رانیہ کو بہت اچھا رشتہ آیا تھا، لڑکا بینک منیجر تھا۔دو بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا، بہنیں شادی شدہ تھیں۔ باپ کا انتقال ہو چکا تھا۔ ماں حیات تھی۔ انہیں امجد علی کے دوست نے امجد علی کے گھر کا راستہ دکھایا تھا۔ امجد علی لڑکے سے مل چکے تھے ، انہیں لڑکا بہت پسن آیا تھا۔ اسی وجہ سے انہوں نے لڑکے والوں کو گھر آنے کی اجازت دے دی تھی ۔ رضیہ بیگم نے چائے کے ساتھ بہت سی چیزیں تیار کر لی تھیں۔ کباب اور چکن رولز تو رانیہ نے بنا لیے تھے۔ مٹھائی کیک اور سموسے امجد علی بازار سے خرید لائے تھے۔ رانیہ نے رضیہ بیگم کی ہدئت پر نہا کر نیا جوڑا پہنا تھا۔ میرون شلوار قمیض پر چنری کا دوپٹہ بالوں کی لمبی سی چٹیا بنائے آنکھوں میں کاجل سجائے وہ بے حد حسین لگ رہی تھی۔ شام کو امجد علی جلدی گھر آ گئے تھے۔ چار بجے ان لوگوں کو آنے کا کہا تھا اور ساڑھے چار بجے کے قریب وہ لوگ امجد ہاؤس کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ٹھے۔ لڑکے انور صغیر کی والدہ دونوں بہنیں اور انور صغیر کے بڑے بہنوئی ریاض پر مشتمل یہ قافلہ ڈرائنگ روم میں بیٹھا چائے سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ رانیہ خوشگوار احساسات ، تیز تیز دھڑکتے دل اور شرم حیا سے جھکی نظروں میں رضیہ بیگم کے ساتھ ڈرائنگ روم میں آئی تو سبھی نے اسے دیکھ کر ماشاءالله کہا ۔ رانیہ کو لڑکے کی ماں نے اپنے پاس بٹھا لیا۔
ابھی ہم منگنی کی تاریخ لے کر ہی جائیں گے۔ لڑکے کی ماں نے مسکرا کر کہا۔
جیسے آپ کی خوشی بہن جی۔ امجد علی نے خوش ہو کر کہا۔
رانیہ کا بھائی کہاں ہے۔ لڑکے کی ماں نے پوچھا تو وہ تینوں سٹپٹا گئے۔
ہماری رانیہ تو چاند کا ٹکڑا ہے۔ انور صغیر کی بڑی بہن نے رانیہ کی ٹھوٹی پکڑ کر چہرہ اوپر کر کے دیکھتے ہوئی کہا تو رانیہ نے بے اختیار ہی پلکیں اٹھا کر سامنے دیکھا تھا جہاں مامون کھڑا تھا اور اس کی حالت ایسی تھی جیسے ابھی گر جائے گا۔ دروازے کی چوکھٹ کو مضبوطی سے تھامے ہوئے اس کی انگلیاں سفید ہو رہی تھیں اے اپنی آنکھوں اور سماعتوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ رانیہ نے اس کی حالت دیکھ کر شرمنگی اور گھبراہٹ سے نظریں جھکا لیں۔
مون ! آؤ بیٹا اندر آ جاؤ ، اچھے وقت پر آئے اپنی رانیہ کو دیکھنے کچھ لوگ آئے ہوئے ہیں ۔ امجد علی کی نظر مامون پر پڑی تو فورًا بولے۔
اسّلام علیکم! مامون نے اندر آتے ہوئے ان سب پر نگاہ ڈال کر مرے مرے لہجے میں سلام کیا، سب سے اسے بغور دیکھا۔
