(Last Updated On: )
سن گلاسز آنکھوں پر لگائےکار میں سفر کرتے ہوئے وہ باہر کے مناظر دیکھ رہی تھی۔یوں لگتا کہ ان گوگلز کے پیچھے وہ دنیا سے اپنی نگاہوں کی تاریکی چھپا رہی ہو۔ آج پانچ سال بعد اسنے اس شہر میں قدم رکھا تھا جو اسکی متاع جان اس سے چھین لے گیا تھا۔لیکن اس شہر نے اس میں خوداعتمادی پیدا کی تھی۔ اسکے کرچی ہوئے وجود کو جوڑنے میں حوصلہ اسی شہر نے اس میں بیدار کیا تھا۔ سب کچھ ویسا ہی تھا ortakoy square کی وہی پر رونق فضا
Beykoz groove کے پھولوں کی مہک باسفورس برج پر کبوتروں کا اڑتا غول بدلا تھا تو صرف مرمرا کا سمندرنہ وہ لہریں اب ویسی رہیں تھی اور نہ وہ خود۔ یوں معلوم ہوتا جیسے مرمرا نہ بھی اس رات اسکے ساتھ برابر کے اشک بہائیں ہوں اور اب وہ بھی سرد پر گیا ہو
وہ آیا صوفیہ سے گزرتی ہوئ ہوٹل میں پہنچی۔کار پارک کرکے وہ زینے چڑھتی ہوئ تیسرے فلور پر پہنچی اور دی ہوئ انفورمیشن کے مطابق تیسرے کمرے میں داخل ہوئ۔”ویلکم مائے چائلڈ آو بیٹھو” وہ ان کے کہنے پر پاس پرے صوفے پر بیٹھ گئ”تو کیسا رہا سفر”انہوں نے نرمی سے پوچھا”کیا ہم ٹو دی پوائنٹ بات کر سکتے ہیں”گلاسز بیگ میں رکھتے ہوئے اسنے بیگانگی سے پوچھا” ہاں ضرور”انہوں نے اسکے قریب صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا”کیوں بلایا ہے آپ نے مجھے؟”کرسٹی نے ان سے پوچھا”تمہارے پیپرز ریڈی ہیں فلائٹ بھی میں بک کروا چکا ہوں اب میں چاہتا ہوں جلد از جلد یہاں سے روانہ ہو جاو مجھے تمہاری بہت فکر ہے کرسٹی”اس نے انکی آنکھوں میں جھانکا آیا کہ وہ سچ کہہ رہے تھے ان کی آنکھیں بلکل شفاف تھیں۔ “یہ سب میرے لیے کیوں کر رہے ہیں آپ “اس نے نگاہیں جھکاتے ہوئے پوچھا”تمہاری ماں سے کیا گیا وعدہ نبھا رہا ہوں اور آخری سانس تک نبھاوں گا جس طرح وہ مجھے عزیز تھی اسی طرح تم بھی مجھے اتنی ہی عزیز ہو”وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور وہاں سے چل دیے
رات کے اس پہر چاند کی خوبصورت روشنی ہر طرف پھیلی ہوئ تھی۔جھیل میں ماہتاب کا یہ عکس اک سماں سا برپا کر رہا تھا۔وہ دونوں چلتے ہوئے جھیل کے قریب آ بیٹھے۔ وہ کچھ دیر خاموشی سے اسے دیکھتی رہی پھر گویا ہوئ”میں یہاں سے تعلق نہیں رکھتی میرے موم ڈیڈ آوٹ آف کنٹری ہوتے تھے میں چودھا سال کی تھی جب موم ڈیڈ میں سیپریشن ہوگئ”وہ کہتے ہوئے رکی پھر اس کی نگاہوں میں دیکھا”مگر وہ کیوں؟”