یہ ایک بیوہ کے بیٹے کی ایسی کہانی ہے جو دو طرح اختتام پذیر ہوتی ہے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی چھوٹے سے دور افتادہ گاؤں میں ایک کھڑی چٹان کے دامن میں کوئی بیوہ رہا کرتی تھی۔ اس کا ایک ہی لڑکا تھا اورسچ پوچھو تو اس کی زندگی ہی اس لڑکے سے تھی۔ وہ اسی کی خاطر زندہ تھی اور اسی کی خاطر وہ انتھک محنت مزدوری کرتی تھی اس نے بچے کو ایک اچھے سکول میں داخل کر رکھا تھا جو گاؤں سے چار میل دُور تھا۔ اس مدرسے کا استاد کم از کم اس کند ذہن استاد سے تو بہتر تھا۔ جس سے خود اس نے تعلیم حاصل کی تھی۔ اگرچہ اسے بچے کی یہ تعلیم بہت مہنگی پڑ رہی تھی تاہم وہ اسے جاری رکھنے کے لئے شبانہ روز سینکڑوں طرح کی قربانیوں سے کام لیتی تھی۔
اس نے دل ہی میں پے کی، کو بام عروج پر پہچانے کے لیے بے شمار بلند منصوبے باند ھ رکھے تھے اور وہ دن رات اسے ڈانٹتی ڈپٹتی تھی کہ اگر اس نے لائق اور ہشیار بننے کے لیے محنت نہ کی تو پھر وہ عمر بھر یا پہاڑی کے نیچے والی پتھر کی کان میں مزدور کرے گایا سڑکوں پر دھکّے کھائے گا۔
لیکن جوں جوں وقت گذرتا گیا اور تو اور خود پے کی کو بھی معلوم ہو گیا تھا کہ سکول جاتے وقت جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہو جاتا تھا، وہ راہ سے ہٹنے کا نام نہیں لیتی تھی اور جب گھر لوٹتا تھا تو وہ راہ پر کھڑی اس کی راہ تک رہی ہوتی تھی۔ اور کون نہیں جانتا تھا کہ پے کی اس کے دل کی دھڑکنوں میں بس رہا تھا اور پے کی کی ذات اس کے لیے اس فخر و ناز کا نشاط افزا پیغام تھی۔ جسے وہ ڈانٹ ڈپٹ کے پردے میں چھپائے رہتی تھی۔
پے کی کی خاطر وہ گھنٹوں سڑک پر ادھر ادھر ٹہلتی رہتی جبکہ اس کی گائے کنارے کے کھیتوں کی گھاس پر منہ مارنے میں مصروف نظر آتی اور اس طرح اس کے اپنے کھیت کے پتھروں میں اُگی ہوئی گھاس بچ جاتی۔ اس کے کھیت میں چند ایک گو بھی کے پھول اُگتے نے۔ جب ایک بھی پھول فروخت کے قابل ہو جاتا، یہ اسے قصبے میں بیچنے کے لیے چل نکلتی اگرچہ اسے اس طرح کئی بار آنا جانا پڑتا تھا مگر وہ اس آمدورفت کو بطیبِ خاطر گو ارا سمجھتی کہ وہ یہ سب کچھ پے کی کی خاطر کر رہی تھی۔ کڑکڑاتے جاڑے میں وہ منہ اندھیرے اٹھتی اور سانپ کی چھتریوں کو جمع کر کے انہیں سبزی کے طور پر پکاتی اور یوں پے کی کی خاطر سبزی کے پیسوں کو بچا لیتی۔ غرض جس طرح بھی وہ جو پیسہ جمع کر سکتی تھی۔ کرتی تھی۔ اور اس طرح وہ اپنی محنت و مشقت سے اپنے ہمسایہ زمینداروں کے لہلہاتے کھیتوں سے زیادہ کما لیتی اس محنت و مشقت سے غریب کی کمر دوہری ہو جاتی اور جسم کا انگ انگ پھوڑے کی طرح دُکھنے لگتا۔ مگر پے کی کی خاطر یہ سب کچھ اس کے لئے کس قدر شیریں تھا۔ یہ کوئی اس کے دل سے پوچھے۔
صرف انڈوں کی فروخت سے جو پیسے مل جاتے وہ نہ صرف پے کی کی متعدد کتابیں خرید نے کے لیے کافی ہوتے بلکہ انہی سے اس کے کپڑے بھی بن جاتے!
پے کی چودہ سال کاہو گیا تھا اور اپنے سکول کے آخری درجے میں تعلیم پارہا تھا اس کے استاد کو کامل یقین تھا کہ وہ وظیفہ پا کر شہر کے معیاری کالج میں تعلیم حاصل کرے گا۔ آثار و فرائن اس کے روشن مستقبل کی گواہی دے رہے تھے اور ماں کی ڈانٹ ڈپٹ نے اس کردار کو بڑا مستحکم بنا دیا تھا۔ جب گرمیوں کی چھیٹوں میں زمین داروں کے لڑکے اپنے اونچے درجے کے کالجوں سے نیلے سوٹ اور شوخ رنگ ٹائیاں پہنے گھروں کو لوٹتے تو لوگ ان سے بڑی عزت سے پیش آتے اور اسی عزت کے ساتھ وہ پے کی سے بھی پیش آنے لگے تھے اور اس کی ماں کے سامنے اس کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملا دیتے تھے۔
جُون کے ایک دن کا ذکر ہے ہوا بوجھل بوجھل تھی اور بارش نہ ہونے سے چُوزے اور مرغیاں خشک زمین پر برہم ہوہو کر چونچیں مار رہے تھے اور پریشانی کے عالم میں سڑک کے نشیب و فراز میں بھاگے بھاگے پھر تے تھے۔ حبس کے مارے بُرا حال تھا مگر بڑھیا تھی کہ دروازے پرکھڑی پے کی کا انتظار کر رہی تھی۔ ادھر سے ایک ہمسائے کا گزر ہوا۔ بوڑھا آدمی تھا۔ بات کرنے کے بہانے ٹھہر گیا اور اس نے ٹوپی اتار کر منہ کورو مال سے صاف کیا اور مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’پے کی کا انتظار کر رہی ہو بہن! آج تو غضب کی گرمی ہے اور پے کی کے لیے اپنی پرانی سائیکل کو چلانا عذاب سے کم نہیں ہو گا۔ اگر میری پوچھو تو میں اس قیامت کی گرمی میں ان چار میلوں کو سائیکل پر طے کرنے کا کبھی نام بھی نہ لوں!‘‘
’’پے کی کو تم جانتے نہیں ہو بھائی! وہ اس سے تین گنا فاصلہ خوشی طے کر ڈالے اگر اسے یقین ہو کہ سڑک کے اس پار اسے کوئی نہ کوئی کتاب اس کی پسند کی مل جائے گی!‘‘ بڑھیا نے بڑے فخر سے کہا۔
وقت بہت دھیرے دھیرے گزر رہا تھا اور بڑھیا کی نظریں سورج پر جمی ہوئی تھیں۔ چند ثانیوں کی خاموشی کے بعد بڑھیا کہنے لگی۔ ’’میرے خیال میں تو گرمی، بارش سے کہیں اچھی ہے۔‘‘
ہمسائے نے دیوار کے پتھروں میں اگنے والی گھاس کے لمبے تنکے کو اکھاڑا اوراس کا ایک سرا منہ میں چباتے ہوئے اپنے خیال میں گم سا ہو کر کہنے لگا۔ ’’ مگر گرمی سخت ضرر رساں بھی نو ثابت ہو سکتی ہے آج ایسے دن میں لو لگنے کا اندیشہ کچھ اچنبھے کی بات نہیں ہو گی‘‘ پھر سورج کو دیکھ کر بولا ’’گرمی تو قہر خداوندی ہے۔ ادھر لو لگی اور ادھر آدمی گر کر پتھر ہوا۔ جی ہاں! لُو چشم زون میں موت سے ہمکنار کر دیتی ہے۔‘‘
