آج موسم بہت ہی خوشگوار تھا۔
چھٹی کا دن تھا۔
سجل بڑی ماما سے پکوڑوں کی فرمائش کرتی ہوئی لان میں لگے جھولے پر آ کر بیٹھ گئی اور موبائل پر گانا لگا کر آنکھیں موندے جھولا جھولنے لگی۔
بن ساجن جھولا جھولوں
میں وعدہ کیسے بھولوں
جی کرتا ہے یہ میرا
میں اڑ کے گگن کو چھو لوں
وہ آنکھیں بند کیے جھولا جھولتی گانے کے بولوں سے لطف اندوز ہو رہی تھی جب کسی نے بالٹی بھر پانی اس کے سر پر انڈیل دیا۔
“”یہ رہا تمہارا ساجن””
سجل نے ہربرا کر آنکھیں کھولیں تو ہونٹوں پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں شرارت لئے سامنے کھڑے موحد کو کھا جانے والی نظروں سے گھورا۔
موحد کے بچے یہ کیا بدتمیزی ہے تم نے مجھ پر پانی کیوں پھینکا۔
اب ذرا تم بچو مجھ سے سجل چڑیلوں کی طرح ہاتھ پھیلائے اس کے بال نوچنے کو آئی مگر موحد فوراً گھوم کر جھولے کی دوسری طرف ہوگیا۔
اور کیا کہہ رہے تھے تم کہ یہ رہا تمہارا ساجن۔۔۔۔شکل دیکھی ہے تم نے اپنی۔
اب وہ جھولے کے ارد گرد چکر لگاتی موحد کو پکڑنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔
بڑی ماما ہاتھ میں پکوڑوں کی پلیٹ لئے لان میں آئیں اور ان دونوں کو پھر سے لڑتا جھگڑتا دیکھ کر آوازیں دینے لگیں۔
موحد سجل تم دونوں پھر سے لڑنا شروع ہو گئے۔بڑی ماما اس بندر نے مجھ پر پانی سے بھری پوری کی پوری بالٹی انڈیل ڈالی ہے اور اس کا بدلہ تو میں لے کر ہی رہوں گی۔
سجل نے انہیں رک کر بتایا اور پھر دوبارہ سے اس کے پیچھے بھاگنے لگی۔
تم نے بندر کس کو بولا چوہیا اس وقت ذرا خود کو دیکھو مجھے پکڑنے کی کوشش میں کسی جنگلی بلی سے کم نہیں لگ رہی۔
موحد نے اسے جان بوجھ کر چرایا۔
اگر میں چوہیا یا بلی ہوتی ناں تو ایک منٹ کی بھی دیری سے پہلے تمہیں پکڑ لیتی۔
اچھا یعنی پھر تو تمہیں آیندہ سے کچھوا کہہ کر پکارنا پڑے گا بہت ہی سست ہو تم تو۔موحد نے ہنستے ہوئے کہا۔
جبکہ سجل کو اس کے کچھوا کہنے پر اور بھی تپ چڑھی۔
ارے بچو لڑنا بند کرو اور آکر پکوڑے کھا لو۔بڑی ماما نے پکوڑوں کی پلیٹ ٹیبل پر رکھتے ہوئے انہیں پھر سے بلایا۔
پکوڑوں کا نام سنتے ہی وہ دونوں ایک دوسرے کے پیچھے بھاگنا چھوڑ کر ٹیبل کی طرف ایسے بھاگے جیسے ریس لگائی ہو کہ دیکھتے ہیں کہ کون سب سے پہلے پکوڑوں کی پلیٹ اٹھاتا ہے۔
سجل نے پکوڑوں کی پلیٹ اٹھانا چاہی تو موحد نے اس سے پہلے ہی پلیٹ اپنی طرف کھسکا لی اور ایک پکوڑا اٹھا کر منہ میں ڈال لیا۔
موحد پلیٹ واپس کرو ابھی۔۔۔۔
میں کیوں کروں۔۔۔۔
کیوں کہ یہ میں نے بنوائے ہیں بڑی ماما سے۔بڑی ماما انہیں لڑتا دیکھ کر پکوڑے ٹیبل پر رکھ کر جا چکی تھیں۔
لیکن انہیں پہلے میں نے اٹھایا ہے اس لئے اب یہ میرے ہیں۔موحد نے مزے سے بولتے ہوئے ایک اور پکوڑا اٹھا کر منہ میں ڈال لیا اور ہاتھ اوپر کر کے پلیٹ کو قدرے اونچا کر لیا۔
اس کے کندھے تک آتی سجل اچھل اچھل کر پلیٹ کو پکڑنے کی ناکام کوشش کرتی رہی اور ساتھ ہی بیچاروں جیسی شکل بنا لی مگر سامنے بھی ڈھیٹ کھڑا تھا جس پر اس کی بیچاروں جیسی شکل کا ذرا بھی اثر نا ہوا۔
