باصر کاظمی(لندن)
کہاں ملے گا وہ مجھ سے اگر یہاں بھی رہے
مری دعا ہے کہ وہ خوش رہے جہاں بھی رہے
دلِ خراب یہ خواہش تری عجب ہے کہ وہ
ستم بھی کم نہ کرے اور مہرباں بھی رہے
ابھی زمین پہ جنت نہیں بنی یارو
جہاں کے قصے سناتے ہو ہم وہاں بھی رہے
رہا ہمیشہ ہی سامان مختصر اپنا
مسافروں کی طرح ہم رہے جہاں بھی رہے
جو ساتھ چلنے کے بھی مستحق نہ تھے باصرؔ
کچھ ایسے لوگ یہاں میرِ کارواں بھی رہے
**
باصر کاظمی
بادل ہے اور پھول کھلے ہیں سبھی طرف
کہتا ہے دل کہ آج نکل جا کسی طرف
تیور بہت خراب تھے سنتے ہیں کل ترے
اچھا ہواکہ ہم نے نہ دیکھا تری طرف
جب بھی ملے ہم ان سے انہوں نے یہی کہا
بس آج آنے والے تھے ہم آپکی طرف
اے دل یہ دھڑکنیں تری معمول کی نہیں
لگتا ہے آ راہ ہے وہ فتنہ اسی طرف
خوش تھا کہ چار نیکیاں ہیں جمع اسکے پاس
نکلے گناہ بیسیوں اُلٹا مری طرف
باصرؔ عدو سے ہم تو یونہی بد گماں رہے
تھا ان کا التفات کسی اور ہی طرف