’’فیضان! کیا ہوا……؟‘‘ جب تک زریاب نے دروازہ توڑا، کتے نے فیضان کو ادھ موا کر دیا تھا۔ زریاب اور عائشہ بیگم اندر آۓ تو عائشہ بیگم چیخ مارکر زریاب سے لپٹ گئی اور دھاڑیں مار مارکر رونے لگی۔
فیضان کے جسم کا گوشت جگہ جگہ سے نوچ لیا گیا تھا کسی نے اسکا چہرہ مسخ کر دیا تھا نقوش چیر کے رکھ دیئے تھے
زریاب حواس باختہ بھائی کا سانس چیک کرنے لگا کہ وہ زندہ بھی ہے… کہ نہیں ۔ دوسرے لوگوں نے کمرے کی تلاشی لی کمرے میں حجاب اور فیضان کے علاوہ کسی اور شخص کی موجودگی کی کوئی نشانی نہیں تھی۔
بڑی کھڑکی کا شیشہ جو چکنا چور ہو گیا تھا اب صحیح حالت میں تھا
زریاب نے اپنے کزنز کی مدد سے فیضان کو گاڑی میں ڈالا
“یہ تو کسی درندے کا کام لگتا کسی جانور نے ۔ سے بھائی کا پورا جسم زخمی کر دیا ہے ۔‘‘
زریاب کا دل بھائی کے زخموں پر روتا رہا۔ ایک عورت حجاب کے قریب آئی ۔
“ارے کوئی دلہن کو تو دیکھے، کیسے بے ہوش پڑی ہے، جاؤ اسکی بہنوں کو بلاؤ انہیں خبر نہیں ہوئی کہ یہاں کیا قیامت گزرگئی۔”
عائشہ بیگم کسی پتھر کی مورتی کی طرح کھڑی حجاب کی طرف حقارت بھری نظروں سے دیکھنے لگی۔
’’کیا ہوا ہے اس کے جسم پر تو خراش تک نہیں آئی…”
عورت نے حجاب پر پانی پھینکا تو وہ ہوش میں آ گئی۔
ثانیہ اور تحریم کمرے میں آئیں تو حجاب ثانیہ سے لپٹ گئی ۔ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب امنڈ آیا۔
ثانیہ نے حجاب کو اپنے کندھوں سے دور کر کے اسے شانوں سے پکڑتے ہوئے پوچھا۔ حجاب! میر سب کیسے ہوا….؟
حجاب کا نپتی ہوئی آواز میں ہچکیاں لیتے ہوۓ بولی ۔
’’ایک خونخوار کتا کھڑکی کا شیشہ توڑ کے اندر آیا اور فیضان پر جھپٹ پڑا۔ میں نے بس اتناہی دیکھا اس کے بعد کیا ہوا مجھے کچھ پتہ نہیں۔”
عائشہ بیگم کسی جوالا مکھی کی طرح پھٹی ۔
”کون سا شیشہ، سامنے کھڑکی کا، وہ تو جوں کا توں ہے وہ تو کہیں سے نہیں ٹوٹا ، ساری کھڑکیاں اور دروازے اندر سے بند تھے۔ بند کمرے میں کسی درندے نے میرے بیٹے کو چیر پھاڑ کردی اور تم کہتی ہو کہ تمہیں کچھ نہیں پتہ۔ یا تو تم کوئی جادوگرنی ہو یا بدکر دارعورت جس نے کسی کو اندر بلا کے میرے بیٹے کا ایسا حال کروایا اور پھر اسے بھگا کے کنڈی لگادی۔”
“آنٹی آپ” ثانیہ کچھ کہنے لگی تھی کہ عائشہ بیگم نے اسے روک کر کہا
“مجھے کچھ نہیں سننا شرافت سے اپنی بہن کو اپنی مں کے پاس چھوڑ آؤ ورنہ میں اس نئی نویلی دلہن کو پولیس کے حوالے کر دوں گی۔ باہر گاڑی کھڑی ہے ڈرائیور سے کہہ دو وہ تمہیں چھوڑ آئے گا۔ میں اس منحوس کی صورت اس گھر میں دیکھنا نہیں چاہتی‘‘