تم رکو بچو میں بڑے ابا سے تمہاری شکایت کر کے آئی۔سجل اسے دھمکاتی ہوئی اندر جانے کے لئے مری مگر کسی سے زوردار ٹکر کھا کر خود کو سنبھال نا پائی اور زمین پر جا گری۔
“”ہائے اور ربا”” بے اختیار اس کے منہ سے نکلا۔جبکہ سامنے والے پر ذرا بھی اثر نا ہوا۔
سامنے روحاب سپاٹ چہرہ لئے کھڑا تھا۔سجل نے نظریں اٹھا کر دیکھا مگر پھر دیکھتے ہی کہ سامنے وہ کھڑے ہیں فوراً نظریں جھکا لیں۔
تمہیں دکھائی نہیں دیتا سٹوپڈ۔۔۔ہر بار ٹکرانے کے لئے تمہیں میں ہی ملتا ہوں کیا۔روحاب سخت لہجے میں بولا۔
سجل کچھ نا بولی بس نظریں جھکائے زمین پر ہی بیٹھی رہی۔
اب یوں میرے پیروں میں بیٹھ کر کس چیز کی معافی مانگ رہی ہو اٹھو جاؤ اندر اور جا کر اپنا حلیہ درست کرو۔
سجل نے دیکھا کہ وہ واقعی میں اس کے پیروں میں ہاتھ جوڑے بیٹھی تھی مگر وہ معافی بلکل نہیں مانگ رہی تھی۔
اس نے جلدی سے اپنے دونوں ہاتھ کھول دیے۔اور گیلا دوپٹہ اپنے گرد لپیٹتی اندر کی طرف بڑھ گئی مگر پھر واپس مر کر روحاب کی پشت کو دیکھا اور اسے منہ چرانے لگی۔
بھائی دیکھیں اس لڑکی کو مجال ہے جو اس پر آپکی ڈانٹ کا ذرا بھی اثر ہوا ہو بلکہ اوپر سے یہ تو آپکو منہ پے منہ چڑھائے جا رہی ہے۔موحد نے اس کو منہ چڑھاتے دیکھ لیا تھا اس لئے اب اس کی شکایت کرنے لگا۔
روحاب نے فوراً واپس مر کر اسے دیکھا۔جبکہ وہ منہ پر ہاتھ پھیرنے لگی (کہ تم کو تو میں بعد میں دیکھ لوں گی) اور پھر روحاب کے دیکھنے پر معصوموں جیسی شکل بناتے ہوئے اندر بھاگ گئی۔
روحاب پاس پری چیئر پر بیٹھ گیا موحد نے چند پکوڑے اٹھا کر باقی کی پلیٹ روحاب کی طرف کھسکا دی۔
۔****************************
حیات ہاؤس میں دو فمیلیاں رہتی تھیں۔پہلے نمبر پر رفیق حیات اور انکی مسز شہلا رفیق تھیں۔
جن کے دو بیٹے روحاب اور موحد جبکہ ایک بیٹی معارج تھی۔چھبیس سالہ روحاب اس سے چار سال چھوٹا موحد تھا۔
موحد اور معارج ٹونز تھے۔
دوسرے نمبر پر رمیز حیات اور انکی مسز ثمرین رمیز تھیں۔جن کی تین بیٹیاں ہی تھیں۔
سب سے بڑی ثانیہ پھر سجل اور پھر انعم تھی۔پچیس سالہ ثانیہ اس سے تین سال چھوٹی سجل جو کہ موحد اور معارج کی ہم عمر تھی۔
اور پھر سجل سے دو سال چھوٹی انعم تھی۔
تیسرے نمبر پر زرمین پھپھو تھیں جو کہ ساتھ والے گھر میں اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ قیام پزیر تھیں۔
ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔سب سے بڑا زارون تھا جو کہ روحاب کا ہم عمر تھا اور انگلینڈ میں رہتا تھا۔
اس کے بعد ابیہا تھی جو کہ ثانیہ کی ہم عمر تھی۔اور ان سب سے چھوٹا رومان تھا جو ابھی میٹرک میں تھا۔
۔*************************
روحاب انسپکٹر کے عہدے پر فائز تھا۔اب یا تو اس عہدے کا اثر تھا یا وہ شروع سے ہی ایسا تھا مگر سب اسے اکڑو خان کہتے تھے۔
ثانیہ نہایت ہی خود سر اور ضدی تھی۔بہنوں میں سب سے بڑی ہونے کی وجہ سے وہ ان پر روب جھاڑنا اپنا اولین حق سمجھتی تھی۔
بڑے بڑے خواب سجانا تو شاید واقعی میں صرف اسی کا ہی حق تھا۔
