” بی بی جان ۔۔۔
کیسی ہیں آپ ۔۔۔
اور باقی۔ بابا سائیں ۔۔۔
اور رحمان ۔۔۔
سب کیسے ہیں ۔۔۔؟؟”
ارشد نے صوفے پر بیٹھ کر بی بی خانم کو کال ملای ۔۔۔
جب بابا سائیں نے گھر سے نکالا تھا ۔۔۔
تب سے صرف بی جان کے ساتھ ھی ارشد کا کنٹیکٹ تھا ۔۔۔۔
اور ہر ہفتے بات کرتا ۔۔۔۔
” ٹھیک ہوں بچے ۔۔۔
خود سوچو ۔۔۔جس کے بچے ہی اس سے دور ہوں ۔۔۔
وو کیسا ہو۔ سکتا ہے ۔۔۔😑😑”
بی بی جان نے نم آواز میں کہا ۔۔۔
” بی جان ۔۔۔
آپ دکھی ہوتی ہیں تو مجہے بھی افسوس ہوتا ہے ۔۔
”
ارشد نے کہا ۔۔۔
” اچھا ۔۔۔
چھوڑیں ۔۔۔
آپ کی میں کسی سے بات کرواتا ۔۔ ”
ارشد نے خوشی سے کہا ۔۔۔
” ہاں کرواؤ ۔۔۔
کون ہے ۔۔”
بی جان نے آنکھیں صاف کر کے کہا ۔۔۔
” آپ خود ہی پتا کر لیں ۔۔
یہ لیں ۔۔۔ بات کریں ۔۔۔”
ارشد نے فون راحیلہ کو پکڑاتے ہوے کہا ۔۔۔
” سلام بی جان ۔۔۔”
راحیلہ نے بات کی ۔۔۔
کافی دیر خاموشی کے بعد بی جان روتے ہوے بولی ۔۔۔
” راحیلہ ۔۔۔😮😥😥
کیسی ہے میری بچی ۔۔۔
کب ای پاکستان ؟؟
باقی سب کیسے ہیں حسام اور تمھرے بچے ۔۔۔”
بی جان نے خوش ہوتے ہوے کہا ۔۔
راحیلہ خاموش ماں کی آواز سن رہی تھی ۔۔
ان کی موجودگی کو محسوس کر رہی تھی ۔۔۔
” راحیلہ ۔۔۔
تم ٹھیک تو ہو ؟؟”
بی جان نے پریشانی سے پوچھا ۔۔۔
” جی بی جان میں ٹھیک ہوں ۔۔
آپ کیسی ہیں ۔۔۔
اور بابا سائیں 😥😥”
راحیلہ نے روتے ہوئے کہا ۔۔۔
” سب ٹھیک ہیں ۔۔۔”
بی جان نے کہا ۔۔۔
” تم اکیلی ہو پاکستان ۔۔۔
یا پھر حسام بھی آیا ہے تمہارے ساتھ ۔۔۔”
بی جا ن ے پوچھا ۔۔۔
” بی جان ۔۔
آپ کو ارشد نے نہیں بتایا کیا ؟؟
حسام کی وفات کو پورے 15 سال ہوگئے ہیں ۔۔۔”
راہلہ نے اپنے لہجے کی نمی کو چھپاتے ہوئے کہا ۔۔۔
” ارشد نے مجھے کچھ نہیں بتایا اور تم نے بھی تو کبھی کوئی خیر خبر نہیں بتائیں نہ کبھی کوئی بات کی ۔۔۔
اتنے سال پھر تم کہاں رہیں ۔۔۔
جب حسام ہی نہیں رہا تھا تو تم واپس آجاتی ۔۔۔”
بی جان نے افسوس اور دکھ سے ملے جلے لہجے سے کہا ۔۔۔۔
” بی جان کیسے واپس آ جاتی؟؟
میں نے اپنی ساری کشتیاں جلاڈالیں تھی۔۔۔
اور جس کے لئے گئی تھی جب وہ ہی نہیں رہا تو
واپس آ کے کیا کرنا تھا اور ویسے بھی
یہاں واپس میرے لیے کوئی جگہ نہیں تھی کہیں بھی۔۔۔”
“راحیلہ نے دکھی ہوتے ہوئے کہا۔۔۔
” اور ویسے بھی اللہ تعالی نے مجھے ایک بیٹے سے نوازا ہے ۔۔۔
کیا ہوا اگر حسام نہیں رہے۔۔
تو ان کی نشانی تو میرے پاس تھی
اور اپنے بیٹے کی اچھی پرورش اور تربیت اور اسے اچھا انسان بنانا ہی میری زندگی کا مقصد تھا ۔۔۔۔
اور میں اپنے بیٹے کو اکیلے چھوڑ کر آپ کے پاس واپس کیسے آ سکتی تھی ۔۔۔۔
اگر میں واپس آ جاتی تو بابا صاحب مجھے کبھی قبول نہ کرتے ۔۔
اگر قبول کر لیتے تو وہ میرے بیٹے کو کبھی قبول نہ کرتے اور یہ بات مجھے کبھی گوارا ہی نہیں تھی ۔۔۔
حسام کے کچھ خواب تھے اپنے بیٹے کو لے کر ۔۔۔
اور مجھے حسام کے بعد میں ہی تھی جس نے اس کے کہ سارے خواب پورے کرنے تھے تو بس ۔۔۔”
راحیلہ نے مضبوط لہجے میں کہا ۔۔
” راحیلہ بیٹا یہ تم ہی ہو نا ۔۔۔
تم تو اتنی سمجھ دار نہیں تھی بہت ہی بھولی اور معصوم سی بچی تھی میری۔۔😥
زندگی کی تلخیوں نے تمہیں کتنی سمجھدار بنا دیا ہے ۔۔۔”
بی جان نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔
” بس بھی جان زندگی چیز ہی ایسی ہے ۔۔۔
وقت کے ساتھ ساتھ ہم بہت کچھ سیکھ جاتے ہیں ۔۔۔”
رہیلا نے مسکرا کر کہا ۔۔۔
اور پھر کافی دیر باتیں کرنے کے بعد راحیلہ نے کال کٹ کر دی ۔۔۔
اتنے سالوں بعد اپنی بی جان سے بات کرکے رہیلہ کے دل کو سکون میسر ہوا تھا ۔۔ .
