قبرستان نہر کی پٹری سے ایک کوس اندر تھا۔ شیشم بوڑھ اور سرکنڈوں کی بہتات سے ڈھکا ہوا یہ قبرستان چار دیہاتوں کا مشترکہ تھا۔ زوال ہوتے ہی میں نے سارا سامان لیا اور مغرب کی اذانوں سے پہلے ہی میں نے قبرستان میں جا کر گڑیا کو دفن کر دیا اور گوشت اس کے مدفن کے اوپر رکھ دیا۔ میں چور آنکھوں سے قبرستان کے اندھیروں میں اپنے وہم کو تلاش کرتا ہوا قبرستان سے نکل رہا تھا کہ ایک دم پاﺅں کسی گڑھے میں پڑا تو ایسا لڑکھڑایا کہ پاﺅں سیدھا کرنے کا موقع ہی نہ مل سکا اور میں اس گڑھے میں گر گیا۔ یہ گڑھا نہیں ایک قبر تھی جو جانوروں نے کھود رکھی تھی یا بارش کی وجہ سے نیچے بہہ گئی تھی۔ خوف سے میرا پورا بدن بیل گاڑی پر رکھے خالی برتنوں کی طرح کھنکنے لگا۔ پسینہ سے تربتر میں اضطراری کیفیت میں اٹھا اور جلدی سے قبر سے نکلنے لگا تو مجھے اپنے ہاتھوں میں چپ چپ سی محسوس ہونے لگی تو لگا جیسے گیلی مٹی سے ہاتھ بھر گئے ہیں لیکن پھر جب دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا تو اس میں چپچپاہٹ اور تعفن کا احساس ہوا۔ ناگوار سی بو میرے نتھنوں سے ٹکرائی اور پھر مجھے جس احساس نے جان کے خطرے میں مبتلا کر دیا اس کو بیان کرنا اب میرے بس میں نہیں ہے۔ بس مجھے اتنا یاد ہے کہ میں اتنے زور سے چیخ مار کر چلایا تھا اور میرے لبوں سے نکلا تھا
”یا اللہ میری مدد“ اس کے ساتھ ہی میں نے باآواز بلند درود شریف پڑھنا شروع کر دیا تھا اور میری آواز بلند سے بلند تر ہوتی چلی گئی۔ گڑھا زیادہ گہرا نہیں تھا بھرپور کوشش کرکے جب میں گڑھے سے نکلا تو مجھے احساس ہوا کہ کوئی سایہ بھی گڑھے سے باہر نکل رہا ہے اور آہستہ آہستہ اس کے گہرے سیاہ ہیولے کے وجود سے روشنی پھوٹ رہی ہے اور پھر کچھ ہی دیر بعد وہ سیاہ ہیولہ روشن لبادے میں ظہور پذیر ہو گیا
”بچ گئے تم …. درود پاک نہ پڑھتے تو مارے جاتے تم“ وہ کون تھا یہ میں نہیں جانتا لیکن اس کا استہزائیہ انداز میں یہ کہنا مجھے اس کے متعلق کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں کر سکتا تھا
”تم کون ہو“ میں نے سوکھے ہوئے حلق سے آواز نکالی
”جا کر اپنے باباجی سے پوچھ لینا“ وہ کہنے لگا ”تمہارے بابا جی کے بہت سے فرض مجھے چکانے ہیں۔ میرا یہ پیغام انہیں پہنچا دینا“ یہ کہتے ہی روشنی غائب ہو گئی اور وہ سیاہ ہیولہ لہراتا ہوا دوبارہ قبر میں اتر گیا اور پھر میں نے ایسی دوڑ لگائی کہ مجھے یاد ہے اگر میں اس روز کسی دوڑ کے عالمی مقابلے میں بھی شریک ہوتا تو پہلی پوزیشن لے لیتا۔ میں نے حویلی میں جا کر دم لیا اور عین اس وقت مہمان خانے میں داخل ہو رہا تھا جب اندر سے باباجی کی غصے سے بھری آواز آ رہی تھی۔
میں دروازے کے پاس ٹھٹھک گیا
”تم نے یہ حرکت کی کیوں“ بابا جی سخت ناراضگی کے عالم میں گرج رہے تھے۔ ان کی آواز سے کمرہ گونج رہا تھا۔
”غلطی ہو گئی سرکار“ پیر ریاض شاہ نے غالباً نہایت آہستگی سے معافی مانگی ہو گی کہ بابا جی دوبارہ سے گرجے۔
”غلطی ہو گئی …. تم نے کوئی ایک غلطی کی ہو تو میں تمہیں معاف کر دوں۔ دیکھو ریاض شاہ تمہاری غلطیوں کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑتا ہے۔ میں اپنی مخلوق کو کب تک سمجھاتا رہوں گا۔ تمہاری غلطیاں حد سے بڑھ رہی ہیں اور اس کا نقصان جنات کو اٹھانا پڑتا ہے۔ تمہاری عیاشیوں کے لئے جنات کو اپنا خون بہانا پڑتا ہے۔ تم معصومیت اور سچائی کو قتل کر رہے ہو ریاض شاہ۔ میں اگر تمہاری والدہ محترمہ سے کئے ہوئے وعدے کا پابند نہ ہوتا تو رب ذوالجلال کی قسم تمہیں اس طرح جلا کر راکھ کر دیتا جیسا کہ تم نے آج اس ہندو جن کو جہنم واصل کیا ہے“
”سرکار …. میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی ایسی غلطی نہیں کروں گا۔ بندہ بشر ہوں مجھ سے غلطی ہو ہی جاتی ہے۔ آپ کی دعاﺅں کا ہی ثمر ہوں میں بابا جی سرکار۔ آپ کا بچہ ہوں۔ آپ کے بھروسے اور زعم میں آ کر ایسے کام کر جاتا ہوں۔”
”ایک تو تم انسان بڑے عجیب ہو۔ ازلی خطا کا سہارا لے کر اپنی غلطیوں کو معاف کرا لیتے ہو“ باباجی ذرا نرم لہجے میں بولے ”اور ایک ہماری مخلوق ہے جو غلطی کرتی ہے تو اسے معافی کی توفیق بھی نہیں ہوتی۔ ان کی خطائیں معاف نہیں ہوتیں“
بابا جی کی تاسف سے بھری آواز سن کر میں چونکا بابا جی کیا کہہ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر اس کو معاف کرنے کا وعدہ فرمایا ہے جو سچے دل سے معافی مانگتا اور اس کے آگے سرنگوں رہتا ہے۔ مسلمان جنات کو بھی تو معافی مل سکتی ہے۔ ہاں اس کائنات میں صرف ایک شیطان ہے جسے معاف نہیں کیا جائے گا۔ پھر بابا جی نے ایسی کیوں بات کی“ میں یہ سوچتا رہا مگر مجھے سمجھ نہیں آ سکی کہ ایک عبادت گزار مسلمان جن ہوتے ہوئے بھی وہ رب ذوالجلال کے رحم سے امید کیوں نہیں رکھتے۔ میں یونہی کھڑا اندر ہونے والی گفتگو سن رہا تھا کہ یکایک میرے بدن میں سنسنی پھیل گئی۔ کسی نے نہایت نرم و گداز ہاتھ میرے کاندھے پر رکھا تھا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو سرتاپا سفید لبادے اوڑھا غازی کھڑا تھا۔
