اس نے کسی کی نہیں سنی اور گولیاں چلانا شروع کر دیں۔
عمیر یوسفزئی، جہانداد خان اور زرینہ گل سب ختم ہو چکے تھے۔
گولیوں کی آواز سن کر گارڈز اور شاہ اندر آئے تو دروازے پر سب رک گئے تھے۔
شاہ کی آنکھوں میں مہمل خان کے لیے نفرت تھی۔ وہ یقین نہ کر سکا کہ کوئی لڑکی اتنی سفاک ہو سکتی ہے۔
“مہمل میں تمہیں طلاق۔۔۔۔۔” اس نے چلا کر کہا تھا۔
مہمل محبت میں مر سکتی تھی مار سکتی تھی لیکن محبت سے بچھڑ نہیں سکتی تھی۔
اس نے پستول کا رخ شاہ کی طرف کیا تھا۔
ہاں اگر شاہ اس کا نہیں ہے تو اسے بھی زندہ نہیں رہنا چاہیے۔ شاہ اگر خاندان سے وفاداری دکھائے گا تو مہمل خان محبت کو بھی قتل کر دے گی۔
گولی چلی تھی۔
خون بہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
مگر شاہ کا نہیں مشوانی کا جو اس کا جگری یار تھا۔ وہ ناراض رہے مگر دوستی تو ختم نہیں ہوئی تھی۔ مشوانی ہمیشہ شاہ کو مار سے بچاتا تھا بچپن میں اسکے حصے کی مار کھا لیتا تھا تو آج کیسے وہ اسے مرنے دیتا۔
“مشوانی!” مہمل کے ہاتھ سے پستول گری تھی اور آنکھیں ساکت ہو چکی تھیں۔
“مشوانی یہ کیا کیا تم نے؟” مہمل فوراً اسکے پاس آئی جو شاہ کی گود میں سر رکھے تھا۔
گارڈز تماشہ دیکھ رہے تھے۔
“مہمل۔۔۔۔۔” مشوانی کے چہرے پہ اس کا نام لیتے مسکراہٹ آئی تھی۔ مہمل نے اس کا سر اپنی گود میں رکھا۔
“محبت سے دور رہنے کا درد۔۔۔۔۔ مجھے معلوم ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ۔۔۔۔ تم یہ برداشت کرو کیونکہ دنیا تباہ ہو سکتی۔۔۔۔۔ ہے لیکن تمہارا درد مجھ سے۔۔۔۔۔۔ برداشت نہیں ہو سکتا۔” مشوانی نے مشکل سے جملے مکمل کیے۔ وہ اس حالت میں بھی اسے درد سے بچا گیا تھا۔
مہمل کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ وہ اس سے محبت نہیں کرتی تھی لیکن وہ اس کا بہترین دوست اور بہترین ساتھی تھا۔ مشوانی مہمل کی عادت تھا، اسکا اعتماد تھا،۔ وہ واحد تھا جو مہمل کی ہر بات سنتا تھا۔
“مشوانی ابھی تو تجھ سے بات نہیں کی تھی کیا کیا تو نے مجھے مرنے دیتا ہر بار تیری قربانی ضروری نہیں ہوتی۔” شاہ کی آنکھوں سے بھی آنسو نکل پڑے تھے۔ شاہ مرد ہو کر رو رہا تھا۔
“شاہ قربانی تو ہمیشہ سے مشوانی کا مقدر ہے۔ قربانی دینے والے کچھ مانگیں تو کیا انھیں وہ ملتا ہے؟” مشوانی نے شاہ سے امید سے پوچھا۔
“بول یار تمہارے لیے تو جان بھی حاضر ہے۔” شاہ نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔
“میری خاطر مہمل کو معاف کر دینا اور میں اپنا خون مہمل کو معاف کرتا ہوں۔” مشوانی نے کہا۔
” مشوانی۔۔۔۔۔ ” مہمل نے اسکے ہاتھ پر اپنا سر رکھا تھا۔
” مہمل۔۔۔۔!” مشوانی نے اسے پکارا۔
مہمل نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
“درشہوار غلط کہتی تھی کہ وہ کہانی کا ثانوی کردار ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ کہانی کا ثانوی کردار میں ہوں۔۔۔۔۔۔۔خو۔۔۔ ووو۔۔۔ ش ر۔۔۔ ہن۔۔ا!” آخری وقت میں بھی وہ مہمل کی خوشیوں کی دعا مانگ رہا تھا۔
کیا تم نے کبھی دیکھا ہے ؟
کہانی کا کوئی ثانوی کردار ۔۔
گلی کے اندھیرے نکڑ پر
کسی لیمپ پوسٹ تلے۔۔
سگریٹ کا دھواں اڑاتا وہ اجنبی۔۔
یا تیز بارش کی بوچھاڑ میں چھتری تانے۔۔
