بیا ۔۔
بابا جان ۔۔۔بیا رمیز شاہ کے گلے لگ گئی
ارے بیٹا کیوں رو رہی ہو صنم ٹھیک ہوجاے گئی
بابا جان ۔مجھے ڈر لگ رہا ہے
کیوں میرے بچے
بیا نے آنسو صاف کئے
اور الماری سے شاپر میں لیپٹا چاقو نکالا جس پر ابھی بھی خون کے دھبے موجود تھے
رمیز علی شاہ ایک دم پریشان ہوے
اور دروازہ جلدی سے بند کیا
یہ سب کیا ہے بیا
بابا جان صنم کے ساتھ جب حادثہ ہوا تھا تب اس رات کی صبح میرے کمرے میں موجود تھا
لیکن بابا جان میں نے کچھ نہیں کیا
پر مجھے پھر بھی بہت ڈر لگ رہا ہے
بیا جب تم نے کچھ کیا ھی نہیں تو ڈر کیسا ؟؟
تمیں چاہیے تھا اسی وقت سب کو بتا دیتی
پر بابا جان اگر کسی نے مجھ پر یقین نہ کیا تو ؟
مجھے غلط سمجھا تو پھر ؟؟
رمیز علی شاہ نے بیا کو بیڈ کی سائیڈ پر بیٹھایا
دیکھوں میرے بچے
جو تمارے اپنے ہیں وه کبھی بھی تم پر شک نہیں کر سکتے
اور جو شک کرے تو سمجو ان کو تم پر کبھی یقین نہیں تھا
تو پھر کیا ڈرنا
کیا پریشانی
بیا تم اپنے بابا کا مضبوط سہارا ہو
تم میرا مان ہو مجھے یقین ہے تم کبھی غلط نہیں کر سکتی
اور میں ھر حالت میں تمارے ساتھ ہوں
یہ بات ریان کو خود بتا دو بجاے کوئی اور بتاۓ
جب کوئی اور بتاتا ہے تب شک کی سوئی ضرور اٹک جاتی ہے اس لئے تم خود بتاؤ
بیا کا بوجھ ہلکا ہوا اسے سمجھ اگیا تھا کہ اب کیا کرنا ہے ؟
رات کے کھانے کے بعد سب اپنے اپنے کمرے میں چلے گے صباء اور عابد علی شاہ اور عباس صنم کے پاس رک گے تھے صنم کی حالت میں کوئی فرق نہیں آیا تھا جب کہ بلڈ بھی لگ چکا تھا ۔۔
ریان نے بیا سے بات کرنی تھی
دل ڈر بھی رہا تھا
اس لئے اس میں ہمّت نہیں ہو پارہی تھی ۔
کھانے کے ٹیبل پر اب عمر ۔۔بیا ۔۔ریان ۔۔ماہم اور وش موجود تھے
ماہم اور عمر ہلکے ہلکے بس پلیٹ میں چمچ چلا رہے تھے
وش کھانے میں مگن تھی
بیا کی نظر بار بار ریان پر جہ رہی تھی اسے بات کرنی تھی سب بتانا تھا ۔۔۔
ریان دور سوچو میں گھم تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریان کیا تمیں شوق تھا اے سی پی بننے کا فضول لگتا ہے مجھے بس کیس چور جیل اف
صنم منہ بند کرو اپنا ۔۔
اچھا بتاؤ تو کچھ اور بھی بن سکتے تھے
میں ظلم کے خلاف لڑوں
انصاف کروں کسی کی شاید یہ خوائش تھی ریان نے ٹی وی میں مگن جواب دینے لگا ۔۔
اچھا کس کی ؟؟
تمیں کیوں بتاؤ اب جاؤ یہاں سے میرا دماغ خراب مت کرو
ارے ۔۔بیا تم اؤ نہ۔۔۔
صنم ایک دم کھڑی ہوئی تو ریان بھی ہربڑا کر پیچھے دیکھا
