بیا ایک بات مانو گی بیا اور اشعر باہر لان میں واک کر رہے تھے جب اشعر نے بیا سے کہا- تم شادی کے لیے مان جاؤ نا – بیا رُک گئی- اشعر بھی رُک گیا اور بیا کی خاموشی کو غنیمت سمجھتے ہوئے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بیا کا ہاتھ پکڑا اور بولا ارم ساتھ تمہارے بھی ہاتھ، پیلے ہو جائے گےاور مجھ غریب کا بھی بھلا ہو جائے گا اس کے علاوہ زاور بھائی اور خالہ کا بوجھ بھی ہلکا ہو جائے گا-بیا نے اپنا ہاتھ کھینچنا چاہا جب کامیاب نہ ہوئی تو بولی پہلی بات تو یہ کہ میں کسی پر بوجھ نہیں اور دوسری بات شادی میری جاب کے بعد ہو گی یہ طے ہیں اور اگر شادی کی زیادہ جلدی تو کوئی اور دیکھ لیں –
یہ بھی سہی ہے مجھے لڑکیوں کی کمی تھوڑی لیکن تمہارا کیا ہوگا بیا کے ہاتھ پر زور ڈالتے ہوئے کہا اور بیا بھاگنے کی خواہش کو دباتے ہوئے کیونکہ ہاتھ اشعر کے ہاتھ میں تھا بس سر جھکا کے رہ گئی اور اشعر بیا کے چہرے کے رنگوں میں کھو کے رہ گیا-، اشعر؛ – – – – – بیا اشعر کی محویت توڑنے کو بولی جب اشعر ٹس سے مس نا ہوا تو اپنا ہاتھ کھینچ کر کہا اشعر میرا ہاتھ چھوڑے
نہ چھوڑو تو
تو – – —
ہاں تو اشعر نے اکسایا
بیا نے جھک کر اشعر کے ہاتھ پہ کاٹا تو اشعر نے جلدی سے اپنا ہاتھ کھینچا بیانے ہاتھ چھوٹتے ہی دوڑ لگا دی مین ڈور تک پہنچ کر موڑیں اور اشعر کو مسکرا کے اُنگوٹھا دیکھا یا تو
اشعر نے اپنے ہاتھ پر جہاں بیا نے کاٹا تھا وہاں بیا کو دیکھتے ہوئے چوما تو بیا کانوں تک لال ہو گئی
بیا جیسے ہی سونے کے لیے لیٹی اُس کا موبائل تڑتڑایا تو لیٹے لیٹے موبائل پکڑا اشعر کا میسج تھا
شرماتے ہوئے اچھی لگتی ہو
میسج پڑھ کر مسکراہٹ خودبخود بیا کے لبوں پر آ گئی-تبی میسج دوبارہ آیا
بیا
بیا نےجی ٹائپ کیا اور سینڈ کا بٹن دبا دیا
مجھے مس کر رہی ہوں اشعر نے پوچھا
نہیں بیا نے ریپلائی کیا
تم سے یہی امید تھی اشعر نےمیسج کیا
بیا نے ھا ھا ھا کا میسج کہاوت ساتھ ہی good night لکھ کر دوسرا میسج کیا
اشعر نے بھی be happy and good night کا میسج کیا اور بیا کو سوچتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں
_+_+_+_+_+_+_+_
