بھائی کے آنے کی خبر سنتی ماہا، کچن سے تقریباً بھاگتے ہوئے آئی۔
کمرے میں شاہ آغا کی موجودگی نے ا سے تھوڑا سا سمٹنے پہ مجبور کیا تھا ۔
شاہ آغا سے تو وہ سب بخوبی واقف ہو چکے تھے ، مگر پھر بھی وہ دھان پان سی دبتے قد والی لڑکی لوگوں میں گھلنے ملنے سے کتراتی تھی۔
دھیرے سے ”السلام علیکم”کہتی ماہا نے نم آنکھوں سے بھائی کے چہرے کو دیکھا۔
بہن کی آنکھوں میں چھپے اندیشے دیکھ وہ زبردستی مُسکرایا ۔
شاہ آغا نے ماہا کو دوائیں تھما کے، ڈاکٹر کی ہدایات سمجھائیں اور جانے کی اجازت مانگی ۔
”بابا !کھانا تو کھا کے جائیں ، آپ کے اتنے احسانات ہیں مجھ پہ میں ایسے آپ کو جانے نہیں دوں گا۔”
عبداللہ کی نحیف آواز کمرے میں گونجی تھی ۔
”نہیں بیٹے آج نہیں ، آج میرے نصیب کا رزق کہیں اور پکا ہے ۔ مجھے اجازت دو میں جلد ہی دوبارہ آئوں گا۔”
وہ معذرت کرتے ہوئے ا ٹھ گئے ۔ عبداللہ اُنہیں روکنا چاہتا تھا ۔
مگر ا سے احساس تھا کہ اتنا تو کوئی اپنا بھی نہیں کرتا جتنا پچھلے دنوں شاہ آغا نے اس کے لیے کیا تھا۔ اب اگر وہ جانا چاہتے تھے تو یقینا ان کی کوئی مجبوری تھی ۔
”آپ وعدہ کریں کہ مجھ سے ملنے جلد آئیں گے۔”
عبداللہ ناک چڑھائے کسی بچے کی طرح ا ن سے ضد کر رہا تھا ۔
ایک شفیق مُسکراہٹ کے ساتھ وہ بولے :
”ہاں ! کیوں نہیں کل ہی ملنے آئوں گا وعدہ رہا ۔ بس اب تم نے پریشان نہیں ہونا اور زیادہ سوچنا نہیں ۔ جلدی سے ٹھیک ہو جائو اچھا ؟
اثبات میں سر ہلاتے عبد اللہ نے دھیرے سے کہا:
”اللہ حافظ!”
مُسکراتے شاہ آغا نے ماہا کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے باآوازِ بلند اللہ حافظ کہا اور کمرے سے باہر نکل گئے ۔
امی پہلے ہی عبداللہ کے لیے کھا نا لانے جا چکیں تھیں ۔
اب ماہااور عبداللہ کمرے میں اکیلے تھے ۔
چھوٹی بہنوں کا بڑے بھائیوں سے انوکھا ہی رشتہ ہوتا ہے ۔ بچپن میں بھائیوں کی ہر شرارت میں ان کا ساتھ دیتی ہیں۔ اکثر ا ن کے حصے کی ڈانٹ بھی بخوشی سن لیتی ہیں اور جب بڑی ہو جاتی ہیں، تو بھائی کے لاکھ چھپانے پر بھی ا ن کے سب کرتوتوں کی خبر رکھتی ہیں ۔ اکثر تو بھائی خود ہی بتا دیتے ہیں ، نہیں تو ان کے کمرے کی صفائی کے دوران کچھ نہ کچھ ایسا ضرور مل جاتا ہے جس سے بہنیں سب خبر لگا لیتی ہیں۔
بابا کے نکلتے ہی ماہا نے مشکوک نگاہوں سے بھائی کو تکا۔
عبداللہ نے بے ساختہ رُخ موڑا ۔
”بھائی !”