دوڑ کر سڑک پار کرتا اک انجان ،
جیسے بھاگتی ٹرین کی کھڑکی سے دکھتا
پلیٹ فارم پر بیٹھا کوئی گم نام۔۔
یہ چھوٹے چھوٹے ثانوی کردار۔۔
بے ربط سے۔۔غیر اھم سے۔۔،
بنا کسی زعم۔۔بنا کسی بھرم کے
اک لمحے میں نظر سےاوجھل ہوجانے والے۔۔
جن پر مرکزیت کابوجھ ، نہ کوئی الزام۔۔
بس وہی کردار جینا چاہتا ہوں ۔۔
میں کہانی میں بہت دن مرکزی رھا ۔۔
اب فقط اک ثانوی کردار بننا چاہتا ہوں ۔۔
ھاشم ندیم ۔
مشوانی کی سانسیں ختم ہو چکی تھیں۔ مخبت کرنے والا، جان دینے والا دوست جا چکا تھا۔ جسکی موت پر دو دشمن مل کر روئے تھے۔ مہمل کو آج پتہ چلا کہ وہ عشق کے کس مرحلے پر تھا۔ وہ نہ مہمل کو چھوڑ سکتا تھا نہ اپنے دوست کو سو اس نے زندگی چھوڑ دی تھی۔ اس نے اپنی قربانی دے کر دو قبائل کی لڑائی ختم کر دی تھی۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
خزاں کی شام تھی۔ ہوا میں خون کو جما دینے والی سردی تھی مگر وہ مسلسل چلتی جا رہی تھی۔
اسے کسی سے ملنے جانا تھا۔
وہ مہمل تھی۔
تھوڑی دیر بعد وہ منزل کے سامنے کھڑی تھی۔ جہاں پہلے سے کوئی موجود تھا۔
ہاں وہ درشہوار تھی۔
“تم۔۔۔؟” مہمل نے پوچھا۔
“ہاں جب بے سکونی بڑھ جائے تو ملنے آ جاتی ہوں۔” قبر کے پاس بیٹھی درشہوار نے کہا
قبر کے کتبے پر “داؤد خان مشوانی” کا نام کندہ تھا۔
“لیکن۔۔۔۔۔۔۔” مہمل نے کہا تو وہ اٹھ کر اسکے پاس آئی اور اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولی
“تمہارے پاس جانے سے پہلے مشوانی نے کہا تھا کہ اگر وہ تم سے بچھڑ جائے تو تمہیں اس کا پیغام دے دوں۔” درشہوار اسکی تکلیف میں اضافہ کرنے والی تھی۔
“کیسا پیغام؟” مہمل پریشان ہوئی تھی۔
“وہ ہمیشہ یہ نظم تمہارے لئے پڑھا کرتا تھا۔” درشہوار نے مہمل کی آنکھوں میں دیکھا جہاں نمی کی لہر تھی۔ مہمل کا چہرہ کرب کے آثار لیے ہوئے تھا۔
“اُسے کہنا
بِچھڑنے سے مُحبت تو نہیں مرتی
بچھڑ جانا مُحبت کی صداقت کی علامت ہے
مُحبت آئینِ فِطرت ہے
اور فِطرت کب بدلتی ہے
سو جب ہم دور ہو جائیں
نئے رِشتوں میں کھو جائیں
تو یہ مت سوچ لینا تم
محبت مر گئی ہو گی
نہیں ایسا نہیں ہو گا
میرے بارے میں سُن کے جب
تمہاری آنکھ بھر آئے
چھلک کر ایک بھی آنسو
پلک پر جو اُتر آئے
تو بس اِتنا سمجھ لینا
جو میرے نام سے اِتنی
تیرے دل کو عقیدت ہے
تیرے دل میں بِچھڑ کر بھی
ابھی میری مُحبت ہے
مُحبت جو بِکھر کر بھی
صدا آباد رہتی ہے
مُحبت ہو کسی سے تو
ہمیشہ یاد رہتی ہے
مُحبت وقت کے بے رحم
طوفاں سے نہیں ڈرتی
اُسے کہنا
بِچھڑنے سے مُحبت تو نہیں مرتی”
(محسن نقوی)
درشہوار نے اسے نظم سنائی تھی جسے سن کر وہ پتھر ہو چکی تھی۔ یہ نظم سچ ہی تو تھی۔ درشہوار تاسف سے اس کو دیکھ رہی تھی جس نے ہیرا ٹھکرایا تھا۔ مشوانی کی قدر کوئی درشہوار سے پوچھتا جو اس کی محبت میں جیتے جی مر چکی تھی۔
درشہوار کہہ کر جا چکی تھی جبکہ وہ ساکت کھڑی تھی۔ اسکے بال ہوا کی وجہ سے بکھر رہے تھے۔ آنسو گالوں کو بگھو رہے تھے مگر اس کا درد بہت بڑا تھا۔
