گیا۔ پھر بھی ڈرپوک کہلائے جانے کے ڈر سے میں اپنے آپ پر کرکٹ کھیلنے کی زبردستی کرتا رہا۔ لیکن بلّے بازی کرنے جب جب جاتا، اور سامنے والے سرے سے گیند پھینکی جاتی، تو ڈر کے مارے میری آنکھیں اپنے آپ مُند جاتیں۔ پھر بلّا انداز ے سے اوپر اوپر ہوا میں ہی گھوم جاتا، گیند سے اُس کی ملاقات ہی نہ ہوتی۔ بلّا اِدھر اُدھر گھوما اور گیند پیچھے وکٹ کیپر کے ہاتھوں میں پہنچ جاتی۔ کبھی کبھی تو گیند میرے بلے سے ہی کافی دور سے ہی چلی جاتی۔ کبھی بھولے سے بلے پر آ بھی جاتی، اُوٹ پٹانگ ڈھنگ سے میں اُسے مارتا، تو کیچ لے لیا جاتا، تو کبھی میرا بلا جہاں کا تہاں دھرارہ جاتا اور گیند سٹیمپس گرا کر چلی جاتی۔
ایک دن شام کو اپنے مِتروں کے ساتھ کھیل ہم واپس آ رہے تھے۔ ایک متر نے کہا، ’’بھائی، بات کیا ہے؟ گیند کو بلے سے پیٹنے کے بجاے تم تو ہر بار آنکھیں بند کر لیتے ہواور اسی لیے جلدی آؤٹ ہو جاتے ہو۔‘‘ اُس وقت میرا جواب تھا: ’’کیا بتاؤں یار، کی ماں کو، اماں کی ماں کو۔۔۔ پہلے دن ہی کی بات ہے، کی ماں کو۔۔۔ وہ پتھریلی لیدر کی گیند، کی ماں کو۔۔ سیدھی میری پنڈلی پر اتنے زور سے آ لگی کہ۔۔ کی ماں کو۔۔۔ مجھے تو چکر ہی آ گیا۔ اچھا۔۔ کی ماں کو۔۔ میں کرکٹ کھیلنا بند کر دیتا تو کی ماں کو۔۔ منھ بنا کر میری کھِلّی اڑاتے۔۔۔۔‘‘
میرے متر مجھے دیکھ کر زور زور سے ہنسنے لگے۔ جھنجھلاہٹ میں کچھ چمک کر میں نے پوچھا، ’’کی ماں کی کو۔۔ میں اتنے من سے سب کچھ بتا رہا ہوں، اور کی ماں کی، تم سب لوگ اِس طرح ہنسے جارہے ہو؟‘‘
اس پر ہماری ٹولی میں سے ایک نے ہنستے ہنستے کہا، ‘‘کاش، تم نے ابھی جتنی بار کی ماں کو، ماں کو، کی ماں کو، کہا ہے، اُس سے آدھی بار بھی بلے سے گیند کو مارا ہوتا! یہ کیا رٹ لگا رکھی ہے کی ماں کو، کی ماں کو؟‘‘
اپنے متروں کی صلاح پر میں نے اِس ’کی ماں کو‘ کا ساتھ چھوڑنے کی بڑی لگن سے کوشش کی، کافی حد تک کامیاب بھی رہا، لیکن آج بھی اچانک کبھی کبھار وہ اپنا وجود جتاہی جاتی ہے۔
اُس کے بعد دھیرے دھیرے میں نے کرکٹ کھیلنا چھوڑ کر فٹ بال کھیلنا شروع کیا۔ ایسے گندھروناٹک منڈلی میں ہی فٹ بال کھیلنا سیکھ گیا تھا۔ ایک بار کمپنی ناگپور میں تھی۔ میں نے فٹ بال کھیلتے وقت اتنے زور سے کک ماری تھی کہ میرے بائیں پاؤں کی چھوٹی انگلی کا ناخن جڑ سے اکھڑ کر الٹ گیا تھا۔ اُس کے بعد سکول میں میں نے کافی مہارت حاصل کر لی تھی۔
انہی دنوں مجھے تیرنے کا بھی کافی شوق ہو گیا۔ ایک بار ناٹک منڈلی ناسک میں تھی، تب گوداوری میں میں نے تیرنا سیکھ لیا تھا۔ کولھاپور میں ایک بڑا تالاب ہے، اُس کا فریم دو ڈھائی میل کا ہے، کچھ ماہر تیراک ایک ہی دم میں تالاب کا پورا چکر تیرکر لگا جاتے۔ دھیرے دھیرے مشق بڑھا کر میں بھی ایک ہی دم میں تالاب کا پورا چکر کاٹنے لگا۔ لیکن بعد میں اتنی بھوک لگتی کہ پریشان ہو جاتا۔ رنکالا سے واپسی پر مائی کا گھر پڑتا تھا۔ بھوک جب بےقابو ہو جاتی، میں سیدھے مائی کی رسوئی میں پہنچ جاتا اور پِیڑھا لگا کر بیٹھ جاتا۔ مائی فوراً ہی مجھے جوار کی گرم گرم روٹیاں اور ساگ پروستی۔ بڑی ممتا سے کھلاتی۔ لیکن اِس طرح ہر روز مائی کے یہاں جانا اچھا بھی نہیں لگتا تھا۔ تیر کر گھر لوٹ جانے پر میں ہر کھانے میں باجرے کی بڑی بڑی دو ڈھائی روٹیاں ڈکوسنے لگ گیا۔ لیکن میں نے اندازہ کیا کہ گھر کے باقی سارے لوگ آدھی پون روٹی پر گزارہ کر لیتے ہیں، میرا دو ڈھائی روٹیاں اکیلے کھانا ٹھیک نہیں۔ میں نے تیرنے جانا بند کر دیا۔
لگ بھگ انہی دنوں کولھاپور میں سنیما کا تھیٹر بن گیا تھا۔ ناٹکوں کی نمائش جس شِواجی تھیٹر میں ہوا کرتی تھی اُسی میں تبدیلی کر اب سنیما دکھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ جیسے شِواجی تھیٹر کی کایاکلپ ہی ہو گئی تھی۔ کولھاپور میں دو پینٹر بھائی تھے، آنند راؤ اور بابو راؤ۔ دونوں پینٹر بھائیوں نے اپنے تخیل کا پورا پورا استعمال کر کے تھیٹر کی اندرونی سجاوٹ کو پوری طرح بدل ڈالا تھا۔ لگتا تھا شِواجی تھیٹر ایک دم نیا بن گیا ہے۔ اس کام میں کولھاپور کے ایک کپڑے کے بیوپاری واشیکر نے پونجی لگائی تھی اور سنیما کے لیے ساری ضروری مشینری خرید کر لے آئے تھے۔ انھوں نے شِواجی تھیٹر کا نام بدل ڈالا تھا۔ اب وہ ’’ڈیکن‘‘ (Deccan) سنیما کے نام سے جانا جانے لگا۔
اس سے پہلے، یعنی میں جب دس گیارہ سال کا تھا، کولھاپور کے دادُو لوہار بمبئی سے سنیما دکھانے کی ایک چھوٹی سی مشین خرید لائے تھے۔ اس پر دادُوجی ایک اکھنڈ جڑا تصویروں کا فیتہ چڑھاتے۔ پھر اُس مشین کا ہینڈل ہاتھوں سے گھما کر سامنے والے پردے پر اُس تصویری فیتے کے منظروں کو دکھاتے۔ تصویری فیتے کے پیچھے ایک دیا ہوتا تھا۔ اُس دیے کی روشنی فلم کے فیتے پر پڑتی اور سامنے لگے شیشوں کے لینز سے گزر کر آگے کچھ فاصلے پر لگائے گئے چھوٹے سے پردے پر انہی منظروں کو دکھاتی تھی۔ اُن دنوں اِن چلتی تصویروں کو دیکھ کر لوگوں کو بڑا مزہ آتا تھا۔ دادُو لوہار یہ سنیما دکھانے کے لیے ایک پیسہ، دو پیسہ ٹکٹ لیا کرتے تھے۔ اُس ہینڈل کو ایک ہی رفتار میں بِنا جھٹکا دیئے گھمانا میں نے سیکھ لیا تھا۔
