(Last Updated On: )
(17 ستمبر2020 کے بعدسے جنوری 2022 تک کی مختصر روداد)
17 ستمبر2020 ء کو کینسر کی تھراپی کے بعد میں نے تب تک کی اپنی بیماریوں کا حال لکھ لیا تھا اور اسے ’’بیماری یا روحانی تجربہ‘‘ کے نام سے ای بک کی صورت میں آن لائن کر دیا تھا۔
اکتوبر 2020 ء سے یہ کتاب ان لنکس پر موجود ہے۔
پی ڈی ایف فائل میں
تب سے جنوری 2022 ء تک کا مختصر حال اب بیان کرتا ہوں۔اس سے میری بیماری یاروحانی واردات یا روحانی تجربے کو مزید سمجھنے کا موقعہ ملے گا۔
ستمبر 2020 ء کے بعددسمبر 2020 ء تک کیمو تھراپی اور امیون تھراپی دونوں کا سلسلہ جاری رہا۔دسمبر میں امیون تھراپی کے لئے وقفہ تجویز کیا گیا تاہم کیمو تھراپی بدستور جاری رکھی گئی۔2021 ء کے شروع سے بھی میرے لئے ایمبولینس بلانے کا سلسلہ جاری رہا۔اس کی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں ۔اتنا لکھنا ہی کافی ہے کہ مختلف دیگر امراض کی وجہ سے بار بار ایمرجنسی میں جانا پڑ رہا تھا۔ایک بار شوگر ڈاؤن ہونے کے باعث کیمو تھراپی بھی روک دی گئی۔اس سے میں کچھ فکر مند ہوا کہ امیون تھراپی میں وقفہ دینے کے بعد دوبارہ شروع نہیں ہوئی اور اب کیمو تھراپی بھی بند کی جا رہی ہے۔کہیں جگر میں کینسر بڑھ نہ جائے۔
رمضان شریف کا مہینہ تھا۔بچے میرے ہاں آئے ہوئے تھے۔8 مئی 2021 ء کو میں بیدار ہوا تو بچے سحری کر چکے تھے۔بیداری کے باوجود میں گھر کے کسی فرد کو پہچان نہیں رہا تھا۔منجھلا بیٹا عثمان گھر میں آیا تو میں نے بچوں میں صرف اس سے کچھ گفتگو کی۔میری حالت دیکھتے ہوئے ایمبولینس بلا لی گئی۔جرمن ڈاکٹر کے ساتھ میں نے بڑے مزے سے جرمن میں بات کی۔حالانکہ عام طور پرجرمن بولتے ہوئے دو چار جملوں کے بعد ہی میرا سانس پھول جاتا ہے۔ایمبولینس والے مجھے نارڈ ویسٹ ہسپتال لے گئے۔یہ ہسپتال دماغی امراض کے حوالے سے خاص اہمیت رکھتا ہے۔لگ بھگ چار گھنٹوں کے بعد میں اپنے ہوش و حواس میں آیا تو بچوں سے رابطہ کیا۔تب مجھے اپنی اصل داستان معلوم ہوئی کہ کن مراحل سے ہوتا ہوا ہسپتال پہنچا ہوں۔
8 مئی سے 19 مئی تک میں ہسپتال میں داخل رہا۔اس دوران 12 مئی کو میرا ایم آرٹی ٹیسٹ ہوا۔تشخیص ہوا کہ مجھے برین ٹیومر ہے اور یہ ایسا ٹیومر ہے جو بڑی تیزی سے سارے بدن میں پھیل جاتا ہے۔میں گردے میں ٹیومر کی خبر سے بھی گھبرایا نہیں تھا۔پھر جگر میں کینسر کی خبر نے بھی گھبراہٹ پیدا نہیں کی تھی۔ہاں تھراپیوں کا سلسلہ رک جانے کے باعث تھوڑا سا متفکر ضرور ہوا تھا۔تب میں نے متبادل کے طور پر ایک دیسی دوا لینا شروع کر دی۔سُچی بُوٹی کی گولیاں میری بیٹی رضوانہ نے اپنی سہیلی کرن کے ذریعے منگا دی تھیں۔دو ہفتے میں نے یہ گو لیاں استعمال کیں۔اسی دوران کرن کے مشورے سے دودھ میں ہلدی ملا کر پینے کا سلسلہ بھی باقاعدگی سے شروع کر دیا۔ اللہ کے فضل و کرم سے یہ دونوں ٹوٹکے مفید ثابت ہوئے۔اللہ کرن بی بی کو جزائے خیر دے۔ آمین ان دو ٹوٹکوں کے علاوہ میں نے اول روز سے سورہ رحمن کی تلاوت سننا شروع کر دی۔یہ قاری عبدالباسط کی قرات میں یو ٹیوب پر دستیاب ہے۔بہت سارے احباب نے اس کا مشورہ دیا تھا اور یہ تلاوت سننے کی تھراپی میرے لئے بے حد مفیداور با برکت ثابت ہوئی۔میں نے یہ تلاوت سننے کا سلسلہ ابھی بھی جاری رکھا ہوا ہے۔
خیربات ہو رہی تھی میرے برین ٹیومر کی۔۔۔ اب برین ٹیومر کی خبر نے مجھے سچ مچ پریشان کر دیا تھا۔ چنانچہ اللہ میاں سے کچھ باتیں کیں۔پھر وہ باتیں الفاظ کے تھوڑے سے ادل بدل کے ساتھ اللہ میاں سے بار بار کیں۔اب ہسپتال والوں نے طے کیا کہ 9 جون 2021 ء کودوبارہ ہسپتال میں جاؤں گا۔وہاں ایک بار پھر ایم آر ٹی ہو گا اور 10 جون کو میرا برین ٹیومر کا علاج شعاعوں کے ذریعے شروع کیا جائے گا۔مجھے جتنی برین ٹیومر کی خبر نے پریشان کیا تھا اتنی ہی پریشانی اور گھبراہٹ شعاعوں والے علاج کا سوچ سوچ کر ہو رہی تھی۔میں تو ایم آرٹی بھی ہمیشہ بے ہوشی کے ساتھ کراتا ہوں۔اب یہ شعاعوں والا علاج (بِش ٹرالنگ) با ہوش و حواس کرانا ہوگا۔9 جون سے دو تین دن پہلے اپنی بڑی بیٹی رضوانہ سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا تھا کہ یہ برین ٹیومر بالکل اچانک ہی آیا ہے۔جیسے اللہ نے اچانک یہ بیماری بھیجی ہے ویسے ہی یہ اچانک جا بھی تو سکتی ہے۔رضوانہ نے کہا ہاں اللہ چاہے تو یہ بیماری بالکل جا سکتی ہے۔تب میں نے رضوانہ سے کہا کہ آپ بھی دعا کریں اور میں بھی دعا کرتا ہوںکہ جیسے یہ بیماری اچانک آئی ہے ویسے ہی اچانک واپس چلی جائے۔چنانچہ ہم دونوں باپ بیٹی نے اس حوالے سے دعا کی۔باقی بچے ویسے عمومی طور پر صحت یابی کی دعا کر رہے تھے۔
۹ جون کو پروگرام کے مطابق ایم آرٹی چیک اپ ہوا۔10 جون کو بش ٹرالنگ سے پہلے اسٹیشن کے ڈاکٹر کے ساتھ بڑا ڈاکٹر بھی آیا اور مجھے یہ خوش خبری سنائی کہ ایم آر ٹی میں برین ٹیومر نہیں مل رہا۔اس لئے اب شعاعوں والا علاج نہیں ہوگا۔تاہم ستمبر میں دوبارہ ایم آر ٹی کریں گے تاکہ صورتِ حال مزید واضح ہو جائے۔میں نے تب یہ میسج اپنے سارے عزیزواقارب اور دوست احباب اور ادبی گروپ کو بھج دیا۔
’’ اللہ پاک کابہت ہی خاص کرم ہوگیا ہے۔
رمضان شریف کے مہینے میں برین ٹیومر تشخیص ہوا تھا شعاعوں کے ذریعے علاج طے ہوا تھا۔اسی سلسلے میں کل ہسپتال گیا تھا۔وہاں MRT میں ظاہر ہوا کہ کوئی ٹیومر شیومر نہیں ہے جبکہ اسی ہسپتال اور اسی MRT سنٹر نے ہی پہلے بیماری کی تشخیص کی تھی اور اسی نے “بِش ٹرالنگ”(شعاعوں والا طریق علاج) طے کیا تھا۔اللہ کا بہت ہی خاص کرم ہو گیا ہے جیسے بیماری اچانک آئی تھی ویسے ہی اچانک غائب بھی ہو گئی۔الحمدللہ۔۔۔سبحان اللہ۔۔۔۔
