[ 3 ]
بھرشٹا چار ترقّی پذیر ملکوں کا مقدّر ہے۔
مجھے بھرشٹا چار کی پہلی خوراک ادھورا میں ملی۔ میں وہاں اسٹنٹ انجینئر تھا اور پائپ نٹ ورک کا کام دیکھتا تھا۔ میرا جونیر انجینئر تھا رمیش۔ وہ کوّے کی طرح کالا تھا۔ وہ مجھ سے اشاروں میں باتیں کرتا۔
’’یہاں اسکوپ بہت ہے سر !‘‘
سہسرام کے اسٹنٹ انجینئر نے بہت پیسے کمائے۔‘‘
’’رکھ رکھاؤ مد میں فنڈ بہت ہے سر۔‘‘
ادھورا تفریح کی جگہ تھی۔ ندیاں۔۔۔ پہاڑ۔۔۔ جھرنے۔۔۔ ! یہاں بجلی نہیں تھی۔ پینے کا صاف پانی نہیں تھا۔ دکانیں نہیں تھیں۔ آبادی برائے نام تھی۔ پانی کی فراہمی کا انتظام چھوٹے پیمانے پر تھا۔ کرمناسہ ندی کے پٹ پر والے کنارے سے پانی کھینچ کر سیٹلنگ ٹینک میں جمع کرتے تھے اور وہاں کشش ثقل کے ذریعہ پانی گاؤں میں پہنچایا جاتا تھا۔ اس نظام کی توسیع کرنی تھی۔
جونیئر انجینئر مجھے اشارے میں کچھ کچھ کہتا لیکن میں نے دوریاں بنائے رکھی تھیں۔ ایک بار میرے افسر سائٹ انسپکشن کے لئے آئے۔ اور محکمہ جنگلات کے گیسٹ ہاوس میں مقیم ہوئے۔ میں خوش ہوا کہ میرے افسر آئے ہیں۔ میں نے خاطر تواضع کی۔ عمدہ کھانا کھلایا اور سائٹ پر لے گیا۔ دو ہزار روپے خرچ ہوئے۔ ان کے جانے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میں نے ساری تنخواہ ختم کر دی ہے۔
اب کیا ہو۔۔۔ ؟
’’اڈجسٹ ہو جائے گا سر۔۔۔ !‘‘ رمیش مسکرایا۔
’’اڈ جسٹ۔۔۔۔ ؟‘‘ میں نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا۔
رمیش نے گرو منتر دیا۔ ’’رکھ رکھا و ٔ مد میں خرچ دکھاتے ہیں اور دو ہزار کی رقم اڈ جسٹ کرتے ہیں۔‘‘
وہ کیش بک اور رسید بہی لے کر آیا اور میرے سامنے کیش بک بھرنے لگا۔ رسید بہی پر کچھ لکھتا پھر سر کا ایک بال نوچتا پھر انگوٹھے پر لپیٹ کر ٹھپّا لگاتا۔
میں نے پوچھا ’’کیا ہے ؟‘‘
اس نے کہا ’’اڈ جسٹمنٹ !‘‘
میں نے جھک کر دیکھا۔ رسید بہی پر اس نے لکھا تھا۔ ’’پیڈ ٹو گولو مانجھی لیبر میٹ روپیز تھری ففٹی فور فار ڈویئنگ ارتھ ورک اینڈ ایکسپوزینگ پائپ جوائنٹس ریکینگ دیم آوٹ اینڈ سپلایئنگ جوٹس اینڈ ڈوینگ ریپیئر آف پائپ لائن اینڈ۔۔۔۔۔‘‘
اس طرح دیکھتے دیکھتے اس نے کوئی پندرہ بیس واوچر تیّار کیئے۔ لیبر میٹ میں کبھی گولو مانجھی کی جگہ پھیکن راوت ہو جاتا کبھی تاج محمّد اور ادائگی کی رقم کبھی تین سو ہو جاتی کبھی چار سو اور پھر میری طرف اس نے فاتحانہ نظروں سے دیکھا۔
’’ہو گئے سر دو ہزار روپے اڈ جسٹ۔‘‘
’’میں اسے کیش بک پر اتار دیتا ہوں سر۔ آپ دستخط کر دیں۔ امپریسٹ منی سے دو ہزار روپے آپ کو مل جا نا اور پائہر بام پر ۔ گھنگھرووعبیدئیں گے۔‘‘
مجھے غصّہ آ گیا۔ میں نے تیکھے لہجے میں کہا۔ ’’کیا حماقت ہے ؟ کھا کر گئے وہ اور اڈ جسٹ کر رہے ہیں ہم۔۔۔؟‘‘