تو کوئی نہیں تھا
صنم بے تہا شہ ہسنی
صنم مرو گئی تم اب
ہاہاہا ریان تم اسے اپنے دل کی بات کب بتاؤ گے
کہو تو میں بتا دوں
نہیں نہیں میں خود ھی یہ کام کر لو گا بہت بہت شکریہ اپکا
ریان مسکرانے لگا خیالوں سے نکل آیا تو نظر بیا پر پڑی
بیا پلیز بتاؤ مجھے جیسی بھی بات ہے مجھ پر بھروسہ کرو
ریان نے یہ سب اپنے دل میں کہا
ایک واحد بیا ھی تھی جس کے سامنے ریان خاموش رہتا تھا ۔۔
ریان اٹھنے لگا
تو بیا نے دیکھا
ریان ۔۔۔
بات سنیے
ریان کا دل بے قابو ہونے لگا
ہاں بولو بیا
مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے کیا کر سکتی ہوں
ریان اور بیا کی بات بہت کم ہوتی تھی کبھی کبھی ایک دو منٹ بس…
بلکل بیا کہو
یہاں نہیں ۔۔بیا نے ہچکا ہٹ سے کہا ۔۔
ہمم اوکے اؤ ۔۔ریان کہہ کر اگے چل پڑا
بیا سر ہلا کر پیچھے چل پڑی
رات کی ٹھنڈی ہوائیں
نکلتا ہوا چاند
اڑتی ہوئی بیا کی زلفیں جیسے بار بار کان کے پیچھے کر رہی تھی
ریان دونوں ہاتھ پینٹ کی جیب میں ڈالے بیا کو دیکھ رہا تھا اگر صنم اس وقت پاس ہوتی تو ریان کا برا حال کر دیتی
بیا بولو
ریان مجھے نہیں پتا آپ میرا بھروسہ کرے گے یا نہیں پر میں ہمیشہ سچ بولتی ہوں
مجھے نہیں معلوم آپ کو مجھ پر کتنا اعتبار ہے ؟
ریان کے لئے یہ الفاظ کسی تکلیف سے کم نہیں تھے
اسکی ایک طرفہ محبّت کا امتحان شروع ہو چکا تھا
وه کہنا چاہتا تھا کے بیا مجھے بس تم پر ھی تو اعتبار ہے پر زبان ساتھ نہیں دے رہی تھی
بیا صاف صاف کہو کیا بات ہے ؟
ریان میرے کمرے میں چاقو ہے مجھے نہیں پتا اس پر کس کا خون ہے
ریان جو اکڑو کھڑا تھا ایک دم سے جسم ڈھیلا کیا
چاقو ۔۔۔خون کیا بول رہی ہو تم بیا ؟
بیا نے اپنے آپ کو مضبوط کیا
ہاں ریان یہ مجھے صنم کے ساتھ جس دن حادثہ ہوا اسکی صبح ملا
بیا نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری
تمارا دماغ خراب ہے بیا تم نے اس دن کیوں نہیں بتایا
ڈر گئی تھی
بیا کا ظرف ٹوٹا اور آنکھیں بھر آئی
ریان مجھے ان سب کے بارے میں نہیں پتا
سچ میں
اوکے اوکے تم رونا بند کرو اور کوئی بھی بات ہو مجھے ضرور بتانا تم ۔۔
ریان کو بیا پر افسوس ہوا
آپ مجھ پر بھروسہ کرتے ہیں ؟
بیا نے بھری ہوئی آنکھوں سے ریان کو دیکھا
ریان کا دل کیا بیا کو گلے لگا لے اور سارے آنسو اپنے اندر جذب کر لے
ہاں بیا مجھے تم پر بھروسہ ہے تم مجھے وه چاقو دے دو
جی ٹھیک ہے آپ آے میرے ساتھ
بیا چلنے لگی
سنو بیا ۔۔
بیا پلٹی
جی