بڑھیا دروازے پر کھڑے کھڑے اور بھی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر بیٹے کے وجود کو تلاش کرنے لگی۔ وہ پہاڑی کے اوپر سے شہر کو جانے والی راہ کو تکے جاتی تھی۔
’’بہرحال، جب وہ پہاڑی سے نیچے اترے گا تو ہوا کے بے شمار ٹھنڈے جھونکے اس کے منہ سے لپٹ لپٹ بائیں گے۔‘‘
اس نے پہاڑی کی چوٹی پر نظر ڈالی اور بولا۔ ’’یہ بات درست کہی تم نے سال کے گرم کریں دن کو بھی اگر تم سائیکل پر سوار ہو کر پہاڑی کی بلندی سے نشیب کی طرف آؤ گی تو ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا تمہارے ہم رکاب ہو گی یوں تمہارے گالوں سے چھُو کر گزرے گی کہ ریشمی کپڑے کا لمس معلوم ہو اور اگر جناب! سردی کا موسم ہوا تو ہَوا، ہَوا نہیں دو چاقو ہوں گے جو تلوار کی طرح تمہارے دونوں پہلوؤں کو کاٹ رہے ہوں گے اور کھال یُوں ادھڑ رہی ہو گی۔ جیسے کوئی شاخِ بنات کی چھال کو چھیل رہا ہو۔‘‘ وہ بڑی سوچ بچار سے کہہ رہا تھا۔ ’’میرے خیال میں یہ پہاڑی آئر لینڈ کی بے حد اہم چٹانوں میں سے ہو گی۔ اور حقیقت میں یہ ہے وہ پہاڑی جو فی الواقعی پہاڑی کہلانے کی مستحق ہے۔‘‘ اس نے گھاس کا تنکا منہ سے نکال لیا اور بیوہ کو بڑی متانت سے تکتے ہوئے کہنے لگا۔ ’’مجھے یقین کامل ہے کہ سرکاری نقشے میں اس کا کوئی نہ کوئی نام بھی ضرور موجود ہو گا۔‘‘
’’اگر یہ بات ہے تو پے کی کی تمہیں اس کے متعلق ساری تفصیل بتا دے گا کیونکہ اگر کتاب نہ لے تو وہ اسے ہی لیے لیے پھرتا ہے۔‘‘
’’بھئی واہ! یہ تو خوب رہی، اور ہاں میں تمہیں بتا دوں کہ نقشہ کوئی مذاق نہیں ہے۔ بڑی عظیم چیز ہے یہ، اور اس کا سمجھنا ہر ایک کے بس کا روگ نہیں۔‘‘
بیوہ نے سنُی ان سُنی کر دی۔
’’دیکھنے میں پے کی نظر آتا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہی وہ پھاٹک کھول کر سڑک پر آ گئی سامنے پہاڑی کی چوٹی پر سائیکل کے پہیئے کی تاریں چمکتی دکھائی دیں اور کوندے کی لپک کی طرح اس کی نیلی جرسی کی جھلک نظر آئی۔ پے کی نشیب کی طرف اڑتا چلا آ رہا تھا۔ اس نے ہینڈل مضبوطی سے تھام رکھا تھا اس کے چمکیلے بال ہوا میں لہرار ہے تھے۔ وہ بے حد عمودی چٹان سے اس قدر تیز رفتاری کے ساتھ آ رہا تھا کہ پہاڑی کے دامن میں بوڑھے اور بڑھیا کو یوں دکھائی دیا کہ جیسے خود نہیں بلکہ اس کے گرد و پیش کے درخت، کنارے کی گھاس عمیق کھائیاں اور جھاڑیاں بھاگی چلی آ رہی ہیں۔ مرغیوں اور چوزوں نے شورِ محشر بپا کر دیا اور وہ اپنے بچاؤ کی خاطر سڑک سے دوڑ دوڑ کر کھائیوں میں آ گئے۔ انہوں نے عورتوں کا سا واویلا مچا مچا کر سڑک کے دونوں طرف بھاگ دوڑ شروع کر رکھی تھی۔ پیکی نے ماں کو ہاتھ کے اشارے سے خوش آمدید کہی وہ قریب سے قریب تر آ رہا تھا۔ اس کے چہرے کے تل تک دکھائی دے رہے تھے۔
جو مرغیاں ابھی تک راستے پر کٹ کٹ کٹاک کے ساتھ ڈٹی ہوئی تھیں۔ ان کو ہٹانے کے لیے پے کی نے چلا کر آواز نکالی۔ ’’شو‘‘ اوروہ اپنی تنی ہوئی گردنوں کو آگے بڑھا بڑھا کر دوڑ اٹھیں۔
پے کی کی ماں نے بھی ’شو‘ کی آواز نکالی اور مرغیوں کوڈرانے اور راہ سے ہٹانے کے لیے اپنے ایپرن کے دامن کو ہوا میں پھٹپھٹانا شروع کر دیا۔
حادثے کے وقوعہ کے کہیں بعد جا کر بڑھیاک و خیال آیا کہ شاید وہ خود ہی اس المیہ کی ذمہ دار ہے۔ اسے یاد آ گیا تھا کہ اس نے اپنے ایپرن کو اس زور سے پھٹپھٹایا تھا کٹکٹاتی ہوئی مرغی بری طرح بدک کر ایک ہی اڑان میں باغ کی دیوارسے ہوتی ہوئی سڑک کے بیچوں بیچ آ رہی تھی۔
دفعتاً بڑی مرغی سبزے سے ڈھکی ہوئی کھائی پر آ دھمکی اور متو حش نظروں سے مرغیوں اور چوزوں کو دیکھنے لگی جو دائیں بائیں بھاگ دوڑ رہے تھے۔ اس نے اپنے بال و پر یوں پھلا کر کھڑے کر دیئے جیسے وہ اس کے جسم کا حصہ نہیں تھے۔ اس نے گردن آگے بڑھائی اور بے حد خوف اور گھبراہٹ سے تناور کرخت آواز نکالتے ہوئے پھریری جو لی تو سیدھی تپتی ہوئی دھُول والی سڑک کے عین درمیان میں آ گئی۔
پے کی نے سخت زور سے بریکیں دبائیں اور وہیں جم کر رہ گیا۔ علم اضطراب میں بیوہ نے چیخ ماری۔ پروں کا ایک جھکڑ سا اُٹھ کھڑا ہُوا اور لہو کی دھار پھوٹ نکلی۔ سائیکل ڈگمگا کر گر پڑی اور پے کی کی ہینڈل پر سے ہو کر زمین پر آ رہا۔
ہر چند بیوہ نے چیخ ماری تھی اور بوڑھے نے امداد طلب نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھا تھا مگر حادثہ اتنی سادہ نوعیت کا تھا کہ انہیں پے کی کے شدید طور پر مجروح ہونے کا گمان تک نہ ہوا۔ جب وہ دوڑ کر اس کے پاس پہنچے اور اس کا سر گود میں رکھ کر دیکھنے لگے تو پتہ چلاکہ معاملہ کس قدر سنگین ہے وہ بول تک نہ سکتا تھا۔ انہوں نے اس کے چہرے سے لہو پونچھا اور مایوسی کے عالم میں اس فاصلے کو جانچنے لگے جو اسے اٹھائے ہوئے انہیں طے کرنا تھا۔ اگرچہ بڑھیا کا مکان چند ہی گزوں کے فاصلے پر تھا مگر اس کی دہلیز الانگنے سے پیشتر ہی پے کی دم توڑ چکا تھا!
