پورا ایک دن بہت خاموشی سے دبے پاؤں انکے درمیان سے سرسرا کر گزر گیا تھا۔ نہ ہی لالہ رُخ نے ارسل کی جانب دیکھا تھا اور نہ ہی ارسل نے لالہ رُخ کی طرف دیکھنے کی غلطی کی تھی۔۔ اس جیسی سر پھری لڑکی کا کیا بھروسہ تھا۔۔ جانے کیا کردیتی اس کے ساتھ۔۔
اس نے سوچتے ہی جھرجھری لی تھی۔ پھر صوفے پر دراز، موبائل نگاہوں کے سامنے کیۓ کچھ ٹائپ کرنے ہی لگا تھا کہ لالہ رُخ کی چیخ پر بے اختیار ہی موبائل اسکی گرفت میں اتھل پتھل سا ہوگیا۔ اس نے باقائدہ ڈر کر رُخ کی جانب دیکھا تھا۔ وہ اب فرطِ جذبات سے دہکتی اٹھ کھڑی ہوئ تھی۔ وہ بھی آہستہ سے اٹھ بیٹھا۔۔ سوالیہ نگاہوں سے اسکا تمتماتا سا چہرہ دیکھنے لگا۔۔
“آپ سچ کہہ رہے ہیں ناں لالہ۔۔! آپ مجھ سے مزاق تو نہیں کررہے ناں۔۔!”
وہ اب بے چینی اور بے یقینی کے سمندر میں غوطہ زن ہوئ۔۔ دائیں سے بائیں۔۔ بائیں سے دائیں۔۔ اور پھر سے دائیں۔۔ ٹہل رہی تھی۔ ارسل کی نگاہیں اسکی جنبش کے ساتھ ساتھ سفر کرنے لگیں۔ وہ اب باقائدہ کودنے لگی تھی۔ اس نے کوفت زدہ سی نگاہ اس پر ڈالی اور دوبارہ سے دراز ہونے ہی لگا تھا کہ اسکی اگلی چیخ پر جھٹکے سے پھر سیدھا ہو بیٹھا۔
“کیا۔۔!! اگلے ہفتے۔۔ آپ اگلے ہفتے ہی کریں گے شادی۔۔ ارے رکیں۔۔ رامین مان گئ کیا۔۔ اچھا چھوڑیں اسے۔۔ اسکا ماننا نہ ماننا برابر ہے۔۔ ہوتی کوئ میرے جیسی تو پھر بتاتی آپکو کہ مہرباں جب آتے آتے دیر کرتے ہیں تو کس قسم کے خوفناک چھتر انتظار کررہے ہوتے ہیں ان مہرباں حضرت کا۔۔ اب وہ تو بیچاری رامین ہے ناں۔۔ کیا کرسکتی ہے آپکے جیسے جن کے سامنے۔۔”
وہ اب ہنستی ہوئ تیز تیز پشتو میں بولتی جارہی تھی۔ اسکی خوشی بڑی جنگلی قسم کی تھی۔۔ یا شاید اسکا اظہار ہی جنگلیوں والا تھا۔۔ ہا ہا ہو ہو کر کے ہنسنے والا۔۔ خوش ہونے والا انداز۔۔ اللہ گواہ تھا کہ ارسل کو ایسے ٹیڑھے بانکے۔۔ قہقہے لگا کر ہنسنے والے لوگ کبھی پسند نہیں آۓ تھے لیکن ہاۓ ری قسمت۔۔!
اس نے بے ساختہ ہی ماتھہ پیٹا تھا۔ وہ اس ماتھے پر لکھی تقدیر کو کیسے مٹا سکتا تھا بھلا؟ اسے اس جن کو قبول کرنا ہی تھا۔۔ کیونکہ اس کہانی کا جن وہ ہرگز بھی نہیں تھا۔۔ وہ تو اس کہانی کی “پری” تھا۔ نازک۔۔ ڈرپوک اور بیوقوف سی پری۔۔
اب وہ فون بند کرتی اسی کی طرف آرہی تھی۔ ارسل نے بے اختیار ہی زیر لب کوئ حفاظتی دعا پڑھی تھی۔ پھر بڑی معصومیت سے سر اٹھا کر اپنے سر پر کھڑی آفت کو دیکھا۔۔ وہ یکدم دھم سے اسکے برابر میں بیٹھی تھی۔
“ارسل آپکو پتا ہے رامین کا رشتہ ٹوٹ گیا۔۔”
اس نے ایک زور دار دلفریب سا قہقہہ لگایا تھا۔ ارسل نے ایسے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو “بی بی کچھ تو ہوش کریں۔۔”
“رشتہ ٹوٹ۔۔ رشتہ ٹوٹ گیا مطلب۔۔ اور تم خوش ہو رہی ہو۔۔؟ انکا رشتہ ختم ہوگیا اور تم خوش ہورہی ہو۔۔!”
اسے واقعتاً حیرت نے گھیرا تھا۔ رُخ نے یکدم ہی منہ بگاڑ کر اسکے کندھے پر دھپ رسید کی تھی۔ اس نے جھنجھلا کر اپنا کندھا سہلایا پھر۔۔ برا سا منہ بنا کر اسے دیکھنے لگا۔۔
“میں بتاتی ہوں آپ کو کہ اصل میں کہانی ہوئ کیا۔۔”
پچھلا “واقعہ” اسکی یاد کے پردے سے بالکل صاف ہوچکا تھا اور اب وہ بالکل ڈرامائ سے انداز میں اسے بتانے لگی تھی کہ رامین کی زندگی کی کہانی آخر شروع کیسے ہوئ تھی۔ وہ بھی اسکا انداز دیکھ کر سننے پر مجبور ہوگیا تھا۔۔ کیا غضب کا انداز تھا ویسے۔۔ آنکھیں چھوٹی کر کے۔۔ انگلیوں سے اندیکھی لکیریں کھینچتی وہ ساتھ ساتھ طلسماتی کہانی بُننے لگی تھی۔۔
“ایک دفعہ کا ذکر ہے۔۔ کہ ایک لڑکی۔۔”
“خدا کے لیۓ رُخ میرے کانوں سے خون آنے لگ جاۓ گا۔۔”
ارسل نے گہرا سانس لے کر اسکے گھسے پٹے انداز پر تبصرہ کیا تھا۔ اس نے ایک پل کو ابرو اکھٹے کر کے گویا برا مان کر اس میمنے کی جانب دیکھا۔۔ یہ پہاڑی بکرا۔۔!
