#کل رات اڑ رہے تھے،
ستارے ہوا کے ساتھ،
اور میں اُداس بیٹھی تھی،
اپنے خدا کے ساتھ،
کہ یا تو قبولیت کے،
طریقے سیکھا مجھے،
یا میرے دل کو باندھ دے،
اپنی رضا کے ساتھ!!
دیا آسمان پر چمکتے ہوۓ ستاروں کو دیکھ رہی تھی .۔۔۔چودھویں کا چاند چمک رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
اسے اپنی ماما کی اپنے بابا کی بہت یاد آرہی تھی ۔۔۔اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ اپنے ماما بابا سے مخا طب ہے ۔۔۔۔۔
۔۔”
اسے یاد آرہا تھا کے بابا کی ڈائری میں اسکے بچپن کا ایک واقعہ لکھا ہوا تھا
“میری بیٹی”
ایک روز دیا میری شہزادی نے بڑے پیار سے مجھ سے پوچھا ،
“پاپا، کیا میں نے آپ کو کبھی رلایا ؟؟”
میں نے کہا ،
“جی ہاں.”
“کب؟” اس نے حیرت سے پوچھا____،
“اس وقت تم قریب ایک سال کی تھیں . گھٹنوں پر سركتی تھیں .
میں نے تمہارے سامنے پیسے ، قلم اور کھلونا رکھ دیا کیونکہ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ تم تینوں میں سے کسے اٹھاتی ہو .
تمہارا انتخابات مجھے بتاتا کہ بڑی ہوکر تم کسے زیادہ اہمیت دیتی ہو___،
جیسے پیسے مطلب جائیداد_____قلم مطلب عقل اور کھلونا مطلب لطف اندوز .
اور میں نے یہ سب کچھ پیار سے کیا .
مجھے تمہارا انتخاب دیکھنا تھا .
تم ایک جگہ مستحکم بیٹھیں ٹُكر ٹُكر ان تینوں اشیاء کو دیکھ رہی تھیں .
میں تمہارے سامنے ان اشیاء کی دوسری طرف خاموش بیٹھا تمہیں دیکھ رہا تھا .
تم گھٹنوں اور ہاتھوں کے زور سركتی آگے بڑھیں ، میں سانس کے روکے دیکھ رہا تھا اور لمحہ بھر میں ہی تم نے تینوں اشیاء کو بازو سے سرکا دیا
اور ان کو پار کرتی ہوئی آکر میری گود میں بیٹھ گئیں . مجھے دھیان ہی نہیں رہا کہ ان تینوں اشیاء کے علاوہ تمہارا ایک انتخاب میں بھی تو ہو سکتا تھا . . .
وہ پہلی اور آخری بار تھی بیٹا جب تم نے مجھے رلایا . . . بہت رلایا . . .”
بیٹیاں یعنی بابا کی شہزادیاں
بابا پھر کیوں آپ مجھے چھوڑ کر چلے گیے ۔۔آپ تو میرا پہلا اور آخری انتخا ب تھے ۔۔۔آپ نے اس اذیت میں مجھے چھوڑ دیا ۔۔۔اسکی آنکھوں سے زارو قطار آنسوں بہ رہے تھے
آفندی صاحب اور مسز آفندی ، آفاق کے گھر آۓ تھے ۔۔۔انہوں نے زارا اور آفندی کی شادی کی ڈیٹ فکس کر دی ۔۔۔۔۔۔
انکے جانے کے بعد سے آریان اور زائرہ مسلسل زا را کو تنگ کرے جا رہے ہیں ۔۔۔۔۔
میری پیاری بہنیا بنے گی دلہنیا
سج کے آئیں گے دولہے راجا
بھیا راجا بجائے گا باجا
سولہ سنگھار میری بہنا کرے گی