########
ابتسام زین کے ذریعے احسان شاہ کی ساری معلومات اکٹھی کر لی تھی۔۔۔
ہم ابتسام کو مزید تھوڑی سی کوشش کرنی تھی
جس کے ذریعے وہ احسان شاہ کے خلاف ثبوت اکٹھے کر سکتا
اور پھر قانونی کاروائی کے طریقے اس سے اس کے جرموں کی سزا دلوا سکتا
اور رامین کی حفاظت بھی کر سکتا ۔۔۔۔
” مانم ۔۔۔
اگر میں نے اپنی کہی ہوئی بات پوری کر دکھائی۔۔۔
مطلب رامین کی حفاظت کی ذمہ داری پوری کرلی تو بدلے میں مجھے کیا ملے گا ۔۔۔”
مانو صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی جب ابتسام نے آ کر اس سے پوچھا ۔۔۔۔
تامی کی اس بات پر مانو نے حیرت سے ابتسام کی طرف دیکھا ۔۔۔
” میرا خیال ہے ۔۔۔ آپ کچھ بول رہے ہیں رامین میری ہی دوست یا کزن نہیں ہے صرف۔۔۔
وہ آپ کی بھی کچھ لگتی ہے ۔۔😏😏”
مانو نے تپ کر کہا ۔۔
” میری تو بعد میں لگتی ہے ۔۔۔
پہلے تمہاری زیادہ کلوز فرینڈ ہے۔۔۔”
تامی نے مسکراہٹ دباکر مانو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
” اچھا بھوکے۔۔۔
جو کہوگے دے دوں گی ۔۔۔😑😑
میں نے تو سنا تھا انگلینڈ والوں کے دل کافی بڑے ہوتے ہیں/۔۔
لیکن کافی مایوسی ہوئی آپ کو دیکھ کر ۔۔”
مانو طنز کرتے ہوئے کہا ۔۔
” خیر سنا تو میں نے بھی بہت کچھ تھا۔۔۔
اپنی موم سے پاکستان اور یہاں کے رہنے والوں کے بارے میں ۔۔۔
مجھے اس سے زیادہ مایوسی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ بھی تمہیں دیکھ کر ۔۔۔😜😜”
تامی نے مانو کے انداز میں ہی جواب دیا ۔۔۔
‘” آف کہاں پھنس گئی۔۔۔
میں بھی کس الو کے پٹھے سے مدد لے رہی تھی ۔۔۔
بلیک میلر کہی کا ۔۔۔”
مانو میں منہ ہی منہ میں اردو میں کہا۔۔۔
” یہاں بات کرتے کرتے آپ کو کون سا مسئلہ ہے 😜😜🤔
جو تم ایسے منہ ہی منہ میں بولنا شروع ہو جاتی ہو … یا پھر تم کو پیدائش سے کوئی بیماری ہے ۔۔۔”
تامی نے طنز کرتے ہوئے مانو کو کہا ۔۔۔
” ایکسکیوز می مسٹر ۔۔۔Xyz
زیادہ باتیں بنانے کی ضرورت نہیں ہے تم میری پھوپھو کے اکلوتے بیٹے ہو اس لیے تمہارا لحاظ کرتی ہوں
ورنہ تم جیسے بندے کو تو میں دو منٹ میں سیدھا کر دوں
بڑے آئے مجھ سے پنگا لینے والے ۔۔۔😏😏”
مانو نے غصے سے منہ بنا کر کہا ۔۔۔
” سچ میں تم مجھے سیدھا کر سکتی ہو ؟؟”
تا می دوسرے صوفے سے اٹھ کر مانو کے پاس آکر بیٹھ کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا ۔۔۔۔
” ہآ ۔۔ں ہاں۔۔۔”
ابتیسام کے اس طرح پاس آ کر بیٹھ کر اسے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے پر مانو نے کنفیوز ہو کر اٹک ہوئے کہا ۔۔
” ہاں ویسے بول تو تم ٹھیک رہی ہو۔۔۔
ارادہ میرا بھی کچھ ایسا ہی آتا ہے۔۔۔
کہ ۔۔۔”
تا می نے مسکراہٹ گہری کرکے کہا ۔۔۔
“کہ ۔۔
مجھے سیدھا صرف تمہیں کر سکتی ہو ۔۔۔”
تا می نے بامعنی الفاظ میں مانو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
” پھپھو۔۔”
مانو نے اونچی آواز سے کہا ۔۔۔
ابتسام نے پیچھے مڑ کر دیکھا
اور اسی لمحے میں مانو نے اٹھ کر کمرے کی طرف دوڑ لگا دی
اور پیچھے سے تامی نے مانو کی اس حرکت پر زور دار قہقہہ لگایا ۔۔۔
” So cute 😍…
She is so innocent … But too clave girl😍😍😘…
It’s really a wonderfull choice for me ..😍”
تامی نے مانو کے چہرے کے رنگ بکھرتے ہوئے سوچ کر بالوں میں انگلیاں پھیریں اور مسکرا دیا ۔۔۔۔
##########
” مانو بس ۔۔۔
اب اور مزید کنفیوز نہیں ہونا ۔۔۔
پتہ نہیں وہ کیا سوچتا ہو گا ۔۔۔
لیکن یار کیا کرو اس کے بات کرنے کا انداز
اور آنکھوں میں دیکھتے ہیں
تو پتہ نہیں کیوں کنفیوز ہو جاتی ہوں ۔۔۔
پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا ۔۔۔
کہیں میں اسے پسند نہیں کرتی لگ گئی ۔۔۔
نہیں ۔۔۔ایسا نہیں ہو۔ سکتا ۔۔۔
میں جانتی بھی نہیں اسے ۔۔۔
انگلینڈ کے ماحول میں رہا ہے ۔۔۔
پتا نہیں اس کی نیچر کیسی ہو۔ گی ۔۔۔
کتنی gf ہو۔ گی ۔۔۔
لیکن دیکھنے اور بات کرنے سے تو بہت اچھا اور sweet لگتا ہے ۔۔۔
پتا نہیں کیا ہو۔ رہا ہے ۔۔۔
میں پاگل ہو۔ جانا ایسے ۔۔۔
بسس مانو اب اور نہیں سوچنا ۔۔۔۔”
کمرے میں آکر مانو اکیلی بیڈ پر لیٹے خود سے باتیں کر رہی تھی ۔۔۔
” کس نے پاگل ہو جانا ہے اور کیوں ”
رامے نے کمرے میں اتے اس کی آخری بات سن لی تھی اس لئے اس نے پوچھا۔۔۔
” کھ ۔۔ کچھ نہیں ۔۔۔”
مانو نے جواب دیا ۔۔۔
اور پھر دونوں سونے کو۔ لیٹ گئی ۔۔۔
#########
” ساری معلومات حاصل کر لی ہے ۔۔۔
اور یہ ہے فائل اس کی ۔۔۔
اب اگے کیا حکم ہے ۔۔۔”