ماہا چلتے ہوئے ان کے سامنے جا کے کھڑی ہوگئی ۔
”میں سب جانتی ہوں ۔ اب سچ سچ بتائیں ا س دن کیا ہوا تھا ؟”
کم از کم آپ کا ایکسیڈنٹ نہیں ہوا تھا ۔ ”
عبداللہ نے جھکی ہوئی لال آنکھیں اٹھا کہ چھوٹی بہن کے خفا خفا سے چہرے کو دیکھا۔
”سب ختم ہوگیا ماہا ۔ وہ …
وہ پہلی دفعہ مجھ سے بات کرنے آئی تھی ۔ اس کے بابا…
پتا نہیں کہاں سے…
وہ بے گناہ تھی ماہاا س کا کوئی قصور نہ تھا ۔ پتا نہیں اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا گیا ہوگا۔ وہ بالکل معصوم ہے ۔ میں کیا کروں ، کہیں سے اس کی خبر آتی ہی نہیں۔ کہاں سے اس کی خبر لائوں ؟ کس سے پوچھوں ؟
بتا ماہا…
”کیا قصور تھا ہمارا ؟”
ماہا جو نم آنکھوں سے اپنے بڑے بھائی کوبے ربط جملوں میں اپنا درد بیان کرتے سسکتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ دل ہی دل میں بھائی سے مخاطب تھی ۔
”عشق!”ہے آپ دونوں کا قصور بھائی…
ہمارا معاشرہ کہاں دل دیکھتا ہے ؟ کہاں پاکیزگی دیکھتا ہے ؟
معاشرہ تو ”عشق ” کے عین کو ”عصمت” نہیں ”عریانی”سمجھتا ہے۔
”عشق” کے شین سے انہیں ”شرافت”کی نہیں ، شراب کی بو آتی ہے ۔
اور ”عشق”کا قاف انہیں کوئی ”قرینہ” سکھانے کی بجائے قہر برسانا یاد دلاتا ہے۔
یہ ”عشق ” سے نفرت کرنے والوں کا معاشرہ ہے بھائی۔ یہاں ہر گناہ کے لیے عدالت ہے، کورٹ کچہری کے چکر ہیں جب کہ عشق کی سزا موت ہے ۔ غیرت کے نام پہ قتل ہے ۔
یہاں عشق کے قاتل کے لیے کوئی سزا نہیں اور وہ اپنا سینہ پھلا کے دندناتا ، اسی معاشرے میں گم ہو جاتا ہے۔”
٭…٭…٭
شادی والے گھر کی رونق ہی نرالی تھی ۔ میر ابراہیم سید کے اکلوتے بیٹے کی شادی تھی۔ وہ اپنے سارے ارمان پورے کرنا چاہتے تھے ۔
اس پوش علاقے میں واقع ا ن کا شاندار بنگلہ ، ننھے منے ڈھیروں برقی قمقموں سے سجا ہوا تھا ۔
چچا افراہیم سید کے گھر بھی کم رونق نہ تھی ۔ دو گلیاں دور تو ا ن کا گھر تھا۔ کوئٹہ شہر کے حالات ا ن دنوں کافی خراب تھے ۔تبھی شادی کراچی میں ہونا قرار پائی تھی ۔
ہر سو رنگ و بو کا راج تھا ۔ سکینہ سید صاحبہ کو سر کھجانے کی بھی فرصت نہ تھی ۔ ساری ذمہ داریاں ا ن کے کندھوں پہ آ پڑی تھیں ۔ ا ن سب کا خیال تھا کہ عائلہ آئے گی تو ساری ذمہ داریاں سنبھال لے گی ۔ مگر عائلہ تو جس دن سے آ کے اپنے کمرے میں بند ہوئی تھی پھر نکلی ہی نہیں ۔ شادی کا گھر ، اتنی مصروفیت، کسی کا دھیان بھی اس کی طرف نہ گیا ۔ ایک ذاکرہ تھی جو ا س کا ناشتا اور کھانا وقت پہ پہنچا دیا کرتی تھی ۔
معید سید بھی گائوں گیا ہوا تھا ۔ وہ ہوتا، تو بہن کو ضرور اپنی خوشیوں میں شامل کرتا ۔ گائوں کا سارا انتظام ا سے خود دیکھنا تھا اکلوتا جو تھا ۔کوئی بھا ئی ہوتا تو اور بات تھی ۔
ویران حویلی کو برقی قمقموں سے سجا دیا گیا تھا ۔ اپنے مریدوں اور جدی پشتی خدمت گزاروں کے لیے اُنہیں یہیں کرنا تھا ، جو بھی کرنا تھا ۔ کیوں کہ ان لوگوں کا کراچی آ کے شادی میں شرکت کرنا تقریباً نا ممکن تھا ۔
ماہ پری نے ڈھولک کا اہتمام کیا ۔ حویلی کے صحن میں خواتین کے لیے جب کہ باہر ڈیرے پہ مردوں کے لیے انتظام کیا گیا تھا۔
معید کو دولہا بننے سے پہلے ہی دولہا بنا دیا گیا ۔ مریدوں نے مہندی کی رسم کا اہتمام بھی کیا ہوا تھا۔ بہر حال یہ ان کی روایت تھی ۔
