اب پیچھے رہنے سے کام چلنے والا نہیں تھا۔ اپنی ہی بات پر بے سود اڑے رہنے سے کوئی فائدہ نہیں تھا۔ فلمی دنیا میں بولتی فلموں کے وجود کو قبول کرنےکے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ بولتی فلموں کے مقبول ہونے کے دو کارن تھے۔ پہلا تھا ہمارے دیس میں بےانتہا ناخواندگی۔ ان دنوں ممکنہ طورپراسّی نوےفیصد لوگ ان پڑھ تھے۔ خاموش فلموں میں مکالموں کی جو تختیاں دکھائی جاتی تھیں،اَن پڑھ عوام انہیں پڑھ نہیں پاتی تھی۔اس لئے وہ خاموش فلموں کا آدھےسےزیادہ لطف نہیں لےپاتی تھی۔ اس کے برعکس بولتی فلموں کے سبھی مکالمےسیدھاسنائی دینےکی بدولت وہی اَن پڑھ عوام بولتی فلموں کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ ہوتی تھی۔ اس کےعلاوہ بولتی فلموں میں دوسرا چارم تھا سنگیت کا۔ سنگیت بھارتی جیون کے ساتھ اس طرح گُھلا ہے کہ گھر گھر میں جنم سے لےکرموت تک ہر موقع پر گائے جانے والے گیت ہر صوبےکی زبان میں ہوتےہیں۔ خوشی کے موقع پر تو گانےاور ناچنے کا انعقاد بھارتی ثقافت کی رِیت رہا ہے۔ لہذاہم نے بھی اپنی فلموں کو ‘آواز’ دینے کا فیصلہ کیا۔
ایک بار فیصلہ کر لینے کے بعد پھر تاخیر کرنا ہمیں پسند نہیں تھا۔ہم نےفوراًاپنے ڈسٹری بیوٹرزسے کہا اورامریکہ سےطرح طرح کی ساؤنڈ مشینوں کی معلومات منگوالیں۔ بھارت میں جو پہلی بولتی فلم ‘عالم آرا’ بنائی گئی تھی، اس میں اوردیگر بولتی فلموں میں بھی، منظر فلمانےکے کیمرے میں ہی فلم کے ایک کنارے پر ساؤنڈ ریکارڈربھی ہوتا تھا۔ لہذا بولنے والوں کے ہونٹوں کی حرکات کے ساتھ ہی ان کی آواز بھی بے عیب میل کھاتی تھی۔اس میں کوئی غلطی نہیں ہو پاتی تھی۔ لیکن اس میں ایک خرابی یہ تھی کہ ایڈیٹرکو پوری آزادی نہیں مل پاتی تھی۔ ہم نے سوچا کہ اچھا ہواگر ساؤنڈریکارڈ کا انتظام کیمرے میں ہی نہ ہو،الگ ہو۔ شوٹنگ اورساؤنڈ ریکارڈ الگ الگ فلموں پر کیا جائے تاکہ ڈائریکشن اورایڈیٹنگ میں کافی آزادی مل سکے۔ اسی لئے ہم لوگوں نے طے کیا کہ ساؤنڈ ریکارڈنگ کی آزاد سہولت والی’آڈیو کمیکس’ نامی مشین منگوائی جائے۔ اس نظام میں سہولت یہ تھی کہ ساؤنڈ ریکارڈر اورکیمرہ ایک ہی ساتھ، ایک ہی رفتار میں چلائے جا سکتے تھے اور اس طرح دوگنی رفتار یعنی اِنٹرلاک موٹرزہمیں دستیاب ہوتے تھے۔
داملے ممبئی گئے۔ وہاں انہوں نے آڈیو کیمیکس ساؤنڈ ریکارڈر کے بارےمیں باریکی سےپوچھا اور ہمارے ڈسٹری بیوٹر بابوراؤ پینڈھارکرسے ساری مشینری امریکہ سے منگوانے کے لیے کہا۔ وہ مشینری جہاز کے ذریعے بھارت میں آنے میں چار مہینے لگنے والےتھے، خوش قسمتی سے اسی وقت کولہاپورمیں بجلی آ گئی، شہرکی مخصوص امیر بستیوں میں اورہائی وے پر بجلی کے دیپ روشن ہوگئےتھے۔ ہمارانیا کیمرہ اور ساؤنڈ ریکارڈر چلانے کے لیے ضروری بجلی بالکل صحیح وقت پر دستیاب ہو گئی تھی۔
اب تو کمپنی کا کام کافی بڑھ گیا تھا۔ پرانا ٹھکانہ اب ناکافی ہونے لگاتھا۔ وہ مقام بھی کولہاپور کی بیچ کی بستی میں تھا۔ وہاں ہمیشہ شوروغل ہوتا ہی رہتاتھا۔ اب ہمیں بولتی فلموں کو فلمانا تھا۔ یعنی کرداروں کے مکالمےاورگانے بھی ریکارڈ کرنے تھے۔ لہذافلمانے کے لئے شانت احاطے کی ضرورت تھی۔
مہاراشٹر فلم کمپنی کی پہلی ساجھےدارشریمنت تانی بائی کاگلکرکےگاؤں کےباہر کافی بڑے احاطے والا ایک بنگلہ تھا۔ ہمیں وہ ہرنقطہ نظر سے بہت ہی با سہولت لگا۔ اس بیچ تانی بائی نے مہاراشٹر فلم کمپنی سے اپنی ساجھےداری ہٹا لی تھی۔ پھر وہ ہمارے کیشوراؤ دھایبرکی نزدیکی رشتےدار بھی تھیں۔ نتیجتا ًوہ جگہ ہمیں مناسب کرائے پر مل گئی۔
فوراً ہی نئی جگہ پر ہم نے اپنا نیا سٹوڈیو بنانے کا کام پرشروع کر دیا۔ اس بار ہم نے سٹوڈیو پر کپڑے کی چھت نہیں ڈالی، اُس کے بجائے دھندلے شیشوں کا استعمال کیا۔ سین کھڑے کرنے والے بڑھئیوں کے لئے ایک بڑی سی جگہ پرچھت لگوا دی۔ مرکزی بنگلے میں میک اپ روم اور کاسٹیوم کےلئے الگ کمرے طے کر دیئے۔ کیمیکل روم، ایک اچھا بڑا سا کارخانہ، بابوراؤ پینڈھارکر کے لئے ایک مینجمنٹ روم، اداکاری اور سنگیت کی مشق کرنے کے لئےدودیوان خانوں وغیرہ کا بھی پربندوبست کردیا۔ اس کے علاوہ میوزک ڈائریکشن کے لئے ایک الگ کمرہ دیا۔ اس طرح سے وہ نیا بنگلہ ہم نے اپنی کمپنی کے متنوع کاموں کے لئے آراستہ کیا۔