”چوری چوری باتیں سننا بری بات ہے بھائی صاحب“ وہ مسکرایا تو گندمی رنگت والے غازی کے کشادہ ہونٹوں کے اندر موتیوں جیسے سفید دانت نظر آنے لگے۔ اس کی زبان سرخ اور دراز تھی۔ لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے بولا ”باباجی کو بتا دوں کہ شاہد میاں چوری چوری باتیں سن رہے تھے تو وہ غصہ کریں گے۔ مجھ سے مک مکا کر لو۔ کچھ کھلا پلا دو۔ میں ان سے نہیں کہوں گا“
بے ساختہ میری ہنسی نکل گئی ”کیا کھاﺅ گے“ میں نے کہا ”میرا بھی بھوک سے برا حال ہے“ مجھے اپنے اندر نقاہت کا احساس ہو رہا تھا۔
”ٹھیک ہے۔ دونوں مل کر کھائیں گے“ وہ سوچنے لگا ”مگر کھائیں کیا۔ ادھر گاﺅں میں کیا ملے گا چلو شہر چلتے ہیں“
”شہر اور اس وقت“ میں نے کہا ”خدا کا کچھ تو خوف کھاﺅ غازی۔ میں اس وقت جا سکتا ہوں شہر اور تم نہیں جانتے میں کن حالات سے گزر کر یہاں پہنچا ہوں“ قبرستان میں پیش آنے والے واقعہ کو یاد کرکے میرے رونگھٹے کھڑے ہو گئے اور میں بے ساختہ حویلی کے گیٹ کی طرف دیکھنے لگا۔ غالباً دور اندھیرے میں درختوں کی شاخیں لہرا رہی تھیں مگر مجھے لگا جیسے قبرستان والا عفریت میرے تعاقب میں یہاں تک آ گیا ہے۔ میرا ماتھا پسینے سے بھیگ گیا
”ہمارے ہوتے ہوئے تمہیں خوف آ رہا ہے“ غازی ہنسا ”واہ بھئی واہ۔ بھائی بھی کہتے ہو اور گھبراتے بھی ہو میاں۔ تم اس دم جلے کی بات کر رہے ہو۔ وہ کیا اس کی اوقات کیا۔ میرے بھائی اس کی یہ جرات ہی نہیں کہ ہمارے باباجی سرکار کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھے۔ ہاں وہ جس بات پر شیر ہوتا ہے اس کی نزاکت ہم جنات کے لئے اہم ترین مسئلہ ہوتی ہے۔ بعض اوقات مصلحت کی وجہ سے ہم اپنی بگڑی ہوئی مخلوق کی بدمعاشیاں بھی برداشت کر لیتے ہیں۔ لیکن یہ صرف کسی خاص انسان کی وجہ سے برداشت کرنا پڑتی ہیں اور وہ خاص انسان کون ہے جس کی وجہ سے ہم اس دم جلے کو کچھ نہیں کہتے۔ یہ اپنے شاہ صاحب ہیں۔ تم نے سنا ہے بابا جی ان پر برس رہے ہیں“ غازی بولتا چلا گیا
”ایسی کیا بات ہے …. جو شاہ صاحب سے سرزد ہو گئی ہے“ میں نے آہستگی سے کہا اور ساتھ ہی غازی کو بازو سے تھام لیا۔ میں اسے لے کر باغیچے کی طرف نکل آیا مبادا بابا جی ہماری باتیں نہ سن لیں
”مجھے ادھر لے کر آنے کا کوئی فائدہ نہیں“ وہ راستے میں اپنا بازو چھڑا کر بولا۔ ”بابا جی کو معلوم ہے کہ میں اور تم کیا باتیں کر رہے ہیں۔ ان کے ہزاروں کان ہیں“وہ دلچسپ انداز میں مسکرایا ”باتوں میں مجھ سے کیا گیا وعدہ نہ بھول جانا“
”نہیں بھولتا یار۔ اندر اور باہر کی بھوک تنگ کر رہی ہے۔ میں کشمکش میں گرفتار ہو رہا ہوں۔ دیکھو غازی“ میں نے جیب سے سو روپے کا ایک مڑا تڑا سا نوٹ نکالا ”یار میں صحافی ہوں۔ میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ ان پر عیاشی کر سکوں۔ یہ رکھ لو اور تم خود ہی شہر سے کھانے کی کوئی شے لے آﺅ“ اس نے نوٹ پکڑا اور اپنی آنکھوں کے سامنے کھول کر لہرانے لگا۔
”بھائی تمہارے پیسوں سے بو آ رہی ہے“ وہ مسکرانے لگا ”انہیں زیادہ دیر تک جیب میں نہ رکھا کرو۔ تم جتنا پیسہ جیب سے نکالو گے تمہارے پاس اسی رفتار سے پیسہ آئے گا“
”اچھا …. یہ بھی کرکے دیکھ لوں گا“ میں نے اپنے مطلب کی بات کرتے ہوئے کہا ”وہ تم بتا رہے تھے کہ شاہ صاحب سے کیا غلطی ہو گئی“
”ایسا کرو“ وہ مجھے چکما دیتے ہوئے بولا۔” کچھ دیر کے لئے تم یہاں ٹھہرو۔ میں شہر سے کھانے پینے کے لئے کچھ لیتا آﺅں۔ پھر کھائیں گے اور باتیں بھی کریں گے“
میں نے اسے جانے دیا اور پھر دو چار منٹ میں ہی وہ واپس آ گیا۔ اس کے ہاتھ میں کاغذ کا بڑا لفافہ تھا جس میں گرم گرم جلیبیاں رکھی تھیں وہ ندیدوں کی طرح زبان لبوں پر پھیرنے لگا
”گرم گرم جلیبیاں مجھے بہت پسند ہیں۔ آہ تم انسانوں کو اللہ نے کیسی کیسی نعمتوں سے سرفراز کیا ہوا ہے …. کاش میں بھی انسان ہوتا اور جی بھر کر تمہاری نیا کی غذائیں کھایا کرتا۔ کم از کم تمہارا جوٹھا تو نہ کھانا پڑتا“
”کیا مطلب“
”چھوڑو جلیبیاں کھاﺅ۔ پھر کبھی بتاﺅں گا“ اس نے کوئی بات بتانے سے پہلو بچایا مگر میں نے اس کا دامن نہیں چھوڑا
”میں نے سنا ہے تم لوگ ہڈیاں اور فضلہ کھاتے ہو یعنی تمہارے لئے یہ پسندیدہ غذائیں ہیں“