عرشمان نے سنجیدگی سے پوچھا”میرے نانا بہت ہی امیر طبقے سے تعلق رکھتے تھے ان کا بزنس انٹرنیشنل لیول تک پھیل چکا تھا میری مدر انکی اکلوتی اولاد تھی انہوں نے انکی کوئ بھی خواہش کبھی رد نہیں کی تھی اسی وجہ سے جب موم نے ڈیڈ سے شادی کی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے موم کو سمجھایا مگر وہ بضد تھی۔نانا ہر طرح کے لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے تھے وہ ڈیڈ کی آنکھوں میں دولت کی چاہ بہت پہلے ہی بھانپ چکے تھے لیکن موم نے پھر بھی ان سے شادی کر لی اس سے کچھ ہی عرصہ بعد نانا انتقال پا چکے تھے اور اپنا انکرا میں موجود تمام ایریا موم کے نام کر دیا۔جس کے باعث روز بر روز ڈیڈ اور ان میں اختلافات بڑھتے جا رہے تھے ڈیڈ کسی بھی طرح وہ ایریا حاصل کرکے اس پر ال لیفل کام کرنا چاہتے تھے مگر موم نے ان کے تشدد کے باوجود انہوں نے ہار نہیں مانی اور ڈیڈ سے ڈائیورس لے لی اور جہانگیر انکل سے شادی کرکے میں اور موم استنبول سیٹل ہو گئے۔
وہ سانس لینے کو رکی اور پھر بولی”ہمیں استنبول شفٹ ہوئے ابھی صرف دو ماہ ہی ہوئے تھے کہ ڈیڈ نے اپنے فرینڈ کے ساتھ مل کر موم کو مروا دیا چونکہ اب سب ڈاکیومنٹس میرے نام تھے اسی لیے انہیوں نے مجھے اپنی تحیول میں لے لیا اور مجھ پر دباو ڈالنے لگے کہ وہ سب میں ان کے نام کردوں اور جب میں نے ایسا نہیں کیا تو انہوں نے مجھے ٹارچر کرنا شروع کر دیا اور مجھے ہر وہ شراب اور دیگر ہائے پوٹینسی کی ادویات کے زیر اثر رکھتے جس سے میں گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے حواس کھونے لگی مجھے تب سے ڈرنک کرنے کی عادت ہے اس کے بنا میں شائد جی نہ پاوں پھر ایک روز ہار مان کر آدھی پراپرٹی انکے نام کر دی اس شرط پر کہ وہ مجھے دو سال آزادی سے جینیں دیں اور جہانگیر انکل نے مجھے پاکستان بھجوا دیا میری سیکیورٹی کے لیے وہ اب بھی مجھ سے ان کانٹیکٹ ہیں”اس نے نظریں جھکائے اسے سب بتا دیا
“جو کچھ بھی تم کرتی رہی ہو اس میں تمہارا نہیں بلکہ تمہارے بھیانک ماضی کا قصور ہے میں ہوں نا تمہارے ساتھ تم اس سب کو اوورکم کر لو گی”عرشمان نے چلتی ہوا کہ باعث اس کے چہرے پر آنے والی لٹ کو کان کے پیچھے پرویا۔ کتنا عجیب تھا یہ انسان بھی نہ کوئ اظہار نہ اقرار ان کے اس نازک سے رشتے میں صرف احسسات تھے کچھ لمحوں کو الفاظ کی ضرورت نہیں ہوتی صرف پروا اور توجہ کی ہوتی ہے۔وہ نرمی سے مسکرائ”تم نے کبھی انڈر واٹر ڈائیو کیا ہے حور؟”عرشمان نے اسکی نیلی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا”نہیں کبھی موقع ہی نہیں ملا”حور نے چاند کی روشی کو ہر سوں بکھرتا دیکھتے ہوئے کہا”چلو پھر آج کرتے ہیں شوز اتارو۔۔۔”