ہماری پہلی بولتی فلم کے لیے موضوع زیر بحث آیا۔ بچپن میں، میں نے حق پرست راجا ہریش چندر کے جیون پر مبنی’ستوپریکشا’ نامی ایک ناٹک دیکھا تھا۔اس کہانی نے مجھے بہت ہی متاثرکیا تھا۔ معصوم من پراس کی انمٹ چھاپ پڑی تھی۔ بعدمیں خاموش فلموں کے نقش اول داداصاحب فالکے کی بنائی’راجا ہریش چندر’فلم بھی میں نے دیکھی تھی۔ اس وقت تو وہ مجھے بہت ہی ڈھیلی لگی تھی۔ اب میں سوچنے لگا کہ ایک ہی کہانی پر لکھے گئے ناٹک اور بنائی گئ خاموش فلم کا متضاداثر میرے من پر کیوں پڑا تھا؟ میں اسی نتیجہ پرپہنچاکہ ناٹک میں مکالمےتھے، اسی لئے اس کا اثر پڑتا تھا۔ خاموش فلم میں لکھے ہوئے مکالمے ناظرین کو پڑھنے پڑتے تھے، جن کا کوئی اثر ذہن پر نہیں پڑتا تھا، پڑنا ممکن بھی نہیں تھا۔ لہذاراجا ہریش چندر کی حق پرستی کو بولتی فلم کے ذریعے موثرروپ میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس نتیجہ پر پہنچتے ہی میں نے اسی کہانی کا انتخاب ہماری پہلی بولتی فلم کے لئے کیا۔ ایسے حق پرست راجا ہریش چندر کا آدرش لوگوں کے سامنے پیش کرنے سے سماجی فلموں کے آغاز کے ہمارے مقصد کواور بھی تقویت ملنےوالی تھی۔
ہم نے طے کیا کہ ہماری یہ پہلی بولتی فلم مراٹھی اور ہندی دونوں ورژن میں بنائی جائے۔ کہانی کے انتخاب کے بعد پھر ایک بارکرداروں کے انتخاب کا سوال کھڑاہوا۔ آج تک خاموش فلموں میں کامیاب رہے ہمارے کلاکاربولتی فلموں کے لئے بیکار ہوگئے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ لِلابائی چندر گڑی اور بابوراؤپینڈھارکرکےعلاوہ باقی سارے کلاکاران پڑھ ہی تھے۔ ان کے لئے رواں مکالمہ بولنا ناممکن ہی تھا۔ پھر بولتی فلموں کے اہم کرداروں کے لئے ایسے کلاکاروں کا انتخاب کرنا ضروری تھا،جو گائیکی میں بھی قابل ہوں۔
ہم اسی سوچ میں پڑے تھے کہ ایک دن مائی نے مجھے بلا بھیجا۔ اس طرح خاص بلاوا بھیجنے کی وجہ میری سمجھ میں نہیں آئی۔مجھے دیکھتے ہی مائی نے ساڑی کا پلو آنکھوں سے لگا لیا اور لگاتار بولتی ہی گئیں، بولتی ہی گئیں۔ اس کے تیسرے بیٹے وِنائک نے کالج کی تعلیم ادھوری چھوڑ دی تھی،اورکسی اعلی آدرش سے متاثر ہوکر کولھاپورکےودیاپیٹھ ہائی سکول میں بغیرتنخواہ پڑھانے کا کام شروع کیا تھا۔ مائی کا کہنا تھا، “ارے، ہم کوئی زمیندارجاگیردارتھوڑے ہی ہیں، جو یہ دیوانہ خیراتی کام کر رہا ہے؟ گھر میں تو کئی بار دو وقت کھانے کے لالے پڑ جاتے ہیں، اور اس کے یہ ڈھنگ! شانتارام، تم ذرا اسے بلا کر اچھی طرح ڈانٹواور پوچھواس سے کہ یہ کیا تماشا لگا رکھا ہے۔ اور ہاں، تم اسے اپنی فلم کمپنی میں کوئی کام دے دو۔” وِنائک پر مجھے بھی غصہ آیا۔ میں نے
بابوراؤسےپوچھا، “تم کیوں نہیں اسے آڑےہاتھوں لیتے؟”بابوراؤ نے کہا، “وہ میری کچھ نہیں سنےگا۔ وہ تو، مجھے بھی آدرشوں کی اونچی اونچی باتیں سناتا رہتا ہے۔”
وِنائک کی آمد سے نہ صرف پربھات کو، بلکہ پوری فلمی دنیا کو ایک ملٹی ٹیلنٹڈ اور قابل فن کار مل گیا۔
میں نے وِنائک کو بلا بھیجا۔ اسےکافی پھٹکارااورکھری کھری سنا دیں۔ ونائک شروع سے ہی بہت جذباتی فطرت کاآدمی تھا۔ صحیح وقت کا بیان میں نے کافی بے رحمی کے ساتھ اس کے سامنے کیا۔ میری پھٹکار بھی ممتا سے بھری ہے، مائی سے مجھے بےحد پیاراور عزت ہے، یہ باتیں اس کے دھیان میں آ گئیں اور وہ جذبات سے مغلوب ہوکر رونے لگا۔ آخر اس نے ودیاپیٹھ میں قبول کیا ہوا کام کسی اور کےذمے کر دیا اور وہ پربھات فلم کمپنی میں کام کے لئے آ گیا۔
وِنائک کی آمد سے نہ صرف پربھات کو، بلکہ پوری فلمی دنیا کو ایک ملٹی ٹیلنٹڈ اور قابل فن کار مل گیا۔ وہ گاتا بھی اچھا تھا۔ شروع میں تو وہ بطوراداکار کمپنی میں آیا۔ لیکن گائیکی میں اس کی قابلیت کی وجہ سے گائیک اداکارکےروپ میں اس نےاپنی پہلی ہی بولتی فلم میں اچھی خاصی کمائی کی۔ ‘ایودھیا کا راجا’ فلم میں وہ لڑکی بنا تھا۔ اس میں اس کا گایا گیا گانا ‘آدپرش نارائن’ گیت بہت ہی مقبول ہو گیا۔ میں نے اسے بطورمعاون ہدایت کار کام پر لے لیا۔ میں جو بھی کام بتاتا، اسے وہ پوری اطاعت سے نبھاتا۔ میری ڈائریکشن کی شوٹنگ سے اچھی طرح واقف ہونے کےبعد کئی بار ڈائریکشن کےمعاملات میں وہ کچھ سجھاؤ بھی میرے سامنےرکھنے لگا۔ میں نےپایا کہ اس کے مخصوص سجھاؤ بہت ہی عملی اورمکمل ہوتے تھے۔
گووندراو ٹیمبے