دروازے کے باہر لوگ اکٹھے ہو گئے تھے۔ بڑھیا چلّا چلّا کر ان سے کہنے لگی۔ ’’ارے لوگو! خدا کے لیے کچھ کر و! ابھی بگڑا ہی کیا ہے۔ یونہی اسے ذرا نقاہت سی ہو گئی ہے۔‘‘ ایک نوجوان مزدور کو دروازے سے دھکیلتے ہوئے کہنے لگی۔ ’’بھاگیو، دوڑیو، جلدی سے ڈاکٹر کو بلا لائیو کہ وہ اسے ہوش میں لے آئے گا۔‘‘
لاش چار پائی پر سیدھا لٹا دی گئی تھی اور اس کے چہرے کا گرد و غبار، زندگی کی پریشانی کی آخری یادگار بن کر رہ گیا تھا۔ ہمایوں کے کانوں میں موت کی خبر پہنچنے کی دیر تھی کہ وہ چاروں جانب سے تیزی کے ساتھ آنے شروع ہو گئے۔
ہر ایک یکے بعد دیگرے لاش کو دیکھتے ہی سینے پر صلیب کا نشان بناتے ہوئے احتراماً گھٹنوں کے بل جھک جاتا اور آنکھوں کے سامنے دل زدگی کی تصویر سی کھنچ جاتی۔ جب ان کی حرکات و سکنات سے بیوہ کو یقین ہو گیا کہ پے کی کی واقعی اللہ کو پیارا ہو گیا ہے تو اس نے ہاتھ اٹھا اٹھا کرآہ و بکا سے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ عورتوں کے لیے اسے قابو میں رکھنا سخت مشکل ہو گیا۔ وہ بار بار اٹھ کر دوڑنا چاہتی تھی تاکہ ڈربے میں جا کر ایک ایک مرغی کی گردن مروڑ ڈالے۔ وہ بین کر کر کہتی ’’ہائے میرے لال! میں دنیا جہاں کی مرغیوں کو تیرے سر پر سے صدقے کر دوں۔ میں ایک کو بھی زندہ نہ چھوڑوں گی۔ اب مجھے ان سے کام ہی کیا ہے۔ ہائے لوگو! میں لٹ گئی! کیا کل عالم کی مرغیوں کی قیمت انسانی خون کے ایک قطرے سے سوا تھی۔ اور اس بڈھی کھوسٹ مرغی کی قیمت ہو گی بھی کتنی؟ یہی کوئی چھ شلنگ! اور لوگو! میرے لال زندگی کی قیمت چھ شلنگ تھی کیا؟ ہائے رے میں مر گئی۔ میرے لال! میں لٹ گئی!‘‘
تھوڑے دیر کے بعد اس نے فریاد بند کر دی اور ایک ایک کا منہ تکنے لگی۔ ’’ہوتا کیا جو اس کی سائیکل اس مرغی پر چڑھ دوڑتی؟ ہائے! ہائے! اس نے کیوں چھ شلنگ کی مرغی کو بچانے کی کوشش کی؟ ہائے میرے لال! کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ تو اپنی میّا کے لیے اس کھوسٹ مرغی سے ہزار گنا قیمتی تھا جے آج نہیں تو کل ذبح ہونا ہی تھا! ہائے تو نے کیا کر ڈالا میرے لال؟ ہائے میں نصیبوں جلی تجھے کہاں سے لاؤں۔ جب تو دنیا کی اس ذلیل تریں پہاڑی سے اتر رہا تھا۔ تو تو نے بریکوں کو کیوں اس زور سے دبایا کہ وہ تیری ہی موت کا پیغام بن گئیں؟ ارے مر گئی میں! ہائے تجھے کہاں سے لاؤں میرے لال!‘‘
تعزیت کرنے والے اس کے بازوں کو تھپکتے اور ازراہ تسلّی کہتے ’’بس بس اللہ تجھے صبر دے بی بی! صبر سے کام لو۔ خدا کو یہی منظور تھا، اب صبر کرو صبر۔ وہ بار بار یہی کہتے تھے کہ اس کے سوا انہیں اور کوئی کلمۂ تسلی سوجھتا ہی نہیں تھا۔
سالہا سال گزرنے پربھی بڑھیا کے لبوں پر ایک ہی سوال رہا جسے کہتے وہ تھکتی نہیں تھی۔ شام کے وقت جب کوئی ملاقاتی ایک آدھ گھنٹہ کے لئے اس کے پاس آ جاتا تو وہ جیسے از خود اس ایک سوال کو دہرانے پر مجبور سی ہو جاتی۔ ’’میرے لال نے کیوں مرغی کی زندگی کو اپنی زندگی سے عزیز تر سمجھا؟ کیوں؟ ہائے میرے لال تو نے مجھے زندہ ہی مار ڈالا۔ ہائے میں مر گئی!‘‘ اور سالہا سال گزرنے پر بھی ملنے والوں کے لبوں پر ایک ہی جواب رہا ’’بس بس! اللہ تجھے صبر دے بی بی صبر سے کام لو، خدا کو یہی منظور تھا۔ اب صبر کرو صبر۔‘‘
پھر دونوں چپ چاپ بیٹھے ہوئے آگ کو گھورتے رہتے!
