مجھے سمجھ میں نہیں آتا اس بیوقوف میں پرنسپل کو کیا خاص بات نظر آئی ہے۔ جو انھے ہمارا پروفیسر بنا دیا ۔۔۔
غصے اور جھنجھلاہت سے بھر پور یہ الفاظ وہ پہلی بات تھی جو کرن کو دیکھ کر صباء کی زبان سے نکلی ۔یہ کرن کے لئے بالکل غیر متوقع استقبال تھا۔۔
کرن کچھ دیر قبل جب اس کے روم میں داخل ہوئی تو وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبی بیٹھی تھی۔۔اس کی نگاہیں کھڑکی سے باہر آسمان پر بے مقصد بھٹک رہی تھی۔وہ اپنی سوچ میں اتنی مگن تھی ک اسے کرن کی آمد کا احساس بھی نہیں ہوا۔وہ اس کی آمد سے بے خبر اپنے خیالات میں کھوئی ہوئی تھی ۔
کرن کچھ دیر کھڑی صباء کا جائزہ لیتی رہی۔اسے صباء کے چہرے پر نظر ڈالتے ہی اندازہ ہو گیا کے وہ خیالات کے جس سمندر میں کھوئی ہوئی ہے وہاں ہموار لہریں موجزن نہیں بلکہ تلاطم کی کیفیت برپا ہے۔اس کی خاموشی جس طوفان کا پیش خیمہ تھی اس کے تمام تر آثار صباء کے چہرے پر بکھرے تاثرات سے ظاہر ہو رہے تھے۔۔۔
کرن کو یہ اندازہ اپنے گھر میں ہی ہو گیا تھا کہ معاملہ کچھ گڑ بڑ ہے۔۔آج وہ جیسے کالج سے گھر پہنچہی تو صباء کا فون آ گیا کے فوراً میرے پاس چلی آؤ۔۔پہلے تو کرن سمجھی کہ صباء کے ابو کی طبیعت کی خرابی کا مسلہ ہے۔کیونکہ پچھلے دنوں وہ بہت بیمار تھے اور آج صباء کالج بھی نہیں آئ تھی۔۔مگر صباء نے بتایا تھا کہ ابو کی طبیعت ٹھیک ہے۔البتہ صباء نے بہت اصرار کیا کے وہ فوراً اس کے پاس چلی آے۔۔لہٰذا کھانا کھاتے ہی اس کے گھر چلی آئ۔۔یہاں آ کر اس نے صباء کو غور و فکر کے جس سمندر میں غوطہ زن دیکھا اس نے اس کی تشویش کو اور بھی بڑھا دیا۔۔صباء خیالات کی جس دنیا میں کھوئی ہوئی تھی وہاں دروازہ کھلنے کی آواز پنہچ سکی تھی نا کرن کے قدموں کی چاپ۔۔۔۔
کرن اپنی عزیز سہیلی کو اس حال میں دیکھ کر مضطرب ہو گی۔۔وہ بچپن سے بہت گہری سہیلیاں تھی۔کرن صباء کی رگ رگ کی وقف تھی وہ ایک ہی تھی جسے معلوم تھا صباء نے زندگی کتنی محرومیوں میں گزاری ہے۔مگر زندگی کی ہر مشکل کو اس نے بھری ہمت سے جھیلا تھا۔۔
کچھ دنوں سے بابا کی بیماری میں اس نے جس طرح اپنی والدہ کا ساتھ دیا تھا۔کرن اچھے سے جانتی تھی۔۔
کرن کے کمرے میں داخل ہونے کے بعد بھی صباء نے اس کے آنے کا کوئی نوٹس نہیں لیا تو کرن نے بھرے پیار کے ساتھ صباء کو اپنے آنے کی اطلاع دی ۔۔۔۔
کرن – میری سہیلی کن سوچوں میں گم ہے ؟
کرن خوشگوار انداز سے بات کرنا چاہ رہی تھی۔لیکن جواب میں ایک ایک تیز جملہ سننے کو ملا جو ہر قسم سے سیاق و سباق کے بغیر تھا۔۔۔
صباء – وہ کون بیوقوف تھا جو ہماری کلاس میں آیا تھا ۔۔۔اس کا میری زندگی سے کیا تعلق ہے۔۔
۔کرن کو کچھ سمجھ نہیں آیا وہ صباء کے سامنے بیٹھی پیار سے بولی۔۔
مسلہ کیا ہے ؟پوری بات بتاؤ ایسے میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا۔۔
تمہے پتہ ہے پچلھے کچھ دنوں سے ہمارے جو نیو سر آے ہیں. جن کا نا اپنا کوئی کریر نا کوئی اسٹیٹس اور اوپر سے مذہبی باتیں۔۔۔میں تنگ آ چکی ہوں۔۔۔
صباء کے لفظ لفظ سے حقارت چھلک رہی تھی ۔۔۔۔
اچھا اچھا تم سر کی بات پے غصہ ہو۔دیکھو صباء انھوں نے ہمیں سیدھا راستہ دکھایا اور کافی دیر سے تم انھے بولے جا رہی ہو اگر مجھے پتہ ہوتا تم حمزہ سر کی بات کر رہی ہو ایک لفظ نہ سنتی میں ۔۔