اس مشین پر دکھائی جانے والی ایک فلم میں ایک ماں اپنے بچے کو چمچ سے کچھ کھلا پلا رہی ہے، ایسا سین تھا۔ پوری فلم میں وہ عورت بس یہی کرتی ہے۔ ایک اور فلم تھی، جس میں ایک مرد ایک عورت کو لگاتار چومتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ سنیما دکھانے کے اِس سٹائل میں بعد میں میں طرح طرح کے تجربے کرنے لگا۔ خصوصاً اس چومنے والی فلم کو شروع میں بہت دھیمی رفتار سے گھماتا اور بعد میں ہینڈل گھمانے کی رفتار بڑھاتا جاتا۔ نیتجتاً آخر میں میں تھوڑا فٹافٹ چومتا دکھائی دیتا تھا۔ اس پر لوگوں میں ہنسی کے فوّارے چھوٹتے تھے۔
سنیما کا یہ طریقہ فلم تو نہیں کہا جا سکتا تھا، ہاں اُسے تصویری پٹی یا فیتے کہنا مناسب ہو گا۔ آج کی فلموں کے مقابلے میں اُس سنیما کی حالت گھٹنے کے بل چلنے والے بچے جیسی تھی۔
کولھاپور میں بنے نئے ڈیکن سنیما میں ’’پروٹیا‘‘ نامی ایک غیرملکی خاموش فلم قسط وار دکھائی جاتی تھی۔ اِس میں پراسرار عورت کا کردار اہم تھا۔ اُسی عورت کے نام پر خاموش فلم کو ’’پروٹیا‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ یہ پروٹیا پوری فلم میں کالے رنگ کے تنگ کپڑے پہن پہن کر کام کرتی تھی۔ یہ خاموش فلم اُن دنوں کولھاپور میں کافی مقبول ہو گئی۔ ہم بہن بھائیوں نے دیکھی۔ اور بھی ایک دو فلمیں دیکھی تھیں۔ اصل میں بات یہ تھی کہ اتنی ساری فلمیں دیکھنے کی ہم لوگوں کی حیثیت نہیں تھی، پھر بھی ہمارے ماں باپو جتنا ہو سکے وہاں تک، لاڈپیار میں ہم بچوں کی فرمائشیں، ضرورتیں برابر پوری کرتے تھے۔
باپو کی فطرت میں کچھ حجاب تھا۔ اُس کا ناجائز فائدہ اٹھا کر کافی گاہک دکان سے مال ادھار لے جاتے۔ ناٹک کمپنیوں کو تو کریانہ مال اور پیٹرومیکس ادھار دینا پسند کرتے تھے۔ پھر اُن لوگوں کا یہ حال ہوتا کہ کولھاپور سے چلتے وقت کہہ دیتے، ’’ارے راجا رام باپو، کوئی پرائے تھوڑی ہی ہیں، اپنے ہی آدمی ہیں۔ اُن کے پیسے اگلے مرحلے پر دے دیں گے۔ ‘‘ اور بس چلتے بنتے۔ لہٰذا کئی بار باپو اپنے پیسے وصولنے کے لیے ناٹک کمپنی کے پیچھے پیچھے دھول چھانتے پھرتے تھے۔ یہ بات مجھے آج بھی یاد ہے، جیسے کام پر باپو جب گاؤں سے باہر جاتے تو دکان میں کام کرنے والے نوکر کی اچھی بن آتی تھی۔ دکان کا مال چوری چھپے بیچاجاتا۔ اُس سے آنے والے پیسے خود ہی خرچ کر ڈالتا۔ اِن سبھی وجوہات کی بناء پر ہم لوگوں کو غریبی روز بہ روز زیادہ ہی محسوس ہونے لگی تھی۔
ایسی حالت میں میرے من میں آنے لگا کہ کسی طرح کچھ کام کر کے گھر گرہستی چلانے میں باپو کی مدد کرنی چاہیے۔ گرمی کی چھٹیوں میں ’شری وینکٹیشور پریس‘ میں،میں نے کمپوزیٹر کا کام کرنا شروع کر دیا۔ پہلے پندرہ دنوں میں میں نے سیاہی کا رولر چلانا اور ٹائپ جمانا سیکھ لیا۔ یہاں میں نے مہینے بھر کام کیا۔ اس کے لیے مجھے چھ روپے ملے۔ بعد میں ہر سال گرمی کی چھٹیوں میں میں چھاپاخانے میں یہ کام کیا کرتا تھا۔ بدلے میں حاصل پیسوں سے میرے سکول کی کاپیوں اور کتابوں وغیرہ کا خرچ تھوڑا بہت نکل آتا تھا۔
گندھرو ناٹک منڈلی میں رہ کر بال گندھرو کی مُدھر اور سریلی آواز میں گائیکی لگاتار سننے کو ملتی تھی۔ نیتجتاً سنگیت میں میری بھی دلچسپی ہو چلی تھی۔ دیول کلب میں گانے بجانے کی محفل ہمیشہ کی طرح ہوتی تھیں۔ کولھاپور دربار کے سنگیت رتن استاد اللہ دیا خاں صاحب کا گانا کلب میں ہوتا، تو نہ صرف کلب کھچاکھچ بھر جاتا بلکہ سیڑھیوں پر اور سڑک پر بھی لوگ کھڑے ہو کر اُن کا گانا سنا کرتے تھے۔ سنگیت کے ایسے پروگرام سن کر مجھے کلاسیکل سنگیت اچھے لگنے لگے تھے۔ رحمت خان، بھاسکربوابکھلے، عبدالکریم خان، سوائی گندھرو وغیرہ گائیک فنکاروں کا گانا مجھے پسند آنے لگا تھا۔ پھر بھی ستار اور ہارمونیم کے پروگرام مجھے بہت زیادہ بھاتے تھے۔ کئی بار گوبند راؤ ٹینے کے کولھاپور آنے پر اُن کے ہارمونیم بجانے کے پروگرام بھی ہوا کرتے تھے۔ لوگوں کے اصرار پر وہ کبھی کبھی ہارمونیم کے سُروں میں خود دبی آواز میں گا بھی لیا کرتے تھے۔ ہارمونیم کے سُروں کے ساتھ وہ اپنا سُر اتنا بڑھیا ملا دیتے تھے کہ سامعین داد دیے بغیر نہیں رہتے۔
ایسی محفلوں میں تانپورے پر بیٹھنے کے لیے کوئی نہ ملا تو مجھے ہی پکڑ بیٹھایا جاتا۔ منع کرتا بھی کیسے؟ مشہور گندھرو ناٹک منڈلی کی مہر جو مجھ پر لگی تھی! تانپورے پر بیٹھنے کی بوریت سے اپنا الاپ چھڑانے کے لیے، پروگرام شروع ہونے سے پہلے ہی میں کسی بڑے سے کھمبے کے پیچھے چھپ کر بیٹھتا۔ لیکن تبھی سامنے سے بابا دیول پکارتے، ’’ارے شانتارام، چلو آؤ، اٹھاؤ تانپورا۔‘‘ پھر میری کون سنتا؟ ہم تانپورا سنبھالنے کے لیے سٹیج پر پہنچ ہی جاتے۔ اس طرح زبردستی تانپورا بجاتے بجاتے میں تانپورا بجانے میں ماہر ہو گیا۔ (یہ دوسری بات ہے کہ تانپورا بجانا کچھ بھی مشکل نہیں!)