حجاب رو رہی تھی اس حالت میں کون اسکی بات کا یقین کرتا کہ فیضان اسکی جان لینا چاہتا تھا تحریم دلہن کے روپ میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے یہ سب دیکھ رہی تھی عائشہ بیگم نے تحریم کی طرف دیکھا
“تم اپنے کمرے میں جاؤ۔‘‘
تحریم کچھ بولے بغیر اپنے کمرے میں چلی گئی۔حجاب واش روم گئی ۔ اس نے دلہن کا لباس اتار کر سادے کپڑے پہن لیے ۔ دلہن کا جوڑا اور زیورات اس نے عائشہ بیگم کے سامنے رکھ دیئے اور ثانیہ سے بولی۔
“چلو ثانیہ”
’’اپنی کوئی چیز نہیں لے کر جاؤ گی۔۔” عائشہ بیگم نے لمبا سانس کھینچا۔
حجاب نے اپنی بھیگتی آنکھوں سے عائشہ بیگم کی طرف دیکھا جو اسے اس وقت بہت اونچائی پر نظر آ رہی تھی ۔ وہ کا نپتے ہونٹوں سے بولی۔
“میں یہاں سے بس اپنی بدنصیبی ہی لے کر جارہی ہوں۔‘‘ عائشہ بیگم نے سر جھٹک کر دوسری طرف کر لیا۔
ثانیہ حجاب کو لے کر گاڑی میں بیٹھ گی۔ گاڑی میں بیٹھنے تک عورتیں طعنوں کے پتھر حجاب پر برساتی رہیں۔ حجاب اپنی گھائل روح کے ساتھ کوٹھی سے نکل گئی ۔
ادھر صباحت ہر بات سے بے خبر مہمانوں کے بستر لگانے میں مصروف تھی اسے بیٹیوں کے جدا ہونے کا غم بھی تھا مگر خوشی اس بات کی تھی کہ دونوں بیٹیوں کی رخصتی عزت کے ساتھ ہو گئی اور سسرال بھی اچھا ملا۔
وہ خوشی اور غم کی کیفیت میں اپنی سوچوں میں مگن تھی کہ باہر گاڑی رکی
صباحت کا بھانجا دوڑتا ہوا صباحت کے پاس آیا۔
“خالہ حجاب آپی اور ثانیہ آئی ہیں حجاب آپی تو بہت رو رہی ہیں”
”یااللہ خیر “
ثانیہ اور حجاب گھر کی چوکھٹ پر پہنچیں تو خاندان کی عورتوں نے انہیں گھیر لیا سولوں کی بوچھاڑ سے حجاب مزید گھبرا گئی۔
صباحت عورتوں کو پیچھے کرتے ہوۓ بیٹی کے قریب آئی اور اسے اپنی بانہوں کے حصار میں لیتی ہوئی اندر لے گئی اور اس کے کمرے میں لے جا کر اسے بیڈ پر بٹھایا۔
صباحت نے ثانیہ کی طرف دیکھا۔
’’حجاب کے لیے پانی لاؤ اور جو باہر خاندان کی عورتیں انہیں سمجھا دینا کہ اندر نہ آئیں، حجاب نے آرام کرنا چاہتی ہے”
تھوڑی دیر کے بعد ثانیہ پانی کا گلاس لے کر حجاب کے پاس آئی ۔
حجاب نے پانی پیا تو اس کے خشک لب تر ہوۓ اور وہ بات کرنے کے قابل ہوئی ۔ صباحت نے حجاب کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
“کیا ہوا میری پچی….“ حجاب ان کے سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ ماں کا آنچل حجاب کے آنسوؤں سے بھیگ گیا۔
