سارے لائونج میں بھن بھناہٹیں ہو رہی تھیں ۔۔
جو سپاٹ چہرہ لیئے بڑے سے کالے شاپر میں مردہ بلی ڈال کر سیڑھیاں اترتے شمعون کو دیکھ کر رک گئی تھیں ۔۔
اب سب کی خوفزدہ نظریں اس کالے شاپر پر منڈلانے لگی تھیں ۔۔
“اسے کہاں پھینکو گے تم شمعون ۔۔؟
یہ کوئی عام سی بلی نہیں ہے ۔۔”
“جانتا ہوں ۔۔”
تیمور آفندی کے پوچھنے پر وہ بوجھل لہجے میں جواب دیتا ہوا آگے بڑھ گیا ۔۔
تیمور آفندی کو اس کا لہجہ چونکا گیا ۔۔
وہ بھی اس کے پیچھے ہو لیئے ۔۔
“کیا بات ہے شمعون ۔۔”
“جی ۔۔
کچھ نہیں ۔۔
کیا بات ہوگی ۔۔”
“سمجھ آگیا مجھے ۔۔
یہ تمہاری زندگی کا خاص وقت ہے ۔۔
اور آج ہی یہ بلیوں کی نحوست ۔۔
لیکن تم دل خراب مت کرو اپنا ۔۔”
تیمور آفندی شمعون کے دل کا حال جانے بغیر اپنے تئیں اسے حوصلہ دے رہے تھے ۔۔
اور وہ بیچارہ اس حال میں تھا کہ نہ انہیں چپ ہونے کو کہہ سکتا تھا ۔۔
اور پرسکون ہو کر ہنس دینا تو خیر ۔۔
ناممکنات میں سے تھا ۔۔
اس نے شاپر گاڑی کی ڈگی میں رکھا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا ۔۔
تیمور آفندی نے ساتھ چلنا چاہا لیکن اس نے منع کر دیا ۔۔
وہ اس وقت صرف تنہائی چاہتا تھا ۔۔
“اپنا خیال رکھنا ۔۔”
تیمور آفندی نے دل میں اٹھتے اندیشوں کو جھٹکتے ہوئے کہا تو شمعون کے لب پل بھر کو پھیل کر سمٹ گئے ۔۔
گیٹ پر کھڑے تیمور آفندی دور جاتی سیاہ گاڑی کو بہت دیر تک دیکھتے رہے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“میں ہی منحوس ہوں ۔۔
میرا نصیب ہی خراب ہے ۔۔
وقت ہی کتنا گزرا یے میری شادی کو جو اب یہ نئی مصیبت ۔۔”
شہلا واپس گیسٹ روم میں آگئی تھی ۔۔
سب لوگ لائونج میں جمع تھے اور اسی حادثے پر اظہار خیال کر رہے تھے ۔۔
لیکن شہلا کو یوں لگ رہا تھا جیسے سب اسی کی ذات کے بارے میں باتیں بنا رہے ہوں ۔۔
وہ خود کو اس سب کا قصوروار سمجھ رہی تھی ۔۔
اوپر سے شمعون کا عجیب و غریب رویہ ۔۔
سخت الجھن کا شکار تھی وہ اس وقت ۔۔
” کیا ہو گیا تھا ۔۔
اب کیا ہوگا ۔۔
شمعون نے وہ سب کیوں کیا ۔۔
سب کیا سوچ رہے ہونگے ۔۔”
پریشان کن سوچوں کی یلغار تھی ۔۔
اور جواب ندارد ۔۔
یونہی خود سے الجھتے الجھتے وہ صوفے پر بیٹھے بیٹھے نیند کی وادیوں میں اتر گئی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امتل تیمور آفندی کے حکم پر رات کے ڈھائی بجے سب کے لیئے چائے بنا رہی تھی جب حمزہ پانی پینے کچن میں چلا آیا ۔۔
وہ فرج سے پانی کی بوتل نکال کر منہ سے لگانے لگا جب امتل نے تڑپ کر گلاس اٹھا کر اس کی طرف بڑھا دیا ۔۔
“بھائی کتنی بار سمجھایا ہے آپ کو ۔۔
منہ نہیں لگایا کریں بوتل سے ۔۔”
حمزہ نے امتل کی بات کی طرح اس کے بڑھائے گئے گلاس کو بھی نظر انداز کر کے منہ بوتل سے لگا لیا اور غٹاغٹ پانی حلق میں انڈیلنے لگا ۔۔
امتل صبر کا گھونٹ بھر کر رہ گئی ۔۔
جب بوتل واپس رکھ کر وہ کچن سے نکلنے لگا تب امتل طنزیہ انداز میں بولی ۔۔
“اب اپنی ناکام محبت کا سوگ ایسے منائیں گے آپ ۔۔؟