دیول کلب میں ہونے والے پروگروموں کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے بابا دیول کے من میں آیا کہ کیوں نہ کلب کی کوئی اپنی خودمختار عمارت ہو! بس، من میں آنا ہی تھا کہ انھوں نے اِس عمارت کے فنڈ کے لیے کلاسیکل موسیقی اور گائیکی کا ایک جلسہ منعقد کیا۔ جلسے کے بعد دیول جی نے اور رقم جمع کرنے کی غرض سے کلب کی طرف سے سٹیج پر ’وینور‘ نامی ناٹک پیش کرنےکا فیصلہ کیا۔اس ناٹک کے ایک زنانہ کردار کے لیے مجھے چنا گیا۔ ناٹک منڈلی میں سال بھر کام کرنے کی وجہ سے اب ساڑھی باندھ کر کام کرنے میں مجھے کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی تھی۔اس ‘وینود’ نامی ناٹک میں نوجوان رادھا کے نثری مکالمے کا رول میں بہت ہی چستی سے کی کرتا تھا۔ اس ناٹک کو کولھاپور اور سانگلی میں تین بار پیش کیا گیا۔ دیول کلب کی عمارت کے چندے کے لیے پیسہ اچھا اکٹھا ہوا۔ اِس ناٹک میں میری چست اور جاندار اداکاری دیکھ کر ہی آگے چل کر کولھاپور کی ایک شوقیہ ناٹک کمپنی نے ’مان اپمان‘ ناٹک میں مجھے بھامنی کا کردار دینا طے کیا۔ اِس کردار میں کام کرنے کے لیے مجھے ایک ناٹک کے پورے بیس روپے ملتے تھے۔ لیکن دو بار سٹیج ہونے کے بعد ہی یہ ناٹک بند ہو گیا۔
اُسی وقت روٹین کی زندگی میں ایک واقعہ ہوا۔ اُسے کیا کہا جائے،عجیب یا سکھ دینے والا؟ پتا نہیں۔ لیکن وہ ایک دم بےوقت پیش آیا۔ میں گندھرو ناٹک منڈلی میں تھا، تب ہماری ہی کمپنی میں کام کرنے والے ایک خاندان کے ساتھ میرا تعارف ہو گیا تھا۔ اُس خاندان میں ایک دس گیارہ سال کی لڑکی تھی۔ اُس کا نام بڑا میٹھا تھا، ’’چیتی‘‘۔ میں اسے’’چیتا‘‘ کہا کرتا تھا۔
اس وقت میں تیرہ سال کا تھا۔ یہ لہنگا پہننے والی چیتی کئی بار ہمارے گھر آئی تھی۔ ہمارے مکان میں اوپری منزل پر ایک چھوٹی سی کوٹھری تھی۔ کئی بار بےسبب ہی اس کوٹھری میں آ کر چیتی چہکتی رہتی۔ میں اس کو نظرانداز کرتا اور سامنے رکھی کتاب پر بہت زیادہ دھیان دینے کی کوشش کرتا رہتا تو پھر ہار کر وہ مجھے ٹکٹکی باندھے دیکھتی رہتی تھی۔ اُس کی نگاہ بڑی نوکیلی تھی۔ لگتا تھا وہ مجھے چبھتی جا رہی ہے۔ اس پر میں سوچتا کہ اُس کی اِس نظر سے تو اُس کا پُھدک پُھدک کر چہچاتے رہنا ہی اچھا ہے۔ ایک دن اُس کی نظر ناقابلِ برداشت ہونے کی وجہ سے غصے میں میں نے اُس کا ہاتھ پکڑا اور زور سے مروڑ دیا۔ میرا خیال تھا کہ اب وہ چیخے گی، چلّائے گی۔ لیکن الٹا وہ ایک دم مجھ سے لپٹ گئی۔ لگا، جیسے کوئی ملائم چڑیا ہو! اُس کے جسم کی گرماہٹ، ملائم کوملتا مھے بہت ہی بھا گئی۔ میں نے بھی اُسے کس کر بانہوں میں سمیٹ لیا۔ اُس کی وہ تھوڑی سی شرماہٹ اپنی سی لگی۔ ہم نے لگاتار ایک دوسرے کو چومنا شروع کیا، چومتے ہی رہے۔
اُس کے بعد کئی بار دوپہر کی تنہائی میں وہ ہمارے یہاں آتی۔ میں بھی من ہی من میں اُس کا انتظار کرتا رہتا۔ وہ تب آتی جب گھر میں کسی کا آنا جانا نہ ہوتا، تو ہم دونوں کبوتر کے جوڑے کی طرح ایک دوسرے کو مضبوط حصار میں جکڑ لیتے۔ پھر کچھ دنوں بعد مالی مشکلات کے باعث ہم لوگوں نے اس گلی کا مکان چھوڑ دیا اور کہیں دور چلے گئے۔ تب سے وہ پھر کبھی مجھ سے نہیں ملی۔ چیتی آج اس دنیا میں ہے بھی یا نہیں، میں نہیں جانتا۔ لیکن اُس کے اُس پہلے (ملاپ؟) کی یاد آج بھی میرے دل کو گرماتی ہے۔
میری پڑھائی آگے جا رہی تھی۔ ہر سال جیسے تیسے پاس ہو کر میں اگلی جماعت میں جاتا تھا۔ انہی دنوں مجھے سکول کی کتابوں کے علاوہ کچھ پڑھنے کا شوق ہو گیا۔ دوستوں، پڑوسیوں اور سکول سے جو کتابیں مل سکتی تھیں، سبھی لا کر میں نے پڑھ ڈالیں۔ ایساپنیتی، پنج تنتر، ٹھکسین کی کہانیاں، الف لیلہ وغیرہ۔ تخیلاتی کتابیں پڑھنے سے زیادہ پڑھنے کا شوق پیدا ہو گیا۔ اسے پورا کرنے کے لیے میں کولھاپور کی ’نیٹو لائبریری‘ کا ممبر بن گیا۔ دکھی کتابیں پڑھ کر میرا من بہت دکھی ہوتا۔ اِس لیے کتاب پڑھنا شروع کرنے سے پہلے میں دیکھ لیتا، اُس کا اختتام کیسے کیا گیا ہے اور اگر دکھی ہو تو بنا پڑھے واپس لوٹا دیتا۔ میں کیا پڑھتا ہوں، اِس پر میری ماں کا باریکی سے دھیان برابر رہتا۔ وہ ایک جماعت انگریزی بھی پڑھے ہونے کی وجہ سے میری لائی ہوئی کتابوں کے کچھ صفحے پلٹ کر ضرور دیکھ لیتی۔ من چلے ہیجانی ناولوں کا سایہ بھی مجھ پر پڑنے نہیں دینا چاہتی تھیں۔