یہ کوئی سنی سنائی نہیں خودپر بیتی اور مغربی جدید تر ہسپتال کے ریکارڈ میں موجود بات ہے۔(حیدر قریشی۔10.6.2021)‘‘
پروگرام کے مطابق ستمبر میں پھر ہسپتال گیا،ایم آرٹی ہوا،اور ایک بار پھر برین ٹیومر نہ ہونے کی خوش خبری ملی۔تب میں نے حسبِ معمول اپنے سارے عزیزواقارب،دوست احباب اور ادبی گروپ کو یہ میسج بھیجا۔
’’ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے، اس کے فضل و کرم سے لگ بھگ تین ماہ کے بعد ہونے والے MRT سے پھر تصدیق ہوگئی کہ برین ٹیومر کا کوئی نام و نشان نہیں ہے الحمدلِلہِ ثم الحمد للہ۔دعا میں یاد رکھنے والے سارے بچوں، عزیزو اقارب اور احباب کا تہہِ دل سے شکر گزار ہوں۔اللہ سب کو جزائے خیر دے۔آمین۔ابھی ہسپتال میں ہوں۔کل تک چھٹی مل جانے کی امید ہے۔ان شاء اللہ۔
اب جگر کے کینسر کا چیک اپ ہونا باقی ہے۔اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے امید ہے کہ اس سے بھی نجات مل گئی ہوگی اور مکمل طور پر کینسر فری ہو جاؤں گا۔ان شاء اللہ۔سارے بچوں، عزیزو اقارب اور دوست احباب سے درخواست ہے کہ اس سلسلہ میں بھی دعا میں یاد رکھیں۔آمین ثم آمین ۔(حیدر قریشی..7.9.2021)‘‘
سات ستمبر 2021 ء کو میں اس امید کا اظہار کر رہا تھا کہ میں جگر کے کینسر سے بھی نجات پا چکا ہوں۔بعد میں یہ درست ثابت ہوا۔نومبر،دسمبر 2021 ء تک میں نے سارے عزیزو اقارب اور قریبی دوستوں کو یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ مجھ پر اللہ کا فضل و کرم ہو چکا ہے،میں کینسر سے نجات پا چکا ہوں بس میڈیکل رزلٹ کا انتظار ہے۔مجھے واقعی یہی محسوس ہوتا تھا کہ میں کینسر سے نجات پا چکا ہوں۔بعد میں 10 جنوری 2022 ء کے سی ٹی سکین سے واضح ہو گیا کہ میں واقعی جگر کے کینسر سے بھی نجات پا چکا ہوں۔الحمدللہ۔۔۔اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔۔۔اور جرمنی کے میڈیکل سسٹم کا بھی شکریہ کہ مجھے اتنی اچھی میڈیکل سہولتیں میسر رہیں۔
فروری 2020 ء سے جنوری 2022ء تک میں نے کینسر کے تین زوردار حملوں کا سامنا کیا۔پہلے فروری 2020 میںبائیں گردے میں ٹیومر ملا اور وہ گردہ ہی نکال دیا گیا۔پھر 26 جون 2020 کو جگر میں کینسر دریافت ہوا اور اس کا علاج مکمل ہونے سے پہلے 12 مئی 2021 کوبرین ٹیومر بھی ظاہر ہو گیا۔۔۔۔کینسر کے ان سارے حملوں کے باوجود اللہ نے اپنے بہت ہی خاص فضل و کرم سے مجھے کینسر سے مکمل نجات عطا کر دی ہے۔
یہاں یہ واضح کرتا چلوں کہ 6 اور 7 جولائی 2020 ء کی درمیانی شب کو فرحت نواز نے ایک خواب دیکھا تھا۔یہ خواب اس کتاب کے صفحہ نمبر16-17 پر درج ہے۔تاہم اس کی آخری سطروں کے الفاظ یہاں درج کر دیتا ہوں۔
