“بات کرتے ہوئے اتنا غُصہ کیوں ہو رہے ہو تم،، لگتا ہے اپنے باپ بننے کی خبر تم تک پہنچ گئی ہے”
ویسے تو چند ماہ سے وہ اب غُصّے میں رہنے لگا تھا مگر کل سے وہ کچھ زیادہ ہی چڑچڑا ہو رہا تھا بات کرنے پر کاٹ کھانے کو دوڑ رہا تھا تبھی فیروز جتوئی موبائل پر اپنے بیٹے سے پوچھنے لگا
“بابا سائیں پلیز وہ بات کریں جس کے لئے آپ نے کال کی ہے اِن فضول باتوں کے لئے میرے پاس ٹائم نہیں ہے”
بات تو فیروز جتوئی کی سولہ آنے درست تھی کل ہی روشانے نے ایک صحت مند بچے کو جنم دیا تھا۔۔۔ یہ بات ضیغم کو کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی
وہ شہر میں کس ہسپتال میں ایڈمٹ ہے،، کس ڈاکٹر کے پاس اُس کا آنا جانا ہوتا ہے، اُس کے تمام اپوائنٹمنٹ سے لے کر اُس کے کالج جانے تک کی وہ سب خبر رکھا ہوا تھا۔۔۔ روشانے کب حویلی میں موجود ہوتی ہے،، اپنے چیک اپ اور پیپرز دینے کے لیے کب شہر آئی اُسے سب علم تھا
“تمہاری ماں تمہیں بلا رہی ہے وہ تمہیں یوں اجڑا ہوا نہیں دیکھ سکتی پہلے تو میں اِس حق میں نہیں تھا لیکن اب میں بھی یہ چاہتا ہوں کہ تم اپنی ماں کی بات مان لو پلورشہ کی نند ایک اچھی لڑکی ہے”
ضیغم کے کہنے کے مطابق فیروز جتوئی واقعی کام کی بات کرنے لگا
“یار آپ اور ماں تھکتے نہیں ہے بار بار ایک ہی ٹاپک پر بات کرکے،، خدا کا واسطہ ہے آپ دونوں کو یہ بلاوجہ کی دوسری شادی کی ضد چھوڑ دیں،، ورنہ میں حویلی آنا چھوڑ دوں گا۔۔۔ فون رکھ رہا ہوں اُس وقت آفس میں ہوں اور کافی بزی ہوں میں”
ضیغم بے زار آتا ہوا بولا اور کال کاٹ کر موبائل سامنے میز پر پٹخ دیا
“یس”
دروازے پر کھڑا سیکرٹری کمرے کے اندر ہاتھ میں فائل لے کر آیا
“اس وقت میں بزی ہوں احمر،، یہ فائل تھوڑی دیر بعد لے کر آنا اور اب میرے روم میں کسی کو بھی مت بھیجنا”
سیکٹری کے کچھ بولنے سے پہلے ہی ضیغم اُس سے بولا اور پیکٹ سے سگریٹ نکالتا ہوا اُسے لائٹر کی مدد سے جلانے لگا
“تو ایسے مذاق میں بھی مت بولیے گا۔۔۔ میں کبھی بھی برداشت نہیں کرسکتی آپ کو کسی اور کے ساتھ دیکھ کر۔۔۔ بھلے ہی زندگی میں مجھ سے کتنا ہی خفا ہو جائیں مگر یہ دوسری شادی والا ظلم مجھ پر کبھی مت کیجئے گا سائیں”
اسموکنگ کرتے وقت ضیغم کے کانوں میں روشانے کی آواز گونجی
“اور تم سوچتی ہو میں برداشت کر لوں گا کہ کوئی بھی تمہارا نام میرے دشمن کے ساتھ جوڑے۔۔۔ تمہیں ایسا موقع ہی نہیں دینا چاہیے تھا کسی کو بیوقوف لڑکی۔۔۔ شرم آنی چاہئے تمہیں اپنے سائیں کی جھوٹی قسم کھاتے ہوئے۔۔۔ بہت ہی اچھا ہوتا جو میں لے آتا تمہارے اوپر سوتن،، اگر میرا خود کا دل گوارا کرتا”