”بھائی کہا ہے نہ چھوڑو یہ باتیں۔ دل کیوں خراب کر رہے ہو۔ اتنا اچھا کھانے کو مل رہا ہے اور تم کیسی چیزوں کا ذکر کر رہے ہو۔ ہاں یہ اور بات ہے“ وہ لفافے سے شیرے میں لتھڑی ہوئی ایک جلیبی منہ میں ڈال کر کھانے لگا اور پھر اپنی انگلیاں چاٹتے ہوئے بولا ”اگر انسان کے روپ میں ہوں تو ہم تمہاری غذائیں کھاتے ہیں لیکن جب اپنے اصل میں ہو تو ایسی ہی اشیا کھانی پڑتی ہیں جو تمہارے ہاں نجس اور فالتو ہیں۔ یہ بھی اللہ کی قدرت ہے۔ ہمارے لئے وہ اشیا لذت اور توانائی کا باعث بنتی ہیں“
غازی کو جلیبی کھاتے دیکھ کر میرے منہ میں بھی پانی بھر آیا۔ میں لفافے میں ہاتھ ڈال کر جلیبی نکالنے لگا تو غازی نے میرا ہاتھ پکڑ لیا
”میں دیتا ہوں“ یہ کہہ کر اس نے جلیبی کا آدھا ٹکڑا مجھے دیا ”تم بس یہ کھاﺅ تمہارا پیٹ بھر جائے گا‘
”یار بڑے کنجوس ہو تم“ میں نے کہا ”اس سے میرا کیا بنے گا“
”اگر میں نے آپ کو اور جلیبیاں دے دیں تو میرا کیا بنے گا۔ سو روپے کی لایا ہوں غریبوں کی طرح۔ ہائے ہزار دو ہزار کی جلیبیاں ہوتیں تو تب جا کر میرا گلا تر ہوتا پیٹ پھر بھی نہ بھرتا“
”اسی لئے باباجی کہتے ہیں غازی ندیدا ہے“ میں نے کہا ”اگر تم بھی بانٹ کر کھایا کرو تو تمہارے کھانے میں برکت پیدا ہو گی“ میں نے ہنستے ہوئے اسے سمجھانا چاہا تو ایک دم وہ ناراض ہو کر میری طرف دیکھنے لگا
”جا دفع ہو جا“
میں ا س کا منہ دیکھنے لگا
” جاتا ہے یا نہیں“ اس کے چہرے پر ناراضی کے آثار نمایاں ہونے لگے ”تری دم میں نمدہ بھروں گا تو پھر جائے گا“
میں نے اسے ایسی کیا بات کہہ دی تھی کہ وہ ایک دم ناراض ہو گیا تھا۔ اس کے رویہ سے مجھے بڑی ندامت‘ شرمندگی اور خفگی محسوس ہوئی اور میں واپس جانے کے لئے پلٹا تو غازی پیار سے بولا
”بھائی آپ کہاں چل دئیے“ میں نے اس کی طرف دیکھا اور کہا ”یار خود ہی تو دفع دفعان کہہ رہے ہو“
”ارے آپ کو تھوڑی کہہ رہا ہوں“ وہ غصہ کے باوجود مسکرایا ”میں تو اسے کہہ رہا ہوں جو ادھر لیموں کے پودے کے پیچھے ندیدوں کی طرح کھڑا ہے۔ مجھ سے جلیبیاں مانگ رہا ہے۔ آپ خود سوچیں کہ آپ کو کھانے کے لئے نہیں دے رہا تو اسے کیوں دوں گا“
میں نے پلٹ کر دیکھا تو مجھے کچھ بھی دکھائی نہ دیا۔ ”یہ آپ کو نظر نہیں آئے گا بڑا شرمیلا مگر ہٹیلا ہے۔ اس کا نام صبور ہے۔ میری منگیتر کا بھائی ہے یہ۔ اپنی بہن کے لئے میری مخبری کرتا رہتا ہے وہ بھی اس کی طرح ہے ندیدی“ غازی کی باتیں میرے لئے دلچسپی اور راحت کا باعث بن رہی تھیں۔
”ارے غازی تم بڑے ظالم ہو۔ اپنی منگیتر کے بارے ایسے کہتے ہو“ میں نے کہا ”یار منگیتر کی خوشنودی کے لئے انسان کیا کچھ نہیں کر جاتا“
”میں انسان نہیں ہوں۔ ہم اپنی منگیتروں کو سر پر نہیں چڑھاتے۔ ویسے بھی یہ نک چڑھی ہوتی ہیں“ غازی بولا ”مجھ سے پچاس سال بڑی ہے میری منگیتر۔ ہر وقت اس ٹوہ میں رہتی ہے کہ میں اس وقت کہاں ہوں اور کیا کر رہا ہوں۔ دس سال بعد میری اس سے شادی ہو گی“
”کیوں …. اتنی دیر سے کیوں ہو گی شادی“ میں نے کہا
”ابھی میں بچہ ہوں ناں بھائی“ وہ شرمیلے انداز میں بولا
”تم بچے ہو کیا۔۔۔۔۔۔ اور پھر بڑے ہو گے تو کیسے دکھائی دو گے۔ یار تم مجھ سے بھی بڑے قد اور عمر کے دکھائی دیتے ہو“ میں نے اسے چھیڑا ”اتنی عمر میں تو ہمارے ہاں چار بچوں کے باپ ہوا کرتے ہیں“
”یہ میں تھوڑی ہوں“ وہ بولا ”یہ ظاہری جسم میرا تھوڑا ہے۔ ویسے بھی ہمارے اور آپ انسانوں کی عمروں میں اور بلوغت میں فرق ہے۔ ہمارے ہاں پنتالیس پچاس سال کی عمر کا مطلب ہے تمہارے ہاں کی پندرہ سے بیس سال کی عمریں۔ میں ابھی پنتیس سال کا ہوں۔ دس سال بعد پنتالیس کا ہو جاﺅں گا تو تب شادی کے قابل ہوں گا۔ میرے والدین کو جلدی پڑی ہے مگر میں ابھی کچی عمر میں شادی نہیں کرنا چاہتا۔ میں نے باباجی سے بھی کہا ہے کہ میرے والدین کو منع کر دیں لیکن سرکار کہتے ہیں کہ تم جیسے لفنگے اور آوارہ جن کی شادی جلدی ہونی چاہئے۔ ہائے شاہد بھائی۔ میں تو ابھی ساری دنیا دیکھنا چاہتا ہوں۔ موج میلہ اڑانا چاہتا ہوں مگر میرے پاﺅں میں شادی کی بیڑیاں …. نہیں کانٹے چبھوئے جا رہے ہیں۔ یہ صبور کی بہن …. قائمہ۔ بڑی سخت جن زادی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مجھ جیسے آزاد جن کو کیوں قائمہ جیسی جن زادی سے بیاہا جا رہا ہے لیکن یہ میرے بس میں نہیں ہے۔ سب جانتے ہیں کہ میں قائمہ کو پسند نہیں کرتا لیکن قبائلی رسم و رواج اور میرے والدین کی مجبوریاں قائمہ سے شادی پر بضد ہیں“ اس بات کا ذکر کرتے ہوئے غازی کی مسکراہٹ کافور ہو گئی اور رنجیدگی کا سحر اس کے چہرے پر چھانے لگا