رامائن، مہابھارت، بھگوت وغیرہ مذہبی کتابیں بھی میں نے پڑھ ڈالی تھیں۔ ہری نارائن آپٹے کے مقصدی شِوکالین (مذہبی) ناول بڑے چاؤ سے پڑھ کر پورے کیے تھے۔ دکھی کہانیوں اور ناولوں کو دور سے ہی سلام کرنے والا میں، ہری نارائن آپٹے کا ’’لیکن دھیان کون دیتا ہے؟‘‘ (پن لکشات کون گیتو؟) ناول جو سماج کے سلگتے مسائل پر مبنی دل کو چھو لینے والی دکھی کہانی ہے، بغور آخر تک پڑھ گیا۔ بیواؤں کا سر منڈوانا، جرٹھ کماری ویواہ (ادھیڑ عمرعورت کی شادی)، عورتوں کی خواندگی وغیرہ مسائل کو افادی ڈھنگ سے چھو لینے والا یہ ناول کئی سالوں تک میرے من میں آسن جمائے رہا۔ ’’چار آنے کتھا مالا‘‘ میں چھپنے والی ’سنہری گروہ‘ کہانیاں پڑھنے میں مجھے کافی لطف آتا تھا۔ ہر روز میں بلاناغہ بلونت کولھاپور کا ’’سندیش‘‘ اور مشہور بال گندھرو تلک کا ’’کیسری‘‘ برابر پڑھتا رہتا تھا۔ انھیں یا تو لائبریری سے لا کر پڑھتا یا پڑوسیوں سے مانگ کر۔ ’سندیش‘ میں ہمیشہ سنسنی خیز خبریں اور چٹ پٹے مضمون ہوا کرتے تھے۔ ’کیسری‘ میں علمی اور عصری سیاست پر مبنی مضمون ہوا کرتے تھے۔ اُن مضامین اور سیاست کا راز اپنی سمجھ میں کوئی خاص نہیں آتا تھا، لیکن پھر بھی ’کیسری‘ معمول کے مطابق پڑھتا تھا۔
کچھ اور بڑا ہو جانے پر میں نے وشنو شاستری چِپلونکرکے مضامین، تلک کے گیتا رہیسے (گیتا کا راز)، استقامت کے ساتھ پورا پڑھ لیا۔ اِن کتابوں میں لکھی باتیں پوری طرح میری سمجھ میں تب تو نہیں آتی تھیں۔ پھر بھی انجانے میں گیتا کا درشن (فلسفہ) کہیں جڑ پکڑ گیا۔ کُرمنیے وادھی کراستے ماپھایشو کداچن (’’کام کرنا تمھارے بس میں ہے، اس کا پھل تمھارے بس میں نہیں اس لیے اپنا فرض نبھاؤ اور انجام ایشورپر چھوڑ دو‘‘) کی سیکھ میرےکورے من پر کافی گہری چھاپ نقش کر گئی۔
ان اچھے گرنتھوں کی طرح میرے جسم کی ساخت بناوٹ کے برعکس نتیجہ خیز، عجیب عجیب کتاب بھی ان دنوں میرے ہاتھ لگی۔ لائبریری کی کیٹلاگ میں ایک ویدِک طبی گرنتھ تھا۔ میں نے کافی جوش سے پڑھنے کے لیے اُسے لے لیا۔ لیکن یہ کہ گرنتھ میں جن روگوں کا جائزہ لیا گیا تھا، اُن میں ایک سے زیادہ روگوں کی کچھ نہ کچھ علامات میرے جسم میں موجود ہونے کا احساس مجھے ہونے لگا۔ مجھے یقین ہونے لگا کہ وہ تمام بیماریاں مجھے ہو گئی ہیں۔ میرے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ رنگت پھیکی پڑنے لگی۔ وزن گھٹنے لگا۔ روز بہ روز صحت گرنے لگ گئی۔ میری طبیعت خراب پا کر ماں نے مجھے ہومیوپیتھک ڈاکٹر پرابھاولکر کے پاس جانے کے لیے کہا۔ میرے پورے خاندان کو وہ ڈاکٹر بغیر فیس کے دوائیاں دیتے تھے۔
میں پرابھاولکر جی کے پاس گیا۔ انھوں نے میری صحت کا چھی طرح معائنہ کیا اور حیرت سے پوچھا، ’’کیوں رے، آخر تمھیں ہو کیا گیا ہے؟‘‘ میں نے کافی سنجیدگی سے انھیں اپنا درد بتایا اور یہ بھی بتا دیا کہ لائبریری سے لائے گئے اس گرنتھ میں بیان کردہ تمام بیماریوں سے میں روگی ہوں، ایسا مجھے ہر دن لگتا ہے۔ پرابھاولکر جی نے اچھی طرح سے دیکھا بھالا، پرکھا اور بتایا، ’’تمھیں کوئی بیماری نہیں ہے۔ ایک کام کرو، وہ جو کتاب لے آئے ہو نا تم۔ اُسے پہلے پھینک دو، اُس میں تم نے جو کچھ پڑھا ہے، پوری طرح بُھلا دو۔ تمھاری اِس بیماری کی اور کوئی دوا نہیں ہے، سمجھے؟‘‘
میں گھر واپس آ گیا۔ اس گرنتھ کو لائبریری میں واپس پہنچا دیا۔ لیکن اُس میں جو کچھ پڑھا تھا، اُسے بھلانے میں مجھے لگ بھگ ایک سال لگ گیا۔ پھر میری صحت دھیرے دھیرے ٹھیک ہونے لگی۔ تبھی ڈیکن سنیما کے مالک آنندراؤ پنیٹر اور واشیکر کے درمیان کچھ اَن بَن ہو گئی۔ واشیکر نے یہ کیا کہ تھیٹر میں لگی مشینری ہٹا کر سنیما کو کسی دوسرے گاؤں لے جایا جائے۔ ہمارے باپو اور واشیکر اچھے مِتر تھے۔ باپو نے میرے دادا کو سنیما کا انجن، پروجیکٹر وغیرہ کا کام سِکھانے کے لیے اُن کے پاس بھیج دیا۔
