احمد شاہ آج پریشان سا ہپستال کے ایک کمرے کہ باہر موجود تھا اور اس کی پیاری سی بیوی اندر اپنے بچے کو دنیا میں لانے کی کوشش کر رہی تھی
ڈاکٹر باہر آئ مسٹر احمد مبادک ہو بیٹی ہوئی ہے
احمد سن کر بہت خوش ہوا اور کہا ڈاکٹر میری وائف ٹھیک ہے
جی وہ ٹھیک ہے لیکن وہ اب ماں نہیں بن سکتی ڈاکٹر نے کہا
اس کی بات سن کر وہ پریشان ہوا لیکن پھر مسکرایا جیسی اللہ کی مرضی اس نے ڈاکٹر کو جواب دیا
بہت کم لوگ ہوتے ہے آپ جیسے لیکن پھر بھی بہت مبادک ہو بیٹی کی ڈاکٹر جو ان کو جانتی تھی مسکرا کر کہا اور چلی گئی
احمد اب کمرے میں ایا تو نرس نے ایک نازک سا وجود اس کو دیا اس کو دیکھا کر بے اختطار احمد کے منہ سے نکالا
ڈاول میری ڈول پاپا کی جان احمد نے اس کا ماتھا چوما اور پھر اپنی بیوی کی طرف ایا وہ کہ دوائی کے زیر اثر سو رہی تھی کچھ دیر اپنی محبت کو دیکھا کر اس کے ساتھ اپنی ڈول کو لیٹ کر باہر آیا اور نرس کو ان دونوں کا خیال رہنے کو کہا
احمد باہر اس لیے ایا تھا کہ اپنے گھر والوں کو اطلاع دے دے کہ اللہ نے اس کو رحمت سے نواز ہے کیوں کہ وہ رات ۱ بجے پریشان سا اکیلا ہی گھر سے نکل ایا تھا حریم کو لے کے
حریم کی آنکھ کھولی تو روم میں نرس کو دیکھا سسڑ میرا بےبی حریم نے پوچھا
آپ کی بیٹی ہوئی ہے مبادک ہو نرس نے کہا اور پیاری سی بچی کو حریم کو دیا
حریم نے آنکھوں میں آنسو لیے اپنی بیٹی کو دیکھا اور اس کا چہرہ چوما
سسڑ میرے شوہر کہاں ہے حریم نے پوچھا اور باہر گئے ہے آپ ایسا کرو لیٹ جاو بےبی کو اپنے ساتھ لیٹا لو میں ان کو بلاتی ہوں
حریم نے ہاں میں سر ہلایا کچھ ہی دیر بعد وہ پھر سے سو گئی
اس ہی وقت ایک وجود روم میں ایا اور بچی کو لے کر باہر آیا
احمد کو نرس نے نے بتایا کہ آپ کی وائف کو ھوش اگیا ہے وہ خوش ہوتا اندر ایا
حریم کو سوتا دیکھ کر مسکرایا حریم حریم میری جان احمد نے حریم کو اٹھنے کی کوشش کی
حریم نے آنکھیں کھولی وہ خوش ہوئی احمد میری بیٹھی دیکھی آپ نے
میری نہیں ہماری احمد نے اس کے الفاظ درست کیا
ہاں ہماری آپ کیا اور بلال کی خواہش پوری ہو گئی ہے
ہاں مجھے اور میرے بیٹے کو ڈول چاہی تھی شکریہ یار احمد نے کہا اور حریم کے ماتھے پر پیار کیا
حریم ڈول کہاں ہے باتوں میں اب احساس ہوا کہ روم میں بچی موجود نہیں ہے
کیا مطلب کہاں ہے حریم نے پوچھا
مجھے نہیں پتا میں تو اب ایا ہو روم میں احمد نے پریشان ہوتے کہا
احمد میں تو سو رہی تھی اللہ خیر میری بچی
اچھا پریشان نہ ہو میں نرس سے پوچھا ہو وہ حریم کو کہاتا خود باہر گیا
_______________________
تمہیں کیا لگتا ہے کہ تم خوش رہو گئی مجھے ٹھپر مار تھا نہ اب میں بھی دیکھتا ہو کون تمہاری بچی کو مجھے سے بچاتا ہے وہ نفرت سے کہتا