موحد معارج اور سجل ایک ہی کلاس اور ایک ہی یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔وہ ماسٹرز کے آخری سال میں تھے۔
موحد کو گھر اور پڑھائی سے زیادہ باہر رہنا اور دوستوں کے ساتھ گھومنا پھرنا زیادہ پسند تھا۔
گھر میں رہتا تو اپنی شرارتوں کی صورت میں سب کی ناک میں دم کیے رکھتا۔
سجل بھی اس سے کچھ کم نا تھی شرارتوں میں تو وہ اس سے بھی دو ہاتھ آگے تھی۔
مگر شرارت کرنے پر تب ہی اترتی تھی جب موحد شروعات کرتا تھا۔
ان دونوں کا پسندیدہ کام ہر وقت لڑنا جھگڑنا اور کھاتے رہنا تھا۔بقول بڑی ماما کے۔۔۔۔۔۔بس ہر وقت گائے بھینسوں کی طرح منہ ہی چلاتے رہا کرو۔
اس بات پر موحد ہنس پرتا اور بولتا۔سجل یہ ماما نے گائے بھینس تمہیں کہا ہے کیوں کہ اب میں تو ہونے سے رہا۔جبکہ اس بات پر ہمیشہ سجل کے پاس پری چیز اس کے سر پر آکر لگتی۔
اور وہ شکر کرتا کہ وہ کبھی بڑی یا وزنی چیز کو ہاتھ میں نہیں لیتی تھی۔ورنہ کب کی اس کے سر کے دو حصے کر چکی ہوتی۔
معارج کو جدید قسم کے ڈیزائن کے کپڑوں جیولری اور میک اپ سے ہی غرض تھی۔نت نئے فیشن سے لبریز ہونا اس کا شوق تھا۔
ان سب سے چھوٹی اور مختلف چشمش یعنی انعم تھی جو ہر وقت اپنا سر کتابوں میں ہی گھسائے رکھتی تھی۔
دو منٹ کے لئے سر اٹھا کر دیکھ بھی لیتی تھی کہ ارد گرد کیا ہو رہا ہے مگر دو منٹ کا مطلب صرف دو منٹ ہی اس کے بعد وہ پھر سے اپنے من پسند کام میں مصروف ہو جاتی تھی۔وہ بی ایس سی کے دوسرے سال میں تھی۔
ابیہا فضول کاموں میں وقت ضائع کرنے کی بجاۓ مذہبی و دینی کتابوں سے علم حاصل کرتی تھی۔
لہجے میں نرمی تو کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔وہ ہر چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کرنے والی تھی۔
زارون جسے اپنی شخصیت پر بہت ناز تھا غصے کا تیز تھا اپنی بے عزتی کسی صورت برداشت نہیں کرتا تھا وہ ابیہا سے بلکل بر عکس تھا۔
اس کے بعد سب سے چھوٹا رومان تھا۔
جو ہمیشہ اسی انتظار میں رہتا کہ کب موقع ملے اور وہ اکیلے میں پتنگ اڑائے کیوں کے ہر دفعہ سجل چھت پر ٹپک پڑتی تھی اور اس سے پتنگ چھین لیتی تھی۔رومان کو اگر کبھی کچھ باتیں بری بھی لگتیں تو وہ ظاہر نہیں کرتا تھا۔
کیوں کے وہ ابیہا کے کہے پر عمل کرتا تھا کہ ابھی سے چھوٹی چھوٹی باتیں دل میں دباؤ گے اور انھیں اتنی اہمیت نہیں دوگے تو بعد میں بڑی بڑی باتیں بھی چھوٹی ہی لگیں گیں اور انھیں نظر انداز کرنے میں آسانی ہوگی۔
سفیان ماں باپ کا فرمابردار لاڈلا بیٹا تھا خوش مزاج اور خوش شکل تھا۔اور ابیہا سے دل و جان سے محبت کرتا تھا۔
۔**************************
سجل اٹھ بھی جاؤ تمہیں یونیورسٹی نہیں جانا کیا۔
معارج اسے کب کی اٹھا رہی تھی مگر وہ شاید گدھے گھوڑے ہاتھی سب بیچ کر سوئی تھی جو اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
معارج کو اب غصہ آنے لگا اس نے دوسرا سرہانہ اٹھا کر اس کے سر پر دے مارا۔سجل ایک دم اٹھ کر بیٹھ گئی۔ابھی کسی نے مجھے کچھ مارا کیا مجھے ایسے لگا جیسے میرے سر پر کچھ لگا سجل نے نیند میں ڈھوبی آواز میں پوچھا۔