مہندی کی رسم ادا کی گئی ۔ بلوچی ، براہوی لوک گیتوں پہ عطن نے سما ہی باندھ دیا ۔ پھر کھاناکھلا تو معید سید کو اندر جانے کا موقع ملا ۔
حویلی کا صحن خواتین سے کھچاکھچ بھرا پڑا تھا ۔ معید کی جھلک دیکھتے ہی ماہ پری اور کچھ خواتین اس کی طرف لپکیں۔
براہوی لوک گانا حویلی کی خاموشی کو چیر رہا تھا ۔
”پیٹی نا چادر مبارکباد مرے نے
مبارک باد مرے نے لاڈی لکھ وار مرے نے …”
معید شرماتا ہوا خواتین کے جھرمٹ میں صحن میں رکھے صوفے پہ آکے بیٹھا ۔
ماہ پری عجلت میں گئی اور ”اسپندان”کی دھونی سلگا کے لے آئی ۔ اسپندان بلوچستان میں ہی پائی جانے والی ایک جڑی بوٹی ہے جس کی دھونی قدیم وقتوں سے نظر ِ بد ، جادو اور ٹونے سے نجات کے لیے مشہور ہے ۔
معید کے لیے یہ سب کافی تھکا دینے والا تھا، مگر کیوں کہ یہی روایت تھی ، وہ وہیں بیٹھا رہا جب تک اسے دولہا بنا دیکھنے کے ا ن کے سارے ارمان پورے نہ ہوگئے ۔
اسی ویران حویلی کے ایک تنہا کمرے میں، جائے نماز پہ بیٹھی آبگینے جو حویلی میں آنے والی خوشیوں کی سلامتی کی دعا مانگ رہی تھی ۔ا س کا خیال تو معید کو بھی نہ آیا تھا ۔
ا سے احساس تھا کہ اس کے ہونے نہ ہونے سے کسی کو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا ۔ وہ تو زندہ ہو کہ بھی زندوں میں نہ تھی ۔
اِ س کمرے میں اس کی نوجوانی نے جوانی اور پھر بڑھاپہ کے لبادے اوڑھے تھے ، لیکن کبھی کسی نے یہ خیال نہ کیا تھا کے اتنے برسوں سے وہی دو تین سفید و سیاہ جوڑے پہنتے اور دھوتے ا ن کاکیا حشر ہوگیا ہوگا ۔
اسی شاندار حویلی میں ایک ویران مکین برسوں سے کسمپرسی کی زندگی گزار رہا ہے ۔ کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ وہ مکین کروڑوں کی جائیداد کی مالک تھی جسے اس کے بھتیجے کی خوشی میں شامل تک نہ کیا گیا تھا بلکہ آج تو ا سے بھوکا سونا تھا کہ ماہ پری ا سے کھانا دینا بھی بھول گئی تھی اکثر اونچی شاندار عمارتوں کی بنیادیں کچی اور کمزور ہوتی ہیں ۔ باہر سے دیکھنے والے ان کی حسرت ، اصلیت جانے بغیر کرتے ہیں ۔ اگر حویلیوں کی مضبوط دیواروں پر ، ا ن میں رہتے سسکتے لوگوں کے قصے لکھ دیے جائیں تو کوئی اِن کو حسرت سے نہ تکے ۔
سجدے میں سر جھکائے آبگینے دیر تک سوچتی رہی ۔
باہر صحن میں پنڈال سج چکا تھا ۔ آتشی گلابی اور نارنجی پھولوں کی سجاوٹ نے صحن کا نقشہ ہی بدل ڈالا تھا ۔ ہر سو دیے ، پھول ، خوشبو اور روشنیوں کا راج تھا ۔ عائلہ اپنے کمرے کی ٹیرس سے صحن کا جائزہ لے رہی تھی ۔ جہاں سے پیچھے والے خالی پلاٹ کی کایا پلٹ کا بھی جائزہ لیا جا سکتا تھا ۔ صحن میں خواتین کا انتظام جب کہ پلاٹ میں مردوںکے لیے انتظام کیا گیا تھا ۔
کچھ دیر کو ہی سہی عائلہ کو یہ سب بہت اچھا لگ رہا تھا ۔ بھائی کی خوشی کے خیال نے ا سے اور بھی مطمئن کیا تھا ۔
”میں نہ سہی لالا اور شانزے ہی سہی ۔ کسی کو تو مکمل خوشیاں نصیب ہوں ۔”
ا س نے دل ہی دل میں سوچا۔
عبداللہ اب بھی روز انہ اذانِ مغرب ادا کرتا تھا ۔ شروع شروع میں یہ اذان ا س کے درد میں اضافے کا با عث بنتی تھی، مگر اب تو جیسے عبداللہ کی آواز اس کے ہر درد کا درماں تھی ۔
اب بھی وہ مغرب کی اذان کا خاص طور پہ انتظار کرتی تھی ۔ خضوع وخشوعسے نماز ادا کرتی تھی۔ بس اب فرق صرف اتنا تھا کہ ا سے سکون ملنے لگا تھا ، اب درد بھی سکون دینے لگا تھا ۔