تم صنم کے کمرے میں آخری بار گئی تھی نہ
بیا ایک دم چونک گئی
مطلب
مطلب تماری آخری بار اسکے کمرے میں کیا بات ہوئی تھی
ریان کی نظریں بیا پر جمی تھی
ہاں گئی تھی
کچھ بھی بات نہیں ہوئی تھی صنم سو رھی تھی
تو مجھے ماہم نے اندر جانے نہیں دیا تھا کیوں کہ اس نے دوائی دے کر سلایا تھا صنم کا سر دکھ رہا تھا اس لئے
پر میں نے پھر بھی ایک بار صنم کو دیکھنے کا کہا کیوں کہ مجھے ٹینشن ہورہی تھی
پھر میں نے صنم کو جگانا مناسب نہیں سمجھا اور اسکے اوپر لحاف اوڑھا دیا اور چلی گئی
ریان بیا کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا
ماہم اور بیا کے دونوں بیان میں فرق تھا ۔۔
میں جاؤ ریان
ہمم جاؤ تم
چاقو لے کر انعم کی لیب میں بجوا دیا تھا
اب انعم کی کال کا انتظار تھا بس
ریان کا موبائل بجا
سر ۔۔۔
ہاں انعم
سر چاقو پر جو خون تھا وه صنم کا ھی ہے
اور چاقو پر جو فنگر پرنٹس کے نشان ہے
وه میچ کر گے ہے سر
واٹ ؟؟ کس سے ؟؟
سر ۔۔جو ہمیں صنم کے روم سے ملے تھے ان سے
ان تینوں میں سے ایک لڑکی کے فنگر پرنٹس سے میچ ہوے ہیں
ریان نے آنکھیں بند کر کے کھولی
ریان ۔۔۔چاۓ پیو گے ماہم نے کپ بڑھایا
ہاں رکھ دو اور مجھے اکیلا چھوڑ دو تھوڑی دیر تک ماہم
اوکے ریان کوئی ٹینشن ہے تو بتاؤ
نہیں ماہم اٹس فائن
ہمم اوکے
ماہم چلی گئی
ریان اپنے روم میں کرسی پر سر گراے لیٹ گیا
اب اسے اپنوں کے خلاف شاید لڑنا تھا
جس کے لئے اسے بہت ہمت کی ضرورت تھی
تھوڑی دیر بعد اٹھا
اور گلفز نکالے
ہاتھوں پر چڑھاے
اور کپ اٹھایا
چاۓ واشروم میں گرائی
اور کپ کو ایک شاپر میں رکھا اور کوٹ اٹھایا اور چابی اٹھائی
باہر تیزی سے نکلا
کار اسٹارٹ کی
انعم کی لیب کے سامنے روکی
سر آپ ؟؟؟
ریان نے کپ ٹیبل پر رکھا
انعم چک کرو
یہ فنگر پرنٹس میچ ہوتے ہیں ؟
ریان کی دعا تھی کہ میچ نہ ہو
ایک گھنٹے بعد
سر
ہاں انعم بولو
انعم نے تین خاکے بناے ہوے تھے
تینوں میں سوالیہ نشان تھا
درمیان والے میں چاقو کا نشان بنایا ہوا تھا
سر
میچ ہوے ہیں نشان
ریان کو جھٹکا لگا
سر صنم کے تکیے پر جو فنگر پرنٹس تھے وہی اس کپ پر تھے
مطلب ماہم کے ۔۔۔ریان نے کہا
انعم کی تیسرے نمبر پر جو خاکہ بنایا تھا اس پر ماہم لکھا ۔۔
چاقو پر کسی اور کے ہے سر ۔۔
ریان وہاں سے نکل گیا
ماہم نے تو کہا تھا وه اندر گئی ھی نہیں تھی صنم کے روم میں تو پھر یہ سب ؟؟؟
ماہم چھپا رہی ہے پر کیوں ؟؟؟
ریان بے وجہ کار سڑک پر بھگارہا تھا