“بھائی مجھے آپ سے بات کرنی ہے ” سلطان عباد,, آج سلطان فرجاد,, کے روبرو کھڑا تھا ـ مگر فرجاد نے کوئی جواب نہ دیا اور اٹھ کر جانے لگا ـ عباد نے آگے بڑھ کر بازو سے پکڑ کر روکا ” بھیا آخر کب تک آپ یوں کرتے رہیں گےـ قصور کیا ہے میرا جو آپ مجھ سے بد ظن رہتے ہیں میرے لیے آپ کے پاس صرف نفرت ہی نفرت ہے آخر کیوں ؟؟؟”
” اس کیوں کا جواب تمھیں بہتر پتا ہے ” سلطان فرجاد نے اپنا بازو چھڑواتے ہوئے درشتی سے کہا
” نہیں آج آپ کو بتانا پڑے گا کیوں کرتے ہیں آپ میرے ساتھ ایسے ـ مجھ سے نفرت کی آگ میں آپ نے اس معصوم بے گناہ کو بھی جلا ڈالا ـ ایک بار تو سوچا ہوتا عزت ہے وہ آپ کی ”
“عزت” فرجاد نے اس کی بات کاٹ کر کہا ” عزت میری اور محبت کی پینگیں تم سے واہ ” فرجاد کی آنکھوں میں اس کے لیے نفرت ہی نفرت تھی
” نہیں محبت نہیں کرتی تھی وہ مجھ سے ـ میں محبت کرتا تھا اس سے ” عباد نے چلّا کر کہا فرجاد نے ٹھٹھک کر اسے دیکھا عباد نے آج تک اونچی آواز میں کسی سے بات نہیں کی تھی اور آج ـ ـ ـ ـ سلطانہ بیگم اور ثمانہ بھی اس کی آواز سن کر بھاگ کر آئیںں ـ ” لیکن مجھے نہیں پتا تھا کہ میری محبت کی اُسے اتنی بڑی قیمت دینی پڑے گی ـ آپ کی خوشی کی خاطر میں خود ہی راستے سے ہٹ گیا ـ بچپن سے لے کر اب تک آپ مجھ سے نفرت کرتے آۓ ہیں مگر میں نے ہمیشہ آپ سے محبت کی ہے کیونکہ بابا کو محبت ہے آپ سے مگر میری ماں کی نفرت میں کبھی آپ کو میری محبت نظر نہیں آئی اور آج وہ بے گناہ لڑکی آپ کی نفرت کی بھینت چڑھ گئی ـ شادی کے بعد ایک دن بھی نہیں ملی وہ مجھ سے ہر طرح کی قسم دینے کو تیار ہوں میں ” وہ ٹھوس لہجے میں بولا
‘” تو پھر گئی کیوں وہ یہاں سے میں نے تو نہیں نکالا تھا اسےـ پھر کیوں بھاگ گئی وہ ” فرجاد نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا
” گئی نہیں نکالی گئی ہے اس کا بھائی ایک پلین کے تحت یہاں آیا تھا اور اس دن بے ہوشی کی حالت میں اسے لے کر گیا تھا ـ میں نہیں جانتا وہ کہاں ہے مگر اتنا جانتا ہوں اس کے بھائی نے پہلے بھی اس کی قیمت وصول کی تھی اب بھی یقیناً وہ ایسا ہی کرے گا ” عباد کا لہجہ بھی دھیما پڑا
” نہیں ایسا کیسے ہو سکتا ہے ـ خیرو خیرو گاڑی نکالو ہم ابھی جائیں گےاسکے گھر” فرجاد نے اپنے ڈرائیور کرو آواز دی ” ان لوگوں کے گھر تالا لگا ہواہے کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں ہیں سواۓ آپ کی بیوی کے ” سلطان عباد نے کاٹ دار لہجےمیں کہا ” یہ کیا کہہ رہے ہو تم ” “ٹھیک کہہ رہا ہوں پوچھ لیجیے ان سے” عباد نے ثمانہ بیگم کی طرف اشارہ کیا جو بے یقین نگاہوں سے اسے ہی دیکھ رہی تھیں