بولتی فلموں کے کارن اب فلمی دنیا میں میوزک ڈائریکشن کی ایک نئی پوسٹ تیار ہو گئی تھی۔اسے نبھانےوالےکسی اہل شخص کی ہمیں تلاش تھی۔ مشہور ہارمونیم پلیئر اور موسیقارگووندراؤٹیمبے گندھرو ناٹک منڈلی سے کافی پہلے ہی الگ ہوگئےتھے انہوں نے اپنی ایک شِوراج سنگیت ناٹک منڈلی چلائی تھی، لیکن وہ بھی اب بند ہو گئی تھی۔ لہذاکولہاپورمیں ٹیمبے جی صرف آرام کرتے تھے۔ وہ باذوق آدمی تھے، شاعر تھےاورگیتوں کو بڑی ہی مدھردُھنیں دینےمیں ماہر بھی۔ لیکن دِقت یہ تھی کہ انہیں پربھات فلم کمپنی میں مدعو کریں تو کیسے، اور کون مدعوکرے؟ بات یہ تھی کہ انہیں گووندراؤٹیمبےکی گندھرو ناٹک کمپنی میں میں کبھی نوکر تھا، اور وہ میرےمالک۔ آج پربھات فلم کمپنی میں وہ میوزک ڈائریکٹر بن کرآتے بھی ہیں، تو وہ میرے نوکر ہو جاتے۔ کیا وہ اسے قبول کریں گے ؟ دِقت یہی تھی۔ آخر کافی سوچ وچار کے بعد انہیں مدعو کرنے کا کٹھن کام ہم نے بابوراؤ پینڈھارکر پر چھوڑدیا۔ انہوں نے اس نازک گتھی کو بخوبی سلجھالیا۔ گووندراؤنےمیوزک ڈائریکشن کی ذمہ داری بخوشی قبول کی۔ وہ کمپنی میں حسب معمول آنے لگے۔ہم لوگ بھی انہیں وہی عزت واحترام دیتے تھے،جو ناٹک کمپنی کے مالک ہونے وقت انہیں ملتا تھا۔
گووند راؤ جی ٹیمبے کے واقف شری بھولے نامی ایک گائیک اداکار کو ہم نے پونا سے ہریش چندر کا کام کرنے کے لئے بلا لیا۔ اس وقت لِلابائی کی صحت ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے تارامتی کے کام کے لئے کسی اور کو لینا ضروری ہو گیا تھا۔ تبھی اخباروں میں دُرگا کھوٹے نامی ایک نوجوان لڑکی کے نام کی چرچا میں نے پڑھی تھی۔ بمبئی میں”ٹریپڈ’ نامی فلم میں اس نے کام کیا تھا۔ یہ بولتی فلم فیل ہو گئی تھی،لیکن درگا کھوٹے کے کام کی سبھی اخباروں نے بڑی تعریف کی تھی۔ مجھے اس کا خیال آیا۔
درگا کھوٹے کے والد سالسیٹرلاڈ سے گووندراؤ کا اچھا تعارف تھا۔ ان کے ساتھ میں بمبئی میں لاڈ صاحب کے گھر گیا۔ مجھے باہر کے کمرےمیں بیٹھاکرگووند راؤ درگابائی سے باتیں کرنے کے لئےاندر چلے گئے۔ درگا بائی نے ہماری کمپنی کی فلم میں کام کرنا قبول کر لیا۔تب گووندر راؤ نے مجھے اندر بلا لیا۔ میں نے انہیں کیمرے کی نظر سے غور سے دیکھ لیا، ان کا ڈیل ڈول اور شکل و صورت رانی تارامتی کے کام کے لئے ایک دم موزوں معلوم ہوئی۔ لین دین کا معاملہ اور شرائط ہم نے اسی بیٹھک میں طے کر لیں۔ رانی تارامتی کے کام کے لئے تین مہینوں کے لئے ہم نے انہیں ڈھائی ہزار روپے دینا قبول کیا۔
ہم دونوں درگابائی کے گھر سے باہر آ گئے۔گووند راؤ کہنے لگے، “درگابائی پوچھ رہی تھی اس بولتی فلم کی ڈائریکشن کون کرنے والا ہے؟” تب میں نے بتا دیا، “وہ جوباہر بیٹھے ہیں نہ، وہ کریں گے۔” اس پر انہوں نے کہا، “کون؟ وہ؟ باہر بیٹھا چھوکرا؟”
اور گووند راؤ قہقہہ لگا کر ہنسنے لگے۔
ان کی یہ باتیں سن کر میں نے کہا، “اب آئندہ بولتی فلم کے لئے کسی بھی اداکارا کے یہاں جانا ہو، تو میں کمپنی سے گھنی مونچھیں اورداڑھی لگوا کرہی آؤں گا،تاکہ آپ کی طرح رعب دار دکھائی دوں۔”
ان دنوں مہاراشٹر میں ہر جگہ مہاراشٹر ‘کٹمب مالا’ نامی کتھا مالا کافی مشہور ہو چکی تھی۔ اس مشہور کتھامالا کے ایڈیٹر تھے، ن۔ وی۔ کلکرنی۔ میں نےانہیں ہماری بولتی فلم کی کہانی لکھنےکی دعوت دی۔ گیت نگاری گووندراؤنےہی کی۔
نئے سٹوڈیو کا قیام، نئے ساؤنڈسسٹم کی خرید، بولتی فلم کے لئے ضروری دیگر سازو سامان کی انسٹالیشن وغیرہ میں بولتی فلموں کے لیے ہمارا خرچ، ہماری پونجی ختم ہوتی جا رہی تھی۔ لہذا مزید ہمت نہ دکھاتے ہوئے ہم نے بمبئی میں اس سے پہلے سے ریلیز اور مشہور ہو چکے بولتی فلموں کی طرح راجا ہریش چندر کی کہانی بھی اسی ناٹک نما اسلوب میں لکھ کر تیار کی۔ ہندی ورژن کے مکالمے لکھنے کے لئے ایک اردو ناٹک کار کوبمبئی سے بلا لیا۔ ان صاحب نے دیگرتمام کمپنیوں کی طرح ہندی سکرپٹ میں شعروشاعری کی بھرمار کر دی۔ مکمل ریہرسل کےوقت انہوں نےہمارے کلاکاروں کواردو شعرو شاعری پیش کرنے کا طریقہ ٹھیک اسی ڈھنگ سے سکھایا، جیساکہ سٹیج پر خاص جوشیلی ادا میں کن الفاظ پر،زور دیا جاتاہے۔ بیچارے ہریش چندر،تارامتی، اور برہم رشی وشوامتر کو بھی ہم نے اردو میں اپنے مکالمے بولنے کے لئے مجبور کیا۔
‘گوپال کرشن’ کے بعد کے زمانے میں دھارا کے الٹ تیرنے والے ماہر تیراک کی مانند میں تیزی سے ہاتھ مارتے آگے ہی آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ لیکن اس بار پھر ایک بار کمپنی کے وجود کا سوال منہ کھولے سامنے کھڑا ہو گیا تھا۔ لہذا منجدھارمیں مالی بدحالی کے بھنور کو ٹال کر آگے نکل جانے میں ہی عقل مندی تھی۔ اس لئے کچھ دیرتک پر دھارا کے ساتھ بہتے جانا ہی ضابطہ تھا، ضروری بھی تھا۔ میرے تخلیقی من کو اس کا خاص قلق ہوتا تھا۔