بیا کے پیپرز کیا شروع ہوئے وہ دن رات کا فرق بھول گئی کھا نا بھی سفینہ بیگم سر پر کھڑی ہو کر کھلاتی. ابھی بھی وہ بیا کے لیے کھانا لائی تھیں اور بیا نخرے دکھا رہی تھی امی ابھی نہیں بعد میں کھا لو گی رکھ دیں – بیا بہانے اس سے کرنا جو تمہیں جانتا نہ ہو یہاں رکھ دیا تو صبح تک یہاں ہی پڑا رہتا چلو کھانا شروع کرو شاباش،دیکھ بیا تو نہیں کھائے تو میرے حلق سے بھی نوالہ نیچے نہیں جائے گا اور بیا منہ بناتے کھانے لگی کیوں کہ جانتی تھی کہ اگر اس نے کھانا نہ کھایا تو ماں بھی کھانا نہیں کھائے گی تبی زمان بھائی کمرے میں آئے اور بولے ہاں بئھی کیا سمجھنا ہیں – بیا نے ہی ہانیہ جو کے زمان اور شزا کی بیٹی تھیں کو کہا تھا کہ جب بابا آئے تو میرے روم میں بھیجنا – زمان پہلے کھانے دے اسے ابھی بیچ میں چھوڑا تو کھائے گی نہیں دوبارہ سفینہ بیگم گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر کھڑی ہوئی اور زمان بھائی کو بولتی ہوئی باہر نکل گی، بیا ایم ایس سی اکنامکس کر رہی ہے اور صبح اسلامک بینکنگ کا پیپر تھاتبی کچھ ٹاپک سمجھنے کے لیے زمان بھائی کی مدد درکارتھی-
_+_+_+_+_+_
کیا بات ہیں بیٹیا آج بہت اداس لگ رہی ہو-زوباریہ بوا کی گود میں سر رکھے لیٹی تھی تو بوا نے اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے پوچھا
بوا آج امی کی بہت یاد آ رہی ہیں
بوا وہ مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں میں ایک وقت کا کھانا نہیں کھاتی تو وہ گھنٹوں ہولتی تھی کہ کہیں مجھے نظر تو نہیں لگ گئی یا معدے میں گرمی تو نہیں ہو گی جو بھوک اُڑ گی اور پتا نہیں کیا کیا سوچتی رہتی تھی اُن کو ٹینشن سے بچانے کیلئے میں بھوک نہ ہوتے ہوئے بھی کھاتی تھی اور دیکھے میری ٹینشن میں وہ مجھے ہی چھوڑ گئی تنہا کر گی مجھے
بوا لوگ کیوں بدل جاتے ہیں زوباریہ اُٹھ بیٹھی اور دیوار کو گھورتے ہوئے بولی-
بیٹیا لوگوں کا تو کام ہی بدلنا ہے دکھ لوگوں کے بدلنے کا نہیں رشتوں کے بدلنے کا ہوتا ہے
بالکل ٹھیک کہا آپ نے بوا دکھ رشتوں کے بدلنے کا ہوتا ہے مجھے بھی تو رشتوں نے ان حالوں میں پہنچا یا ہے اور اپنے کمرے کی طرف چل دی-
اللہ تمہیں سکون دے میری بچی بوا نے دل میں دعا دی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ وہ اب ساری رات جاگے گی
_+_+_+_+_
بیا آخری پیپر دے کر جسے ہی گیٹ سے اینٹر ہوئی دیکھا کہ امی گیٹ کی طرف پشت کئے پودوں کو پانی دے رہی تھیں وہ بنا آواز کئے بڑھی بیگ گھاس پر رکھااورامی کی کمر میں بازو پھیلا کے گھما دیا امی ارے ارے کرتی رہ گئی امی آج میں آزاد ہو گئی ارے لڑکی مجھے تو چھوڑ تیرا بچپنا ہی ختم نہیں ہوتا – بیا نے امی کو چھوڑا اور خود دونوں بازو کھول کے گھومنے لگی
سفینہ بیگم چراتے سر کو پکڑتی پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گئی
