نوشین! کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یہ بچوں کے ساتھ زیادتی ہوگی؟” احمد صاحب نے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی ہاتھوں پر لوشن لگاتی نوشین بیگم سے کہا۔
“کیسی زیادتی؟” انہوں نے چونک کر استفہامیہ نگاہوں سے انہیں دیکھا۔
“ارتضی اور دانین کے رشتے کے بارے میں بات کر رہا ہوں۔ مجھے نہیں لگتا ارتضی دانین سے شادی پر راضی ہوگا ۔ میں بھی اسے اس لڑکی کے ساتھ بہت بار دیکھ چکا ہوں۔” وان کے لہجے میں تشویش کی جھلکیاں تھیں۔
“آپ پریشان نہ ہوں، ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ میں سمجھا لوں گی دونوں کو ہی اور دانین کو تو میں نے اسی لیے یہاں بلایا ہے تاکہ وہ ایک دوسرے کو بہتر طور پر جان لیں ۔” انہوں نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے نرم لہجے میں کہا۔
“اوہ نوشین! میرے یہ سمجھ نہیں آرہا کہ آخر آپ اس رشتے پر کیوں اتنی بضد ہیں اگر بچے راضی نہیں ہیں تو؟” احمد صاحب انہیں اپنے موقف سے انچ بھر بھی پیچھے ہٹتے نہ دیکھ کر اب کی بار قدرے جھنجھلا کر بولے۔
“بچے تو نہیں خیر سے دانین کا تو مسئلہ نہیں ہے بس ہمارا بیٹا ہی مسئلہ کھڑا کرے گا۔” انہوں نے سنجیدگی سے کہا۔
“دیکھیں کرنل صاحب! میں چاہتی ہوں کہ میرے گھر کی لڑکیاں مضبوط ہوں، بہت زیادہ مضبوط۔ چاہے پھر وہ میری بیٹی ہو یا بہوئیں۔ میں چاہتی ہوں کہ اگر کل کو وہ کسی مشکل میں پڑیں تو کہیں سے مدد آنے کے انتظار کے بجائے خود اس مشکل کا ڈٹ کر مقابلہ کریں ۔ مرتضی کی شادی بھی فروا سے میں نے اسی لیے کروائی تھی۔ بے شک وہ فیلڈ میں جا کر کام نہیں کرتی مگر وقت پڑنے پر خود کو سنبھال تو سکتی ہے۔ ان شاءاللہ رابیل کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد اسے بھی میں مکمل تربیت دلاؤں گی ۔” نوشین بیگم کے لہجے سے ہی ان کا پختہ عزم عیاں تھا
“خیر جیسے آپ کی مرضی مگر ارتضٰی پر زبردستی کرنے کی غلطی مت کیجئیے گا۔ زبردستی کے رشتوں کے انجام سے بخوبی واقف ہیں آپ۔” احمد صاحب نے سائیڈ ٹیبل پر رکھی کتاب اٹھاتے ہوئے کہا ۔ جانتے تھے کہ بحث لاحاصل ہے سو سمیٹنے میں ہی عافیت جانی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اپنے کمرے میں بیٹھی چائے پینے کےساتھ ساتھ ٹی وی دیکھ رہی تھی کہ اس کا موبائل بجا۔ اس نے اٹھاکر دیکھا تو درِافشین کا نام جگمگا رہا تھا ۔اس نے کال ریسو کر کے کان سے لگایا۔
“ہاں بولو افشی؟”
“فوراً کیٹس ہاؤس پہنچو۔” دوسری طرف سے اس کی سنجیدہ آواز سنائی دی۔
“اس وقت خیریت؟” اس نے تشویش سے وال کلاک کی طرف دیکھا جو رات کے گیارہ بجا رہی تھی۔
“ہے بھی اور نہیں بھی۔ تم بس فوراً آؤ مزید یہاں آ کر بات کر لیں گے۔” افشین نے اس کا جواب سنے بغیر فون کاٹ دیا۔