” جھوٹ ہے یہ بکواس ہے شرم آنی چاہئے تمھیں مجھ پر الزام لگاتے ہوئے ” وہ گڑ بڑا کر بولیں
سلطانہ بیگم نے بھی بیٹے کو گھورا ” تمھیں اس دو ٹکے کی لڑکی سے اتنی ہمدردی ہو رہی ہے کہ اپنی خاندانی بھابھی پر الزام لگا رہا ہے شرم کر کچھ ”
” مت بھولیں اگر یہ بھابھی ہیں تو وہ بھی بھابھی ہیں میری” عباد تلخی سے بولا
” کہاں ہے وہ؟؟” سلطان فرجاد نے اپنے مخصوص بارعب لہجے میں پوچھا فرجاد نے ہمیشہ ثمانہ بیگم سے عزت سے بات کی تھی کیونکہ وہ عمر میں ان سے بڑی تھی اور دوسری شادی کے بعد تو ان کے دل میں اور بھی عزت آ گئی تھی مگر اب ـ ـ ـ ـ
” مجھے کیا پتا کہاں ہے بھاگ گئی ہو گی اپنے کسی یار کے ساتھ” اتنا تلخ لہجہ یہ ثمانہ کا تو ہر گز نہیں تھا
” سیدھی طرح بتاؤ ورنہ ـ ـ ـ” انہوں نے بات ادھوری چھوڑ دی
” ورنہ کیا کرو گے تم وہ کم ذات تو تھی ہی ایسی شادی سے پہلے ایک بھائی پر ڈورے ڈالتی رہی اور شادی کے بعد دوسرے پر ـ اچھا ہوا نابھاگ گئی خس کم جہاں پاک ” سلطانہ بیگم نخوت سے بولیں
” نوری ـ ـ نوری ” فرجاد نے نوری کو بلایا ـ کچھ ہی دیر میں نوری بھاگی آئی
” حکم سرکار” وہ سر جھکا کر کھڑی ہو گئی ـ وہ ثمانہ بیگم کی خاص ملازمہ تھیں
” میں جو پوچھوں سچ سچ بتانا ورنہ زبان گدی سے کھینچ لوں گا”
” جی جی سرکار ” وہ گھبرا کر بولی
” مزنہ کو کون لے کر گیا تھا اس دن؟؟”
” وہ ـ ـ جی ــ ـ ” اس نے ثمانہ بیگم کی طرف دیکھا
” ہم جو پوچھ رہے ہیں وہ بتاو ” وہ دہاڑا
” وہ ـ ـ انکے بھائی لے کر گۓ تھے ” اس نے اٹک اٹک کر جواب دیا
” بی بی جی کی کیا بات ہوئی تھی اس سے؟؟ ” اس نے ثمانہ بیگم کی طرف اشارہ کر کےپو چھا
ثمانہ اس سارے عرصے میں پہلی بار گھبرای اور آنکھوں سے اسے کچھ اشارہ کیا
” وہ جی کچھ نہیں ” اس نے ہکلا تے ہوۓ کہا
سلطان فرجاد نے اپنے نوکر کو آواز دی ” اسے لے جاؤ اور قید خانے میں ڈال دو اور جب تک سچ نہ اگل دے باہر نہ نکالنا ”
” یہ میری ملازمہ ہے میری اجازت کے بغیر تم ایسا نہیں کر سکتے ” ثمانہ بیگم نے بے خوف ہو کر کہا
” لیکن یہ میری حویلی ہے اور میں جو چاہوں یہاں کر سکتا ہوں ”
اس تمام عر صے میں سلطانہ بیگم خاموش تماشائی بنکر کھڑی رہیں وہ جانتی تھیں کہ بولنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے فرجاد جو ٹھان لے وہی کرتا ہے
” نہ نہیں صاحب میں سب بتاتی ہوں معافی دے دیں صاحب میں بتاتی ہوں ” فرجاد کے اشارے پر نوکر نے اسے چھوڑ دیا ” ہاں بولو”
