محمد علی ماشکی نے رس نکلے گنے کے خشک پھوگ کو لمبی چھڑی کی مدد سے چھیداں کی بھٹی کی دہکتی آگ میں دھکیلا تو چنگاریوں کی شوخ قطار چڑ چڑ کر کے بھٹی کے دہانے سے نکل بھاگی۔
بھٹی نے ایندھن کا استقبال کر کے بھڑکتے شعلوں کو تیز تر کرتے ہوئے گاڑھے کثیف دھوئیں کو بھٹی کی چمنی نما دم کے رستے باہر دھکیل دیا۔ کڑاہی کی گرم ریت نے مکی کے زرد دانوں کو ایک لحظے میں پھاڑ کر چمبیلی کے سفید کنوارے پھولوں میں تبدیل کر دیا۔ اشتہا انگیز گرم، سوندھی خوشبو چاروں اور نکل بھاگی۔
چھیداں (رشیدہ) ماچھن محمد علی کی وہ ادھیڑ عمر بیوی تھی جس کے بغیر دونوں میں سے کسی ایک کا بھی تصور محال تھا۔ سچ کہتے ہیں کہ دن رات ساتھ رہتے رہتے تیس پینتیس سالہ رفاقت کے بعد میاں بیوی کی شکلیں تک ایک سی ہو جاتی ہیں۔
محمد علی بکرے کی سالم کھال کے بنے مشکیزہ میں صبح سویرے کنویں سے ربر کے تھیلا نما ڈول کھینچ کر پانی بھرتا اور گاؤں بھر کے مٹی کے گھڑے لبریز کرتا۔ گاؤں میں ابھی ذیل داروں کے گھر ہی میں ہینڈ پمپ لگا تھا جہاں سے صرف مغربی محلہ کی عورتوں کو پانی نکال کر بھرنے کی اجازت تھی۔ باقی سارے گاؤں کا دارومدار محمد علی کے مشکیزہ سے تقسیم ہوئے پانی ہی پر تھا۔ محمد علی جب اپنے مشکیزہ کا منہ گھڑوں کے منہ پر کھول کر پانی انڈیلتا تو دھارے سے مفرور پانی کے آوارہ قطرے یوں اُچھل اُچھل کر گھڑے میں داخل ہوتے جیسے موتی چمک کر، تھرک کر کسی غار میں گھستے چلے جا رہے ہوں۔ مٹی کے خالی گھڑے لبریز ہونے سے گھڑوں کے تشنہ مسام تک تر اور سیراب ہو جاتے۔ گرمیوں کی سہ پہر محمد علی گھڑے بھرنے کے بعد ہمیشہ تھوڑا سا پانی گھڑونچی کے نیچے اور ارد گرد کی سلگتی زمیں پر، جان بوجھ کر چھڑکتا، جس سے نمی کو ترسے کچے صحن سے مٹی کی مسحور کن خوشبو خارج ہوتی۔
محمد علی کے کام کی افادیت کے پیش نظر اسے بہشتی کا نام بھی دیا جاتا۔ فی الحقیقت محمد علی کا مشکیزہ پانی نہیں زندگی بانٹتا پھرتا۔ زندگی بانٹنے والے کو بہشتی ہی ہونا چاہئے۔
محمد علی صبح اور سہ پہر دو وقت پانی بھرتا۔ باقی وقت وہ چھیداں کی بھٹی کے لیے خشک ایندھن اکٹھا کرتا اور شام کو چھیداں کی بھٹی کی آگ بھڑکانے میں مدد کرتا۔
گاؤں کے شمالی محلہ کی مشرقی سمت لمبی گلی کے دہانے پر ایک کچا چبوترہ قائم کر کے اس میں چھیداں کی بھٹی بنی تھی۔ چھپر سے سایہ مہیا کر دیا گیا تھا۔ عصر کے قریب چھیداں بھٹی پر آ براجمان ہوتی۔ بھٹی کے دھانے کی طرف محمد علی کا اکٹھا کیا گیا ایندھن، جو خشک جھاڑیوں، گنے کے کٹی فصل کے ہل چلائے گئے کھیت میں سے اکٹھے کئے مڈھ، کماد (گنے کی فصل) کے خشک چھلکوں، گنا بیلنے کے بعد بچی پھوگ، گھاس پھونس اور درختوں کے خشک پتوں ٹہنیوں پر مشتمل ہوتا ڈھیر کیا رہتا۔