“پاگل ہے یہ لڑکی بھی۔ بندہ کچھ تو بتا دے۔” وہ اس کا رویہ سوچتے ہوئے بڑبڑائی۔ چند پل تک بیٹھے رہنے کے بعد وہ اٹھ چینج کرنے کی غرض سے واش روم چلی گئی۔ چینج کر کے نکلی تو اس نے الماری سے اپنی پسٹل اٹھا کر اپنی بیک پر جینز میں اڑس کر جیکٹ پہنی اور بیڈ سے فون اٹھا کر پاکٹ میں ڈالتی باہر نکل گئی۔ ابھی وہ داخلی دروازے پر پہنچی ہی تھی کہ نوشین بیگم نے اسے روکا۔
“خیریت! بیٹا اس وقت کہاں جا رہی ہو؟”
؎پتا نہیں آنٹی۔ افشی کا فون آیا تھا کیٹس ہاؤس پہنچنے کا کہا ہے۔”
“”سب ٹھیک ہے نا؟” انہوں نے فکرمندی سے پوچھا۔
“نہیں معلوم۔ وہاں جا کر ہی پتا چلے گا۔” اس نے عام سے لہجے میں کہا۔
“ٹھیک ہے! جاؤ اور اپنا خیال رکھنا اور اگر کوئی مسئلہ ہو تو مجھے یا اپنے انکل کو لازمی بتانا۔”
“اوکے۔” دانین کہتی ہوئی باہر کی طرف بڑھی۔
“فی امان اللہ۔” انہوں نے آہستگی سے کہا اور تب تک وہیں کھڑی رہیں جب تک گاڑی سٹارٹ ہونے کی آواز نہ آئی۔ کچھ پل گزرنے کے بعد انھیں گاڑی کے سٹارٹ ہونے اور تیزی سے ٹائر چرچرانے کی آواز سنائی دی اور وہ سنتے ہی مطمئن سی اپنے کمرے میں چلی آئیں۔
“اس وقت باہر کون گیا ہے؟” احمد صاحب جو کتاب پڑھنے میں محو تھے گاڑی کی آواز سن کر نوشین بیگم سے استفسار کرنے لگے۔
“دانین گئی ہے۔” نوشین بیگم نے جواب دیا۔
“خیریت۔” انہوں نے چونک کر پوچھا۔
” پتہ نہیں، کہہ رہی تھی کہ افشی کا فون آیا ہے فوراً پہنچنے کا بولا ہے۔”
“اللہ خیر کرے” وہ بڑبڑائے۔
“آپ فکر مت کریں ۔ میں نے اسے کہا ہے کہ کوئی ایسی ویسی بات ہو تو بتا دے مجھے۔” نوشین بیگم نے ان کو پریشان ہوتا دیکھ کر تسلی دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی گاڑی کیٹس ہاؤس کے گیٹ کے سامنے رکی تو اندر ہال میں اسکرین پر دیکھتی افشین نے گیٹ کھول دیا۔ اس نے گاڑی لا کر گیراج میں روکی اور نکل کر تقریباً بھاگتے ہوئے اندر آئی جہاں اشعر اور افشین پہلے سے موجود تھے۔
“سب ٹھیک ہے نہ؟” اس نے بغیر سلام دعا کیے پوچھا۔ اس کے چہرے پر چھائی سنجیدگی اور تشویش دیکھ کر افشین نا محسوس انداز میں اٹھ کھڑی ہوئی۔ اشعر نے اس کو دیکھ کر بے اختیار مسکراہٹ دبائی۔
“کیا ہوا ہے؟” ان کو خاموش دیکھ کر اس نے دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے پھر سوال کیا۔
“بتاتے ہیں تم بیٹھو تو صحیح۔” افشین نے دانت نکالتے ہوئے کہا۔
“افشی مجھے ٹینشن ہورہی ہے۔ اشعر تم بتاؤ کیا بات ہے؟” اس نے دونوں کو گھورتے ہوئے کہا۔
“آآآآآآ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ خاص نہیں۔ بس کافی دن ہوگئے تھے ملے ہوئے تو میں نے سوچا کیوں نہ مل بیٹھ کر بریانی کھائی جائے تو بس میں نے فوراً اپنی سوچ پر عمل کرتے ہوئے یہاں آکر بریانی بنائی اور پھر تم دونوں کو کال کر دی۔” افشین نے ایک ہی سانس میں اپنی بات مکمل کر کے دانین کو دیکھا جو اب ہونق بنی کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔
“افشی کی بچی! تم۔۔۔۔۔۔ تم فون پر بتا تو سکتی تھی نا، میں سارے راستے پریشان ہوتی ہوئی آئی ہوں کہ پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے جو یوں ایمرجنسی میں بلایا ہے ۔” دانین نے دانت پیستے ہوئے اسے لتاڑا۔
“ہاں جیسے میں بتاتی اور تم آ جاتی ۔” اس نے منہ بنایا۔
“شٹ اپ افشی۔” وہ کہتے ہوئے گرنے والے انداز میں صوفے پر بیٹھی۔
“بہت شکریہ۔” افشین نے سر کو خم دیا تو وہ ناچاہتے ہوئے بھی مسکرا دی ۔ افشین بھی اس کو مسکراتا دیکھ کر کھل کر ہنس دی۔
“ایڈیٹ۔” دانین نے مسکراتے ہوئے کہا
“اب بریانی تو دو نہ” اس کو ہنستا دیکھ کر اس نے کہا ۔ اس نے کچن سے بریانی کی پلیٹ لا کر اس کے سامنے رکھی۔ ابھی دانین نے پلیٹ کی جانب ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اس کا موبائل بجا۔
“”انکل کا فون۔” اس نے نمبر دیکھتے ہوئے کہا اور کال اٹھائی۔
“جی انکل سب خیریت ہے۔ افشین نے ایسے ہی مذاق میں کال کی تھی۔ میں ایک گھنٹے تک آجاؤں گی آپ بے فکر ہو کر سو جائیے ۔” اس نے دوسری طرف سے احمد صاحب کے کچھ پوچھنے سے پہلے ہی انہیں تفصیل سے آگاہ کیا۔ جانتی تھی کہ نوشین بیگم نے انہیں اس کے اچانک باہر جانے کا بتایا ہوگا تو انہوں نے اسی وجہ سے کال کی ہے۔
“یہ افشین نہیں سدھرے گی ۔ بہرحال جلدی گھر آجانا۔” انہوں نے پرسکون سانس لیتے ہوئے اسے جلدی گھر آنے کی تاکید کی۔
“اوکے خدا حافظ” اس نے کہتے ساتھ ہی فون رکھ دیا۔
وہ تینوں کھانا کھانے کے ساتھ ساتھ ادھر ادھر کی باتیں کر رہے تھے کہ اچانک افشین پلیٹ میز پر رکھتے ہوئے تالی بجاتے ہوئے چہکی۔
” آئیڈیا”
“ناٹ اگین۔” دانین نے اسے آنکھیں دکھائیں۔
تم سنو تو سہی۔ ہم تمہارے ہونے والے فیانسی کو کال کرتے ہیں ۔””
“کس خوشی میں؟”
“خوشی تو کوئی نہیں ہے بس ایسے ہی چیزہ لیتے ہیں۔” وہ آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے چہکتی ہوئی بولی۔
“تمہارے چیزے میں وہ بےچارہ بے شک اس کے ہاتھوں مارا جائے ۔” اشعر نے ہنستے ہوئے کہا۔
“آرام سے بیٹھو سمجھیں، خبردار جو کوئی ایسی حرکت کی تو۔” دانین نے اسے گھرکا۔
“پلیز نا بس ایک کال ہی تو کرنی ہے۔” اس نے فوراً چہرے پر مسکینیت طاری کی۔
” اور اگر بعد میں اس نے تمہیں کال کر کے تنگ کیا یا تمہاری ڈیٹیلز نکلوا لیں پھر؟”
“میں دوسرے نمبر سے کال کروں گی نا” اس نے جھٹ سے حل پیش کیا۔
“افشی وہ اس کام کے لیے نہیں ہے ۔” اس نے نفی میں سر ہلایا۔
“پلیز نا بس ایک بار؟” اس نے ملتجی لہجے میں کہا اور اس کی ہاں نہ کا انتظار کئے بغیر فون اٹھا کر لائی اور اس کا فون اٹھا کر نمبر ڈائل کرنے لگی ۔ کچھ دیر تک بیل جانے کے بعد ارتضی نے فون اٹھا لیا۔
“ہیلو۔” اس کی نیند میں ڈوبی آواز سن کر افشین نے شرارت سے مسکراتے ہوئے دانین کو دیکھا۔