اِدھر ہماری کریانہ دکان کا دیوالہ نکلنے کو تھا۔ لوگوں کے پیسے چکانے میں دیری ہو رہی تھی۔ باہر پیٹرومیکس میں سے پانچ چھ خراب ہو گئے تھے۔ نتیجتاً وہ دھندا بھی ٹھیک سے چل نہیں رہا تھا۔ کوئی اور کام دھندا کرنا ضروری ہو گیا تھا۔ ڈیکن سنیما کے مالک واشیکر نے باپو کو کچھ کام دینا چاہا۔ باپو سے انھوں نے جاننا چاہا کہ کیا وہ ہُبلی میں اُن کے سنیما میں لیکھاجوکھا (حساب کتاب) لکھنےاور مارکیٹ لیڈر کا کام کرنا پسند کریں گے؟ باپو نے آج تک ہمیشہ خودمختار کاروبار ہی کیا تھا، سچ پوچھا جائے تو نوکری ان کے بس کا روگ نہیں تھا۔ پھر بھی شاید ہم سب کا خیال کر، انھوں نے ہُبلی جانا قبول کیا تھا۔
باپو نے کریانہ مال کی وہ دکان بیچ دی۔ جو رقم آئی اس میں سے لوگوں کا جو تھوڑا بہت پیسہ دینا تھا، دے دیا۔ ڈیکن سنیما میں نوکری کرنے وہ ہُبلی چلے گئے۔ ہمارا گھروندہ بکھر گیا۔ دادا پہلے ہی دوسرے گاؤں میں سنیما کی نوکری کرنے چلا گیا تھا۔ وہ وہاں بجلی پیدا کرنے والی مشین چلاتا اور سنیما چالو ہونے پر اُس کے سین پر پیانو بجاتا۔ ولایتی خاموش فلموں میں دی جانے والی معلومات انگریزی میں ہوا کرتی تھیں۔ عام ناظرین کی سمجھ میں وہ نہیں آ پاتیں۔ دادا اُن کا مراٹھی ترجمہ کر تھیٹر میں زوردار آواز میں اُن کی جانکاری دیتا۔ باپو اور دادا کو جو تنخواہ ملتی تھی اُس میں کھانے پینے اور رہائش کا نظام بھی شامل تھا، اس لیے کل تنخواہ میں سے اپنے خرچ کے لیے رکھ کر باقی سارا پیسہ وہ ہمارے لیے کولھاپور بھیج دیتے تھے۔ ہُبلی سے آنے والے پیسوں میں سے ہمیشہ ضروری پیسے ہی ہم لوگ گھر میں رکھتے۔ باقی سارا پیسہ لوگوں کا قرض چُکتا کرنے میں خرچ ہو جاتا۔ ماں تو اب بہت زیادہ محنت کرنے لگی تھیں۔ ہمارے نانا ہر روز کچہری جاتے، لیکن کبھی کبھار ہی ایک آدھ روپیہ کما لاتے۔ گھر آتے ہی فوراً وہ سب کاموں میں ماں کا ہاتھ بٹانے میں جٹ جاتے۔ میں بھی جو مجھ سے ہو سکے اپنی ماں کی مدد کیا کرتا۔ حالت اتنی بری ہونے کے باوجود میری اور میرے تینوں چھوٹے بھائیوں کی تعلیم جاری تھی۔
میں اب ساتویں میں تھا۔ ہماری کلاس اوپری منزل پر لگا کرتی تھی۔ کلاس کے باہر ہی چھجا بنا تھا، لیکن اُس میں کوئی دیوار یا جافری نہیں لگی تھی۔ ایک دن کی بات ہے، پتا نہیں کس دُھن میں میں کسی سے باتیں کرتے الٹا پیچھے پیچھے جا رہا تھا۔ ہمارے ایک گروجی واسو نانا کُلکرنی اُدھر ہی سے جا رہے تھے۔ انھوں نے کہا، ’’گدھے! نیچے گرنا ہے کیا؟‘‘ کہتے ہوئے بائیں کنپٹی پر اتنی زور سے چانٹا مارا کہ میرا کان زخمی ہو گیا اور بعد میں تو بہنے بھی لگ گیا۔ کُلکرنی جی کا کس کر مارا ہوا وہ چانٹا آج تک مجھے اچھی طرح یاد ہے، کیونکہ تبھی سے بائیں کان سے میں کچھ اونچا سننے لگا ہوں۔
میٹرک کی کلاس پاس آتی جا رہی تھی۔ اُسی وقت مجھے سردرد کی بیماری ہو گئی۔ ڈاکٹروں نے کچھ سال تک عینک لگانے کی صلاح دی۔ یونیورسٹی کا انٹری ٹیسٹ ہو گیا۔ اُس میں سنسکرت میں ہم فیل ہو گئے۔ ہمارے سنسکرت کے پرچے واسو نانا کُلکرنی گروجی نے ہی چیک کیے تھے۔ میرے من میں بیکار ہی ایک بچگانہ خیال آ گیا کہ ہو نہ ہو، انھوں نے جان بوجھ کر مجھے فیل کیا۔ جیسا کہ اُن دنوں رواج تھا، انٹری ٹیسٹ میں فیل ہونے والے طالب علم کو میٹرک کی کلاس کا فارم نہیں دیا جاتا تھا اور میری سکول کی تعلیم ختم ہو گئی۔
تب تک ماں نے باپو کا کافی قرض اتار دیا تھا۔ جن چند لوگوں کا پیسہ دینا باقی تھا۔ انہیں پورا یقین تھا کہ باپوان کاپیسہ ایک نہ ایک دن ضرور چکا دیں گے، کھا نہیں لیں گے۔ ایسی حالت میں ایک دن باپو کا ہُبلی سے خط آیا۔ انھوں نے ہم سب کو ہُبلی بُلا لیا تھا۔ ماں نے سارا سامان بٹورا اور باقی لین داروں کو یقین دہانی کرا، کہ ہُبلی سے اُن کا پیسہ ضرور بھیج دیں گے، ہم سب کولھاپور سے رخصت ہوئے۔
اُس حالت میں بھی، ہم سب پھر سے ایک ہی جگہ پر آ گئے، اِس کی راحت ہم سب نے محسوس کی۔ ہمارا ہُبلی کا مکان بہت ہی چھوٹا تھا۔ دادا تو تھیٹر میں ہی سوتا اور باقی ہم لوگ ایک دوسرے سے کافی سٹ کر ہاتھ پاؤں سمیٹے جیسے تیسے ایک ہی کمرے میں سو لیتے تھے۔ ہُبلی میں مراٹھی زبان بولنے والوں کی تعداد بہت ہی کم تھی۔ زیادہ تعداد میں لوگ کنّڑ ہی بولتے تھے۔