ملازم فائل دیتے ہوئے بولا ۔۔۔۔
” اچھی بات ہے ۔۔۔
یہ تمہارا انعام۔۔۔
تم نے مجھے خوش کر دیا ۔۔۔
اب آگے کیا کرنا ہے۔۔۔
یہ تھوڑے دن تک بتاونگا ۔۔۔”
احسان شاہ نے فائل کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔
اور ملازم کی طرف پچاس ہزار پھینک دیے۔۔۔
ملازم نے خوشی خوشی اپنا انعام وصول کیا اور کمرے سے نکل گیا ۔۔۔۔
اور احسان شاہ فائل پڑھتے ہوئے مسکرانے لگا
اور ابھی کا پلان تیار کرنے لگا ۔۔۔۔
######
” اچھا رامے ۔۔۔
یہ تو بتاؤ کہ تم پڑھائی کے بعد کیا کروں گی
کوئی نوکری کرو گی یا کیا۔۔۔
مستقبل کے نیکسٹ تمہارے پلان کیا ہے ۔۔۔”
مانو نے پرجوش ہوتے ہوئے رامین سے پوچھا ۔۔
مانو کی بات سن کر رآمین پھیکی سی ہنسی ہنس دی ۔۔۔۔
” میرے پلان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔۔
جہاں پر میں رہتی ہو وہاں پر بڑوں کی مرضی چلتی ہے
اور ان کے مطابق میری پڑھائی کے بعد رخصتی ہوگی ۔۔۔”
رامیے نے آنکھوں میں آئی نمی کو صاف کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
” کیا مطلب رخصتی ہوگی؟؟؟
تمہارا نکاح ہو چکا ہے ؟؟؟”
مانو نے چلا کر پوچھا ۔۔۔۔
” آہستہ مانو ۔۔۔
ہم یونیورسٹی میں بیٹھی ہیں
گھر میں نہیں۔۔۔ جو تم ایسے چیخ کر بول رہی ہو ۔۔۔”
۔۔۔
مانو کو ڈانٹتے ہوئے کہا ۔۔
” اچھا بتاؤ نہ کون ہے…
کس سے نکاح ہوا ہے
کیسا دکھتا ہے
کیا کرتا ہے
سب کچھ ایک ایک بات بتاؤ مجھے…”
مانو نے بے صبری سے پوچھا ۔۔۔
رامین کچھ لمحے مانو کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی کہانی بتانا شروع ہوگی۔۔۔۔
” یہاں پر آنے کے لیے۔۔۔
اپنی پڑھائی ۔۔۔ زیادہ پڑھنے کے خواب پورا کرنے کے لئے میں نے اپنی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ لیا ۔۔۔
بابا سائیں نی مجھے یہاں پر آنے کے لئے ایک شرط میرے سامنے رکھی۔۔۔۔
اگر مجھے اپنے خواب کو پورا کرنا تھا تو ان کی شرط کو ماننا تھا ۔۔۔
ادروائز میرے پاس کوئی اور چوائس نہیں تھی ۔۔۔۔”
رامین نیچے منہ کیے مانو کو اپنی زندگی کی اصل حقیقت بتانے لگی ۔۔۔۔
” کونسی شرط رکھی تھی دادا جی نے ۔۔۔”
مانو نے تجسس سے پوچھا ۔۔۔
“جیسا کہ تم بھی جانتی ہو پھوپھو نے اپنی مرضی سے شادی کر لی اور ۔۔۔
اسی وجہ سے بابا بابا سائیں پھوپھو اور چاچو کو گھر سے نکال دیا ۔۔۔
اور میرے ابو جی نے کبھی مجھے وہ پیار ہی نہیں دیا جو سب میرے آس پاس کے رشتہ دار اپنی بیٹیوں کو دیتے تھے ۔۔۔
پھر شروع سے ہی میرا ایک خواب تھا سب سے زیادہ پڑھنے کا اپنی پڑھائی کو پورا کرنے کا ایک جنون تھا۔۔۔
میرے پاس پھر جب میں نے میٹرک امتحان دیے تو زری نے تو پڑھنے سے انکار کر دیا کیونکہ اسے پڑھنے کا شوق نہیں تھا
لیکن میرا تو ایک جنون تھا زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کرنا اور اسی شوق کو پورا کرنے کے لیے میں نے بی جان اور زری کی مدد سے ایک اسکول کالج میں داخلہ لے لیا ۔۔۔
جب میں نے کالج کآ فائنل ایئر اچھے نمبروں میں پاس کیا تو مزید پڑھنے کے لئے مجھے بابا سائیں اور ابو جی کوئی بھی اجازت نہیں دے رہا تھا ۔۔۔۔
پھر محراب بھائی نے اس ٹائم میری مدد کی ۔۔۔مشکل وقت میں میرا ساتھ دیا ۔۔۔
انہوں نے بابا سائیں اور ابو جی سے میری پڑھائی کی بات کی. ۔۔۔
کیونکہ وہ پڑھنے کے سلسلے میں انگلینڈ گئے ہوئے ہیں تو اس لیے انہیں پڑھائی کی قدر و قیمت کا اندازہ خوب ہے ۔۔۔
انہوں نے میری فل سپورٹ کی جتنی وہ کرسکتے تھے
لیکن پھر بھی بابا سائیں اور ابو جی کسی طریقے سے میری پڑھائی کو مزید جاری رکھنے پر رضامند نہ تھے۔۔۔
آن کے دل میں ڈر تھا کہ کہیں میں بھی پھوپھو کی طرح نہ نکلو ا
ور اپنی پڑھائی کے جنون میں کہیں ان کی خواہش۔۔۔ ان کی عزت کو خاک میں نہ ملا دو ۔۔۔
اسی لیے مزید محراب بھائی ۔۔زری اور خان بی بی خانم کی بدولت مجھے پڑھائی کی اجازت مل گئی۔۔۔
لیکن انہوں نے میرے آگے ایک شرط رکھی جس سے مجھے مآننا تھا ۔۔۔
کیونکہ پھوپھو شاداب خان سے شادی کرنے سے انکار کردیا تھا اور اسی وجہ سے خاندان میں پھوٹ پڑ گئی تھی تو اس پھوٹ کو ختم کرنے کے لیے اور خاندان کو دوبارہ سے واپس جوڑنے کے لیے بابا سائیں مجھے انتخاب کرنے کو کہا ۔۔۔
انہوں نے میرے سامنے ایک آفر رکھی کہ اگر میں اپنی پڑھائی کو مزید جاری رکھنا چاہتی ہوں
اور اچھی یونیورسٹی میں ایڈمیشن لینا چاہتی ہوں تو
مجھے شاداب خان کے بیٹے اسد اللہ خان سے نکاح کرنا گا ۔۔۔۔
اور رخصتی میری پڑھائی مکمل کرنے کے بعد کی جائے گی ۔۔۔