“ہائے۔” اس نے ایک ادا سے کہا۔
“کون؟” دوسری جانب سے پوچھا گیا۔
“مجھے چھوڑو، تم اپنا سناؤ ۔ کیسا ہے میرا شونا بابو ۔” اس نے جس لاڈ سے کہا ،ارتضی پل بھر کو خاموش ہوگیا۔
“لگتا ہے میرا سویٹی ہینگ ہوگیا ہے؟” اس نے بچوں کی مانند منہ بسورا۔ دانین کے منہ سے پانی فوارے کی شکل میں باہر نکلا۔ اس سے پہلے اس کی کھانسی کی آواز دوسری طرف سنائی دیتی وہ جلدی سے ریسور پر ہاتھ رکھ گئی۔
“محترمہ ! آپ بتائیں گی آپ کون ہیں اور کس سلسلے میں کال کی ہے۔” ارتضی کی سخت آواز پر اب کی بار افشین کی سٹی گم ہوئی مگر اگلے ہی لمحے خود کو سنبھالتے ہوئے پھر سے گویا ہوئی۔
“اوہ کم آن ڈارلنگ ایسا تو نہ کہو۔ تم نہیں جانتے جب سے تمہیں دیکھا ہے مجھے دن کو نیند نہیں آتی البتہ رات کو جی بھر کے سوجاتی ہوں اور نہ ہی رات کو بھوک لگتی ہے ۔ چین و سکون جیسے کوئی چھین کر لے گیا ہے۔” اس نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے افسردگی سے کہا۔
“آپ شاید رات کے اس پہر مذاق کے موڈ میں ہیں مگر میں بالکل بھی نہیں اس لیے خدا حافظ۔” ارتضی نے کہتے ساتھ ہی کھٹاک سے لائن کاٹ دی۔
“ہیں؟ کاٹ دیا ۔” افشین نے حیرت سے پہلے فون کو اور پھر ان دونوں کو دیکھا جو ہنس رہے تھے۔
“اس کی ایسی کی تیسی میرا فون کاٹ دیا ۔” اس نے غصے میں دوبارہ نمبر ڈائل کیا۔
“کیا مسئلہ ہے؟” دوسری طرف سے ارتضی کی جھنجھلاتی آواز سنائی دی۔
“میرا مسئلہ تو تم ہو۔” اس نے محبت سے چور لہجے میں کہا۔
“لگتا ہے پاگل خانے والے فون پاگل کے حوالے کر کے خود سو چکے ہیں۔” وہ جھلا کر بولا۔
“پاگل تو میں ہوں وہ بھی تمہارے لیے۔” افشین نے لگاوٹ سے کہا۔
“جسٹ شٹ اپ! خبردار جو اب دوبارہ مجھے فون کیا تو۔” ارتضی غصے میں غراتے ہوئے بولا۔
“ارے مگر میرے سکون اور چین کا کیا؟” افشین جلدی سے بولی مبادا وہ دوبارہ فون بند نہ کر دے۔
“بی بی جو لے گیا ہے اس کو پکڑو۔ میرا دماغ کیوں چاٹ رہی ہو۔” وہ کہتے ہوئے کھٹاک سے اپنا فون ہی سوئچ آف کرگیا ۔ وہ منہ بگاڑتی فون کو دیکھنے لگی ۔ لاؤنج دانین کےکھنک دار قہقے سے گونج اٹھا جس میں اشعر کا قہقہ بھی شامل تھا۔
“لوگوں کی بے عزتی ہوتی ہے تمہاری تو بےعزتی بھی خراب ہوگئی ہے۔” دانین نے ہنستے ہوئے اسے چھیڑا۔
“بندہ اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ کافی وفادار لگتا ہے ۔” وہ جل کر بولی۔
“چلو شکر ہے ایک پر ہی اکتفا کیا ہوا ہے ۔اس ایک تو میں سنبھال لوں گی ورنہ مجھے لگ رہا تھا کافی محنت کرنا پڑے گی ۔” دانین نے کہا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔
” چلو آجاؤ تم لوگوں کو ڈراپ کر دوں گی۔”