وہ کچری ابادی کی طرف ایا لیکن جیسے اللہ رہے اس کون چیھا
سڑک پر ایک کار اس کو اکر لگئ اور بچی کوڑ کے ڈبے میں گری
وہ گاڑھی لگنے کی وجہ سے مارا گیا اور دور کہی فجر کی آزان ہو رہی تھی
عبداللہ فجر کی نماز پڑھ گھر سے نکل مسجد کافی دود تھی کہ اچانک اس کو بچے کی رونے کی آواز ائی
وہ کوڑ کے ڈبے کے پاس ایا اللہ یہ بچا عبداللہ نے جلدی بچا اٹھایا اور پاس والے ہپستال لے ایا
کیوں کہ بچی کو سانس لینے میں مسائل ہو رہا تھا
_______________________
کچھ دن بعد
عبداللہ بچی لے کر گھر اگیا تھا
عبداللہ کے گھر میں وہ اور اس کی بیوی رہی تھی اس کا گھر کچری ابادی میں تھا عبداللہ مزدری کرتا اور اس کی بیوی گھر میں کپڑے سلائی کرتی دونوں اپنی زندگی میں بہت خوش تھے لیکن ایک کمی تھی ان کی زندگی میں اللہ نے ان کو اولاد کی نعمت سے نہیں نواز تھا
عبداللہ نے بہت کوشش کی اس بچی کے ماں باپ مل جائے
لیکن وہ یہ بھی جانتا تھا کہ وہ بچے کوڑ کے ڈبے میں ملتے ہے ان کے ماں باپ خود ان کو پہتے ہے تاکہ وہ اپنا گناہ چھپے سکے اکثر ان کی کچری ابادی میں یہ ہی ہوتا تھا بہت سے بچے ان بستی والوں کو ملتے تھے ان میں سے کچھ مر جاتے اور کچھ ایدھی سیئٹر چلے جاتے لیکن عبداللہ وہ اس بچی پر بہت پیاری آتا اس کا دل نہیں کرتا کہ اس بچی کو ایدھی والوں کو دے اس نے اپنی بیوی سے بات کی کہ بچی کو وہ اپنے پاس رکھے گئے کیسی کی امانت سمجھے کر اس کی بات پر اس کی بیوی ہر خوش ہوئی
عبداللہ کی بیوی نے اس کا نام نور رکھا کیونکہ وہ اتنی پیاری اور ان کی زندگی میں نور لے کر ائی تھی
_____________________
حریم اپنے روم میں تھی ہر وقت اپنی بیٹی کے بارے میں سوچتی رہتی
اس ہی وقت روم میں احمد ایا کچھ پتا چلا حریم نے پریشان ہو کر پوچھا
ڈول کو حمزہ نے اغوہ کیا تھا لیکن اس کی موت بھی اس ہی رات ہوئی ہے لیکن اس کے پاس ڈول نہیں ملی احمد نفرت اور غصہ سے کہاتا روم سے چلا گیا
اس کی بات سن کر حریم رونے لگئ
_________________________
20 سال بعد
نور اٹھا جاو عبداللہ نے نے پیار سے کہا
جی بابا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور اٹھا جاو میں مسجد جارہا ہوں عبداللہ نے کہا
جی بابا نور اٹھا کر بیٹھ گئی اور وضو کر کے نماز پڑھی
ان سالوں میں عبداللہ اور اس کی بیوی نے بہت محنت کی اور نور کو پڑھا اور نور وہ تو خود جتنی حوبصورت تھی اتنی ہی ذاہین تھی
وہ دونوں ناشتہ کر رہے تھے وہ کہ نور نے اپنے بابا کی مدر سے بنایا تھا
بابا نے ایک نظر نور کو دیکھا جو جلدی کھا رہی تھی
نور تم نے پھر سے سلیم کا منہ نوچ ہے عبداللہ نے سنجیدر لہجہ میں پوچھا