لیکن چند ہمسائے ایسے بھی ضرور ہوں گے جنہیں رہ رہ کر خیال آتا ہو گا کہ اگر پے کی ذرا دل کڑا کر کے اپنی سائیکل کے پہیے تلے اس جان لیوا مرغی کو کچل ڈالتا تو پھر کیا ہوتا؟ اور یقیناً وہ آگ کو گھورتے ہوئے اپنے تصور کے زور سے حادثے کے وقوع کا نقشہ یوں کھینچ سکتے ہیں کہ تفصیلات کے تھوڑے سے تغیر و تبدل کے بعد کہانی ایک اور ہی انجام سے ہمکنار کر دیں۔ یہ لوگ پے کی کو بھی اچھی طرح جانتے بوجھتے تھے اور اس کی ماں کو بھی اور جب آپ لوگوں کو اچھی طرح جانتے بوجھتے ہوں تو آپ کی نظر میں ان کے ذہن کی پیچیدگیاں بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اور آپ محض یہی نہیں کہ اس حادثے کہ جزئیات کو پیش کرنے کی قدرت رکھتے ہوں جو انہیں ایک خاص قسم کے حالات کے ماتحت پیش آئی تھیں بلکہ ان کے اس قول و فعل کا بھی بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں جو کسی اور نوع کے حادثے کے گزرنے پر ان سے سر زد ہو سکتا ہے اور حقیقت یہ کہ اختراع سے کام لین ابات کو من و عن درستی کے ساتھ یاد رکھنے سے آسان ہوتا ہے اور اگر یوں نہ ہو تو تخلیقی آرٹ کی دو شاخیں بے ثمر ہو کر رہ جاتیں۔ (۱) افسانہ گوئی اور (۲) خوش گپئی۔
اگر پے کی کھوسٹ مرغی کو کچل ڈالتا تو پھر کیا ہوتا؟ اس موضوع کے متعلق میں جو تاثر ات کروں تو توقع ہے کہ آپ مجھے متہم قرار نہ دیں گے کہ میں نے مصنفہ ہونے کی رعایت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے کہ بہر کیف یہ بھی تو اسی افسانے کا ایک ٹکڑا ہے جسے میں پہلے عرض کر چکی ہوں اور اگر پہلے بھی آپ نے نوازش فرمائی تھی تو اب بھی مجھے امید ہے کہ اسی کرم فرمائی کے لیے بار گراں ثابت نہ ہوں گی اور آپ دیکھیں گے کہ اپنی جزئیات کے لحاظ سے یہ نیا افسانہ، پہلے افسانے سے جو آپ پڑھ چکے ہیں۔ زیادہ مختلف نہیں ہے اور تو اور پیرایۂ آغاز تک وہی ہے یعنی۔
بیوہ کی گائے سڑک کنارے گھاس چرنے میں مصروف ہے اور وہ خود کاندھے پر گوبھی کی بھاری بوری اٹھائے اٹھائے چار میل لمبی راہ کو طے کر کے قصبے میں پہنچتی ہے اور اس طرح جو چند پیسے اسے مل جاتے ہیں انہیں پے کی کی تعلیم پر خرچ کرتی ہے۔ صبح اگر سکول سے لیٹ ہونے کا ذرا سا شبہ بھی ہوتا ہے تو ایک ہنگامہ بپا کر دیتی ہے اور شام کو بار الماری پر رکھی ہوئی فرسووہ گھڑی کو دیکھتی ہے کہ کب وہ وقت ہو جب پے کی پہاڑی کی چوٹی پر گھرکو لوٹتا نظر آئے۔
پھر جون کے گرم دن کو ایک محنت کشا بوڑھا سڑک پر دکھائی دیتا ہے اور بڑھیا کو دروازے پر کھڑا دیکھ کر دو باتیں کرنے کے لئے رُک جاتا ہے۔ کچھ کہنے سے پہلے دیوار کے پتھروں میں اُگی ہوئی گھاس کے تنکے کو اکھاڑ کر منہ میں چبانا شروع کر دیتا ہے اور جب بات کرنے کو منہ کھولتا ہے تو وہی الفاظ سنائی دیتے ہیں۔ ’’پے کی کا انتظار کر رہی ہو!‘‘ اور ٹوپی اتار کر رومال سے پیشانی کے پسینے کو پونچھ ڈالتا ہے۔ یہ تو آپ کو یاد ہو گا ناکہ یہ آدمی ضعیف العمر تھا اور گرمی کی حدّت کو کچھ زیادہ ہی محسوس کرتے ہوئے کہتا ہے۔ ’’غضب کی گرمی ہے بہن!‘‘
بیوہ نے پہاڑی کی طرف بیتابانہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا ’’گرمی نے تو قیامت ڈھا رکھی ہے بھائی! اور خصوصاً جب ادھر سورج کی شعاعیں ہینڈل پر ہزاروں کرنیں پیدا کر کے آنکھوں کے لیے عذاب بن رہی ہوں اور اُدھر راہ کی دھول اٹھ اٹھ کر گلے کو پکڑ رہی ہو تو اس عالم میں چار میل سائیکل کی سواری کچھ معنیٰ رکھتی ہے۔‘‘
’’اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ گرمی اچھی ہے یا بارش، تو میں وہیں کہہ اٹھوں گا گرمی!‘‘
’’تم نے ٹھیک کہا۔ کئی بار تو بارش کا پانی پے کی کے کپڑوں میں یوں جذب ہو جاتا تھا کہ جب وہ گھر پہنچ کر انہیں اتارتا تو وہ لکڑی کے تختے کی طرح اکڑے ہوتے تھے اور دیوار کے ساتھ لگے یوں لٹک رہے ہوتے تھے کہ دنیا دیکھے تو کہے۔ پے کی انہیں پہنے کھڑا ہے۔
’’واقعی؟ پھر تو اسے خوب شاباش ملتی ہو گی ان دنوں حق بات تو یہ ہے کہ اس سا کوئی ہی ہو گا مائی کا لال؟ بھولا بھالا اور پیارا سا بچہ!‘‘
’’بڑھیا نے متنفر آمیز لہجے میں کہا ’’پے کی کی بات کر رہے ہو؟ تو سن لو کہ اس کی پیدائش کے روز سے آج تک ایک بار بھی میں نے عمداً اسے شاباش نہیں دی۔ میں نے شروع سے عزم کر رکھا تھا کہ میں پے کی کو یوں پروان چڑھاؤں گی کہ نرم دلی اور رقیق القلبی جیسی بیماریاں اسے چھونے نہ پائیں۔‘‘