” تم لوگ جا کر گاڑی میں بیٹھو ۔ میں حفاظتی سسٹم آن کر کے آتا ہوں۔” اشعر اندر کی طرف جاتے ہوئے بولا تو وہ دونوں باہر نکل گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھٹیوں کی وجہ سے وہ زیادہ تر گھر میں ہی ہوتی تھی۔ کبھی کبھار درِافشین کے ساتھ باہر چلی جاتی یا پھر فروا بھابھی کےساتھ کچن میں کام کروا دیتی۔ اس دن ان دونوں بہن بھائیوں کے شک کا اظہار کرنے کے بعد وہ رابیل سے تھوڑا فرینک ہوگئی تھی۔ وہ بھی اب اس سے بلا جھجھک باتیں کر لیا کرتی تھی ۔ اکھٹے باہر آنا جانا، گھومنا پھرنا اور شاپنگ کرنا غرض کہ ان کی خاصی دوستی ہوچکی تھی۔
اس وقت وہ لاونج میں بیٹھی ٹی وی پر کوئی ٹاک شو دیکھ رہی تھی۔ رابیل اپنے کمرے میں تھی اور نوشین بیگم کلینک گئی ہوئیں تھیں۔ فروا بھابھی کچن میں چائے بنا رہی تھیں۔ احمد صاحب بھی پاس ہی بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے کہ ان کا فون بجا۔ فون کی آواز پر دانین نے ٹی وی کی آواز ہلکی کردی اور احمد صاحب کو دیکھنے لگی جو اب کسی سے بات کر رہے تھے۔ دوسری جانب سے جانے کیا کہا گیا کہ وہ ایک دم سے پریشان نظر آنے لگے۔فون ہاتھ میں پکڑے وہ کچھ دیر تک پریشانی کے عالم میں وہیں بیٹھے رہے۔
“کیا بات ہے انکل؟ کچھ ہوا ہے؟” دانین نے ان کو پریشان دیکھ کر پوچھا۔
“نہیں کچھ نہیں آ کر بات کرتا ہوں۔” وہ اس کو ٹالتے ہوئے اٹھ کر جلدی سے باہر نکل گئے۔
“کمال ہے۔” وہ بڑبڑاتی ہوئی دوبارہ ٹی وی کی جانب متوجہ ہوگئی۔ ابھی احمد صاحب کو گئے تقریبا بیس منٹ ہی گزرے تھے کہ دانین کو ان کا میسج ملا جس میں وہ اسے اپنے آفس بلا رہے تھے ۔ وہ اٹھ کر کمرے میں آگئی ۔ اگلے دس منٹ میں بلیو جینز پر وائیٹ ٹی شرٹ پہنے کندھوں سے تھوڑا نیچے جاتے بالوں کو سمیٹ کر پونی لگائے وہ شیشے کے سامنے تیار کھڑی تھی ۔ دراز سے پسٹل نکال کر اس نے بیک پر لگائی اور ٹی شرٹ کو اچھے سے ایڈجسٹ کیا۔ الماری سے اپنی واچ ٹرانسمیٹر نکال کر کلائی پر باندھی اور ایک بار پھر خود پر طائرانہ نگاہ ڈالتے ہوئے گلاسز اٹھا کر آنکھوں پر لگاتے ہوئے کمرے سے نکلی ۔ آخری سیڑھی پر اس کا اپنے کمرے میں جاتے ارتضی سے ٹکراؤ ہوا۔ اس کو دیکھ کروہ بے اختیار ٹھٹھک کر رکا۔
” آپ کہیں جا رہی ہیں؟”
“جی ایک کام سے جا رہی ہوں۔” دانین نے مختصر جواب دیا۔
“میں ڈراپ کر دوں؟” اس نے فوراً آفر کی۔
“کیوں؟” دانین نے دایاں ابرو اچکایا۔ اس کے سنجیدہ انداز پر وہ گڑبڑا گیا۔
” نہیں ۔۔۔۔۔۔ وہ میں تو ایسے ہی ۔”
“مذاق کر رہی تھی میں خود چلی جاؤں گی، دراصل مجھے دو تین جگہوں پر جانا ہے سو آپ کو زحمت ہوگی ۔” اس کو خجل ہوتا دیکھ کر اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
“جیسے آپ کی مرضی ۔” اس نے ایک طرف ہو کر گزرنے کا راستہ دیا تو وہ شکریہ کہہ کر نیچے چلی گئی ۔” وہ بھی کندھے اچکاتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
“دانین آپی آپ کہیں جا رہی ہیں؟” ابھی وہ آخری سیڑھی پر ہی پہنچی تھی کہ پیچھے سے رابیل کی آواز آئی۔