سجل تمہیں یونیورسٹی نہیں جانا کیا کب سے تمہیں اٹھانے کے چکر میں میں بھی لیٹ ہو چکی ہوں موحد کب سے نیچے کھڑا ہمارا انتظار کر رہا ہے۔
معارج جھنجھلاتے ہوئے بتانے لگی۔اب جلدی سے اٹھو اگر جانا ہے تو۔
میں نہیں جا رہی معارج میرا تو سر دکھ رہا ہے اور دل بھی نہیں چاہ رہا بیڈ سے اٹھنے کا۔
سجل اسے اپنے نا جانے کی اطلاع دیتی دوبارہ بیڈ پر گر گئی۔
معارج یہ سن کر ایک پل بھی ضائع کیے بغیر اپنا بیگ اٹھا کر نیچے آ گئی۔
یعنی اب دیر سے آنے کی وجہ سے موحد سے ڈانٹ بھی صرف اسے ہی کھانی پڑے گی۔مگر خیر اس پر کون سا کوئی اثر ہونے والا تھا۔
۔*******************************
گھر میں کوئی بھی نہیں تھا سوائے سجل اور روحاب کے۔
وہ ابھی ڈیوٹی کے لئے نہیں نکلا تھا اس لئے گھر میں نظر آ رہا تھا۔
سجل کب سے بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی کچھ یاد آنے پر یک دم اٹھی اور اپنا موبائل ڈھونڈنے لگی۔
آج تو اسے اپنی اسائنمنٹ سبمٹ کروانی تھی۔جو کہ ماریہ کے پاس تھی۔
وہ اسے فون کر کے یاد دلانا چاہتی تھی کہ اپنے ساتھ ساتھ وہ اسکی اسائنمنٹ بھی جمع کروا دے۔
کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ ماریہ بھول جائے گی۔اس نے جلدی سے ماریہ کو کال ملائی مگر بیل نا گئی کیوں کہ اس کے موبائل میں بیلنس نہیں تھا۔
اوہ شیٹ۔۔۔۔اب میں کیا کروں گھر میں اور کوئی ہے بھی نہیں جس کے موبائل سے میں اس سے رابطہ کر سکوں۔
کچھ خیال آتے ہی وہ کمرے سے باہر نکلی۔
اور روحاب کے پاس چلی آئی۔روحاب ٹیرس پر کھڑا فون پر کسی سے بات کر رہا تھا۔
سجل اس کے فون بند ہونے کا انتظار کرتی رہی اور کچھ نا بولی جانتی تھی کہ اگر اسے پتا چلا کہ وہ کب سے یہاں کھڑی ہیں تو ضرور غصہ ہوتا اور کہتا کہ تمہیں مینرز نہیں ہیں کسی کی باتیں ایسے نہیں سنتے۔
فون بند ہوا تو بولی۔روحاب بھائی۔۔۔
روحاب نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو سجل کھڑی تھی۔وہ مجھے آپکا موبائل چاہیے تھا تھوڑی دیر کے لئے۔
کیوں تمہیں میرے موبائل سے کیا کام ہے۔
مجھے اپنی دوست کو کال کرنی ہے اس لئے۔ہاں تو جاؤ اپنے فون سے کرو میرا موبائل اس لئے نہیں ہے کہ تم اس سے اپنی دوستوں کو ہی فون کرتی رہو۔روحاب کی اس بات پر سجل نے اسے نظریں اٹھا کر حیرت سے دیکھا اور سوچنے لگی۔
دوستوں کو ہی فون ملاتی رہتی ہوں تو ایسے کہہ رہے ہیں جیسے ہر وقت انکا موبائل میرے پاس ہی تو ہوتا ہے۔
میری تو مت ماری گئی تھی جو ان سے کچھ مانگنے آگئی۔
کیسے بھول گئی کہ غصے کے علاوہ ان سے کچھ مل ہی نہیں سکتا۔ہونہہ اکڑو خان کہیں کے۔
لگتا ہے کہ تمہیں میری زبان مشکل سے ہی سمجھ آتی ہے چلو میں آسان مفہوم میں بتاتا ہوں۔
میں تمہیں اپنا موبائل دینے سے انکار کر چکا ہوں اس لئے اب تم میرے کمرے سے جا سکتی ہو۔
روحاب نے اسے کڑی نظروں سے گھورتے ہوئے اپنے کمرے سے نکل جانے کا کہا۔
سجل کو یاد نہیں پڑتا تھا کہ اس نے اس شخص کو آخری بار کب مسکراتے دیکھا تھا۔وہ پیر پٹکتی ہوئی اس کے کمرے سے نکل گئی۔
۔****************************