اور اگر میں ان کی آفر ان کی شرط ماننے سے انکار کر دیتی تو وہ مجھے کبھی بھی پڑھنے کے لیے یہاں پر نہ بھیجتے ۔۔۔۔
تو پھر مرتا کیا نہ کرتا
میں نے ان کی شرط قبول کرلیں
محراب بھائی اور بی جان بہت چیخیں چلائیں بہت غصہ ہوئے انہوں نے بابا سائیں اور ابو جی سے بات کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا ان کے غصہ کرنے اور کسی کو کوئی فرق نہیں پڑا اور میرا نکاح ہوگیا۔۔۔۔
اور آپ میں جب چاہیں جہاں پر ہو تو اسلحہ خان کا کوئی نہ کوئی ایک فرد میری نگرانی میں ہوتا ہے کہ میں کیا کر رہی ہو اور کہاں جا رہی ہو کس سے مل رہی ہو ۔۔۔۔”
رامیں نے آنکھوں میں آنسو کو صاف کرتے ہوئے مسکرا کر مانو کی طرف دیکھا ۔۔۔
” یار یہ بابا سائیں اتنی سخت دل کیسے ہوسکتے ہیں
ان کو ذرا بھی ترس نہیں آیا تم پر
تم اتنی پڑھی لکھی اور وہ شاید کوئی ایک جماعت بھی پاس نہیں ہوگا
کہاں کا جوڑ ہے ؟؟
صرف دو خاندانوں کو ملانے کے لیے تمہاری قربانی دی جا رہی ہے آخر کیوں صدیوں سے ایسا ہی کیوں ہوتا آرہا ہے ۔۔۔
پھوپھو کی خواہش تو بابا جی نے پوری کر دی لیکن تم پھر بھی قربانی کا بکرا بن گئی۔۔۔
آخر کب تاکہ لڑکیاں ہی قربانی اور خاندانوں کی جوڑ پر قربان ہوتی رہیں گی۔۔۔”
مانو نے دکھ اور تعصب سے کہا ۔۔۔۔
” چھوڑو ۔۔۔
کافی ٹائم ہوگیا ہے ۔۔۔
باتوں باتوں میں وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔ اور اب لیکچر تو پتا ہے ناں کس پروفیسر کا ہے۔۔۔
اس لیے بھاگو ٹائم پر کلاس میں پہنچتے ۔۔۔
کہی لکچر بھی جائے اور انسلٹ الگ سے ہو۔۔۔”
رامے نے اٹھتے ہوئے اپنی کتابیں اٹھائیں اور مانو کی طرف مسکرا کر کہا ۔۔۔
مانو نے بھی اپنا بیگ اور کتاب اٹھائی اور رامے کے ہمراہ کلاس کی طرف چل پڑی ۔۔
دونوں اس بات سے بے خبر تھی کہ کوئی پیچھے کھڑا ان کی ساری باتیں سن رہا تھا ۔۔۔۔
########
” میں نے تمہیں ایک نمبر اور ایک پتہ بھیج رہا ہوں اور اس ایڈریس پر ایک لیٹر تمہیں بھیجنا ہے جتنی جلدی ہو سکے یہ میرا آرڈر ہے ۔۔۔۔”
احسان شاہ اپنے کمرے میں کھڑا کسی سے فون پر بات کر رہا تھا ۔۔۔
” اوکے۔۔۔ جیسا آپ کا حکم ۔۔۔”
آگے سے جواب آیا ۔۔۔
پھر کال کٹ کر دی۔۔۔
” اب آئے گا مزا ۔۔۔
میں بھی دیکھتا ہوں چڑیا کے کتنے دن اڑ سکتی ہے ۔۔۔”
احسان شاہ مکروہ ہنسی ہنستے ہوئے بولا ۔۔۔
#######
” السلام علیکم ۔۔۔
خان جی۔۔۔ یہ آپ کے لئے ایک خط آیا ہے ۔۔
لاہور سے ۔۔”
ڈاکیے نے خان صاحب کو خط پکڑتے ہوئے بولا ۔۔۔
“ہاں رامین بیٹا نے بھیجا ہوگا ۔۔۔
لیکن ابھی میری کل ہیں تو بات ہوئی ہے اس نے مجھے خط کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔۔۔
شاید وہ کوئی چیز اہم بات بتانے کے لئے خط بھیجا ہوگا یا کوئی ڈاکومنٹ رہ گیا ہو گا اس کا ۔۔
تو اس کے لیے اس نے بھیجا ہوگا ۔۔۔
تم کھانا کھا کے جانا بیٹا ”
خان سائیں نے مسکرا کر ڈاکے کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔۔
” ارے نہیں جی بس میں چلتا ہوں اب مجھے اور بھی لوگوں کے خط پہنچانے ہیں۔۔”
ڈاکیہ نے مسکراتے ہوئے کہا اور اپنے راستے پر چل دیا ۔۔۔
اور خان سائیں اپنے گھر کی طرف چل پڑے تاکہ زری سے خط پڑھوا سکے ۔۔۔
######
” ارشد ۔۔۔
مجھے کل ہاویلی واپس جانا ہے۔۔۔
سب سے ملنے کے لئے ۔۔۔
ایک دفعہ پھر سے کوشش کرتی ہوں بلکہ اب پکا میں نے جاکر بابا سائیں اور بی جان سے مل کر ہی واپس آنا ہے۔۔۔۔ تاکہ اپنی غلطی پر معافی مانگو ۔۔۔
اور ابتسام کو بھی میں اپنے ساتھ لے کر جاؤں گی اس لیے تم زیادہ پریشان مت ہونا ۔۔”
راحیلہ بیگم نے کھانا کھاتے ہوئے ارشد کو بتایا ۔۔۔
” لیکن موم مجھے کل سے اپنے بزنس کا کچھ کام سٹارٹ کرنا ہے۔۔۔
تو اس لیے میں تو نہیں جا سکونگا ۔۔
آپ تھوڑآ ویٹ کر لیں ۔۔۔میں فری ہو جاؤ پھر میں آپ کو لے چلوں گا ۔۔۔”
تامی کھانا کھاتے ہوئے رحیلہ بیگم کو کہا۔۔۔
” چلو کوئی بات نہیں بیٹا میں لے جاؤں گا۔۔۔”
ارشد نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔۔
پھر راحیلہ بیگم اپنی پیکنگ کرنے کے لئے اپنے کمرے کی طرف چل پڑی۔۔۔
اور ابتسام رامین اور مانو دونوں کو یونیورسٹی چھوڑنے کے لئے چل پڑا ۔۔۔
#######
” ایکسکیوزمی مس ۔۔۔
آپ پلیز آگے بیٹھے۔۔۔
میں کوئی آپ کا ڈرائیور نہیں ہو جو آپ دونوں پیچھے بیٹھ رہی ہیں۔۔۔
اس لئے مہربانی فرما کے دونوں خواتین میں سے کوئی ایک خاتون یہاں آگے فرنٹ سیٹ پر میرے ساتھ بیٹھے ۔۔۔”
ابتسام نے سامنے فرنٹ ڈور کھولتے ہوئے مانو کی طرف دیکھتے ہوۓ منہ بنا کر کہا ۔۔۔