تایا کہ اس
حجاب نے اپنے آنسؤں سے اتنا تو سمجھا دیا کہ اسکا گھر نہیں بس سکا
صباحت نے ثانیہ کی طرف دیکھا
“میرا دل ڈوبا جا رہا ہے آخر تم ہی بتاؤ کچھ کیا بات ہوئی ہے”
ثانیہ نے ساری بات صباحت کو بتائی پھر تیکھی نظروں اے حجاب کو دیکھا
”میں صرف اتنا جانتی ہوں باقی سچائی آپ اپنی بیٹی ۔ سے پوچھیں”
صباحت کا سر چکرانے لگا اسکے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی
’’اتنا کچھ ہو گیا، یا اللہ اتنی تھوڑی دیر میں یہ کیا قیامت ٹوٹ پڑی۔
ثانیہ نے ماں کو پانی پلایا۔ “اماں ہم کیا کریں”
صباحت نے حجاب کو ہاتھوں سے تھاما
’’ حجاب! تو کہتی ہے ایک خونخوار کتے نے فیضان کے جسم کی چیر پھاڑ کر کے رکھ دی اور پھر جس شیشے کوتو ڑ کر وہ درندہ صفت جانور اندر آیا تھا۔ وہ شیشہ اپنی اصلی حالت میں واپس آ گیا اس درندہ صفت جانور کی فیضان کے کمرے سے کوئی نشانی بھی نہیں ملی‘‘
’’اماں، فیضان کے جسم پر تو اس خونخوار پنجوں کے نشان ہیں نا‘‘ حجاب چلائی اور پھر وہ ماں کو پوری بات بتانے لگی کہ کس طرح فیضان نے اپنی بیوی کو اور لڑکی کو موت کے گھاٹ اتارا۔
’’اماں، فیضان نے مجھے بہت اذیتیں دیں، یہ دیکھیں میرا چہرہ جو جگہ جگہ سے جھلسا ہوا ہے ۔ میرے منہ پر تکیہ رکھ کر مجھے موت کی نیند سلا رہا تھا میں خود کو بچانے کے لئے تڑپ رہی تھی ۔آخر جسم نڈھال ہونا شروع ہو گیا اس سے پہلے کہ زندگی کا دامن میرے ہاتھ سے چھوٹتا ایک خونخوار کتا کھڑکی کا شیشہ توڑ کر کمرے میں داخل ہوا اور فیضان پر جھپٹ پڑا اس کے بعد کیا ہوا مجھے کچھ ہوش نہیں ۔‘‘
ثانیہ سکتے کی سی کیفیت میں حجاب کی ساری بات سن رہی تھی ۔ ” تم نے یہ سب آنٹی عائشہ کو کیوں نہیں بتایا۔‘‘ ثانیہ نے تعجب بھرے لہجے میں کہا۔
حجاب نے کا نپتی ہوئی آواز میں کہا۔
’’وہ حالات تھے کہ کوئی میری بات سنتا؟‘‘
ثانیہ نے آگے بڑھ کر حجاب کو بستر پر لٹا دیا اوراس کے اوپر چادر دے دی۔
”تم آرام کر لو اب میں باہر جا کر مہمانوں کوسنبھالتی ہوں‘‘ صباحت ،حجاب کا سر دابنے لگی۔
صباحت کو ثانیہ کی بلند آواز میں میں بات کرنے کی آواز آئی جیسے وہ کسی سے جھگڑ رہی ہو صباحت حجاب کو کمرے میں چھوڑ کر باہر آئی تو ثانیہ خاندان کی عورتوں کے سوالوں سے تنگ گستاخانہ انداز میں بول رہی تھی صباحت نے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
”یہ کیا طریقہ ہے بڑوں سے بات کرنے کا ‘‘
“ایک تو ہم پہلے ہی اس قدر پریشان ہیں اوپر سے ان لوگوں کے سوالات…..”