”صرف تم انسان ہی اپنی سماجی زندگی کی پابندیوں سے مجبور نہیں ہوتے بلکہ میں تو کہوں گا کہ تمہاری دنیا کے رسم و رواج شاید اتنے سخت اور ناقابل حل نہ ہوتے ہوں گے جتنے کہ ہمارے ہیں ہمارے ہاں جو پابندیاں ہیں انہیں تو آنے کا مطلب صرف موت ہے۔ اور موت بھی بڑی عبرتناک۔ تم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے بھائی۔ اف میرے خدا“ غازی غالباً کسی سزا کا تصور کرکے کانپ اٹھا تھا اور اس نے جلیبیوں سے بھرا لفافہ مجھے پکڑا دیا۔ میرے بڑے بھائی ارمان نے بغاوت کی تھی وہ بڑا شریف اور عالم فاضل جن زادہ تھا۔ وہ بریلی کے ایک مدرسے میں پڑھتا تھا اور اس کو وہاں اپنے معلم کی صاحبزادی سے عشق ہو گیا تھا۔ وہ میری طرح نہیں تھا۔ بڑا حلیم اور بردباد جن زادہ تھا۔ انسانی روپ میں تعلیم حاصل کرتا تھا۔ مولوی فضل الحق نام تھا اس کے استاد جی۔ اور ان کی بیٹی سیدہ رقیہ بڑی ہی معصوم‘ پاکیزہ صوم و صلوٰة کی پابند تھی۔ میرا بھائی مولوی صاحب کی خدمت اور اطاعت میں دوسرے شاگردوں سے ممتاز تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مولوی صاحب میرے بھائی کی حقیقت کو جانتے تھے اور انہوں نے ارمان کو بہت سی ایسی باتوں سے بھی آگاہ کیا ہوا تھا جو اس کی شخصیت کے بے نقاب ہونے سے اس کو نقصان پہنچا سکتی تھیں۔ بھائی خود بھی ان باتوں کا خیال رکھتا تھا۔ شاہد بھائی مجھے اپنے بڑے بھائی سے بڑی محبت تھی۔ وہ تھا بھی محبت کے قابل“ غازی کی آنکھیں اپنے بھائی کا ذکر کرتے ہوئے اشکبار ہو گئیں اور مجھے اس کے اندر سے ہچکیاں لیتے ہوئے ایک بچے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ میرا دل بھی افسردہ ہو گیا اسی اثنا میں کوئی وجود سرسراتی ہوا کی طرح ہمارے پاس آ کر ٹھہر گیا
”آﺅ یہ لو اور اپنی بہن کو میری طرف سے سلام کہنا اور یہ جلیبیاں اسے دے دینا“ غازی نے لفافہ میرے ہاتھوں سے لیا اور میری دائیں طرف بڑھا دیا۔ لفافہ کسی نادیدہ وجود جو یقیناً صبور تھا اسے تھما دیا اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے لفافہ غائب ہو گیا۔ غازی کا یہ روپ میرے لئے نیا تھا۔ ہر وقت شرارتوں کی بارش میں بھیگا ہوا‘ بے کل و مضطرب اور گلابوں کی طرح کھلتے ہوئے چہرے والا غازی پریشان تھا‘ ادھورا‘ بے کس اور ہجر و وصل میں ڈوبا ہوا۔ میرے اپنے بہت سے غم تازہ ہو گئے لیکن میرے سامنے غازی تھا۔ آج جذبات کے تفاوت کا ایک عجیب منظر تھا میرے سامنے۔ ایک انسان اور جن کے دل میں دھڑکتے دل کی کیفیات کا نظارہ ہو رہا تھا۔ جذبات …. لامتناہی اور ازلی حیثیت اختیار کر گئے تھے۔ ہم سمجھتے ہیں صرف انسان ہی دل کے مدوجزر سے جذباتیت کی لہروں کا شکار ہوتے ہیں اور یہ صرف جذبات ہی ہیں جو انسانوں کو دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتے ہیں مگر جذبات تو ہر دنیا میں موجود ہیں۔ جیسا کہ غازی جذبات سے مغلوب ہو رہا تھا اور اپنی غمناک یادوں کے ریلے میں بہہ کر اپنی بے اختیاری کا اظہار کر رہا تھا
”شاہد بھائی ! ارمان اور سیدہ رقیہ کی داستان عشق و محبت بڑی طویل تو نہیں ہے مگر اتنی مختصر بھی نہیں ہے۔ میرے بھائی نے دو سال تک مولوی صاحب کے پاس رہ کر ایک بار بھی جن زادوں جیسی حرکت نہیں کی تھی بلکہ عام طالب علموں کی طرح مشقت کیا کرتا تھا اور کبھی اپنی قوت کا اظہار نہیں کرتا تھا۔ وہ بھی دوسرے طالب علموں کی طرح آٹا گوندھتا ، جھاڑو لگاتا اور اتنا ہی وقت لیتا جتنا دوسرے طالب علم لیتے تھے۔ وہ بھی انسانوں جتنا کھانا کھاتا‘ مولوی صاحب ناراض ہوتے تو ڈنڈے اور جوتے کھاتا اور اسی طرح تکلیف کے باعث روتا جیسے عام انسان روتے تھے۔ دو سال خیریت سے گزر گئے تھے۔ ایک روز مولوی صاحب بیمار پڑ گئے ایسے کہ پورا ہفتہ اٹھ ہی نہ سکے۔ مولوی صاحب نے ارمان بھائی کو مانیٹر بنا دیا تھا اور وہ انہیں مدرسے کی ساری رپورٹ دیا کرتا تھے۔ مولوی صاحب کو دق کا مرض ہو گیا تھا اور پورے بریلی میں بڑے بڑے ممتاز حکما سے ان کا علاج کرایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہو سکے۔ انہوں نے اپنی وفات سے پہلے ارمان بھائی سے ایک وعدہ لیا کہ وہ ان کے مرنے کے بعد ان کی صاحبزادی سیدہ رقیہ کا خیال رکھیں گے۔ وہ ان کی اکلوتی اولاد تھی‘ رشتہ دار تھا نہیں کوئی۔ ارمان بھائی بہت روئے تھے مولوی صاحب کی وفات پر۔ سیدہ رقیہ کا تو برا حال تھا وہ بے آسرا ہو گئی تھی۔ مولوی صاحب نے سیدہ رقیہ کو ارمان کے بارے یہ تو بتا دیا تھا کہ وہ اس کا خیال رکھے گا مگر وہ یہ نہ بتا سکے کہ وہ جن زادہ ہے۔ انہیں نہ جانے ارمان بھائی پر اتنا بھروسہ کیوں تھا کہ وہ ان کی بیٹی کی حفاظت عام انسانوں سے بہتر کر سکتے ہیں۔ انہیں یہ خوف ہو گا کہ سیدہ رقیہ نے اگر ارمان بھائی کی اصلیت جان لی تو وہ ہر وقت خوفزدہ نہ رہا کریں۔ خیر بھائی سیدہ رقیہ کی حفاظت کرتے رہے اور ان کے لئے کھانے پینے کی ہر شے مہیا کرتے رہے۔ اس کے لئے انہوں نے بریلی کے شیر فروش کے پاس ملازمت کر لی اور جو ملتا سیدہ رقیہ کو لا کر دیتے۔ بھائی اور سیدہ رقیہ نے کبھی ایک دوسرے کو دیکھا تک نہیں تھا۔ وہ کوئی شے لاتے‘ دروازہ کھٹکھٹاتے یا کھنکھارتے تو سیدہ رقیہ دروازے کی اوٹ سے اشیا وصول کر لیتیں۔ یونہی کئی مہینے گزر گئے۔