ضیغم اپنے موبائل میں موجود روشانے کی تصویر دیکھ کر اُس سے مخاطب ہوا اُس پر کتنا ہی غصہ کیوں نہ ہو۔۔۔ اُسے اپنی نظروں سے دور کرنے کے باوجود وہ موبائل سے اُس کی تصویریں مٹا نہیں سکا تھا۔۔۔ وہ روشانے پر شک مر کر بھی نہیں کر سکتا تھا۔۔۔ لیکن اُسے غُصہ روشانے کے جھوٹ بولنے پر آیا، موبائل میں اُن دونوں کی ایک ساتھ تصویر دیکھ کر آیا،، اُس کے موبائل میں موجود میسج دیکھ کر آیا۔۔۔
غُصے کے باوجود وہ شمشیر جتوئی کے کہنے پر یا کسی کے بھی بدکردار بولنے پر روشانے سے اپنا تعلق یا رشتہ ختم نہیں کر سکتا تھا۔۔۔ لیکن روشانے کو سزا دینے کے لیے اُسے اپنی نظروں سے دور کر دیا تھا۔۔۔ وہ الگ بات تھی روشانے کو خود سے دور کر کے وہ خود بھی سزا کاٹ رہا تھا۔۔۔۔ مگر وہ کل سے اپنے آپ کو بہت زیادہ بے چین اور بے بس محسوس کر رہا تھا۔۔۔ اپنی اولاد کو دیکھنے کے لئے تڑپ رہا تھا جو سزا اُس نے روشانے کو خود سے دور کر کے دی تھی وہ خود بھی مُسلسل دوری کا غذاب سہہ رہا تھا لیکن اب وہ اپنی اولاد کو نظر انداز نہیں کرسکتا تھا نہ اُس سے دور رہ سکتا تھا۔۔۔۔ اِس لیے ہسپتال جانے کا ارادہ کرنے لگا
*****
وہ ہسپتال کے پرائیویٹ کمرے میں پہنچا تو کمرہ خالی تھا مگر دائیں طرف رکھے جھولے میں موجود،، اُس ننھے سے وجود کو دیکھ کر۔۔۔ اُس کا دل بےساختہ دھڑکا،، وہ قدم اٹھاتا ہوا جھولے تک پہنچا نرم و نازک سے اپنے سوئے ہوئے بیٹے کو غور سے دیکھنے لگا۔۔ چند مہینوں میں جلا ہوا خون جیسے اس کا سیروں بڑھنے لگا۔۔۔ اُس کے نین نقش ابھی تک صحیح سے واضح نہیں ہو رہے تھے کہ وہ اپنی ماں پر گیا ہے یا اُس پر،،،
“میرا چھوٹا سائیں”
ضیغم مسکرا دل ہی دل میں بولتا ہوا،، بے حد آہستگی سے جھولے میں سے اپنے بیٹے کو گود میں اٹھانے لگا
اپنی آغوش میں بیٹے کو لینے کے بعد ضیغم کے احساسات عجیب سے ہونے لگے،، اُسے اپنے اندر ٹھنڈک سی اُترتی محسوس ہوئی،، وہ اُس کا بیٹا اُس کا خون تھا،، جو اپنے باپ کی گود میں آنے کے بعد معصوم سی مسکراہٹ سے مسکرانے لگا،،، اُس کو مسکراتا دیکھ کر ضیغم کو لگا ایک دفعہ پھر اُس کا ڈھیروں خون بڑھ چکا ہے،، وہ خود بھی نرم مسکراہٹ کے ساتھ اُس ننھے وجود کی پیشانی چومنے لگا
“آرام سے پیر رکھ کر نیچے اترو”
زرین نے واش روم کے باہر بنے ہوئے اسٹیپ کو دیکھ کر روشانے کو تلقین کی تو ضیغم زرین کی آواز پر چونکا
“تائی ماں مجھے گھر لے چلیں، اِس ہسپتال کے کمرے میں مجھے وحشت سی ہو رہی ہے”
روشانے کی آواز، جس میں بیزاری کا عنصر نمایاں تھا۔۔۔ ضیغم نظر اُٹھا کر واش روم کے دروازے کی طرف دیکھنے لگا
“تم”
زرین کی ضیغم پر نظر پڑی بے ساختہ اُس کے منہ سے نکلا
اِس سے پہلے ضیغم کچھ بولتا روشانے کی نظر ضیغم کے ہاتھوں میں اپنے بیٹے پڑی وہ زرین سے ہاتھ چھڑوا کر، ہانپتی ہوئی ضیغم کی طرف بڑھی
“ہمت کیسے ہوئی آپ کی میرے بیٹے کو چھونے کی،، اِسے فوراً چھوڑ دیں سائیں،، ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا”