یہ بات سن کر مانو کو تو تب چڑھ گئی جب کہ رامے نیچے منہ کیے ہنس رہی تھی۔۔۔
” یہ خاتون تم نے کس کو بولا ۔۔۔
اور دوسری بات ۔۔۔ ہم دونوں میں سے کسی نے بھی آپ سے درخواست نہیں کی تھی کہ آپ ہمیں پک اینڈ ڈراپ کیا کریں اس لیے ہم پر کوئی روعب نہیں ڈال سکتے ۔۔۔۔
زیادہ آپ نے چوں چرا کی۔۔۔ تو میں گاڑی سے اتر جاؤنگی پھر جاتے رہنا۔۔۔”
مانو غصے سے انگلی اٹھا کر کہا ۔۔۔
” کیا چیز ہے یار ۔۔۔
تیز مرچ کہی کی ۔۔۔
یا اللہ تو ہی بچانا مجھے ۔۔۔
تھوڑا سا تو فرق رکھ دیتا خواب میں یہی ملی تھی ساری دنیا میں ۔۔۔
جنگلی بلی ہے پوری
ہر وقت لڑنے کو تیار رہتی ہے ۔۔۔
بس تھوڑی سی بات کرو تو سہی ”
ابتسام نے منہ ہی منہ میں بڑ بڑاتے ہوئے کہا ۔۔۔
” کون سا خواب ۔۔۔
اور یہ کیا منہ میں آپ بات کر رہے ہو۔۔۔ جو بھی بات ہے اونچی بات کرو ۔۔۔”
مانو نے اس کے خواب والا سن کر تعجب سے کہا ۔۔۔۔
” کچھ نہیں محترمہ ۔۔۔
آپ اپنے چھوٹے سے دماغ پر زیادہ زور نہ ڈالو۔۔۔
اور یہاں پر بیٹھو۔۔۔ ”
ابتسام نے مسکراہٹ دباکر مانو کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا ۔۔۔
” مانو بیٹھ کی جاؤ یار۔۔۔
لیکچر سٹارٹ ہو جائے گا پہلے بھی ہم لیٹ ہو چکے ہیں۔۔۔
کافی وقت نخرے نہیں کرو اور چپ کر کے بیٹھ جاؤ ۔۔۔”
رامین نے مانو کو ڈانٹتے ہوئے کہا ۔۔۔
” تم بھی اس کی چمچی ہو ۔
رات کو سونا تو میرے ساتھ ہی ہے نہ بھی بتاؤں گی تمہیں ۔۔۔۔
بڑی سگھی اس کی ۔۔۔
جیسا یہ کدو ویسی تم کریلی ۔۔۔”
مانو نے منہ بناکر رامین کو آنکھوں ہی آنکھوں میں دیکھ کر غصے سے اردو میں کہا۔۔۔۔
رامین اسے چپ ہونے کا اشارہ دیا ۔۔۔
جبکہ ابتسام مانو کی اس بات پر ہنس رہا تھا ۔۔۔
جب مانو سیٹ پر بیٹھ گئی توتامی نے گاڑی چلا لی ۔۔۔۔
پھر سارا راستہ ابتسام مانو کی طرف بار بار دیکھتا رہا ۔۔۔
جبکہ مانو ابتسام کی پر شوق نگاہوں سے کنفیوز ہوتی۔۔۔ پھر کھڑکی سے باہر ہی دیکھنے میں مگن رہی ۔۔۔اور دل میںتامی کو گالیوں سے نوازتی رہی ۔۔۔
########
” اکسکیوزمی مس ۔۔۔
کیا میں آپ سے تھوڑی دیر کے لئے اکیلے میں بات کر سکتا ہوں ۔۔۔۔”
رومان عباس نے رامین کو دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔
” کیوں میرے سامنے بات کرنے میں کیا مسئلہ ہے آپ کو ۔۔۔
اور رامے کہیں نہیں جا رہی۔۔۔۔
برائے مہربانی جو بھی آپ کو پرسنل بات کرنی ہے وہ میرے سامنے ہی کیجئے ۔۔۔۔”
مانو نے خاموش کھڑی رامین کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھ کر رومان عباس کو تن کر جواب دیا ۔۔۔
” میں آپ سے بات نہیں کر رہا۔۔۔۔
اس لئے برائے مہربانی آپ خاموشی اختیار کیجئے ۔۔ . .
مجھے صرف مسس رامین سے بات کرنی ہے وہ بھی اکیلے میں ۔”
رومان نے غصے سے را مین کو دیکھتے ہوئے حکم والے لہجے میں کہا ۔۔۔
” ر امے تم کچھ بولتی کیوں نہیں ہو۔۔۔
کچھ تو پھوٹو ۔۔۔۔یہ بندہ مسلسل میری بھی کر رہا ہے 😡😡 ۔۔”
مانو نے رامین کے کان میں سرگوشی کی ۔۔۔۔
” مانم ٹھیک کہہ رہی ہے مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی ۔۔۔
اگر آپ کا کوئی زیادہ ہی سیریس مسئلہ ہے۔۔۔۔
تو آپ اس کے سامنے ہی یہاں پر بولیں ۔۔۔
ورنہ معذرت ۔۔۔۔”
رامین نے رومان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سنجیدہ لہجےمیں جواب دیا ۔۔۔۔
—
” ذری۔۔۔۔
یہ خط تو پڑھ کے دکھاؤ ذرا مجھے۔۔۔
لاہور سے آیا ہے اور میرے خیال میں رامین بیٹا نے بھیجا ہے ۔۔۔
دیکھو تو اس میں کیا لکھا ہے۔۔۔”
بابا سائین گھر آکر خط زری کو پکڑاتے ہوئے کہا
کیوں کہ اس وقت رحمان خان گھر پر نہیں تھا ورنہ وہ خط رحمان سے پڑھاتے ۔۔۔۔
” السلام علیکم ۔۔
امید کرتی ہوں آپ سب خیریت سے ہوں گے۔۔۔ اور آپ فکر نہ کریں میں بھی خیریت سے ہوں ۔۔۔
ماضی میں جو کچھ بھی ہوا اس میں میرا کوئی قصور نہ تھا۔۔۔۔
آپ نے میری پڑھائی کے بدلے میں جو شرط رکھی۔۔۔۔
میں نے بغیر چوں چرا کیے آپ کی ہر شرط آنکھیں بند کرکے قبول کر لی ۔۔۔
لیکن اب چونکہ مجھے اپنے اچھے برے کی سمجھ آ گئی ہے تو میں اب آپ کی مزید کوئی شرط نہیں مانوں گی اور نہ ہی آپ آئندہ مستقبل میں کبھی کوئی مجھ سے امید رکھیں ۔۔۔
اور دوسری بات۔۔۔۔۔ بابا نے کبھی بھی میرے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کیا۔۔۔ ان کے خیال میں میں ہمیشہ اپنی پھوپھو کی نقش قدم پر چلنے والی لڑکی ثابت رہی ہوں۔۔۔۔ اور ان کو بتاتی چلوں کہ میں اب کی طرح بن کے دکھاؤ گی ۔۔