بولتی فلم کے خاص منظروں کی مکمل ریہرسل شروع ہو گئیں۔ درگابائی بہت ہی کھلے من کی اچھی پڑھی لکھی اورکھاتے پیتے گھرانے کی تھیں۔ پھر بھی کمپنی کے ہر چھوٹے بڑے کارکن کے ساتھ وہ ملنساری سے پیش آتیں۔ کام سیکھنے میں ذرا بھی نہ ہچکچاتیں۔ مکمل ریہرسل کے وقت اپنے کام کی ساری خوبیوں کو خاص ڈھنگ سے سیکھتیں اور کوئی انہیں ان کی غلطی سمجھا دیتا تواس غلطی کو سدھارنے کی دلی کوشش کرتیں۔گانا وانا انہیں خاص نہیں آتا تھا پھر بھی گانے کا ریاض اتنا من لگا کر کرتی تھیں کہ اس فلم میں ان کی گائی لوری ’بالاکا جھوپ ییئی نہ’، (منے، کاہے نہ آوے نندیا) فلم کی نمایاں خوبی بن گئی تھی۔
اس کے برعکس ہریش چندر کا کام کرنے والے گائیک اداکار گولے ریہرسل کےوقت ایک دم ہمت ہار جاتے تھے۔ میں انہیں کافی دلاسہ دیتا، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوتا تھا۔ آخر انہوں نے وِنائک کے ذریعے مجھے کہلوا بھیجا، “مجھے نہیں لگتا،فلم میں کام کرنا میرے بس کا روگ ہے۔” میں نے انہیں سمجھانے بجھانے کی کافی کوشش کی، لیکن وہ ایک دم بد دل ہو گئے اور واپس پونا چلے ہی گئے۔اب پھر سے ایک نئی دقت آ پڑی۔ ہریش چندر کا کام کون کرے؟ فوراً خیال آیاکہ گووند راؤخود تو سٹیج کے مشہور اداکار تھے اور منجھے ہوئے گائیک بھی۔وہ فلم میں کام کرنا قبول کرتے ہیں، تو کیا ہی کہنا، سونے پرسہاگہ ہو جائےگا۔ گووند راؤ کو بابوراؤنے راضی کر لیا۔ پھر نئے سرے سے ریہرسل ہونے لگی۔
گووند راؤ کی تعریف میں کہنا ہوگا کہ اگرچہ وہ عمرمیں مجھ سے کافی بڑے تھے اورمیں عمرمیں ان سے بہت چھوٹا تھا، بطورایک ڈائریکٹرمیرے دئیے گئے سبھی احکامات کو وہ کھلے من سے قبول کرتےاوران کےمطابق ہی برابر کام کرتے تھے۔گووند راؤ کی یہ کھلی شخصیت ان ریہرسلزکےوقت اور بھی،زیادہ اجاگرہو گئی تھی۔ ہم دونوں کے بیچ ہنسی مذاق بھی ہونے لگا تھا۔ایک شام ہم لوگ اپنے اپنے گھر جا رہے تھے، انہوں نے سہج انداز سے مجھ سے پوچھا،
“شانتارام بابو، سگریٹ پیو گے؟”
“نہیں۔”
ہاتھوں کی انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے دوسرا سوال کیا، “اچھا، تھوڑی شراب تو چلتی ہے نا؟”
“نہیں! نہیں!بالکل نہیں!”
“اور سنا ہے عورت کے بارے میں آپ ایک دم سادھو ہیں؟ کیسے انسان ہیں آپ! یہ ناک کی سیدھ میں جانے والا جیون بھی کوئی جیون ہے؟ یہ تو ایک دم بجلی کے سیدھے کھمبےکا سا جیون ہوا! ورنہ مجھے دیکھو، میرا جیون ہے بے رحم فطرت کےکسی درخت کی طرح۔ ادھر سے پتے پھوٹ رہے ہیں، ادھر سے ٹہنیاں بڑھ رہی ہیں، سیدھی ہوں، ٹیڑھی ہوں، لیکن ہیں سبھی ایک دم سہج اور فطرت کے اصول کے مطابق!”
گووند راؤ کےان سہج اورفطری رنگ ڈھنگ سےاچھی طرح واقف ہونے کی وجہ میں اپنی ہنسی دبا نہیں سکا۔ سب سےمزے کی بات یہ کہ گووندراؤبھی جی کھول کر میرےساتھ ہنسنے لگے۔
آڈیو کمیکس کمپنی کا ساؤنڈریکارڈر،اس کے ساؤنڈ سسٹم کا سارا سازوسامان، ساؤنڈ اور سین شوٹنگ کی فلم پٹیوں کی ایڈیٹنگ کی سہولت فراہم کرنے والی ‘مووی اولا’ مشین وغیرہ سبھی مشینری لےکر داملے جی کولھاپورپہنچے۔ ہماری یہ ساری مشینری منگوائے جانے کی خبر ملتے ہی، اردیشِرایرانی نے ایک دندناتابیان دیا کہ اس دوہرے نظام کے ذریعے کی گئی شوٹنگ میں ہونٹوں کی جنبش اورآوازکامیل ناممکن ہے۔ سچ کہوں تو ایسے کھرے پن کی وجہ سے ہم لوگ بھی سٹپٹاہی گئےتھے۔
شوٹنگ کیمرے کے ساتھ ساتھ ساؤنڈ ریکارڈرکا ٹیسٹ کرنے کے لیے ہم نے پانچ چھ شاٹس ڈرتےڈرتےلےلیے۔ ان پر ہمارےکیمیکل روم میں کیمیائی عمل کیااوربعد میں انہیں مووی اولا پر چڑھا کرپردے پر دیکھنا شروع کیا۔ اردیشِرایرانی کی طرف سے ظاہر کیا گیا خدشہ ایک دم بے بنیاد ثابت ہوا۔ تصویراورآوازدوالگ الگ پٹیوں پرنقش کئےتھےاور اس کے باوجود کرداروں کےہونٹوں کی جنبش اوران کی آوازمیں پوراتال میل تھا۔ کہیں پرتھوڑا بھی جھول نہیں آیا تھا۔ اس سے ہمارا جوش کافی بڑھ گیا۔