کچھ دنوں بعد خبر ملی کہ محکمۂ ڈاک میں کلرکوں کی نوکری کے لیے ہُبلی میں امتحان لیا جانے والا ہے۔ اُس میں پاس ہونے والوں کو سرکار میں مستقل نوکری ملنے والی تھی۔ اس امتحان میں بیٹھنے کا میں نے فیصلہ کیا۔ کافی محنت کر اُس کے لیے تیاریاں کیں۔ کچھ دنوں بعد رزلٹ آیا۔ میں بالکل فیل ہو گیا۔ پھر ایک بار فیل! میٹرک کا امتحان دینے کے لیے سکول نے مجھے نااہل ٹھہرا ہی دیا تھا، اب محکمۂ ڈاک نے بھی مجھے نالائق قرار دیا۔ اندر ہی اندر میں ٹوٹ چکا تھا۔
کچھ دن یوں ہی بیکار بِتائے۔ ایک دن باپو نے مجھ سے پوچھا، ’’یہاں ہُبلی میں ریلوے کی ایک بڑی ورکشاپ ہے۔ اُس میں کام کرنے والے ایک بڑے افسر میری پہچان والے ہیں۔ اُن کی سفارش سے اُس ورکشاپ میں فٹر کی نوکری تمھیں مل سکتی ہے، محنت بھی کافی کرنی پڑے گی۔ تم کرو گے نا فٹر کا کام؟‘‘
’’فٹر کا ہی کیوں؟ کسی جھاڑ ووالے کا کام ہو تو وہ بھی کرنے کو میں تیار ہوں،‘‘ میں نے جواب دیا۔
باپو نے کوشش کی۔ ریلوے ورکشاپ میں فٹر کے کام پر مجھے نوکری مل گئی۔ تنخواہ تھی روز کے آٹھ آنے۔ ہر روز میں صبح سات بجے کام پر حاضر ہو جاتا۔ ساڑھے گیارہ بجے ایک بھونپو بجتا۔ وہ کھانے اور آرام کا شارہ ہوتا۔ میں فوراً دوڑ کر گھر جاتا، باجرے کی روٹی سبزی کھا کر پھر لگ بھگ دوڑتے بھاگتے لوٹ بھی آتا، اور ساڑھے بارہ بجے کام پر حاضر ہو جاتا۔ شام چھ بجے تک کام جاری رہتا۔
اِس طرح دن بھر کام کرنے کے بعد ہر روز رات میں ڈیکن سنیما کے دروازے پر ڈورکیپر کا کام بھی میں کیا کرتا۔ اس کام کا مجھے کوئی پیسہ ویسہ نہیں ملتا تھا۔ فائدہ اتنا ہی تھا کہ سبھی فلمیں مفت میں دیکھنے کو مل جایا کرتی تھیں۔ یہیں میں نے ایڈی پولو وغیرہ اداکاروں کی خاموش فلمیں بالترتیب دیکھی تھیں۔ ان فلموں میں اکثر گھڑدوڑ، پستول بازی، مار پیٹ وغیرہ کے منظروں کی بھر مار ہوا کرتی تھی۔ کبھی کبھاربھولے سے ایک آدھ بڑھیا جذباتی فلم بھی دیکھنے کو مل جایا کرتی تھی۔
اسی ڈیکن سنیما میں ہی میں نے داداصاحب پھالکے کی بنائی اور ڈائریکٹ کی گئی ’’لنکادہن‘‘، ’’بھسما سُر موہنی‘‘، ’’کرشن جنم‘‘ بھی دیکھی تھیں۔ اس سے پہلے کولھاپور میں میں نے پھالکے جی کی ’’ہیر چندر‘‘ نامی خاموش فلم بھی بڑی عقیدت سے دیکھی تھی۔ مجھے وہ بہت اچھی لگی تھی۔ اُس میں عورتوں کے کردار مردوں نے نبھائے تھے۔ ولائتی فلموں میں عورتوں کا کردار عورتیں ہی کیا کرتی تھیں اور انھیں دیکھنے کی عادت پڑجانے کی وجہ سے ’’ہیر چندر‘‘ خاموش فلم کی یہ بات اتنی بھا نہیں سکی تھی۔ لیکن یہ تو ماننا ہی پڑے گا کہ اُن کے معجزوں پر مبنی حیرت انگیز باتوں کو دکھانے والی خاموش فلمیں لوگوں کے ذہنوں پر چھا گئی تھیں، حاوی ہو گئی تھیں۔ کہتے ہیں، بمبئی میں ’’لنکادہن‘‘ دکھائی گئی، تب تو اتنا پیسہ ملا کہ گاڑیاں بھر بھر کر ماہانہ پیسہ لے جایا گیا تھا۔ اُس کے بعد بھی ان کی کئی فلمیں بہت ہی کامیاب رہی تھیں۔ پھالکے جی اُن گاؤوں میں جہاں تھیٹر نہیں ہوتے تھے، اپنا پروجیکٹر لے کر جاتے اور لوگوں کو سنیما دکھاتے تھے۔ اُن کی انہی کوششوں کے نتیجے میں عوام میں تفریح کے اچھے ذریعے کے روپ میں سنیما کے لیے ایک قسم کے تجسس اور کشش کا آغاز ہو گیا تھا۔
ریلوے ورکشاپ میں جلد ہی چیٹلے، اردھ گول آکار، گول آکار، اور دیگر چھوٹے موٹے قسم کی سٹیل ریتوں کی مدد سے ریلوے ڈبوں کے متنوع حصوں کو تراشنا، پالش کرنا وغیرہ کاموں میں ماہر ہو گیا۔ میری اِس ترقی کو دیکھ کر فورمین نے ریلوے یارڈ میں ریپئری (مرمت) کے لیے لائی گئی ویگنوں کے بفرز ٹھیک کرنے کے کام کی پوری ذمےداری مجھے سونپ دی۔ میری تنخواہ بڑھ گئی۔ اب ہر روز بارہ آنے ملنے لگے۔ میرا جوش بڑھا اور ویگنوں کے بفرز کو ٹھیک کرنے کے کام میں میں بڑے چاؤ سے جُٹ گیا۔
ایک دن ریلوے یارڈ میں ویگنوں کے بفر کی جانچ پڑتال کر خرابی کو ٹھیک کرتے وقت میں اکیلا تھا۔ پہلے دو ڈبوں کے بفرز دیکھ چکا۔ اُن کی سپرنگ کوائلز ٹھیک حالت میں تھیں۔ جو تھوڑی سی گڑبڑ تھی اُسے میں نے ٹھیک کر دیا اور تیسری ویگن کے پاس پہنچا۔ بڑی ہی خوداعتمادی سے اُس کے ایک بفر سپرنگ دیکھنے کے لیے لوہے کا وہ گولا دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر زور سے اندر کی طرف دبایا۔ لیکن اُس بفر میں سپرنگ تھے ہی نہیں، اس لیے میری انگیاں بفر میں پھنس کر زوروں سے کچلی گئیں۔ میں زور سے چیخ کر بےہوش ہو کر گر پڑا۔ میری چیخ سننے والا آس پاس کوئی نہیں تھا۔ دو تین گھنٹے بعد ہوش آیا تو دیکھا کہ میرے دائیں ہاتھ کی انگیاں خون سے لت پت ہو گئی ہیں۔ یارڈ سے ورکشاپ تک جیسے تیسے پہنچ گیا اور سُوجن کی وجہ سے پھولا ہوا ہاتھ فورمین کو دکھا کر گھر لوٹ آیا۔