_______________________
وعلیکم اسلام ! سب نے ایک ساتھ جواب دیا۔
یہ ہیں رانیہ کے بھائی؟ لوڑکے کی بڑی بہن نے پوچھا
جی ہاں، رانیہ کا خالہ زاد بھائی ہے ۔ میرا بیٹا تا دبئ میں ہوتا ہے۔ رضیہ بیگم نے بتایا اور اسجد کے زکر پر ان کا دل بہت دکھا تھا،۔
آنٹی ہم تو چٹ منگنی پٹ بیاہ کریں گے بس آپ ہاں کر دیں ۔ لڑکے کے دوسری بہن نے مسکرا تے ہوئے کہا تو رضےیہ بیگم مسکراتے ہوئے بولیں ۔
بیٹی جو الله منظور ہماری طرف سے ہاں ہی سمجھو۔
مبارک ہو ۔وہ سب خوشی سے بولیں اور مامون کے دل کا خون کر گئیں اور وہ اپنے آپ کو سنبھالتا کھڑا ہو گیا۔
خالہ جان ! میں ایک ضروری فائل لینے آیا تھا۔ مجھے دوبارہ آفس جانا ہےاس لیے میں آپ سب سے اجازت چاہوں گا۔
ٹھیک ہے بیٹا خیر سے جاؤ ۔ رضیہ بیگم مے محبت سے کہا ، وہ سب کو خدا خافظ کہہ کر سیدھا اوپر کمرے میں آگیا تھا۔
آپ کا یہ بھانجا کیا یہیں رہتا ہے آپ کے ساتھ؟ لڑکے کی ماں نے سنجیدگی سے پوچھا۔
جی نہیں ! مامون تو کراچی رہتا ہے وہیں بزنس ، گھر اور فیملی ہے یہاں آفس کے کام کو دو چار دن کے لیے آیا ہوا ہے۔ رضیہ بیگم ان کی بات کی تہہ تک پہنچ گئیں تھیں سمجھداری سے بولیں ۔
اچھا! وہ مطمئن ہو کر سر ہلانے لگیں ۔
پھر منگنی کی تاریخ طے کر لیں میری بیٹیاں کے سسرال والے اور شہر میں جتنے بھی رشتہدار موجود ہیں سبھی مدعو ہونگے چالیس کے قریب تو ہو ہی جائیں گے۔
ٹھیک ہے اتنے ہی مہمان ہماری طرف سے بھی ہونگے تو پھر اگلے جمعے کی شام چھ بجے کا وقت رکھ لیتے ہیں ۔ امجد علی نے کہا۔
یہ بہت مناسب رہے گا ۔ بھائی صاحب مب ارک ہو ۔ لڑکے کی ماں نے خوشی سے مسکراتے ہوئے کہا تو رانیہ شرما کر وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی آئی۔
_______________________
یہ خوشی کا موقعتھا اور وہ نجانے کیوں افسردہ ہو رہی تھی۔ اس کی نظروں میں مامون کی صورت گھوم رہی تھی۔ کیسے اس کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا تھا۔ آنکھوں میں کس قدر یاسیت اور دکھ در آیا تھا۔ وہ بے چین سی ہو کر کمرے میں ٹہلنے لگی۔
رانیہ تمہیں مامون سے نفرت ہے نا تو پھر کیوں اس کے لیے پریشان ہو رہی ہو؟ رانیہ کے دل نے سوال کیا۔
میں کسی کو دکھی نہین دیکھ سکتی اپنی وجہ سے کسی کو آزردہ نہیں کر سکتی اس کے انداز مجھے برے لگتے تھے وہ بہت بے باک ہے اپنی محبت کے اظہار میں مگر پتا نہیں وہ محبت بھی تھی کہ محض مجھے آزما رہا تھا۔ یہ امیر زادے دل لگی تو کر سکتے ہیں محبت ان کے بس کا روگ نہیں ہے لیکن مامون کا میری منگنی کی خبر سن کر شاک میں رہ جانا یہ سب کیا ہے؟