بیا جب تھک کر سفینہ کے پاس آئی تو بولی امی آپ تو بوڑھی ہوگئی ہیں ارے ہٹ اب بھی بوڑھا نہیں ہونا تھا کیا-
سفینہ بیگم کے جواب بیا نے ہاتھ کی پشت ماتھے پر رکھی اور ڈرامائی انداز میں بولی دو جوان بیٹوں کے ہوتے تو کیسے بوڑھی ہو گئی ماں بول ماں اور امی کے گرد بازوؤں کا ہار ڈال کے ان کے منہ سے منہ جوڑ دیا
جوان بیٹوں کی مائیں ہی تو بوڑھی ہوتی ہیں بیا جو عائشہ بھابھی کی پکار پر اندر بڑھی تھی سُنا نہ سکی
اور سفینہ بیگم سوچ میں ڈوب گئی کیونکہ کہ زمان اور شزا کے جھگڑے بڑھتے جا رہے تھے شزا کو زمان کی جاب سے پرابلم تھی کہ صبح9 سےشام 8 بجے تک بینک میں رہو اور سیلری بھی اتنی نہیں کے وہ کُھول کے زندگی کے مزے لے سکتی اُوپر سے زمان پاس اتنا ٹائم نہ ہوتا کے وہ بیوی بچوں ساتھ وقت گزار سکےیہا ں تک تو ٹھیک لیکن آج کے جھگڑے کی وجہ جان کے وہ ہِل کے رہ گئی
_+_+_+_+_+_+_
شزا یار تمہارا موبائل بل جمع کرایا کل
باہر کال کچھ زیادہ نہیں کی تم نے – زمان نے ٹائی لگاتے ہوئے کہا
زمان ایک بات مانے گئے شزا جو موقع کی تلاش میں تھی زمان کے خود بات چھڑنے پر زمان کی بات کو ان سُنا کرتے ہوئے بولی اور ٹائی کی ناٹ بنانے لگی
بولو اب کون سی خواہش پوری کرانی ہے میری بیوی نے
پہلے وعدہ کریں نہ شزا نے لاڈ سے کہا
بولو یار سُن رہا ہوں اور صوفے پر بیٹھ کر شوز پہننے لگا
وہ—–وہ میں – – – – – – – – –
اب بول بھی چُکو
وہ میں آپ کی c.v نعمان بھائی کو سینڈ کی تھی تو
تو زمان نے ابرواُچکاتے ہوئے شزا کو دیکھا انہوں نے آپ کے لیے جاب تلاش کر لی ہے اور ایک دو دن میں آپکے اپوانمینٹ لیٹر مل جائے گا
اس سب کا مقصد جان سکتا ہوں خشک لہجے میں بولا
زمان یہاں سارا مہینہ سر کھپانے کے بعد بھی آپ اتنا نہیں کر سکتے جتنا وہاں کچھ دن میں کر لیں گے
یعنی تم چاہتی ہوں میں باہر جا کر گدھوں کیطرح محنت کروں تاکہ تمہاری بے جا خواہشات پوری ہوسکے زمان کا لہجہ آپو آپ ہی اُونچا ہو گیا اور باہر سے گزرتی سفینہ بیگم ٹھٹھک کر رُک گئی
گدھوں کی طرح یہاں لگیں ہیں اور ہاتھ کیا آ تا چند ہزار جو دس دنوں میں کہاں جاتے پتا بھی نہیں لگتا
واقعی تمہیں تو پتا بھی نہیں لگتا کیونکہ تم تو کھڑے کھڑے ہزاروں شاپنگ پر اُڑا دیتی ہوں
یہی تو_- – –
بساط اکی لفظ نہیں زمان نے شزا کی بات پوری ہونے سے پہلے روکا اور یہ جا وہ جا
شزا زمان کی چپل کو ٹھوکر مار کے رہ گئی
_+_+_+_