ٹیکا چڑھے گا اور ہلدی لگے گی
بہنا کے ہونٹوں پہ جھولے کی نتھنیا
اور جھومیں گے دولہے راجا
بھیا راجا بجائے گا باجا
سیج پہ بیٹھے گی تو ڈولی پہ چلے گی
دھرتی پہ بہنا رانی پاؤں نہ دھرے گی
پلکوں کی پالکی میں بہنا کو بٹھا کے
لے کے جائیں گے دولہے راجا
بھیا راجا بجائے گا باجا
سجناں کے گھر چلی جائے گی بہناں
ہونٹ ہنسیں گے میرے روئیں گے یہ نیناں
رکھیا کے روز رانی بہنا کو بلاؤں گا
لے کے آئیں گے دولہے راجا
بھیا راجا بجائے گا باجا
میری پیاری بہنیا بنے گی دلہنیا
بھیا راجہ بجائے گا باجہ
اپنی بھونڈی آواز میں وہ دونوں گانے کا بیڑا غرق کر رہے تھے۔۔۔
اس سے پہلے کہ آر يان کچھ اور کہتا زارا کی آنکھوں سے آنسوں نکلنے لگے
ارے ارے میری بٹیا کو رلا دیا !!آفاق صاحب نے دونوں کو ڈا نٹے ہوۓ کہا
جبکے زارا کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر وہ دونوں بھی سیرس ہو گیے ۔۔۔
میری بیٹی تو بہت بہادر ہے ۔۔آفاق نے زارا کو اپنے ساتھ لگایا ۔۔زارا کو انکی مضبوط بانہوں میں شفقت اور تحفظ کا احساس ہورہا تھا ۔۔۔۔۔۔
آريان نے زارا کے پاس آ کر اسکے سر پر ہاتھ رکھا اور نم آنکھوں سے کہنے لگا ۔۔۔۔۔۔
پیاری
بھیا کی سدا راج دلاری
جب نہ ہوں اک دوجے کے پاس
ہو جائیں ہم کتنے اداس
چمن میں ہے تجھ سے لہک
مرے دل میں ہے تجھ سے مہک
نہیں ہے یہاں کوئی امتیاز میں اور تو
میں تیری جستجو تو میری آرزو
روح دونوں کی رکھے مشترک احساس
جو میرا جام و سبو وہی تیری پیاس
تو میری راز داں تو میری زندگی کا باب
ہے میری آبرو یہ تیرا حجاب
حوران فردوس سے پاک ہے تیرا داماں
تیرے اشکوں سے وضو کریں کروبیاں
دل ویراں میں تجھ سے آئے بہار
میں ترا شوق دیدار تو میرے دل کا قرار
کس سے کریں گلے شکوے جاناں
کہ فرقت نے لوٹے ہیں کتنے ارماں
تیرا عشق سونا تیری وفائیں پارس بہن
غم فرقت کی تپش بنائے کیمیا کو کندن
تیرا پھول سا چہرہ سدا مسکراتا رہے
تیرا بھیا یونہی ترے نغمے گاتا رہے
بھائی کی ہے دلی تمنا سدا سکھی رہے بہنا
جاں سیکھ لے بھیا سے مسکرا کے غم سہنا
زارا نے اپنے لاڈ لے ہنستے مسکرا تے ہوۓ بھائی کو دیکھا جو ہمیشہ شرا ر تیں کرتا تھا لیکن شاید بہن اور بھائی کا رشتہ ہی اتنا انمول اور خاص ہے جو آ ریان بھی بہن کی جدا ئ پر غم ذدہ تھا ۔۔۔۔
زائرہ کے پکارنے پر زارا نے اسکی طرف دیکھا ۔۔زائرہ اسکے پاس آئ اور اداس لهجے میں بولی
آج تو میں نے تباہی مچا دینی تھی ___
. . . . . . . . . . . = . . . . . . . . . . .