وہ اپنی سوچوں میں گم ٹیرس میں کھڑی تھی۔ ا سے پتا بھی نہ چلا کب، میر صاحب کی گاڑی گیٹ سے اندر آئی تھی۔ گاڑی سے ا ترتے میر صاحب کی نظر بے خیالی میں، ٹیرس میں کھڑی کھوئی کھوئی سی عائلہ پہ گئی تھی گو کہ ٹیرس کا رخ ویرانے کی جانب تھا، مگر پھر بھی میر صاحب کو کئی واہموں نے گھیر لیا۔ تبھی وہ وہیں کھڑے رہ کے دیکھنا چاہتے تھے کہ عائلہ وہاں کیوں استادہ ہے ۔
شک کا بیج ہی کچھ ایسا ہے ایک دفعہ جس رشتے کے بیچ ا گ آئے ، پھر چاہے ہزار بار اس کا سر کچلا جائے ، کسی جنگلی جھاڑی کی طرح وہ اور تیزی سے بڑھتی ہے ۔ میر صاحب کے دل میں بھی شک تھا جو اُنہیں وہیں کھڑے رہ کہ عائلہ سید کی ٹوہ لینے پہ مجبور کر رہا تھا ۔ وہ وہیں کھڑے رہتے کے مغرب کی اذان پہ عائلہ کی جنبش اور چہرے کے سکون نے انہیں حیران کر دیا ۔
پر سکون چہرے کے ساتھ سراپا سماعت بنتی عائلہ مغرب کی اذان کو کسی جذب کی سی کیفیت میں سنے جا رہی تھی ۔ جیسے ہی اذان اختتام کے قریب ہوئی ، اپنا دوپٹا نماز کے انداز میں لپیٹتی وہ میر صاحب کو شرمندہ کر گئی ۔
تو کیا عائلہ اذانِ مغرب سننے وہاں کھڑی تھی ؟
کہیں میں ا س پہ شک کر کے زیادتی تو نہیں کر رہا ؟
میر ابراہیم سید کی پر سوچ نگاہیں خالی ٹیرس پہ ٹکی تھیں ، جب کہ عائلہ نماز ادا کرنے کمرے میں جا چکی تھی ۔
رنگ وبو ، روشنیاں اور پھول ، چچا افراہیم سید کے گھر بھی کوئی کم رونق نہ تھی ۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی شانزے کی مہندی لے کے وہ لوگ یہاں پہنچے تھے ۔
خوبصورت شوخ رنگوں کے امتزاج اور گوٹے کی نازک سی کڑھائی والے غرارے میں ملبوس ، شرمائی شرمائی سی شانزے بے حد پیاری لگ رہی تھی ۔ یوں تو ا ن کے ہاں رواج تھا کہ دلہن جب سے مایوں بیٹھتی، اپنا چہرہ گھونگھٹ میں چھپائے رکھتی ، مگر عائلہ نے ا س کا چہرہ دیکھ لیا تھا اور اب شرارت سے شانزے کو چھیڑ رہی تھی ۔
”بالکل بھی روپ نہیں چڑھا تم پہ اور ایک لالا ہیں کے سونے کی طرح چمک رہے ہیں۔ کوئی جوڑ نہیں چڑیل ، تمہارا ا ن سے۔”
عائلہ کی شرارت پہ شانزے کی دبی دبی سی ہنسی نے ا سے بھی مُسکرانے پہ مجبور کیا تھا۔
”اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ جناب کا ؟ شکر جو آج کم از کم سیاہ رنگ کا پیچھا چھوڑ دیا تم نے ۔ کتنا جچ رہا ہے لال رنگ تم پہ۔”
شانزے نے اس کی دل سے تعریف کی تھی ۔
”بس کیا کرتی مجبوری تھی لالا کو لال رنگ پسند ہے اور یہ جوڑا ان کی طرف سے تحفہ ہے ، پہننا پڑا۔ لالا کو تو لال رنگ اتنا پسند ہے کہ تمہارے لیے بھی شادی کا جوڑا لال اور اپنے لیے بھی لال بنوایا ہے۔”
عائلہ کے لفظوں نے پھر سے شرارت کا لبادہ اوڑھا ۔
”اپنے …لیے بھی ؟”
شانزے کے حلق میں الفاظ پھنسے تھے ۔
”ہاں تو اور کیا۔”
شرارت سے کہتی عائلہ اس کے پاس سے ا ٹھی تھی ۔
مہندی کی رسم کا باقاعدہ آغاز ہو چکا تھا ۔ تمام خواتین باری باری آتیں ، شانزے کی ہتھیلی پہ دھرے پتے پہ مہندی لگاتیں ، مٹھائی کھلاتیں اور دعائیں دیتیں ۔
اِس کے بعد مہندی لگانے کا با قاعدہ آغاز ہوتا ۔ ان کے ہاں رواج تھا کہ مہندی لگانے والیوں کو مدعو کیا جاتا ۔ جو پہلے دلہن کے ہاتھوں پہ مہندی لگانے کا آ غاز کرتیں اور جیسے ہی دلہن کو مہندی لگنا شروع ہو تی ، باقی لڑکیاں مہمان خواتین کے ہاتھوں پہ مہندی لگانے لگتیں ۔