جی نور نے ایک الفاظ میں جواب دیا
وجہ بابا نے پوچھا
وہ مجھے سے شادی کرنا چاہتا تھا بس اس لیے نور نے نفرت سے کہا
تو اگر کوئی بھی تم سے شادی کرنے کی خوش رکھتا ہو تم اس کے ساتھ بھی وہی کرو گئی بابا نے افسواس سے کہا
جی بابا آپ کو پتا ہے مجھے شادی نہیں کرنی ابھی پڑھنا ہے اور ایک اہم بات کہ میرا میڑ پر یونی میں ایڈمیشن ہو گیا ہے نور نے کہا
اچھی بات ہے بیٹا تم پڑھا لکھ جاو مجھے اور تمہاری ماں کو چاھے کیا عبداللہ نے ایک نظر اپنی بیوی کی تصیور کو دیکھا کر کہا
اووو بابا آپ اداس نہیں ہوا کرے ماں ہمارے ساتھ ہی ہے نور نے اپنے بابا کو اداس دیکھ کر بولی
نور خوش رہو بیٹا اور میں اداس نہیں ہو میرا بیٹا مجھے مسکرا کر دیکھے
عبداللہ کی بیوی ایک سال پہلے اس دنیا سے چلی گئی اس کے بعد نور نے عبداللہ اور عبداللہ۔نے نور کو سنبھالا تھا
بابا آپ جانتے ہے نہ میں مسکراتی نہیں ہو نور نے نارذ ہوتے کہا
جانتا ہو لیکن میری جان بابا کو مسکرا کر دیکھے
تو نور مسکرائ وہ ایسی ہی تھی زندگی میں بہت ہی کم مسکرائ ہو شائد
___________________________
شاہ ولا
شاہ ولا میں دو بھائ رہتے تھے ایک احد اور ان کا بھائ احمد دونوں بھائ ہی آرمی میں تھا
احد نے اپنی ماما کی پسند سے ہی شادی کی تھی ان کی بیوی کا نام دعا تھا دعا بہت پیار کرنے والی اور گھر کو جوڑنے والی لڑکی تھی ان کے دو بچے تھے ایک وارث علی شاہ اور دوسرا حنس علی شاہ
وارث یونی میں پڑھا تھا اور حنس ابھی میڑک میں تھا
احمد شاہ نے اپنی پسند سے شادی کی تھی یا یوں کہ لے ایک حادثہ ہوا تھا کہ ان کی شادی حریم سے ہوئی ان کا ایک ہی بیٹا تھا وہ بلال شاہ
بلال اور وارث دونوں بہت اچھے دوست تھے دونوں ایک ساتھ پڑھتے ایک ساتھ شرارتے کرتے تھے
سب لوگ ناشتہ میں مصروف تھے جب کہ بلال اور وارث کچھ بات کر رہے تھے جو کہ حنس سننے کی کوشش کر رہا تھا
ماما ڈیڈ مجھے بھی میرا پارٹنر چاہے مجھے بھی ایک بھائ یا بہن چاھے حنسں نے منہ بناے کر کہا اس کی بات سن کر سب گھر والوں نے ایسا ری اکٹ کیا کے کچھ سنا ہی نہیں ہو
جبکہ دعا شرمندہ ہو ہوئی اور احد صاحب مسکرائے
شرم نام کی کوئی چیر ہے تم میں کے نہیں دعا نے غصہ سے ایک کا کان مورا اور آپ اس کی بات پر مسکرا کیوں رہے ہے سب آپ کی شہ کا نتجے ہے دعا نے احد صاحب سے کہا
میں نے کیا کہا اس کو احد صاحب نے مصعوم بنتے ھوے کہا
ایک منٹ ٹھیک ھے میرے کان تو چھور حنسں نے کہا
ایسا کرے میری شادی کرو دے اس سے میرے مسائل حل ہو جائے حنسں نے مزہ سے کہا
اس کی بات سن کر سب ہسنے لگے
اچھا لیکن سب سے پہلے شاہ کی شادی ہو گئی دعا نے پیار سے اپنے بیٹا کو دیکھا کر کہا
