بی جان زرینہ اور شازمہ بیگم کے ساتھ ہسپتال پہنچی ۔۔۔ ہسپتال کی راہ داری میں ہی زوالقرنین صاحب ان کو ملے جو ان کے ہی انتظار میں کھڑے تھے
"السلام علیکم !” زوالقرنین صاحب بولے ۔۔
"وعلیکم السلام ! اب کسی طبیعت ہے ۔۔ ریاض صاحب کی.”. بی جان نے ان سے دریافت کیا
"اب کافی بہتر ہے ۔شام تک ڈسچارج ہو جائیں گے آئیں میرے ساتھ ۔ان کے روم میں ہی چلتے ہیں "۔ وہ ان کے سوال کے جواب میں بولے
وہ لو گ روم میں داخل ہوۓ تو سمیہ بیگم جو ریاض صاحب کے بیڈ کے پاس بیٹھیں تھیں سلام کرتے اٹھ کھڑیں ہوئیں ۔۔ہانیہ نے بھی آگے بڑھ کر سلام کیا
"اب کیسی طبیعت ہے بیٹا "۔۔وہ ریاض صاحب سے مخاطب ہوئیں
"اب کافی بہتر ہے ۔۔” ریاض صاحب نے جواب دیا
"ڈسچارج کب تک کریں گے "۔۔ زرینہ بیگم نے سمیہ بیگم سے دریافت کیا
"آج شام تک ۔”۔ وہ کیٹل میں چائے کے لئے پانی رکھتے ہوۓ بولیں جبکہ ہانیہ کپ وغیرہ رکھ رہی تھی
"میرا خیال ہے کے نکاح کی تاریخ کو آگے کر دینا چاہیے ۔” بی جان ان لوگوں سے مخاطب ہوئیں
"نہیں ۔۔میں اور سمیہ ہم لوگ نہیں چاہتے کے نکاح آگے ہو” ۔ریاض صاحب بولے ۔۔
"لیکن !آپ کی طبیعت "۔۔ شازمہ بیگم بولیں
"اس طبیعت کی وجہ سے ہی تو کہہ رہا ہوں ۔۔ کے اب تاخیر نہیں کرنی چاہیے "۔۔ ریاض صاحب سمیہ اور ہانیہ کو دیکھ کر بولے
"ریاض صاحب آپ بھی نہ ۔”۔ سمیہ بیگم ان کی بات سن کر بولیں ۔سب نے نفی میں سر ہلایا ۔
"ٹھیک ہے پھر پرسوں ہی نکاح ہو گا ۔”۔ تیاری ساری مکمّل ہے ۔ بی جان بولیں
تب ہی نرس اندر داخل ہوئی ۔۔” میم !!سر کو آرام کرنے دیں پھر ان کی ECG اور کچھ ٹیسٹ کروا کر ہی ڈسچارج کر سکیں گے ۔۔ ”
"شازمہ بیٹا تم نے بچے کو فون کیا ۔۔” انہوں نے شازمہ کو۔ مخاطب کر کے کہا
"جی بی جان !!وہ بس پہنچ ہی گیا ہے ۔۔”
ان کی بات سن کر ہانیہ روم سے باہر نکل آئی وہ اس وقت کسی کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی
مگر رہداری میں آتے وجدان نے اس کو دیکھ لیا تھا ۔۔
ہانیہ کو دیکھ کر اس کا دل ہمیشہ کی طرح پھڑ پھڑا یا ۔۔کل ہی تو دیکھا تھا ۔۔ آج پھر آنکھیں دیدار کی طالب تھیں ۔۔اس کے چہرے کی معصومیت آج بھی ویسے ہی اس کا دل ۔ اپنی۔ طرف کھینچ لیتی تھی ۔
ہانیہ کو جاتا دیکھ وہ ذرا سائیڈ پر ہو گیا کے کہیں اس کی نظر نہ پڑھ جائے ۔وہ دس پندرہ منٹ خود کو کمپوز کر کے اندر داخل ہوا
تو اس کی جان میں جان آئی کیونکہ ریاض صاحب سو چکے تھے ۔
"السلام علیکم ! آنٹی ۔” اس نے سمیہ بیگم کو دیکھ کر کہا
"وعلیکم السلام ! ماشاءالله ۔”۔ سمیہ بیگم نے وجدان کو دیکھ کر کہا اور دل میں ہانیہ کی خوشی دعا بھی کی ۔۔
"آؤ بچے بیٹھو” ۔۔وہ پرائیویٹ روم میں لگے بلیک رنگ کے صوفے کی طرف اشارہ کر کے بولیں
"اب طیبعت کیسی ہے انکل کی ۔”۔۔ اس نے صوفے پر بیٹھتے ہوۓ ۔۔ ریاض صاحب کی زرد رنگت دیکھتے ہوۓ کہا
"اب تو کافی بہتر ہے” ۔۔انہوں نے وجدان کی بات کا جواب دیا