وہ گھٹنوں کے بل زمین پر اس کی قبر کے ساتھ بیٹھی تھی۔ اسے شاہ سے محبت ہوئی تھی مگر مشوانی نے اسے خود سے نجانے کب عشق کروا دیا۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر اپنے بہترین ساتھی کے لیے رو رہی تھی۔ وہ اسے پکار رہی تھی مگر اس کی ہر پکار پر لبیک کہنے والا آج اس دنیا میں نہیں تھا۔ اس کے ایک آنسو پر تڑپ جانے والا آج اس کے بہتے آنسوؤں پر بھی موجود نہیں تھا۔ اس کی ہر تکلیف پر مچل جانے والی روح اس دنیا سے کوچ کر چکی تھی۔
مہمل خان تہی دامن رہ گئی تھی۔ کہانی کے سب کردار محبت میں رل گئے تھے مگر تباہی مچانے والا مہمل کا انتقام تھا۔ انتقام نے سب تہس نہس کر ڈالا تھا۔
وہ وہاں دیر تک بیٹھی روتی رہی اور پھر تھک کر واپس آ گئی یہی اسکی زندگی تھی۔ وہ روز مشوانی سے ملنے آتی تھی۔ اگر کبھی اسے آنے میں ناغہ ہو جائے تو اسے لگتا تھا کہ سانس رک جائے گی۔ زندگی میں تو قدر نہ کر سکی مگر اب اس کی قبر پر جا کر وہ اس کی محبت کو امر کر رہی تھی۔
ہیر رانجھا مر گئے تو کیا محبت کی داستان رقم کرنے والا داؤد مشوانی کسی سے کم تو نہیں تھا۔
مشوانی کے کہنے کے مطابق سب نے اسے معاف کر دیا تھا۔ شاہ نے بھی لیکن پھر وہ پاکستان میں رہ نہ سکا اور باہر چلا گیا۔
شاہ کا کہنا تھا کہ وہ مشوانی کی آخری خواہش کے طور پر اسے معاف تو کر سکتا ہے مگر وہ اس سفاک قاتل کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ شاہ نے اسے طلاق نہیں دی تھی مگر وہ اس کے ساتھ بھی نہیں رہا تھا۔
مہمل کے پاس صرف اس کا نام تھا اور وہ بھی مشوانی کی وجہ سے تھا۔ کیسا عجیب محبت کرنے والا تھا کہ ہر چیز جو وہ دے سکتا تھا اس نے مہمل کو دے دی تھی حتیٰ کہ جان بھی۔ مشوانی سب مہمل کو نہ دیتا تو کس کو دیتا۔ مہمل سے اس کے بچپن میں تب محبت کی تھی جب اسے محبت کے معنی بھی معلوم نہیں تھے۔
مہمل خان کے جنون نے انتقام نے اسے کہیں کا نہ چھوڑا تھا۔ وہ خالی دامن تھی۔
مظفر مشوانی، زرش خانم، پلوشہ گل اور حتیٰ کہ امریز لالہ بھی ہر ہفتے اسے ملنے آتے تھے کیونکہ وہ ان کی مشوانی کی محبت تھی۔ وہ ان سب کو عزیز ہو چکی تھی مگر افسوس جس کی وجہ سے عزیز تھی وہ نہ رہا۔
مشوانی کے مرنے کی خبر سن کر اسفر سعید نے بھی خود کشی کر لی تھی۔ وہ عاشق کے قتل کی وجہ خود کو سمجھتا تھا۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
انتقام بہت بری چیز ہے۔
اللہ نے اسی لیے معاف کرنے کو احسن قرار دیا ہے کیونکہ انتقام لینے والا حد سے بڑھ جاتا ہے۔
وہ انتقام لیتے ہوئے ذمہ داران کے علاوہ بھی معصوموں کو بھی لپیٹ میں لیتا ہے جیسے مہمل نے عمیر، اسوہ، اسفند اور مشوانی کو مارا۔
اور جب حد سے انسان بڑھ جاتا ہے تو اسے سزا مل جاتی ہے۔
یہی اس کہانی کا سبق تھا کہ انتقام کی کہانی میں آخر پر خوشی نہیں ملتی بلکہ انسان تہی دامن رہ جاتا ہے۔
یہ دنیا مکافات عمل ہے۔
– – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – –
یوسفزئی حویلی کی بالائی منزل کی کھڑکی کھولے انتظار کرتی مہمل کی آنکھوں میں ویرانی اور وحشت تھی۔
شاہ شاید آئے یا نہ آئے۔
لیکن وہ لاحاصل انتظار میں تھی۔
اگر وہ رب کی تعلیمات پر عمل کرتی اور ماں کی سنتے ہوئے سب کو معاف کرتی تو آج یہ نہ دیکھتی۔