وارث شاہ کو پانی پی رہا تھا اس کو اچھو لگا جی بڑی ماں میں بھی یہ ہی کہانا چاہتا تھا کہ اب شاہ کی شادی ہو جانی چاہیے بلال نے مزہ سے کہا
ماما میری شادی کی بات کہاں سے اگئی ہے وارث نے بلال کو گھوتے ہوے کہا
کیا مطلب میں نے بس اس سال تمہاری شادی کرنی ہے دعا نے کہا
چھوٹی ماں دیکھا نا وارث نے حریم کو کہا
شاہ فکر نا کرو میں خود تمہیں لیے لڑکی پسند کرو گئی حریم نے کہا
چھوٹے پاپا وارث نے ایک اور کوشش کی احمد نے ہاتھ اپر کیے اس کا مطلب تھا کہ وہ کچھ نہیں کر سکتے
شاہ منہ بناتا اٹھا مجھے ابھی شادی نہیں کرنی
شاہ بیٹھوں ناشتہ کرو احد صاحب نے سنجیدر ہوتے ہوئے کہا
وارث چپ کر کے ناشتہ کرنے لگا اور آپ لوگوں بھی چپ کر کے ناشتہ کرے احد صاحب نے کہا
__________________________
آج اس کا یونی میں پہلا دن تھا یونی کے ماحول کو دیکھا کر وہ گھبرائی اس نے کنتی محنت کی تھی یہاں تک انے میں جس کچے علاقہ سے وہ ہے اس علاقہ میں تو اس کی عمر کی لڑکیاں شادی کر کے اپنے سسرال چلی جاتی ہے
لیکن اس نے بہت محنت کی رات دن ایک کیا اور پورا بصوبے میں دوسرا نمبر میں ائی اس کے بعد اس نے B’s اونر میں ایڈمیشن لیا جو کہ با اسانی اس کو مل گیا ابھی وہ انہی سوچوں میں تھی کہ اس نے سر نفی میں ہلایا اور اگے بڑی
ابھی گلاس شروع ہونے میں ٹائم تھا وہ ایک سائیڈ پر بیٹھ گئی اتبھی کیسی کی آواز اس کے کانوں میں پری جو برے مزہے سے جونیئز کو بے وقوف بننے کی تیاری کر رہے تھے
ان کی بات سن کر مسکرائ وہ بہت کم مسکراتی تھی اور نفی میں سر ہلاکر کلاس کی طرف بری
____________________
کلاس میں ایک لڑکا ایا سب لوگ اس کو دیکھا کر حیران ہوے وہ کہاہی سے سر نہیں لگتا تھا لڑکیاں کو اس کو دیکھا کر پاگل ہو گئی وہ لگتا ہی کیسی فلم کا ہئرو تھا
ہیلو کلاس میں آپ سب کا سر ہو میرے نام شاہ ہے آپ اپنے تعاف کروے
اس نے اپنے سنیجدہ لہجہ میں کہا
ہیلو سر میرے نام دعا ہے دعا نے ایک ادا سے کہا
اووو ہیلو مس بد دعا شاہ نے شرارت سے کہا اور ساری کلاس ہنسے لگئی
دعا غصہ سے سر کو دیکھا کر اور چپ کر کے بیٹھ گئی
اب باری نور کی تھی شاہ نےکہا مس آپ اپنا تعاف کروے
نور کتاب کھول کر کچھ پڑھنے میں مصروف تھی
ہیلو مس آپ شاہ نے اس کو پھر بولایا
لیکن نور نے اس شو کیا کہ کوئی بات سنی ہی نہیں ہو
شاہ کو اب غصہ ارہا تھا اس لڑکی پر
نور نے اٹھا کر کہا سوری سر مجھے سنای کم دیتا ہے اور ساری کلاس ہنسے لگئی
مس اپنے نام بتاے شاہ نے ضبظ کرتے ہوے کہا
سوری سر میں ہر کسی کو اپنا نام نہیں بتاتی نور نے اپنے سنیجدہ لہجہ میں کہا
شاہ اس کی بات سن کر گھورا سے اس لڑکی کو دیکھا