چھیداں کی بھٹی کی رونق گاؤں کی مٹیاروں اور چھوٹے بچوں کے لئے شام کے معمولات میں اہم حیثیت رکھتی تھی۔ مکی، چنے، گندم، جو، چاول، مسور، غرضیکہ جو بھی غلّہ لایا جاتا چھیداں کی بھٹی کو قبول ہوتا۔ کڑاہی کی گرم ریت میں بھن کر جو سوندھی خوشبو پھیلتی تو گاؤں کا ایک چوتھائی مشرقی حصہ مہک جاتا۔ جب کوئی اپنے مکی، چنے یا چاول کے بھنتے دانوں میں گُڑ کی آمیزش کرواتا تو خوشبو کی نوعیت ہی بدل جاتی۔
محمد علی اور چھیداں کا آگ پانی کا کھیل گاؤں کی رہتل میں یوں رچ بس گیا تھا کہ اس کے بغیر گاؤں کا تصور محال تھا۔ گویا آگ پانی کا یہ کھیل گاؤں کی زندگی کی علامت تھا۔
محمد علی ہی کی شکل کا سلامت اُن کا اکلوتا بیٹا تھا۔ سلامت کو وہ بڑے شوق سے سکول بھجواتے۔ اب وہ خیر سے دسویں جماعت میں پہنچ گیا تھا۔ محمد علی اور چھیداں کی زندگی کا محور سلامت ہی تھا۔ سلامت صبح گھر سے نکلتا تو سکول کی صاف وردی اور گہرا گندمی چہرہ سرسوں کے تیل سے چپڑے بالوں کی جمائی پٹیوں سمیت چمک رہا ہو تا۔ قدرت نے سلامت کے لڑکپن میں عجب ملاحت دی تھی۔ ماں باپ کا سانولا رنگ، محمد علی کا اکہرا لامبا قد، چھیداں کی تیکھی ناک، بڑی بڑی سیاہ نشیلی آنکھیں اور شب دیجور کی روایتی سیاہی لیے کالے بال سب سلامت میں اکٹھے ہو گئے تھے۔
سلامت اکلوتا ہونے کے باعث بہت لاڈلا تھا لیکن لاڈ پیار نے اُسے بگاڑا نہیں تھا۔ محمد علی کی شرافت اور چھیداں کی وفا کے علاوہ باپ کی گاؤں میں حیثیت کے باعث سلامت نے کبھی اپنی اوقات سے بڑھ کر نہ تو کوئی حرکت کی نہ کسی قضیئے میں آیا۔ اپنی چھوٹی موٹی خواہشات منوانا اسے اچھا لگتا تھا تو محمد علی اور چھیداں کو بھی برا نہیں لگتا تھا۔
گاؤں سے چھ سات کلو میٹر دُور قصبے کے گورنمنٹ ہائی سکول میں جانے کے لئے دو کلومیٹر دیہاتی کچی سڑک، جس کے دونوں اطراف سرکنڈوں کی باڑ تھی، ہرے بھرے کھیتوں کے بیچوں بیچ گزرتی کالی سانپ سی لہراتی تار کول لپی پکی سڑک پر جا چڑھتی۔ اس ترا ہے سے چار پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر قصبے کے مضافات میں گورنمنٹ ہائی سکول تھا۔ قریبی دیہات کے لڑکے پیدل بس یا بائیسکل پر سوار ہو کر سکول پہنچتے۔
سلامت نے نئی بائیسکل کی فرمائش کی تو محمد علی اور چھیداں کی جان پر بن آئی۔ بھٹی سے اجرت کے طور پر اکٹھا کیا گیا قسم قسم کا اناج چھوٹی چھوٹی بوریوں میں پڑا تھا جو اَجّو کمہار کو تول کر بیچا تو کچھ رقم ہاتھ آئی۔ محمد علی کو ہر شادی پر گاموں نائی کی دیگیں پکانے میں مدد کرنے اور دلہن کی پالکی اٹھانے پر معقول رقم ملتی جو ’’لاگ‘‘ کہلاتی تھی۔ گھر کے خرچے محدود ہونے کی وجہ سے اس رقم میں سے بھی بچت ہو رہتی کہ گھر میں کون سا ہجوم تھا۔ لے دے کہ تین جانیں تھیں جو کیا کھا پہن لیتیں۔ سب جمع پونجی اکٹھی کی گئی تو نئی بائیسکل کے پیسے بآسانی نکل آئے۔ نمبر داروں کا بڑا لڑکا چوہدری جھورا اپنے ٹریکٹر کی مرمت کروانے شہر جا رہا تھا۔ محمد علی بھی ٹریکٹر کے مڈگارڈ پر ساتھ چڑھ بیٹھا اور شام کو بھورے موٹے کاغذ میں لپٹی نئی سائیکل ٹریکٹر پر سوار گاؤں آ پہنچی۔