ایک روز بھائی کھانے کی اشیا لائے اور دوازہ کھٹکھٹایا تو وہ دروازے پر نہ آ سکیں۔ بھائی نے تین چار بار دستک دی اور تب بھی کوئی جواب نہ آیا تو وہ پریشان ہو گئے پھر انہوں نے آہستہ سیدہ رقیہ کو آوازیں دیں لیکن تب بھی کوئی جواب نہیں آیا تو بھائی گھبرا گئے۔ انہوں نے کچھ دیر انتظار کے بعد دوبارہ زور سے دروازے پر دستک دی تو دروازہ کھل گیا۔ مگر اسے کھولنے والا ہاتھ باہر نہیں آیا
”سیدہ محترمہ خیریت تو ہے“ بھائی نے مخاطب کیا مگر اندر سے پھر کوئی آواز نہیں سنائی دی تو ان کی پریشانی ہزار گنا بڑھ گئی۔ اب ان کے پاس اندر داخل ہونے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ وہ شرماتے ہوئے اندر گئے اور سیدہ رقیہ کو آوازیں بھی دیتے رہے۔ مولوی صاحب کا گھر تھا ہی کتنا بڑا۔ دو کمرے‘ ایک ڈیوڑھی‘ ایک رسوئی گھر اور پانچ چھ گز کا صحن۔ بھائی سیدہ رقیہ کے کمرے میں پہنچے تو دیکھا وہ بستر پر بے ہوش پڑی ہیں۔ پہلی بار انہوں نے سیدہ رقیہ کو دیکھا تھا‘ دودھیا رنگت‘ گہرے سیاہ دراز بال‘ قامت دراز‘ عکس حور و جمال تھیں وہ۔ لیکن اس وقت بیماری نے ان کے چہرے کو خستہ کیا ہوا تھا۔ بھائی کئی ثانئے تک سیدہ رقیہ کو دیکھتے رہ گئے تھے۔ پھر وہ آگے بڑھے اور سیدہ رقیہ کو اٹھانے لگے ۔ پانی سے چھینٹے مارے پھر بھی ہوش نہیں آیا تو بھائی آخر کار اپنی دنیا میں واپس گئے اور جنات کے طبیب خاص سے دوا لے کر واپس آنے لگے تو میرے والدین نے انہیں پکڑ لیا۔ میری والدہ بھائی ارمان سے بڑی محبت کرتی تھیں۔ دو برس بعد اپنے بھائی کو دیکھا تھا۔ ہم ان سے لپٹ گئے۔ مگر بھائی کی واپسی جلدی تھی والدہ اور والد نے ان کی تعلیم کے بارے میں دریافت کیا اور پھر ان کی شادی کا ذکر چھیڑ دیا۔ والد نے کہا کہ اب وہ زیادہ انتظار نہیں کر سکتے اگلے سال تک اپنی تعلیم مکمل کر لو تاکہ تمہاری شادی کر دی جائے۔ اپنی شادی کا ذکر سن کر بھائی کے چہرے پر اکتاہٹ کے آثار نمودار ہو گئے۔ ہم تو نہیں سمجھے تھے کہ انہیں اپنی شادی کا ذکر پسند کیوں نہیں آیا۔ انہوں نے نہایت تابعداری کے ساتھ کہا کہ وہ فی الحال شادی نہیں کرنا چاہتے۔ کیونکہ ابھی وہ بہت زیادہ دینی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ بھائی جنات کے معلم اعلیٰ بننا چاہتے تھے۔ اس لئے وہ اپنی تعلیم پر توجہ دیتے تھے۔ میرے والد تو ان پڑھ جنات میں سے تھے انہیں شوق تو تھا کہ ان کا صاحبزادہ جنات کا معلم اعلیٰ بن جائے گا مگر اپنی جلالی اور افتاد طبع کی وجہ سے وہ فیصلے اپنی خواہشوں کے مطابق کرتے ہیں۔ انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ اب وہ ایک سال کا بھی انتظار نہیں کریں گے۔ شادی اگلے مہینے کو ہو گی۔ بھائی کی شادی یہ …. جو صبور ہے نا۔ اس کے قبیلے میں ہی ہو رہی تھی۔ والد کے ان کا ساتھ کاروباری معاملات تھے۔ صبور کا قبیلہ بڑا سخت گیر ہے۔ عزت اور غیرت کے نام پر ہر وقت ان میں لڑائیاں ہوتی ہیں ۔ جناب کی عقلوں پر قہر و غضب کا غلبہ ویسے بھی زیادہ ہے اور پھر ایسے جنات جن کی رسم و رواج اندھی ہوں ان کے قہر و غضب کا کوئی ا ندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ خیر بھائی کسی طرح واپس آئے اور سیدہ رقیہ کو دوا پلائی۔ کچھ دیر بعد انہیں ہوش آ گیا اور جب اس نے آنکھیں کھول کر اردگرد کا جائزہ لیا اور بھائی پر نظر پڑی تو پہلے تو وہ شرم سے گھبرا گئیں پھر دوپٹہ تلاش کرنے لگیں۔ ان کی گھبراہٹ سے پریشان ہو کر بھائی باہر نکلنے لگے تو وہ لرزتی ہوئی آواز میں بولیں
”آپ کون ہیں“
”میں ارمان قطبی ….“ بھائی نے رخ دروازے کی طرف کئے رکھا۔ ”میں معافی چاہتا ہوں سیدہ۔ اصل وجہ یہ ہے کہ میں کب سے دروازے پر کھڑا دستک دیتا رہا تھا۔ دروازہ بھی کھلا ہوا تھا۔ جب آپ دروازے پر نہیں آئیں تو وسوسے مجھے گھیرنے لگے۔ میں نے اندر آ کر دیکھا تو آپ بے ہوش پڑی تھیں۔ اگر آپ کی طبیعت خراب تھی تو آپ مجھے پیغام بھجوا دیتیں“
”میں معافی چاہتی ہوں۔ اصل میں مجھے خود معلوم نہیں ہو سکا۔ اچانک طبیعت خراب ہوئی اور چکر آنے سے میں بے ہوش ہو گئی“ سیدہ رقیہ شرم سے دہری ہوئی جا رہی تھی
”میں مجبوری کے عالم میں اندر آیا ہوں سیدہ۔ آپ جیسی پردہ پوش کے لئے تو یہ بات ناگوار ہو گی خود میں بھی شرمندگی محسوس کر رہا ہوں کہیں“
”آپ کا قصور کیسا۔ آپ تو فرشتہ بن کر آئے ہیں۔ میں اکیلی گھر میں لاچاروں کی طرح پڑی رہتی ہوں۔ اگر خدانخواستہ مجھے کچھ ہو جائے تو کس سے فوری طور پر کہوں۔ آپ کی یہ عنایت ہے مجھ“ سیدہ رقیہ چارپائی سے اٹھ کر ارمان بھائی کے پاس آ گئیں۔