عرشمان نے ایکسائٹمنٹ سے کہا “پانی بہت ٹھنڈا ہے مان”اس نے انگلیوں کی پوروں سے پانی کو چھوتے ہوئے کہا” ڈونٹ وری بہت مزا آئے گا جب میں alaska میں تھا تب میں نے وہاں یہ بھی سیکھا تھا پانی کی گہرائ تک پہنچنے کا ایک الگ ہی charm ہے”اس نے شو لیسز کھولتے ہوئے جھیل میں چھلانگ لگائ کچھ چھینٹیں اسکے چہرے پر بھی پڑیں”آو بھی”اسنے ہاتھ اسکے طرف بڑھاتے ہوئے کہا جس نے اسے کچھ تذبذب کے عالم میں تھاما اور وہ اسے اپنے ساتھ پانی کی گہرائ میں لے گیا۔ اسکا ہاتھ تھامنے اب وہ دونوں انڈر واٹر ڈائیو کرنے انہیں کچھ گہرارئ میں چھوٹی چھوٹی مچھلیاں تیرتی ہوئ دکھائ دیں چاند کی روشنی پانی سے چھنتی ہوئ اندر تک آرہی تھی۔
عرشمان نے اسکا ہاتھ چھوڑا تو وہ کچھ اور قریب ان مچھلیوں کے آئ “thats so beutiful”اسکے لبوں سے الفاظ ادا ہوئے وہ اس کے عقب میں موجود اس خوبصورت منظر میں مدہوش ہوتا چلا گیا”just like you” اور اس کے اردگرد اپنی بازووں کا ہلکا بناتے مزید قریب ہوا اور نرمی سے اسکے نازک رخسار کو اپنے لبوں سے چھوا اور اسکی نم زلف کو کان کے پیچھے ارستی ہوئے اس کے کان کے قریب سرگوشی کی”I am sorry and I realy mean that” اور کہہ کر اسے آزاد کر دیا جو اسکے حصار میں مچلنے لگی تھی وہ اس قدر شوکڈ تھی اس کی اس حرکت پر کہ اسے کچھ کہہ بھی نہ سکی۔”عرشمان یہ سب کیا تھا”اس نے جھیل سے باہر نکلتے ہوئے اس سے پوچھا”کیا تھا۔۔”وہ انجان بنا تو وہ سٹپٹا گئ”good night” اور مسکراتے ہوئے وہ اندر کی طرف چل دیا دو آنسو اسکی کی نگاہوں سے بہے اور اپنی دائیں کلائ اپنے سامنے کیے جہاںKJ لکھا تھا اسے دیلکھنے لگی “کاش کہ تم نے مجھ سے میرے ڈیڈ کا نام بھی پوچھا ہوتا عرشمان تو تم کبھی اپنے قدم میری طرف نہ بڑھاتے۔وہ کہتے ہوئے اپنے روم کی طرف چل دی۔ صبح عائشہ نے ٹیبل پر ان دونوں کو مسکراتے دیکھا تو تنقیدی نگاہوں سے دیکھا حور نے اسے بتایا تھا کہ روم میں گلاس گر کر ٹوٹ کیا تھا جس کی کرچیاں سمیٹتے ہوئے اسکی کلائ زخمی ہو گئ مگر عائشہ اب بھی عرشمان کو مشکوک نگاہوں سے گھوڑ رہی تھی۔جونہی عائشہ کا دیھان کہیں اور گیا عرشمان نے حور سے کہا”تمہاری یہ تھانے دار دوست کب تک مجھے انڈر اوبزرویشن رکھے گی”میں کیا کہ سکتی ہوں اس معاملے میں آپ کے بھائ صاحب کی سفارش زیادہ کارگر ثابت ہوگی اور کہتے ہوئے دونوں مسکرا دیے۔۔۔۔