لیکن ادھر معاشی کٹھنائیوں نے ہمیں گھیرلیا تھا۔ خرچہ پوراہوتاہی نہیں تھا۔ مشینری کے آلات خریدنے کے لیے قرض لیا تھا، کاریگروں اورکلاکاروں کی تنخواہ رُکی پڑی تھی، اس پر فلم میکنگ کا روزانہ خرچ۔۔۔ مختلف مصیبتیں تھیں۔ کم سےکم شوٹنگ کی نگیٹو پر ہونےوالاخرچ کم کرنے کے لیے ہم اس کا ایک انچ بھی ضائع نہ ہونے دیتے۔ اس کے لیے شوٹنگ سے پہلے میں سبھی کلاکاروں اورتکنیک کاروں سے کڑی مکمل ریہرسل کروا لیتا تھا۔ جہاں تک ہو سکے دوبارہ شاٹ لینا نہ پڑے،اس کا یہی مقصد رہتا تھا۔ اس سے فلم کا خرچ کم سے کم رکھنے میں مدد ملتی تھی۔ سمے کی بچت کے لیے ہم لوگ ہر شاٹ پہلے مراٹھی میں اور اس کے فورابعد ہندی نہیں، اردو میں لے لیا کرتے تھ۔
اس زمانے میں گانے کی ساؤنڈ ریکارڈنگ اور سین کی شوٹنگ ایک ساتھ کرنا پڑتی تھی۔ فلم میں کام کرنے والے کلاکارخود گاتےاوراداکاری بھی کیا کرتے-اہم موسیقار کرداروں کا گروہ سٹوڈیو میں ہی کیمرے کی نظر سے ہٹ کر کسی اوٹ میں کھڑا ہوتا تھا اوروہیں سے گانے والے کی سنگت کرتا تھا۔ گیت شروع ہونے اور اس کے ختم ہونے تک شوٹنگ اورساؤنڈ ریکارڈنگ دونوں کیمرے چلتے رہتے تھے۔ صرف شوٹنگ کیمرے کو ٹرالی پر رکھ کر درمیانے شاٹ، کبھی فل لینتھ، تو کبھی کلوزاپ کی ضرورت کے لیےآگے پیچھے کیا جاتا تھا۔ ہلچل بس یہی ہوتی تھی۔چار ساڑھے چار منٹ کے چلنے والے اس شروع کے شاٹ میں،کیمرہ والا، گانےوالا یا کردار تھوڑی بھی غلطی کرتا، تو پھر شروع سے آخر تک وہی سلسلہ چلانا پڑتا تھا۔
ایک دن گووندراؤ ٹیمبے کا ہریش چندر کا گیت فلمانا تھا۔ گووندراؤ اعلی پائے کے گائیک تھے۔ انہیں اسٹیج پر وقت کی قید نہ مانتے ہوئے جتنی دیر چاہا گانے کی عادت تھی۔ لیکن یہاں فلمی دنیا میں وقت کی قید بہت معانی رکھتی تھی۔ میں نے گووندراؤ کو گانا وقت پر ختم کرنے کے بارے میں اچھی طرح سے سمجھایا تھا، کہا تھا، “میں کیمرے کے پاس کھڑا رہوں گا۔ ہر ایک منٹ کے بعد میں آپ کو ایک، دو، اس طرح انگلیاں دکھا کر اشارہ کرتا رہوں گا۔ میری چار انگلیاں دکھائی جاتے ہی آپ اپنا گانا مناسب ڈھنگ سے ختم کیجئے۔”
انہوں نے میری باتیں دھیان سے سن لیں۔ اُن کو من ہی من دہرا لیا اور میری ہدایات کو اچھی طرح سے سمجھ لیا۔ اس سے مجھے یقین ہو گیا کہ اب گووندراؤوقت کے بارے میں کوئی جھنجھٹ کھڑا نہیں کریں گے۔
گانے کی ریہرسل ہو گئی۔ کیمرے کی سرگرمی بھی پکی ہو گئی۔ گووندراؤنے اپنی سنہرے فریم والی عینک اتار کر ایک طرف رکھ دی۔ میں نے چِلا کر سب کو ‘خاموش’ رہنے کا حکم دیا۔ سب لوگ اپنی اپنی مقررہ جگہ پر ٹھیک کھڑے ہوگئے۔”سٹارٹ”، میں نے اشارہ کیا۔ شوٹنگ اور ساؤنڈ ریکارڈنگ الگ دونوں کیمرے چالو ہو گئے۔ وِنائک نے سین نمبر اور شاٹ نمبر کہہ کر ‘کلیپ’ماری۔ خاص سنگیت بھی شروع ہو گیا۔ گووندراؤ کا سُر بہت ہی بڑھیا لگا تھا۔ کیمرے کی حرکت میرے خاموش اشاروں کے مطابق ہونے لگی۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ میں نے ایک منٹ ختم ہونے کا اشارہ دیا۔ مجھے لگا کہ گووندراؤ نے اسے دیکھ لیا ہے۔ وہ گانے میں ایک دم کھو گئے تھے۔ گانے کے بھاؤ کے مطابق ان کی اداکاری بھی بہت ٹھیک سے چل رہی تھی۔ دو منٹ ہو گئے۔ میں بہت خوش تھا۔ تیسرا منٹ بیتا۔۔۔چارمنٹ ہو گئے۔ میں نے گانا ختم کرنے کا اشارہ گووندراؤ کو کیا۔ لیکن وہ گانے میں اتنے کھو گئے تھے کہ میرے اشاروں کی طرف ان کا دھیان ہی نہیں تھا۔ اس لئے گاتے گاتے ان کی نظر جس طرف بھی جاتی، اسی سمت میں کتھک نرتک کی طرح اچھل کود کر میں انہیں گیت ختم کرنے کے اشارے کرتا گیا۔ لیکن بھگوان کا نام لو، پانچ منٹ ہوگئے، گووندراؤرکنےکا نام ہی نہیں لےرہے تھے۔میراکتھک ناچ اب تانڈو میں بدل گیا تھا۔ لیکن میں جتنا بھی کودتا پھاندتا، گووندراؤ کا گانا اور رسیلا بنتا جا رہا تھا۔ میری ساری کوششیں بیکار گئیں۔ہار کر سر دونوں ہاتھوں میں تھام کر میں مایوس ہوکر دھم سے نیچے بیٹھ گیا۔ تبھی کیمرا چلانے والے فتے لال زور سے چلائے “فلم ختم ہوگئی۔”گووندراؤ چونک کر رک گئے اور غصے میں آکر بولے، “یہ کیا مذاق بنا رکھا ہے آپ نے؟ اب جاکر کہیں میری آواز فلم کے مطابق سدھ گئی تھی، اور ادھر آپ کی فلم ختم ہو گئی؟کہاں ہے وہ شانتارام بابو؟” میں تو ان کے سامنے ہی کیمرے کے پاس گردن لٹکا کر سرتھامے بیٹھا تھا۔ گم سم، چپ!مجھے دیکھنے کے لیے گووندراؤنے اپنی عینک منگوا لی۔
ایودھیا کا راجہ کا ایک منظر
اسےوہ آنکھوں پر رکھنے جا ہی رہے تھے کہ میں نے فوراً اٹھ کر، جیسے کچھ بھی نہیں ہوا ایسے انداز سے کہا، “واہ گووندراؤ! آج تو آپ کی آواز ایک دم بڑھیا سدھی تھی۔ آپ کا گانا بےمثال رہا!”