ضیغم اُس کے دھلے ہوئے چہرے کو حیرت سے دیکھنے لگا جس پر پانی کی بوندیں ابھی تک موجود تھی،، ضیغم کے پاس آ کر روشانے نے جھپٹنے والے انداز میں اپنے بیٹے کو ضیغم سے لیا۔۔۔ ضیغم نے اُس کی کنڈیشن کے مدنظر آرام سے روشانے کو اپنا بیٹا دے دیا مگر اُسے جتانا نہیں بھولا
“تم سے برا کوئی اور دوسرا ہے بھی نہیں میری نظر میں کوئی نئی بات بتاؤ یہ تو مجھے پہلے سے معلوم ہے اور تم خود اتنا جان لو کہ اِس کو پیدا کرنے سے اگر تم اُس کی ماں بن گئی ہو تو اِس میں میرا خون بھی شامل ہے باپ ہوں میں اِس کا۔۔۔ اِس پر جتنا حق تمہارا ہے اتنا میرا بھی ہے”
ضیغم روشانے کو دیکھتا ہوا بولا جو اِس کے بیٹے کو اپنے سینے سے لگائے بری طرح ہانپ رہی تھی جبکہ زرین بالکل خاموش کھڑی تھی
“کس حق کی بات کر رہے ہیں آپ سائیں،، کیسے کنفرم ہوا آپ کو کہ یہ آپ کا خون ہے”
روشانے ضیغم کو دیکھ کر طنزیہ بولی تو وہ جبڑے زور سے بھینچ کر غُصے میں روشانے کو دیکھنے لگا
“اب میرے آگے کوئی الٹی بات مت کرنا روشی ورنہ تم میرے غُصے کو اچھی طرح جانتی ہو”
ضیغم انگلی اٹھا کر روشانے کو وارننگ دینے والے انداز میں بولا وہ ہرگز توقع نہیں کر رہا تھا کہ روشانے اُس سے اِس قدر بدتمیزی سے پیش آئے گی۔۔۔ ضیغم کو غُصے میں دیکھ کر زرین چلتی ہوئی روشانے کے پاس آئی
“اب اور کیا کریں گے آپ میرے ساتھ غُصّے میں آکر،، یہ تو آپ کی حویلی بھی نہیں ہے جہاں سے آپ مجھے نکل جانے کا حکم دیں”
روشانے کو نہ اب اُس کے غُصّے کی پرواہ تھی، نہ کوئی خوف،، اِس لیے نڈر پر ہوکر بولی
“روشی زبان مت چلاؤ خاموشی سے جا کر بیڈ پر لیٹو اور لاؤ اِسے مجھے دو”
اب بیچ میں زرین کو مداخلت کرنا ضروری ہو گیا تھا وہ نہیں چاہتی تھی بات مزید خراب ہو اِس لیے بچہ روشانے سے لے کر اُسے دوبارہ جھولے میں لٹانے کے بعد وہ روشانے کو سہارا دے کر بیڈ پر لٹانے لگی جبکہ ضیغم ابھی تک کھڑا ہوا اُسے گھور رہا تھا ایسا گستاخانہ روپ تو اُس نے اپنی بیوی کا دیکھا ہی نہیں تھا
“ِیہ یہاں کیوں کھڑے ہیں تائی ماں، اِن سے کہیں چلے جائیں یہاں سے”
وہ بیڈ پر لیٹی نہیں تھی پیچھے تکیہ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی تھی مگر ضیغم کو اپنی طرف گھورتا ہوا دیکھ کر چڑ کر بولی
“کافی زبان نہیں چلنے لگ گئی ہے تمہاری یا پھر اِسے پیدا کرکے ساری تمیز بھول گئی ہو،، یہی ہسپتال میں رہ کر اپنا دماغ درست کر لو، ورنہ یہاں سے گھر لے جا کر یہ کام میں خود کر دوں گا”
اب ضیغم بھی زرین کی موجودگی کی پرواہ کیے بغیر روشانے کو آنکھیں دکھاتا ہوا بولا
“کون سے گھر کی بات کر رہے ہیں سائیں،، جہاں سے آپ نے مجھے نکالا تھا۔۔۔ آپ کو لگ رہا ہے کہ میں دوبارہ وہاں پر جاؤ گی آپ کے ساتھ۔۔۔ اب میں آپکے ساتھ ہرگز نہیں جاؤ گی،، اگر کوئی خوش فہمی آپ اپنے دل میں پال کر بیٹھے ہیں تو اُسے دور کر کے یہاں سے جائیے گا”