”آپ سے میرا پردہ اب کیسا۔ آپ تو میرے کفیل ہیں۔ میں نے آج تک کسی غیر مرد کو نہیں دیکھا اور نہ ہی کسی غیر مرد نے مجھے دیکھا تھا۔ میں نے عہد کیا تھا اگر مجھے کسی غیر مرد نے دیکھ لیا تو میں اس سے عقد کی خواہش کروں گی۔ ارمان قطبی صاحب۔ میرے والد تو آپ سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ آپ نے میرے والد کی بھی بہت خدمت کی تھی اگر آپ کو ناگوار نہ گزرے تو میری اس بات پر غور کر لیجئے گا“ سیدہ رقیہ کا چہرہ حیا نے ڈھانپ لیا اور میرے بھائی ارمان کی کیفیت بدلنے لگی۔ انہوں نے جب سیدہ رقیہ کو پہلی نظر میں ہی اپنے بہت قریب محسوس کیا تھا اور پھر جو احساس ان کے اندر پیدا ہوا تھا اس کو مکمل ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگا …. مگر یہاں کئی سوال اور اندیشے تھے۔ ارمان ایک جن زادہ اور سیدہ رقیہ انسان تھی۔ یہ شادی کیسے ہو سکتی تھی۔ اگرچہ جن و انس میں شادیوں کا رواج روایات کی صورت میں تو ملتا تھا مگر خود ایک مثال بننے جانا بڑا مشکل امر ہوتا ہے۔ ارمان بھائی سیدہ رقیہ سے شادی کے خواہش مند ہو گئے تھے مگر یہ ملن ناممکنات میں سے تھا۔ ادھر ہمارے والدین ان کی شادی کی تیاری کر چکے تھے اور ادھر یہ معاملہ درپیش تھا۔
ارمان بھائی نے بہت چاہا کہ وہ سیدہ رقیہ کو اپنی اصلیت بتا کر ایک بار ان کو یہ موقع دیں کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کر سکیں۔ مگر یہ چاہت اور عشق کا جو کھیل ہے بہت تنگ کرتا ہے۔ محبوب کے چھن جانے کا خوف سچائی بیان کرنے سے مانع ہوتا ہے۔ بھائی کوشش کے باوجود سیدہ رقیہ کہ یہ نہ بتا سکے کہ ان کی اصلیت کیا ہے۔ بالاخر نتیجہ یہ نکلا کہ بھائی نے سیدہ رقیہ سے شادی کا فیصلہ کر لیا او اس سے اپنے دوسرے معلمین کو بھی آگاہ کر دیا
رمضان المبارک کی ستائیسویں کو نکاح اور رخصتی قرار پائی تھی۔ بدقسمتی سے جس روز بھائی کا نکاح تھا اور وہ نکاح کے لئے تیار بیٹھے تھے‘ میرے والد مدرسے میں آ گئے۔ یہی وہ دن تھا جو میرے والد نے بھائی کی اپنے دوست کی بیٹی کے ساتھ شادی کے لئے رکھا تھا۔ بھائی کو یہ علم نہیں تھا۔ والد نے جب انہیں دلہا بنا دیکھا تو وہ طیش میں آ گئے اور انہوں نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ بھاﺅ کو مسند سے اٹھایا اور زمین پر پٹخ دیا۔ گلاب کے ہار جو ان کے گلے میں تھے پتوں میں بکھر گئے۔ پورے اجتماع پر خوف طاری ہو گیا کیونکہ والد صاحب نے اپنے اصلی روپ میں خفی رہتے ہوئے بھائی پر غصہ ظاہر کیا تھا لوگ حیران تھے کہ ارمان میاں کو یکدم کیا ہوا ہے۔ انہیں ہوا میں اچھلتے اور پھر زمین پر گرتے سبھی نے دیکھا تھا۔ اور سب نے یہ بھی دیکھا تھا کہ جب ارمان بھائی زمین پر سر کے بل گرے اور دوسرے ہی لمحے اٹھ پڑے تو خون کا ایک قطرہ بھی ان کے ناک منہ اور سر سے نہیں بہا تھا۔ ان کی آنکھیں سرخ ہو گئی تھیں اور وہ اپنے والد کو دیکھ کر چلائے تھے
”ابا جان یہاں کیوں آئے ہیں“
جواباً جب والد صاحب بولے تو مدرسے کے درودیوار تک ہل گئے۔ انہوں نے بھائی کو لعن طعن کی اور صاف صاف کہہ دیا ”تم ایک جن زادے ہو کر انسانوں میں شادی کر رہے ہو۔ تمہیں معلوم ہے ہماری رسوم اس کی اجازت نہیں دیتیں اور پھر میرے خاندان میں تو یہ ممکن ہی نہیں ہے“ لوگوں نے یہ سنا تو سب سر پر پاﺅں رکھ کر بھاگنے لگے۔ ارمان بھائی نے بہت کوشش کی کہ ابا جان کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے مگر اب کوئی فائدہ نہیں تھا۔ جس جس نے یہ سنا وہ خوف کے مارے بھاگ گیا۔ سیدہ رقیہ کو یہ معلوم ہوا کہ ارمان قطبی دراصل ایک جن زادہ ہے تو وہ غم کی شدت سے ایسی بے ہوش ہوئیں کہ پھر دوبارہ اس دنیا میں نہ آ سکیں۔ ارمان بھائی کو ان کی موت کا علم ہو گیا تھا ار پھر وہ ایسے تڑپے اور جلال میں آئے کہ ان کی شرافت اور نرمی کے قصے سنانے والے بھی انگشت بدنداں ہو کر رہ گئے لیکن وہ اکیلے تھے۔ والد صاحب نے انہیں باغی قرار دیا اور پھر میرے بھائی نے جب ان کی کسی بھی قسم کی بات کو ماننے سے انکار کر دیا تو والد نے اپنے دوست قبیلے کے ساتھ مل کر انہیں ختم کر دیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔شاہد بھائی والد نے سنگدلی کی ایسی لرزہ خیز روایت قائم کر دی تھی کہ آج میں اس بارے سوچتا ہوں تو تڑپ اٹھتا ہوں انہیں برف زاروں میں زندہ دفن کر دیا گیا۔ ان کے بدن کو آہنی میخوں سے برف کے بڑے بڑے ستونوں کے ساتھ گاڑھ دیا گیا اور ان کی آتش آمیز حیات سسک سسک کر بجھتی رہی۔ میرا بھائی مر گیا جنات کی اندھی اور فرسودہ روایات جیت گئیں“۔۔۔ غازی اپنے بھائی کی المناک داستان سناتے ہوئے سسکنے لگا تھا اور خود میری بھی سسکیاں نکل رہی تھیں۔