بسس مجھے کوئی شعر یاد نہیں آ رہا ____
اور آخر میں اسکا لهجہ شرارتی ہو گیا ۔۔۔۔
اللّه کا شکر تمہیں کوئی شعر یاد نہیں آ رہا ۔الٹی سیدھی شاعری ۔۔۔۔۔۔زارا نے مسکراتے ہوۓ کہا
ملک شہباز نے اس گروپ کی ساری ڈیٹیل ارحم کو بتا دی ۔۔۔۔
ارحم اور باقی افسر با قا عدہ ایک پلاننگ سے اس گروہ کو اریسٹ کرنے کی کوشش میں تھے ۔۔۔۔۔
گینگ Ms
کا لنک بھی کہیں نہ کہیں اس گروپ سے تھا یہ ارحم کا خیال تھا ۔۔۔لیکن اس گروپ کا کچھ بھی پتا نہی چل رہا تھا
اگلے دن ارحم اور فورس اس گروپ کو پکڑ نے میں کامیاب ہو گیے ۔۔۔یہ پہلی ایسی کامیابی تھی جس پر سب بہت خوش تھے ۔۔۔۔۔۔۔
جیک یونی آیا لیکن اسے سکون نہی مل رہا تھا وہ جب جب یو نی آ تا اسکا ضمیر اسے ملا مت کرتا ۔زا ئرہ سے بھی ملنا تھا تاکے دیا کے ماضی کے بارے میں جان سکے ۔۔۔۔لیکن اسکی انا آ ڑے آ رہی تھی کیسے وہ خود جا کر بات کرتا
تبریز کو جیک بہت الجھا ہوا لگ رہا تھا اس نے کیی بار پوچھنے کی کوشش بھی کی لیکن جیک خاموش ہی رہا ۔۔۔۔
کلاس ختم ہونے کے تھو ڑی ہی دیر بعد زا ئرہ جیک کے پاس آئ یہ اسکی دوست کا معاملہ تھا اور دیا کے لئے وہ کچھ بھی کر سکتی تھی ۔۔۔۔
جیک نے اسے اپنی طرف آتے دیکھا تو ھلکی سے سمائل اسکے فیس پر آ ئ لیکن اگلے ہی لمحے ایسے ظاہر کرنے لگا جیسے زائرہ بلکل ہی ان جان ہے
مسٹر مجھے پتا ہے کہ آپ میرا انتظار کر رہے تھے!!!زا ئرہ نے اسکی چوری پکڑ لی
مس زائرہ میں آپکا ویٹ نہی کر رہا تھا !!آپ مجھے دیا کے ماضی کے بارے میں بتا دیں جو میں آپ سے سوال پوچھنگا ۔۔۔۔جیک فورا مدعے پر آ یا
“نہیں میں نہی بتا ؤنگی ۔۔میں نے آپ سے ہیلپ کا بولا تھا لیکن آپ نے منع کر دیا تھا ۔۔اب میں کیوں بتاؤں آپ کو !!!!
اور ۔۔۔جیک کو ایک بار پھر اس سر پھری لڑکی کی وجہ سے غصہ آ گیا ۔۔
اس نے کھڑے ہوکر زائرہ کو بازو سے پکڑا اور گرجتی ہوئی آواز میں وہاں سے جانے کا کہا ۔۔۔لیکن زائرہ کے منہ سے نکلے ہوۓ الفاظ سے جیک وہی پر سن رہ گیا ۔۔۔۔۔۔
بھائی ۔۔۔زائرہ نے سسکتے ہوۓ کہا
بھائی کا لفظ سن کر جیک کا سارا غصہ اڑ گیا اور اسکا لهجہ ایک ایسے بچے کی طرح ہوا جو کافی عرصے بعد اپنوں سے ملا ہو
تم نے کیا کہا ؟؟؟دوبارہ کہنا ۔۔۔جیک نے زا ئرہ سے پوچھا جو حیران نظرو ں سے جیک کو دیکھ رہی تھی
بھائی ۔۔۔۔۔۔زا ئرہ نے دوبارہ کہا
بھائی ۔۔۔۔۔جیک نے زیر لب کہا اور زائرہ کی طرف سر شاری سے دیکھتے ہوۓ کہا ۔۔۔
“تم میری بہن بنو گی ۔۔میں تمھیں سب کچھ بتاؤنگا ۔تمہاری مدد بھی کرنگا “ زا ئرہ کو ایسے لگ رہا تھا جیسے ایک چھوٹا بچا خواہش کر رہا ہو ۔۔۔۔
زائرہ نے اثبات میں سر ہلا یا اور جیک کو سب کچھ بتا دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روگ دل میں اتر چکا اب تو
سر سے پانی گزر چکا اب تو
مسکراتا تھا بات کرتا تھا
میں بھی جیتا تھا مر چکا اب تو
زندگی بول کیا تماشا ہے
یہ محبت بھی کر چکا اب تو
جانتا ہوں ہجر کا صدمہ بھی
زخم تازہ تھا بھر چکا اب تو
ضبط صحرا کے شامیانے میں
غم مسافت کے دھر چکا اب تو
وقت رفتار کا مجاور ہے
یہ بھنور بھی گزر چکا اب تو
ڈھل سکے نہ نئے تقاضوں میں
شہر سارا نکھر چکا اب تو
اب اذیت سکون دیتی ہے
دکھ لہو میں بکھر چکا اب تو
کچھ تو مجبوریاں بھی حائل ہیں