’’میں اسی جگہ کھڑی خواب میں ہی سوچ رہی ہوں کہ اب آپ نے ٹھیک ہو جانا ہے۔ان شاء اللہ۔میری آنکھ کھلی توسامنے کلاک پہ پورے تین بج رہے تھے۔‘‘
تب بعض دوستوں نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ اس خواب کی بابت باتیں کی تھیں۔ہر انسان کے سوچنے کی اپنی اپنی سطح ہوتی ہے۔وہ دوست بھی اپنی جگہ ٹھیک ہوں گے لیکن فرحت نواز کے خواب کی سچائی آج روزِ روشن کی طرح ظاہر ہو چکی ہے۔اللہ فرحت بی بی کو خوش رکھے۔آمین۔
اسی رات میں نے جو خواب دیکھا تھا وہ خواب بھی اسی کتاب کے صفحہ 17 پر پہلے سے درج ہے۔
’’ میں نے خواب دیکھا کہ پرانی اور بوسیدہ سی کسی عمارت میں ایک تنگ سے کوریڈور سے میں آگے جانا چاہتا ہوںلیکن ایک بدمعاش جو نہایت تگڑاا ور لمبے قد کا ہے میر ا رستہ روکے کھڑا ہے۔وہ مجھے مارنا چاہتا ہے یا نقصان پہنچانا چاہتا ہے اور میں اس سے دل ہی دل میں ڈر بھی رہا ہوں۔پھر یکایک نہ صرف وہ بدمعاش غائب ہو گیا بلکہ دیکھا کہ میں تنگ کوریڈور کی بجائے کسی عمارت کی کھلی چھت پر کھڑا ہوں۔وہیں سے ٹہلتے ہوئے میں ایک دوکان پر جاتا ہوں۔وہاں سے دو لڈو لیتا ہوں اور انہیں کھانے لگتا ہوں۔‘‘
کینسر وہ بدمعاش تھا جس سے بچنے کی مجھے کوئی راہ نہیں مل رہی تھی۔پھراس کا غائب ہوجانا
اور میرا کھلی چھت پر موجود ہونا کینسر سے نجات کی خوش خبری تھی۔اور دو لڈو لے کر کھانے کی تعبیر یوں ظاہر ہوئی کہ میرے دو نواسوں مشہود اور مسرور کی شادیوں کا ولیمہ 27 دسمبر 2021ء کو ہوا اور مجھے اس خوشی میں شرکت کا موقعہ ملا۔الحمد لِلہ ثم الحمدلِلہ۔
مشہود کی شادی چند ماہ پہلے ہو چکی تھی۔مسرورکی اب ہو رہی تھی۔20دسمبر2021 ء کو مہندی کی رسم تھی۔میں اس تقریب میں شریک ہوا لیکن اگلے دو دن طبیعت خراب رہی تو چیک کیا۔کورونا ٹیسٹ مثبت آ رہا تھا۔23 سے 26 دسمبر تک کورونا رہا۔میں مسرور کی شادی کی تقریب میں شریک نہ ہو سکا۔تاہم 27 دسمبر کو قریبی ٹیسٹ سنٹر میں چیک کرایا تو ٹیسٹ کا رزلٹ نیگیٹو آگیا۔خوشی ہوئی کہ آج شام کو دونوں بچوں کے ولیمہ میں شامل ہو سکوں گا۔سو ایسا ہی ہوا اور یوں ایک ساتھ دو لڈو کھانے کی تعبیر دونوں نواسوں کے ولیمہ میں شرکت کی خوشی سے ظاہر ہو گئی۔الحمدللہ۔
فرحت کا خواب اور اپنا خواب بیان کرنے کے بعد تب ہی صفحہ نمبر 18 پر میں نے یہ الفاظ لکھے تھے۔
’’ میرا خیال ہے کہ دونوں خوابوں کی تعبیریں از خود ظاہر ہیں اور کینسر سے میری نجات اور شفایابی کی تسلی دیتی ہیں۔ہاں فرحت کے خواب میں میرے شیونگ کٹ اٹھانے سے میں نے یہ مراد لیا کہ زندگی معمول پر آجائے گی۔باقی واللہ اعلم۔(ویسے زندگی معمول پر آ تو چکی ہے)۔
بے شک اللہ تعالیٰ جب چاہے اپنے گنہگار اور کمزوربندوں کو ہر طرح سے تسلی دے دیتا ہے۔ فالحمدلِلہ علیٰ ذالک۔‘‘