اس طرح دیکھنا پر نور پت گئی اس چلی ہوئی شاہ کے پاس ائی اگر آپ نے مجھے دیکھا لیا ہو مسٹر سنئیر وہ آپ جاسکتے ہے
شاہ پریشان ہوا اس کا کیسے پتا اور باکی کلاس اس کی بات سن کر پریشان ہوئی یعنی ہمہارے ساتھ مزاق ہو رہا تھا
آپ کیسے لہجہ میں مجھے سے بات کر ہی ہے آپ جانتی ہے شاہ نے کہا
ہاں جانتی ہو آپ جیسے لوگوں کے ساتھ میں اس طرح ہی بات کرتی ہوں نور نے کہا
میرے جیسے لوگوں سے مراد شاہ نے زچ ہوتے ہوے کہا
وہ ہی جو لڑکیوں کو گھورا کر دیکھتے ہے نور نے کہا
اس سے پہلے۔ شاہ کچھ کہتا دو آنکھیں جو کب سے یہ منظر دیکھ رہی تھی اندر ایا
یہاں کیا ہو رہا ہے سر توحید نے کہا شاہ نے سر کو دیکھا کر نور کی طرف ایا تم نے مجھے کیا کہا
شاہ اپنی کلاس میں جاو سر نے کہا ٹھیک ہے سر لیکن یہ مجھے سے معافی مانگے گئی پہلے شاہ نے کہا
نور اس کی بات پر مسکرائ اس کی مسکراہٹ دیکھا کر کلاس کے سب لڑکوں نے اہ بھرئ سر توحید بھی
شاہ کو اس کی مسکراہٹ زاہر گا رہی تھی
Sorry my foot
نور نے کہا شاہ کلاس میں جاو اور آپ یہاں پڑھنے ائی ہے یا لڑنے سر نے کہا
شاہ غصہ سے باہر چلا گیا اور نور سر کو اگنور کرتی اپنی جگہ پر بیٹھ گئی۔۔۔۔
شاہ غصہ سے کلاس سے باہر آیا لیکن بہت جلدی یہ خبر آگ کی طرح پوری یونی میں پھلیے گئی کہ شاہ کی کیسی لڑکی نے بےغرتی کی ہے
سر توحید نے لیکچر لیا اور کلاس سے نکالتے وقت نور سے کہا مسں نور آپ میرے آفیس میں او
نور آفیس میں آئی جی سر
مس نور آپ جانتی نہیں ہے آج آپ نے کیا کیا ہے وہ شاہ ایک نمبر کا گنڈ ہے سب لوگ اس سے ڈدرتے ہے اور پرسنپل سر بھی اس کو کچھ نہیں کہ سکتے ہے
نور اس کی بات گھورا سے سن رہی تھی پھر بولی تو کیا
میرا خیال ہے آپ کو اس سے معافی مانگنی چاھے سر نے اس کی بات پر حیران ہوتے ہوے کہا
دیکھ سر سوری تو میں کبھی نہیں کرتی کیسی کو میں کیسی کو یہ حق نہیں دیتی کے وہ مجھے بتائے کہ کیا کرنا چاھے کیا نہیں نور سے سنجیدر لہجہ میں کہا
اس کی تنظز پر سر بس مسکراے ٹھیک ہے مس نور میں بس آپ کے لیے پریشان ہو وہ آپ
سر میری فکر نہ کرے میرے ساتھ میرا اللہ ہے وہ مجھے کچھ نہیں ہونے دے گا میں جاوے نور نے اس کی بات کاٹ کر کہا
جبکہ توحید پریشان سا ہاں میں سر ہلایا نور کے جانے کے بعد توحید نے قہقہا لگایا اہم مجھے یہ پسند ائی
___________________________
اسلام بوس ایک لڑکے نے اکر کہا بوس کام ہوا گیا ہے
ہم اچھی بات ہے بوس نے مسکراتے ہوے کہا
کیا بات ہے بوس لڑکے نے پوچھا
ایک نئ چڑیا ائی ہے یونی میں مجھے وہ پسند ائی میں نے سوچا ہے کہ کچھ دن تک اپنے پاس رکھوں گا اور پھر شیخ کو دے دو گا بوس نے شیطانی مسکراہٹ سے کہا