اسے یہ سب بالکل نیا نیا سا لگ رہا تھا ۔ خا موشی سے دور کھڑے وہ سب رسومات اشتیاق سے دیکھ رہی تھی کہ چچی ایک دفع پھر سے اس کی بلائیں لیتیں ، ا سے خود سے لپٹا گئیں ۔ آج آج چچی نے یہ حرکت جانے کتنی دفعہ دہرائی تھی ۔عائلہ کو تھوڑا عجیب سا لگ رہا تھا ۔چچی کا ایسے بار بار محبت جتلانا ، ا سے کھٹک رہا تھا ۔
اسے خود سے لپٹائے ہی چچی نے علیزے کو آواز دی :
”علیزے !سب سے اچھی مہندی لگانے والی سے کہو میری گودی کے ہاتھوں پہ سب سے پیاری مہندی لگائے ، اتنی پیاری جتنی یہ آج لگ رہی ہے ۔”
ہزار ہزار کے کئی نوٹ ا س پر سے وارتی ، وہ شانزے کی طرف بڑھ گئیں اور علیزے سب سے اچھی مہندی لگانے والی کو اس کے پاس لے آئیں ۔
وہ کوئی ادھیڑ عمر خاتون تھیں جو اپنے فن میں یکتا تھیں ۔ خوبصورت مہندی کے لیے ان کا چرچہ دور دور تک تھا ۔
گہری نظروں سے عائلہ کا جائزہ لیتیں وہ بولیں:
”آپ کس طرح کی مہندی چاہ رہی ہیں ؟”
دل تو کیا کہ کہہ دے”کسی طرح کی نہیں ۔”
پر بھائی کا کھلا کھلا سا چہرہ نظروں کے سامنے گھوم گیا جوآج سفید قمیص شلوار پہ کالی واسکٹ پہنے کسی شہزادے سے کم نہیں لگ رہا تھا ۔
عائلہ کچھ بھی ایسا نہیں کرنا چاہتی تھی کہ جس سے اُس کے بھائی کی خوشی کسی طرح بھی متاثر ہو۔
تبھی زبردستی مُسکراتے ہوئے عائلہ نے جواب دیا :
”جس طرح کی مہندی لگانے میں آپ کو آسانی ہو ۔ لگا دیں۔”اور اپنی دودھیا ہتھیلی اس کے سامنے پھیلا دی جس کی کلائی میں لال گلابوں کا گجرا مہک رہا تھا ۔
خا تون ایک ہاتھ میں مہندی سنبھالے ، دوسرے ہاتھ میں اُس کی ہتھیلی تھامے کچھ دیر خالی نظروں سے اس کی ہتھیلی کو گھورتی رہیں۔ پھر خاموشی سے مہندی لگانے لگیں۔
ابھی انہوں نے آدھے ہاتھ پہ ہی مہندی لگائی تھی کہ عائلہ کا دل اکتا گیا ۔ ا س نے اکتاہٹ سے ہی بچنے کو مہندی والی خاتون سے بات چیت کا آغاز کیا ۔
”آپ کو کتنے سال ہو گئے مہندی لگاتے ہوئے ؟ ”
جواب سپاٹ لہجے میں ملا :
”25سال۔”
”پچیس سال؟”
عائلہ اپنے لہجے کی حیرت نہ چھپاسکی۔
”جی ہاں !پچیس سال ۔ میں بچپن میں اماں کے ساتھ گھر گھر چوڑیاں بیچنے جاتی تھی ۔ اماں کو ہاتھ دیکھنے کا فن بھی آتا تھا ۔ مجھے چوڑیوں کے بے حساب ڈبوں سے نفرت تھی، جنہیں کندھوں پہ لادے میری ماں میلوں کولہو کے بیل کی طرح چلتی تھیں۔ میں نے بچپن ہی میں طے کر لیا تھا ، چوڑیاں کبھی نہیں بیچوں گی ۔ تبھی مہندی لگانے کی طرف رجحان گیا ۔ مجھے اماں اپنا ہاتھ دیکھنے کا ہنر بھی دے گئی ۔ گزر بسر اچھے سے ہو جاتا ہے ۔ ”
مہندی ادھوری چھوڑ وہ عائلہ کو اپنی مختصر سی روداد سنانے بیٹھ گئی ۔
”سچ میں آپ کو ہاتھ دیکھنا آتا ہے ؟ میرا ہاتھ دیکھ کے بتائیں میرے نصیب میں کیا ہے ؟”
عائلہ کے لہجے میں اشتیاق بولا تھا ۔
مہندی والی خاتون نے تھوڑی دیر عائلہ کے میک اپ سے عاری ، حسین چہرے کو دیکھا ۔ پھر بولی :
”میں تمہارا ہاتھ پہلے ہی دیکھ چکی ہوں ۔”عائلہ کا اشتیاق مزید بڑھا ۔
” اچھا ؟ تو کیا ہے میرے ہاتھ میں ؟”
خاتون نے مضبوط لہجے میں کہا :
”کچھ نہیں ۔ تمہارے ہاتھ کی لکیریں کہتی ہیں تمہارا ہاتھ اور نصیب دونوں خالی ہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں کبھی اس قدر بنجر ہاتھ نہیں دیکھا ۔ تمہارے نصیب میں اکیلا رہنا ہے ۔ کسی کا ساتھ نہیں ، کسی اپنے کی جھلک نہیں دکھتی تمہاری لکیروں میں ۔ تم بد قسمتی کا پتھر ہو۔ سونے کو بھی چھوئو گی تو مٹی کر دو گی ۔”