“کہانی جب سنانے لگتے ہیں ناں تو کبھی اسے “ایک دفعہ کے ذکر” سے شروع نہیں کرتے۔ یہ کہانی کی روح سلب کرنے کے مترادف ہے۔ تم کہانی کو اس کے حال سے اٹھا کر ماضی کی گتھیوں سے سلجھاؤ۔۔ پھر اسے دوبارہ سے حال میں لا کر بہنے دو۔۔ وہ اپنا وجود کسی شفاف جھرنے کی مانند ثابت کر دکھاۓ گی۔۔ کہانی کو ہمیشہ وہاں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے وہ اپنا وجود آپکو القاء کرتی ہے۔ کہانی کے ساتھ زور زبردستی نہیں کیا کرتے،
نہیں تو پھر وہ آپکو اپنے رازوں کا امین نہیں ٹھہراتی۔۔”
رُخ اپنی گھسی پٹی سی کہانی بھول کر ارسل کو دیکھنے لگی تھی۔ انگلیاں فضا ہی میں ساکت ہوگئ تھیں اور نگاہیں ستائش سے لمحے بھر کو پھیلی تھیں۔
“آپ کیا آفس کے علاوہ کہانیاں بھی سناتے ہیں۔۔؟”
اس نے پوچھ ہی لیا۔۔ وہ بے اختیار ہنس پڑا۔ پھر ابرو اٹھا کر اسے دیکھا۔۔
“پاگل ہو کیا۔۔ بتاؤ پھر کیا ہوا رامین کے رشتے کا۔۔؟”
“پہلے آپ مجھے بتائیں کہ کیا آپکو کہانی آتی ہے۔۔؟”
وہ ضرورت سے زیادہ ہی سنجیدہ لگ رہی تھی۔ اس نے ناسجھی سے اسے دیکھا۔
“ہا۔۔ ہاں۔۔ ایک دو کہانیاں تو آتی ہی ہیں مجھے۔۔”
“آپ سنائیں گے مجھے؟”
اس نے یکدم ہی مچل کر اسکے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیۓ تھے۔ کون کہہ سکتا تھا کہ یہ لڑکی لوگوں کو اٹھا اٹھا کر پھینکا کرتی تھی۔ اس سمے تو وہ کسی معصوم بچے کی مانند امید افزاء نگاہوں سے ارسل کی جانب دیکھ رہی تھی۔۔ لالہ رُخ کو شاید خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ کتنی پیچیدہ تھی۔ اسکا ایک روپ دیکھ کر دوسرا گماں کی سی صورت لگنے لگتا تھا۔۔
اسکے جگمگاتے آئینے کے اس پار کا عکس سیاہ تھا تو دوسرا عکس تر و تازہ سی صبح کی مانند دمکتا ہوا۔ ایسے لوگوں سے ڈرنا چاہیۓ۔۔ وہ کب پگھلتی صبح میں سیاہی کا لبادہ اوڑھ لیں۔۔ کوئ ادراک کیسے کرسکتا ہے بھلا۔۔!
اس نے نامحسوس طریقے سے اپنے ہاتھ اسکی گرفت سے نکالے تھے۔ پھر بادل نخواستہ سر ہلا ہی دیا۔۔ “ہاں۔۔ سنا دونگا۔۔ لو اب۔۔ اور دور ہوجاؤ مجھ سے۔۔”
اسکا انداز بالکل ایسا ہی تھا۔ رُخ نے خوش ہو کر تالیاں پیٹی تھیں۔ پھر چمکتے دانتوں کی بھرپور نمائش کرتی بتانے لگی۔
“مجھے وہ والی کہانی سنائیے گا جس میں شیر ہوتا ہے۔۔ ایک انسان جنگل میں درخت کے اوپر رہتا ہے اور اسکے بہت سارے جانور دوست بھی ہوتے ہیں۔ ساتھ ساتھ وہ اڑ بھی سکتا ہو۔۔ اس کے اندر کسی عام انسان سے بھی زیادہ طاقت ہو۔۔ وہ اچھا خاصہ ہینڈسم ہو۔۔ اسے جانوروں کی زبان بھی آتی ہو۔۔ جنگلی اور پھر پیارا ہو۔۔ کیا ایسی کوئ کہانی آتی ہے آپکو۔۔؟”
ارسل کو اب کہ ہنسی بھی نہیں آرہی تھی۔ اس نے بمشکل پلکیں جھپکا کر رُخ کے رُخِ مبارک کو دیکھا تھا۔
“انسان ہو۔۔ شیر بھی ہو۔۔ اڑتا بھی ہو۔۔ ہینڈسم بھی ہو۔۔ جانوروں کی زبان بھی آتی ہو۔۔ مطلب لگ بھگ خود بھی جانور ہی ہو۔۔ اور بھلا درخت پر کیوں رہے گا وہ۔۔؟ گھر میں رہنے میں کیا مصیبت ہے۔۔؟”
“نہیں۔۔ وہ درخت پر ہی رہتا ہو۔ اس سے ذرا اسکا رف ٹف سا شخصی تاثر پڑے گا ناں۔۔”
لیکن ارسل کو اسکے درخت پر رہنے میں سخت اعتراض تھا۔ رامین کی شادی کہیں پیچھے رہ گئ تھی۔ ابھی اہم مسئلہ یہ تھا کہ وہ “عجیب الخلقت” انسان درخت پر رہے گا یا گھر میں۔۔
“مجھے ایسی ہی ایک کہانی سننی ہے ارسل۔۔ مجھے کچھ نہیں پتا۔۔”
“تمہیں واقعی کچھ نہیں پتا ہے رُخ۔”
اس نے بہت افسوس سے کہا تھا یہ جملہ۔۔ پھر اس نے سر اثبات میں ہلا کر اسے یقین دہانی کروائ کہ وہ اسے ایک ایسی ہی کہانی سنادے گا۔۔ ایسی ہی بکواس کہانی۔۔ بکواس اسکے منہ پر نہیں کہا نہیں تو پھر سامنے کے دانت نہیں بچتے ناں۔۔ سمجھا کریں۔۔
“رامین کا رشتہ کیوں ختم ہوگیا رُخ۔۔؟ تمہارے تایا تو بہت پریشان ہونگے۔ تم اتنی خوش کیوں ہو مجھے سمجھ نہیں آرہا۔۔ سب ٹھیک ہیں ناں گھر میں۔۔ ؟”