سکول جانے والے سائیکل سوار ٹولے میں سب سے نئی اور شاندار سائیکل سلامت کے پاس آ گئی۔ سلامت، پہلے ہی صاف ستھرا لڑکا تھا، نئی سائیکل لے کر اور طَرح دار ہو گیا۔ چھوٹے چھوٹے کسانوں کے لڑکے اس سے رشک اور حسد تک محسوس کرنے لگے۔
ایک گھٹن زدہ سہ پہر جب چھیداں نے سلامت کو اپنی چھت پر بظاہر کتاب پڑھتے دیکھا تو اس کا ما تھا ٹھنکا۔ اس نے چند مکان دور، ایک گلی کے پار بلند ہوتے چوبارہ والی چھت کی طرف نظر ڈالی تو اسے لگا کہ سرخ اینٹوں سے بنے ڈیزائن والے چھدرے پردے کے پیچھے کوئی ہیولیٰ تیزی سے غائب ہو گیا۔
اس رات بہشتی کے گھر کی تاریکی، مٹی کے تیل سے جلتی جرمن شیشے والی لالٹین سے بھی کم نہیں ہو رہی تھی۔ عشاء کی اذان کے بعد گاؤں میں خاموشی کا راج تو نئی بات نہیں تھی لیکن آج کی خاموشی تاریکی کی آمیزش سے بہت ہولناک تاثر پیدا کر رہی تھی۔ گاؤں کے کتے سرشام کہیں دبک گئے تھے اور کافی دیر سے کوئی چھوٹی موٹی آواز تک سنائی نہیں دے رہی تھی۔ گنے کے کھیتوں سے گیدڑ اپنی آوازیں تسلسل سے نکال رہے تھے جو نحوست کا تاثر دے رہی تھیں۔ گاؤں کو گھیرتے درختوں کے ہیولے ہیبت ناک جنوں کی شبیہ بن گئے تھے۔ بھادوں کے وسط کے حبس نے جھینگروں کو مست کر دیا تھا۔ اُن کی ہزاروں آوازوں سے مل کر چیختا کورس رات کے سناٹے میں پر اسرار لمبی چیخ بن کر گونج رہا تھا۔
’’سلامت کے ابا! پتہ نہیں آج کیوں مجھے رونا آ رہا ہے ۔‘‘
چھیداں نے فرطِ غم سے غوطہ کھاتی آواز میں سسکاری بھری۔
’’میری چارپائی کی پائنتی سے اٹھ اور اوپر ہو بیٹھ۔ جھلی نہ ہو تو۔ رونے کی کیا بات ہے۔ ستّے (ساتوں) خیریں ہیں۔ رب سوہنے سے خیر ہی خیر مانگ۔
محمد علی نے ہمیشہ کی طرح چھیداں کا حوصلہ بڑھایا۔
’’کیا شے ہے جو اللہ نے ہمیں نہیں دی۔ ہر ضرورت پوری ہو رہی ہے۔ ذیل داروں کے گھرانے سے لے کر کمیوں کے محلے تک کون ہے جو ہمارے ساتھ ٹھیک نہیں۔ کون ہے جو ہمیں اچھا نہیں سمجھتا۔ اولاد ہمیں ملی ہے تو بس اللہ کے نام والی۔ تو کیوں فکر کرتی ہے۔ کیا دکھ ہے تجھے۔ میں اس عمر میں بھی بھری مشک پشت پر لاد کر چوکڑی بھرتا ہوں۔ تو اپنی ہم عمروں سے کہیں زیادہ مضبوط اور ہوشیار ہے۔ اور کیا چاہئے؟ بس اللہ کا نام لیا کر اور شکر گزارا کر۔‘‘
دل میں اسے تشویش ہوئی کہ چھیداں کی یہ بے وجہ اداسی کبھی اچھا شگون نہیں ہوتی تھی۔ کوئی وجہ تو ہوتی جو جلد یا بدیر کھلتی۔ سلامت حبس کے باوجود اپنی کوٹھڑی میں گھسا کچھ لکھ رہا تھا۔ اس کا لمبوتری چمنی والا لیمپ اپنے دھاتی شیڈ سے روک کر روشنی اس کی کھلی کتاب اور کاپی پر مرکوز کر رہا تھا۔ وہ کھڑکی کے رستے آئے پتنگوں کے گرم لیمپ سے مَس ہو کر مرنے اور ایک خاص خوشبو چھوڑنے کے معمول سے بے نیاز اپنے کام میں منہمک تھا۔
اس رات چھیداں بہت دیر تک محمد علی کی پائنتی بیٹھی رہی۔ خاموش اور ساکت۔ جیسے اسے اندھیرے میں کچھ نظر آ رہا ہو۔ کچھ ایسا جو صرف اسے نظر آ رہا ہو اور کسی دوسرے کو نظر نہ آئے۔ رات کے پچھلے پہر ہی کہیں وہ اپنی چارپائی پر گئی جب محمد علی کا گڑگڑاتا حقہ خاموش ہوئے بھی دیر گزر چکی تھی۔