"ڈاکٹرز کیا کہتے ہیں؟زیادہ خطرے کی بات تو نہیں ۔۔ان کے سارے والو ز (valves) ٹھیک ہیں ؟ "وجدان نے پوچھا
نہیں !!”angiography کی ہے کوئی خطرے کی بات نہیں ہے ۔۔ بس بلڈ پریشر ہائی ہونے کی وجہ سے طبیعت خراب ہو گئی "۔۔ سمیہ بیگم نے بتایا
"چلیں ٹھیک ہے پھر ہم لوگ چلتے ہیں "۔بی جان یہ کہہ کر اٹھ کھڑی ہوئیں
"آپ کا بہت شکریہ کے آپ لوگ آئے ۔۔ گھر میں ہوتے تو آپ کو کھانے کے بغیر جانے نا دیتی ۔”سمیہ بیگم کہتے ہوۓاٹھ کھڑی ہوئیں اور ان لوگوں کو دروازے کے باہر تک چھوڑ کر واپس آ گئیں ۔
وہ لوگ باہر آئے تو وجدان نے ایک نظر ادھر ادھر دیکھا پھر گاڑی میں بیٹھ گیا ۔۔سب کے بیٹھنے کے بعد گاڑی اپنی منزل کی طرف رواں دوں تھی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماضی ۔تین سال پہلے
آسمان پر بادلوں کا گھیرا تھا ۔۔ کبھی چاند بادلوں میں چھپ جاتا ۔۔کبھی روشنی پھیلانے لگتا ۔
ز یک ، میلوڈی اور وجدان ایک ریسٹورانٹ میں۔ بیٹھے تھے ۔۔ جس میں کالے رنگ کے صوفے تھے اور بلیک ووڈ کا ہی بنا ھو ا چکور میز تھا ۔۔ جس پر گلدان پڑا تھا ۔۔
میلو ڈی بھی کچھ دن پہلے کے واقعے سے سمبھل چکی تھی کہ کسی ایسے انسان کے لئے خود کو کیا ذلیل اور غم زدہ کرنا ۔۔جس کو ان جذبات کی قدر بھی نہ ہو
"میلوڈی ہانیہ تمہاری بات سن لے گی تم ساتھ چلو گی تو وہ بھی لائٹ فیسٹیول میں آئی گی "۔۔ وجدان کو بھی محبّت کے پیچھے کیا کیا کرنا پڑھ رہا تھا ۔
"دیکھو !!!تم لوگ ایک تو میرا دل ہی نہیں کر رہا کسی پارٹی میں جانے کو اور تم لوگ مجھے لائٹ فیسٹیول کا کہہ رہے ہو ۔۔ اگر میں۔ چلی بھی جاؤں تو ہانیہ کو ماننا بہت مشکل ہے وہ بھی اتنی رات کو وہ نہیں مانے گی ۔۔” میلو ڈی نے بیز ار یت سے جواب دے
"آپ کوشش تو کرو ۔۔8 بجے سے پہلے پہلے ہی گھر بھیج دیں گے اس کو ۔”۔ وجدان بولا پھر زیک کی طرف دیکھ جو اس تمام صورت حل سے محضوظ ہو رہا تھا
"تم کس خوشی سے مسکرا رہے ہو جو میری مدد نہ کی تو تمہارے بھی راز ادھر ہی فاش کر دوں گا ۔۔ "ایک نظر اس کو دیکھ کر میلوڈی کی طرف دیکھا
جس پر زیک ایک دم سے سیدھا بیٹھا اور بولا ۔ "ہاں میلو ڈی تمھیں کوشش تو کرنی چاہیے "۔۔۔
"ٹھیک ۔میں کوشش کر کے دیکھتی ہوں ۔”وہ ان دونون کو دیکھ کر بو لی پھر فون پر ہانیہ نمبر ملایا
"ہیلو "۔۔ ہانیہ کی آواز پر میلو ڈی نے پھر سے ان کو دیکھا ۔
"وہ ہانیہ میں میلو ڈی بات کررہی ہوں ۔۔”
"ہاں میرے پاس نمبر ہے تمہارا ۔اب کیسی ہو ؟”۔ہانیہ نے پوچھا
"اب ٹھیک ہوں میں ۔وہ دراصل ۔میں ذرا اس ماحول سے نکلنا چاہتی ہوں تو سوچ رہی ہوں کے کل شام کو لائٹ فیسٹیول ہے ۔تو کیوں نہ تمہارے ساتھ چلی جاؤں ۔۔تم۔ تو میرا حال جانتی ہی ہو ”
"ہمممم ۔۔میں کوشش کرتی ہوں ۔۔میں بابا سے پوچھ کے ہی بتا سکتی ہوں ۔۔میں تھوڑی دیر میں فون کرتی ہوں ۔اوکے” ۔۔ ہانیہ نے یہ کہ کر فون بند کر دیا