“سب ٹھیک ہیں۔۔ اسفند لالہ شادی کررہے ہیں رامین سے۔ تایا نے بھی ہاں کہہ دیا ہے۔ سب بہت بہت خوش ہیں ارسل۔۔ وہ لوگ بہت گھٹیا تھے۔ کسی بھی طرح لائق نہیں تھے وہ رامین کے۔ اچھا ہوا کہ یہ رشتہ ختم ہوگیا اور اسفند لالہ نے شادی کے لیۓ ہامی بھرلی۔۔”
اسکی بات سن کر وہ چند پل تو خاموشی سے کچھ سوچتا رہا پھر آہستہ سے بولا۔۔
“اتنی جلدی اسفند لالہ کا راضی ہونا۔۔ مجھے ٹھیک نہیں لگ رہا۔۔”
اسکی بات سن کر لالہ رُخ کی بانچھیں اگلے ہی لمحے پوری طرح سے کھل گئ تھیں۔ اس نے راز دارنہ سا اسکی جانب جھک کر کہا۔۔
“اتنی جلدی کہاں۔۔ وہ تو کب سے راضی تھے۔۔”
“کب سے راضی تھے مطلب۔۔؟”
ارسل ٹھٹکا تھا۔ لالہ رُخ نے یوں ہاتھ جھلایا جیسے کہہ رہی ہو۔۔ ایک تو آپ بھی ناں ارسل۔۔ بس ارسل ہی ہیں۔۔
“مطلب وہ انہیں شروع سے ہی پسند کرتے تھے۔۔”
وہ اسکی بات پر بھک سے اڑا تھا۔ آنکھیں پھیلا کر پوری طرح سے اسکے آسودہ سے چہرے کو دیکھا تھا۔
“تو پھر وہ کسی اور کے ساتھ انکی شادی کیسے ہونے دے رہے تھے۔۔؟ اور ابھی ایسے اچانک انکے سسرالیوں کی جانب سے انکار کا آنا کچھ مشکوک نہیں لگ رہا تمہیں۔۔ ؟”
اسکی بات سن کر لالہ رُخ مسکرائ تھی۔ پھر سیاہ متبسم آنکھیں اسکی جانب پھیریں۔۔ ہلکا سا اسکی جانب جھکی۔۔
“مجھے پتا ہے ارسل کہ یہ انکار ہوا نہیں ہوگا۔۔ یہ انکار کروایا گیا ہوگا۔۔ لیکن میں کبھی لالہ کو یہ باور نہیں کرواؤنگی کہ میں اس بارے میں جانتی ہوں۔۔ ہم ایک دوسرے سے وہ باتیں نہیں کرتے جن کے پیچھے ہماری کمزوریاں بندھی ہوتی ہیں۔ وہ جانتے ہونگے کہ مجھے اس بات کا علم ہوگا لیکن وہ اور میں ہمیشہ اس بات سے ایسے ہی انجان رہیں گے جیسے یہ سب انہوں نے کیا ہی نہ ہو۔۔”
اسکی ریڑھ کی ہڈی ایک لمحے کو سنسنائ تھی۔ بمشکل تھوک نگل کر اس نے بہت کچھ سمجھتے ہوۓ سر اثبات میں ہلایا تھا۔
“ایسے تو جانے کتنے رازوں کے امین ہوگے تم لوگ۔۔؟”
وہ سیدھی ہو بیٹھی تھی۔ پھر گہرا سانس بھرتی مسکرائ۔۔
“ہم پٹھان لوگ ایسے ہی بہت سے راز اپنے سینوں میں دفن رکھتے ہیں ارسل۔ ہمارے دل بہت بوجھل ہوتے ہیں لیکن ہم پھر بھی۔۔ بھاری بھرکم۔۔ راز سنبھالنا جانتے ہیں۔۔ ہم بہادر ہوتے ہیں۔۔ غیرت مند بھی۔۔ جرأت مند بھی۔۔ ہمیں للکارنا آسان نہیں ہوتا۔۔ لیکن پھر۔۔ وہ بھی ہم ہی ہوتے ہیں جو جوان جنازوں کو اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا کر قبروں تک لے جاتے ہیں۔۔ وہ پھر ہم ہی ہوتے ہیں جو رات کے آخری پہر کسی کی موجودگی نہ پا کر رو پڑتے ہیں۔۔ وہ ہم ہی ہوتے ہیں کہ جنکی عمریں قصاص اور عدالتوں کے چکروں میں گزر کر ختم ہوجاتی ہے۔۔ ہم مزاق تھوڑی ہیں۔۔ ہم زندہ دل۔۔ رازوں کی حفاظت کے دعویدار لوگ ہیں۔۔ کمزور اور بیک وقت مضبوط۔۔!”
ارسل مسکرایا تھا۔
“تم تو خاصی متاثر لگتی ہو اپنے پٹھان لوگوں سے۔۔”
“میں متاثر ہوں بھی۔۔ میں نے اپنے آس پاس بہت جنگیں دیکھی ہیں ارسل۔۔ ظلم کی نا ختم ہونے والی داستانیں سنی ہیں۔۔ لوگوں کو اپنے جوان بیٹوں کے جنازوں کے قریب روتے بلکتے دیکھا ہے۔۔ میں نے بہت خون دیکھا ہے۔۔ بہت تکلیف دیکھی ہے۔۔ لیکن اس سب کے بعد بھی جیسے میں نے جواں مردی سے اپنے گھر کے مردوں کو مقابلہ کرتے دیکھا۔۔ لڑتے دیکھا۔۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ جو بزدلی کی موت مرا وہ بھی کیا خاک ہوا۔۔”
اس نے ارسل کی جانب دیکھا تھا۔ لیکن وہ اسکی جانب دیکھنے کے بجاۓ اسکے ہاتھوں کی اوپری جِلد دیکھ رہا تھا۔۔ جو ہلکی سی خراش زدہ تھی۔۔ اس نے اگلے ہی پل اسکے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر بغور دیکھے تھے۔ پھر چہرہ اٹھا کر رُخ کو دیکھا۔۔
“یہ زخمی کیسے ہوۓ تمہارے ہاتھ۔۔؟”
رُخ نے جلدی سے اپنے ہاتھ اسکی گرفت سے نکالے تھے۔ پھر عجلت میں اٹھ کھڑی ہوئ۔۔
“میں۔۔ میں گر گئ تھی۔۔ اسی لیۓ لگی ہے یہ چوٹ۔۔ اور ابھی مجھے آنٹی اور رمشہ کو بھی تو بتانا ہے پھر تیاری بھی کرنی ہے۔۔ رہنے بھی جانا ہے اماں کے گھر۔۔”