صباحت ثانیہ کو کھبنچ کر کمرے میں لے گئی ۔ حجاب اٹھ کر بیٹھ گئی۔
” کیا بات ہے ثانیہ۔‘‘ ثانیہ نے بغیر سوچے سمجھے لفظوں کے تیر چلا دیئے۔
“باہر کوئی بھی تمہاری من گھڑت کہانی پر یقین نہیں کر رہا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ تم اس شادی سے خوش نہیں تھی۔ شادی سے انکار کر دیا ہوتا مگر یوں دو خاندانوں کو بر باد مت کر تی‘‘
حجاب کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ “تم بھی ثانیہ.” ثانیہ نے سردمہری سے سر کو جھٹکا۔
“گھر سے باہر ہاسٹل میں رہنے والی لڑکیوں کے بارے میں کون کیا جانے…”
صباحت نے ثانیہ کے منہ پر تھپڑ رسید کیا۔
“بکواس بند کرو تم اپنی بہن کے کردار پر شک کر رہی ہو….” ثانیہ کچھ جواب دیئے بغیر کمرے سے باہر چلی گئی۔
صباحت جیسے کھڑے کھڑے زمیں پر گرگئی۔ “یا اللہ اور کتنے دکھ ہیں ہمارے نصیب میں۔ اب تو ان بوڑھی آنکھوں کے آنسو بھی سوکھ گئے ہیں۔” اس نے چار پائی کی پائینتی سے اپنا سر پٹخ دیا۔
”بڑھایا کچھ نہیں کہتا میرے رب! اولاد کے غم اسے روگ بنا دیتے ہیں۔‘‘
حجاب نے سوچا جو اپنے خاندان کے لئے خوشیاں سمیٹنے نکلی تھی آج ان کے لئے غم کا باعث کیسے بن گئی۔ سب سے بہتر تو یہ تھا کہ میں فیضان کے ہاتھوں قتل ہو جاتی ۔آج جو داغ میرے دامن میں لگ گیا وہ تو نہ لگتا
تحریم کا فون آیا تو صباحت سے اس کی بات ہوئی۔ صباحت کافی دیر تک دل کا بوجھ ہلکا کرتی رہی پھر اس نے تحریم سے حجاب سے ملنے کی بات کی تو حجاب نے ماں سے فون لے لیا۔
“تحریم ! تمہاری بہن بہت اکیلی رہ گئی ہے۔ بالکل ٹوٹ پھوٹ گئی ہے اپنی اس غمزدہ بہن سے ملنے نہیں آؤ گی”
کچھ دیرتحریم خاموش رہی پھر وہ جس لہجے میں بولی وہ حجاب کے لیے غیر متوقع تھا۔ ”تم نے مجھے اپنے سسرال میں جتنا رسوا کرنا تھا کر لیا، اب اگر چاہتی ہو میرا گھر بسار ہے تو مجھے اپنی صورت مت دکھانا۔ اماں سے میں کسی نہ کسی طریقے سے مل لیا کروں گی مگر تم سے میرا اب کوئی تعلق نہیں ہے۔”
ریسیور حجاب کے ہاتھ سے چھوٹ گیا صباحت نے تحریم کی بات سن لی تھی اس نے حجاب سے کچھ کہے بغیر ریسیور فون پر رکھ دیا
مغرب کے بعد صباحت خاموش سے جاکر اپنے بستر پرلیٹ گئی۔ گھر کے مہیب سناٹے میں عجیب سا سکوت چھایا تھا غموں کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی ماں بیٹی کو صحن کی لائٹس آن کرنے کا بھی ہوش نہ رہا۔ حجاب کپڑے سمیٹے صحن میں آئی تو اندھیرا دیکھ کرا سے ماں کی فکر ہوئی ۔
’’اماں تو ہمیشہ مغرب کے وقت لائٹس آن کرتی ہیں یا مجھے کہہ دیتی ہیں، اماں نے مجھے بھی نہیں کہا۔‘‘
اس نے صحن کی لائٹ جلائی اور صباحت کے کمرے میں آ گئی۔ صباحت نے حجاب کو کمرے میں آتے ۔ ہوۓ دیکھا تو خشک ہونٹوں کوسکیٹرتے ہوئے بمشکل بولی
“پانی”
حجاب نے فورا جگ میں سے پانیگلاس میں ڈالا… فورا ماں کی طرف بڑھی۔
صباحت اس قدر نڈھال تھی کہ خود سے اٹھ نہ سکی اس نے اسے سہارا دے کر بٹھایا اور اسے پانی پلایا۔ صباحت کا جسم سرد پڑ رہا تھا آنکھیں بوجھل ہورہی تھیں ۔ حجاب نے جلدی سے ڈاکٹر کوفون کیا۔ تھوڑی ہی دیر میں ڈاکٹر آگیا