یہ سن کر ان کا غصہ شانت ہو گیا، بولے، “تبھی تو! عینک لگی نہ ہونے کے کارن آپ کا چہرہ مجھے صاف نظر نہیں آرہا تھا، لیکن آپ ہاتھ اٹھاتے ضرور تھے، اس سے میں سمجھ گیا کہ آپ میرے گانے کی داد دے رہے ہیں اور اسی لئے میں گاتا چلا گیا۔”
میں نے من ہی من کہا، “کرم پھوٹےمیرے!”
ہماری شوٹنگ انیس دن چلتی رہی۔ شوٹنگ اور ساؤنڈ ریکارڈ دونوں کی فلموں پر کیمیکل روم میں روز کیمیائی عمل کیے جاتے تھے۔ دھایبرجی نے ان کے پرنٹس تیار کئے۔ دوسرے سین کی شوٹنگ کرنے تیاریاں ہونے تک میں نے سوچا، تصویر اور آواز پٹیوں کو ٹھیک سے ساتھ ساتھ جمع کرکے ان کی ایڈیٹنگ کیوں نہ پوری کر لی جائے۔ مووی اؤلا پر میں ایڈیٹنگ کے لیے بیٹھ گیا۔
تصویر اورآوازپٹیوں کےالگ الگ ر ولوں کو مووی اولا پر چڑھایا۔ شوٹنگ سکرپٹ کے مطابق کس شاٹ کو کہاں کاٹنا ہے، طےکرلیااورنشان بھی لگا لیے۔ پہلے ہی شاٹ میں کرداروں کےہونٹوں کی حرکت اورآواز کاتال میل نہیں بیٹھا تھا۔ مجھے لگا کہ شاید ایڈیٹنگ مشین پر رول چڑھانے میں مجھ سے کوئی بھول ہو گئی ہے۔ میں نے رول اتار لیے اورپھرٹھیک سے چڑھا دیے۔ دونوں پٹیوں کا ٹیسٹ پھرشروع کیا۔لیکن دونوں پٹیوں میں قطعی کوئی میل نہیں بیٹھتا تھا۔ ہونٹوں کی شروعات حرکت کے ساتھ آواز کو ملا لینے پر دونوں پٹیوں کی لمبائی میں فرق آ جاتا۔ میرا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔ اس کامطلب یہ ہوا کہ اردیشرایرانی جیسے تجربہ کار فلم ڈائریکٹرنے یہ سسٹم غلط ہونے کا جو دعویٰ کیا تھا، وہ صحیح تھا؟ نہیں!
یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ شاید ایک ادھ شاٹ غلط ہو گیا ہوگا۔ من میں پھر تھوڑی امید جاگی۔ اگلا شاٹ ٹھیک سے دیکھا۔ لیکن وہی حال۔ پاگل کی طرح میں ایک کے بعد ایک شاٹ اور ایک کے بعد ایک رول جانچتا گیا۔ لیکن ایک بھی شاٹ میں تصویراورآوازکا میل نہیں بیٹھ پارہا تھا۔ میرے تو دیوتا کوچ کر گئے۔
تبھی داملے وہاں آ پہنچے۔ میں نے انہیں کچھ شاٹس دکھائے۔ انہیں دیکھتے ہی داملے ایسے بیٹھ گئے جیسے ہذیان ہو گیا ہو۔ کچھ دیر بعد پتہ نہیں انہوں نے کیا سوچا، وہ مشینری روم میں گئے۔ کیمرا اور ساؤنڈ ریکارڈرایک ساتھ چالو ہوں اس کے لیے وہاں جو اوربجلی پر چلنے والےدیگرآلات رکھے تھے،ان کا داملے ٹھیک ٹھیک معائنہ کرنے لگے۔
کچھ لمحوں بعد میں بھی اس کمرے میں پہنچ گیا۔ داملے پسینے پسینے ہو گئے تھے۔انہوں نے ساری مشینری کی پھر جانچ پڑتال کی، دیکھا بھالا۔ کسی میں کوئی نقص نظر نہیں آ رہا تھا۔داملے جی نے مجھے بے چینی سے پوچھا، “شانتا راما بابو، ہم نے تجربے کے لیے جو شروع کے شاٹس لیے تھے، ان میں تصویراورآوازکی فلمیں ایک سی لمبائی کی تو تھیں نا؟ ان میں ہونٹوں کی ہلچل کا آواز کے ساتھ برابر تال میل بیٹھا تھا نا؟”
میں نے “ہاں” کہہ تو دیا لیکن میں بھی کچھ سٹپٹاہٹ میں ہی تھا۔
ہم دونوں ایڈیٹنگ روم میں گئے۔ وہاں نئی شاٹس کی فلموں کو ہم نے پھر مووی اولا پر چڑھایا۔ ان فوٹوزمیں تصویر اور آواز کا ایک دم ٹھیک تال میل بیٹھا تھا۔ یہ دیکھ کر داملے نے کہا، “اچھا، اب آپ گھر جائیے۔ ان انٹرلاک موٹرز میں کیا خرابی آ گئی ہے، میں دیکھ لیتا ہوں۔”
میں گھر گیا۔ رات بھر سو نہیں سکا۔ کمرے میں ادھر سے ادھر، ادھر سے ادھر چکر کاٹتا رہا۔ مجھے اس طرح پریشان دیکھ کر وِمل نے پوچھا بھی، بات کیا ہے، لیکن میں نے کچھ ٹال مٹول جواب دے دیا۔ دن بھر کے کام کے مارے تھکی ماندی ہونے کے کارن وہ سو گئی۔ میں کمرے میں ٹہلتا تھا۔ بےچینی بڑھتی جا رہی تھی۔ انیس دن کی محنت، وقت، شوٹنگ، سب کچھ بے کارہوگیاتھا۔ اس کے علاوہ شوٹنگ کی گیارہ ہزار فٹ اور ساؤنڈ ریکارڈر کی بھی اتنی ہی لمبائی کی فلم بیکار گئی تھی۔ یعنی بائیس ہزار فٹ فلم ہم نے برباد کر ڈالی تھی۔ ادھر ایک ایک پیسے کے لیے کمپنی ترس رہی تھی۔ ہم بھی فلم کے ہر فٹ کاپورااستعمال کرنے کی احتیاط برت رہے تھے۔ اور ایسے میں یہ بربادی! کیا آڈیوکمیکس ساؤنڈریکارڈرکاہماراانتخاب غلط تھا؟ اگر تھا،تواب شوٹنگ اورساؤنڈ ریکارڈنگ دونوں ایک ساتھ کر سکنے والا نیا کیمرا کہاں سے لایا جائے؟ اس کےلیے ضروری رقم کہاں سے حاصل کی جائے؟ پھر نیا کیمرا لانا بھی ہو، تو امریکہ سےمنگوانا پڑےگا۔اس کے آنے میں تین چار ماہ لگ جائیں گے۔ یعنی تب تک کیا کمپنی کے لوگوں کو بنا کسی کام کے تنخواہ دی جائے گی؟ ویسے ہی پیسے کے لالے پڑرہے تھے۔ تو کیا کمپنی کو تین چار مہینے بند رکھنا ہوگا؟ میرے من میں وچاروں کا انبار لگا تھا۔ کھڑکی سے باہر کہیں دور دیکھنے کی میں کوشش کر رہا تھا۔ لیکن باہر گھنا اندھیرا چھا گیا تھا۔ میں کب بستر پر آکر لیٹ گیا اور کب آنکھ لگی، معلوم نہیں۔
سپنے میں ایک پاگل سا نوجوان سر جھکائے آگے پیچھے ڈول رہا تھا۔ اسے ہم نے اپنے بچپن میں کئی بار دیکھا تھا۔ اس کا نام تھا نیل کنٹھ۔۔ بعد میں وہ کولہاپور کی کمہار گلی میں دت سوامی کے مندر میں بیٹھا رہتا تھا۔ کسی نے کھانے کے لیے کچھ دے دیا تو کھا لیتا تھا، ورنہ بھوکا رہ کر دن بھر بس اسی طرح ڈولتا رہتا تھا۔ لوگ اسے ‘نیلو مہاراج’ کہنے لگے تھے۔ اس نیلو مہاراج کی حال ہی میں وفات ہو چکی تھی۔ سپنے میں اسی نیل کنٹھ نے سر اٹھا کر میری اور دیکھا، اور وہ کہنے لگا،”بے کار کی الجھن میں کیوں پڑتے ہو؟ فکر نہ کرو، سب کچھ ایک دم ٹھیک ہونےوالا ہے!”