وجدان منتظر نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا ۔۔
"ہانیہ کچھ دیر میں فون کرے گی انتظار کریں "۔ میلو ڈی نے اپنی پونی ٹیل ٹھیک کرتے ہوۓ کہا
ان سب نے کافی آرڈر کی اور انتظار میں بیٹھ گئے ۔۔
تکریبن پندرہ منٹ کے بعد ہانیہ کی کال آئی ۔
"ہیلو ۔۔میلوڈی ۔۔۔پاپا مان گئے ہیں پر آٹھ بجے تک گھر واپس آنا ہے اور وہ بھی تمہارے ساتھ ۔”۔۔ ہانیہ نے مطلع کیا
"ٹھیک پھر کل۔ ملتے ہے پھر کل ملتے ہیں ۔میلو ڈی نے یہ کہ کر فون بند کر دیا
"وہ کل آ رہی ہے ۔۔ اب کام ہو گیا ہے تو کھانا ہی کھلا دو” ۔ وجدان نے اس کی بات سن کر کھانا آرڈر کیا اور وہ لوگ کھانے کا انتظار کرنے لگے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دسمبر میں ہونے والے لائٹ فیسٹیول نے لندن کے روشنیاں اور بڑھا ڈی تھیں ۔۔اونچی عمارتوں پر تھری ڈی (3D) روشنیاں fantasy ورلڈ کے مناظر پیش کر رہی تھیں ۔۔
برقی قمقموں نے ماحول کو محسور گن بنا دیا تھا
وجدان کی گاڑی آ کر رکی ۔۔وجدان ہمیشہ کی طرح ہڈ پہنے ہوۓ تھا ۔۔ہانیہ نے جینز پر گھٹنو ں تک آتی پر پل رنگ کی قمیض پہنی تھی جس کے اوپر بلیک لونگ کوٹ تھا ۔۔میلوڈی جینز اور ٹر ٹل نک سویٹر میں تھی جبکہ زیک بھی وجدان کے جیسے ہڈ پہنے ہوۓ تھا
"واہ !!!کتنا خوبصورت لگ رہا ہے نہ ۔”۔ہانیہ۔ نے گاڑی سے نکلتے ہوۓ کہا
"ہاں یار !!واقعی ہی "۔۔میلوڈی نے بھی اس کی تا ئید کی
سب لوگ باہر نکلے تو سائیڈ واک پر چلتے ہوۓ آس پاس کے مناظر دیکھنے لگے
"میلو ڈی وہ دیکھو "۔ہانیہ نے ایک عمارت کی طرف اشارہ کیا جس پر تھری ڈی لائٹ کی وجہ سے ایک ڈریگن اڑ رہا تھا ۔
ہانیہ کو اکسئڈڈ دیکھ کر وجدان مسکرایا ۔۔جبکہ ان سب کو۔ مسکراتا دیکھ ہانیہ شرمندہ سی ہو گئی
"وجدان ۔۔”اس آواز پر سب نے مڑ دیکھا تو ا ایمان جینز اور سویٹر پہنے ہوۓ اس طرف ہی آ رہی تھی اور اس کے ساتھ اس کی کوئی انگریز دوست ۔۔جس ایمان جیسے ہی ڈریسنگ کی۔ ہوئی تھی ۔مگر چہرہ مزنوی لگ رہا تھا ۔۔شاید پلاسٹک سرجری تھی یا انجکشن وغیرہ لگوائے گئے تھے ۔۔بال ریڈ سے رنگ کے تھے ۔۔
"ہیلو تم لوگ بھی آئے ہو میں بھی یہاں ذرا انجوئے کرنے آئی تھی گھر میں بور ہی ہو گئی تھی ۔۔اور ہاں یہ میری دوست جیسیکا ( jessica) ہے ۔اور جیس یہ میرا دوست وجدان ہے "۔۔ایمان نے سب کہتے ہوۓ جیس کا تعا رف بھی کروا دیا ۔جبکہ جیس صاحبہ وجدان کو ستائشی نظروں سے دیکھنے میں مشغول تھیں ۔۔ہانیہ ان کو دیکھ کر مسکرائی اور چہرہ پھر اس ڈریگن والی دیوار کی طرف موڑ دیا ۔۔جہاں ڈریگن کو آگ اگلتا دیکھا جا سکتا تھا ۔۔ "جو میں آگ اگل سکتی ۔۔تو شاید یہ دونوں نہ جل کر بھسم ہو چکی ہوتیں شاید نہیں یقیناً ۔۔”۔اس نے مسکرا کر سوچا اور پھر سے ایمان اور جیس کی طرف دیکھا اور آگے بڑھ گئی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...