اس کے دماغ نے جواب دیا اور پھر خود ہی سوال بھی کر ڈالا وہ الجھ کر رہ گئی تھی ۔
____________________________
مہمانوں کے جانے کے بعد رضیہ بیگم رانیہ کے کمرے میں آئیں تو بہت خوش نظر آ رہی تھیں ، اسے دیکھ کےکہنے لگیں۔
بیٹا مامون بھی چائے کے ساتھ کچھ کھانے کو دے آؤ وہ اوپر ہی ہے اپنے کمرے میں ۔
اماں میں ابھی شادی نہیں کروں گی، مجھے ابھی بہت آگے پڑھنا ہے ، ایم ایس سی کرنا ہے کالج میں لیکچرار بننا ہے اتنی جلدی شادی کر کے میں کچھ نہیں کر سکوں گی ۔ اور ان کے ہاتھ تھام کر بے چینی اور بے قراری سے بولی۔
بیٹا انہیں کون سا تم سا نوکری کروانی ہے۔ ان شاء الله لڑکا اچھا کماتا ہے لڑکا میاں بیوی اور ساس ہی تو ہو گی، مزے سے رہو گی اتنا اچھا رشتہ پھر نہیں ملے گا۔اور ضرورت ہی کیا ہے مزید پڑھنے کی بی ایس سی کر لیا ہے بہت ہے اب گھر داری سنبھالنے کی فکر کرو۔ رضیہ بیگم نے نرمی سے سمجھایا مگر دل نہیں سمجھ رہا تھا۔ دل بے کل اور بوجھل ہو رہا تھا۔
اماں مجھے ڈر لگ رہا ہے پتا نہیں کیا ہونے والا ہے؟ وہ پریشانی سے بولی ، دماغ میں مامون کی صورت اور باتیں گھوم رہی تھیں ۔
خواہ مخواہ کے وسوے دل میں لانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ تمہارے ابا نے سب پتا کروا لیا ہے لڑکا بہت نیک اور شریف ہے اچھا خاندان ہے اور کیا تم نہیں چاہتیں کہ ہم جلد از جلد تمہارے فرض سے سبکدوش ہو جائیں اور سکون سے مر سکیں ۔ رضیہ بیگم نے سنجیدہ لہجے میں کہا تو وہ تڑپ کر بولی۔
الله نہ کرے اماں آپ کو اور ابا کو کچھ نہ ہو ایسی باتیں نہ کریں اماں۔
ارے پگلی یہں تندرست انسان کی زندگی کا بھی بھروسہ نہیں ہے اور ہم تو پھر بیمار ہیں ۔
کیا خبر کس گھڑی بلاوہ آجائے۔ تیرے بھائی کی جدائی نے تو ہمیں ادھ موا کر کے رکھ دیا ہے۔ تجھے مخفوظ ھاتھوں میں سونپ دی گے تو تیری فکر تو ختم ہو گی اب ہمارے دل کمزور ہوگئے ہیں کوئی صدمہ برداشت کرنے کے قابل نہیں رہے۔ یہ خوشی ہی شائد دل کو سکون دے دے۔ بس تو فکر نہ کر الله نے تیرا نصیب اچھا ہی لکھا ہو گا۔میری رانیہ ان شاء الله رانی بن کر راج کرے گی ۔ اپنے گھر پر بھی اور شوہر کے دل پر بھی۔ رضیہ بیگم نے اسے گلے لگا کر بھیگتی آواز میں کہا تو وہ افسردگی سے مسکرا دی۔
_________________
رانیہ چائے کے ساتھ چکن رولز پکباب اور مٹھائی ٹرے میں رکھ کر مامون کے کمرے میں چلی آئی ۔ وہ اس کا اپنی منگنی کے حولے سے ردَ عمل دیکھنا چاہتی تھی اس لئی چلی آئی ۔ مامون بیڈ پر نیم دراز بازو آنکھوب پر رکھے ہوئے تھا۔ رانیہ نے ایک نظر اسے دیکھا پھر ٹرے میز پر رکھی تو آہٹ سن کر مامون نے آنکھوں سے بازو ہٹا کر دیکھا اور جانے کیا تھا اس کی آنکھوں میں کہ رانیہ جیسی مضبوط اعصاب کی لڑکی کا دل ڈوب گیا۔وہ نظریں چرا کر جانے لگی تو مامون نے تڑپ کر پکارا۔