عائلہ نے پتھرائی ہوئی نظروں سے خاتون کا سپاٹ ، جذبات سے عاری چہرہ دیکھا ۔
اس کے سانولے چہرے کے عام سے نقوش مندمل ہوتے محسوس ہوئے ۔ اُسے اس کے چہرے میں کئی چہرے گڈ مڈ ہوتے نظر آئے ۔
بابا کا چہرہ ”تم دھوکے باز ہو کہتا دِکھا۔” تو کبھی اماں کاکی ”تم باغی ہو”کہتی نظر آئی ۔ عائلہ نے اپنا ہاتھ جھٹکے سے کھینچا۔ خوف اور وحشت کی ڈھیروں دراڑیں اس کے خوب صورت نقوش بگاڑ رہی تھیں ۔
پیچھے کی طرف تیز تیز قدم اٹھاتے ، اس کی خوف زدہ نظریں اب بھی اس کے چہرے پہ تھیں۔
تیزی سے دوپٹا سر پہ اوڑھتی عائلہ کو یہ بھی دھیان نہ رہا کہ ہتھیلی پہ سجی ادھوری مہندی نے اس کا لال دوپٹا داغ دار کر دیا تھا ۔
لڑکیوں کے جھرمٹ میں بیٹھی ڈھولک بجاتی ، ذاکرہ کی نظریں اپنی گودی پر تھیں ۔ اُنہیں یوں پریشان دیکھ وہ ڈھولک چھوڑ چھاڑ اُن کی طرف بھاگی۔ ”کیا ہوا گودی ؟ سب خیر ہے ؟ آپ ٹھیک ہیں ؟”
ذاکرہ کے تفکر سے پوچھنے پہ عائلہ بری طرح چونکی ۔ پھر خوف زدہ لہجے میں ذاکرہ سے مخاطب ہوئی ۔
”ذا … ذاکرہ ! مجھے گھر لے چلو نا ۔ مجھ … مجھے یہاں بہت ڈر لگ رہا ہے ۔ ”
عائلہ کی کپکپاہٹ پہ ذاکرہ نے اس کی چادر اس کے گرد لپیٹی اور گل محمد سے گاڑی گیٹ پہ لانے کا کہہ کر ا سے سہارا دیتے ہوئے گاڑی تک لائی ۔
سکینہ صاحبہ کو خبر ہونے تک وہ گاڑی میں بیٹھ چکی تھیں ۔ ”لوگ کیا کہیں گے” سے زیادہ اُنہیں اپنی بیٹی کی فکر ہو رہی تھی جو گھر پہنچنے تک بری طرح سے بخار میں پھنک رہی تھی ۔
”ذاکرہ !گودی کیسی ہے ؟ ا ٹھ گئی ہے؟”
عائلہ کے کمرے سے نکلتی ذاکرہ کو دیکھ سکینہ صاحبہ نے ا س سے پوچھا۔
”ابھی ا ٹھی ہیں وہ ! ساری رات بخار میں تپتی رہیں ۔ ٹھنڈے پانی کی پٹیاں بھی کرتی رہی مگر بے سود۔ ابھی طبیعت کچھ سنبھلی ہے ان کی تبھی میںاُن کا ناشتا لینے جا رہی تھی۔”
ان کو تفصیلاً جواب دیتی ذاکرہ سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی ۔
”سنو !میری چائے بھی اندر ہی لے آئو۔”
پر سوچ انداز میں ا سے ہدایات دیتیں سکینہ صاحبہ عائلہ کے کمرے کی جانب بڑھ گئیں ۔
کمرے میں وسیع دریچے کی بدولت صبح کی میٹھی میٹھی دھوپ اور ٹھنڈی ہوا کے جھونکے رقصاں تھے ۔ صحن میں لگے بے حساب گلابوں کی خوشبو ا ن کے رقص کے لیے خوبصورت سی دھن چھیڑے ہوئے تھے ۔
سکینہ صاحبہ نے ایک بھر پور سانس لیتے ہوئے عائلہ کے کمرے کی تازہ سی صبح کو اپنے اندر اتارا۔ ان کی متلاشی نظروں نے ٹیرس میں کرسی پہ دونوں پیر سمیٹے بیٹھی عائلہ کو دیکھ لیا تھا ۔
وہ خاموشی سے اس کے پاس کرسی پہ آکے بیٹھ گئیں ۔ عائلہ کی روئی روئی لال آنکھیں نیلے صاف آسمان پہ معلق تھیں ۔ جانے کتنی دیر یونہی خا موشی کا پہرہ رہا کہ آخر سکینہ صاحبہ نے چپ توڑی :
”کل کیا ہوا تھا عائلہ ؟”
عائلہ بنا چونکے ان کے سنجیدہ چہرے کی طرف دیکھنے لگی ۔ ا سے پتا تھا اس کی اماں تب ہی ا سے ”عائلہ ” کہہ کے پکارتیں جب کچھ بہت پریشان کن ہوتا ۔
”کچھ نہیں اماں بس دل گھبرا گیا تھا ا دھر ۔ پتا تو ہے آپ کو نہیں پسند مجھے عجیب سی رسمیں ۔ خود کو اعلیٰ و ارفع دکھانے کی کوششیں ۔”
بیٹی کے تاثرات پڑھتی سکینہ صاحبہ کو عائلہ آج بھی کئی سال پہلے کی وہ ننھی سی عائلہ لگی ، جو ا س شام حویلی کے صحن میں چائے پیتی سکینہ صاحبہ کو متفکر چھوڑ گئی تھی ۔
”آپ نے ایلس ان دا ونڈر لینڈ دیکھی ہے اماں ؟”