جی بوس میں اب جاو لڑکے نے پوچھا ٹھیک ہے
____________________________
نور گاس پر بیٹھ کر کچھ پڑھ رہی تھی اچانک دو لڑکیاں اس کے پاس آئ اسلام و علیکم میں دعا اور یہ زویا دعا نے کہا
نور نے ان دونوں کو دیکھا اور اسلام کا جواب دیا
جی کوئی کام تھا نور نے پوچھا کیونکہ دونوں ہی اس کی کلاس فیلو تھی
کیا ہم آپ سے دوستی کر سکتی ہے دعا نے کہا
نہیں نور نے ایک الفاظ میں جواب دیا
کیوں یار ہم تمہاری کلاس فیلو ہے زویا نے کہا
میں یونی پڑھنے ائی ہو دوستیاں کرنے نہیں نور نے کہا اور کلاس کی طرف چلی گئی
اس کی بات سن کر دعا بولی ھو ڑور یہ سمجھتی کیا ہے اپنے آپ کو
________________________
کیا ہوا شاہ نے پوچھا
سر ہم نے کوشش کی لیکن پھر زویا نے سب بتایا
شاہ سن کر بولا چلو اب آپ لوگ جاو
ان کے جانے کہ بعد شاہ نے بلال کو فون کیا ھیلو بلال ایک لڑکی کی فوٹو بیجھتا ہو اس کی ساری انفارمیشن نکالو
ٹھیک ھے بلال نے کہا
___________________________
نور یونی سے کلاس سے نکالی شاہ اس کے پاس ایا
مس نور تم مجھے جانتی نہیں تھی لیکن اب تمہیں پتا چل گیا۔ ہے میں کون ہوں
ہاں مجھے پتا چلا گیا ہے کہ آپ کون ہے مسڑ سیئنر نور نے کہا
ٹھیک ھے مجھے سے معافی مانگوں شاہ نے کہا
معافی کبھی نہیں نور عبداللہ کبھی کیسی سے معافی نہیں مانگتی نور نے اپنے سنیجدہ لہجہ میں کہا
مجھے جانتی ہو میں تمہارے ساتھ کیا کر سکتا ہوں کیا تمہیں اپنی غرت پیاری نہیں ہے شاہ نے سخت لہجہ میں کہا
مسڑ سیئنر ہر لڑکی کو اپنی غرت پیاری ہوتی ہے اگر آپ مجھے ڈدر رہے ہے تو مجھے گلی کے کتا سے بھی ڈدر نہیں لگتا نور نے کہا اور وہاں سے چلی گئی۔
شاہ اس کی بات سن کر حیران ہوا پھر غصہ ایا
_______________________
نور گھر ائی سامنے سلیم کی ماں تھی جو عبداللہ سے کچھ بات کر رہی تھی نور کو اس کو دیکھا کر غصہ ایا
اسلام بابا نور نے کہا و علیکم اسلام میری بیٹی اگئی عبداللہ نے جواب دیا
کیسی ہو نور سلیم کی ماں نے پوچھا آپ یہاں کیا لینے ائی ہے انٹی نور نے کہا
نور پرانی باتوں کو بھول جاو عبداللہ نے کہا یہ سلیم کا راشتہ لے کر ائی ہے
نہیں بابا میں کیسی کی ناجائز اولاد ہو یہ اپنے جائز بیٹا کے لیے کوئی جائز لڑکی ڈھود لے نور نے کہا
اللہ اللہ اس کی زبان دیکھی ہے بھائ آپ نے میں نے تو پہلے ہی۔ کہا تھا آپ سے پتا نہیں کس کا خون ہے سلیم کو ہی بڑا شوق تھا کہ میں آپ کے گھر راشتہ لے کر او سلیم کی ماں نے کہا
ٹھیک ھے پھر مجھے سلیم سے شادی نہیں کرنی اب اگر آپ نے یا سلیم نے شادی کی بات کی تو میں سلیم کے ھاتھ پاوں توڑ دو گئی نانو نے سنجیدر لہجہ میں۔کہا
سلیم کی ماں اپنی اتنی غرت پر غصہ ہے چلی گئی