ڈاکٹر نے صباحت کا معائنہ کیا اور پھرفوری انجکشن دیا اس کے ساتھ نرس بھی تھی جس صباحت کو ڈرپ لگا دی تھی
حجاب بہت پریشان تھی ۔
“آخر اماں کو کیا ہوا ہے۔۔۔‘‘حجاب نے ڈاکٹر سے پوچھا۔ ڈاکٹر نے حجاب کو کمرے سے باہر آنے کا اشارہ کیا۔ حجاب، ڈاکٹر کے ساتھ کمرے سے باہر چلی گئی۔ ڈاکٹر نے انتہائی تحمل سے کہا۔
’’اب آپ کی والدہ خطرے سے باہر ہیں آپ کی امی کا بلڈ پر یشر اس قدر LOW ہو گیا تھا کہ انہیں فوری ٹریٹمنٹ نہ ملتی تو ان کی جان کو خطرہ تھا۔ اس ڈرپ کے بعد ان کا بلڈ پر یشر ٹھیک ہو جاۓ گا۔ یہ پہلے جیسی بھی ہو جائیں گی مگر آپ نے دھیان کرنا ہے کہ انہیں کسی قسم کا شاک نہ لگے اور ان کو دوائیں بروقت کھلائیں۔ باقی خدا خیر کرے گا، میں چلتا ہوں ۔”
نرس نے حجاب کو ڈرپ بند کر نے کے بارے میں سمجھایا اور پھر وہ بھی چلی گئی ۔
رات بھر حجاب ماں کے سرہانے بیٹھی رہی۔ صبح ہوئی تو صباحت کی طبیعت قدرے بہترتھی ۔
حجاب نے اپنے لیے اور ماں کے لئے ناشتہ بنایا اور ماں کے پاس ٹرے لے کر بیٹھ گئی مگر تذبذب سی کیفیت میں کسی سوچ میں بھی ہوئی تھی ۔
’’اماں، ناشتہ کر لیں ..” حجاب نے ٹرے صباحت کی طرف بڑھائی۔
’’حجاب میرا موبائل اٹھادو ‘‘ صباحت نے پریشان لہجے میں کہا۔
“آپ نے اتنی صبح کس سے بات کرنی ہے پہلے ناشتہ کرلیں۔‘‘
“میرا ناشتے کا موڈ نہیں تم بس میرا موبائل لا دو”
حجاب نے صباحت کو موبائل دیا۔
صباحت نے موبائل سے نمبر ملایا۔
وہ کسی خاتون سے بات کر رہی تھیں ۔
”ہیلورفعت کیا حال ہے، بچے کیسے ہیں ، خاوند کیسا ہے”
رفعت نے آگے سے گلے شکوے شروع کر دیئے صباحت نے ندامت بھرے لہجے میں جواب دیا
”میں تمہیں کیا بتاؤں کہ میں کس قدر مصروف تھی ۔ایک ماہ پہلے تم نے بتایا تھا کہ تم نے اپنا پرانا گھر چھوڑ کر نیا گھر لیا ہے ۔ دل تو بہت چاہتا ہے تمہارا نیا گھر دیکھوں مگر فرصت نہیں مل سکی۔”
رفعت صباحت کی کافی پرانی سہیلی تھی انتہائی خلوص سے بولی۔ ’’ تو اب آ جاؤ فیصل آباد کون سا دور ہے ۔مروت ہو تو انسان فاصلے بھی نہیں دیکھتا ‘‘
صباحت بہت جلد ہی اصل موضوع کی طرف آ گئی ۔ ’’پرانا گھر کرائے پر چڑھ گیا ہے۔‘‘
نہیں ابھی تک تو خالی پڑا ہے ۔‘‘رفعت نے کہا۔
”میں ابھی تمہیں پوری تفصیل نہیں بتاسکتی مگر اتناسمجھ لو کہ تمہاری سہیلی کو آج تمہاری ضرورت آن پڑی ہے۔”
’’ہاں صباحت بتاؤ کیا پریشانی ہے مجھ سے جو کچھ بھی ہو سکا میں کروں گی۔”
”مجھے تمہارا گھر کرائے پر چاہیے۔ میں یہ شہر جلد از جلد چھوڑنا چاہتی ہوں ۔اگر تم ہاں کہہ دو تو میں آج رات ہی گھر کا سامان بک کرادوں گی ‘‘
صباحت کی بات سن کر رفت پریشان ہوئی ۔
”گھر تو تمہارے لیے حاضر ہے مگر ایسی کیا جلد بازی”
“بس یوں سمجھ لو میری اولاد نے ہی مجھ پر خنجر چلا دیا ہے” صباحت خود پر قابو نہ رکھ سکی اور پھوٹ کر رونے لگی ۔