نہ جانے ہم کتنی دیر تک روتے رہے۔ مجھے آج بھی اپنے سینے میں وہ ہچکیوں بھری آہیں سنائی دیتی ہیں اور میں بے اختیار ہو کر غازی کو یاد کرنے لگتا ہوں۔ ہم سمجھتے ہیں سارے دکھ درد اور پریشانیاں صرف انسانوں میں ہیں عشق و محبت کی مستی اور ہجر و وصل کا لطف و عذاب صرف ہم انسانوں کی تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے۔ خاندانی اور قبائلی مکروہ رسم و رواج صرف انسانوں کو لطیف اور آفاقی جذبات کے پنپنے سے روکتے ہیں مگر ہمارے علاوہ بھی ایک مخلوق ہے جسے آگ سے تخلیق کیا گیا اور وہ ہواﺅں اور زمین کے گوشے گوشے میں موجود ہے مگر ہم کو اس کی خوشیوں اور غموں کا ادراک نہیں ہے‘ ہاں صرف ہمارے ذہنوں پر اس کا خوف مسلط ہے۔ غازی کو ایک کھلنڈرا لاابالی اور ہمہ وقت بے چین شرارتی ہی پایا تھا مگر وہ قلبی جذبات کی کیفیات اور غم و اندوہ کی حسیات کو سمجھتا تھا۔ مجھ میں اب حوصلہ نہیں رہا تھا کہ اس سے مزید کچھ دریافت کروں۔
”غازی …. میں بابا جی سے ملنا چاہتا ہوں“ میں نے خاصی دیر بعد اسے مخاطب کیا
”بابا جی اس وقت بہت ناراض ہیں بھیا“ وہ آرزدہ سا ہو کر بولا۔ ”میرا دل چاہتا ہے تم یہیں میرے پاس اس وقت تک بیٹھے رہو جب تک سحری کا تارا ڈوب نہیں جاتا“ وہ ستاروں بھرے آسمان کو دیکھتے ہوئے گویا ہوا۔ وہ خلاﺅں میں گھورتا رہا‘ ایسے لگا جیسے ستارے گن رہا ہے اور کسی خاص ستارے کی کی تلاش میں ہے۔
”کیوں …. وہ مجھ پر بھی ناراض ہیں“ میں نے پوچھا
”کچھ پتہ نہیں …. شاہ صاحب کی تو شامت آئی ہوئی تھی کچھ دیر پہلے۔ اصل بات یہ ہے کہ شاہ صاحب کو معلوم تھا کہ آج بابا جی حاضری نہیں دے سکیں گے لہٰذا انہوں نے آپ سے جو کام لیا ہے وہ اسی غلطی میں لے گئے ہیں۔ اگر انہیں معلوم ہوتا تو شاید وہ آپ کو اس کام پر پھر بھی بھیجتے اور اس کی حفاظت کے لئے ہم میں سے کوئی آپ پر مامور کر دیا جاتا اور آپ کو قبرستان میں ایسے حالات پیش نہ آتے“ اس کی طبیعت اب بحال ہو رہی تھی ”اگر آپ کہو تو میں بابا جی سے آپ کے لئے اجازت کا پروانہ لا سکتا ہوں“
”وہ کیسے“
اس کے لبوں پر شگفتگی کے پھول نئے سرے سے کھل رہے تھے۔ ”جلیبیاں تو ختم …. اب کچھ اور ہونا چاہئے“
میں بے ساختہ مسکرا دیا ”یار…. اب تو یہی کچھ بچا ہے“ میں نے جیب سے پیسے نکال کر اسے دئیے اور وہ اس نے روپے ایسے اچک لئے جیسے چیل مرغی کا بچہ۔
”لو بھیا میں ابھی آیا“ یہ کہہ کر وہ غائب ہو گیا اور میں باغیچے میں تنہا رہ گیا۔ معاً مجھے صبور کا خیال آ گیا۔ اردگرد دیکھنے لگا مگر مجھے نظر نہیں آیا۔ البتہ احساس ہوا کہ پودوں کے سائے بہت زیادہ گھنے اور ان پر لرزہ طاری ہو رہا ہے۔ ایسے لگتا تھا جیسے ان کے اندر ہزاروں وجود داخل ہو چکے ہیں اور یہ سارے سائے ایک دوسرے میں مدغم ہوتے جا رہے ہیں۔ مجھے فضا میں گھٹن کا بھی احساس ہوا۔ فضا کی خنکی اور رومانیت یکسر موقوف ہو رہی تھی۔ مجھے گھبراہٹ اور خوف محسوس ہونے لگا اور میں جلدی سے مہمان خانے کی طرف بھاگنے لگا مگر جونہی میں نے قدم اٹھائے مجھے احساس ہوا جیسے سارے پودے میرا گھیراﺅ کرنے لگے ہیں اور ا ن کا گھیرا لمحوں میں تنگ سے تنگ تر ہونے لگا۔ مجھے یہ سمجھنے میں اب دیر نہیں لگی کہ جنہیں میں پودوں کے سائے سمجھ رہا تھا درحقیقت وہ وجود ماورائی تھے جو سیاہ لبادوں میں اپنے وجود پھیلا کر آگے ہی آگے بڑھ رہے تھے۔ سائے میرے چاروں طرف پھیل گئے اور میں ان کے حصار میں قید ہو کر رہ گیا۔ ابھی تک مجھے کسی نے کچھ نہیں کہا تھا لیکن ان کے تیور بتا رہے تھے کہ اگر یہ یونہی آگے بڑھتے رہے تو مجھے پیس کر رکھ دیں گے۔ میں نے چیخ کر ان سے پوچھا”کون ہو تم“
مگر مجھے کوئی جواب نہیں ملا اور سائے میرے بالکل قریب آ گئے اور پھر اس سے قبل کہ میں کچھ کرتا محض ایک کربناک چیخ تھی جو میرے اندر سے بلند ہوئی تھی اور میں اتنے زور سے چلایا تھا کہ میری آواز میلوں تک سنی گئی ہو گی۔ اس لمحے چاروں طرف پھیلے سائے ایک دوسرے میں آ کر ضم ہو گئے تھے اور میں ان کے درمیان پس کر رہ گیا تھا مجھے یوں لگا جیسے میرا وجود بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونک دیا گیا ہے۔ میری روئیں روئیں دہکنے لگی اور یوں لگا جیسے سر سے پاﺅں تک میرے وجود سے شعلے بلند ہونے لگے ہیں۔ دماغ میں چیونٹیاں سی رینگنے لگی تھیں اور دل کے درودیوار پر کوئی بڑی سی چھپکلی رینگنے لگی ہے۔ اس کے بعد میرے ساتھ کیا ہوا یہ مجھے اس وقت معلوم ہوا جب مجھے بابا جی شفقت بھرے انداز میں پکار رہے تھے۔ ان کی آواز میرے لئے روشنی کی لہر بن رہی تھی اور میرا ذہن تاریکیوں کی پستیوں سے اجالوں کی بلندی کی طرف پرواز کرنے لگا۔ یہ روشنی اور اجالے مجھے اوپر ہی اوپر اس مقام تک لے گئے تھے جہاں مجھے تین چہرے نظر آنے لگے تھے یہ غازی، شاہ صاحب اور بابا جی تھے۔
بابا جی کے چہرے پر مسرت افروز نور پھیلا ہوا تھا۔ احرام میں ان کا پورا وجود گم تھا‘ دودھیا رنگت‘ سفید گیسو ان کے شانوں پر لہرا رہے تھے۔ آج ان کا دیدار پہلے دیدار سے مختلف تھا۔ اپنا ہاتھ میری طرف بڑھا کر بولے ”میرا ہاتھ تھام لو میرے بیٹے تم ایک بہادر انسان ہو آگے بڑھو“