رمیش اچھل پڑا اور خوشی سے چیخ کر بو لا۔ ’’یہی تو سر میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ کھا کر گئے وہ اور اڈجسٹ کر رہے ہیں ہم۔‘‘
وہ بہت جوش میں تھا۔ اس کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی تھی۔ اسی طرح خوشی سے چیختے ہوئے بولا۔
’’سر۔۔۔ جب ہم دو ہزار ان کے لئے اڈ جسٹ کر سکتے ہیں تو دو ہزار اپنے لئے بھی کریں گے‘‘
اور پھر اس نے مجھ سے اجازت بھی نہیں لی۔ سر کے دو چار بال اور توڑے انگوٹھے پر لپیٹا اور دنا دن ٹھپّا لگانے لگا اور پلک جھپکتے ہی دس ہزار کا وا و چر چھاپ دیا۔ میں کیش بک پر دستخط کرنے میں ڈر رہا تھا لیکن اس نے مجھے سمجھایا کہ ہم جس نظام میں سانس لے رہے ہیں اس کے تقاضے کیا ہیں۔ اس نے کہا کہ بیس پرسنٹ ڈیویژن آفس میں خرچ ہوں گے۔۔۔ اکز کیٹو انجینئر پندرہ پرسنٹ لیں گے تین پر سنٹ اکاونٹنٹ لے گا اور دو پر سنٹ کیشیئر لے گا اور سارا اکاونٹ اڈ جسٹ ہو جائے گا۔ امپریسٹ کے دس ہزار روپے ہمارے ہوں گے۔
لیکن اکزکیٹو انجینئر کا پیٹ بڑا تھا۔ اس نے مزید مانگ کی اور اکاونٹس پاس نہیں کیا۔ مجھے بہت غصّہ آیا اور ہتک محسوس ہوئی۔ میں نے ٹھان لی کہ آئندہ کوئی اڈجسٹمنٹ نہیں کروں گا اور ان کم بختوں پر ایک نیا پیسہ خرچ نہیں کروں گا۔
افسران پھر آئے۔ اس بار ان کا داماد بھی ساتھ تھا۔ وہ بیئر پیتا تھا اور کاجو کھاتا تھا۔ اس نے آتے ہی بیئر کی فرمائش کی۔ میں نے رمیش سے کہا کہ وہ اپنی جانب سے چاہے تو بیئیر سے ضیافت کر سکتا ہے لیکن میں ایک پیسہ بھی اڈجسٹ نہیں کروں گا۔ میرے رویّے سے افسران بہت رنج ہوئے۔ ایکز کیٹو انجینیئر نے بہت نا گوار لہجے میں مجھے مخاطب کیا۔
’’آپ ہوش میں تو ہیں ؟ آپ کا دماغ خراب تو نہیں ہو گیا ؟‘‘
میں نے اتنے ہی سکون سے جواب دیا ’’میں ہوش میں ہوں اور میری جیب خالی ہے۔‘‘
اکز کیٹو نے خانساماں کو پیسے دیئے اور کھچڑی بنی۔
سپرٹینڈنگ انجینئر مجھے ایک طرف لے جا کر کہنے لگے۔ ’’آپ کو اس طرح پیش نہیں آنا چاہیئے جناب !‘‘
میں نے اپنی بے بسی بتائی کہ پیسے جیب سے بار بار خرچ نہیں ہو سکتے۔ اکز کیٹو انجینیئر اڈ جسٹمنٹ کے لئے زیادہ پیسے مانگتے ہیں تو میں کیا کروں ؟
میں محکمے میں لڑاکو مشہور ہو گیا۔ ایک جنگ شروع ہو گئی۔ میں قانون کے مطابق کام کرنے لگا۔ میں جانتا تھا کہ اگر معمولی سی بھی غلطی کی تو افسران مجھے دبوچ لیں گے میں نے سب کا اڈ جسٹمنٹ بند کر رکھا تھا۔ میری جانب سے کسی کو ایک پیسے کی بھی آمدنی نہیں تھی۔ میری مورلٹی کو گوارہ نہیں تھا کہ بغیر کام کیئے خرچ دکھاؤں اور سب کو کمیشن دیتا پھروں۔ اس لئے میری نوکری کو ہر لمحہ خطرہ در پیش تھا۔