بیا کی بچی تم اب تک تیار کیوں نہیں ہوئی ہمیں آج ہی واپس جا نا ہے-ارم کی شادی سے ایک ایک ہفتہ پہلے اطہر بیا کو لینےلا ہور آیا تھا
تو بتا کے نہیں آسکتے تھے میری شاپنگ بھی ابھی پوری نہیں ہوئی اور میرے سوٹ بھی ٹیلر پاس ہیں وہ بھی ِِپک کرنے ابھی
بیٹا سوٹ ہم لے آئے گے سفینہ بیگم نے کہا
اور باقی شاپنگ تم وہاں سے کر لینا عائشہ بھابھی نے بھی اپنی جان بچائی کیونکہ بیا کے ساتھ بازاروں میں اُنہی کو کھپنا پڑتا تھا
ہاں بیا سوٹ خالہ لوگ لے آئیں گی اور مارکیٹ اسلام آباد میں بھی ہیں تم وہاں ارم ساتھ مل کے کر لینا باقی شاپنگ
لیکن – – –
بیا مجھے صبح کالج جانا میرا فائنل ائیر چل رہا چھٹی نہیں کر سکتا ابھی شادی پر جو کرنی چھٹیاں – تمہارے پاس ایک گھنٹہ ہے پیکنگ کرو اور چلو ورنہ یہی چھوڑ جاؤں گا
ایسے کیسے چھوڑ جاؤگے میرے بغیر پاؤں تو باہر نکالو تم – پاؤں کاٹ کے ہاتھ میں دے دوں گی پھر آزماتے رہنا اپنی ڈاکٹری خود پر
بیا بڑا ہے تم کچھ لحاظ شرم ہیں یا سب بالوں کے ساتھ کٹوا آئی ہو. امی کو تو ایک اور موقع مل گیا تھا بیا کو سُنانے کو کیونکہ بیا جب سے کمر تک آتے بالوں کو کندھوں سے ذرا نیچے تک کروا کے آئی تھی سفینہ بیگم کا تو افسوس ہی ختم نہیں ہو رہا تھا
بیا نے امی کا پارہ ہائی ہوتے دیکھا تو عزت بچانے کو اطہر کو گھورتی ہوئی لاونج سے نکل گئی
_+_+_+_
زوبی تم بہت اچھی رہ گئی ہو جوآئے دن باس کے منہ نہیں لگناپڑتا ہمیں دیکھو روز روز عزت افزائی کرا کےبھی جی رہے ہیں سارا باس کے آفس سے نکل کر زوباریہ کے کیبن میں آ کر بولی
میرا خیال ہے تم لوگوں کو اب تک عادی ہو جانا چاہیے زوباریہ نے مصروف انداز میں کہا
درست فرمایا اب تو جس دن باس سے سامنا نا ہو کھانا ہضم نہیں ہوتا
اسفند اس کمپنی کا اڈیڈ آفیسر تھا اور زوباریہ اسفند کو اسیسٹ کرتی تھیں اسی لئے وہ باس کی بجائے اسفند کو جوابدا تھی
دستک دے کر آفس بوائے آیا اور زوباریہ کو اسفند کا بلاوہ دے کر چلا گیا
لو آگئی تمہاری بھی پیشی سارا کہتے ہوئے باہر نکل گئی اور زوباریہ فائل دیکھنے لگی جو اسفند کو جمع کروانی تھی
ارے واہ تم کب آئیwhat a pleasant surprise biya کس کے ساتھ آئی ہو اور مجھے کیوں نہیں بتایا آنے کا-اشعر آفس سے تھکا ماندہ آیا اور بیاکو سامنے بیٹھا دیکھ کر بے اختیار بولتے ہوئے بیا کے پاس صوفے پہ آ بیٹھا
اور اشعر کے ایسے سب کے سامنے اُس کے پاس آکر بیٹھنے پر بیا کنفیوز ہو کردور ہوئیاور صوفےکی پٹی سے لگ گئی
روبینہ اور عظیم صاحب جو بیا کو بغور دیکھ رہے تھے بے اختیار مسکرا اُٹھے.