موحد ہاتھ میں گاڑی کی چابی لئے اسے گھماتا اور گنگناتا ہوا گھر میں داخل ہوا تو سیڑھیوں پر منہ لٹکائے بیٹھی سجل کو دیکھ کر سیدھا اسی کی طرف چلا آیا۔
تمہارا کیا کوئی نمک کا جہاز ڈھوب گیا ہے جو اس طرح منہ لٹکائے بیٹھی ہو۔
سجل نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور پھر وال پر لگے کلاک کو دیکھا جہاں بارہ بج رہے تھے۔
تم اس وقت گھر پر کیا کر رہے ہو تمہیں تو اس وقت یونیورسٹی ہونا چاہیے تھا۔
سجل نے جواب دینے کی بجائے الٹا اس سے سوال کر ڈالا۔
ہاں ہونا تو وہیں چاہیے تھا مگر کیا کروں آج تم یونیورسٹی نہیں گئی ناں تو تمہارے بغیر میرا وہاں دل ہی نہیں لگا اس لئے جلدی ہی واپس آگیا۔
موحد نے آنکھ دباتے ہوئے شرارت سے کہا۔
جواب میں ایک مکا کس کر اس کی کمر پر رسید کیا گیا۔
تم فلرٹ کرنے سے کبھی نہیں باز آنے والے۔
کیا کہا فلرٹ اور وہ بھی میں۔۔۔۔توبہ کرو لڑکی توبہ آج تک میں نے کسی لڑکی لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا ہاں اگر دیکھا بھی ہے تو ہمیشہ نظریں جھکا کر۔
موحد نے حیران ہوتے ہوئے پہلے کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ کی اور پھر آخری بات کو مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا۔
جانتی ہوں شرافت تو تم سے ہی شروع اور تم پر ہی ختم ہے باقی سب لڑکے تو مر گئے ہیں ناں شریف کہلانے کے لئے۔
ارے کیسی باتیں کر رہی ہو اپنے روحاب بھائی کو نہیں دیکھا کیا مجال ہے جو کبھی کسی لڑکی کے بارے میں سوچا بھی ہو تو حالانکہ کتنی لڑکیاں مرتی ہیں ان پر۔
موحد نے اپنی طرف سے سچی بات کہی تھی۔مگر یہ صرف سجل ہی جانتی تھی کہ اس بات میں کتنا سچ ہے اور کتنا جھوٹ کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ روحاب بھائی نے شدت سے کسی سے محبت کی ہے مگر اس محبت کے بدلے میں انہیں صرف اور صرف ذلت ہی ملی ہے۔اور انہوں نے کس کو ٹوٹ کر چاہا تھا یہ بات بھی وہ اچھی طرح جانتی تھی۔
مگر روحاب کی طرح وہ بھی اس بات کو صرف اپنے دل تک قید کیے بیٹھی تھی۔
اب کیا سوچنے لگی تم یہ تو بتا دو کہ موڈ کیوں آف ہے۔
موحد نے اسے مراقبے میں جاتے دیکھا تو اسے ہوش دلائی۔
تمہارے اکڑو خان بھائی کی وجہ سے۔
میرےموبائل میں بیلنس نہیں تھا ماریہ تو بہت ضروری کال کرنی تھی۔ایک منٹ کے لئے ان سے موبائل کیا مانگ لیا انہوں نے تو مجھے ڈانٹ کر ہی رکھ دیا۔ایک مجھے ڈانٹنے کے علاوہ انھیں اور کام ہی کیا ہے۔سجل نے منہ بناتے ہوئے اسے ساری بات بتائی۔
تو اس میں اتنا منہ لٹکانے والی کیا بات ہے یہ لو میرا موبائل اور ابھی کر لو کال اپنی دوست کو۔
موحد نے جیب سے موبائل نکال کر اس کی طرف بڑھایا جسے سجل نے فوراً تھام لیا اور جلدی سے ماریہ کو کال کرنے لگی۔
کال کرنےکے بعد موبائل اسے واپس کرتی اور شکریہ بندر کہتی ہوئی سیڑھیاں چڑھ گئی۔
موحد موبائل لئے صحن میں پڑے صوفوں میں سے ایک صوفے پر آکر بیٹھ گیا اور گیم کھیلنے لگا۔
۔**********************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...