ضیغم کے گھر لے جانے والی بات پر جہاں زرین خوش ہوئی تھی وہی روشانے کے تڑخ کر بولنے پر،، وہ روشانے کو ٹوکتی ہوئی اُسے چپ کروانے لگی مگر روشانے اپنی بات مکمل کر کے خاموش ہوئی۔۔۔۔ جبکہ ضیغم خاموش کھڑا اب اُسے فراٹے بھر کر زبان چلاتے ہوئے دیکھ رہا تھا
“ٹھیک ہے تمہارا جانا یا نہ جانا تمہاری خود کی چوائس ہے مگر میرا بیٹا تو اب میرے ساتھ ہی جائے گا یہ بات تو کنفرم ہے”
جھولے میں لیٹے ہوئے اپنے بیٹے کو دیکھ کر ضیغم جتنے آرام سے بولا روشانے حیرت اور خوفزدہ ہوکر ضیغم کو دیکھنے لگی
“اُٹھ کیوں رہی ہو روشی بیٹھی رہو”
روشانے کے بیڈ سے اٹھنے پر زرین اُس کا بازو پکڑ کر بولی
“میرا بیٹا مجھے لاکر دے دیں تائی ماں۔۔۔ خدا کے لئے میرا بیٹا مجھ کو دے دیں”
وہ اب باقاعدہ روتی ہوئی زرین کو دیکھ کر بولی اور ساتھ ہی بیڈ سے اترنے لگی
“خاموشی سے بیٹھی رہو روشی۔۔ بیڈ سے اتری تو اچھا نہیں ہو گا بند کرو یہ فضول کا رونا”
ضیغم اُس کو غُصے میں دیکھتا ہوا بولا تو زرین ضیغم کے پاس آئی
“وہ کل سے بہت کافی تکلیف اٹھا چکی ہے،، ابھی بھی اُسے کافی درد ہے۔۔ اُس لیے اپنے بچے کے لیے حساس ہو رہی ہے۔۔۔ ایسی کوئی بات نہیں کرو ورنہ اُس کی طبیعت اور خراب ہوگی۔۔۔ ہم سارے معاملات بیٹھ کر بعد میں تہہ کر لیں گے”
زرین ضیغم کو دیکھتی ہوئی بولی
“تو پھر آپ اِس کے دماغ میں بٹھا دیں کہ بلاوجہ کی ضد چھوڑ دیں میری اولاد کسی اور کے در پر پلے یہ مجھے گوارا نہیں ہے”
ضیغم زرین کو بولتا ہوا ایک نظر روتی ہوئی روشانے پر ڈال کر اپنے بیٹے کو پیار کرتا ہوا وہاں سے چلا گیا کیونکہ وہ جب تک وہاں موجود رہتا روشانے اُسے دیکھ کر ٹینشن میں رہتی
****
ژالے اس وقت شہر والے بنگلے میں موجود تھی۔۔۔۔ پہلے تو یہ بنگلہ سالوں سال بند پڑا رہتا تیمور خان کا ہی اپنے دوستوں کے ساتھ یہاں آنا ہوتا،، مگر تیمور خان کے ایکسیڈنٹ کے بعد سے اب یہ بنگلہ مستقل رہائش کے لئے استعمال ہو رہا تھا۔۔۔ کل نو ماہ گزرنے کے بعد تیمور خان کہ بے ہوش موجود میں جان پڑی تھی اُس کے ہوش میں آنے کے بعد ڈاکٹر سے مشورہ لے کر اُسے اُسی بنگلے میں شفٹ کردیا تھا ژالے اور سردار اسماعیل خان یہی اُس کے پاس موجود تھے
“کیا مسئلہ ہوگیا ہے، یہ کمرے میں اتنا شور کیوں مچا رکھا ہے”
کمرے کا دروازہ کھولتے ہی وہ عدیل سے پوچھنے لگی مگر اُس کی نظریں بیڈ پر لیٹے ہوئے تیمور خان پر تھی جو اب بھی اپنے ہاتھ پاؤں ہلانے سے قاصر تھا اور منہ سے عجیب عجیب سی آوازیں نکال کر شور برپا کر رہا تھا
“میم میں سر کا ڈریس چینج کرنا چاہ رہا ہوں مگر یہ مجھ پر غُصّہ کر رہے ہیں”