بیوہ نے پہاڑی کی جانب نگاہ کی اور پھاٹک سے باہر آ کر کنکریاں اڑانا شروع کر دیں۔ اس کے انہماک کا یہ عالم تھا گویا سڑک پر اسے اور کوئی کام نہیں تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے پھر چوٹی کی طرف دیکھا۔‘‘ وہ رہا پے کی۔‘‘ اور یہ کہتے ہی جیلی سے گرد و غبار کا وہ طوفان اٹھا دیا کہ پے کی کی نیلی جرسی کی جھلک اور سائیکل کے پیوں کی تاروں کی چمک بمشکل دکھائی دے رہی تھی۔ پے کی بے پناہ رفتار کے ساتھ نشیب کی طرف آ رہا تھا اور جوں جوں قریب آ رہا تھا رفتار اور بھی تیز ہو رہی تھی۔ وہ ماں کو ہوا میں ہاتھ لہرا لہرا کر خوش آمدید کہہ رہا تھا اور مرغیوں کو راہ سے ہٹانے کی خاطر ان پر زور زور سے آوازے کس رہا تھا۔
مرغیاں بے حد خوفزدہ تھیں اور گردنیں بڑھا بڑھا کر کھائیوں کی طرف دوڑی جاتی تھیں اور جب آخری مرغی نے زور کی کٹ کٹاک کے ساتھ کھائی کی راہ لی تو چند ثانیوں کے لیے پہیّوں کی چکراتی گھومتی، چمکتی تاروں کے سامنے راستہ صاف ہو گیا۔
اور پھر سان نہ گمان گویا غیب سے کڑکڑاتی اور پھڑپھڑاتی مرغی طرفۃ العین میں دیوار پر آ نازل ہوئی اور دوسرے ہی لمحے زمین پر بسنے والے پرندوں کی سی بھدی پرواز کے ساتھ فضا میں اٹھ گئی۔ پے کی نے سیٹی بند کر دی۔ بیوہ نے ایک سخت چیخ ماری۔ پے کی چلا اٹھا اور بیوہ نے اپنے ایپرن کے دامن کو ہوا میں پھٹپھٹانا شروع کر دیا۔ پھر پے کی کی سائیکل ڈگمگائی اور بریک لگنے پر پہیّوں نے دھول کے بادل فضا میں لہرا دیئے۔
معاملہ ایک منٹ کے اندر اندر وقوع پذیر ہو کر یوں برق رفتاری سے ختم ہو گیا کہ دماغ کو اس کی نوعیت کے متعلق سوچنے سمجھنے کی مہلت تک نہ مل سکی۔ پے کی نے پاؤں کو زمین پر ٹکایا اور اسے زمین کے ساتھ گھسیٹتے گھسیٹتے سائیکل کے پہیوں کے زور کو مدھم کیا اور پھر اسے یکدم روکنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس نے سائیکل کو ہاتھوں کی گرفت سے فوراً آزاد کر دیا۔ وہ دھڑام سے سڑک پر آ رہی اور وہ خود پیچھے کو بھاگ اٹھا۔ بیوہ کی آنکھیں نظارے کی تاب نہ لا سکیں اور اس نے ذہنی فرار کے لئے ایپرن کو سر پر ڈال لیا۔
’’اس نے جیتی جاگتی مرغی کو مار ڈالا ہے۔ فنا کر دیا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ایپرن کو سر سے ہٹایا، اور آپ دوڑ کر پہاڑی پر چڑھنے لگی۔ بوڑھے نے گھاس کے تنکے کو منہ سے تھوک ڈالا جسے وہ ابھی تک چبا رہا تھا اور اس کے پیچھے دوڑ پڑا۔
’’اسے مار ڈالا ہے اسے تو نے؟‘‘ یہ کہتے ہوئے جب وہ جائے وقوع پر پہنچی اور بکھرے ہوئے پروں اور خون کے چھینٹوں پر اس کی نظر جو پڑی تو مارے غصے کے جھلّا اٹھی۔ اس نے ہاتھ کو سر سے بلند کر کے مٹھی کو اس زور سے بھینچا کہ ہاتھ کے جوڑ تک سفید پڑ گئے پے کی ڈر کے مارے مرغی کی لاش پر جھک گیا اور یوں کُبڑا ہو گیا جیسے وہ اپنے آپ کو کسی کاری ضرب سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔ اس کی ٹانگیں خون کے دھبوں سے داغدار تھیں اور مردہ مرغی کے سفید اور بھورے پر اس کے ہاتھوں اور کپڑوں سے چپکے ہوئے تھے اور ساری سڑک پر پھیلے پڑے تھے بہت سے پیٹ کے نرم اور سفید پرَ ابھی تک ہوا کے جھکّڑ میں چکر کھا رہے تھے۔
’’میرے بس کی بات نہیں تھی ماں! میں سچ کہتا ہوں کہ یہ مجھے اس وقت نظر آئی جب اس کا کام تمام ہو چکا تھا۔‘‘
بڑھیا نے مرغی کو سینے کی ہڈی سے پکڑا اور اس کی لٹکتی ہوئی گردن سمیت اسے ہر پہلو سے بغور دیکھنا شروع کر دیا۔ پھر دفعتاً ٹانگ سے پکڑ کر اپنے سر سے بلند کیا اور خون میں لت پت مرغی کو تابڑ توڑ لڑکے کی پیٹھ پر مارنے لگ پڑی۔ لہو کے اڑتے چھینٹوں نے اس کے چہرے، ہاتھ، کپڑے اور سڑک کی سفید رنگ مٹی کو لالہ زار کر دیا۔
وہ مارتی جاتی تھی اور ہانپ ہانپ کر کہہ رہی تھی ’’میرے سامنے تمہیں جھوٹ بکنے کی جرأت کیسے ہوئی؟ تمہیں مرغی نظر آئی تھی اور مجھے یقین ہے کہ تمہیں نظر آئی تھی۔ اور جب تم نے اسے دیکھا تو موقع محل سے اس قدر بو کھلا گئے کہ سیٹی بند کر دی اور چلّا اٹھے۔ ہم تجھے بھی بغور دیکھ رہے تھے اور وقوعہ پر بھی ہماری کڑی نظر تھی۔‘‘ اور بوڑھے کی طرف مڑ کر تقاضا طلب لہجے میں کہنے لگی۔ ’’کیوں میں صحیح بات ہی کہہ رہی ہوں ناکہ اس نے مرغی کو بالضرور دیکھا تھا۔ دیکھا تھا نا؟‘‘
’’بات تو کچھ ایسی نظر آئی تھی۔‘‘ بوڑھے کی نظر مرغی پر تھی جو بڑھیا کے ہاتھ میں لٹک رہی تھی اور کہنے کے انداز میں تیقن نام کو نہ تھا۔
’’ٹھیک نکلی نا میری بات!‘‘ اس نے مرغی کو سڑک پر دے مارا جس طرح اب مرغی تمہیں نظر آ رہی ہے، جب بھی نظر آئی تھی مگر وہ تو کہو گھر پہنچ کر پیٹ کے دوزخ کو بھر نے کی تمہیں اس قدر پڑی تھی کہ تم نے اسے بچانے کی پرواہ تک نہ کی۔ تھی نا یہی بات؟‘‘