صبح اب ڈھل کر دوپہر میں تبدیل ہونے لگی تھی۔ آج ان سب کے ٹور کا آخری دن تھا۔ اسی لیے وہ سب ارسلان اور سحرش آپی کے لیے کچھ گفٹس لینے carnaby street آئے تھے۔ یہاں کی اکثر شاپس یہ تو antique pieces پر مشتمل تھی اور کچھ outwears پر۔ وہ تینوں اب مختلف دکانوں کا وزٹ کرنے لگیں اور کچھ ونڈو شاپنگ میں۔ انہیں واپسی کے لیے اپنی بھی کچھ شاپنگ کرنی تھی سو وہ سب اس کام میں محو تھی۔ ایک شوپ پر حور کو اپنے لیے ایک سلیو لیس سٹریپس والی شرٹ پسند آئ تو وہ اسے اٹھائے کاونٹر پر آ پہنچی اور عرشمان سوچنے لگا ایک تھپر مارنے پر اپنی کلائ کاٹ بیٹھی تھی اب یہ ڈریس لینے سے منا کروں گا تو میڈم تو آگ میں کود جائیں گی اور اپنا سر جھٹکنے لگا۔وہ تینوں اب شاپنگ سے فری ہو کر کچھ کھانے کے لیے چل دیں اور ساتھ وہ یہ سوچنے لگے آج تو ان کا کباڑا ہو کر رہے گا۔۔
واپس پہنچ کر سب اپنی پیکنگ میں مصروف ہو گئے ان سب کی کل صبح دس بجے کی فلائٹ تھی ٹائم کم تھا اسی لیے وہ سب کام نمٹانے میں لگ گئے۔ رات وہ دونوں oxford street پر نکل آئے وہ اس سفر کو یاد گار بنانا چاہتے تھے اسی لیے لیٹ نائٹ کافی کا کپ تھامے وہ ٹھنڈی ہوا کے مزے لینے لگے رات کافی بیت چکی تھی مگر ان دونوں کا اب بھی واپس جانے کا موڈ نہیں تھا۔ سٹریٹ لائٹس اور کچھ ریسٹورینٹس کے نیون سائن بورڈ اب بھی جگمگا رہے تھے۔ کچھ آگے چلتے ہوئے انہوں نے اپنا کیمرہ نکالا اور اردگرد کے مناظر کی تصویریں لینے لگے ابھی انہوں نے اپنی دو ہی تصاویر لی ہوگی جب ہیوی بائک پر سوار دو لڑکے تیز رفتار سے آتے ہوئے پیچھے سے حور کا کیمرہ اڑا لے گئے۔اور بائک کا اگلا پہیا اٹھائے ہوئے ریس دیتے ہوئے مزید رفتار سے آگے نکل گئے۔ کچھ آگے دو گروپس اور موٹر بائکس پر one way wheeling کر رہے تھے حور کے تن بدن میں شرارے پھوٹنے لگے “ان کی ہمت کیسے ہوئ میرا کیمرہ لے جانے کی مجھے وہ واپس چاہیے “وو تنفر سے کہتی ان کی جانب بڑھنے
عرشمان نے آگے بڑھ کر اسے بازو سے کھینچا”ار یو کریزی وہ لوگ کبھی واپس نہیں کریں گے الٹا نقصان ضرور پہنچا سکتے ہیں”عرشمان نے اسے سمجھانا چاہا”بٹ آئے رئیلی وانٹ اٹ بیک”اسکی آنکھیں پانیوں سے بھرنے لگی ایک تو وہ اسکی ہر کمزوری جانتی تھی”اوکے لٹ می ہینڈل دس”کہتے ہوئے وہ دونوں ان کی طرف بڑھ گئے”مجھے وہ کیمرہ واپس چاہیے”اس نے ان ہیلمیٹ پہنے دونوں لڑکوں سے کہا “اتنی آسانی سے نہیں دیں گے یو ہیو ٹو کمپیل آ ڈئیر فور اس”اس نے دلچسپی سے کہا”and whats the dare”عرشمان نے پوچھا”دریائے ٹھیمز تک ون وے ویلنگ کرتے ہوئے جانا ہوگا ہمارے ساتھ ریس لگاتے ہوئے رستے میں ایک بار بھی رکے تو یہ کیمرہ تھیمز کی نظر ہو جائے گا”ان دونوں نے کہا”اوکے ڈن”عرشمان نے سنجیدگی سے کہا”دماغ ٹھیک ہے