سب سے روڈ ہو کر ۔۔
رات گئے گھر سے باہر رہ رہ کر ۔۔
شہلا میڈم تو عیش میں ہیں ۔۔
پھر آپ ۔۔”
“شٹ آپ امتل ۔۔
کس سے روڈ ہوا ہوں میں ۔۔
میں ہمیشہ سے ایسا ہی ہوں ۔۔
اور زیادہ وقت نہیں ہوا ہے میری بہن کو گزرے ۔۔
سو مجھ سے لڈیاں ڈالنے کی امید رکھنا چھوڑ دو ۔۔
ہاں ۔۔
ہاں مجھے کچھ تکلیف ہوئی ہے ابھی زخم ہرا ہے ۔۔
لیکن ۔۔
آئندہ میرے ساتھ اس طرح شہلا کا ذکر مت کرنا ۔۔
ایک قابل احترام رشتے سے منسوب ہو چکی ہے وہ ہم سے ۔۔
زرا کسی کے کان میں بھنک بھی پڑ گئی تو تم جیسی بیوقوف لڑکی سوچ بھی نہیں سکتی کیا ہوجائے گا ۔۔
وہ بیچاری مفت میں بدنام ہوجائے گی ۔۔
حالانکہ وہ میرے جذبات سے بھی ناواقف تھی ۔۔
بہرحال ۔۔
آئندہ احتیاط کرنا ۔۔
ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ۔۔”
“ہے بھی نہیں ۔۔”
امتل نے اس کے پیٹھ پیچھے زبان چڑا کر کہا ۔۔
وہ ایسی ہی تھی ۔۔
زندہ دل سی ۔۔
کوئی بھی بات زیادہ دیر تک ذہن پر سوار نہیں رکھتی تھی ۔۔
اس وقت بھی اس کے چہرے پر کچھ دیر پہلے ہونے والے واقعے کا زرا بھی اثر نہیں تھا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچانک آسمان پر بڑے بڑے بادل منڈلانے لگے تھے ۔۔
چاند ستارے ان بادلوں کی اوٹ میں چھپ گئے تھے ۔۔
ہوا کا دبائو بہت زیادہ تھا ۔۔
بارش ہونی یقینی تھی ۔۔
ایسے میں وہ جنگل کے بیچ و بیچ کھڑا ہاتھ میں پکڑے شاپر کو زخمی نظروں سے ایک ٹک گھورے جا رہا تھا ۔۔
اس کے گھنے بال ایک طرف کو اڑے جا رہے تھے ۔۔
اور شرٹ بِھی ہوا سے پھول گئی تھی ۔۔
اس نے شاپر کو بہت عقیدت سے دونوں ہاتھوں میں اٹھا رکھ تھا ۔۔
اس کا ضبط اس کے حلق کی گٹھلی سے نمایاں تھا ۔۔
“کیوں مجھے اتنا مجبور کیا آپ نے ۔۔”
اس کی اچانک دہاڑ پورے جنگل میں گونجی تھی ۔۔
“میں سردار ہوں ۔۔
سب سنبھال لیتا ۔۔
پھر کیوں آپ نے اس کی جان لینے کی کوشش کی ۔۔
بہت عزیز ہے وہ مجھے ۔۔
نہیں کرنا چاہیے تھا آپ کو ایسا ۔۔
نہیں کرنا چاہیے تھا ۔۔”
اس کی دہاڑیں کسی عام انسان کے کانوں میں پڑ جاتیں تو لازمی اس انسان کا دل حلق میں آجاتا ۔۔
اس کی دہاڑ میں بلیوں کی غراہٹ تھی ۔۔
پھر وہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھا اور شاپر سامنے رکھ کر ہاتھوں جلدی جلدی گڑھا کھودنے لگا ۔۔
اس کے ہاتھوں میں ایسی پھرتی تھی ۔۔
جو عام انسانی نظروں کو چکرا دیتی ۔۔
دس منٹ میں وہ ایک بہت ہی گہرا گڑھا کھود چکا تھا ۔۔
جیسے ہی اس نے شاپر اٹھایا بارش کی پہلی بوند بھی اس کی ناک پر گر گئی ۔۔
جس پر شمعون نے دھیان نہیں دیا ۔۔
شاپر گڑھے میں ڈالتے ہوئے اس کے ہاتھ لرز رہے تھے ۔۔
دل پر جبر کیئے وہ مرے مرے ہاتھوں سے گڑھے کو کیچڑ بن جانے والی مٹی سے بھرنے لگا ۔۔
اچانک زور پکڑ چکی بارش کی مدھر آواز کے ساتھ اب کئی سارے قدموں کی آوازیں بھی جنگل کی خاموشی میں گونجنے لگیں ۔۔
بغیر پلٹے بھی وہ آنے والوں سے واقف تھا ۔۔