کچھ یہ دل بھی سدھر چکا اب تو
ان شر پسندوں کی پلا ننگ کو ناكام بنا دیا گیا تھا لیکن ارحم کے اندر ایک ایسی خاموشی نے ڈیرا بسا لیا تھا جو مشکل سے ہی اب ہنسی میں بدلے گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیا کے ماضی میں بارے میں جان کر اسے بہت اذیت ہی رہی تھی ۔۔۔۔۔۔یونی سے واپس آ کر اسکے قدم خود بہ خود اس بابا کی طرف بھڑ نے لگے ۔۔انکی باتیں جیک کے لئے سکون کی طرح ہوتی
وہ خاموشی سے آکر انکے پاس بیٹھ گیا
پریشان ہو… ؟بابا کو پتا نہی کیسے جیک کے آنے کا پتا چل جاتا تھا شا ید وہ محسوس کر لیتے تھے
عجب سی بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہوں … ؟
کچھ فیصلہ کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی… ؟
کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط.. ؟
کس پر یقین کیا جائے اور کس سے احتیاط کی جائے… ؟
حالات کا کیسے مقابلہ کیا جائے.. ؟
اس طرح کے کئی وسوسے
خیالات میں الجھا ہوا ہو.ں . ؟
دل ہے کہ ڈوبا جا رہا ہے زبان کو جیسے چپ سی لگ گئی ہو… سوچنے سمجھنے کی صلاحیت جیسے کہیں کھو رہی ہو.. ؟جیک نے شدید بے بسی سے کہا
“تو ایسے میں بسسسس ایک کام کرو اک گہرا لمبا سانس لو , پل بھر کے لئے خود کو دنیا کے اس شور و غل سے دور کر لو…
اور جائے نماز بِجھا کر سجدہ ریز ہو جاؤ اور اپنے دل کی ایک ایک بات ایک ایک خیال , وسوسہ اللہ کے آگے بیان کردو کوئی بات دل میں نہ رکھنا آج سب کہہ ڈالو..
جیسے ماں کے آگے روتے ہو نا…؟
اس کی گود میں پل بھر کے لئے سر رکھ کر دنیا کا غم بھولنے لگتے ہو نا.. ؟
بس اسی طرح رو رو کر اللہ کے سر تسلیم خم کر دو اس سے مانگو اس سے باتیں کرو اس کے آگے اپنی کمزوریوں کا بار بار تذکرہ کرو..
ایسے میں وہ اللہ رب العزت آپ کو اپنی محبت کے آغوش میں لے لے گا سکون آپ کی رگوں میں خون کی طرح دوڑنے لگا گا…..اور یہ سکون یقین کی کیفیت اختیار کر جائے گا.
ایسا یقین جو اللہ رب العزت سے دن بہ دن قریب کرتا جائے گا اس کی محبت کا لطف آنے لگے گا جیسے جیسے آپ اللہ کے قریب ہوتے چلیں جائیں گے یہ دنیا کے بوجھ, غم , فکر سب راحت , سکون اور خوشی میں بدلتے جائیں گے.
تو یہ موقع اپنے ہاتھوں سے ضائع نہ کرو جتنا رو سکتے ہو رو لو اپنے پیارے اللہ جی کے آگے ہو سکتا ہے یہ ایک بار کا رونا اُس کو اتنا پسند آ جائے ….کہ
آپ ہمیشہ کے لئے ایک دن ,ایک ماہ, ایک سال نہیں بلکہ ساری زندگی کے لیے اس کے محبت اور رحمت کے حصار میں آجائیں تو پھر سوچنا کیسا…
آج ہی خود کو اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سرینڈر کر دیجئے اپنا آپ اس کے آگے پیش کر دیجئے …..کہ اے اللہ میں تیرا بندہ تیری رضا چاہتا ہوں مجھے عطاء کیجیے نا اپنی رضا پر راضی رہنے والا بنا دیں نا, مجھ سے راضی ہوں جائیں نا.جو ہے آج دل میں سبببب کہہ ڈالیں
بسسسس اپنے رب کو راضی کر لیجیے دنیا بھی سنورنے لگی اور آخرت بھی.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
اور جیک کو ایسے لگ رہا تھا جیسے اسکے سینے سے ایک بھاری بو جھ کم ہو رہا ہو
اس نے اپنے
روم میں آکر وضو کیا اور اللّه کے آگے سجدہ ریز ہو گیا ۔۔۔۔
۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