برسات میں دیہاتی سڑکیں کیچڑ سے اَٹ جاتیں اور لوگ پانی کے چھوٹے چھوٹے تالابوں سے بچ کر گزرتے۔ چھاجوں برستے بادل بھی محمد علی کی مشقت میں فرق لاتے نہ ضرورت میں۔ چھیداں کی بھٹی کا ایندھن گیلا ہوتا تو چھپر تلے چھپی بھٹی دو ایک دن بند رہ کر پھر دہک جاتی۔ البتہ محمد علی کے کام میں ایندھن سکھانا یا خشک ایندھن ڈھونڈھنا بھی شامل ہو جاتا۔ بھٹی نہ دہکتی تو جیسے گاؤں کا نظام رُک جاتا۔ مٹیاروں کے دل اس بیٹھک کے لئے مچل مچل جاتے جو انہیں یا تو بھٹی پر جاتے اور اپنی باری کا انتظار کرتے مہیا ہوتی یا شادی کے گیتوں کی مجلس میں جو شادی سے دس دن پہلے مغرب کے بعد شروع ہو کر رات گئے تک جاری رہتی۔ پھیری، گدے اور ناک پر سرسوں کے تیل کا دیا جلا کر مٹکنے تک ہر شوخی کی جاتی۔ بولیوں اور ماہیوں میں وہ وہ کچھ کہہ دیا جاتا وہ وہ کرلاہٹیں نکلتیں جو گاؤں کے روایتی ماحول میں مردوں کے گمان میں بھی نہ ہوتا کہ ایسے طوفان گداز سینوں میں دفن ہیں۔ محبت، رقابت، جبر، ایثار اور ہجر و وصال کے وہ اَن چھوئے جذبات نکاس پاتے جو سان گمان میں بھی نہ ہوتے۔ شادی کے شبینے خالص زنانہ ہوتے جبکہ چھیداں کی بھٹی پر کم عمر لونڈوں کو دور کھڑے ہو کر دانے بھنوانے کی اجازت ہوتی جو ہر دو اصناف کو گوارا تھی۔
اس مہیب رات سے اگلے دن چھیداں نے بھٹی جلدی دہکا دی۔ محمد علی کا کام ختم نہیں ہوا تھا اور بھٹی کئی دن بند رہنے سے مٹیاروں کے دانے بھننے کو بے تاب تھے۔ یہاں تک کہ وہ چھیداں کو گھر سے لینے آ پہنچی تھیں۔
بھٹی بھڑ بھڑ دہک رہی تھی۔ محمد علی کے اکٹھے کئے خشک ایندھن نے سخت جہنم دہکایا تھا۔ مکئی، چاول، باجرہ، گندم، چنا بھن کر اپنی اپنی خوشبو سے ایک چوتھائی کی بجائے آدھا گاؤں مہکا رہے تھے۔ گاؤں کا وسیب رواں تھا اور بھٹی کی رونق عروج پر کہ ایک ڈھلان کی سمت سے محمد علی بھری مشک پشت پر لادے لال سرخ منہ اور دہکتی آنکھیں لئے نمودار ہوا۔ وہ غیر معمولی تیزی اور وحشت ناک چال سے بھٹی کی طرف لپکتا چڑھا آیا۔ اِس سے پہلے کہ چھیداں یا کوئی بھی موجود فرد اس کی کیفیت بھانپ سکتا اس نے طوفان کی طرح لپک کر بھٹی کے ایندھن والی سمت دھانے پر اپنی مشک پہنچائی اور ڈھیروں پانی بھٹی میں انڈیل دیا۔
بھٹی سے گھٹی گھٹی چیخیں اور دلدوز آہیں نکلیں۔ دھواں اور آگ ملے پانی کی ناخوشگوار مہک ہر خوشبو پر غالب آ گئی اور پورے گاؤں پر سوگ پھیل گیا۔
لوگوں نے چمکتی ہوئی سائیکل کے تڑے مڑے حصے اور کیچڑ سے لتھڑی کتابوں سے بھرا بستہ رشید کھوجی کی ٹریکٹر ٹرالی سے نیچے اتارا تو دھان کے اُکھڑے پودوں کے ڈھیر کو مس کرتا ہوا ایک سانولا بازو منج کی چارپائی سے لٹک آیا تھا۔
کلائی پر بندھی گھڑی ابھی زندہ تھی اور تازہ خون گھڑی کی چمکدار دھاتی چین کے نیچے سے بہہ کر ایک سیاہی مائل سرخ لکیر کی مانند جم گیا تھا۔
٭٭٭