یہ لفظ سن کر میں جاگ اٹھا۔ سپنے میں بات یاملاقات وغیرہ ہونے پر میرا قطعی یقین نہیں تھا، لیکن ڈوبتے کو تنکے کا سہارا جو ہوتا ہے! مجھے بھی اس سپنے نے ہمت بندھائی۔نہانے دھونے سے نبٹ کر میں فوراً مشینری روم میں پہنچا۔ داملےجی بہاں رات بھر مشین میں آئی خرابی کھوجتے رہے۔ کوشش تو وہ پوری کر رہے تھے، لیکن غلطی پکڑ میں نہیں آ رہی تھی۔سٹوڈیو میں ہریش چندر کے محل کا منظر کھڑا کیا جا رہا تھا۔ میں نے اس کام کو پہلے بند کروایا۔ اتنے دنوں سے جاری شوٹنگ سب کا سب بیکار ہو جانے کی بات کانوں کان ہر جگہ پھیل گئی تھی۔ ساری کمپنی پرڈپریشن بری طرح چھا گیا تھا۔ میں بھی ایک کمرے میں گہری فکر میں کھو گیا۔
کچھ دیر بعدایک چھوکرا بھاگتے بھاگتے مجھے کھوجتا ہوا آیا۔ اس کے چہرے پر خوشیاں ناچ رہی تھیں۔ اس نے کہا، “داملے ماما نے کہلا بھیجا ہے کہ آلے میں جو خامی تھی، اس کا پتہ چل گیا ہے۔ دونوں موٹریں اب ٹھیک چل رہی ہیں۔”
سن کر میں دوڑ کر مشینری روم میں گیا۔ داملے سارا کام ختم کر پسینہ پونچھ رہے تھے۔ میں نے داملے کو کس کر گلے لگا لیا۔ ان کے چہرے پر رات بھر کام کرنے کے کارن تھکان صاف دکھائی تو دے رہی تھی،لیکن سکون اس سے بھی زیادہ جھلک رہا تھا۔ انہوں نے مجھ سے کہا، “خاص کوئی بات نہیں تھی، شانتارام بابو۔ صرف ایک سوئچ ذرا ڈھیلا ہو گیا تھا، اسی کے کارن یہ سارا جھمیلا ہو گیا!”میں نے انہیں آرام کرنے کے لیے گھر بھیج دیا اور میں اسی دن بمبئی گیا۔
بمبئی پہنچتے ہی پہلا کام میں نے یہ کیا کہ آگفا کمپنی میں گیا۔ ریگےجی سے ملا۔ بے جھجک ہوکر انہیں سارا معاملہ بتایا۔ انہوں نے میری پیٹھ سہلاتے ہوئے ہمت بندھائی، “کوئی بات نہیں! فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ آپ کو آپ کی بولتی فلم کوپورا کرنے کے لیے جتنی بھی کچی فلم لگے، ہم آپ کو ادھار دے دیں گے۔” سن کرمیرا حوصلہ کچھ بڑھا۔ پھر میں نے ہمارے ڈسٹری بیوٹربابوراؤ پینڈھارکر کے ساتھ سوچ بچار اورمشورہ کرکےکچھ رقم کابندوبست کرلیا۔
میں کولہاپور واپس آ گیا۔ ہریش چندر کے محل کی شوٹنگ پھرسےشروع کر دی۔ اب پہلے سے بھی زیادہ احتیاط برت کرمیں ہردن شوٹنگ پوری کرنے کے بعد رات بارہ ایک بجے تک بیٹھ کراس دن کی شوٹنگ کی ایڈیٹنگ بھی پورا کر لیتا تھا۔ مقصد یہ ہوتا کہ مان لو پھر کہیں کوئی غلطی ہو بھی گئی ہو، تو فورا اسی دن اسے ٹھیک کر لیا جا سکے۔
سٹوڈیو کے باہر کے کھلے میدان میں کاشی کے غلاموں کے بازار کا منظر تیارکیا۔ بابوراؤ پینڈھارکر کو کاشی کے گنگاناتھ مہاجن کا کردار دیا۔ تہذیب کے نام پر صفائی کے ساتھ بُرے کام کرنے والے وِلن سامنے لانے کا میں نے فیصلہ کیا۔ میری یہ سوچ میں نے بابوراؤ کو بتائی۔ انہیں وہ بہت پسند آئی۔ اس خیال کو انہوں نے ڈھال لیا اور اپنی اداکارانہ مہارت سے اس میں ایسی جان ڈال دی کہ (فلم میں) گنگاناتھ مہاجن یادگاربن گیا۔
غلاموں کے بازار کی شوٹنگ ختم ہوئی۔ پھرمرگھٹ کا منظربنایاجانےلگا۔ ہریش چندر کے مرگھٹ کے مناظر کو فلمایا جانے لگا۔ ہریش چندر کا ڈوم مالک مرگھٹ کا بھی سردار تھا۔ اس ڈوم کے یہاں ایک بار ناچ گانے والوں کا ایک گروہ آتا ہے اور گانا گاتا ہے۔ اس سین کو فلماتے سمے ہی کولہاپورمیں ڈوم مداریوں کی ایک تماشہ پارٹی آئی ہوئی تھی۔ انہیں ہم نے کمپنی میں بلوا لیا اورسیدھا شوٹنگ کے لیے کھڑا کر دیا۔ ان میں ایک لڑکی سے وہیں کچھ لوک گیت سن لیے۔ ان لوک گیتوں میں سے ایک ٹھیٹھ دیہاتی،چٹخداراورپھڑکتی دھن کا لوک گیت چن لیا۔ اس گیت کی دھن پر وہ لوگ ناچنے لگے۔ لیکن فلم کے لیے مخصوص وقت کا اندازہ انہیں نہیں تھا۔ گووندراؤ ٹیمبے کی گائیکی کے بارے میں جو بُرا تجربہ ہوگیا تھا، من میں تازہ تھا۔ اس لئے ان دیہاتی فنکاراؤں کو ٹھیک وقت پر کیسے روکا جائے، ایک الجھن ہی تھی۔