یہ بندہِ نہ چیز لایا ہے آپ کی بیا کو ورنہ ان محترمہ کی تو بہانے بازی نہیں ختم ہو رہی تھی
بیا آپکی بیا کہنے پر بلش ہوئی وہی خود کو اطہر کے بہانے باز کہنےاور اشعر کے گھورنے پر بول اُٹھی
میں کوئی بہانے نہیں بناے اشعر میرے سوٹ واقعی ٹیلر کے پاس ہیں اور ولیمہ کی تقریب کا سوٹ تو ابھی لینا ہے جلدی سے صفائی پیش کی کہ کہیں اشعر بُرا نہ مان جائے
اور بیا کی جلد بازی پر سب ہنس پڑے اور اشعر کےقہقہ لگا نے پر بیا پہلے حیران ہوئی پھر سب کی شرارت سمجھتے ہوئے کانوں تک لال ہو گئ –
بیا باجی آپ ایوے شرمائی جا رہی ہیں اشعر بھائی سےجبکہ ابھی صرف بات طے ہوئی ہے اور ایک ہماری ارم اپیا ہیں جو عالم بھائی کی بات ہونے پر خوش ہوتی ہیں
اور نی تو کیا زرا نہیں شرماتی بس ارم عالم کہنے پر چڑتی ہیں اظہر کی بات کو اطہر نے آگے بڑھایا اور باتوں باتوں میں ارم کی چھیڑ بھی بیا کو بتا دی
تم دونوں تو جب بولنا میرے خلاف ہی بولنااور جب رخصت ہو جاؤں گی تم دونوں کو ہی سب سے زیادہ یاد آؤں گی اپنی رخصتی کی بات کرتے ہوئے ارم کی آواز بھر آئی اور آنکھیں نم ہو گئی اشعر نے ارم کا رونے کا پروگرام دیکھا تو خود بھی آنکھوں میں آنسو لئے بولا
ہم ایوے روئے گے، روئے گے تو عالم بھائی جسے اب ہم رو رہے ہیں اشعر کی با ت پر سب نم آنکھوں ساتھ مسکرا گئے
_+_+_+_+_+_+_
زوباریہ کمپیوٹر پر بیٹھی کی بورڈ پر کٹھا کٹھ انگلیاں چلا رہی تھی جب اسفند نے ایک فائل زوباریہ کی طرف بڑھا ئی
مس خان اسے بھی ایڈ آپ کر کے مجھے سارا ڈیٹا سینڈ کر دیجئے گا
اوکے سر
وہ سیلری والی فائل- – –
اسفند کی بات ابھی منہ میں ہی تھی تب ہی اسفند کے پرسنل سیل کی بیل نے اسے ُ اپنی طرف متوجہ کیا –
ہیلو جی امی – – – –
کیا کیسے میں ابھی آ رہا ہوں
اچھا رؤے تو نہ میں دس منٹ میں پہنچ رہا ہوں اور کہتے ہوئے باہر نکل گیا
اور پیچھے زوباریہ نہ چاہتے ہوئے بھی اسفند کے لیے سوچنے لگی کہ نہ جانےکیا کہا تھا اُنکی امی نے جو اتنی جلدی میں بنا کچھ کہے نکل گے
سال کا آخر تھا اور اسفند کو اڈیڈ رپورٹ تیار کر کے جمع کرانی تھی اور ان دنوں زوباریہ اسفند کا آفس ہی شئیر کرتی کیونکہ دونوں کو مل کے رپورٹ بنانی ہوتی تھی
_+_+_
خالہ میری چوڑیاں تورہ گئی ہیں –
بیا ارم اور روبینہ بیگم شاپنگ کے لیے نکلیں تھیں عظیم صاحب لنچ کے لئے گھر آئے تو واپسی پر ان تینوں کو مارکیٹ چھوڑ گئے اور اب چھ بج رہے تھے اور شاپنگ سے فری ہو کر کچھ کھانے کے لئے
کے ایف سی آئی تو بیا کو یاد آیا
اب کل لے لیے گےبیا روبینہ بیگم کی بجائے ارم نے کہا
لیکن ارم – – –
تمہاری چوڑیاں رہتی تو تم ہی جاو جا کر لے آؤ میرے پاؤں جواب دے گے ہیں بیا کی بات بیچ میں ہی کاٹ کر ارم بولی
ہاں بیا میں بھی تھک گئی ہوں خالہ نے بھی ارم کی ہاں میں ہاں ملائی ورنہ کون بیا ساتھ جا کر گھنٹہ ضائع کرے