کیا کرنے جا رہے ہو یہ بہت خطرناک ہے اگر کچھ ہوگیا تو”حور نے متفکر ہوتے ہوئے کہا”ڈونٹ وری میں اکیلا تھوری ہوں تم بھی میرے ساتھ ہی چل رہی ہو”اس نے مسکراتے ہوئے کہا”اپ ٹو یو میں کونسا ڈرتی ہوں “حور نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا”بلکل جیسے چھپکلی کو دیکھ کر نہیں ڈرتی”عرشمان نے مسکراتے ہوئے کہا”بلکل”اس کے اعتماد میں کوئ فرق نہیں آیا تھا”so lets see “وہ دونوں بائک پر سوار ہوگئے فلیگ حلاتے ہوئے ریس سٹارٹ ہوگئ جوں جوں وہ آگے بڑھ رہے تھے بائک کی رفتار آسمانوں کو چھونے لگی لنڈن کے speedbreakers پاکستان سے کچھ بڑے ہوتے ہیں چونکہ metropolian buses اور دیگر ٹرانسپورٹ سروسز میں رفتار کا توزن رکھنا ضروری ہوتا ہے بائک کی رفتار اس قدر تیز تھی کہ سامنے بریکر پر دیہان نہیں گیا اور کچھ پل کو بائک زمین سے اونچا ہوا میں سفر کرنے لگی حور کو اپنا سانس رکتا محسوس ہوا اس نے عرشمان کو مزید مضبوطی سے تھاما جیسے کوئ بچہ گرنے سے بچنے کے لیے کسی سہارے کو مضبوطی سے تھامتا ہے۔اس کی بڑھتی قربت روز بر روز عرشمان کے لیے امتحان بنتی جارہی تھی “آر یو فائن” اسنے چہرا موڑتے ہوئے اس سے پوچھا “ہاں وہ ہم سے آگے نکل جائیں گے اور میں ہر گز اپنا کیمرہ تھیمز کی نظر ہوتے نہیں دیکھ سکتی اسنے مسکراتے ہوئے کہا”راجر میم” کہاں وہ اتنا سوفیسٹیکٹڈ بندا جس نے کبھی ٹریفک رولز بریک نہیں کیے تھے آج ون وے ویلینگ کر رہا تھا کچھ چیزیں انسان سے کیا کچھ کروا بیٹھتی ہیں اسے یہ ایڈونچر کسی فاسٹ اینڈ فیوریس کی شوٹنگ سے کم نہیں لگ رہا تھا۔ بلآخر وہ دریائے تھیمز ان سے پہلے پہنچنے والے تھے بائک کی رفتار تیز کرت ہوئے عرشمان نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اسے اپنے دل کی کیفیات سے آگاہ کر دیگا”سو مس حور جہانگیر استنبول کی کلی مجھے آج یہ اقرار کرنا ہے کہ مجھے تم سے بپناہ محبت ہے اور میں پورے ہوش و حواس میں تمہیں خود سے جوڑنا چاہتا ہوں ول یو میری می؟” بائک کی رفتار اب بھی اتنی ہی تیز تھی مگر وہ تو ششد رہ گئ خوف سے چہرہ جو اسکے کندھے پر رکھا تھا آنکھیں کھول کر اسے دیکھنے لگی “یہ کونسا طریقہ ہے کسی کو پرو پوز کرنے کا آگر میں شوک میں مبتلا گر جاتی تو”وہ خفگی سے کہنے لگی”مخترمہ اس ایڈونچر میں بھی آپ نے مجھے ڈالا ہے البتہ اس سچویشن کا ایک فائدہ ضرور ہے آپ مجھ سے چاہ کر بھی الگ نہیں ہوسکتیں “اس نے محظوظ ہوتے ہوئے اس کے بازووں کے گرد اشارہ کیا جو اس نے عرشمان کے گرد باندھ رکھے تھے دریائے تھیمز کی لہریں انکا یہ خوبصورت اظہار دیکھ کر مزید بے تابی سے ساحل کو چھونے لگیں ۔
