” بیٹھی ہوں ” نہایت اطمینان سے وہ بولی تو وہ بےحد حیران ہوا ۔ کیا اس لڑکی کو خود پر اور دوسروں پر اس قدر اعتماد ھے کہ یہ اپنا اچھا یا برا بھی نہیں سوچتی ۔۔۔!
” میں نے تم سے کہا بھی تھا کہ ۔۔۔”
” جب دادو گھر نہ ہوں تو میں یہاں نہ آیا کروں ” رازی کی بات پوری ہونے سے قبل اسنے پوری کردی ۔
” تمہیں ڈر نہیں لگتا؟” اسنے کریدنے والے انداز میں پوچھا تو ہنس پڑی ۔
“ڈر ۔۔۔ کس سے ۔۔؟”
رازی اسے ریلیکس دیکھ کر گہرا سانس لیکر رہ گیا۔
” میں گھر میں اکیلا ہوں ” وہ زرا رک رک کر بولا ۔
” سو وھاٹ!’ وہ اتنی ھی بےپرواھی سے بولی ۔ ” مجھے خود پہ اعتماد ھے اور دوسروں کو بھی اچھے سے جانتی ہوں ”
“ہوں ۔۔۔” رازی بغور اسکے پر اعتماد انداز کو دیکھتے ہوئے کمرے میں رکھی چھوٹی سے فریج کے پاس گیا ۔اندر سے کچھ نکال کر گلاس میں انڈیلا اور ساتھ ھی اس میں آئس کیوبز بھی ڈالے ۔
” اتنی سردی میں آپ کولڈرنک پی رھے ہیں ، وہ بھی آئس ڈال کر ” وہ خاصی حیران ہوئی تھی ۔
” اٹس اوکے ۔۔۔ سردی سے بچاؤ کے لیے ھے یہ ”
وہ بہت ٹھرے ہوئے انداز میں فریج بند کر اسکی طرف بڑھا اور اسے دیکھتے ہوئے سپ لینے لگا ۔وہ دھیرے سے مسکرائی۔
” پہلی بار سنا ھے کہ کولڈرنک سردی سے بچاتی ھے ”
رازی اسکے بلکل سامنے آکے بیٹھ گیا۔
” تمہارے ڈیڈ سنا ھے آسٹریا میں ہوتے ہیں ، انہوں نے کبھی ڈرنک نہیں کی ؟”
رازی نے اتنے بے تکلف انداز میں پوچھا کہ ایک لمحے کے لیے تو وہ سمجھ نہیں پائی مگر جب سمجھی تو ایکدم اسکے چہرے کی ہوائیاں اڑ گئیں ۔
” یہ ۔۔۔ یہ ۔۔۔!!” اسنے ہکلاتے ہوئے مشروب کی طرف اشارہ کیا ۔
” سرد ممالک میں اسکے بغیر گزارہ نہیں ہوتا ”
وہ بولا تو اسکے لہجے میں ہلکی سی لڑکھڑاہٹ تھی ۔
عنبر خوف کے تحت پیچھے ہوئی تو وہ نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبا کر ہلکا سا مسکرا دیا ۔وہ عنبر کے اس قدر نزدیک بیٹھا تھا کہ وہ اسے رازی کے مضبوط وجود سے خوف آنے لگا ۔ وہ جانے کے ارادے سے اٹھی تو رازی نے دفعتاً اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔عنبر کے چہرے پر خوف اور دہشت صاف نمایاں تھی ۔
اس نے ایک ھی گھونٹ میں وہ مشروب ، حلق میں اتار کر گلاس بستر پر اچھال دیا اور اسکے برابر آ کھڑا ہوا ۔
” مم ۔۔۔ م۔۔۔میرا ہاتھ چھوڑیں ۔۔” وہ بوکھلا گئی ۔ بظاھر ڈیسنٹ اور گریس فل نظر آنے والے رازی کا یہ روپ کس قدر ناقابلِ قبول اور خوفناک تھا۔
” تمہیں کیا فرق پڑتا ھے ..!” وہ ہلکا سا اس کے چہرے کی جانب جھکا ۔
” رازی …” وہ چلا اٹھی اور دوسرے ہاتھ سے اسے پیچھے دھکیلا۔ اپنا بایاں ہاتھ اسکی گرفت سے چھڑانے کی ناکام کوشش کر رھی تھی کیونکہ اسکی گرفت مضبوط تھی ۔ اب تو خوف کے مارے اسکا وجود کانپنے لگا اور آنکھوں میں پانی کا ایک سمندر سا بہنے لگا ۔