تمہاری شاپنگ ہو گئی تمہارے پاؤں تو دُکھےگے ہی بیانے منہ بسورتے ہوئے بولی
ہاں تو تم لوگوں کو تو کوئی خیال ہی نہیں کہ میں دلہن ہوں تین گھنٹوں سے لیے پھر رہی ہو مجھے لے کے ستیا ناس کر دیا میرے 6 ہزار کا جو کل پارلر میں لگائے
روبینہ بیگم نے بیا کا منہ کُھولتا دیکھا تو بول پڑی بس بس پہلے کچھ کھا لو باقی کا گھر جا کے لڑ لینا
تو دونوں آڈر کرنے لگیں
_+_+_+_+_
زوباریہ فلیٹ میں آکر بھی اسفند کے لئے فکرمند ہوتی رہی کہ نجانے کیا ایمرجنسی ہو گئی تھی
زوباریہ کو بے اختیار وہ دن یاد آیا جب اسفند نے اُسے اپنا پرپوزل دیا تھا کیسے آنکھوں میں ستاروں سی چمک لیے آئے تھے اور اُس کے انکار بعد کیسے بجھ گئی تھی وہ آنکھیں – اور پرپوزل سے کچھ دن پہلے کیسے چِڑ نے لگے تھے زوباریہ سے اور وہ پریشان ہو گئی تھی کہ پتا نہیں اسفند سر کو کیا ہو گیا ہے کیوں اُس سے روڈلی بات کرنے لگے جب کہ وہ تو بہت پولایٹ انسان ہیں نہ صرف اُس سے بلکہ سب سے عزت سے پولایٹلی بات کرتے تھےاور اس کا عقدہ بھی چار دن بعد کھول گیا
_+_+_+_
دستک دے کر اسفند زوباریہ کے کیبن میں آیا
شروع میں زوباریہ کو بہت عجیب اور اچھا بھی لگتا تھا کہ اسفند اُسکے باس ہوتے ہوئے بھی دستک دے کر آتے اور جب وہ اُن کے آنے پر وہ کھڑی ہوتی تو وہ بھی اسفند نے منع کر دیا کے کبھی کبھی اُسے زوباریہ کے کیبن میں ایک سے زیادہ باربھی آنا ہوتا ہے تو اچھا نہیں لگتا کے وہ اُس کے آنے پر بار بار کھڑی ہو
کیا میں بیٹھ سکتا ہوں اسفند کے پوچھنے پر جی کہا
اور زوباریہ کو تھوڑا عجیب لگا کیونکہ ایک تو پچھلے کچھ دنوں سے اُن کا رویہ تھا اور دوسراوہ کبھی بھی اُس کے کیبن میں آکر بیٹھے نہیں تھے جو بات کرنی ہوتی کھڑے کھڑے کرتے اور چلے جاتے-
مس زوباریہ
جا—جی سر
زوباریہ نے چونکتے ہوئے کہا کیونکہ اسفند نے ہمیشہ اُسے مس خان کہہ کر مخاطب کیا اور آج مس زوباریہ کہہ رہے ہیں
مس زوباریہ اگر آپ مناسب سمجھیں تو کہیں باہر چل کر بات ہو سکتی
خیریت سر
آج لگتا اسفند زوباریہ کو بات بات پہ چوکا نے ہی آیا تھا
جی خیریت ہی ہے بس زرا پرسنل بات کرنی ہیں
پرسنل بات مجھ سے
جی آپ سے میں گاڑی میں آپکا انتظار کر رہا ہوں اسفند کہہ کر چلا گیا اور زوباریہ سوچنے لگی جائے یا نہ
پھر سوچا کہ دس پندرہ ماہ ہو گئے اُسے اسفند کے انڈر کام کرتے ہوئے جب آج تک کوئی غیر اخلاقی حرکت نہیں کی تو اُسے بھی بھروسہ کرنا چاہیے
زوباریہ گاڑی کے پاس آئی تو فیصلہ نہ کر پائی کے آگے بیٹھے یا پیچھے
تبی اسفند نے آ کے فرنٹ ڈور کھولا تو زوباریہ ہچکچاتے ہوئے بیٹھ گئی
شکریہ مجھ پر ٹرسٹ کرنے کےلیے ورنہ میں تو سوچ رہا تھا آپ نہیں آئے گی اسفند نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے کہا اور زوباریہ کے کچھ نہ کہنے پر گہری سانس لے کر رہ گیا