ادھورا واٹر سپلائی پر و جیکٹ کے پائپ بھبھوا اسٹور میں رکھے ہوئے تھے جو ادھورا سے چالیس کیلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ وہاں بارہ انچ قطر کے پائپ بھی پڑے ہوئے تھے جن کی فی الحال پروجیکٹ میں ضرورت نہیں تھی۔ مجھے فرمان ملا کہ ادھورا پروجیکٹ کے سارے پائپ بھبھوا سے ادھورا لے آؤں۔ ٹھیکہ دار سے سارے پائپ کی ڈھلائی کرا لی گئی۔ ان دنوں ڈھلائی کی عام در آٹھ آنے فی ٹن فی کیلو میٹر تھی لیکن میرے محکمہ میں دس گنا زیادہ یعنی پانچ روپے فی ٹن فی کیلو میٹر در منظور ہوئی تھی۔ ظاہر ہے کہ افسروں کی مٹّھیاں گرم کی گئی تھیں۔ اصل میں خریدو فروخت اور کمیشن کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ بو فورس کے توپ سے لے کر ساکچھرتا ابھیان اور آنگن باڑی کی سلیٹ تک کی خریداری میں کمیشن طے رہتا ہے جس میں سب کی حصے داری ہوتی ہے۔ محکمہ کوئی بھی ہو منسٹر سے لے کر چپراسی تک سبھی چاندی کی زنجیر سے بندھے ہوتے ہیں۔ یہ زنجیر بہت لطیف ہے۔ یہ نظر آ تی بھی ہے اور نہیں بھی۔ یہ کھنکتی ہے کھن۔۔ کھن۔۔ کھن۔۔۔ آزادی سے پہلے اس کی آواز دھیمی تھی اب بہت تیز ہے۔ اب امیر ملک بھی اسے کھنکھناتا ہے اور کرسی بچانے کے لئے راج دھانی میں گھوڑے خریدتا ہے۔ جگ جیون رام جب وزیر دفاع تھے تو جنگی جہاز جگوار خریدا تھا۔ جارج فرنا نڈز جب ریل منتری تھے تو انٹگریٹڈ کوچ فیکٹری کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ تب ہند کو آزاد ہوئے بیس پچیس سال ہی گذرے تھے لیکن عام آدمی کے خواب چوری ہونے لگے تھے اور امریتا پریتم نے کہا تھا۔
رات اونگھ رہی ہے
کسی نے انسان کی چھاتی میں سیندھ لگائی ہے
ہر چوری سے بھیانک
یہ سپنے کی چوری ہے
چوروں کے پیروں کے نشاں
ہر دیش کے
ہر شہر کی
ہر سڑک پر ہیں
پر کوئی آنکھ دیکھتی نہیں
نہ چونکتی ہے
صرف ایک کتّے کی طرح
زنجیر سے بندھی ہے۔
میں نے اپنے ناول مہاماری میں لکھا ہے کہ جب سپنے چوری ہوتے ہیں تو دل کے مقام میں ننھا سا سوراخ ہو جاتا ہے جو کبھی نہیں بھرتا۔ آزادی کے بعد ہمارے سپنے ایک ایک کر کے چوری ہوئے۔ سماج واد کا سپنا چوری ہوا۔ غریبی ہٹاؤ کا نعرہ کھوکھلا ثابت ہوا۔ فرقہ وارانہ غیر جانب داری کو آنچ آ گئی۔ سورن مندر کا سینہ گولیوں سے چھلنی ہوا۔ مسجد کی مینار گری۔ چرچ کی دیواریں خون سے رنگین ہوئیں۔ جمہوریت کی پری نے بازار میں بنا لیا گمبد اور اٹھائی گیرے سے ہم بستر ہوئی۔ راج تنتر غنڈہ تنتر میں بدل گیا۔ تاریخ کے سینے میں فاشسزم نے پنجے گاڑ دیئے۔
سرویشر دیال سکسینہ نے بہت پہلے ملک میں بڑھتے اندھیرے کو دیکھا تھا۔
میں اس دیش کا کیا کروں