اور اپنی مرضی سے اپنی پسند سے ہی شادی کرو گی۔۔۔
اور جو آپ لوگوں نے میرا نکاح اسد اللہ خان جیسے جاھل انسان سے کیا ۔۔۔میں اس نکاح کو بھی ماننے سے انکار کرتی ہو ۔۔کیونکہ مین کوئی 16 سالہ بچی نہیں ہو میں بیس سال کی ایک میچور لڑکی ہو اور مجھے پورا حق ہے کہ میں اپنی زندگی کو اپنے طریقے سے گزار سکوں ۔۔۔۔
اور ہو سکے تو آپ لوگ میرے پیچھے آنے کی کوشش ہرگز نہ کرنا ۔۔۔کیونکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔۔۔اور آپ کو میرے مستقبل کے بارے میں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔۔
بہت جلد میں ایک لڑکے کے ساتھ نکاح کرنے والی ہوں ۔۔۔اور اب میں اپنی زندگی اپنے طور طریقے سے ہی گزاروں گی ۔۔۔۔
امید ہے آپ کو میری باتیں بہت بری لگی ہو گی ۔۔۔لیکن یہ سچ ہے اور اس سچ کے ساتھ آپ سب کو جینا ہوگا ۔۔۔
آپ کی پوتی ۔۔۔
رامین خان ۔۔۔”
زری نے خط پڑھ کر سناتے ہوئے آخر میں حیرت اور پریشانی سے خان سائیں کی طرف دیکھا ۔۔۔۔
خان سائیں نے سن کر ہکابکا زرداری کی طرف دیکھا۔۔۔ کیونکہ اسے رامین سے کبھی بھی ایسی امید نہیں رہی ۔۔۔۔
راحیلہ نے جو کچھ بھی کیا ان سب کو یکسر فراموش کرکے رامین کو انہوں نے ہمیشہ پیار دیا تھا ۔۔۔۔
اور اب اس خط کی وجہ سے انکا رآمین پر بھروسہ اعتماد سب کچھ ختم ہوگیا ۔۔۔۔
“بابا سائیں ۔۔۔۔
کیا ہوا آپ کو بابا سائیں۔۔۔
آنکھیں کھولیں پلیز ۔۔۔”
زری بھاگ کر بابا سائیں کو پکڑا کیونکہ وہ
دل پر ہاتھ رکھے بیٹھے جا رہے تھے ۔۔۔
“بی بی جان۔۔۔ بی بی جان ۔۔۔۔
جلدی آئیں دیکھیں بابا سائیں کو پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے ۔۔۔”
زری روتے ہوئے چیخ چیخ کر سب کو آوازیں دیں ۔۔۔۔
” بابا جان ”
راحیلہ جو ابھی گھر میں داخل ہی ہوئی تھی۔۔۔۔ سامنے بابا سائیں کو ایسے گرا ہوا دیکھ کر بھاگ کر ان کے پاس آئی ۔۔۔۔
” ارشد جلدی کرو بابا سائیں کوکارمیں ڈالو ان کی طبیعت بہت خراب ہوتی جارہی ہے ۔۔۔”
راحیلہ نے جلدی جلدی ارشد کے ساتھ اٹھاتے ہوئے کہا ۔۔۔
جبکہ زری ارشد اور راحیلہ کے منہ کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہی ہوں کہ یہ لوگ کون ہے اور ہمارے گھر میں کیا کرنے آئے ہیں اور اس طرح میرے بابا سائیں کو کیوں اٹھا کے لے جا رہے ہیں ۔۔۔۔
” بی جان ۔۔
آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں ۔۔۔
بابا سائیں کی طبیعت بہت خراب ہے ۔۔۔
اور بیٹا آپ۔۔۔ رحمان جب گھر آئے تو اسے بتا دینا۔۔۔”
راحیلہ بیگم بی بی خانم کا ہاتھ پکڑ کر لے جاتے ہوئے ذری کو بولیں ۔۔۔
زری ان کو جاتا ہوا دیکھتی رهی ۔۔۔۔
#######
” رامین یہ تم نے کیا خط میں بھیجا ہے مجھے کبھی بھی تم سے ایسی گھٹیا کام کرنے کی امید نہیں تھی ۔۔۔
کتنا مان تھا مجھے۔۔ بی جان۔۔۔ بابا سائیں۔۔ سب کو تم پر۔۔۔
کتنی کوششوں اور مخالفتوں کے باوجود ہم نے اپنے بھروسے پر تمہیں لاہور میں پڑھنے کے لیے بھیجا ۔۔۔
لیکن تم نے ہمارے مان بھروسہ سب کچھ توڑ دیا کسی کی محبت کا تمہیں خیال نہ آیا ۔۔۔
اور کچھ نہیں تو بابا سائیں کے بارے میں ہی سوچ لیتی۔۔۔
یا پھر محراب کے بارے میں جس میں تمہارے لئے سب کی مخالفت کو اپنے سر پر لیا ۔۔۔
اور تمہیں یہ سب ہی کرنا تھا تو تم نے اسداللہ خاں سے نکاح کیوں کیا کیوں شرط قبول کی تھی ۔۔۔
مجھے ساری باتوں کا جواب دو ۔۔۔”
زری روتے ہوئے غصے سے رامین کو فون پر کہا ۔۔۔
جبکہ رامین ایسے اچانک زری کے فون آنے پر پریشان سی تھی اور اوپر سے ایسی باتیں سن کر اور زیادہ پریشان ہوگئ ۔۔۔۔
” کیا ہوا ہے زری۔۔۔؟؟
کچھ بتاؤں گی تو پتہ چلے گا نا مجھے۔۔۔
تم یہ کیسی باتیں کر رہی ہو؟؟؟
کون سا مان کونسا بھروسہ توڑا ہے میں نے؟؟
ایسا کیا کیا ہے میں نے جو تم مجھے ایسی باتیں کر رہی ہو ۔۔۔
گھر میں سب ٹھیک تو ہے نہ؟؟
بابا سائیں وہ تو ٹھیک ہے نہ ؟؟”
رامین نے ناسمجھی سے ذری سے پوچھا ۔۔۔
” بس رامین بہت ہوگیا تمہاری اسی معصومیت سے میں نے دھوکا کھایا میں نے تمہیں اتنی اچھی اپنی بہنوں سے زیادہ پیار دیا تمہاری ہر بات کو پہلے جانا ہو تمہاری ہر جد میں تمہارا ساتھ دیا تمہارے پڑھائی کے شوق کو پورا کرنے کے لیے میں نے سب کی منتیں کیں ۔۔
اور تم نے بدلے میں ہم مجھے ذلیل کیا سوا کیا اور باباسائیں انکی تو عزت کا ہی تم نے جنازہ نکال دیا ذرا بھی ترس نہیں آیا تو نے بابا سائیں کے بوڑ ھے چہرے پر ؟؟؟
اور میری آخری بات سن لو تم نے جو کرنا تھا کرلیا ۔۔۔۔