عدیل اپنے ہاتھ میں تیمور خان کے کپڑے تھامے،، کمرے میں داخل ہوتی ژالے کو دیکھ کر بتانے لگا۔۔۔ ژالے ایک بار پھر تیمور خان کو دیکھنے لگی، جو اپنے ہاتھ کو حرکت دینے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔ مگر اپنے ہاتھ کو حرکت نہیں دے پا رہا تھا، ایک بار پھر وہ ژالے کو دیکھ کر منہ سے آوازیں نکالنے لگا۔۔۔ ژالے سمجھ گئی تھی تیمور خان اُس کو بلا رہا تھا۔۔۔ کل ہی وہ ہوش و حواس کی دنیا میں آیا تھا تب سے نہ وہ اپنے ہاتھ پاؤں کو حرکت دے پارہا تھا نہ ہی اسکے منہ سے لفظ ادا ہو پا رہے تھے
“کیا ہوا، کیا یہ کپڑے پسند نہیں تمہیں؟؟ دوسرے کپڑے پہنا چاہ رہے ہو”
ژالے تیمور خان کے پاس آکر اُس سے پوچھنے لگی۔۔ تیمور خان نفی میں اپنا سر ہلاتے ہوئے ایک بار پھر اپنے ہاتھ کو حرکت دینے کی کوشش کرنے لگا
“کیا تم یہ کپڑے مجھ سے تبدیل کروانا چاہ رہے ہو”
ژالے تیمور خان کی بات سمجھتے ہوئے اُس سے بولی اور اُس کے کانپتے ہوئے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا جس سے تیمور خان کے چہرے کے تاثرات نرم پڑے
“لائیں عدیل یہ کپڑے مجھے دے دیں اور جاتے ہوئے کمرے کا دروازہ بند کردیئے گا”
وہ عدیل سے کپڑے لیتی ہوئی فولڈنگ بیڈ کو اوپر کرنے لگی تاکہ تیمور خان کو کپڑے آسانی سے تبدیل کروا سکے
“مم۔ ۔۔۔۔ ما۔۔ما”
ژالے اسے بہت احتیاط سے شرٹ تبدیل کروا رہی تھی تب وہ ژالے سے کچھ پوچھنے لگا
“وہ روشانے کے پاس حویلی میں موجود ہیں، روشانے کو بھی اِس وقت اُنکی ضرورت ہے، آنٹی صرف تمہاری ماں تو نہیں ہیں، ویسے تمہارے بارے میں اطلاع کردی گئی ہے۔۔۔ تب سے کافی بےچین ہیں آنٹی،، ڈرائیور بھیج کر اُنکو یہاں بلوالیا ہے رات تک یہاں پہنچ جائے گیں وہ”
ژالے جانتی تھی تیمور خان اُس سے اپنی ماں کے بارے میں پوچھ رہا ہے اسلیے وہ تیمور خان کو تفصیل سے بتانے لگی۔۔۔ شرٹ تبدیل ہوچکی تھی، اب ژالے کی نظریں صاف ستھرے تہہ شدہ ٹراوزر پر جمی تھیں۔۔۔ اُسکی نظروں کو دیکھتے ہوئے تیمور خان نظریں چرا گیا
“لیٹو یہ ٹراوذر چینج کروا لو”
ژالے بولتی ہوئی فولڈنگ بیڈ کو اسٹریٹ کرنے کے غرض سے مڑنے لگی۔۔۔ تب تیمور خان مُنہ سے آوازیں نکالتا ہوا نفی میں سر ہلانے لگا
“عدیل کو بلاؤ پھر”
انکار کرنے پر ژالے تیمور خان سے پوچھنے لگی جس پر وہ مزید نفی میں سر ہلانے لگا ساتھ ہی اُسکی آنکھوں سے اشک جاری ہوگئے۔ ۔۔۔ ژالے تھوڑی دیر خاموشی سے تیمور خان کو روتا ہوا دیکھنے لگی پھر اُس کی پُشت سے تکیہ نکال کر (جو تھوڑی دیر پہلے اُس نے سہارے کے غرض سے لگایا تھا) فولڈنگ بیڈ کو اسٹریٹ کرنے کے بعد اُس کا ٹراوذر تبدیل کرنے لگی۔ ۔۔ وہ جانتی تھی تیمور خان اِس وقت بےبسی کی تصویر بنا ہوا آنسو بہا رہا تھا جو کل تک دنیا کو اپنی ٹھوکر پر رکھتا تھا آج وہ خود دوسروں کو محتاج ہوچکا تھا