اور بے شک پھر میرا رب صحیح رہنمائی کرتا ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے غصہ، بدلہ اور انتقام تینوں کو ایک ہی مقام پر موضوع بنا کر ان کے حدود و قیود واضح کر دیے ہیں ۔ ارشادی باری تعالیٰ ہے ۔
’’(اللہ کا بہترین بدلہ ان اہل ایمان کے لیے ہے کہ جنھیں )اگر غصّہ آجائے تودرگزرکرجاتے ہیں ۔ ۔ ۔ اورجب ان پرزیادتی کی جاتی ہے تواس کامقابلہ کرتے ہیں ، برائی کابدلہ ویسی ہی برائی ہے ، پھرجوکوئی معاف کر دے اوراصلاح کر لے اس کا اجراللہ کے ذمہ ہے ، اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ اورجولوگ ظلم ہونے کے بعدبدلہ لیں ان کوملامت نہیں کی جا سکتی، ملامت کے مستحق تو وہ ہیں جودوسروں پرظلم کرتے ہیں اورزمین میں ناحق زیادتیاں کرتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے ۔اور جس نے صبر کیا اورمعاف کیا ، تو بے شک یہ بڑ ی اولوالعزمی کے کاموں میں سے ہے ۔‘‘ (شوریٰ 42: 36-43)
ان آیاتِ کریمہ کی رو سے
اسلام میں بدلہ کا حکم یہ ہے کہ جس پر زیادتی کی جائے اسے بدلہ لینے کا حق ہے ۔گو کہ معاف کرنا زیادہ پسندیدہ اور بہتر ہے ۔
بدلہ کی حدود ان آیات میں بالکل واضح ہیں ۔ یعنی برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے ۔کوئی شخص اگر بدلہ لیتا ہے تو وہ ہر گز کسی ملامت کا مستحق نہیں ، تاہم اس بات کی اجازت ہر گز نہیں کہ ایک شخص کابدلہ دوسرے سے لیا جائے ۔اسی طرح بدلہ لیتے وقت کسی قسم کی زیادتی کرنے کی اجازت قطعاً نہیں ہے ۔ اس بات کو قتل کے بدلہ یعنی قصاص کے حوالے سے ایک دوسری جگہ اس طرح کھولا گیا ہے ۔
ان آیاتِ کریمہ کی رو سے
اسلام میں بدلہ کا حکم یہ ہے کہ جس پر زیادتی کی جائے اسے بدلہ لینے کا حق ہے ۔گو کہ معاف کرنا زیادہ پسندیدہ اور بہتر ہے ۔
بدلہ کی حدود ان آیات میں بالکل واضح ہیں ۔ یعنی برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے ۔کوئی شخص اگر بدلہ لیتا ہے تو وہ ہر گز کسی ملامت کا مستحق نہیں ، تاہم اس بات کی اجازت ہر گز نہیں کہ ایک شخص کابدلہ دوسرے سے لیا جائے ۔اسی طرح بدلہ لیتے وقت کسی قسم کی زیادتی کرنے کی اجازت قطعاً نہیں ہے ۔ اس بات کو قتل کے بدلہ یعنی قصاص کے حوالے سے ایک دوسری جگہ اس طرح کھولا گیا ہے ۔
’’اورجوشخص مظلومانہ قتل کیا گیا ہواس کے ولی کوہم نے قصاص کے مطالبے کاحق عطاکیا ہے ، پس چاہیے کہ وہ بدلہ میں حدسے نہ گزرے کیونکہ اس کی مدد کی گئی ہے ۔‘‘، (بنی اسرائیل33:17)
اوپر بیان کردہ آیات سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ جس شخص نے زیادتی کی ہو اس سے بدلہ لینے کی بالکل اجازت ہے ، بلکہ قتل کے معاملے میں تو ریاست کو اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ مظلوم کی دادرسی کرے اور قاتل سے قصاص لے ۔اوپر سورہ بنی اسرائیل کی آیت میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ قتل کے جواب میں قاتل کی جان لینے تک کا حق اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو دیا ہے اور ریاست بدلہ لینے کے اس عمل میں اس کی مدد کرے گی۔
پس اپنی زندگیوں میں عفودرگزر کو شامل کریں یہی اس کہانی کا سبق ہے۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
ختم شد!!!
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...