وہ اب “ہاۓ مزے۔۔ مزے۔۔” کہتی کمرے سے باہر کی جانب بڑھ رہی تھی۔ اس نے پرسوچ نگاہوں سے دروازے کی جانب دیکھا اور پھر گہرا سانس لیتا دوبارہ سے صوفے پر نیم دراز ہوگیا۔۔
***
وہ اب دادی اور سمیرا کو فاتحانہ سے انداز میں بتارہی تھی کہ کیسے رامین کا رشتہ ان گھٹیا لوگوں کی جانب سے ختم ہو کر۔۔ بہت ہی پیارے۔۔ گنجے کبوتر۔۔ اسفند سے جڑ چکا ہے۔ دادی اور سمیرا تو خیر بہت ہی خوش ہوئ تھیں۔۔ پھر اس سے شادی کی مصروفیت اور تیاریوں کے بارے میں پوچھنے لگیں۔۔ گھر کی بات گھر ہی میں طے ہوجانے کی طمانیت انکے چہروں ہی سے عیاں تھی۔ اس نے مسکرا کر پلٹتے پلٹتے۔۔ رمشہ کا پوچھا تو دادی بے ساختہ ہی چونکیں۔۔ اس نے انکا چونکنا محسوس کرلیا تھا لیکن پھر بھی اطمینان سے کھڑی رہی۔۔
“وہ تو اپنے کمرے میں ہے بچے۔۔ پتا نہیں کیا ہوتا جارہا ہے اسے۔۔ باہر ہی نہیں نکلتی اپنے کمرے سے۔ کل ہی مجھے شیر بھی کہہ رہے تھے کہ رمشہ کی صحت دن بدن گرتی جارہی ہے۔”
وہ یکدم ہی فکر مند ہوئ تھیں۔ رُخ ہلکا سا مسکرائ۔۔
“آپ اسے مجھ پر چھوڑ دیں۔۔ ابھی دیکھیں کیسے ٹھیک کرتی ہوں میں اسے۔۔ اچھا آنٹی۔۔ مجھے کچھ شاپنگ کرنی ہے شادی کے لیۓ۔۔ رمشہ کو ساتھ لے جاؤں۔۔ کوئ مسئلہ تو نہیں ہوگا ناں۔۔؟”
اسے جواب پتا تھا لیکن پھر بھی رک کر پوچھ لینے میں حرج ہی کیا تھا۔ اس نے بھی سمیرا کی رضامندی پر مسکراتے ہوۓ سراپا لاؤنج سے باہر کی جانب پھیرا اور پھر زینے چڑھتی اوپر رمشہ کے کمرے کی جانب بڑھ گئ۔۔
***
“شاپنگ پر۔۔ لیکن بھابھی میرے پاس تو سب کچھ پہلے سے ہے۔۔”
اس کے سر پر پہنچ کر کہنے پر وہ سٹپٹائ تھی۔ پھر جلدی سے اسکی “آفر” سے خوفزدہ ہو کر نفی میں سر ہلایا لیکن اگر جو لالہ رُخ کسی کے منع کرنے سے مان جاتی تو پھر وہ رُخ کیسے کہلاتی۔ اس نے ہاتھ جھلّا کر بڑے انداز سے اسکی نفی رد کی تھی۔ پھر آگے بڑھ کر اسکی الماری کا ایک پٹ وا کیا۔۔ چند کپڑے الٹے پلٹے۔۔ مایوس ہو کر چہرہ رمشہ کی جانب پھیرا۔۔
“یہ دادی کی کلیکشن تمہاری الماری میں کیا کررہی ہے؟”
اسکے استفسار پر رمشہ نے ناسمجھی سے دیکھا تھا اسکی جانب۔۔
“کیا مطلب؟”
“ہر رنگ ہی سفید، سیاہ ، یا پھر سرمئ ہے تمہاری الماری میں تو۔ ایسے تو نہیں لگ رہا کہ یہ کسی کالج جاتی لڑکی کی الماری ہے۔۔ یوں لگ رہا ہے کہ دادی جان کی الماری غلطی سے کھول لی ہو۔ ”
“آپ میری پسند کا مزاق اڑا رہی ہیں۔۔؟”
وہی ارسل کی طرح خفا ہونے والا انداز۔۔ اسے بے ساختہ ہی میمنہ یاد آیا تھا۔۔ خفا ہو کر رُخ موڑتا۔۔ منہ بسورتا ہوا۔۔ اسے دیکھتی وہ مسکرائ پھر پاس چلی آئ۔ اسے دونوں کندھوں سے تھام کر اپنی جانب پھیرا۔ وہ ڈری ڈری سی تھی۔۔ خوفزدہ۔۔ سہمی ہوئ۔۔ اسے اس چھوٹی سی لڑکی پر لمحے بھر کو ترس آیا تھا۔۔
“تم ڈر رہی ہو۔۔؟”
اسکا سوال بہت براہِ راست تھا۔ وہ لمحے بھر کو خود میں سمٹ سی گئ تھی۔
“نہیں۔۔ می۔۔ میں ٹھیک ہوں بھابھی۔۔”
“ایک دفعہ چہرہ آئینے میں دیکھو اپنا۔۔ بتاؤ کہاں سے ٹھیک لگ رہی ہو تم۔۔؟”
اس نے اسے کھینچ کر سنگھار آئینے کے سامنے کھڑا کیا تھا۔ رمشہ اپنا چہرہ دیکھ کر لمحے بھر کو گنگ رہ گئ۔ روکھا، مرجھایا ہوا۔۔ پژمردہ سا چہرہ تو کبھی بھی اسکی شخصیت کا خاصہ نہیں تھا۔۔ وہ تو ہمیشہ چہکتی چمکتی، تر و تازہ سی رہا کرتی تھی۔۔ یہ اسے کیا ہوتا جارہا تھا۔۔
“بتاؤ مجھے۔۔ کہاں سے ٹھیک ہو تم۔۔؟”
اس نے اسے کندھوں سے تھام رکھا تھا۔ بے اختیار ہی رمشہ کی آنکھوں سے آنسو پھسلے۔۔ گلے میں گرہیں لگنے لگیں۔۔ آنسو روکنے کی وجہ سے حلق درد کرنے لگا تھا۔
“رونے سے کسی نے نہیں روکا ہے تمہیں۔ رو لو۔۔ اچھے سے رو لو۔۔ رونے میں کوئ قباحت نہیں۔۔ لیکن رلانے والوں پر ادھار چھوڑنے کی اجازت بھی نہیں تمہیں۔۔”
اسکی آواز اگلے ہی لمحے دھیمی سرد سی محسوس ہوئ تھی رمشہ کو۔ ایک لمحے کے لیۓ اس نے خوفزدہ ہو کر دیکھا تھا رُخ کو۔۔ کہا پھر بھی کچھ نہیں۔۔
“آج میں تمہیں سمجھاؤنگی رمشہ کہ شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر کیسے ہوتی ہے۔۔!”