” یا اللّٰہ۔۔۔”
” میں نے تمہیں کہا تھا ناں ۔۔۔ کسی بھی ۔۔۔ مرد پہ ۔۔۔اعتبار نہ کرو ۔۔” وہ بول رھا تھا مگر اسکے الفاظ بکھر رھے تھے ۔
” رازی پلیز ۔۔۔ آپ پاگل ہوگئے ہیں کیا ؟ ” وہ باقاعدہ چیخ رھی تھی ۔ ساری خوداعتمادی اڑن چھو ہوگئی تھی ۔ اس لمحے بس یہی جی چاہ رہا تھا کہ پلک جھپکتے ھی وہ یہاں سے غائب ہو جائے ۔ آنکھوں سے بہتے آنسوؤں نے تیزی پکڑ لی تھی ۔
” کوئی بھی مرد ، کسی عورت کو تنہا پا کر بہک سکتا ھے ، اور یہ بات تم اچھی طرح سمجھ گئی ہوگی ، چلو گھر جاؤ اپنے اور یہاں دوبارہ تبھی آنا جب دادو آجائیں۔۔ میں کولڈرنک ھی پی رھا تھا ” وہ بڑے سکون سے کہتے ہوئے اسکے ہاتھ کو چھوڑ چکا تھا ۔
تیزی سے بہتے آنسوؤں کو یکدم بریک لگا اور ہکا بکا کھڑی اسکا چہرہ دیکھتی رہ گئی۔ خوف اور دہشت کی جگہ غصے نے لے لی۔
” آئی ہیٹ یو رازی ، تم بہت برے ہو ” وہ چیختی ہوئی کہہ کر وہاں سے بھاگ گئی ۔
وہ سر جھٹک کر الماری کی طرف بڑھ گیا ۔اب کبھی کسی کے ساتھ اتنا فری ہونے سے پہلے سو دفعہ سوچے گی ۔ رازی کے چہرے پر دھیمی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
اسے عنبر کے اس طرح سیدھے اسکے بیڈروم میں آکر یوں بےتکلفی کا مظاہرہ کرنے پر بہت غصہ آیا تھا ۔ اسکا بیڈروم تھا اور وہ باتھ روم میں سے کسی بھی حلیے میں نکل سکتا تھا ، یہ بات اسے بھی سمجھنی چاہیے تھی ۔
______________
“گھٹیا انسان ” خوب رونے دھونے کے بعد اب وہ تکیے پر سر رکھ کر آڑی ترچھی لیٹ گئی تھی ۔
” سمجھا کیا اس نے مجھے ۔۔۔ میں کوئی ایسی ویسی لڑکی ہوں کیا ۔۔۔!! کیا سوچ کر اسنے اتنی گھٹیا حرکت کی ! بےشرم کہیں کا ” وہ بڑے دکھ اور نفرت سے اس منظر کو سوچ رھی تھی ۔
دادو کے واپس آنے تک وہ رازی کے گھر دوبارہ نہیں گئی ۔احراز اور بابر کئی بار اس سے ملنے گئے مگر وہ کمرے سے ھی نہ نکلتی ۔ کتنی جھجھک اور کتنا خوف سا بھر گیا تھا رازی کے اس فضول ڈرامے سے اس کے دل میں ۔
__________
دادو تین ہفتوں بعد ھی واپس آگئیں اور آکر ایک نیا دھماکہ کردیا ۔ ان کی بات سن کر رازی نے شور مچا دیا ۔
دادو اسکی بات عنبر سے پکی کرنے والی تھیں ۔
” دادو کیا پوری دنیا میں آپ کو وھی ملی ھے میرے لیے ؟”
” تم کیا عرشوں سے اترے ہو ۔۔۔! میں کہتی ہوں کوئی بھی نہیں ہوگی سوائے اسکے ۔۔” اور انکی اس ساری تقریر کا آخری جملہ تھا ” بن ماں کی بچی ھے ” ۔
” اور اسی جملے نے رازی کو تپا کے رکھ دیا۔
” اب میں تو اسکی ماں بننے سے رھا ”
دادو حیران سا چہرہ لیے اسے دیکھنے لگیں ۔
” کیا بکواس کر رھے ہو رازی !”