میری ہولناک بیماریاں،میرا روحانی تجربہ،میرے خواب اور ان کی تعبیریں اور تب ہی میرے تاثرات اور اب وہ سب کچھ کسی تاویل کے بغیر سچ ثابت ہونا خدا پر میرے کامل یقین کا ثمر ہے اور خدا کی میرے ساتھ شفقت اور محبت کا واضح نشان ہے۔اس کے لئے اُس کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے۔
یہاں اس بات کو واضح کر دوں کہ میرے نزدیک کسی انسان کا خدا سے معاملہ براہِ راست خدا اور انسان کا آپس کا معاملہ ہے۔اگر اس کی اپنے لئے کی گئی دعائیں پوری ہوجاتی ہیں تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اسے دوسروں کے لئے دعائیں کرکے انہیں قبول کرانے کا ٹھیکہ مل گیا ہے۔جو اس قسم کے دعا گو پائے جاتے ہیں اور جو اپنی ایسی تشہیر کے لئے خاص اہتمام کرتے ہیں وہ عمومی طور پر دعا کے نام پر دھندہ کرتے ہیں۔زیادہ تر خلقِ خدا کو بے وقوف بنا کر ان سے نذریں اور نذرانے وصول کرتے ہیں۔ ہاں کوئی بندہ دعا گوئی کو دھندہ بنائے بغیر کسی کی ہمدردی میں دعا کرتا ہے تو ایسے بندے کی دعا قبول ہو سکتی ہے لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ ہر انسان کو اپنے مسائل کے حل کے لئے خود اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے۔اپنے مسائل،اپنے دکھوں کو کوئی انسان جتنا خود سمجھتا ہے ویسا انہیں کوئی بھی نہیںسمجھ سکتا اور جس اضطراب کے ساتھ کوئی انسان اپنے لئے خود دعا مانگ سکتا ہے ویسا کوئی بھی نہیں مانگ سکتا۔
یہ سب اس لئے بیان کرنے کی نوبت آئی کہ حالیہ دنوں میں ایک ڈیسنٹ سی لیڈی فوزیہ محمود کے ساتھ رابطہ ہوا۔انہوں نے میری بعض تحریروں کو پڑھ رکھا تھا۔انہوں نے ان کا ذکر کیا اور کہنے لگیں کہ آپ نے جس انداز میں اپنے بعض روحانی تجربوں کو بیان کیا ہے ،انہیں پڑھ کر مجھے خوشی ہوئی ہے۔پھر وہ اپنے بعض مسائل کا عمومی ذکر کرکے مجھے خصوصی طور پر دعا کے لئے کہنے لگیں۔ان کی ’’دعا کی درخواست‘‘ سن کر میں گھبرا گیا۔
ایک تو اس لئے کہ اپنی باتوں سے وہ مجھے اپنے آپ سے کہیں زیادہ اور بہتراللہ سے لو لگانے والی خاتون محسوس ہو رہی تھیں۔ مجھے ان کے اثرات بڑے واضح طورسے اپنے آپ پر محسوس ہو رہے تھے۔دوسرا یہ کہ ’’دعا کی درخواست‘‘کے الفاظ سے مجھے گھبراہٹ ہوئی۔میں نے انہیں واضح طور پر کہا کہ ایسا کبھی نہیں کہیں۔کسی سے بھی کہنا ہو تو اتنا کہہ دیں کہ میرے لئے دعا کیجئے گا۔عاجزانہ طور پر کسی انسان سے دعا کی درخواست کی جائے تو اس کے دماغ میں تو خناس سما جائے گا۔کچھ نہ ہو کر بھی وہ خود کو پتہ نہیں کیا کچھ سمجھنے لگ جائے گا۔