_+_+_+_
گاڑی ایک ریسٹورنٹ کے سامنے رُکی اور دونوں چلتے ہوئے ایک کونے والی ٹیبل پر بیٹھ گئے
کچھ لے گی اسفند نے آداب میزبانی نبھائےاور ویٹر کو اشارہ کر کے بُلایا – زوباریہ کے انکار پر دو کافی کا آڈر کیااور زوباریہ کو دیکھا جو ٹیبل کے بیچ میں رکھے پھولوں کو غور رہی تھی اسفند نے پھولوں کو اُٹھایا اور پاس سے گزرتے ہوئے ویٹر کے ہاتھ میں تھما دئیے
زوباریہ اسفند کی حرکت پر خاموشی سے دیکھنے کے سوا کچھ نہ کر سکی-
اسفند نے زوباریہ کی خاموشی کو محسوس کیا تو کہے بنا رہ نہ سکا- مس زوباریہ اگر آپ مجھ پر بھروسہ کرتے ہوئے یہاں آگئی ہیں تو ایسے خاموش اور بے تاثر بیٹھ کر مجھے یہ باور نہ کرائے کہ آپ میرے ساتھ آکر پچھتا رہی ہیں
ایسا کچھ نہیں ہیں سر اور جہاں تک چُپ رہنے کی بات ہے تو یہاں آ کر بات آپ کو کرنی تھیں مجھے نہیں. میں تو انتظار کر رہی کے کب آپ بات شروع کرتے ہیں –
اور میں کب آپ کو واپس چھوڑتا ہوں اسفند نے زوباریہ کی بات کو آگے بڑھایا تو وہ ایک بار پھر اسفند کو دیکھ کر رہ گئی-
مس زوباریہ ہم پچھلے ڈیڑھ سال سے ساتھ کام کر رہے ہیں اور اتنا عرصہ کافی ہیں ایک دوسرے کو جاننے کے لیے آخرکار اسفند نے کہنا شروع کیا اور زوباریہ نے شکر کیا لیکن یہ کیا سر بات کو کس طرف لے جانا چاہ رہے ہیں زوباریہ کے اندر خطرے گھنٹی بجنے لگی کیونکہ وہ اسفند کے لہجے میں شوخی محسوس کر چکی تھی
آپ جانتی ہیں مجھے بات کو گھوما پھیرا کے کرنے کی عادت نہیں سو ٹو دی پوائنٹ بات کروں گا کہ
اور زوباریہ نے آنکھیں اُٹھا کر اسفند کو دیکھا اور آنکھوں کی چمک سے ہی سمجھ گئی کے وہ کیا کہنا چاہتا اور خود کو اندر ہی اندر جواب کے لیے تیار کرنے لگی
ویٹر کافی رکھنےلگا تو اسفند چُپ ہوگیااور ویٹر کے جانے بعد بولا
کہ میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں
اُس نے نظر ے جھکا لی کیونکہ وہ اُس کی بُجھتی ہوئی آنکھوں کو نہیں دیکھنا چاہتی تھی کیوں اسکا جواب وہ خود نہ جان پائی اور اسفند کے کچھ اور کہنے سے پہلے بول پڑی لیکن میں ایسا نہیں چاہتی
اسفند نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا اور پھر بند کر لیا اور جب کچھ لمحوں بعد بولا تو صرف اتنا
ریزن جان سکتا ہوں
نہیں اُس نے بھی ایک لفظ میں جواب دے کر بات ختم کر دی
چلے آپ کو ڈراپ کر دوں اسفند نے کھڑے ہوتےہوئےبل پےکیا اور زوباریہ کو کہا جو اسفند کے کھڑے ہوتے ہی کھڑی ہو چُکی تھی-یہ دیکھے بنا کے کوئی اُسےاندر آنےسے لے کرجانےتک نہ صرف نظروں میں رکھے ہوئے ہیں بلکہ دونوں کی ساری باتیں بھی سن چکا ہے اور آفس تک پیچھا کرتے ہوئے بھی آیا ہے
_+_+_+_
زمان بینک سے آیا اور شزا کو منہ پھیرتے دیکھ کربیڈ پر گر کر لیٹ گیا وہ ہارنے لگا تھا شزا سے اور جلتی پر تیل کا کام مینیجر صاحب کی ڈانٹ نے کر دیا