’’صباحت، ہمت رکھو تم جیسا چہتی ہو ویسا ہی ہوگا۔ میں گھر کی صفائی کرادیتی ہوں تم آج رات ہی اپنا سامان بک کرادو۔‘‘
صباحت کو جیسے تسکین مل گئی ۔ صباحت نے فون بند کیا تو حجاب ماں کی طرف سراسیمہ نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔ ’’اتنا بڑا فیصلہ آپ نے یوں اچانک لے لیا۔ آپ جانتی ہیں کہ آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں”
“اگر چاہتی ہو کہ میری طبیعت ٹھیک رہے تو میں جو کر رہی ہوں اس میں میرا ساتھ دو۔ تم ناشتے سے فارغ ہوتے ہی پیکنگ شروع کر دو۔ چھوٹی چھوٹی چیزیں پیک کر لو۔ بھاری اشیا کے لیے ٹرک ڈرائیور سے کہہ دوں گی ۔ ساتھ لڑ کے لے آئے گا۔‘‘
“سارا کام ہم اکیلے…” صباحت نے حجاب کو پوری بات بھی نہ کر نے دی۔
’’ہم اکیلے ہیں کوئی نہیں ہے ہمارا۔ ویسے بھی اتنے سالوں سے سارے کام میں اکیلی کر رہی ہوں تو یہ کام کیوں نہیں کر سکتی۔ بس جنہوں نے تم سے واسطہ توڑ دیا ان کا مجھ سے کوئی واسطہ نہیں۔ مجھے اپنی ان دونوں بیٹیوں کی شکل نہیں دیکھنی ۔اور سنو کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہم کہاں جارہے ہیں۔”
حجاب خاموشی سے پیکینگ میں مصروف ہوگئی۔ وہ صباحت سے کوئی بحث نہ کرسکی ۔صباحت نے ویسا ہی کیا جیسا اس نے سوچا تھا۔ گھر کا سامان اس نے رات ہی رات فیصل آباد پہنچادیا اور اگلی صبح گھر کو تالا لگا کر ماں اور بیٹی فیصل آباد کے سفر پر روانہ ہوئیں۔
تقریبا دو بجے وہ رفعت کے گھر پہنچی ۔ دوپہر کا کھانا انہوں نے وہیں کھایا۔ پھر وہ انہیں اپنی گاڑی میں اپنے ساتھ پرانے گھر لے گئی جہاں انکا سامان پڑا تھا رفعت نے جحاب کو چابی تھما دی
’’یہ لو تالا کھولو، اب یہ تمہارا گھر ہے ۔”
گھر کافی پرانا اور خستہ حال تھا۔
حجاب کھوئی کھوئی سی گھر کے درو دیوار دیکھتی رہی تھی ۔اسے اپنے کمرے کی در ودیوار یادآ رہی تھی جس کی ایک ایک اینٹ میں اسکے والد کا پیار بسا تھا وہ تو اپنی بیٹیوں کو سائبان دے گئے تھے مگر وہ سائبان رواجوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔
’’کیا سوچ رہی ہو حجاب بیٹی ،اندرآ جاؤ۔‘‘
رفعت کے پکارنے پر حجاب نے اپنی بھیگی آنکھیں ان سے چرا لیں
صباحت نے گھر کے وسطی حصے میں داخل ہوکر سارے کمروں کی طرف نظریں دوڑائیں
رفعت نے صباحت کوشانوں سے پکڑ کر صوفے پر بٹھا دیا۔
” تم لوگ آرام کرو۔ میں نے اپنے ذہن کے مطابق سیٹنگ کر دی ہے ۔ باقی تم لوگ جیسے مناسب سمجھو تبد یلی کر لینا۔‘‘
تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد رفعت اپنے گھر چلی گئی۔ جاتے ہوئے یہ بھی کہہ گئی کہ رات کا کھانا اس کے گھر سے آ جائے گا ،صباحت اپنا کچن سیٹ کر لے ۔حجاب اور صباحت نے مل کر گھر کی سیٹنگ مکمل کی۔ بے جان چیزوں کو تو حجاب سمیٹ رہی تھی مگر اپنی ذات کو نہیں سمیٹ پارہی تھی جو کئی ٹکڑوں میں بکھر گئی تھی ۔
وہ اتنے بڑے حادثے سے باہر نہیں آ پا رہی تھی۔ کچن سیٹ کرنے کے بعد ماں بیٹی تھک کے بیٹھ گئیں۔
صباحت نے صففے کی پشت سے سرٹکا دیا