پھر میں نے انہیں میرزا ادیب کا ایک قصہ سنایا۔۔۔وہ کرشن نگر سے اردو بازار تک پیدل جایا کرتے تھے۔رستے میں لاہور میوزیم آتا تھا۔میرزا ادیب کچھ دیر کے لئے اس میوزیم میں چلے جاتے۔وہاں مہاتما بدھ کا ایک مجسمہ ہوتا تھا۔میرزا ادیب اس مجسمے کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ جاتے اور کچھ دیر کے لئے آنکھیں موند کر عالمِ استغراق میں چلے جاتے۔کئی دن ایسے گزرتے گئے ۔ ایک دن میوزیم کے عملے کے کسی فرد نے ان سے پوچھ لیا کہ یہ آپ روزانہ آ کر کیا کرتے ہیں؟
میرزا ادیب نے جواب دیا کہ مجھے ایسے بیٹھنے سے سکون ملتا ہے۔
مزید چند دن گزرے۔۔۔ایک دن مہاتما بدھ کا مجسمہ بول اٹھا کہ ہو سکے تو مجھے یہاں سے نکال کر کہیں باہر لے چلو کیونکہ میں یہاں بہت بے سکون ہوں۔
یہ قصہ سنا کر میں نے فوزیہ محمود صاحبہ سے کہا کہ میری تو اپنی بہت ساری دعائیں اٹکی ہوئی ہیں۔وہ ہی ابھی تک پوری نہیں ہورہیں،کسی اور کے لئے کیا دعا کروں۔
عجب سزا ہے کہ میرے دعاؤں والے حروف
نہ مسترد ہوئے اب تک،نہ مستجاب ہوئے
نجی طور پر دوسرے احباب کے حوالے سے اور بہت ساری باتیں ہیںجو اس دوران ذاتی رابطے میں پیش آتی رہیں لیکن ان سب کا بیان کرنا مناسب نہیں لگ رہا۔ہاں اس عرصہ میں یہ دیکھنے میں آیا کہ میرے بعض مخالفین ،جنہوں نے اپنی چالاکی سے عناد کی ساری حدیں پار کر لی تھیں اور میں دو سال کا عرصہ کسی بھی جوابی کاروائی سے گریز کرکے اپنی بیماریوں کے علاج پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھا۔ان میں سے بعض بہت زیادہ چالاک اور اپنے اپنے دائرہ کار میں طاقت ور لوگوں کو شدید خدائی پکڑ میں آتے دیکھا۔ان میں ادبی دنیا سے متعلق لوگ بھی ہیں،مذہبی دنیا کے لوگ بھی ہیں اور سماجی سطح پر بلاوجہ تکلیف دینے والے بھی شامل ہیں۔ان کی جو پکڑ ہوئی اس پر اپنی سال 2000 ء کی ایک تحریر یاد آگئی۔
’’میں جب بھی مظلومیت کی حالت میں ہوا‘میرے ساتھ ظلم کرنے والا کوئی عام انسان تھا تو وہ بھی خدا کی گرفت سے نہیں بچا اور اگر کسی کو خدا سے تعلق کا کوئی زعم تھا اور اس نے میرے خلاف کوئی ظالمانہ کاروائی کی تو جس نوعیت کی کاروائی کی گئی‘زیادہ سے زیادہ تین ماہ کے اندر ویسی ہی کاروائی خود اس کے خلاف ہو گئی یا اس سے بھی زیادہ رُسوائی اسے بڑے پیمانے پر مل گئی۔ میں نے ایک چیز اور بھی نوٹ کی ہے۔اگر میں کسی کی زیادتی کا بدلہ خود لے لوں تو میرا بدلہ ہی اس کی سزا ہوتا ہے۔لیکن اگر میں کسی سے بدلہ نہ لے سکوں۔۔۔خواہ مجبوری کے باعث‘خواہ صبر کرکے ۔ ۔ ۔ میری خاموشی کے نتیجہ میں ظالم کو قدرت کی طرف سے ایسی سزا ملی کہ میں خود بھی بعض اوقات دُکھی ہو گیا کہ مولا! اتنی کڑی سزا تو انہیں نہ دینا تھی۔‘‘
(’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘ کے باب ’’دعائیں اور قسمت‘‘ص61-62 ۔’’گلبن‘‘مئی،جون2000 ء)