زمان اور شزا میں دو دن سے بول چال بند تھی وجہ وہی شزا چاہتی تھی زمان اُسکے بھائی پاس لندن چلا جائے اور زمان جانا نہیں چاہتا تھا
شزا نے زمان کو تھک کر گرتے دیکھا تو بیڈ پر آ کے زمان کے بالوں میں انگلیاں چلا تے ہوئے بولی
زمان حال دیکھے اپنا اتنی محنت کرتے ہیں آپ اور پھر بھی مہینے کے آخر میں امی سے پیسے لینے پڑتے ہمیں. زمان زرا سوچے آپ لندن ہو گے تو امی کو دینے والے ہو گے نا کے لینے والے
اس نے سوچ کر زمان کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا
تم ٹھیک کہہ رہی ہو ایسا نہیں ہے کہ میں جانا نہیں چاہتا، میں بھی ترقی کرنا چاہتاہوں لیکن میں تم لوگوں کے بغیر نہیں رہ سکتا شزا
زمان نے شزا کا بالوں میں چلتا ہاتھ پکڑ کر کہا
میں کب کہہ رہی ہو کے آپ اکیلے جائے اور کیا میں آپ کو اتنی دور اکیلے جانے دے سکتی بولے
توپھر وہ حیران ہو کے اتنا ہی کہہ سکا
زمان آپ کمپنی کی طرف سے جائے گے آپا سارا خرچہ کمپنی کریں گی جبکہ مجھے اور ہانیہ کو یاسر بھائی بولا لے گے اور جو خرچہ ہو گا وہ آپ وہاں کما کر آہستہ آہستہ یاسر بھائی کو لُٹا دینا
زمان کو راضی ہوتا دیکھ کر شزا نے جوش سے بتایا اور زمان کو سوچتا چھوڑ کر کھانا لینے چلی گئی
_+_+_+_
بیا آ گیا تیرا پیا
بیا ارم اور اطہر کے ساتھ واک کر رہی جب اشعر کےداخلے پر اطہر بولا
جہاں بیا نےاطہر کے بازو پر مکا مارا وہی اشعر نے ارم کو گھورتے ہوئے اپنا قہقہہ دبایا
اشعر بیا کی طرف آیا اوراُس کا ہاتھ پکڑ کر چل دیا
اشعر کہاں لےجا رہے ہیں چھوڑے مجھےارم روکو انہیں. چُپ چاپ چلو بیا اشعر نے رُکے بغیر کہاارم چپ رہی اور اطہر کی زبان میں خوجلی نہ ہویہ کیسے ہوسکتا
اشعر اور بیا کے آگے آتا ہوا بولا اشعر بھائی بیا کو لے جانے کے لئے آپ کو میری لاش سے گزرنا ہوگا
اؤے سائیڈ پر ہو ورنہ واقعی انسان سے لاش میں بدل دوں گا اشعر کے اتنا کہنے پر ڈر کر آگے سے ہٹا تو بیا اور ارم کی ہنسی نکل گئی
اشعر نے باہر آ کر بیا کو گاڑی میں بیٹھایا جو وہ گیٹ سے اندر ہی نہیں لے کے گیا تھا
_+_+_+_+_
اگلے دن بھی اسفند کو انکار کرنے کے بعد زوباریہ سوچتی رہ گئی کہ اگر اسفند نے اُسے مزید تنگ کیا یا دوبارہ اس ٹاپک کو چھیڑا تو وہ جاب چھوڑ دے گی
یہ سب سوچتے وہ یہ دیکھ نا سکی کے کوئی اُس کی گاڑی کو فالو کرتا ہوا فلیٹ تک آیا اور فلیٹ نمبر نوٹ کر کے چلا گیا –
لیکن اسفند نےنہ دوبارہ کوئی ایسی بات نہیں کی زوباریہ کے فیصلے کا احترام کیا اور دوبارہ مس زوباریہ سے مس خان پہ آ گیا
بلکہ زوباریہ کو لگنے لگا تھا جیسے وہ دو دن خواب ہو کیونکہ اسفند دوبارہ سے وہی پرانا باس بن گیا جیسے کام کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...