وہ دونوں ہاتھ اٹھا کر باقاعدہ سمجھانے والے انداز میں بولا۔
” دادو ! میں نئے سرے سے اسکی تربیت نہیں کرسکتا ۔بات بات پر اسے سمجھانا مجھے اچھا نہیں لگتا ”
” تم اس سے شادی کرو ، سمجھانا میرا کام ھے ”
“دادو پلیز …” ابھی اس سے پہلے کہ وہ اور کچھ بولتا دادو نے جلال میں آکر اسے خوب لتاڑا تو وہ بوکھلا کر رہ گیا ۔
اسے چپ بیٹھا دیکھ کر بابر بھی میدان میں کود پڑا ۔
” بھائی ۔۔۔ آپ نے پرامس کیا تھا ، ہماری پسند کا گفٹ دینے کا ” بابر کی اس بے تکی بات کو سنکر وہ اسے گھورنے لگا۔ بھلا یہ کوئی موقع ھے گفٹ دینے کا ۔
” اب یوں مت گھوریے بگ برادر, آپ نے کہا تھا ھم جو مانگے گے آپ دیں گے ، اب آپ مکر نہیں سکتے ”
” میں کب مکر رھا ہوں!!! دے دوں گا ” وہ دانت پیس کر رہ گیا۔
” تو بس پھر آپ عنبر کو ہماری بھابی بنا دیں ۔۔۔۔ یہی ہمارا گفت ھے ” اب کی بار تو رازی دونوں ہاتھوں میں سر گرا کر بیٹھ گیا ، وہ اپنے ھی الفاظ کی گرفت میں آگیا تھا ۔
مسلسل ایک دو دنوں تک وہ اسی بارے میں سوچتا رھا اور آخرکار وہ مان ھی گیا بابر اور احراز تو ایسے خوش تھے جیسے ہفت اقلیم کی دولت انہیں مل رھی ہو ۔دادو کی نظروں میں بھی وہ مزید سرخرو ہوگیا تھا ۔
اسکا مثبت جواب سنتے ھی دادو عنبر کے گھر چلی گئیں۔
احراز اور بابر بہت مسرور تھے اور اسے بھی چھیڑنے سے باز نہیں آ رھے تھے ۔وہ بھی بیچارہ کبھی انکی باتوں پر ہنس دیتا تو کبھی تنبیہہ نظروں سے انہیں دیکھتا ۔دادو واپس آئیں تو بہت خوش اور مطمئن تھیں ۔
” مبارک ہو میری جان ، میرا بچہ ” وہ آگے بڑھ کے فوراً رازی کی پیشانی چومنے لگیں اور وہیں اسکے ساتھ ھی صوفے پر بیٹھ گئیں ۔
” عنبر کے والد بھی آئے ہوئے ہیں ۔ اور وہ لوگ تو بہت خوش ہیں اس رشتے سے ، اور عنبر کے والد تو ویسے ھی تمہیں بہت پسند کرتے ہیں ”
وہ بڑے پیار سے اسکے بالوں میں ہاتھ پھیر رھی تھیں ۔
” دادو ! منگنی ونگنی کے چکر میں مت پڑئیے گا ، ڈائریکٹ شادی کی ڈیٹ فکس کرئیے گا ” احراز تھوڈی پہ انگلیاں رکھے بڑے ھی کوئی فلسفیانہ انداز میں بولا تو دادو مسکرا دی ۔
_____________
رات کے دوسرے پہر میں وہ ابھی کسی کام سے لاؤنج میں آیا ھی تھا کہ صوفے کے پاس پڑے اسٹینڈ پہ رکھا فون سیٹ بیل کرنے لگا ۔اسنے بھنویں اچکا کر ایک نظر وال کلاک پہ ڈالی ۔ ایک بج رھا تھا ۔وہ شانے جھٹک کر آگے بڑھا اور ریسیور اٹھایا۔ دوسری طرف سے عنبر کو پا کر اسے خوشگوار حیرت ہوئی ، وہ فوراً پاس پڑے صوفے پر بیٹھ گیا ۔
” خیریت ؟” اسکے لہجے میں خفیف سا تجسس در آیا ۔
” آپ نے دادو کو کیوں بھیجا تھا ہمارے گھر ؟” وہ غصیلے لہجے میں پوچھنے لگی تو وہ بے آواز ‘اوہ’ کہہ کر رہ گیا ۔ پھر لہجہ میں تھوڑی سی شرارت بھرتے ہوئے گویا ہوا ، جو کہ اسکا خاصا ہرگز نہیں تھا ۔
” کیونکہ میری امی نہیں ہیں ، ورنہ انہیں بھیج دیتا ”
” بات کو گھمائیں مت ” وہ تلخی بھرے لہجے میں بولی تو وہ لمحہ پھر کو چپ رہ گیا ۔