“میں نے کچن میں چائے کا سامان رکھ دیا ہے چائے بنالو، بہت تھکاوٹ ہورہی ہے۔ ۔” حجاب نے اٹھ کر اپنے لیے اور ماں کے لئے چائے بنالی۔ وہ چائے کے کپ لے کر صباحت کے پاس بیٹھ گئی ۔
حجاب نے انجان کی نظروں سے چاروں طرف دیکھا۔ ’’اماں، ہمارا تو کچھ بھی اپنا نہیں رہا، نہ کوئی رشتہ دارا پنا اور نہ ہی کوئی گھر اپنا۔ ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہوا ہے اس سے بہتر یہ تھا کہ میں دلہن بن کے پیا دیس سدھارنے کے بجاۓ اپنے آخری سفر پر روانہ ہو جاتی۔ میری وجہ سے آپ کا سب کچھ ختم ہو گیا۔ میرے لئے سب کو چھوڑ کر آپ نے اچھا نہیں کیا ‘‘
“کیا اچھا ہے اور کیا برا، کیا ہونا چاہیے تھا اور کیا نہیں اس کا فیصلہ کرنے والے ہم کون ہوتے ہیں۔ یہ سب تو اس رب کی ذات طے کرتی ہے ۔ ہم تو حالات کے ہاتھوں کٹھ پتلیاں ہیں ۔ اپنوں کی باتوں کے تیر سہنے سے تو بہتر ہے کہ ہم اکیلے رہ جائیں۔ میں نہیں چاہتی کہ ثانیہ اورتحریم کو پتہ چلے کہ ہم کہاں ہیں۔‘‘
’’مگر ماں وہ تو آپ کا خون ہیں اور آپ کے جسم کا حصہ ہیں۔ آپ انہیں بھول نہیں سکتیں ۔”
مگر جب جسم کا کوئی حصہ ناسور بن جائے تو اسے بھی کاٹ پھینکتے ہیں چاہے اسکے بغیر گزارا کتنا ہی مشکل ہو۔ بس میں نے کہ دیا ہے ہم اپنے رہائش کے بارے میں کسی کو نہیں بتائیں گے اب اس موضوع پر بات مت کرنا ۔ میری بیٹیاں میرے لیے مرگئی ہیں اور میں اور تم ان کے لیے۔”
’’اماں! آپ اس قدر تلخ مزاج کیسے ہوگئیں، جیتے جی مرنا اتنا آسان نہیں ہوتا‘‘
”جو کچھ تیرے ساتھ ہوا اس کے بعد تو میں زندہ لاش ہوں میں نے تمہیں کہا ہے نا کہ بس اس موضوع پر مجھ سے بات نہ کرنا ۔‘‘
صباحت اپنا گھر تو فروخت کر چکی تھی مگر اس نے گھر ڈھونڈنے کے لیے ایک ماہ کی مہلت مانگی تھی اور وہ گھر
اس نے بہت جلد چھوڑ دیا۔ فیصل آباد شفٹ ہونے سے پہلے وہ مالک مکان کو گھر کی چابیاں دے آئی تھی ۔ ثانیہ اور تحریم کے لیے ماں کا اچانک اس طرح گھر چھوڑ کر چلے جانا بہت پریشانی کی بات تھی ۔انہوں نے صباحت کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی مگر وہ اپنی ماں کو ڈھونڈ نہ سکے۔
حجاب نے چھوٹے سے سکول میں جاب کر لی ۔ تھوڑے پیسوں میں ماں بیٹی کی گزر بسر ہو جاتی تھی ،حجاب کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی تھی۔
حجاب گھر کا سارا کام خود ہی کرتی تھی۔ چھ ماہ گزر گئے ، اپنوں سے بچھڑنے کاغم ماں بیٹی کو اندر ہی اندر گھائل کر تارہامگر دونوں ایک دوسرے کو خوش کرنے کی کوشش کرتیں اور یہ دو رخی انہیں کھوکھلا کرتی جارہی تھی ۔
حجاب نے کئی بار ملازم رکھنے کے بارے میں سو چا مگر صباحت کسی بھی غیر پر بھروسہ کرنے سے ڈرتی تھی۔ شام کا وقت تھا گلی میں دور دور تک سناٹا تھا۔ حجاب گملوں میں پانی ڈال رہی تھی ۔ دروازے پر دستک ہوئی ۔
“حجاب دیکھو دروازے پر کون ہے” صباحت نے کہا
حجاب نے پانی کا والو بند کیا اور دروازے کی طرف بڑھی اس نے دروازے کے قریب کھڑے ہوتے ہوۓ پوچھا۔
”کون ہے..”
