بھوکے رہنے کی وجہ سے حنا کو نقاہت محسوس ھو رہی تھی ۔ اس کا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا ۔ وہ اٹھ کر کمرے سے باہر جھانکنے لگی کہ کہیں جبار باہر نہ ہو ۔ لیکن حنا کا چہرہ دیکھ کر وہ گھر سے باہر چلا گیا تھا ۔ اسے اس پر شدید غصہ آیا تھا لیکن اسکی حالت دیکھ کر اس نے حنا کو کچھ نہ کہا ۔ وہ باہر سڑک پر بے جا اِدھر اُدھر گاڑی گھما رہا تھا ۔
جب حنا کو تسلی ہوگئ کہ وہ وہاں نہیں ہے تو اسنے کچن ڈھونڈنا شروع کر دیا ۔ لیکن اسے زیادہ دیر نہ لگی ۔ کیونکہ جبار نے اسے جہاں قید کیا تھا یہ گھر اتنا بڑا بھی نہیں تھا ۔ جب اسے کچن میں بھی کوئی نظر نہ آیا تواس نے فریج کھول کر اس میں سے دودھ نکالا ۔ اور چائے بنانے کے لئے باقی اجزاء ڈھونڈنے لگی ۔ آخر کار تھوڑی سی محنت کے بعد وہ چائے تیار کر چکی تھی ۔ ابھی وہ کپ میں چائے انڈیلنے ہی لگی تھی کہ باہر سے آنے والے شخص نے اسے اپنے لئے بھی چائے بنانے کو کہا ۔ اسے دیکھ کر حنا کا رنگ فق ہو گیا ۔ لیکن جبار کے چہرے پر کوئی تاثر نہ دیکھ کر اس کی جان میں جان آئی ۔ وہ اب اس کے لئے چائے بنا رہی تھی ۔ جبکہ جبار اس کا چہرہ دیکھتا رہا ۔
میں چھوٹا سا تھا جب میرے ماں باپ اس بے رحم دنیا میں مجھے تنہا چھوڑ کر چلے گئے۔
اس نے سرد آہ بھر کر اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔
حنا اس کے بدلے ھوئے روئیے پہ حیران تھی ۔
میرے رشتےداروں نے مجھے اپنانے سے انکار کر دیا ۔ کیونکہ میرے نصیب تمہارے جیسے نہیں تھے ۔ میرے پاس دولت نہیں تھی جو کوئی مجھے پالنے پر رضامند ہوتا ۔
حنا اسے ٹوکنا چاہتی تھی لیکن وہ اس کی طبیعت سے واقف تھی اس لئے چپ رہی ۔
مجھے دو دو دن بعد کھانے کو کچھ ملتا تھا ۔ سارا سارا دن سڑکوں پر آوارہ گردیاں کرتا رہتا۔ میرا گھر بھی مجھ سے چھین لیا گیا ۔ میں لوگوں کے رحم و کرم پر پڑا رہتا ۔ پھر آہستہ آہستہ میں نے چھوٹی موٹی چوری شروع کر دی لوگوں کی جیبیں کاٹنے لگا۔
ہونہہ ۔۔ تو مجھے کیوں بتا رہے ہو یہ سب اس نے ناک چڑھاتے ہوئے دل میں سوچا۔۔
جب جیب میں پیسے آنے لگے تو دولت کی اہمیت کا احساس ھوا ۔ اور ساتھ ہی لالچ کی آگ بھی جل اٹھی۔ ۔ دو تین دوست بن گئے پھر مل کر ڈکیتی کرنا شروع کی۔ پہلی ڈکیتی پر ہی پکڑا گیا ۔ خود کو بچاتے بچاتے میرے ہاتھوں ایک قتل بھی ہو گیا ۔
حنا چائے ڈال چکی تھی ۔ ۔ اس نے ایک کپ جبار کی طرف بڑھا دیا۔ ۔