“جی بچے ایک ضروری کام سے جا رہی ہوں۔ تم کیوں پوچھ رہی ہو ؟” دانین نے سن گلاسز اتارتے ہوئے پوچھا۔
“آپ بھول گئیں؟” رابیل نے اسے خفگی سے دیکھا۔ دانین نے اپنے ذہن پر زور دے کر یاد کرنا چاہا مگر ناکام رہی۔
“سوری میں واقعی ہی بھول گئی ۔تم بتا دو۔” اس نے ایک ہاتھ سے اپنا کان پکڑا
“آپ نے وعدہ کیا تھا کہ آپ اس سنڈے ہمارے ساتھ شاپنگ پرجائیں گی۔ آج سنڈے ہے اور آپ صبح صبح ہی اپنے کام سے جا رہی ہیں ۔” اس نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔
“اُف ! میں واقعی ہی بھول گئی تھی۔” دانین نے ماتھے پر ہاتھ مارا۔
” سوری چندا مجھے بہت ضروری کام سے جانا ہے۔ پھر کبھی سہی۔”
بالکل بھی نہیں ۔ مجھے آج ہی جانا ہے اور جانا ہے ورنہ نہیں۔ میں کتنی ایکسئاٹیڈ تھی اور تو اور میں نے شاپنگ لسٹ بھی بنا لی ہے اور آپ عین موقع پر منع کر رہی ہیں ۔” اس نے شکایتی انداز میں اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
“اچھا بابا چلو مگر زیادہ سے زیادہ دو گھنٹے ۔ ان دو گھنٹوں میں تم جتنی شاپنگ کر سکتی ہو کر لینا اس کے بعد واپس گھر آنا ہے۔” دانین نے واپس اندر کی طرف مڑتے ہوئے کہا۔
“ٹھیک ہے آپ جائیں جہاں بھی جانا ہے۔ مجھے آپ کے ساتھ نہیں جانا ۔” وہ پیر پٹختی جانے کو پلٹی۔
اوکے فائن ۔ جاؤ تیار ہوجاؤ اور ارسل اور ایان کو بھی لے آؤ چلتے ہیں ۔” وہ گہری سانس لیتے ہوئے لاونج میں آ کر بیٹھ گئی۔
” بری بات ۔” فروا بھابھی نے اس کو مسکراتے ہوئے خود کو داد دیتے دیکھ کر ٹوکا مگر وہ ان سنی کرتی ارسل کے کمرے کی طرف بھاگی ۔
“بلیوجینز وائیٹ ٹی شرٹ۔ میرے میک اپ میں مجھے شاپنگ مال میں ملو۔” اس نے افشین کو میسج کیا۔ کچھ لمحوں بعد ہی اس کا “اوکے مگر ایک گھنٹے بعد” کا میسج دیکھ کر وہ مطمئن ہو کر رابیل کا انتظار کرنے لگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“آج ہمیں ساری شاپنگ آپ کروائیں گی ۔” مال میں اینٹر ہوتے ہی رابیل نے کہا۔
“”شیور ۔” اس نے مسکراتے ہوئے فراخدلی سے کہا ۔
وہ تینوں اس کے آگے آگے تھے اور وہ ان کے پیچھے۔ ان کے ارادوں سے لگ رہا تھا کہ جیسے آج ہی سارا مال خرید کر جائیں گے۔ ان کو ایک دکان سے دوسری دکان میں جاتا دیکھ کر دانین نے اس وقت کو کوسا جب اس نے رابیل کا دل رکھنے کے لیے حامی بھری تھی۔ اسی اثناء میں اس کا موبائل بجنے لگا تو اس نے چونک کر ہاتھ میں پکڑا موبائل دیکھا۔ نام دیکھتے ہوئے اس نے ایک کونے میں جا کر فون رسیو کر کے کان سے لگایا۔
“ہاں؟” اس نے بغیر کسی توقف سے پوچھا۔
“میں پہنچ گئی ہوں ۔” دوسری طرف سے کہا گیا۔
“سیکنڈ فلور پر آجاؤ۔ میں ویٹ کر رہی ہوں ” دانین نے آہستگی سے کہا۔
“اس کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے پاس تمہاری ایگزیکٹ لوکیشن شو ہو رہی ہے ۔ میں پہنچ جاؤں گی ۔ تم نکلو وہاں سے ۔””