” اوکے ۔۔۔ کم ٹو دی پوائنٹ۔۔۔ کیا مسئلہ ھے ؟” وھی اکھڑ سا لہجہ بنا کر اسنے پوچھا ۔
” مسئلہ یہ ھے کہ مجھے آپ سے شادی نہیں کرنی ”
” تو یہ بات آپ اپنے گھر والوں سے کیں ۔۔۔ مجھ سے کیوں کہہ رہی ہیں ؟ ”
” کیونکہ میرے گھر والوں کو میری بات سمجھ نہیں آرھی ۔۔۔ ڈیڈ کے خیال میں مجھے آپ جیسا ‘اچھا’ شخص کہیں اور نہیں ملے گا ، وہ بہت ‘شریف ‘ سمجھتے ہیں
آپکو ”
اسکے طنزیہ لہجے کو سنکر وہ ہلکا سا مسکرا دیا ۔
” آپ کے ڈیڈ تو بہت عقلمند انسان ہیں ”
“آپ اپنا پرپوزل واپس لے لیں ”
“واپس نہ لوں تو ؟”
” تو آپکی بہت انسلٹ ہوگی اگر میں نے آپکا پرپوزل ٹھکرا دیا تو ” وہ اسے سمجھانے والے انداز میں آنے والے وقت کے حوالے سے مطلع کر رھی تھی مگر دوسری طرف رازی اسکی گفتگو سے خاصا محظوظ ہو رھا تھا ۔
” اوہ … تو پھر مجھے کیا کرنا چاہیے” وہ مصنوعی پریشانی سے پوچھنے لگا تو عنبر کو لگا اسکا مقصد پورا ہو رھا ھے ۔
” تو یہ کہ آپ ناں فوراً دادو کو انکار کردیں ”
“ہممم ۔۔۔ بات تو تمہاری ٹھیک ھے مگر مجھے کیا پتا کہ دادو میرے انکار کو کسی خاطر میں لاتیں ہیں یا نہیں ۔۔۔۔ بائی دا وے ! تمہارے ڈیڈ تمہارے ساتھ بلکل بھی ٹھیک نہیں کر رھے ”
اسنے سرسری انداز میں کہا تو وہ بھی فوراً سے جذباتی ہوگئی ۔
” وہ ریزن مانگتے ہیں ”
” تو بتا دو نا ریزن انہیں ”
“کیا !!!” وہ ایکدم سے چیخی تو بے اختیار رازی نے ریسیور کان سے پرے کیا ۔
“یعنی ۔۔۔ میں انہیں بتاؤں کہ آپ ۔۔۔ کس قدر بے ہودہ انسان ہیں” وہ غصے بھرے لہجے میں بولی تو وہ بھی تلخ ہوگیا ۔
” کیا بےہودگی کی ھے میں نے ؟”
“اوہو ، بڑی جلدی بھول گئے آپ … آپ بھول بھی جائیں مگر میں نہیں بھول سکتی ۔۔۔ مجھے آپ بلکل بھی ٹھیک آدمی نہیں لگتے ، کیا پتا آپ واقعی ڈرنک کرتے ہوں ۔۔۔ اب ڈیڈ کو میں کیسے بتاسکتی ہوں یہ سب ”
” آپ بہت زہین ہیں ” رازی نے گہری سانس لی اور خود کو نارمل کیا۔
اسکا شرارت بھرا انداز وہ سمجھ نہیں پائی ۔
“کک ۔۔ کیا ۔۔۔ کیا آپ –واقعی ؟” وہ بےیقین سے انداز میں پوچھنے لگی
آ”ئی ایم سوری “اسنے بظاھر تو اسپاٹ سے لہجے میں کہا مگر حقیقتاً اسکے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی ۔
” میں آپکا پرپوزل ریجیکٹ کرتی ہوں ”
“ٹھیک ھے تو یہ بات آپ صاف صاف اپنے ڈیڈ سے کہیں ”
“اگر ڈیڈ میری بات سنتے تو میں آدھی رات کو آپ سے سر نہ کھپا رھی ہوتی ”
“یعنی تم اس معاملے میں بلکل بے اختیار ہو ” رازی نے اطمینان بھری گہری سانس لی ۔ عنبر نے تلملا کر کال کاٹ دی ۔
وہ بے ساختہ مسکرا دیا۔وہ وہیں صوفے پر بیٹھا اس سے کی گئی گفتگو کو ذہن میں یاد کر کے محظوظ ہوتا رھا ۔ یہ لڑکی اسے مجبور کر رھی تھی کہ وہ اپنے دل کے دروازے اسکے لئے کھول دے ۔ وہ اسے سوچتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اور چہرے پر مسکراہٹ سجائے اپنے کمرے کی جانب چل پڑا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...