لیکن اب اگر تمہاری وجہ سے بابا سائیں کو آنچ بھی آئ تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔۔۔۔ میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی یاد رکھنا ۔۔۔۔”
زری روتے ہوئے رامین سے کہا ۔۔۔
اور کھٹاک سے فون بند کر دیا ۔۔۔
جبکہ رامین پریشان اور حیران سی کھڑی فون کو دیکھتی رہ گئی ۔۔۔۔
########
” ارشد کیا کہتے ہیں ڈاکٹر ؟؟”
راحیلہ نے ارشد کو اپنی طرف آتے ہوئے پوچھا ۔۔
” بابا سائیں کو ہاٹ اٹیک آیا ہے ۔۔۔
اور تم دعا کرو ان کی طبیعت جلدی بہتر ہو جائے ۔۔۔
ان کی کنڈیشن کافی سیریس ہے ۔۔۔
انہوں نے کوئی بہت ہی گہرا صدمہ لیا ہے۔۔۔”
ارشد نے دکھ سے راحیلہ کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔
” بی جان۔۔۔
آپ بتائیں کیا ہوا تھا گھرمیں۔۔۔
جو بابا سائیں اتنا گہرا صدمہ لیا ہے ۔۔”
راحیلہ نے بی جان کو گلے لگاتے ہوئے ان سے پوچھا ۔۔۔۔
” لاہور سے کوئی خط آیا ہے بس اسی کو پڑھانے کے لئے وہ زری کے پاس آئے تھے۔۔۔
اور مجھے کوئی کام تھا اس لئے میں کمرے میں چلی گئی تھی۔۔ اس کے بعد کیا ہوا کچھ معلوم نہیں ۔۔۔”
بی جان نڈھال سی بینچ پر بیٹھے ہوئے بولی ۔۔۔۔
” بس میری جان کچھ نہیں ہوگا بس میں ہوں ناں ۔۔۔”
ارشد نہیں بی بی خانم کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے بولا ۔۔۔
” پتہ نہیں کب ہمیں خوشیاں راس آئیں گی۔۔ اتنے سالوں بعد تم لوگوں کو دیکھنا نصیب ہوا وہ بھی اس حالت میں ۔۔۔۔”
بی جان نے راحیلا کو اپنے ساتھ لگاے ہوئے روتے ہوئے بولی ۔۔۔
#########
” اب آپ کا پیشنٹ خطرے سے باہر ہے ۔۔۔لیکن آپ ان سے زیادہ بات نہ کیجیے گا۔۔۔ کیونکہ ان کی حالت اس طرح کی نہیں ہے کہ وہ زیادہ بات کر سکیں اور مزید کوئی بھی صدمہ دینے سے پرہیز کریں ۔۔۔”
ڈاکٹر نے ارشد کو بتایا ۔۔۔
“بابا سائیں ۔۔۔
اب ٹھیک ہیں اب ہم ان سے مل سکتے ہیں ۔۔”
ارشد نے رحیلہ سے کہا ۔۔
” میں بابا سائیں سے ملوں ؟؟
کوئی پریشانی کی بات تو نہیں ہو گی نہ وہ مجھ سے بات تو کر لیں گے نہ ؟؟”
راحیلہ اپنے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے خوش ہوتے ہوئے بچوں کی طرح پوچھا ۔۔۔
چکنی ہاں میں سر ہلایا اور راحیلہ کمرے میں چلی گئی جہاں پر بابا سائں خاموش بیڈ پر لیٹے ہوئے تھے اور ان کے ہاتھ پر خون کی بوتل لگی ہوئی تھی ۔۔۔
اتنے سالوں بعد راحیلہ بابا سائیں کو دیکھ رہے تھے ۔۔۔
باباسائیں کا روعب و دبدبا اور ان کے چہرے کی وہ مستقل مسکراہٹ سب کچھ کہیں کھو گئی تھی ان کا چہرہ اب پہلے کی طرح نہیں رہا تھا کافی کمزور ہوگئے تھے ۔۔۔
راحیلہ نے بابا سائیں کے پاس بیٹھتے ہوئے پیار سے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا ۔۔۔
” بابا سائیں مجھے معاف کردے میں آپ کی بہت بڑی گنہگار ہوں ۔۔۔
آپ جو کہیں گے میں وہ کروں گی ۔۔۔بس ایک دفعہ مجھ سے بات کرلیں دیکھیں آپ کی اپنی راحیلہ آئی ہے ۔۔۔”
راحیلہ نے روتے ہوئے بابا سائیں کے پاؤں پکڑ کر معافی مانگتے ہوئے کہا ۔۔۔
” اٹھ جاؤ بیٹا ۔۔
ماں باپ کبھی اپنی اولاد سے ناراض نہیں ہوتے ۔۔۔
تمہیں نہیں معلوم تمہاری انتظار میں میں نے کتنے سال مشکل سے گزارے ہیں ۔۔۔
ہم بھی اس سے مزید بے رخی میں نہیں کرسکتا تھک گیا ہوں میں اب اس بوڑ ھی ہڈیوں میں جان نہیں رہی ۔۔۔”
بابا سائیں نے پاؤں پر نمی محسوس کرتے ہوئے آنکھیں کھول کر رہیلہ کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔
راحیلہ بھاگ کر بابا سائیں کے گلے لگ گئی ۔۔۔ دونوں باپ بیٹی کافی دیر کے لیے ایک دوسرے کہ غم بانٹتے رہے ۔۔۔
” بی جان دیکھیں تو بابا سائیں مجھے تو یکسر ہی فراموش کر رکھا ہے جیسے میں تو ان کا بیٹا ہی نہیں 😑😑”
ارشد نے برا سا منہ بنا کر بی جان کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔
” ارے الو ۔۔۔
ادھر آؤ ۔۔
اولاد ایسی بھی ہو ماں باپ ہمیشہ اپنی اولاد کو برا نہیں کہتے ہاں وقتی طور پر ناراض ہو جاتے ہیں لیکن کبھی بھی دل سے ناراض نہیں ہوتے ۔۔۔اور تم تو میرے بہادر بیٹے ہو ۔۔۔”
بابا سائیں ارشد کو گلے لگاتے ہوئے مسکرا کر کہا ۔۔۔۔
پھر کافی دیر بابا سائیں کے پاس بیٹھے رہیلا اور ارشد باتیں کرتے رہے اور ماضی کے بہت سارے قصے ان کو سناتے رہے ۔۔۔۔
اس طرح دل پر چھائی گرد اتنے سالوں کے بعد ختم ہوگئی ۔۔۔۔
#########
” یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں بابا جان ۔۔۔
رامین بیٹی تو میرے گھر ہے وہ ہمارے ساتھ رہتی ہے ۔۔۔”