رانیہ۔۔۔۔
اور رانیہ کے قدم خود بخود سالت ہو گئے۔ اس نے گردن گھما کر اس کی سمت دیکھا۔ وہ بستر سے اٹھ کر اس کے پاس چلا آیا بغور اس کے چہرے کو دیکگتے ہوئے مدھم اور تھکے تھکے شکستہ لہجے میں پوچھا۔
کیوں کیا تم نے ایسا ؟ کیوں اعتبار نہ کیا میرے پیار کا ؟ کیوں کسی اور کے نام کی انگھوٹھی پہننے کے لیے راضی ہو گئی تم، بولو؟؟
کیونکہ مجھے تم سے محبت نہیں ہے اور نہ ہی میں نے تم سے کوئی عہدَ وفا باندھا تھا۔ جو میں تمہاری پابند ہو جاتی اور اماں ابا کے سامنے اس رشتے کا انکار کر دیتی ۔ رانیہ نے ہمت کر کے سپاٹ لہجے میں کہا ۔
تم میری ہو رانیہ میں نے تم سے کہا تھا نا تم صرف میری ہو اور ٹھیک کہا تھا اس خاتون نے کہ تم چاند کا ٹکڑا ہو یعنی میرا ٹکڑا ہو مامون کا ٹکڑا ۔ حصہ ہو میرے وجود کا ، میں کسی اور کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا رانی، یہ منگنی نہیں ہو ے دونگا ۔ اگر یہ منگنی ہو گئی تو ختم کرا دوں گا تمہارے ہاتھوں پر صرف میرے نام کی مہندی سجے گی ، سنا تم نے ، تم صرف میری دلہن بنو گی ۔ کسی اور کے لیے ہاں کرنے سے پہلے سوچ لینا۔ رانیہ علی کہ مامون کا قتل تمہارے سر ہو گا ۔ وہ اسے شانوں سے پکڑ کر غور سے دیکھتے ہوئے بے حد سنجیدہ لہجے میں بولا تو وہ اندر سے ڈر گئی۔
پاگل پن کی باتیں مت کرو ، میں وہی کروں گی جو میرے ماں باپ چاہیں گے ۔ وہ اس کے ھاتھ جھٹک کر غصے سے بولئ۔
تمہارے ماں باپ بھی وہی چاہیں گے جو مین چاہتا ہوں ، میں نے ممی سے بہت دن پہلے تمہارے متعلق بات کر لی تھی۔ انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے اس رشتے پر میں کل شام فلائٹ سے کراچی جا رہا ہوں ۔ ممی ڈیڈی کو ساتھ ہی لے کر آؤنگا اور تمہیں اپنے نام کرا کے ہی دم لوں گا ۔
مین کوئی فیکٹری یا زمیں کا ٹکڑا نہیں جو تم مجھے اپنے نام کروا لو گے۔
تم تو چاند کا ٹکڑا ہو ۔۔۔ میرے دل کا ٹکڑا ہو ۔
سطحی جملے بولنے کے علاوہ بھی کچھ آتا ہے تمہیں ایڈیٹ۔
وہی کچھ بولا رانیہ ڈئیر جس پر بعد میں تمہیان ندامت محسوس نہ ہو۔ مامون سنجیدگی سے کہا تو وہ ہونہ کہہ کر اسے پیچھے دھکیل کر کمرے سے باہر نکل گئی۔
※___________________※____________________
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...