اس دن تم اور چار لڑکیاں اور تھی جن کے سر پے دوپٹہ نہیں تھا تب سر نے پردے کا بتایا تھا جب تم کلاس سے باہر آ گئی تھی۔ پتہ ہے سر نے کیا بتایا تھا۔
صباء غصہ سے مجھے کچھ نہیں سننا۔۔۔
کرن – اچھاکیوں تمہے سننا ہو گا. ایسے کیسے انکار کر سکتی ہو تم ۔۔۔
ﮐﺮﻥ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﻼ ﻭﺟﮧ ﻣﺖ ﺍﻟﺠﮭﻮ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺑﮩﺖ ﺑﯿﺰﺍﺭ ﮨﻮﮞ۔۔۔
ﺻﺒﺎء ﻧﮯ ﺑﯿﺰﺍﺭﯼ ﻇﺎﮨﺮ ﮐﯽ۔۔۔
ﺗﻢ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺍﻥ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﮐﻮ ﺍﮔﻨﻮﺭﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺳﮑﺘﯽ ﺳﻤﺠﮭﯽ ﺗﻢ۔۔۔
ﮐﺮﻥ ﺻﺒﺎء ﮐﯽ ﺑﯿﺰﺍﺭﯼ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮﭼﮍ ﺳﯽ ﮔﺌﯽ۔۔۔
ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭼﮭﯽ ﻃﺮﺡ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﮨﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﻮﻝ ﮐﯽ ﭘﮑﯽ ﮨﻮﮞ۔۔۔ ﺟﻮ ﭼﯿﺰ ﻣﺠﮭﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﺎﺗﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺩﺳﺘﺮﺱ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﻮﮞ۔۔۔
ﺻﺒﺎء اپنی ﺍﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﻏﺮﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮐﭽﮫ ﮐﮩﺘﯽ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔اسے خود بھی اندازہ نہ تھا ۔
ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ﭘﮭﺮ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﻥ ﻟﻮ ﮐﺮﻥ ﮐﯿﺎ ﭼﯿﺰ ﮨﮯ۔ ﻧﺎﻡ ﮐﯽ ﺩﻭﺳﺘﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺖ ﺑﻠﮑﮧ ﺑﮩﻦ ﻣﺎﻧﺘﯽ ﮨﻮﮞ۔۔۔ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻟﯿﮯ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﺍ ﮐﺮ ﮔﺰﺭﻭﮞ ﮔﯽ۔۔۔
ﮐﺮﻥ ﺻﺒﺎء ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮑﯽ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﺟﺘﻼ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ۔۔۔ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻏﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﭘﺲ ﮔﮭﺮ
ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯽ۔۔۔
ﺻﺒﺎء ﮐﺮﻥ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺭﻭﭖ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺷﺎﮐڈ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔۔۔ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﭺ ﻣﯿﮟ ﭘﮍ ﮔﺌﯽ ﮐﺮﻥ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﮭﯽ ﺭﻭﭖ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﮨﮯ۔۔۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﯿﺰ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻨﺎ ﺍﺳﮯ۔۔۔
ﺻﺒﺎ ﺧﻮﺩ ﮐﻼﻣﯽ ﮐﺮﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔۔۔
خیر صبح ہی آب بات ہو گی۔یہ بھی ناراض ہو کر چلی گئی اور اپنا فون بھی بند کر دیا صباء پریشاں ہو گی مجھے ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا غصے میں بہت کچھ بول گیی ہوں ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...