وہ دونوں ریس جیت چکے تھے اور کیمرہ بھی انہیں واپس مل چکا تھا”تم پھر کب دے رہیں ہیں میری سدا کا جواب”اس نے اسکے ساتھ کھڑے ہوتے ہوئے پوچھا تو وہ سرخ پرتے ہوئے رخ پھیر گئ “اتنی جلدی بھی کیا ہے دے دوں گی جواب”اس نے تھورا اتراتے ہوئے کہا”مگر مجھے ہے جلدی روز بر روز میرے لیے امتحان بنتی جا رہی تمہاری قربت کا ہر لمحہ ہر پل” اسے اب اسکی بے بسی پر مزا آنے لگا تھا مگر وہ خاموش رہی “دے دینا جب چاہوں مگر ایک خواہش تو میں بھی اپنی پوری کروں گا دریائے تھیمز کی لہروں کو گواہ بنا کر کے مجھے استنبول کی کلی سے جنوں کی حد تک محبت ہے اور میری یہ محبت اسکی ڈوبتی ابھرتی لہروں سے بھی زیادہ ہے۔عرشمان نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسکے ہاتھ میں اک خوطصورت ڈائمنڈ رنگ پہنائ جو اسکے مخمریں انگلیوں کی زینت مزید بڑھادی تھی۔ لہریں اب بھی ساحل سے ٹکرا رہی لگی۔
صبح وہ دونوں جلد ہی اٹھ گئے تھے۔ پیکنگ کمپلیٹ کرکے وہ باہر باغیچے میں آ گئے۔یہاں آ کر اسنے اپنی ڈائٹ کافی حد تک خراب کر لی اسی وہ جوگرز کے لیسز کستے ہوئے ٹریک پر دوڑنے لگی۔ فجر کی نماز ادا کرنے بعد وہ کھڑکی میں آیا اور اسے یوں ٹریک پر جوگنگ کرتا دیکھ کر مسکرانے لگا۔بال جوڑے میں کلپ کی مدد سے مقید کچھ لٹس آگے چہرے پر بکھری تھی۔وہ ٹین ایج سے ہی جوگنگ کر رہی تھی اور آسانی سے دو کلومیٹر تک بھاگ سکتی تھی۔ اب بھی وہ تیز رفتار سے بھاگ رہی تھی جب کسی نے پیچھے سے اس کا کلپ اتار لیا اور آگے کو دوڑنے لگا۔سنہری بال آبشار “اف عرشمان اف”وہ جنجھلانے لگی اور وہ مسکراتا ہوا وکٹری کا سائن بناتا ہوا دوڑنے لگا۔ وہ بھاگتی ہوئ اسکی طرف لپکی اور اس کے ہاتھ سے کلپ چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی لیکن وہ ناکام رہی تو تنگ آکر اس اپنے ہاتھوں سے اسکے بال بکھیر دیے اور اسکا عجیب سا ہلیا بنا کر اسے دیکھتے ہوئے خود ہی ہنسنے لگی۔ وہ بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے انہیں ٹھیک کرنے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔
اس نے اپنی کلائ سے گھڑی اتار کر اس کی طرف بڑھائ اور حور کے ہاتھ سے بینڈ اتروا کر اپنے پاس رکھ لیا۔”یہ کیا کر رہے ہو”اس نے تعجب سے اسکی طرف دیکھا”کچھ نہیں بس ایکسچینج کر رہا ہوں اس سفر میں کچھ تو میرے پاس بھی رہنا چاہیے تمہاری یاد کے طور پر”اسنے بینڈ میں موجود بالز کو گھماتے ہوئے کہا اور پھر اسے اپنی جینز کی جیب میں رکھ لیا۔
********