اس نے اسے اپنی جانب پھیرا تھا۔ پھر اسکی نم آنکھوں میں مضبوطی سے دیکھا۔ کندھوں کو زور سے تھاما۔
“تم میرے ساتھ ابھی چل رہی ہو۔۔ ابھی اسی وقت۔۔ اس حسان نامی مخلوق کو ایک زوردار گھونسا مارنے۔۔!”
لیکن اسکی اگلی بات پر رمشہ کا سانس حلق ہی میں اٹک کر رہ گیا تھا۔۔ اسے پتا تھا کہ یہ حسان نامی مخلوق کون تھا۔۔ جی وہی۔۔ آپ درست سمجھے۔۔ زرتاج کا خبیث بھائ۔۔
***
ڈر ایک دماغی فتور ہوتا ہے_
اسے خود میں جگہ دینے والے__ اپنے حقوق کے قاتل ہوتے ہیں_ اپنی دنیا کو__ اپنے ہی قدموں تلے روند رہے ہوتے ہیں__ ڈر سے نہ ڈرا کریں__ اسے تو راکھ بنا کر__ اڑا دیا کریں__ کہ پھر آپ آزاد ہونگے__ اپنی ذات میں پلتی ہر اس تاریکی سے__ جو روکتی ہے آپکو__ روشنی کی جانب سفر کرنے سے__ اور جانتے ہیں کیا__ دنیا میں موجود کون لوگ خطرناک ہوتے ہیں__ ہاں وہی__ جو بے خوف ہوں__ جو کسی سے نہیں ڈرتے__ انہیں کوئ چیز نہیں ہرا سکتی__ کیونکہ وہ روند کر آۓ ہوتے ہیں__ اپنے وجود میں پلتی__ سیاہی کو۔۔ سیاہی جو__ روکتی ہے آپکو__ بے خوف ہونے سے__!
وہ بھی اب کے اپنی خالہ کے بنے عالیشان سے گھر میں موجود تھی۔ لالہ رُخ نے خاص طور پر سیاہ لباس زیب تن کررکھا تھا۔ بالوں کو جوڑے میں باندھے، پیروں میں ہائ ہیلز پہنے۔۔ ٹانگ پر ٹانگ جما کر بیٹھی۔۔ وہ اپنے مقابل براجمان شخصیت کو جوتی کی نوک پر رکھے ہوۓ تھی۔ اسکا ٹھنڈا، مسکراتا سا انداز ایسا تھا کہ وہ جس زمین پر چلتی ہے۔۔ اس میں دفن تو ہوسکتی ہے لیکن کسی کی ناحق بات برداشت نہیں کرسکتی۔۔
اسی کے ساتھ رمشہ بھی براجمان تھی۔ اپنے ازلی انداز سے مختلف، ذرا غیر آرام دہ۔۔ لیکن مضبوط بننے کی کوشش کرتی ہوئ۔۔ وہ سبز رنگ کے لباس میں ملبوس ، بالوں کو فرانسیسی طرز کی چوٹی میں گوندھے۔۔ اپنی پوری تیاری کے ساتھ آئ تھی۔۔ اگر آپ مضبوط نہ بھی ہوں تو مضبوط نظر آنے میں کوئ قباحت بھی نہیں۔۔ یہ آتے ہوۓ اسے رُخ نے کہا تھا۔۔ اور اسے احساس ہورہا تھا کہ اس نے ایسا کچھ غلط بھی نہیں کہہ دیا تھا۔۔
سامنے بیٹھیں رشیدہ خالہ البتہ خاصی گڑبڑائ ہوئ لگ رہی تھیں۔ انکا ہاتھ بار بار ماتھا چھو رہا تھا۔۔ رُخ نے ٹھنڈی نگاہوں سے انکا سٹپٹایا سا انداز دیکھا اور پھر مسکرا کر سیدھی ہوئ۔۔
“سوری خالہ جان۔ ہم بغیر بتاۓ ہی آپکی طرف آنکلے۔ دراصل میں اور رمشہ شاپنگ کے لیۓ جارہے تھے پھر رمشہ ہی نے کہا کہ کیوں ناں ایک سلام خالہ کو بھی کرتے ہوۓ چلیں۔۔”
اور وہ لالہ رُخ ہی کیا جو طوفان لانے سے قبل ٹھنڈے طنز کی مار نہ مارے۔ خالہ جو کہ اسے قطعاً بھی پسند نہیں کرتھی تھیں اب کہ ذرا سنبھل کر بیٹھیں۔ وہ اپنی بیٹی کی پسند سے واقف تھیں اور اللہ گواہ تھا کہ کتنی کوششیں کی تھی انہوں نے زرتاج کا رشتہ ارسل سے طے کرنے کی مگر سامنے بیٹھی اس ناگن نے ہر جادو پر جیسے پانی پھیر دیا تھا۔۔
“آتے ہوۓ بتا کر آنا چاہیۓ تھا رمشہ۔ میں بس ابھی نکلنے ہی والی تھی بازار کے لیۓ۔ اب تم لوگ آگۓ ہو تو۔۔ چلو میں بعد میں چلی جاؤنگی۔۔ اور آپا کیسی ہیں۔۔؟”
رُخ کو یکسر نظرانداز کر کے انہوں نے رمشہ سے پوچھا تھا۔ وہ انہیں سمیرا کے متعلق بتانے لگی۔ لالے نے محظوظ ہو کر ابرو نچاۓ تھے۔
“خالہ زرتاج نظر نہیں آرہی۔”
نظر اتاری جانی چاہیۓ تھی لالہ رُخ کی اس سمے۔۔
“زرتاج گئ ہوئ ہے__”
“کہاں۔۔؟ ارسل کے آفس۔۔؟”
اور ابھی انکی بات مکمل بھی نہ ہوئ تھی کہ اس نے انکا جملہ اچک لیا تھا۔ اگلے ہی پل خالہ کا اعتماد جھاگ کر بیٹھ گیا تھا۔ رمشہ نے بھی چونک کر اسے دیکھا تھا۔ ایسے ہی تو نہیں ارسل اسے ظالم کہتا تھا۔
“ک۔۔ کیا مطلب۔۔؟”
“مطلب یہ کہ وہ اس وقت اکثر ارسل کے آفس میں پائ جاتی ہے تو مجھے لگا کہ شاید آج بھی۔۔ لیکن اوہ۔۔ آپ کہیں۔۔ کیا کہہ رہی تھیں۔ کہاں ہے زرتاج۔۔؟”
معصومیت سے آنکھیں جھپکائیں۔۔ اداکارہ نہ ہو تو۔۔
“مجھے نہیں پتا کہ تم کیا کہہ رہی ہو لیکن وہ اس وقت اپنی اکیڈمی جاتی ہے۔ اسکا ارسل کے آفس میں کوئ کام نہیں۔۔”
“ہونا بھی نہیں چاہیۓ۔ خیر میں نے تو ویسے ہی کہہ دیا تھا۔ بس ایک دو بار اسکے آنے جانے کی خبریں موصول ہوئ تھیں مجھے آفس سے۔۔”
رشیدہ کی تیوری چڑھی تھی اب کہ۔ رمشہ سانس روکے بیٹھی رہی۔ زرتاج کا کیا بھروسہ تھا بھلا۔ زبان کی مٹھاس سے اگلے کے حلق میں کڑواس گھولتی وہ ذرا بھی نہیں گھبرا رہی تھی۔ وہ صرف ایک سے ہی گھبرایا کرتی تھی۔۔ اور وہ تھا اسفندیار۔۔ اسکے علاوہ تو وہ کسی کے باپ سے بھی نہیں ڈرتی تھی۔
“جانتی بھی ہو تم کیا کہہ رہی ہو لڑکی!!”