آپ کو پتا ہے ، اماں مجھے اپنا آپ ایلس جیسا لگتا ہے ، اس حویلی ، اس ماحول میں یکسر اجنبی ۔ کوئی کیوں نہیں سمجھتا مجھے اماں ؟ آپ تو سمجھیں کم از کم ، میں عام سی لڑکی ہوں۔ مجھے عام سی زندگی گزارنی ہے ۔”
اپنی چھوٹی سی ناک چڑھائے وہ ناراضی سے کہہ رہی تھی ۔ جب کہ اس کی سادہ سی اماں اچنبھے سے ا سے دیکھتی ہوئے بولیں :
”عا ئلے میرا بچہ!کون ڈال رہا ہے یہ خناس تمہارے ننھے سے ذہن میں اور یہ کیا کہا کس کی طرح ہو تم؟”
ننھی سی عائلہ کے تو مزاج ہی نہیں مل رہے تھے ، تنک کے بولی:
ایلس اما ں ! وہ میری طرح ایک عام سی لڑکی تھی ، جو اس حویلی کی ہی طرح عجیب و غریب جگہ میں جا کے پھنس جاتی ہے ، گم ہو جاتی ہے ۔ شروع میں تو اسے بھی بہت مزہ آتا ہے ، پھر آہستہ آہستہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک قید خانہ ہی ہے اور قید جتنی حسین ہی کیوں نہ ہو ہوتی تو قید ہے۔”
اماں نے فکر مندی سے ا سے دیکھتے ہوئے ،سمجھانے کی کوشش کی :
” دیکھو میری گودی ! یہ قید نہیں ، تمہارا خوبصورت محل ہے اور تم یہاں کی گودی ہو ۔پتا نہیں کتنی لڑکیاں تمہاری زندگی کو دیکھ کے رشک کرتی ہوں گی، ایسے نا شکری نہیں کرتے بچے ، اللہ پاک ناراض ہو جاتا ہے اور وہ ناراض ہو ئے تو بہت برا ہوتا ہے ۔ اور تم ؟تم تو ہو بھی…”
اماں کی بات ادھوری رہ گئی اور عائلہ بولنے لگی :
”تم تو ہو بھی سید زادی ۔ تمہیں تو دوسروں کے لیے مثال بننا چاہیے، تمہیں پتا ہونا چاہیے کہ تم عام لڑکی نہیں ہو ، نا بن سکتی ہو ۔ ہمارے گھروں کی لڑکیاں ایسے ہی کرتی ہیں ۔”
یہی نا اماں ؟ ا س نے دانت بھینچتے ہوئے پوچھا ۔
”اماں !میں کیا کروں میں عام سی ہی لڑکی ہوں۔ میرا دل بھی کرتا ہے ،کھیلنے کو، زور زور سے ہنسنے کو ، سہیلیاں بنانے کو، جو دل کرے جیسے دل کرے کھانے کو، بابا کے ساتھ کوئٹہ گھومنے کو ، کسی ٹھیلے سے گول گپہ کھانے کو ، اپنی سہیلیوں کے گھر جانے کو ، ان کی طرح آزاد زندگی گزارنے کو، کیا کروں میں امی؟”
اس کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے کہ وہ مزید بولی :
”اماں !کیا سید زادیوں کے دل نہیں ہوتے ؟ اگر نہیں ہوتے تو میرا دل کیوں ہے ؟”
اس کی اماں نے ننھی سی عائلہ کو دکھ سے دیکھا تھا ، جو بنا کچھ سنے، اپنی بات مکمل کرتے تیزی سے اندر کی طرف بڑھ گئی ۔
اس کی پریشان سی اماں کے ہاتھ میں پکڑا چائے کا کپ ا س دن بھی ٹھنڈا ہو گیا تھا اور آج بھی۔
ذاکرہ جانے کب کی گم صم بیٹھی سکینہ صاحبہ کے ہاتھ میں چائے کا کپ پکڑا کے جا چکی تھی۔
بے دلی سے ناشتا کرتی عائلہ کا پھیکا چہرہ ، انہیں مزید فکرمند کر گیا ۔ وہ کیسے ا س سے وہ بات کہیں جو وہ کہنے آئی تھیں ۔ کچھ دیر دبیز خاموشی اُنہیں گھیرے رہی کہ بالآخر وہ ہمت کر ہی بیٹھیں :
”عائلے !آج معید کی شادی ہے نا۔”
عائلہ نے نا سمجھی سے اُن کی بلا وجہ کی تمہید پر انہیں تکا ۔
”وہ اور شانزے بہت خوش ہیں ما شا اللہ ۔ میں نہیں چاہتی کہ ان کی خوشی میں کوئی رتی برابر بھی کمی آئے یا خدانخواستہ ان کی شادی ر ک جائے۔”
ماں کی بے تکی بات پہ عائلہ نے دہل کے کہا :
”اللہ نہ کرے اماں کون چاہے گا ایسا ، کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ ؟
”تم ایسا نہیں چاہتی عائلہ؟”
سکینہ صاحبہ کا سنجیدہ لہجہ ، عائلہ کی دھڑکن تیز کر گیا ۔ دھڑکتے دل کے ساتھ وہ بولی :