’’تمہیں غلط فہمی ہو رہی ہے ماں! حقیقت یہ ہے کہ میں نے دیکھا اسے ضرور تھا مگر اس وقت جب بات میرے بس کی نہیں رہی تھی۔‘‘
شور و غل سن کر لوگ اکٹھے ہو گئے تھے۔ بڑھیا نے ان پر فاتحانہ نظر ڈالی اور سر ہلا ہلا کر بولی ’’دیکھا تم نے، اب اعتراف کر رہا ہے کہ مرغی کو دیکھا تھا اس نے۔‘‘
’’اور میں نے انکار کب کیا تھا اس بات کا ماں؟‘‘ اس کے طرزِ تخاطب میں اپیل کا رنگ جھلک رہا تھا اور وہ لوگوں کو یوں دیکھ رہا تھا جیسے وہ اس معاملے کے جج مقرر ہوئے ہیں۔
بیوہ نے چلّا کر کہا ’’سنا آپ لوگوں نے؟ کس ڈھٹائی سے کہہ رہا ہے کہ اس نے اس بات کا انکار ہی کب کیا تھا۔ یعنی دوسرے لفظوں میں دنیا جہاں کے سامنے اسے اعتراف ہے کہ اس نے مرغی کو اپنے چہرے کی ناک کی طرح واضح اور صاف دیکھا تھا اوراس لئے دیکھا تھا کہ حضور بصد شانِ استغناء اسے پہیّے تلے کچل ڈالیں۔‘‘
’’اور تمہی بتاؤ ماں! مجھ سے ہو بھی کیا سکتا تھا اس وقت!‘‘ اس نے بے چارگی کے عالم میں بازو ڈھیلے چھوڑ دیئے۔ وہ کبھی لوگوں کو دیکھتا تھا اور کبھی ماں کو، ملتجیانہ نگاہوں سے۔‘‘ تمہیں معلوم ہی ہے کہ میں کس قدر تیز رفتاری کے ساتھ نشیب کی طرف رواں تھا اگر ایسے میں میں بریکیں لگا دیتا تو یقیناً ہینڈل پر سے لڑھک کر سیدھا سر کے بل سڑک پر آ رہتا!‘‘
’’تواس سے تمہارا کیا بگڑ جاتا بھلا؟ یاد ہے جب‘‘ اس کے بعد خمبی میک سے کُشتی لڑتے تھے تو کیا حالت ہوتی تھی تمہا ری کہنیوں اور گھٹنوں کی ان گنت خراشوں سے لہولہان! ۔ اور حضرت کا چہرہ سوج کر چولھے جیسا ہو جاتا تھا اور اس کے باوجود کیا مجال جو ایک حرف شکایت بھی زبان پر آیا ہو۔‘‘ پھر لوگوں کی طرف مڑ کر کہتی ’’ اگر خدا کو حاضر ناظر جانتے ہو تو یہ باتیں بھی سچ سمجھنا۔ اور کئی بار تو یوں وہ کہ گھر میں آ رہا ہے اور ناک سے خون کی تلیںں بہہ رہی ہیں۔ ایک آنکھ اس زور سے بند پڑی ہے اور مردے کی آنکھ بھی کیا بند ہو گی۔ پولٹس باندھ باندھ کر اور پٹیاں نچوڑ نچوڑ کر سو مشکلوں سے چہرے مہرے کی حالت سدھرتی اور اس مشقت سے مجھ بڑھیا کے ہاتھ سات سات دن اینٹھے رہتے!‘‘ اب جو گھوم کر مڑی تو پے کی سے مخاطب تھی ’’جب درختوں پر چڑھتے ہو تو کبھی گرنے سے خوف کھایا تم نے؟ اور یہ جو بلّیوں کے پیچھے لپک کر چھت پر جا دھمکتے ہو تو ڈرے بھی کبھی گرنے سے؟ ارے، اب میں سمجھی تمہارا کیا مطلب تھا اس حرکت سے! تم نے عمداً اس مرغی کو موت کے گھاٹ اتارا کیوں اتارا ہے اسے موت کے گھاٹ؟ لو میں بتاؤں تمہیں! تم پڑھنے سے اُکتا گئے تھے۔ اور اب کالج جانے سے بھی گھبرا رہے تھے۔ اس لئے تم نے سوچا کہ اگر ان چند مرغیوں کو ختم کر دوں تو پڑھائی کے خرچ اخراجات کے لئے نقد کا یہ جو ایک ذریعہ بنا ہوا ہے ختم ہو جائے گا۔ پھرنہ ہو گا بانس اور نہ بنے گی بانسری۔ کیوں جناب یہی تھی نا بات؟‘‘
پے کی کے چہرے کا رنگ سرخ ہو گیا۔ ’’اے ماں، اگرسکول میں داخلہ کے لینے فوراً بعد میَں اس قسم کے ہتھکنڈوں سے کام لیتا تو کوئی بات بھی تھی۔ اب جبکہ میَں خاصا پڑھ لکھ چکا ہوں اور بفضلِ خدا کالج میں جانے کی تیاریوں میں مصروف ہوں۔ اب بھلا ایسی مہمل کارستانیوں سے فائدہ! میں جو گولی کی طرح اڑا چلا آ رہا تھا۔ تو معلوم ہے کیوں؟ اس لئے کہ میَں تمہیں یہ بتانے کے لیے بے تاب تھا کہ مجھے وظیفہ مل گیا ہے میں ہوسٹل سے نکلا ہی تھی کہ استاد نے مجھے وظیفے کی خوشخبری سنائی اور میَں مارے خوشی کے تم تک چشم زدن میں پہنچنا چاہتا تھا۔ تو یہ تھی بات جو میَں زور زور سے پیڈل گھما رہا۔ سیٹی بجا رہا اور ہاتھ لہرا رہا تھا اور جب پہاڑی کی چوٹی سے میَں نے تمہیں دیکھا تو میں نے پوری قوت سے فضا میں اپنا بازو لہرا دیا، تم نے یقیناً دیکھ تو لیا ہو گا بازو کو فضا میں لہراتے!‘‘
یہ سننا تھا کہ بڑھیا کے ہاتھوں میں سکت نہ رہی اور وہ اس کے دونوں پہلوؤں میں لٹک سے گئے! جو الفاظ اس کے منہ میں تھے وہ منہ ہی میں رہ گئے۔ اس پر شکست خوردگی اور سکتے کی کیفیت طاری تھی۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ وہ کہے تو کیا کہے۔ اس کا دل جیسے کہہ رہا تھا۔ ’’دیکھ! تجھے ہمسائے کس طرح آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر تک رہے ہیں!‘‘ وہ چاہ رہی تھی کہ لوگ دفع دفان ہو جائیں تو وہ ان کی عدم موجودگی میں اپنے بیٹے کی گردن میں باہیں ڈال دے۔ اسے کھینچ کر اپنی آغوش میں لے آئے اوراسے ننھے بچے کی طرح سینے سے لگا لے! لیکن اسے یہ بھی معلوم تھا کہ لوگ سر ہلا ہلا کر ایک دوسرے کو معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے۔ دبی دبی ہنسی سے اس کی اس حرکت کا مذاق اڑائیں گے۔ وہ لاکھ برخوردار اور لائق فائق سہی مگر ان لوگوں کے سامنے اس بات کا اظہار تو ان کی دِلی مراد بر لانے کے مترادف ہو گا۔ اور اگر وہ اپنے ان جذبات کو جو اس وقت اس کے سینے میں کروٹیں لے رہے تھے، برملا ظاہر کر دے تو وہ یہی سمجھیں گے کہ ماں بیٹے کے وظیفہ پانے کے لئے بے قرار تھی، اور اسی مقصد کی خاطر گِن گِن کر دن کاٹ رہی تھی! وہ ان سے تمنا پوری کرنے سے رہی! بیوہ نے ٹھان لی تھی کہ اس سے کبھی کوئی حرکت سرزد نہ ہونے پائے گی۔ جس سے لوگوں کو بغلیں بجانے کا موقع ملے۔