انکا سرخ بھبھوکا چہرہ دیکھ کر اسے بہت مزہ آیا تھا۔
“کیا آپکو نہیں پتا خالہ کہ میں کیا کہہ رہی ہوں۔۔؟”
“زبان سنبھالو اپنی تم۔۔”
“بالکل۔۔ کیوں نہیں۔۔ لیکن پہلے آپ اپنی بیٹی تو سنبھال لیں۔۔”
یکدم لاؤنج کی فضا میں سناٹا چھا گیا تھا۔ یوں جیسے سب کچھ اپنی جگہ ہی ساکت ہوگیا ہو۔ سواۓ رُخ کے سب کچھ واقعی اپنی جگہ ہی ساکت ہوگیا تھا۔
“مجھے سب پتا ہے کہ وہ اس وقت ارسل کے آفس کیوں جاتی ہے اور اسکے پیچھے کیا کیا مقاصد ہیں۔ میں نے ابھی تک اسے اپنے طریقے سے نہیں سمجھایا ہے خالہ جان۔ میں محض ابھی آپکو وارن کرنے آئ ہوں کہ میرے شوہر سے دور رہیں آپ اور آپکی بیٹی بھی۔۔ اگر آپ لوگ خاموشی سے علحیدگی اختیار کرلیں گے تو میں بھی کچھ نہیں کرونگی لیکن اگر۔۔”
اس نے ٹانگ سے ٹانگ ہٹائ تھی۔ پرسکون آنکھیں رشیدہ پر جمائیں۔۔
“اگر آپ نے ارسل کو مزید پریشان کرنے کی کوشش کی تو مجھ سے برا کوئ نہیں ہوگا۔۔ اچھے سے ذہن نشین کرلیں آپ اس بات کو۔۔”
خالہ جان کے تو جتنے بھی طبق تھے سب کے سب روشن ہوچکے تھے۔ انہیں اس نئ نویلی دلہن سے ایسے خون خرابے اور دھمکی آمیز سے بیان کی امید ہرگز بھی نہیں تھی۔۔ اب کوئ انہیں کیا بتاتا کہ پٹھان دلہنیں تو پھر ایسی ہی ہوا کرتی ہیں۔۔
“ایک منٹ لگے گا مجھے آپی کو بتانے میں کہ انکی نئ نویلی دلہن کیا کرتی پھر رہی ہے۔۔ شرم نام کی کوئ چیز ہے بھی تم میں یا نہیں۔۔!”
انہیں جیسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اسے آخر جواب کیا دینا چاہیۓ۔ اس لڑکی نے انکا دماغ چند ہی لمحوں میں گھما کر رکھ دیا تھا۔
“اچھا۔۔ کیا واقعی۔۔ پھر تو آپکو انہیں یہ بھی بتانا ہوگا کہ آپ پر میں کونسا الزام عائد کرنے آئ تھی۔ کریں فون۔۔ ابھی اور اسی وقت میرے سامنے بات کریں آپ آنٹی سے۔۔ یقیناً تب تک تو آپکو ادراک ہو ہی جاۓ گا کہ شرم آخر آنی کس کو چاہیۓ۔۔”
یہ ہوا آخری وار۔۔ ڈز ڈز ڈز۔۔ رمشہ نے بے چینی سے پہلے خالہ کا سرخ سے سیاہ پڑتا چہرہ دیکھا اور پھر اگلے ہی پل رُخ کے ٹھنڈے سے چہرے کی جانب نگاہ گھمائ۔ اسکا سانس ہر گزرتے لمحے جیسے بند ہوتا جارہا تھا۔
“ابھی کہ ابھی دفعہ ہوجاؤ میرے گھر سے۔۔”
“ہم نکلتے نہیں ہیں خالہ۔۔ نکالتے ہیں۔۔ یاد رکھیۓ گا اس بات کو۔۔ اور سمجھادیجیۓ گا ان زرتاج محترمہ کو بھی۔۔”
اس نے اگلے ہی پل رمشہ کا ہاتھ تھاما اور پھر اسے ساتھ لیۓ داخلی دروازہ پار کرتی باہر کی جانب بڑھ آئ۔ رمشہ کا چہرہ سفید پڑ رہا تھا اور اسکے برعکس زرتاج کا چہرہ پرسکون اور ٹھنڈا۔۔
گاڑی میں بیٹھی اب وہ سن ہوئ کھڑکی سے باہر کی جانب دیکھ رہی تھی۔ پھر یکدم ہی چہرہ اسکی جانب پھیرا جو ہلکی سی آواز میں کوئ انجان سی دھن گنگنا رہی تھی۔۔
“یہ سب کیا تھا بھابھی۔۔؟”
“کیا۔۔؟”
بغیر اثر لیۓ کندھے اچکا کر پوچھا تھا اس نے۔
“آپ ایسے کیسے خالہ کو کہہ سکتی ہیں۔۔! ڈر نہیں لگتا آپکو انکے ردعمل سے۔۔”
اسکی بات پر وہ ہنس دی تھی۔ پھر مسکراہٹ دبا کر چہرہ اسکی جانب پھیرا۔
“میرے چہرے سے لگ رہا ہے کہ میں کہیں سے ڈری ہوئ ہوں۔۔ نہیں ناں۔۔ رمشہ بچے۔۔ جن کے اعمال درست ہوں، وہ ڈرتے نہیں ڈراتے ہیں۔ میں نے کبھی کسی کے حق کو نہیں مارا۔ میں نے کبھی خود کو کسی ناجائز مہم کا حصہ نہیں بنایا۔ میں نے ظلم کرنے والوں کی چمڑی ادھیڑنی سیکھی ہے۔۔ اور جو اتنی صاف گوئ سے زندہ رہنے والے ہوتے ہیں انہیں کوئ چیز نہیں ڈرا سکتی۔ تم بھی ظلم پر خاموش رہنا چھوڑدو۔۔ تمہارے اندر کا ڈر خود کہیں ڈر کر بھاگ جاۓ گا۔۔”
رمشہ اسے چند پل دیکھتی رہی پھر دھیرے سے مسکرادی۔ آنکھوں میں جانے کیوں بہت ہلکی سی نمی تیرنے لگی تھی۔