ارشد نے جب خط کے بارے میں سنا تو۔۔۔ حیرت سے ان کو کہا اور پھر مانو اور رامین کی دوستی سے لے کر اس کے گھر پر آنے اور سب باتیں تفصیل سے ان کو بتا دیں۔۔۔
یہ سب سن کر آس پاس کے بیٹھے افراد حیران رہ گئے ۔۔
” تو اگر یہ خاط رامین بیٹی نے نہیں بھیجا تو پھر یہ کس کی شیطانی ہے۔۔۔ اگر یہ مذاق ہے تو ایسا مذاق کرنے کی جرات کس نے کی ۔۔۔”
بابا سائیں غصے سے کہا ۔۔
” بابا جان آپ غصہ نہ کریں۔۔۔ آپ کی طبیعت ایسی نہیں ہے کہ آپ غصہ کریں۔۔ اور اس بات کو میں خود دیکھ لوں گا ۔۔۔”
ارشد نے بابا سائیں کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ان کو حوصلہ دیا ۔۔۔۔
########
” تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے گھر میں آنے کی اور کس کی اجازت سے تم یہاں میرے گھر میں بیٹھے ہوئے ہو ۔۔۔ جاؤ یہاں سے دونوں ۔۔”
رحمان خان گھر میں داخل ہوا اور اس نے سامنے ارشد اور راحیلہ کو بابا سائین کے ساتھ مسکرا کر باتیں کرتے ہوئے دیکھا تو غصے سے ان کی طرف آیا اور بولا ۔۔۔
” رحمان یہ تمہارا گھر نہیں ہے یہ میرے بابا جان کا گھر ہے۔۔۔ اور وہ کہیں گے تو میں یہاں سے چلا جاؤں گا ۔۔۔۔ورنہ تم تو کیا یہاں سے کوئی بھی یہاں سے بھیج نہیں سکتا بہت دیکھ لیا میں نے ۔۔۔
مزید کوئی بھی تمہاری بات میں برداشت نہیں کروں گا ۔۔۔”
ارشد خان نے غصے سے سنجیدہ ہو کر کہا ۔۔۔
” بابا سائیں ۔۔۔ان سے کہہ دیں یہاں سے چلے جائیں ورنہ میں کچھ کر بیٹھوں گا ۔۔”
رحمان نے اتنا ہی کہا تھا کہ اسے مزید کچھ بولتا ۔۔۔
اسے پہلے ہی کسی نے ایک زوردار تھپپر اس کے منہ پر جڑدیا ۔۔۔
” رحمان اب مزید ایک بات نہیں۔۔۔ تمہاری وجہ سے اتنے سالوں سے میں اپنی اولاد سے دور رہیں ۔۔۔
تم چاہتے کیا ہو لوگ تو اپنے رشتے داروں اپنے خون کے لئے جان دے دیتے ہیں اور تم اپنے ہی خون کے دشمن بنے بیٹھے ہو ۔۔۔”
بی بی خانم غصے سے رحمان کو دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔
رحمان خان حیران بی بی خانم کی طرف دیکھ رہا تھا ۔۔
کیونکہ اتنے سالوں میں کبھی بھی بی جان نے اپنی کسی بھی اولاد پر کبھی بھی ہاتھ نہیں اٹھایا تھا ۔۔۔۔
“ارے کچھ تو خدا کا خوف کھاؤ بہن ہے تمہاری ایک اکلوتی بہن //
بہن جس کی تھوڑی سی تکلیف پر تم پریشان ہو جایا کرتے تھے۔۔۔۔ تمہاری نیند اڑ جایا کرتی تھی اور اب بہن کے لیے تم دشمن بنے بیٹھے ہو ۔۔۔”
بی جان نے روتے ہوئے غصے سے کہا ۔۔۔
رحمان خان ان سب کی وجہ سے غصے سے گھر سے نکل گیا ۔۔۔۔
##########
کچھ وقت گزرا تھا کہ اچانک مانو کی کال آنا شروع ہوگی ۔۔۔
” بابا وہ رامین ۔۔۔ پتا نہیں کون لوگ اٹھا کر لے گئے ۔۔۔۔آپ جلدی آجائیں پلیز مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔”
مانو نے روتے ہوئے کہا ۔۔۔
ارشد خان نے پریشانی سے آس پاس دیکھا۔۔۔
اور پھر راحیلہ کو آہستہ سے بتایا ۔۔۔۔
“ابتسام تم مانو کے پاس جلدی جاؤ۔۔۔ رامین کو کوئی لوگ اٹھا کر لے گئے ہیں ایسا مانو کہہ رہی ہے۔۔۔ تم جلدی سے اس کے پاس جاؤ ۔۔۔۔میں اور تمہارے ماموں بھی جلدی سے وہاں پر پہنچ رہے ہیں۔۔۔”
راحیلہ بیگم نے ابتسام کو کال کرکے کہا۔۔۔
تامی سنتے ہی پریشان ہوگیا اور جلدی سے
کسی کو فون کرنے لگ گیا ۔۔۔
#########
” مانم !!!
میں تم سے پوچھ رہا ہوں اور رامین کہاں ہے ؟؟”
رومان نے غصے سے مانو سے پوچھا ۔۔۔
مانو مسلسل روۓ جا رہی تھی . ۔
” رومان پتہ نہیں ہم دونوں یہاں گراؤنڈ میں بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔
اچانک گارڈ نے آکر بتایا کہ رامین بی بی سے کوئی ملنے کے لئے باہر آیا ہے ۔۔۔
رامین اٹھ کر باہر کی طرف چل دی۔۔۔ میں ابھی اپنی کتابیں اٹھا کر اس کے پیچھے جا رہی تھی کہ اچانک ایک گاڑی میں کچھ افراد آئے۔۔۔ اور انہوں نے رامے کو کھینچ کر گاڑی میں ڈال لیا۔۔۔۔”
مانو روتے ہوئے سارا قصہ رومان کو بتایا۔۔۔
رومان سنتے ہیں غصہ میں آ گیا ۔۔۔
” اس شخص کی اتنی ہمت۔۔۔ رآمین کو کڈنیپ کرلیا ۔۔۔
اب نہیں بچے گا وہ شخص بہت دیکھ لیا۔۔۔ ”
رومان عباس غصہ سے مٹھیاں بھینچے ہوئے باہر کی طرف نکل گیا ۔۔۔
#########
” مانم ۔۔۔
یار چپ ہو جاؤ۔۔۔
میں ہوں تمہارے ساتھ اور میں مجھ پر بھروسہ ہے نہ تمہیں کچھ نہیں ہونے دونگا رامین کو ۔۔۔”
ابتسام مانو کے پاس بیٹھا ہوں اس سے چپ کروا رہا تھا ۔۔۔
جو مسلسل رونے کی وجہ سے نڈھال ہوئی پڑی تھی ۔۔۔۔
ابتسام کے آنے پر اسے تھوڑی تسلی ہوئی تھی ۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...