میں نے تین دنیاؤں کے تین لوگوں کا تو حال ہی میں ایسا انجام دیکھا کہ واقعتاََ میں خود دکھی ہو گیا کہ مولا ! یہ سزا تو کچھ زیادہ ہی ہو گئی ہے۔یہاں ایک ضروری وضاحت کر دوں کہ میں نے سال 2000 ء میں ’’تین ماہ کے اندر زیادتی کرنے والوں کو سزا‘‘ ملنے کا ذکر کیا ہے۔یہ ہلکی پھلکی سزا ہوتی تھی۔۔۔لیکن کچھ عرصہ کے بعد وہ سفاک لوگ زیادہ شدید گرفت میں بھی آئے۔ایک صاحب تو موت کے بعد بھی دنیا میں ابھی تک رسوا ہو رہے ہیں اور بڑے پیمانے پر رسوا ہو رہے ہیں۔لیکن میں کسی بھی نام کی نشان دہی کیے بغیر اس ذکرکو یہیں ختم کرتا ہوں۔یہ سب صرف اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے ذکر کے طور پر بیان کیا ہے لیکن مجھے ڈر ہے کہ تحدیثِ نعمت کے الفاظ کہیں میرے اندرتکبرنہ پیدا کر دیں۔سو یہیں محتاط ہوتا ہوں۔
میں نے بہت پہلے سے ایک دعا مانگ رکھی تھی کہ میری عمرحضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی عمر 63 سال سے آگے نہ جائے۔ یہ دعا پوری نہیں ہوئی تو میں اپنی 63 سال کے بعد کی ساری عمرکو اللہ تعالیٰ کے ذریعے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا فیض سمجھتا ہوں۔
اپنی اہلیہ مبارکہ کی وفات کے بعد میں نے مبارکہ کی قبر کے ساتھ والی قبر کا پلاٹ اپنے لئے بک کرا لیا تھا۔وہاں اپنا اور مبارکہ کا مشترکہ کتبہ لگا دیا ہوا ہے۔اس کتبہ پر قرآنی آیات کے ساتھ سب سے نیچے میں نے یہ شعر بھی درج کرا رکھا ہے۔
اور تھے حیدرؔ جو اس کی چاہ میں مرتے رہے
ہم نے اُلٹے ہاتھ سے جھٹکی ہوئی ہے زندگی
جب بھی دعا کے لئے قبرستان جاتا ہوںوہاں اپنی ہی قبرکی جگہ پر کھڑے ہو کر مبارکہ کی مغفرت کے لیے دعا مانگتا ہوں۔
مذکورہ دونوں باتیں بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اپنی تمام تر بشری کمزوریوں کے باوجود موت میرے لئے خوف کا باعث نہیں بلکہ وصل کا پیغام ہے۔فروری 2020 سے لے کر جنوری 2022 ء
تک میں نے سنگین بیماریوں سے لے کر ہولناک بیماریوں تک کا سامنا کیالیکن انہیں بیماریوں کے دوران مجھے چار روز پر محیط وہ روحانی تجربہ بھی نصیب ہوا جس نے مجھے اپنے اباجی اور دادا جی کے روحانی تجربوںکے ساتھ پوری طرح جوڑ دیا۔ہماری تین نسلوں کا ملتے جلتے روحانی تجربوں سے گزرنا اور ان میں ایک ارتقائی تسلسل کا پایا جانا میرے لئے سراسرسعادت اور نیک بختی ہے۔
تمام بیماریوں اور ان بیماریوں کے سارے دُکھوں کو سہنے کے بعد اب میں صحت و سلامتی کے ساتھ 70 برس کا ہو چکا ہوں. اور اب بھی اللہ کی رضا پر راضی ہوں۔وہ اب مجھے صحت تندرستی کے ساتھ جب بھی اپنی بارگاہ میں بلانا چاہے میں صدقِ دل کے ساتھ بخوشی حاضر ہوں۔اور وہ جتنی زندگی دینا چاہتا ہے میں اس پر بھی راضی ہوں۔
راضی ہوں تیری مرضی پر ،لیکن بھید کھلے بھی
تیری مرضی کیا ہے یاراِ، کچھ تو کھل کر بول
حیدر قریشی۔۔۔جرمنی سے
19جنوری 2022