“آپ بہت بہادر ہیں بھابھی، میں نہیں ہوں۔۔”
“کوئ بات نہیں۔۔ میں کس لیۓ ہوں۔۔ اب آجاؤ۔۔ تمہیں ایک اور مزے کی فلم دکھاؤں۔۔”
اس نے گاڑی کو کسی بلڈنگ کے پارکنگ ایریا میں لا کر روکا تو رمشہ نے چونک کر آس پاس دیکھا۔ وہ کبھی اس جگہ پر نہیں آئ تھی۔
“کہاں جارہے ہیں ہم بھابھی۔۔؟”
وہ اب خوفزدہ ہوئ آس پاس دیکھتی اس جگہ کو پہچاننے کی سعی کررہی تھی۔ رُخ نے گاڑی سے نکل کر دروازہ بند کیا تو وہ بھی جلدی سے باہر نکل آئ۔ پھر اسکے ساتھ ساتھ قدم ملا کر تیز تیز چلنے لگی۔
“بھابھی ہم کہاں جارہے ہیں۔۔ ؟”
“بتایا تو تھا تمہیں۔۔ حسان نامی مخلوق کو ایک گھونسا جڑنے جارہے ہیں ہم۔۔”
اور اس نے آنکھیں پھیلا کر رُخ کو دیکھا تھا۔ پھر آگے بڑھ کر جلدی سے اسکا بازو کہنی سے تھامے۔۔ اسے مزید اگلا قدم بڑھانے سے روک دیا تھا۔ وہ رک گئ تھی۔۔ پھر گہرا سانس لیا۔۔
“آج اگر تم نے اس ڈر کو خود پر طاری ہونے دیا ناں رمشہ تو یاد رکھنا تم کبھی اس قید سے آزاد نہیں ہوپاؤگی۔ تم اس کی غلام بن جاؤگی۔۔ یہ تمہیں سانس لیتا مردہ مجسمہ بنادیگا۔۔ کیا تم ایک دفعہ۔۔ بس ایک دفعہ ہمت نہیں کرسکتیں اپنے لیۓ۔۔؟ میں تمہارے ساتھ ہوں۔۔ میں ساتھ رہونگی۔۔ بس خود کو اس غلامی کے سپرد نہ کرو جو کسی کشید کیۓ زہر سے کم نہیں۔۔ خود کو ایسے ضائع مت ہونے دو۔۔ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سوسالہ مردار زندگی سے بہتر ہوتی ہے۔۔ تم آگے بڑھو اور چیر پھاڑ دو۔۔ ظلم کو نہیں بخشتے۔۔ جو ظلم کو بخشتے ہیں وہ ظالم کے برابر گردانے جاتے ہیں۔۔ کیا تم ظالم بننا چاہتی ہو۔۔؟”
رُخ نے اسے کندھوں سے تھام کر جھنجھوڑا تھا۔ رمشہ کا تنفس اگلے ہی پل دھونکنی کی مانند چلنے لگا تھا۔ اسکے اندر چنگاری سی ابھری۔۔ مٹھیاں ضبط سے بھنچ گئیں۔۔ وہ کیسے چھوڑ سکتی تھی اپنا حق مارا جانا۔!! اسے ہر وہ رات یاد آنے لگی جو اس نے رو کر گزاری تھی۔۔ سب جیسے نگاہوں کے سامنے دھواں دھواں ہونے لگا۔ اس نے رخسار پر پھسلتے آنسو کو بے دردی سے رگڑا۔۔ پھر گلابی آنکھیں اٹھا کر رخ کو دیکھا۔ لالے نے اسکا عزم دیکھا تو پورے دل سے مسکرائ۔۔ پھر اسے گلے لگالیا۔۔ وہ چھوٹی نازک سی تھی۔۔ بالکل رامین جیسی۔۔ اسے گلے لگایا جانا ہی چاہیے تھا۔۔
اگلے ہی پل اب انکے آگے بڑھتے قدموں میں لڑکھڑاہٹ کی جگہ اعتماد نے لے لی تھی۔ ان کے چہروں سے عیاں تھا کہ وہ آج ایک گھونسے سے کم کسی چیز پر راضی نہیں ہونگی۔۔ کیا انہیں راضی ہونا چاہیۓ تھا۔۔؟ بالکل نہیں!!
***
ارسل ابھی ابھی آفس پہنچا تھا اور دیر ہوجانے کے باعث وہ خاصہ پریشان بھی تھا۔ بابا سے عنقریب پڑنے والی جھاڑ کا سوچ کر ہی اسے اکتاہٹ ہونے لگی تھی۔ شیر سے اسکا سامنہ اس آخری بات چیت کے بعد نہیں ہوا تھا۔۔ شاید وہ انکا سامنہ کرنے کی ہمت خود میں نہیں پاتا تھا۔۔ اس نے لفٹ کا بٹن دبا کر اسکے کھلنے کا انتظار کیا اور پھر جیسے ہی اندر بڑھنے لگا۔۔ تو ٹھہر سا گیا۔۔ اسے زرتاج سے ایک بار پھر سامنہ ہوجانے کی امید نہیں تھی۔۔ یکدم ہی غصے کی تیز لہر نے اسکے وجود کا احاطہ کیا تھا۔۔ اس ایک لڑکی کی وجہ سے اسکی زندگی بے ہنگم ہورہی تھی۔ زہر لگ رہی تھی وہ اسے اس وقت۔
اس نے سپاٹ چہرے کے ساتھ قدم واپس پھیرے تو وہ جلدی سے نکل کر اسکے پیچھے بھاگی۔ اسے کہنی سے تھام کر روکا بھی تھا۔۔ اس نے پوری قوت سے اسکا ہاتھ جھٹکا تھا۔ پھر جمے دانتوں کے ساتھ غرایا۔۔
“آپ ادھر کیا کررہی ہیں زرتاج۔۔!! کیا میں نے منع نہیں کردیا تھا آپکو کہ مجھے آپ میں کوئ دلچسپی نہیں۔۔ کیوں آپ مجھے زچ کررہی ہیں۔۔!”