پے کی اس کے سامنے کھڑا تھا۔ مردہ مرغی کے خون کے چھینٹوں اور منتسر پروں نے اس کے جسم کو پوری طرح ملوث کر رکھا تھا۔ بیوہ کو بچے کی یہ ہیئت کذائی ایک آنکھ نہ بھائی۔ وہ اسے مغموم و ملول دیکھ کر خود بھی محزون و مایوس سی ہو گئی۔ مگر یہ خیال اسے کھائے جا رہا تھا کہ آخر کیوں اس نے آج ہی کے عظیم دن میں مرغی کچل کر اپنی کامیابی کی خوشخبری کی مسرت تباہ و برباد کر ڈالی ہے! اس کا ذہن پریشان خیالی میں مبتلا تھا۔ پے کی کے چہرے پر خون کے دھبے نمایاں تھے انہیں دیکھتے ہوئے وہ دل میں کہنے لگی۔ ’’آج ہی اس کے مستقبل کا شاندار آغاز تھا ور آج ہی لہو نے اپنا منحوس سایہ اس پر ڈال دیا۔ مایوسی، خوف، کبیدگی اور سرکشی سے اس کی حالت چیخنے چلانے والے جانوروں کی طرح ہو گئی تھی۔ ا س نے اپنی نظر کو پے کی کے چہرے سے ہٹا کر لوگوں پر مرتکز کر دیا ’’وظیفہ، وظیفہ!‘‘ وہ زہر خند انداز میں چلائی اس کی آواز اور لب و لہجے میں طعن و تضحیک کے نشتر پوشیدہ تھے، ’’وظیفہ کیا لے آئے، سرخاب کے پر لگ گئے تمہیں یہی سمجھتے ہو گے کہ اب تم کسی کے محتاج نہیں رہے۔ بڑے آدمی بن گئے ہو اور آزادانہ جو جی چاہے کر سکتے ہو اور یہ جو بڑھیا ماں ہے تمہاری۔ ارے وہی جس نے انڈے اور سبزیاں بیچ بیچ کر خون پسینہ ایک کر کے پائی پائی جوڑ جوڑ کر تمہاری خدمت کی ہے، اسے نظر تحقیر دیکھتے ہو گے، کیوں نہیں صاحب! وظیفہ خوار جو ہو گئے ہو تم! تمہاری بلا سے، مرغیاں جئیں یا مریں، اگر یہی بھوت سوار ہے تمہارے سر پر تو سن لو کان کھول کر میری بات! مانا وظیفے کی رقم سے تم کتابیں بھی خرید لو گے اور فیسیں بھی ادا کر دو گے مگر کپڑے کہاں سے لاؤ گے تم؟ دیکھا! یہ تھی وہ چیز جو تم نے نظر انداز کر رکھی تھی اور بندی نے یاد دلا دی! کیوں غلط تو نہیں کہہ رہی ہوں کچھ؟‘‘ وہ کولھوں پر ہاتھ ٹیک کر مٹک رہی تھی اور پے کی سر نہوڑائے کھڑا تھا، اسے اب آس پاس کے ہونق لوگوں کی استمداد کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ البتہ اسے اپنی مختصر سی زندگی میں اتنا پتہ ضرور چل گیا تھا کہ مار پیٹ سے تو خود کو بچایا جا سکتا ہے مگر شرم و ندامت کی مار سے کوئی بھی نہیں بچا سکتا۔
بڑھیا کا دل آتش غم میں پہلے ہی جل رہا تھا۔ بچے کے چہرے پر شرمندگی کے آثار دیکھ کر کباب ہو گیا۔ مگر مزاج کی شعلہ افشانی کا یہ عالم تھا کہ اگر وہ اپنے التہاب میں خود ہی نہ جل بُجھتی تو اس پر قابو پانا نا ممکن ہو گیا تھا۔ وہ گرج کر کہنے لگی’’ کون لے کے دے گا۔ تمہیں سوٹ اور بوٹ؟‘‘ یہ کہہ کر ذرا سی دیر کے لیے چپ ہو گئی اور اس توقف میں اس نے اور کلیجہ چھلنی کر دینے والے تحقیر آمیز الزامات تراشنے کی بابت سوچنا شروع کر دیا۔ ’’اور کون لے کر دے گا تمہیں برحبس؟‘‘ وہ پھر خاموش ہو گئی۔ اس کے دانت کٹکٹا رہے تھے۔ وہ دل میں سوچ رہی تھی کہ ’’مزید کون سابہتان تلوار کی کاٹ کی طرح اس کے دل کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔ اور کس ندامت کے بوجھ تلے یہ پِس کر رہ جائے گا؟‘‘
’’ارے ہاں، کون لے کر دے گا تمہیں شب خوابی کا لباس یا ننگے ہی سو رہو گے ان سب کے بغیر؟‘‘ اس پر ہمسایوں کے قہقہے بلند ہوئے اوراس کے ذہنی تشنج کو آسودگی سی مل گئی بڑھیا خود بھی ہنس پڑی اور ہنسی کے مارے اس کے پیٹ میں بل پڑ پڑ گئے۔ ایسے میں اسے یوں محسوس ہوا جیسے ہر ایک چیز نے ایک نیا اور سادہ مفہوم اختیار کر لیا ہے اور معاملے کی چند منٹ پے شتر بھیانک شکل اب کچھ ایسی بھیانک نہیں رہی ہے۔ وہ چاہتی تھی کہ پے کی بھی ان قہقہوں میں شریک ہو جائے لیکن جب اس نے اسے گم سم دیکھا تو ایک عجیب طرح کے خوف نے اس کے دل کو افسردہ و منجمد کر ڈالا۔
’’چلو گھر میں چلو۔‘‘ وہ اسے اپنے آگے آگے دھکیل رہی تھی۔ وہ خون کے ان دھبوں سے نظریں بچانا چاہتی تھی۔ خون جو سڑک پر جم گیا تھا۔ وہ گھور گھور کر تکنے والے مجمع کی نگاہوں سے پے کی کو چھپا لینا چاہتی تھی اسے اس ہجوم سے سخت نفرت ہو گئی تھی۔ کیونکہ اسے یقین تھا کہ اگر یہ گروہ وہاں موجود نہ ہوتا تو صورت حال قطعی مختلف ہوتی! وہ چاہتی تھی کہ پے کی کا پسندیدہ بھرتہ آلوؤں کا کیک بنا کر اسے کھلائے کیونکہ اس کا خیال تھا کہ یوں بچے کے دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا۔