“اوکے ۔” دانین رابیل کو پانچ منٹ میں آنے کا کہہ کر دکان سے نکل گئی ۔
“یار یہ دانین آپی کہیں واپس تو نہیں چلی گئیں؟” وہ جب کافی دیر بعد بھی نہ لوٹی تو ارسل نے کاونٹر پر کھڑی رابیل سے کہا۔
“کہہ تو رہی تھیں پانچ منٹ میں آجائیں گی ۔ خیر تم پے منٹ کرو آجاتی ہیں وہ بھی ۔” رابیل نے ارسل سے کہا اور پھر منتظر نگاہوں سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔
“شکر ہے میرے پاس پیسے ہیں اگر ان پر رہتے تو آج بےعزت ہی ہونا تھا ۔” ارسل نے بڑبڑاتے ہوئے پےمنٹ کی اور شاپنگ بیگز اٹھا کر باہر کی طرف بڑھا۔ اس کے پیچھے ہی رابیل بھی ایان کی انگلی پکڑے دکان سے نکلی۔
“کچھ دیر یہی ٹھہر کر انتظار کر لیتے ہیں ۔ آپی واپس آئیں تو ہمیں نہ پا کر پریشان ہوں گی ۔” رابیل نے کہا اور وہ تینوں ایک طرف کھڑے ہو کر اس کا انتظار کرنے لگے ۔کچھ ہی دیر بعد وہ جیکٹ میں ہاتھ ڈالے آتی دکھائی دی۔
سوری بچو! میں تھوڑا لیٹ ہوگئی۔ اب سے میرا سارا ٹائم تمہارا ۔جو لینا ہے لو ۔اب جب تک تم لوگ نہیں کہو گے ہم گھر کی طرف رخ بھی نہیں کریں گے ۔” اس نے مسکراتے ہوئے دانین کی ہی آواز میں کہا۔ٹرینینگ کے دوران چونکہ انہیں آواز بدلنے اور پلاسٹک میک اپ کر کے کسی کا بھی حلیہ اختیار کرنے کی خاص تربیت دی جاتی تھی اور دانین اور افشین کا قد کاٹھ بھی تقریبا ایک جیسا ہی تھا تو انہیں ایک دوسرے کا حلیہ اپنانے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی تھی اور وہ اکثر اوقات بدلتی بھی رہتی تھیں خاص طور پر جب افشین کو کہیں لمبا جانا ہوتا تو دانین اس کے میک اپ میں اس کی جگہ اس کے گھر پہنچ جاتی تھی
رابیل نے اس کا جائزہ لیتے ہوئے کہا “آپ کچھ چینج لگ رہی ہیں ۔”
“ارے ہاں یہ جیکٹ کہاں سے آئی پہلے تو آپ نے نہیں پہنی ہوئی تھی ؟” رابیل نے حیرت سے پوچھا۔
ہاں واقعی ہی پہلے تو نہیں تھی ۔”ارسل نے بھی تائید کی ۔ان دونوں کی تفتیش سے اس کو اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوا اور اگر جو دانین کو پتہ چل جاتا تو اس کی شامت پکی تھی ۔وہ تو شکر تھا کہ وہ اس سے ملے بغیر ہی مال سے چلی گئی تھی۔
“ارے بھئی ہم لوگ شاپنگ مال میں کھڑے ہیں ۔ ایک دکان کے سامنے سے گزرتے ہوئے نظر پڑی اور مجھے پسند آگئی تو میں نے لے لی ۔ اسی لیے تو میں لیٹ بھی ہوئی ہوں۔” افشین نے جلدی سے بات بنائی۔
“اچھا! ویسے بہت پیاری ہے ۔ آپ چلیں اسی دکان پر مجھے بھی سیم ویسی ہی لینی ہے۔” ایک تو چمڑے کی جیکٹ دوسرا سیاہ رنگ ۔ رابیل تو مچل ہی اٹھی تھی۔