بہت دنوں کا پلتا لاوہ اگلے ہی لمحے اسکے اندر سے ابل پڑا تھا۔ زرتاج پہلے تو ذرا گڑبڑائ لیکن پھر اگلے ہی پل مسکرادی۔۔ کندھے پر جھولتے پرس سے موبائل نکالا اور چند بٹن دبانے کے بعد تصاویر آگے پیچھے کرنے لگی۔۔ ایک تصویر پر رک کر اس نے محظوط سا چہرہ اٹھایا تھا۔۔
“بہت ناز ہے ناں آپکو اپنی بیوی پر۔۔ دیکھیں میں کیا لائ ہوں آپکے لیے آج۔۔”
اس نے اگلے ہی پل موبائل کی جگمگاتی اسکرین اسکی جانب پھیری تھی۔ ارسل نے ناسمجھی سے تصویر پر نگاہیں مرکوز کیں۔۔ اور پھر اگلے ہی پل اسکی پیشانی پر جما پر بل ڈھیلا پڑتا گیا۔ تصویر میں لالہ رُخ بے تکلفی سے ایک اونچے سے مرد کے گرد بازو حمائل کیۓ ہنس رہی تھی۔ ساتھ کھڑا مرد بھی اسکی کسی بات پر بھرپور سا قہقہہ لگا رہا تھا۔ زرتاج اسکے تاثرات سے محظوظ ہوتی ہلکی سی آواز میں بولی۔۔
“یہ محض ایک تصویر نہیں ارسل جی۔۔ ایسی سینکڑوں تصاویر ہیں میرے پاس۔۔ اگر آپ مزید اپنی بیوی کی پارسائ اور بہادری پر قصیدے پڑھنے کا ارادہ رکھتے ہیں ت__”
لیکن اسکے الفاظ اگلے ہی پل لبوں پر ٹوٹ سے گۓ تھے۔ ارسل کے عین پیچھے سے اسفندیار چلتا ہوا آرہا تھا۔۔ ساتھ ساتھ اس نے ارسل کو دیکھتے ہی دور سے آواز بھی دی تھی۔ وہ چونک کر پلٹا۔۔ زرتاج کی آنکھیں پھٹ کر باہر آنے لگیں۔۔ جلدی سے موبائل اپنی جانب پھیر کر تصویر میں موجود اس اونچے سے بندے کو دیکھا۔۔ یہ تو۔۔ یہ تو۔۔ ہاں۔۔ وہ تو اسفندیار تھا۔۔ جو کہ بڑے آرام سے، مسکراہٹ لبوں پر سجاۓ، جیبوں میں ہاتھ ڈالے سامنے سے چلا آرہا تھا۔۔ سرمئ ٹرٹیل نیک سوئٹر پہنے، جینز میں ملبوس۔۔ وہ واقعی بہت خوبصورت اور قدرے مضبوط سے جسم کا بندہ لگتا تھا۔ وہ قریب چلا آیا تو ارسل نے ناسمجھی سے اسکی جانب دیکھا لیکن اسفند فی الحال زرتاج کی جانب متوجہ تھا۔۔
“محترمہ کیوں ناں بیٹھ کر بات کرلی جاۓ کیونکہ مجھے بھی آپکو آپکے بھائی کی پارسائی اور پاکیزگی کی بہت سی تصاویر دکھانی ہیں۔۔ کیا آپ دیکھنا پسند کریں گی۔۔؟”
مزے سے بھنویں اچکا کر پوچھا۔ زرتاج بے یقینی سے کبھی ارسل کو تکتی تو کبھی ارسل سے دو انچ لمبے اسفند کو۔۔
“اسفند لالہ۔۔ آ ۔۔ آپ یہاں کیسے۔۔؟”
ارسل کی حیرت اپنے عروج پر تھی۔ اسفند نے مسکرا کر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔
“میری ایک عدد بہن کے شوہر ہو تم۔۔ اور بہن بھی وہ جو جیمز بونڈ کی شاگردہ رہ چکی ہو۔ میں تمہارے اس مسئلے کو سلجھانے آیا ہوں۔۔ دیکھیں تو سہی ان محترمہ کے پاس کتنے ہتھیار ہیں تمہیں زچ کرنے کے۔۔ کیوں۔۔ ٹھیک کہہ رہا ہوں ناں میں۔۔؟”
ایک ہی کہانی کے دو رُخ تھے وہ دونوں۔۔ ایک ہی کتاب کے دو صفحے تھے۔۔ اسفند اور لالہ رُخ۔۔ وہ بھی لوگوں کو سر سے پکڑنے کی عادی تھی اور اسفند تو خیر سے اسکا استاد رہ چکا تھا۔ بھلا کیوں نہ اس جیسا ہوتا۔۔
زرتاج کا چہرہ سفید پڑچکا تھا۔۔ وہ پوری ٹھنڈی ہوگئ تھی۔۔ ہاتھ لرز رہے تھے اور حلق میں بے ساختہ ہی کچھ اٹکا تو وہ کھانسی۔ اسے سوچنا چاہیۓ تھا۔۔ لیکن اب کیا ہوسکتا تھا۔۔ وہ پنگا لے چکی تھی اور جس سے لے چکی تھی وہ یقیناً اسے بخشنے والی نہیں تھی۔۔
اسی پہر آگے بڑھتی لالہ رُخ نے مسکرائ تھی۔ ایک تیر سے دو شکار۔۔! اس نے ایک دن پہلے ہی اسفند کو سارا معاملہ سمجھادیا تھا۔۔ کیونکہ وہ ارسل کی پریشانی سے پریشان ہوگئ تھی۔ وہ خود اس مسئلے سے نپٹ رہا تھا لیکن وہ اس سب کو سنبھال نہیں پارہا تھا۔۔ اس نے شیر اور اسکے درمیان کھنچا کھنچا سا رویہ بھی محسوس کرلیا تھا اور بچی تو وہ تھی نہیں کہ اس سب کے بعد کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکتی۔۔ اس نے اگلے ہی پل آفس کے دروازے کے پار رک کر دروازہ دھکیلا تھا۔۔ پھر حسان کو دیکھ کر مسکرائ۔۔ ایک آخری وار تو ابھی رہتا ہی تھا۔۔!
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...