اس حادثے کے بعد کافی دن مجھے بخار آتا رہا۔ انگیوں میں ہوئے زخموں کے گھاؤ بھرنے اور سوجن اترنے میں کافی دن لگ گئے۔ اس حادثے کے باعث میری شہادت کی انگلی کے پاس کی انگلی ٹیڑھی میڑھی ہو چکی ہے۔ ہُبلی ورکشاپ میں کیے کام کی یاد کے روپ میں آج بھی وہ ویسی ہی ٹیڑھی ہے۔
لیکن کئی دن بیمار رہنے کی وجہ سے میری ریلوے کی وہ نوکری جاتی رہی۔ میں پھر بیکار ہو گیا۔ انہی دنوں ڈیکن سنیما کے سامنے ایک مہاشے نے فوٹوگرافی کا سٹوڈیو مارڈن سائن بورڈ پنیٹنگ کی دکان کھولی تھی۔ باپو نے مجھے اُن مہاشے کے پاس دونوں کام سیکھنے کے لیے بھجوایا۔ وہاں ڈویلپنگ کے فن سے میرا پہلا رابطہ ہوا۔ فوٹو نکالنا، اُس کے شیشے دھونا، پرنٹ نکالنا، فوٹو ماؤنٹ پر چڑھانا وغیرہ، ساری باتیں میں دھیرے دھیرے سیکھ گیا اور انھیں اچھی طرح سے کرنے بھی لگا۔ بڑی بڑی دکانوں پر اُن کے نام کے جو فلیکس لگائے جاتے، انھیں میں اچھی طرح رنگنے بھی لگا تھا۔ دکان کا سارا کام سیکھ چکنے کے بعد بھی مہاشے مجھے تنخواہ تو دیتے ہی نہیں تھے۔ بلکہ مجھے سکھانے کے احسان کے بدلے دونوں وقت ہمارے یہاں روٹی کھانے کے لیے آ جمتے تھے۔ اپنی طرف سے میں گرہستی میں ایک پائی کی بھی شراکت نہیں کر پا رہا تھا، بلکہ الٹا میری تربیت کی وجہ سے گھر میں ایک اور آدمی کو کھلانے پلانے کا خرچ بڑھ گیا۔ اس کی چبھن میرے من کو کھائے جا رہی تھی۔
ایک دن ہم لوگوں کو معلوم ہوا کہ باپو اور ڈٰیکن سنیما کے مالک واشکیر میں ناراضی ہو گئی ہے۔ باپو نے سنیما کی نوکری چھوڑ دی۔ اُن کے ساتھ دادا کو بھی وہاں کی نوکری چھوڑنی پڑی۔ واشیکر، اُن کے خاندان، باپو اور دادا کا کھانا بنانے کے لیے ایک باورچی انھوں نے رکھا تھا۔ اُس کا بھی واشیکر کے ساتھ جھگڑا ہو گیا اور اُس نے بھی نوکری چھوڑ دی۔ لیکن اس کی صلاح بھی یہی تھی کہ باپو اور وہ دونوں مل کر ساجھے داری میں ایک ہوٹل شروع کریں۔ پیٹ پالنے کے لیے دوسرا کوئی چارہ نہ ہونے کی وجہ سے باپو نے اُس کا مشورہ مان لیا۔
باپو نے ہوٹل شروع کیا۔ اس سے آمدنی بھی اچھی ہونے لگی۔ ہم لوگوں کا کُنبہ پھر سے اچھے دن دیکھنے لگا۔ گاڑی پھر پٹری پر آ گئی۔ لیکن کچھ ہی دن بعد اُس باورچی کے من میں برائی جاگی۔ ایک دن لڑجھگڑ کر وہ چلا گیا۔ ہوٹل بند کرنے کی نوبت آ گئی۔
لیکن تب میری ماں کمر کس کر آگے آئی۔ بولی، ’’ہوٹل کے بند وَند کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہوٹل کے سارے کھانے میں خود تیار کروں گی۔‘‘
باپو ماں کی طرف دیکھتے ہی رہے، بولے، ’’تم؟ تم ہوٹل کی کھانے پینے کی چیزیں بناؤ گی؟‘‘
ماں نے مضبوطی سے کہا، ’’جی ہاں! آپ ہوٹل کو چالو رکھیے۔ آخر گھر میں میں کھانا تو پکاتی ہی ہوں نا؟ وہی کچھ زیادہ لوگوں کے لیے یہاں پکا لوں گی۔ تھوڑا زیادہ وقت دوں گی۔ گھر میں اپنے پانچ بچوں کے لیے بناتی ہوں، ہوٹل میں آنے والے سب کو اپنے ہی بچے مان کر اُن کے لیے بھی بنایا کروں گی۔‘‘
سارے سنسار کی پرورش کرنے والی جیتی جاگتی جگن ماتا (دیوی ماں) بھوانی میری ماں کے روپ میں بولی تھی۔ باپو نے ہوٹل کو جاری رکھا۔ ماں تڑکے چار بجے اٹھتی اور تبھی سے کمر کس کام میں جُٹ جاتی۔ کھانے پینے کے سامان کی چیزیں اتنی مزیدار اور رسیلی بناتی کہ ہمارا ہوٹل پہلے سے بھی زیادہ اچھا چلنے لگا۔ سویرے چار بجے سے لے کر رات دس بجے تک چولھے کی آنچ میں تپ کر لال لال بنا اُس کا چہرہ، اور کانوں کے پیچھے سے اترتی پسینے کی دھار دیکھ کر میرے پیٹ میں بل پڑتے۔ ماں کی اتنی ساری محنت لاچار ہو کر دیکھتا، دیکھتا ہی رہ جاتا۔ اتنی محنت کرنے کے باوجود ہم نے ماں کو کبھی یہ کہتے نہیں سُنا، تھک گئی رے بھیا، اب یہ سب مجھ سے نہیں ہوتا! کئی بار رات میں فوٹوگرافی کے سٹوڈیو سے لوٹ آنے کے بعد میں ماں کے پاؤں دبانے بیٹھتا۔ اتنی ہی اُس تھکے ہوئے جسم کی سیوا ہو پاتی!