جونہی انہوں نے مجھے پکارا مجھے احساس ہوا کہ کوئی ایسی قوت اور بھی وہاں موجود ہے جو مجھے اب اجالوں سے پیچھے کی طرف کھینچ کر تاریکیوں میں گم کرنا چاہتی ہے۔ وہ بار بار میرا دامن پکڑ رہی تھی اور مجھے پیچھے کو دھکیلنے کے لئے کوشاں تھی۔
”اس کی پرواہ نہیں کرو …. اپنی پرواز بلند رکھو“ بابا جی نے مجھے حوصلہ دیا۔ مجھے حوصلہ ہوا اور میں زور شور سے اجالوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتا رہا مگر میرے ساتھ معاملہ اب اس گاڑی کی طرح پیش آ رہا تھا جس کے پچھلے ٹائر کسی نرم زمین میں دھنس جاتے ہیں اور ڈرائیور گاڑی کا زور لگاتا ہے تو ٹائر باہر نکلنے کی بجائے مزید دھنستے چلے جاتے ہیں۔
میں نے باباجی کو اپنی کیفیت سے آگاہ کرنا چاہا اور لب کھولے تو ایک لفظ بھی زباں سے نہ نکل سکا ۔ لگا جیسے کسی نے میری زبان کو تالو کے ساتھ چپکا دیا ہے اور گلے میں کانٹے چبھو رہا ہے۔ اس شدت زور اور لاچارگی سے میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اور میں بہت زور آزمائی اور کوشش کے بعد محض یہ یہ کہنے میں کامیاب ہو گیا۔
”بابا جی سرکار …. میں کیا کروں۔ کوشش کے باوجود یہ اندھیرے مجھے نہیں چھوڑ رہے“
”بیٹے! یہی وہ مراحل ہوتے ہیں جب انسان کو اس کے امتحان میں سرخروئی حاصل ہوتی ہے“ باباجی نے اپنا ہاتھ پیچھے ہٹا لیا۔ ” سارے لوگ اندھیروں سے اجالوں میں آنا چاہتے ہیں لیکن قوت موقوف ہونے سے وہ ایسا نہیں کر پاتے اور جانتے ہو تم۔ یہ قوت باطنی‘ روحانی وجدان اور سرشاری کیا شے ہے۔ یہ روح ہی کی طاقت ہوتی ہے جو انسان کو علم و آگہی سے آراستہ کرتی ہے جو لوگ اپنی روح سے ہم کلامی اور اس کی جبلت کو پا لیتے ہیں ان کے لئے اندھیروں یعنی گمراہی سے نکل آنا مشکل نہیں ہوتا۔ یہی معاملہ تمہارے ساتھ پیش آ رہا ہے ۔ تم اندھیروں اور اجالوں میں معلق ہو۔ تمہیں ابھی ان میں تمیز کرنا نہیں آ رہی ۔ جنہیں تم سچائی اور حقیقت سمجھتے ہو حقیقتا وہ بھی گمراہی کا ایک لبادہ ہیں۔ تمہارا دل ابھی تک پراگندہ ہے۔ دوسروں کے لئے اپنے دل کو کشادہ کر لو اور سچائی کی روشنی کو پکڑ لو۔ تم ان اندھیروں سے باہر آ جاﺅ گے۔ میں محسوس کر رہا ہوں کہ تم میں یہ خوبیاں ہیں۔ تم اجالوں کے سفر کے مسافر ہو۔ میں نے تمہیں پکارا اور تم لوٹ آئے لیکن اب تم رک گئے ہو میرے بچے آگے بڑھو دیکھو میں ہی نہیں اپنے شاہ صاحب اور تمہارا غازی بھی اپنے ہاتھ تمہاری طرف بڑھا رہے ہیں۔ آﺅ اور میرے بچے ہمارا ہاتھ تھام لو اور اجالوں کی دنیا میں آ جاﺅ“ یہ کہہ کر ان تینوں نے اپنے اپنے ہاتھ میری طرف بڑھا دئیے اور میں جوش کے عالم میں اندھیروں کے ہاتھ اپنے دامن سے ہٹا کر ان کے ہاتھ تھام لینے میں کامیاب ہو گیا۔ تینوں نے مجھے نہایت آہستگی سے اوپر اٹھایا اور مجھے ایک براق بستر پر لٹا دیا جس کے چاروں طرف خوشبوﺅں کا راج تھا۔ فضا میں طراوت اور نغمگی کا احساس تھا۔ نہایت پرسکون روشنی تھی جو قلب و نظر کو لطف و کرم کے احساسات سے دوچار کر رہی تھی۔ میں نے ایسا بستر اور ایسا ماحول کبھی نہیں دیکھا تھا جو اجالوں کی دنیا میں وارد ہو کر پایا۔ بابا جی شاہ صاحب اور غاری میرے بستر کے گرد کھڑے تھے اور مسکرا رہے تھے۔ میری آنکھوں میں ابھی تک آنسو اٹکے ہوئے تھے۔ میں نے بولنے کی کوشش کی اور پرجوش انداز میں بولا
”بابا جی سرکار مجھے معاف کر دیں۔ میں واقعی شاہ صاحب کے بارے بدگماں تھا مگر اب وعدہ کرتا ہوں کہ یہ میرے بھائی ہیں اور میں ان کی تابعداری میں کوئی کسر نہیں چھوڑوں گا“
بابا جی تحسین آمیز انداز میں پیر ریاض شاہ کی طرف دیکھنے لگے تو ان کے لبوں پر گہری مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ ایسی مسکراہٹ جو اکثر فاتح بن کر اور احساس تفاخر سے بھرے لوگوں کے چہروں پر کھلتی ہے مگر لوگ اس مسکراہٹ کا مطلب نہیں جان پاتے کہ اس کے کھلنے میں کتنے قہروںنے اپنا وجود غارت کیا ہو گا۔
”اب تم آرام کرو“ باباجی نے اپنا نرم ریشمی ہاتھ میرے ماتھے پر رکھا تو ان کے لمس کا احساس میرے رگ و پے میں سکون کی لہریں پیدا کر گیا۔ ”جب اٹھو گے تو تمہیں بہت سے کام کرنے ہیں“۔
بابا جی کے لمس کا احساس اتنا بھرپور تھا کہ نیند میری آنکھوں میں اتر گئی اور میں سو گیا۔ بہت ہی گہری ، پرسکون نیند۔ ایسی نیند کہ جب بیدار ہوا تو لگا جیسے اس دنیا کی آلائشوں اور ذہنی و جسمانی تھکاوٹوں کا کبھی شکار ہی نہیں ہوا تھا میں۔ بڑی راحت ملی تھی اور مجھے اپنے وجود میں نئے سرے سے سرشاری اور گرم جوشی محسوس ہونے لگی تھی۔ گویا اس نیند نے مجھے ری چارج کر دیا تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...