جبار نے بات کرتے کرتے چائے کی ایک چسکی لی ۔ ۔ اور اپنی بات کو جاری رکھا۔ ۔
حنا چائے کی چھوٹی چھوٹی چسکیاں لیتے ھوئے اس کی بات کو بڑے انہماک سے سن رہی تھی ۔
مجھ سے پہلا قتل جب ھوا میری عمر صرف پندرہ سال تھی۔ میں وہاں سے بھاگ گیا ۔ لیکن میرے ھاتھوں مارا جانے والا بھی ایک پیشہ ور مجرم تھا ۔ اس کے مخالفین نے میرے ہاتھوں اس کی موت کا سن کے مجھے ڈھونڈا اور اپنے ساتھ کام کرنے کی آفر کی جو میں نے قبول کی ۔ ۔ تب سے اب تک میں نہ جانے کتنے لوگوں کا خون بہا چکا ہوں ۔ ۔ ۔
اس کی چائے ٹھنڈی ہو چکی تھی جبکہ حنا اپنی چائے ختم کر چکی تھی ۔ اس نے اپنی بات کو ختم کرتے ہوئے یکلخت اپنا لہجہ بدلا ۔ ۔ ۔
یہ سب تمہیں اس وجہ سے نہیں بتایا کہ تم مجھ سے ہمدردی کرو ۔
اس کی آواز میں وہی کرختگی اور بے حسی تھی ۔
مجھے تمہاری جان لیتے ہوئے بھی وقت نہیں لگے گا ۔ ۔ اس کے ہاتھ میں چاقو تھا جو اس نے حنا کی گردن پر رکھتے ہوئے کہا ۔ ۔
حنا کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ ۔
شششش ۔۔خاموش۔ ۔۔ مجھے رونا دھونا پسند نہیں ۔اپنے آنسو صاف کرو۔
جبار نے اس کے ہونٹوں پر چاقو رکھتے ہوئے کہا ۔
حنا نے اپنا سانس کھینچتے ہوئے اپنے آنسو صاف کئے ۔
آج تمہیں کچن میں دیکھ کر اچھا لگا ۔ میں تمہیں اپنی بیوی کا حق دینا چاہتا تھا۔ لیکن تم نے مجھے یہ سب کرنے پر مجبور کیا۔ ۔ ۔
اس نے چاقو حنا کی آنکھ کے نیچے اس کی گال پر موجود نشان پر لاتے ہوئے کہا ۔ جو حنا کے اپنے ناخنوں سے لگے ایک زخم کا تھا ۔
تم نے کیا سوچ کر اپنا چہرہ خراب کیا؟؟؟
اس نے چاقو پر دباؤ ڈالا جس کی وجہ سے وہاں سے خون رسنے لگا ۔ ۔ ۔
وہ تڑپ رہی تھی ۔
اس نے چاقو پر مزید دباؤ ڈالا۔ اس کا گال خون سے
تر ہو گیا تھا ۔ ۔ ۔
یہ نشان تمہیں جبار کے خلاف جانے کا انجام یاد دلاتا رہے گا ۔ ۔ ۔
وہ ایک دم سے پیچھے ہٹا اور وہاں سے چلا گیا ۔
اور حنا وہاں بیٹھی اپنی قسمت پہ ماتم کرتی رہ گئ۔ اس کے زخم سے نکلنے والہ خون اس کی گردن پہ بہہ رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔
________________
تمہاری ہی طرح ایک خوبصورت شہزادی تھی ۔ جو اپنے پاپا سے بہت پیار کرتی تھی لیکن اس کے پاپا اسے پیار نہیں کرتے تھے ۔ تمہارے پاپا کی طرح ۔۔۔۔۔۔۔
زینت نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا !
“میرے پاپا ایسے نہیں وہ مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں ۔”
اس عورت نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے اسے خاموش رہنے کو کہا اور سرد آہ بھر کر دوبارہ اپنی کہانی کا آغاز کیا۔
ایک دن وہ اپنی بیٹی کا گلہ چاقو سے کاٹنے لگے تھے ۔ لیکن ان کی نوکرانی نے دیکھ لیا اور اسے بچاتے بچاتے اس کے منہ پر چاقو لگ گیا لیکن پھر بھی وہ اس شہزادی کو بچا کر اس کے پاپا سے دور لے آئی ۔ اس شہزادی کے پاپا اس کو ملنے آتے رہے کیونکہ وہ اس شہزادی کو مار کر اس کا محل اور اس کی سلطنت حاصل کرنا چاہتے تھے ۔
وہ بچی سہم سی گئ تھی ۔ اس کے دل میں کئ سوالات جنم لے رہے تھے ۔ جبکہ وہ عورت اپنے چہرے کے نشان کو چھو کر کہیں دور خیالوں میں گم تھی ۔ اور اس کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی تھی ۔۔۔
اس کے لئے اب وہاں مزید بیٹھنا مشکل ہو رہا تھا تو وہ پوری کہانی سنے بغیر وہاں سے اٹھ کر چل دی ۔
جبکہ اس عورت کے چہرے پر خوشی اور غم کے ملے جلے آثار نظر آ رہے تھے ۔ ۔
زینت اپنے کمرے میں بیٹھی اپنے پاپا کے بارے میں۔ سوچ رہی تھی ۔
آخر کیوں وہ اسے اپنے پاس نہیں رکھتے تھے ؟؟
کیوں انہوں نے اسے خود سے الگ رکھا ہوا تھا ؟؟
کیوں وہ اسے اس کی ماما کے بارے میں کچھ نہیں بتاتے تھے ؟؟؟
آج اس عورت کی اس کہانی نے اس معصوم کو سوچنے پر مجبور کر دیا تھا ۔اس کے دماغ میں اپنے پاپا کے بارے میں منفی خیالات پیدا ھو رہے تھے ۔ وہ اسے اس کے پاپا کے خلاف کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہو چکی تھی ۔ کیونکہ وہ اس کے دل میں شک کا بیج بو چکی تھی ۔ بچے تو ویسے بھی معصوم ہوتے ہیں انہیں اس عمر میں جو بات سمجھاؤ وہ ان کے ذہن میں تاعمر رہتی ہے۔
لیکن وہ عورت کئ سالوں سے بدلے کی آگ میں جھلس رہی تھی ۔ انتقام نے اسے اندھا کر دیا تھا ۔ اسے صحیح غلط کی تمیز بھول چکی تھی ۔ وہ تو بس جبار کو تڑپتا ہوا دیکھنا چاہتی تھی ۔ وہ اس کی بیٹی کو اس کے خلاف استعمال کرنا چاہتی تھی ۔ لیکن وہ بھول رہی تھی کہ زینت اس کی بھی بیٹی ہے ۔ جبار اس سے کِیا وعدہ نبھا رہا تھا ۔ اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگت رہا تھا۔ جبکہ وہ اسے معاف نہیں کرنا چاہتی تھی اس سے بدلہ لینا چاہتی تھی ۔ ۔ ۔ اور جبار اس سے انجان اپنی بیٹی سے دوری برداشت کر رہا تھا۔ ۔ ۔
_____________________
حنا اپنے دوپٹے سے چہرے پہ لگے زخم سے بہنے والا خون روکنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن گھاؤ گہرا ہونے کی وجہ سے خون رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔
تھوڑی دیر بعد جبار ڈاکٹر کے ساتھ گھر دخل ہوا۔ اسے امید تھی کہ حنا کچن میں ہی ہو گی اس لئے اس نے ڈاکٹر کو کمرے میں بٹھایا اور اسے لینے چلا گیا۔ وہ کچن میں داخل ہوا اس نے اس کے چہرے پر اس کے دوپٹے سے دباؤ ڈالا اور اسے سہارا دے کر کمرے میں لے آیا ۔ ڈاکٹر نے اسے ہسپتال لےجانے کی تجویز دی ۔ لیکن جبار کے چہرے پہ ابھرنے والے تاثرات نے اسے چپ کروا دیا۔ ۔ کیونکہ جبار اسے ڈرا دھمکا کر گھر لایا تھا ۔ ڈاکٹر نے اس کا خون صاف کیا ۔ اور ٹانکے لگا کر دوائی دے کر چلا گیا ۔ ۔ جبار نے اسے دوائی دی اور سونے کا کہہ کر چلا گیا ۔ نشہ آور دواؤں کے اثر کی وجہ سے وہ جلد ہی نیند کی وادیوں میں کھو گئ۔
تھوڑی دیر بعد جبار کمرے میں آیا اور اس کے چہرے کو چھو کر دیکھنے لگے ۔ جبکہ وہ نیند میں تھوڑی سی کسمسائی ۔ جبار نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا اور وہیں اس کے پاس بیٹھ گیا ۔
ایک ہفتے میں اس کا زخم بھر چکا تھا ۔ لیکن اس کے دل کے گھاؤ گہرے ہوتے جا رہے تھے ۔ اس کے دل میں جبار کے لئے نفرت بھڑتی جا رہی تھی ۔
جبار نے گزشتہ ہفتے سے اس کے ساتھ کچھ بھی غلط نہیں کیا تھا۔ آج اچانک وہ کچھ کاغذ لاکر حنا کو دے رہا تھا ۔ حنا نے جب ان کاغذات کو پڑھا تو اس نے صاف انکار کر دیا۔ ۔ ۔
جںار بھڑک اٹھا ۔ ۔
آخر تم چاہتی کیا ہو؟؟؟؟ میں تم سے شادی کر کے تمہیں اپنی بیوی بنا کے عزت دینا چاہتا ھوں لیکن تم پھر انکار کر رہی ہو ۔ ۔ ۔
کیا تمہیں خود کو تکلیف پہنچانا اچھا لگتا ہے ؟؟؟
اس نے قہر آلود نظروں سے اسے دیکھ کر کہا ۔
لیکن حنا خاموش رہی ۔
اس نےحنا سے کاغذ چھین کر اچھالے اور اسے پاس پڑے صوفے پر پٹخ دیا ۔
اس نے غصے پہ قابو پاتے ھوئے اپنا لہجہ نرم کیا اور اس کا ہاتھ تھام لیا۔ ۔ دیکھو حنا ۔ ۔ ۔ سمجھنے کی کوشش کرو۔۔ تم کیوں مجبور کرتی ھو مجھے کہ میں تمہارے ساتھ برا سلوک کروں۔۔ میری بات مان جاؤ۔ ۔ تمہیں ہمیشی خوش رکھوں گا۔ ۔ لیکن حنا پہ اس کی باتوں کا کوئی اثر نہ ھوا۔ ۔
کیونکہ وہ اسے تڑپانا چاہتی تھی ۔ وہ اسے اس کی تمام غلطیوں کی سزا دینا چاہتی تھی ۔
پچھلے ایک ہفتے سے حنا نے اس کی آنکھوں میں اپنے کئے کی شرمندگی دیکھی تھی ۔
لیکن جبار کو بھی اس کی انا جھکنے نہیں دے رہی تھی۔ اسے کوئی راستہ نہ ملا تو اس نے اس کی مجبور ی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کی عزت کو تار تار کر دیا۔
حنا نے مزاحمت نہ کی کیونکہ اسے معلوم تھا کہ یہ وحشی اپنی ضرورت کو محبت کا نام دے رہا ۔
اپنی غلیظ ضرورت پوری کرنے کے بعد جبار وہاں سے چلا گیا ۔ جبکہ وہ اپنی آزادی کے بارے میں سو چ رہ تھی ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...