میں نے اپنا ڈائریکٹر کا پہناوا بدل لیا۔ پھٹی دھوتی اور سر پر ایک مٹ میلی دھجی باندھ کر میں بھی ان میں سےایک ڈوم بن گیا۔ میں کیمرے کی طرف پیٹھ کئے کھڑا رہا۔ ہاتھ میں ایک چھوٹی گھڑی چھپا لی۔ ناچتے ناچتے بیچ بیچ میں میری طرف دیکھتے رہنے کی ہدایت انہیں دی۔ یہ بھی کہہ دیا کہ میرے ہاتھوں کا اشارہ سمجھ کر گیت گانا بند کرنا۔ شوٹنگ چالو ہو گئی۔ گانا اچھا تھا۔ رقص بھی چٹخدارتھا۔ کمپنی کے مختلف شعبوں میں کام کرنے والے کلاکار اور کاریگر ‘پربھات’ کا سخت ڈسپلن توڑ کررقص گیت کے تماشے کو دیکھنے کے لیے شوٹنگ کی جگہ پہ جمع ہو گئے تھے۔ اصل مراٹھی کے لوک گیت کے الفاظ تھے بھی بڑے مزیدار، جن کا مطلب تھا۔۔۔
“کودو کٹکی جیو نار کے لیے بوڑھا دولہا کھلواڑ کے لیے۔۔۔”
فلم کی شوٹنگ اور مراٹھی ہندی ورژن کا کام پورا ہوا۔ مراٹھی میں اس بولتی فلم کا نام “ایودھیچا راجہ” اور ہندی میں “ایودھیا کا راجہ” رکھا گیا۔
فلم کو پہلے ٹرائل روپ میں آپس میں ہی دیکھنے کا دن طے ہوا۔ رات ہو گئی۔ فلم کی مکمل کاپی تیار ہو رہی تھی۔ ہم سب لوگ بے حد اتاولے ہو رہے تھے۔ ذہنی تناؤ تو اتنا بڑھ گیا تھا کہ بیچ میں ملے وقت میں بھی ہم لوگ کسی سے بات نہیں کر رہے۔ مکمل فلم کو تیار کرتے کرتے بھور ہو گئی تھی۔ سبھی چپ چاپ بیٹھے فلم تیار کی جانے کا انتظارکر رہے تھے۔
کمپنی کے باہر والے کھلے احاطے میں ہم لوگ اپنی پہلی بولتی فلم دیکھنے کے لیے تیار ہوکر بیٹھ گئے۔ پربھات کے لوگو کا پہلا شاٹ چالو ہو گیا۔ تانپورے کی آواز سنائی دینے لگی۔ اسی جھنکار کی لے پر پربھات دیوی نے اپنی بھیری اٹھائی، وہ اسے اپنے ہونٹوں تک لے گئیں۔ اور بھیری سے نکلی دیسی راگ کی سریلی دھن نے سارے ماحول کو بھر دیا۔
خاموش فلم کے لیے بنایا گیا وہ لوگو ساؤنڈ ریکارڈ یعنی بولتی فلموں کے لیے اتنا مناسب ثابت ہوگا، کسی نے سوچا نہیں تھا۔ بھیری کو سر مل گئے۔ ہماری ‘پربھات’ کی بھیری سامنے لگے پردے پر گونج رہی تھی۔ اس خاموش لوگو سے پرزوراور پہلی سُریلی لہر سے میرا تن من پر جوش ہو گیا۔ اسی لمحے ہمارے منتخب ناظرین کےگروہ نے والہانہ داد دی، “واہ واہ!” ساتھ ہی سارااحاطہ تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے گونج اٹھا۔ میں بھی اس میں شامل ہو گیا۔ آنکھیں بھر آئی تھیں۔۔۔۔
بولتی فلم پوری ہو گئی۔ آخرمیں پھر سے ‘پربھات’ کا لوگوپردے پر آیا۔ پربھات کی بھیری پھر ایک بار اپنا سریلا سُر ماحول میں بکھیر رہی تھی۔ میں نے پورب کی طرف دیکھا۔ مشرقی افق بھی اس وقت پربھات کی لالی سے لال لال ہو رہا تھا۔
بولتی فلم واقعی میں بہترین بنی تھی۔ اس کے مکالمے،گیت، سب کچھ بہت اچھا فلم ہو گیا تھا۔ سبھی کلاکاروں اور تکنیک کاروں نے اپنا کام پورے دل سے کیا تھا۔ لیکن۔۔۔۔من میں اتنے دن سے دبی پڑی وہی بے چینی پھر ابھر آئی۔ میری رائے میں ‘ایودھیا کا راجا’ حقیقت میں ایک فلم نہیں تھی۔ وہ ناٹک فلم تھی۔ سین اور اداکاری کے مقابلےوہ مکالموں اورگیتوں سے کھچاکھچ بھراپڑا تھا،لدا لدا سا لگ رہا تھا۔حقیقی معنی میں وہ صرف ‘بولتی فلم’ تھی۔ لیکن اس الجھے خیال کے کارن کہ اس طرح کی بولتی فلم بنائے بنا وہ کامیاب ہو ہی نہ سکےگی، میں نے پربھات فلم کمپنی کی معاشی بنیاد کو مضبوط کرنے کے لیے وہ ناٹک کی طرز کی بولتی فلم پورا کی تھی۔
ہندی ورژن ‘ایودھیا کا راجا’ تو سو فی صدی ڈرامائی تھی۔ مراٹھی ورژن کچھ کم ناٹکی تھا۔ بچوں کی کہانی ہوتی ہے نا، ٹھیک ویسی ہی تھی ان دو ورژن کی کہانی : ایک تھا راجا۔ اس کی دو رانیاں تھیں۔ ایک تھی اس کی چہیتی اور دوسری تھی اَن چاہی : لیکن میرے بارے میں یہ کہانی تھوڑی سی مختلف تھی ہندی ورژن بالکل ہی اَن چاہا تھا، تو مراٹھی ورژن تھا تواَن چاہا ہی، لیکن تھوڑا کم اَن چاہاتھا۔
میں سوچ رہا تھا کہ کیا دیکھنے والے ان دونوں ان چاہی رانیوں کو پسند کریں گے؟کمپنی کی بگڑی گرہستی (گھر)کو کیا یہ رانیاں پھر ٹھیک سے بسائیں گی؟
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...