______________________
وارث پریشان سا بیٹھ تھا بلال اس کے پاس ایا
کیا بات ہے بلال نے پوچھا
یار یہ لڑکی بہت عجیب ہے شاہ نے کہا
اہم اہم میرے بھائی ایک لڑکی کی وجہ سے پریشان ہے بلال نے اس کو تنگ کرتا ہوے کہا
یار نہیں کرو پہلے ہی میں پریشان ہو وارث نے کہا
کیا کپیٹن وارث علی شاہ پریشان ہے تو ضرور کوئی بات ہوئی ہے
(جی آپ سب سوچتے ہو گیا میں بتاتی ہو)
جی وارث اور بلال دونوں ہی آرمی میں ہے اور سیکرٹ ایجٹ بھی اس وقت ہی وہ اپنے میشن پر ہے
(شاہ بن کر وارث یونی میں ہوتا ہے جبکہ بلال ایک لڑکا بن کر بوس کے پاس ہوتا ہے )
شاہ نے بلال کو سب بتایا یار یہ تو مسلہ ہو گیا اب بلال بھی پریشان ہوا
ہاں بات تو پریشانی کی ہے لیکن اللہ بہتر کرے گا شاہ نے کہا۔۔۔۔
نور یہ سب کیا تھا عبداللہ صاحب نے سنجیدر سے پوچھا
نور نے کوئی جواب نہیں دیا
نور کیا میں نے تمہاری تربیت اس طرح کی کی ہے انہوں نے افسوس سے کہا
نہیں بابا ایسی بات نہیں کرے نور نے تڑپ کر کہا
نور تو کیسی بات کرو عبداللہ صاحب نے پوچھا
بابا آپ آنٹی کو جانتے ہے نہ وہ شروع سے ہی ایسی باتے کرتی ہے اور شادی والی بات پر مجھے غصہ اگیا تھا
جانتا ہوں میں نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ جب تک تمہاری پڑھی پوری نہیں ہو جاتی شادی کی بات نہیں کرو گیا اور سلیم اچھا لڑکا ہے مجھے پسند ہے لیکن اگر تم اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی میں تمہیں فورس نہیں کرو گیا
شکریہ بابا اور سوری بابا میری وجہ سے آپ شرمندہ ہوے آنئدہ ایسا کچھ نہیں کرو گئی نور نے پیار سے عبداللہ صاحب کے سینے پر سر رکھا کر کہا
______________________
آسمان پر تارے چمک رہے تھے اور چاند کبھی بادلوں میں چھپا جاتا تو کبھی اپنی روشنی سے زمیں روشن کرتا
نور اپنے کمرے میں سو رہی تھی اس کا کمرا چھوٹا تھا مکر صاف ایک چارپئ سامنے ایک برا سا شیشہ موجود تھا اس کے ساتھ ایک الماری تھی یہ کمرا نور کو بہت پسند تھا کیونکہ اس میں ایک کھڑکی موجود تھی جس سے آسمان نظر آتا تھا
اس ہی وقت ایک وجود روم میں ایا سامنے نور کو سوتے ہوے دیکھا کر اس کے پاس ایا سر پر دوپٹہ موجود تھا نور کے ھاتھ میں کوئی کتاب تھی شائد کوئی اسلامی کتاب جس کو پڑھتے ہوے وہ سو گئی تھی
سوتے ہوے وہ کتنی کیوٹ لگ رہی تھی اس نے سوچا لیکن پھر اپنے خیال پر لعنت بیجی اور دل سے توبہ کی کہ وہ کیسے کیسی لڑکی کو دیکھا سکتا ہے
جو کام کرنے ایا تھا کیا اور کھڑکی سے واپس چلا گیا اور نور۔ وہ تو گھوڑے بیچ کر سو رہی تھی۔
___________________________
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...