“تمہاری دوا کا ٹائم ہوگیا ہے مگر اِس سے پہلے ڈاکٹر کے دیے گئے چارٹ کے مطابق تمہیں ڈائیٹ لینی ہے اپنی”
میلے کپڑے باسکٹ میں رکھنے کے بعد وہ سامنے ٹیبل پر رکھئے فوڈ کمپلیمنٹ کا ڈبہ کھولنے لگی جو کہ کمرے میں ہی موجود تھا۔۔۔ ابھی تیمور خان میں،، حلق سے کچھ نگلنے کی طاقت نہیں تھی اِس لیے اُسے کل سے اوورل ڈائیٹ دی جارہی تھی۔۔۔ تیمور خان ایک بار پھر ژالے کی طرف اپنا ہاتھ بڑھانے لگا۔۔۔ مگر ناکامی کی صورت میں ایک بار پھر اُس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوئے
“تم یہ غذا عدیل کی بجائے میرے ہاتھ سے لینا چاہ رہے ہو ایسا ہی ہے ناں”
پیالے میں موجود غذا، وہ چمچے کی مدد سے تیمور خان کے منہ میں ڈالنے لگی۔۔۔ تیمور خان اپنا پیٹ بھرنے کے ساتھ ساتھ ژالے کا چہرہ غور سے دیکھ رہا تھا۔۔۔ جو وقفے وقفے سے چمچا اُس کے منہ میں ڈال کر ہر تھوڑی دیر بعد رومال سے تیمور خان کا منہ صاف کرتی اور مسکرا کر اُس کو دیکھتی
“اب بیس منٹ کے وقفے کے بعد عدیل تمہیں دوا دے گا۔۔۔ پلیز خاموشی سے کھا لینا میں تھوڑی دیر آرام کرنا چاہ رہی ہو”
خالی برتن ژالے ٹرے میں رکھتی ہوئی بولی۔۔۔ تو تیمور خان کی آنکھوں میں بےچینی اُترنے لگی
“اب کیا ہوا خان۔۔۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ میں تھوڑی دیر آرام کرو”
ژالے تیمور خان سے پوچھنے لگی۔۔۔ تیمور خان کے چہرے پر ژالے کے جانے کا سن کر بےچینی کے تاثرات نمایاں ہونے لگے۔۔۔ بے بسی کے احساس سے ایک بار پھر اُس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوئے شاید وہ نہیں چاہتا تھا کہ ژالے اُس سے دور جائے
“اچھا بار بار یوں پریشان مت ہو، اگر تم چاہتے ہو کہ میں تمہارے پاس رہو کوئی دوسرا تمہارے کام نہیں کرے۔۔۔ تو ایسا ہی ہوگا میں ہر وقت تمہارے پاس رہو گی اور تمہارے سارے کام خود اپنے ہاتھ سے کیا کروں گی ایسا ہی ہے نا”
ژالے تیمور خان کے آنسو صاف کرتی ہوئی۔۔۔۔ نرمی سے اُسی کے دل کی ساری باتیں بول رہی تھی۔۔۔ اب تیمور خان کے لبوں پر اطمینانیت بھری مسکراہٹ رینگی
“ابھی تم جیسا چاہتے ہو میں بالکل ویسا ہی کروں گی لیکن جب تم مکمل صحت یاب ہو جاؤ گے تب تم وہ کرو گے جو میں چاہوں گی”
ژالے آہستگی سے تیمور خان کا ہاتھ تھامتی ہوئی بولی۔۔۔ تو تیمور خان تجسُس سے ژالے کو دیکھنے لگا جیسے جاننا چاہ رہا ہو کہ ژالے کیا چاہتی ہے
“آزادی۔۔۔۔ تمہیں مجھے اِس رشتے سے آزادی دینی ہوگی”
ژالے نے جتنے نارمل انداز میں کہا تیمور خان کے چہرے کے تاثرات یکلخت تبدیل ہوئے۔۔۔ خوف سے تیمور خان نے اپنا ہاتھ جھٹکا تھا ایسا کرتے ہو اُسے کافی تکلیف ہوئی۔۔۔ ایک بار پھر وہ آنکھوں میں آنسو بھر کر ژالے کو دیکھنے لگا جو ٹیبل پر رکھی میڈیسن اٹھا رہی تھی تاکہ اُسے دوا دے سکے
****
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...