” وہ جی بی بی جی نے پیسے دئے تھے ان کے بھائی کو کہ وہ اسے لے جائیں
سلطان فرجاد کے سر پر آسمان گر پڑا اتنا بڑا دھوکہ وہ تیزی سے ثمانہ کی طرف بڑھا اور بالوں سے پکڑ لیا ” بتا کہاں ہے وہ ورنہ یہیں گاڑ دوں گا تمہیں ” وہ غرایا ” چھوڑو مجھے نہیں پتا جھوٹ بولتی ہے یہ بکواس کرتی ہے میں اسے ۔ ۔ ۔ ” چٹاخ چٹاخ پے درپے پڑنے والے تھپڑوں سے وہ چکرا کر صوفے پر گرگئی سلطانہ بیگم آگے بڑھیں ” کیا کر رہا ہے پاگل ہے اس دو ٹکے کی لڑکی کی وجہ سے ـ ـ ـ ”
” بس ” وہ چیخا ” خبردار اگر اب آپ نے اسے دو ٹکے کی لڑکی کہا تو میں یہ بھول جاؤ ں گا کہ میرا آپ سے کیارشتہ ہے ہٹ جائیں میرے راستے سے ” وہ بپھر کر پھر سے ثمانہ کی طرف بڑھا عباد تیزی سے آگے بڑھا ” بھائی پلیز آرام سے اس طرح معاملا بگڑسکتا ہے ـ بھابھی پلیز آپ بتا دیں وہ مزنہ بھابھی کو لے کر کہاں گیا ہے ؟؟” وہ ملتجی ہوا
” ہونہہ خوب جانتی ہوں تمھیں اتنی تکلیف کیوں ہو رہی ہے یہ تمھاری ہی لگائی ہوئی آگ ہے ـ یہ تم اتنا دم نہ بھرو اسکا یہ تو ہے ہی سوتیلا کون سا “فرجاد کا ہاتھ ہوا میں اٹھا اور اٹھا ہی رہ گیا کیونکہ ثمانہ نے اسکا ہاتھ روک لیا تھا ” مجھے مزنہ مت سمجھنا سلطان فرجادعلی جو جانوروں جیسی زندگی گزار کر بھی اف نہ کرے میں شیر علی خان کی اکلوتی بیٹی ہوں چاہوں تو کھڑے کھڑے تمھیں خرید لوں”
“تم اپنی اوقات پر آہی گئی آخر میں بھی حیران تھا کہ خون سلطانہ بیگم کا ہو اور ڈنگ نہ مارے ہونہہ یہ تمھارے خون میں شامل ہے ”
” سلطان فرجاد ” سلطانہ بیگم تڑپ کر بولیں اس نے ہاتھ اٹھا کر انہیں خاموش رہنے کا اشارہ کیا” میں تمھیں ایک منٹ بھی اس گھر میں برداشت نہیں کر سکتا دفعہ ہو جاؤ ” سلطان فرجاد نے اس کا بازو اور اسے گھسیٹنے لگا ” بھیا ـ بھیا ” عباد پیچھے لپکا وہ اسے گھسیٹتا نیچے لے آیا ” میں تمھیں آزاد کرتا ہوں میں طلاق دیتاہوں ” سلطانہ بیگم نے دل پر ہاتھ رکھ لیا ” طلاق دیتا ہوں طلاق دیتا ہوں دفعہ ہو جاؤ اب ” ثمانہ بیگم کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا اسکی چال اسی پر الٹ دی جاے گی مگر اس نے ہمت آکھٹی کی آخر اپنی بے عزتی کا بدلہ بھی تو لینا تھا ” ہونہہ جس لڑکی کی وجہ سے تم نے مجھے چھوڑا دیکھتی ہوں تمہیں کیسے ملتی ہے وہ ـ جانتے ہو کہاں ہے وہ ؟؟ کوٹھے پر ” فرجاد تیزی سے پلٹا “کیا بکواس ہے یہ ؟؟” ” ہونہہ بکواس نہیں سچ ہے یہ دیکھتی ہوں کیسےواپس آتی ہے وہ یہاں ” وہ اُسے دہکتے الاؤ میں جھونک کر خود چلی گئی” نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا میں ایسا نہیں ہونے دوں گا ” اسے لگا اب وہ کبھی نہیں اٹھ سکے گا وہ نیچے زمیں پر بیٹھتا چلا گیا عباد تیزی سے اسکی طرف لپکا
