(Last Updated On: )
مرد ایک چاردیواری بنا کر سوچتا ہے
اس نے عورت کو گھر دے دیا
لیکن سینکڑوں ایسے گھروں میں زندہ روحیں سسکتی ہیں
ان کی آہیں فریاد۔۔۔دیواروں سے باہر نہیں جاسکتیں
ان گھروں کی عورتیں تیسری دنیا کی عورتیں ہیں
بے جامشرقی تہذیب وتمدن کی آگ میں جل کر
سمٹی سکڑی بے بس عورتیں
مرد کی حاکمیت تلے کچلی مسلی ہوئی رسوم ورواج کی پابند
تنہاں آنسوؤں کی دہلیز پر سرپٹکتی ہوئی نیم مردہ عورتیں
جو سہاگن ہوکر بھی زندہ شوہروں کی بیوہ سہاگنیں ہیں
بیوہ
ننگے فرش پر۔۔۔دُور تک پھیلی ہوئی دری پہ
ننھے بچوں کے درمیاں
وہ رات کے انجانے لمحوں میں
بہ دیرتک۔۔۔بھری بھری مضبوط بانہوں کا
سرہانہ تلاش کرتی ہے