“اب تو مجھے یاد بھی نہیں ہے کہ کس دکان سے لی تھی۔جلدی میں تھی نا۔ چلو کوئی بات نہیں ہم کہیں اور سے پتہ کرتے ہیں ۔ایسی بہت سی مل جائیں گی ۔” افشین نے بظاہر مسکرا کر کہا اور اس کو کچھ بھی بولنے کا موقع دیے بغیر اس کا ہاتھ تھام کر آگے چل دی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کمرے میں داخل ہوئی تو احمد صاحب ، نوشین بیگم اور اشعر کے ساتھ دو لوگ اور بھی تھے جن میں ایک ادھیڑ عمر اور ایک نوجوان تھا۔ سربراہی کرسی پر بیٹھے احمد صاحب کسی گہری سوچ میں غرق تھے ۔ اجنبی چہرے بھی خاصے پریشان دکھائی دے رہے تھے ۔ اس نے اندر داخل ہوکر دروازہ بند کیا تو سب چونک کر اپنے اپنے خیالوں سے باہر نکلے ۔ وہ سن گلاسز اتارکر میز پر رکھتی کرسی گھسیٹ کر احمد صاحب کے سامنے بیٹھ گئی
“یہاں پر تو سب ہی یوں بیٹھے ہیں گویا سب کچھ لٹا پٹا کر آئے ہوں۔” اس نے ایک نظر سب کو دیکھتے ہوئے ہلکے پھلکے انداز میں کہا ۔ کسی کی بھی جانب سے کوئی جواب نہ پا کر اس نے سوالیہ نگاہوں سے روحان کی طرف دیکھا ۔اس نے جواباً آنکھ کے اشارے سے کچھ بھی کہنے سے منع کیا تو اس نے سمجھ کر سر ہلا دیا۔
“خیریت سر؟ کافی پریشان دکھائی دے رہے ہیں ۔” وہ ماحول کی سنگینی دیکھتے ہوئے سنجیدہ ہوئی۔
“بات ہی پریشانی کی ہے دانین۔” انہوں نے آہستگی سے کہا۔
“ڈی اے کے ہوتے کاہے کو روتے۔” اس نے کالر اچکائے۔
“مگر اس وقت تم مجھے ڈی اے لگ نہیں رہی ہو۔” انہوں نے اسے آنکھیں دکھائیں۔
آپ کچھ بتائیں گے تو ہی پتہ چلے گا نہ ۔””
“مجھے لگتا ہے اب ہمارے اڈے سیف نہیں رہے۔” انہوں نے پُرسوچ انداز میں کہا۔
“اور آپ کو ایسا کیوں لگا۔” دانین نے ان کی بات پر حیرت سے پوچھا۔
” وہ اس لیے کہ اٹیک ہوا ہے ۔”
“واٹ۔۔۔” وہ ایک دم سے اچھلی۔”
“آپ ۔۔۔ آپ کیا بول رہے ہیں؟ اٹیک اور وہ بھی ہمارے اڈوں پر؟ یہ ممکن بھی کیسے ہو سکتا ہے۔” حیرت اور بےیقینی کے مارے وہ کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
“مجھے بھی لگتا تھا کہ ہماری ساری جگہیں محفوظ ہیں مگر کل والے واقعے کے بعد میری سوچ بھی بدل گئی ۔ اب ہمیں نئے سرے سے سب کچھ سوچنا اور ترتیب دینا پڑے گا۔” احمد صاحب نے پرسوچ انداز میں کہا۔ باقی سب خاموشی سے بیٹھے انہیں سن رہے تھے۔
“وہ سب کچھ بعد میں دیکھیں گے۔ اس سے پہلے مجھے اس بات کا یقین کر لینے دیں کہ جو میں نے سنا ہے وہ سچ ہے۔” وہ بے چینی سے اپنی پیشانی مسلتے ہوئے بولی۔
“تم نے یہ تو پوچھا ہی نہیں کہ کون سے اڈے پر حملہ ہوا ہے؟” احمد صاحب نے کرسی گھماتے ہوئے ترچھی نظر سے ایک طرف بیٹھے دونوں نئے لوگوں کو دیکھا۔۔ اس کے آجانے سے وہ کچھ حد تک نارمل ہوگئے تھے کہ وہ خود ہی اس مسئلے کی وجہ اور حل ڈھونڈ لے گی۔
“کون سا؟” اس نے سوالیہ نگاہوں سے انہیں دیکھا۔
“کیٹس ہاؤس ۔” انہوں نے گویا اس کے سر پر بمب پھوڑا۔ وہ جو ٹیبل پر ہاتھ ٹکائے ان کے جواب کی منتظر تھی لڑکھڑا کر رہ گئی ۔ اس کی گہری سیاہ آنکھوں میں بے یقینی ہی بے یقینی تھی۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...