گہری سانس بھر کر جب وہ مڑا تو پیچھے کئی اونچے لمبے جوان بوڑھے سیاہ بے رونق آنکھوں والے لوگ موجود تھے ۔۔
یہ سب اس کے قبیلے کے لوگ تھے ۔۔
اور اس وقت سب ہی اس سے سخت ناخوش لگ رہے تھے ۔۔
کچھ دیر تک یونہی آمنے سامنے کھڑے وہ سب شمعون کو اور شمعون انہیں گھورتا رہا ۔۔
پھر اچانک ان میں سے کوئی ایک غرایا ۔۔
“جانتے ہو تم نے کیا کیا ہے ۔۔؟”
اس کے ساتھ ہی ایک اور طنزیہ غراہٹ ابھری ۔۔
“یہ اچھی طرح جانتا ہے اس نے کیا کیا ہے ۔۔
سردار جو ٹھہرا ۔۔”
“شاکوپا ۔۔
میں نے پہلے ہی کہا تھا ۔۔
ایک ہی خاندان کی غلامی ٹھیک نہیں ہے ۔۔
کوئی مقابلہ ہونا چاہیے ۔۔
اور قبیلے کی سرداری صرف سرداری کے لیئے اہل کو ہی دینی چاہیے ۔۔”
خیمو نامی شخص نے اپنے پہلو میں کھڑے جھکی کمر والے ایک بزرگ کو مخاطب کر کے کہا ۔۔
شمعون نے لبوں پر استہزا سجا کر بغور ان سب کو دیکھا ۔۔
پھر اپنی سرد آواز میں بولا ۔۔
“اور مجھ سے زیادہ اہل پورے قبیلے میں کوئی نہیں ہے ۔۔”
سب نے ایک ساتھ اپنی سرد نظروں سے اسے سرتاپا گھورا ۔۔
“تمہیں اپمی اہلیت ثابت کرنی ہوگی شمعون ۔۔”
شاکوپا نامی شخص نے ٹھنڈے ٹھار لہجے میں کہا ۔۔
شاکوپا کی سفید داڑھی اس کے گھٹنوں سے بھی نیچے جا رہی تھی ۔۔
جبکہ بھنویں اتنی گھنی تھیں کہ اندر کو دھنسی ہوئی ہری گدلی آنکھیں بلکل نظر نہیں آتی تھیں ۔۔
وہ قبیلے کا سب سے محترم بزرگ تھا ۔۔
جھریوں بھری اس کی سفید سفید کھال خوفزدہ کر دینے کی حد تک لٹک رہی تھی ۔۔
بارش کا پانی اس کی داڑھی میں جمع ہوکر نکل رہا تھا ۔۔
شمعون کچھ دیر تک انہیں گھورتا رہا ۔۔
پھر بے بسی کے احساس کے ساتھ سر ہلا دیا ۔۔
لیکن چہرہ سپاٹ ہی رکھا ۔۔
“اور اگر تم اپنی اہلیت ثابت نہ کر سکے ۔۔
تو شمعون تمہیں تمہاری نانی سے بھی بڑی سزا دی جائے گی ۔۔
کیونکہ تم نے غلطی نہیں کی ۔۔
غداری کی ہے ۔۔
ایک معمولی انسان کے لیئے ۔۔
اپنی ماں کی جان لے کر ۔۔”
شاکوپا کا انداز اس کی شخصیت کے برعکس بہت دبنگ تھا ۔۔
شمعون اس بار بھی چپ رہا ۔۔
کیونکہ وہ اپنی غلطی مانتا تھا ۔۔
“تم ابھی اور اسی وقت ہمارے ساتھ “کانادا” چلو ۔۔
“کانادا ۔۔
لیکن کیوں ۔۔”
شمعون بگڑ کر بولا ۔۔
“جب تک تم اپنی اہلیت ثابت نہیں کرتے ۔۔
ہم سے سوال پوچھنے کے بھی اہل نہیں ہو ۔۔”
ان میں سے ایک عورت چلائی ۔۔
شمعون مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا ۔۔
“چلو ۔۔”
شاکوپا حکمیہ بولا ۔۔
اگلے ہی پل وہ سب شمعون سمیت بلیوں کے روپ میں بدل کر ایک طرف کو چل پڑے تھے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ اس ہی جنگل میں موجود ایک جھیل کے نزدیک بنا درختوں سے بھرا ہوا علاقہ تھا ۔۔
کوئی انسانی نظر اسے صرف بے شمار درختوں سے گھری جگہ کے طور پر ہی دیکھ سکتی تھی ۔۔
لیکن درحقیقت وہاں ایک قبیلہ آباد تھا ۔۔
وہاں چھوٹی چھوٹی کئی گفائیں بنی تھی جو ان کے “گھر” تھیں ۔۔
یہ علاقہ “کانادا” کہلایا جاتا تھا ۔۔
یعنی شمعون کا کینیڈا ۔۔!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...