کچھ دنوں بعد میرا خالہ زاد بھائی بابو (بابوراؤ پینڈھارکر) بابوراؤ پینٹر کی کولھاپور میں بنائی ’’سیرنگری‘‘ نامی خاموش فلم ڈیکن سنیما میں دکھانے کے لیے ہُبلی آیا۔ بابوراؤ پنیٹر کی مہاراشٹر فلم کمپنی میں منیجر تھا (میرا کزن) بابوراؤ۔ جوئے میں ہارے پانڈو خفیہ طور پر وِراٹ راجا کے محل میں بھیس بدل کر رہتے ہیں، مہا بھارت کے اِس ایک واقعے پر وہ فلم بنائی گئی تھی۔ اِس فلم میں عورتوں کے کردار عورتوں نے ہی کیے تھے۔ بابوراؤجی پینٹر نے فلم کی ڈائریکشن بڑی سوجھ بوجھ اور اُپج سے کی تھی۔ اُس میں فنکاری بھی کافی تھی۔ سبھی کی اداکاری بھی اتنی بَڑھیا تھی کہ سبھی کردار جاندار اور سچ مچ کے لگتے تھے۔ خاص فخر کی بات یہ تھی کہ فلمسازی کے لیے بابوراؤ جی پینٹر نے کمال دیسی کیمرا بنایا تھا۔ پنیٹرجی کے خود بنائے ہوئے کیمرے پر فلمائی گئی یہ فلم پونا میں جانے مانے تلک جی نے دیکھی اور انھوں نے اس فلم کی، اور اُس مقامی کیمرے کی بہت بہت تعریف کرتے ہوئے اُسے ایک گولڈمیڈل اور تصدیقی خط سرٹیفیکٹ دیا تھا۔
میں نے اس فلم کو باربار یکھا۔ سوچا، بابو کے ساتھ میں بھی چلا جاؤں مہاراشٹر فلم کمپنی میں۔ فوٹوگرافی تو میں نے سیکھ ہی لی تھی۔ لہٰذا ہمت اکٹھی کر میں نے بابو سے پوچھا، ’’بابو، کیا تمھاری فلم کمپنی میں مجھے کچھ کام مل سکتا ہے؟ بات یہ ہے کہ صرف ایک وقت کا کھانا مل جائے تو اُتنے پر ہی ہر کام کرنے کے لیے میں تیار ہوں۔‘‘
بابو نے کچھ سوچ کر بتایا، ’’ٹھیک ہے، تم کولھاپور آ جاؤ۔ کمپنی شِواجی تھیٹر میں ہے۔ وہاں آ کر مجھے ملنا۔ میں تمھیں بابوراؤ پینٹر کے سامنے کھڑا کر دوں گا۔ وہ تمھیں دیکھیں گے، بس!‘‘
’’اس کا مطلب تو یہ رہا کہ بابوراؤ پینٹر مجھے دیکھ کر پاس یا فیل کر دیں گے، ہے نا؟‘‘
بابو مجھے ڈھارس بندھاتے ہوئے بولا، ’’بھئی، ڈرتے کیوں ہو؟ تم آؤ تو سہی کولھاپور۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ سنیما گھر میں چلا گیا۔ سنیما کے دروازے پر کھڑے کھڑے میں سوچنے لگا، بابوراؤجی پینٹر مجھے دیکھیں گے۔ اُن کی نظر کے امتحان میں بھی کیا میں پاس ہو پاؤں گا؟ کہتے ہیں، کوئی بات دو بار ہوئی تو تیسری بار بھی ضرور ہو جاتی ہے۔ دو بار تو میں فیل ہو چکا تھا، اب تیسری بار ہونے جا رہی ہے، اس امتحان میں بھی میں فیل رہا تو؟ اس کا تصور بھی میرے لیے ناقابل برداشت تھا۔ ہاتھ جوڑ کر، آنکھیں بند کرتے ہوئے میں بڑبڑایا: ’’اب کی بار تو مجھے فیل مت کرنا میرے پربھو!‘‘
’’سیرنگری‘‘ فلم کو دکھانے کے بعد بابو فلم کے ڈبے لے کر کولھاپور واپس چلا گیا۔ اُسے گئے دو تین ہفتے بیت گئے۔ تب میں نے باپو سے مہاراشٹر فلم کمپنی میں کام کے لیے جانے کی بات چھیڑی۔ انھوں نے ہاں یا نا کچھ بھی نہیں کہا۔ شاید اب تک وہ اچھی طرح جان چکے تھے کہ میں جو بات ٹھان لیتا ہوں، پوری کر کے ہی رہتا ہوں۔ باپو نے میرے ہاتھ پر ریلوے کا ٹکٹ اور پندرہ روپے رکھے اور بولے، ’’اور پیسوں کی ضرورت پڑ جائے تو لکھنا۔‘‘ ان سے پیسے لیتے وقت مجھے کافی عجیب سا لگا۔
چلتے وقت میں نے باپو کے پاؤں میں ماتھا ٹیکا، ماں کے بھی پاؤں پڑا۔ لگاتار کام کرتے رہنے کی وجہ سے کھردری ہتھیلی بڑی مامتا سے میرے چہرے پر گھما کر ماں نے مجھے چوم لیا۔ ہُبلی سے کولھاپور جانے والی ریل میں بیٹھتے وقت میں نے پکا ارادہ کر لیا کہ اب جو بھی ہو، جو بھی کام کرنا پڑے، اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر ہی چین لوں گا۔ زندگی کے دن جیسے بھی گزارنا پڑے، باپو سے پیسے نہیں منگواؤں گا! اِسی سوچ وچار میں ایسا الجھ گیا کہ کولھاپور کب آ گیا پتا ہی نہ چلا۔ گاڑی صبح چھ بجے کولھاپور پہنچی۔ سٹیشن کے باہر صرف ایک ہی تانگہ کھڑا تھا۔ تانگے والا بوڑھا تھا۔ اُس سے میں نے پوچھا، ’’تانگے والے بابا، مجھے شِواجی تھیٹر تک لے جاؤ گے؟‘‘
’’ضرور، کیوں نہیں! آؤ بیٹھو، چار آنہ لوں گا۔‘‘
’’چار نہیں، دو آنے دوں گا۔‘‘
’’اچھا اچھا، بیٹھو بچے۔ اپنا مکان بھی اُدھر ہی ہے۔ آؤ بیٹھو۔‘‘
میں تانگے میں بیٹھ گیا۔ تانگہ چلنے لگا۔ میں تو شِواجی تھیٹر پہنچنے کے لیے بےتاب ہو رہا تھا لیکن تانگہ تو چیونٹی کی رفتار سے چلتا ظاہر ہو رہا تھا۔ میں نے تانگے والے بابا سے کہا، ’’ذرا تیز دوڑائیے نا تانگے کو۔‘‘
’’ارے بچے، دو آنے میں گھوڑا تیز کیسے بھاگ سکتا ہے؟‘‘
میں نے ہنس کر کہا، ’’گھوڑا تھوڑے ہی جانتا ہے، دو آنے ملے یا چار۔‘‘
’’پر وا کو مالک تو جانت ہے نا؟‘‘ (پر اس کا مالک تو جانتا ہے نا؟) ایسا کہہ کر اُس نے زور سے ٹہوکا لگایا اور گھوڑے کو ایک ہنٹر جما دیا۔
تانگہ سرپٹ بھاگنے لگا۔ میرے دماغ میں سوچوں کا چکر بھی اتنی ہی رفتار سے چلنے لگا۔ ’’سیرنگری‘‘ کا منظر ذہن میں آ گیا۔ میں مہاراشٹر فلم کمپنی میں کسی نہ کسی کام پر لگ گیا ہوں۔ نئی فلم کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ میں وہاں سب کو میک اپ کر رہا ہوں۔ اپنا بھی میک اپ کر اُس فلم میں کبھی بہادر سپاہی کا، تو اُس سے اگلی فلم میں راجا کے بیٹے کا رول ادا کر رہا ہوں۔ میری اکڑ اور ادا کو بابو فخر کے ساتھ دیکھ رہا ہے۔ بابوراؤ پینٹر میرے کام سے خوش ہو کر میری پیٹھ تھپتھپا رہے ہیں، شاباشی دے رہے ہیں اور۔۔۔
اور تبھی زور سے جھٹکا لگا۔ میں ہڑبڑا کر ہوش میں آ گیا۔ تانگہ رُک گیا تھا اور تانگے والا کہہ رہا تھا، ’’جی، اب اُتر جاؤ چھوٹے بابو، شِواجی تھیٹر آن پہنچے ہیں۔‘‘
تانگہ شِواجی تھیٹر کے دروازے پر ہی کھڑا تھا۔ میں نے تانگے والے کو پیسے دیے، اپنا صندوق اور بستر لے کر نیچے اُترا اور بڑے جوش اور اُمنگ کے ساتھ تھیٹر کے پورچ سے ہوتا ہوا اندر جانے لگا۔ نظر کچھ اونچی اٹھی اور پاؤں ایک دم تھم گئے۔ ایک بڑی سی تختی پورچ کی چھت سے نیچے لٹک رہی تھی۔ اُس پر لکھا تھا: ’’بنا اجازت کے اندر آنا منع ہے۔‘‘
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...