لیکن جب ماں نے دستر خوان پر کھانا چنا تو اس نے ماں کے بے حد اصرار و سماجت کے باوجود صرف دو تین لقمے زہر مار کر کے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ اس کے بعد پے کی نے مَل مَل کر نہانا شروع کیا لیکن انتہا کی رگڑا رگڑی کے باوجود خون کے دھبے جسم کے بعض حصوں پر باقی رہ گئے۔ کانوں کے پیچھے، انگلیوں کے ناخنوں کے نیچے، اور کلائی کے قریب۔
’’اب بیٹے! بڑھیا کپڑے پہنیو!‘‘ بیوہ نے کہا اگرچہ وہ بہت خلیق و حلیم بننے کی کوشش کر رہی تھی مگر اس کے لب و لہجہ میں درشتی اور الجھاؤ آ چکا تھا۔ اس کی عنایتیں بھی تلخ و ناگوار معلوم تھیں۔ بچہ کرسی پر منہ بسورے بیٹھا تھا۔ اور اس کی سرد مہری بڑھیا کے لئے از حد پریشان کن تھی۔ کیونکہ اس سے اس کے دل میں برہمی و محبت کی ایک اور آویزش شروع ہو گئی تھی۔ اسے پے کی کی بے رخی اور برافروختگی قطعاً نا پسند تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ بیٹا ماں سے اتنا ہی کہہ دو کہ ’’ماں، میں باہر آؤں گا۔‘‘ مگر جب کبھی وہ کھلے دروازے کی طرف نظریں اٹھاتا تو اسے بے چینی سی محسوس ہوتی اس لیے کہ وہ پے کی کو محفوظ رکھنا چاہتی تھی۔ اپنی چھت تلے، اندرون در، اپنین ظروں کے سامنے!
جب دوسرے روز وہ پے کی کے کمرے میں اسے سکول جانے کے لیے جگانے آئی تو کمرہ سونا پڑا تھا۔ بستر کی سلوٹیں کہہ رہی تھیں کہ پچھلی رات اس پر کوئی نہیں سویا۔ وہ بھاگی بھاگی صحن میں آئی اور ہر کہیں نام لے لے کر آوازیں دینے لگی۔ مگر جواب ندارد! اوپر، تلے ہر جگہ دوڑی بھاگی لیکن اس کا نام نشان نہ پایا۔ ہمسایوں کے گھروں میں ڈھونڈا مگر بے سود جب وہ ایک گھر سے نکل کر دوسرے گھر میں داخل ہوتی تھی تو اسے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی اس کے پیچھے دبی دبی ہنسی سے اس کا مذاق اڑا رہا ہے۔ اس کا وجود نہ گاؤں میں تھا نہ شہر میں! اس کے سکول کے استاد نے تو یہاں تک کہہ دیا۔‘‘ بہتر ہو گا جو تم پولیس کو اس کے حلیئے سے آگاہ کر دو! اس جیسا حساس بچہ میں نے شاید ہی کبھی دیکھا ہو بعض دفعہ اس کے دماغ میں ایسے ایسے خیال در آتے تھے کہ الٰہی توبہ!‘‘
اس رات اس کا اتا پتا لگانے میں پولیس کی انتہائی کوششیں رائیگان گئیں لیکن چند روز بعد بڑھیا کے نام خط آیا جس میں اس کی خیر عافیت لکھی تھی۔ اسی خط میں اس نے لکھا تھا۔‘‘ مہربانی کر کے ماسڑ جی سے میرا سلام کہئے اور کہئے کہ میں اب سکول کو لوٹنے کا ارادہ ترک کر چکا ہوں اور اگر وہ چاہیں تو میرا وظیفہ شوق سے کسی اور لڑکے کو دے دیں۔ اور ماں! میں جب بھی پیسے کمانے کے قابل ہوا تو سب سے پہلا کام یہ کروں گا کہ تمہیں تمہاری مرغی کی قیمت بھیج دوں گا!‘‘
کئی ہفتے گزرنے پر ایک اور خط آیا، ’’ماں! مجھے ٹرالر پر کام مل گیا ہے اور امید ہے کہ تنخواہ کی ہفتہ داری بچت سے کچھ نہ کچھ رقم جمع ہو جائے گی۔ اور جب میں بندر گاہ میں آؤں گا تو پس اندوختہ تمہیں بھیج دوں گا۔ اگرچہ میں خط کتابت کے تسلسل کو قائم نہ رکھ سکوں گا۔ مگر میری کوشش یہی ہو گی کہ تمہارے تمام احسانات کا بدلہ چکا دوں۔‘‘ اس خط میں اس کا پتہ تحریر نہیں تھا۔ اور روپیہ بھیجنے کا وعدہ نبھانے پر بھی اس نے اپنا پتہ چھپائے رکھا۔ وقتاً فوقتاً جو خط بھیجتا تھا۔ اس سے یہ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کہاں ہے۔
پھر راتوں کو جب لوگ بڑھیا کے پاس آتے تھے اور آگ کے پاس بیٹھے ہوئے اس کے شکایت آمیز فقرے کو سنتے تھے۔ جسے وہ بار بار دہراتی تھی کہ، ’’آخر اس نے اپنی زندگی کی قیمت مرغی کی قیمت سے کم تر کیوں سمجھی؟‘‘ اگر ان لمحوں میں ان کا رخش خیال کہیں کا کہیں پہنچ جائے تو اس میں تعجب کی کون سی بات ہو گئی، ممکن ہے کہ ان کا تخیل، کہانی کے جس دوسرے رخ کو پیش کرتا ہو، اس میں حقیقت کی جھلک زیادہ برملا اور موثر ہو۔ کیونکہ ہمارے تمام افعال و اعمال کے تانے بانے کے دوہی پہلو تو ہوتے ہیں۔ اور کیا یہ غلط ہے ہم نہایت ہشیاری اور کمال خلوص نیت کے ساتھ ان راہوں کے طے کرتے ہیں جو ہمارا مقدر ہو چکی ہیں۔ اگر ایسا کرتے ہوئے ہم کسی المیہ سے دوچار ہو جائیں تو بہر کیف وہ حزینہ امیں المیہ سے تو بہتر ہی رہے گا جو ہماری وجہ سے ہوا۔ کیا یہ غلط ہے؟۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...