جو دھیرے دھیرے لڑکھڑاتا ہوا
میرے پاس بیٹھ گیا ہے۔
اب منظر نامہ بدل گیا ہے۔ جرم سازی کو ہندوستان کی جمہوریت میں جگہ مل چکی ہے۔ مایا وتی کی حکومت کو جب بی جے پی نے 1990 میں خاک میں ملایا تھا تو واجپئی نے کہا تھا کہ کانگریس پیسے دے کر خریدتی ہے ہم نے عہدہ دے کر خریدا۔۔ بھارت کے سب سے گئے گذرے وزیر اعظم نر سمہا راؤ تھے۔ ممبئی میں فساد ہوا تھا تو مسلمانوں کے آنسو پونچھنے ممبئی گئے تھے۔ ٹھاکرے نے غرّا کر دیکھا تو دبے پاؤں لوٹ آئے۔ ٹھاکرے نے جب چاہا فساد تھما۔ جب نرسمہا راؤ کی حکومت ختم ہونے کو تھی تو جناب نے جھر کھنڈ کے دو گھوڑے خریدے۔ ان میں سے ایک نے اپنے پی اے کا قتل کیا تھا۔ وہ جیل بھی گیا۔ جیل سے چھوٹ کر آیا اور پھر وزیر اعلیٰ بن گیا۔ کیا ایسی جمہوریت پر ہمیں ناز کرنا چاہیئے۔ ؟ کیا جے پی نے اسے بدلنے کی کوشش کی تھی ؟ ان کی کرانتی سمپورن کرانتی نہیں تھی۔ اسی کرانتی کے بطن سے تو یہ سب تولّد ہوئے جن کے ہاتھوں میں ابھی دیش کی باگ ڈور ہے اور گھوٹالے کا سلسلہ ہے۔
تو بات ہو رہی تھی کہ ادھورا کے سبھی پائپ میں بھبھوا سے ڈھو کر ادھورا لے آیا۔ اس کام کا بل نوّے ہزار کا بنا جو پروجیکٹ کا پہلا بل تھا جسے میں نے پاس کیا تھا۔ لیکن اس کام کا اقرار نامہ بیس ہزار کا تھا۔ خبر آگ کی طرح پھیل گئی کہ بیس ہزار کا اقرار نامہ اور نوّے ہزار کی ادائگی۔۔ صرف پائپ ڈھلائی کا خرچ نوّے ہزار۔۔۔ ؟ ایک چھوٹے سے گاؤں میں۔۔۔۔ ؟ سب کی ملی بھگت ہے۔۔۔۔ سب لوٹ رہے ہیں۔ وہاں کا ودھائک رنگ دار تھا۔ وہ میرے پاس تو نہیں آیا کہ میں تالاب کی چھوٹی سی مچھلی تھا۔ میرے پاس چھٹ بھیّئے آئے جسے رمیش نے بیئر پر ٹہلا دیا لیکن ودھائک نے ایکز کیٹو اور سئپرٹنٹڈ نگ انجینئر سے چندہ وصولا اور اسمبلی میں سوال بھی داغ دیا کہ جب اقرار نامہ بیس ہزار کا تھا تو نوّے ہزار کی رقم کیسے ادا کی گئی ؟ اضافی رقم کیوں نہیں متعلّقہ افسران سے وصولی جائے ؟
مجھے مورد الزام ٹھہرا یا گیا جب کہ قصور وار ایکز کیٹو تھے۔ کوئی بھی ایگری منٹ اکز کیٹو ہی کرتے ہیں۔ ان کو چاہیئے تھا کہ بیس ہزار کے بعد بل کی ادائیگی پر روک لگا دیتے اور اور باقی رقم کے لئے الگ سے ایگری مینٹ کرتے۔ لیکن وہ اپنا کمیشن لے چکے تھے۔ انہوں نے جلدی سے بل پاس کر رقم ادا کر دی۔ سب سے کمزور میں نظر آیا۔ اس لئے مجھے قربانی کا بکرا بنایا۔ میری سروس بک پر لکھ دیا گیا کہ میں لا پرواہ ہوں اور قانون کو طاق پر رکھ کر کام کرتا ہوں۔ سپر ٹینڈینگ انجینئر نے مجھ سے کیفیت پوچھی کہ جب بارہ انچ پائپ کی ضرورت نہیں تھی تو میں ڈھلا کر ادھورا کیوں لے گیا ؟ اسی سے بل میں اضافہ ہو گیا جس کے لئے میں سو فی صدی ذمہ وار ہوں اور یہ رقم کیوں نہیں میری تنخواہ سے وصولی جائے۔ ؟