* * * * * *
یہ اداسیوں کا موسم کہیں رائیگاں نہ جا ۓ
کسی زخم کو کریدو کہیں درد کو جگاؤ
وہ آج تین دنوں بعد ہوش میں آئی تھی اس نے آنکھیں کھول کر ادھر اُدھر دیکھا ” یہ… یہ میں کہاں ” وہ حیران ہوی وہ یہاں کیسے آگئی رفتہ رفتہ اسے سب یاد آگیا تو کیا ولید بھائی. . . او مائی گاڈ فرجاد تو بہت غصہ ہو جاںیں گے وہ تیزی سے نیچے اتری مگر کمزوری کی وجہ سے چکرا گئی کچھ دیر بعد ہمت کر کے اٹھی اور دروازے کی طرف گئی مگر یہ کیا دروازہ لاک تھا ” یہ لاک کیوں ہے ؟؟” اس نے زور زور سے دروازہ بجانا شروع کر دیا مگر بے سود وہ تھک ہار کر وہیں زمین پر بیٹھ گئی نجانے اب قسمت اس کے ساتھ کیا کرنے والی تھی
* * * * * * * *
اس دن کے واقعہ کے بعد غانیہ نے کمرے سے نکلنا بند کر دیا کوئی بھی اس سے بات نہ کرتا ـ ریحان صاحب اسے دیکھتے ہی منہ دوسری طرف کر لیتے انعم نے اس دن کے بعدسے اپنا کمرہ بھی الگ کر لیا تھا اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ سب ہوا کیسے ؟؟ آج وہ بہت دنوں بعد کمرے سے باہر نکل کر لان میں آکربیٹھ گئی اسے یاد آیا کہ کس طرح وہ تینوں مل کر شرارتیں کیا کرتے تھے اور آج کوئی اس سے بات بھی نہیں کرنا چاہتا ـ اسکی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں اس کا دل چاہتا کہ وہ کہیں دور بھاگ جاے وہ سوچوں میں اس قدر گم تھی کہ اسے اسد کے آنے کا پتا ہی نہ چلا
“آہم آہم” اسد نے گلا کھنکھار کر اسے اپنی جانب متوجہ کیا وہ بری طرح چونکی
” آپ ” وہ اسے دیکھ کر کھڑی ہو گئی اسد نے غور سے اس دبلی پتلی لڑکی کو دیکھا درمیانہ قد، سانولہ رنگ، بڑی بڑی آنکھیں اور لمبے بال جنہیں وہ سکارف میں چھپا کر رکھتی تھی اس میں کچھ بھی غیر معمولی نہ تھا اس کی بڑی بڑی کالی آنکھیں ، لمبی پلکیں اور چہرے پر بے تحاشا معصومیت اگر اس کا مقابلہ انعم سے کیا جاتا تو بلاشبہ انعم اس سے ذیادہ خوبصورت تھی مگر غانیہ کی لاپرواہی اور معصومیت اسے منفرد بناتی تھی وہ اسکے یوں دیکھنے پر کنفیوژ ہوئی تھی ـ جونہی
وہ جانے کے لیے واپس مڑی تو اسد نے آگے بڑھ کے اس کا ہاتھ پکڑ لیا وہ حیران نظروں سے اسے دیکھنے لگی عین اسی لمحے مؤ حد گھر میں داخل ہوا غانیہ کی نظر اس پر پڑی تو ہاتھ چھڑا کر اندر بھاگ گئی مؤ حدکی نظروں نے دور تک اس کا پیچھا کیا
* * * * * * * *