”ظاہر ہے اماں نہیں چاہتی ۔”
اماں کی پر سوچ نظریں ، اس کے حیران چہرے پہ ٹکی تھیں ۔
”تو شاہ زین سے شادی کر لو ۔ ”
لفظ تھے کہ پگھلا ہوا سیسہ ؟ ششدر بیٹھی عائلہ حیرانگی اور صدمے کے ملے جلے تاثرات لیے اماں کے سنجیدہ تاثرات جانچ رہی تھی ۔
”بھائی کی خوشی اب تمہارے ہاتھ میں ہے بیٹا ۔ تمہاری چچی نے شرط رکھی ہے کہ پہلے شاہ زین اور عائلہ کی منگنی ہو گی ، پھر ہی شانزے اور معید کا نکاح ہو سکے گا ورنہ نہیں ۔ تم تو جانتی ہونا، ہمارے رسم و رواج کیسے ہیں ۔ اس طرح جائیداد خاندان میں ہی رہے گی اور ہمیں بھی ڈھارس رہے گی کہ ہماری گودی اپنوں میں ہی ہے ۔ آخری فیصلہ بہر حال تمہارا ہی ہے کیوں کہ تم جانتی ہو ہمارا قبیلہ سب کچھ بیٹیوں کی مرضی ہی سے کرتا ہے ۔ ”
اماں چپ ہو ئیں تو پتھر کا مجسمہ بنی بیٹھی عائلہ نے تھوڑی جنبش کی اور اپنا چہرہ جھکا دیا ۔ بے شک قبیلہ اپنی بیٹیوں کی مرضی ہی سے فیصلے کرتا ہے، مگر ایسے کے ا ن کے لیے ہر در بند کر کے ، ہر ممکنہ امید کا دیا بجھا کے ، اپنی مرضی کے رستے پہ مشعل روشن کر کے، پوچھا جاتا ہے اب تمہاری مرضی کیا ہے اور سیدزادیاں جنہیں ہمیشہ بغاوت کی عبرت ناک انجام ہی دکھائے جاتے ہیں ، خاموشی سے قبیلے کے سجھائے رستے پر ہی چل پڑتی ہیں ۔
”تو ہم ”ہاں”سمجھیں ؟”
ماں کا یخ بستہ لہجہ ، اسے باور کرا گیا کہ اس کا جواب کیا ہونا چاہیے۔ اس کے لبوں نے خود ہی اس کے عمر قید کی سزا ، ا س مختصر سے ”جی ” میں سنا دی ۔
کچھ ہی دیر قبل ، لال جوڑے میں ، شرماتی شانزے کو رخصت کرا کے لایا گیا تھا ۔ گو کہ طے یہی ہوا تھا کہ پہلے عائلہ کی منگنی ہو گی پھر ہی شانزے کا نکاح، لیکن یہ بھی قبیلے کی روایت تھی کہ جس گھر میں ان کی بیٹی کی بات طے ہو جاتی ہے وہاں شادی کے بعد ہی وہ قدم رکھ سکتی ہیں ۔ تبھی عائلہ بھائی کی شادی پہ بھی نہ جاسکی تھی۔
بلوچی پگڑی اور آف وائٹ بوسکی کی شلوار قمیص میں ، شانزے کے قدم سے قدم ملا کے چلتا معید سید کسی شہزادے سے کم نہیں لگ رہا تھا ۔ برات پوری دھوم دھام سے دلہن لے کے لوٹی تھی ۔
پھولوں کی بارش سے ان کا استقبال کیا گیا۔
شانزے کا پہلا قدم عرق ِ گلاب سے بھرے برتن میں دھلا کے گھر کی دہلیز پہ رکھوایا گیا ۔ پھر رسموں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا ۔
دور خاموش کھڑی عائلہ ، خالی خالی نظروں سے تمام رسومات دیکھ رہی تھی ۔ سیاہ شیفون کے جوڑے پہ خوب صورت سا نازک چاندی کاکام بنا ہوا تھا ۔ شہر کے معروف ڈیزاینر شوروم سے یہ جوڑا معید نے بے حد پیار سے اپنی شادی کے لیے عائلہ کو تحفتاًدیا تھا ۔
میک اپ سے مبرا چہرہ کئی اندیشوں میں گھرا ہوا تھا ۔ گزشتہ رات کی تکلیف ، اس کے چہرے پہ زردی کی صورت بکھری ہوئی تھی ۔
ایک چچی تھیں جو بار بار اس کے صدقے واری جا رہی تھیں اور علیزے، جو اس کے پاس سے ہٹ ہی نہیں رہی تھی۔
عائلہ اتنی ناسمجھ نہ تھی کہ اس منگنی کے پیچھے چھپی شاہ زین کی بھوری آنکھوں میں امڈتے ستائش کا وہ منظر بھول جائے ۔ ا سے اندازہ تھا کہ چچی کی ضد دراصل شاہ زین کی ضد ہے ۔ ا س کا بس چلتا تو شاہ زین کے منہ پہ جا کے انکار کرتی ، پر سامنے اسٹیج پر بیٹھے معید اور شانزے کی نو بیاہتا جوڑی اور ان کی خوشیوں کا ہی خیال تھا جو عائلہ کو روکے ہوئے تھا ۔
”عائلے آپی … عائلے آپی !”۔۔۔۔۔۔۔۔۔