میں نے جواب میں لکھا کہ جب بارہ انچ قطر کے پائپ کی ادھورا میں ضرورت نہیں تھی تو خریدا گیا کیوں ؟ اس کا تعلّق چیف انجینئر سے ہے۔ برائے کرم ان سے پوچھا جائے۔ چوں کہ یہ پائپ ادھورا اکانٹس کے تھے اور دور دراز علاقے میں غیر محفوظ پڑے تھے تو قانون کے مطابق ان کی ڈھلائی کر لی گئی۔ آپ نے پائپ ڈھلائی کی در یں عام دروں سے دس گنا زیادہ منظور کی تھیں اس لئے بل میں اضافہ ہو گیا۔
سپر ٹینڈینگ انجینئر پر بجلی گر پڑی۔ وہ سکتے میں آ گئے۔
ساری زمین پر سب سے بھدّا منظر ہے روتا ہوا آدمی۔۔۔ ! سپرٹینڈینگ انجینئر میرے پاس روتے ہوئے آئے کہ میں اپنا جواب واپس لے لوں۔ مجھے ان پر رحم آیا۔ میں آدمی کو روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ اپنا لکھا ہوا واپس لینے کا کوئی سوال نہیں تھا لیکن ایک راستہ تھا۔ ادھورا میں بجلی کے کھمبوں کی ڈھلائی ہو رہی تھی۔ یہاں ڈھلائی کی در اور بھی زیادہ تھی۔ میں نے ان سے کہا کہ بجلی کے کھمبوں کی ڈھلائی در کے کاغذات میں آپ کو میسّر کرا دوں گا لیکن میری سروس بک پر آپ لوگوں نے جو جارحانہ تبصرہ کیا ہے پہلے اس میں ترمیم کریں اور میرے حق میں تبصرہ کریں۔ دونوں افسروں نے یہی کیا اور میں نے ضروری کاغذات مہیّا کرا دیئے۔
میرا اب ادھورا سے نکل جانا ضروری تھا۔ ماحول میرے خلاف تھا۔ مجھے چار سال ہو گئے تھے اور میں مقامی لوگوں کی نظروں میں چڑھنے لگا تھا۔ لیکن یہاں سے تبادلہ اتنا آسان نہیں تھا۔ ان دنوں اسٹنٹ انجینئر کے تبادلے کی فیس تیس ہزار تھی۔ اب شاید ڈیڑھ لاکھ ہے۔ میرے پاس پیسے نہیں تھے اور ادھورا کوئی آنا نہیں چاہتا تھا۔ لیکن میں نے ٹھان رکھی تھی کہ یہاں نہیں رہوں گا۔
جہاں چاہ ہوتی ہے وہاں راہ ہوتی ہے۔
کسی کو متاثر کرنے کے لئے آپ کو کچھ اس طرح نظر آنا چاہیئے جو آپ ہیں نہیں۔
میں نے لباس کا سہارا لیا۔ اچھا لباس شخصیت کو جاذب نظر بناتا ہے۔ آدمی خود کو دوسروں سے بہتر سمجھنے لگتا ہے اور اس میں خود اعتمادی بھی پیدا ہوتی ہے۔ مجھے یاد آتا ہے پریم چند کی کہانی استعفیٰ کا ایک جملہ۔ فتح چند جب صاحب کے روم میں داخل ہوتا ہے تو وہاں ایک قالین بچھی ہوتی ہے۔ پریم چند لکھتے ہیں کہ صاحب کے کمرے میں جو قالین بچھی تھی وہ فتح چند کی شادی میں بھی نہیں بچھی تھی۔ میں پریم چند کی تعریف کروں گا۔ زند گی کی لطیف باتوں پر ان کی گرفت مضبوط تھی۔ شادی میں واقعی ہر آدمی کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر مظاہرہ کرے۔