” مے آئی کم ان سر ” سلطان ایاد جو کرسی سے ٹیک لگاۓ آنکھیں موندے لیٹا تھا آواز پر چونک کر سیدھا ہوا ” یس کم ان ” گارڈ اندر داخل ہوا اور آکر اپنے پیشہ ورانہ انداز میں بولا ” ہم نے بہت کوشش کی ہے اُس لڑکی کو ڈھونڈنے کی مگر وہ دوبارہ کہیں نظر نہیں آئی،،،،
آگے کیا حکم ہے سر ”
” ہوں ” وہ کافی دیر سوچتا رہا اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا اس کا موبائل بج اٹھا اس نے نمبر دیکھا ” عباد بھائی ” وہ حیران ہوا اور جلدی سے کال رسیو کی ” جی بھیا خیریت ”
” ہاسپٹل کیوں ؟؟” عباد کی آواز پر وہ حیران ہوا
” او گاڈ کیا ہوا ہے انہیں ؟ میں ابھی پہنچ رہا ہوں ،،،اوکے ” وہ تیزی سے اٹھا اور بھاگنے کے انداز میں باہر کی طرف لپکا گارڈ بھی اس کی تقلید میں باہر نکلا ـ آدھے گھنٹے بعد وہ ہاسپٹل پہنچا سلطان عباد اسکا منتظر تھا ” بھیا کیسے ہوا یہ سب ؟؟؟” وہ پریشانی سے گویا ہوا جواب میں عباد نے اسے ساری تفصیل بتادی
” او مائی گاڈ بھابھی ایسے کیسے کر سکتی ہیں اور مزنہ بھابھی کہاں ہیں وہ ؟؟ ”
” پتہ نہیں ابھی کچھ پتا نہیں ” عباد بولا
” بھائی اتنے کمزور دل کے کب سے ہو گۓ ” وہ حیران ہوا
” یہ باتیں چھوڑو دعا کرو بس کہ وہ ٹھیک ہو جائیں ”
” آمین”
* * * * * *
” انعم انعم ” شیزہ نے لاؤ نج میں کھڑے ہو کر پکارا غانیہ کچن میں چاۓ بنا رہی تھی اس کی آواز سن کر باہر آئی ” وہ اپنے کمرے میں ہے ” غانیہ نے ڈرتے ڈرتے بتایا کہیں وہ کچھ سنا ہی نہ دے ” ہوں ٹھیک ہے ” یہ کہہ کر وہ اوپر چلی گئی غانیہ اس کے لہجے پر غور کرتی رہ گئی ـ شیزہ کمرے میں داخل ہوئی تو انعم ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی بال سیدھے کر رہی تھی ” تمھارے لیے ایک گُڈ نیوز ہے ” شیزہ نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا
” کیا ” وہ حیرانی سے اس کی طرف پلٹی
” سلطان عباد کے بڑے بھائی سلطان فرجاد کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے ”
” او مائی گاڈ کیسے اور یہ گڈ نیوز ہے ؟؟” آخر میں وہ غصہ ہوئی
” پہلی بات یہ کہ وہ عباد کا سوتیلابھائی ہےاس لیے اتنی پریشان مت ہو اور دوسری یہ کہ اب تم عباد کے بھائی کی تعزیت کے بہانے عباد سےمل سکتی ہو ” شیزہ نے ٹانگیں پھیلاتے ہوۓ کہا
” سچ میں ” انعم نے حیرت سے پوچھا تو شیزہ نے اثبات میں سر ہلا دیا
” تو پھر کب ملیں گے ہم ” اس نے بے قراری سے پوچھا
” ایک دو دن تک ” شیزہ نے سوچ کر کہا
” ہوں ٹھیک ہے ـ ـ ـ تم کافی پیوؤ گی یا چاۓ ؟؟”
“کافی ٹھیک رہے گی ”
“اوکے میں بنا کر لاتی ہوں ” وہ چلی گئی جبکہ شیزہ دوبارہ اپنے شہزادے کے بارے میں سوچنے لگی