ان دنوں میری شادی ہوئی تھی۔ میرے پاس شادی کا ایک بہترین سوٹ تھا۔ میرے ایک بھائی یو۔ کے۔ میں رہتے ہیں وہ اپنے ساتھ ۵۵۵ سگریٹ کی کچھ ڈبیا ساتھ لائے تھے۔ میں ایک ڈبیہ لے کر چیف انجینئر کے دفتر چلا گیا۔ پھر تو دفتر میں ایک ہلچل سی ہوئی۔ سبھی نے چونک کر مجھے دیکھا کہ اتنا چمکتا ہوا آ دمی کون ہے ؟ میں نے ۵۵۵ کی ڈبیا نکالی۔ ایک سگریٹ ہونٹوں سے دباتے ہوئے اپنا تعارف پیش کیا تو کلرک اپنی کرسی سے اٹھ گیا۔
’’اچھا۔۔۔۔ چھا۔۔۔۔ آپ ہی ہیں خان صاحب! آپ کا بہت نام سنا ہے۔ ‘‘
میں نے سگریٹ کا طویل کش لیا
’’دیکھیئے میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ میں اپنی گاڑی بک کرنے آیا ہوں۔ ایک سودا آپ سے بھی کرنا ہے۔‘‘
’’کیسا سودا ؟‘‘ وہ حیران تھا۔
’’یہاں بات نہیں ہو سکتی۔ آپ برائے مہربانی باہر تشریف لے چلیں۔‘‘
سیکشن کے لوگ مجھے حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ اس ٹیبل پر کون سی ہستی آ گئی ہے۔ ؟ میں اسے لے کر باہر آیا۔
میں نے اسے سگریٹ پیش کیا۔
’’آپ ۵۵۵ پیتے ہیں ؟ بہت مہنگی ہو گی۔‘‘
’’بنارس سے منگواتا ہوں۔ آپ اسے رکھ لیں۔‘‘ میں نے سگریٹ کی پیکیٹ اس کی طرف بڑھائی۔ اس نے پیکٹ جیب میں رکھ لیا۔
’’۔ سر۔۔۔ آپ آئے تھے کس لئے ؟‘‘
معلوم ہوا آپ لوگ میرا ٹرانسفر کر رہے ہیں۔‘‘ میں مسکرایا۔
’’اب ٹرم پورا ہو گیا ہے تو۔۔۔۔‘‘
’’ٹرم تو پچھلے سال ہی پورا ہو گیا تھا۔‘‘
’’دیکھیئے میں چاہتا ہوں میرا نام پرو پوز نہ ہو۔ آپ چیف انجینئر تک میرا میسج پہنچا دیں۔ جو پیسے آپ لوگ لیتے ہیں دے دوں گا۔‘‘
’’لیکن آپ ادھورا میں کیوں رہنا چاہتے ہیں۔ ؟ وہاں کوئی جانا نہیں چاہتا۔ وہاں فنڈ بھی نہیں ہے۔‘‘
’’خوب فنڈ ہے جناب۔ ڈی ایم نے ضلع یوجنا سے فنڈ بھیجا ہے۔ پانچ سو ہینڈ پمپ کا نرمان۔۔۔۔‘‘
’’اچھا۔۔۔ اچھا۔۔۔ ضلع یوجنا کے فنڈ کا علم تو محکمہ کو ہوتا نہیں ہے۔‘‘
’’بہت کام ہے جناب وہاں۔۔ کام کرنے والا آ دمی چاہیئے۔ آپ کبھی وہاں آئیں۔ بہت پر تکلّف جگہ ہے۔ آپ کو عیش کراؤں گا۔‘‘
’’ضرور۔۔۔ ضرور۔۔۔ لیکن آپ جلد ہی چیف انجینئر سے ملاقات کر لیجیئے۔ اگلے ہفتے میٹنگ ہے۔ کہیں دیر نہ ہو جائے ؛‘‘
’’میں پیسے لے کر کل آؤں گا۔‘‘ میں نے اسے یقین دلایا اور گھر آ گیا۔ میں پھر وہاں نہیں گیا۔ میں جانتا تھا کہ میرا تیر نشانے پر بیٹھا ہے۔ اس کو یقین ہو گیا تھا کہ ادھورا میں پیسے کی بارش ہے اور میں وہاں سے تبادلہ نہیں چاہتا۔ اس نے چیف انجینئر سے یہ باتیں بتائی ہوں گی کہ میں پیسے لے کر آنے والا ہوں۔ مجھے نہیں پا کر اس کو غصّہ آئے گا اور میرا نام ٹرانسفر چین میں ڈال دے گا اور میرا تبادلہ ہو جائے گا۔ وہی ہوا۔ مجھے ادھورا سے مکتی ملی۔ میرا تبادلہ بھاگلپور ہو گیا۔ بھاگلپور میرا گھر ہے۔ یہاں میں نے زندگی کے بہترین دن گذارے۔