باہر سے کوئی آواز نہیں آئی ۔
حجاب نے ایک بار پھر پوچھا۔
”کون ہے باہر…..”
جواب میں خاموشی ہی تھی ۔ ’’اماں لگتا ہے باہر کوئی نہیں ہے، کوئی بول ہی نہیں رہا۔‘‘
یہ کہہ کر حجاب پھر پانی کا والو کھولنے لگی تو دروازے کے پاس سے آواز آئی ۔
’’میں ہوں شاہ جی ۔”
حجاب دوبارہ دروازے کے پاس گئی ۔
“کون شاه جی..”
صباحت کمرے سے باہر آئی۔ ’’حجاب درواز کھول دو ‘‘
حجاب نے اس قدیم طرز والے دروازے کی کنڈی کھولی تو باہر ایک بوڑھا شخص کھڑا تھا۔ وہ سفید شلوار کرتہ میں ملبوس تھا۔ اس کے چہرے پر ایسا نور تھا کہ حجاب کے لہجے میں نرمی آ گئی۔
“جی! آپ کو کس سے ملنا ہے۔” صباحت حجاب کے قریب کھڑی ہوگئی ۔۔
”کیا بات ہے بابا جی… ”
“میں بلکل اکیلا ہوں کوئی کام کرنا چاہتا ہوں جس سے دو وقت کی روٹی مل جائے مجھے اس عمر میں کوئی کام نہیں دیتا مگر یقین کرو میں کھانا بہت اچھا پکاتا ہوں پودوں کا کام بھی کر لیتا ہوں برتن بھی دھو لیتا ہوں گھر سودا سلف بھی لا دیا کروں گا ۔
”شاہ جی ہمیں معاف کرنا ہماری اتنی حیثیت نہیں کہ ہم ملازم رکھ سکیں”
بزرگ نے اپنے بوڑھے ہاتھوں کونفی کے انداز میں بلایا۔
“نہیں مجھے پیسوں کا کوئی لالچ نہیں، جتنے آپ دو گی میں لے لون گا بس دو وقت کی روٹی مل جاۓ، میرے لیے اتناہی بہت ہے۔
حجاب نے ایک بار پھر بزرگ کو سمجھانے کی کوش کی ،صباحت نے حجاب کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور خود بات کرنے لگی ۔
“تمہاری رہائش کہاں ہے؟‘‘ بزرگ نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔
”آپ کے گھر کی دوگلیاں چھوڑ کر جو پرچون کی دکان ہے، اس کے چوبارے میں، میں رہتا ہوں۔ اس نیک دل دکاندار نے وہ چوبارہ مجھے ایسے ہی دے رکھا ہے۔ وہ مجھ سے کرایہ نہیں لیتا۔‘‘
صباحت نے اس بزرگ میں کوئی ایسی بات دیکھی کہ اس نے زیادہ سوچے بغیرا سے کام پر رکھ لیا۔
“شاہ جی، آپ کل سے کام پر آ جایئے گا جیسا آپ نے کہا کہ آپ کھانا اچھا بناتے ہیں، پودوں کی حفاظت کر لیتے ہیں، گھر کا سودا سلف لے آتے ہیں ۔ ہمارے گھر میں آپ کو یہ کام کرنے ہیں، آپ کو مناسب تنخواہ مل جائے گی۔ شام کے وقت آپ اپنے گھر چلے جایا کرنا‘‘
’’ٹھیک ہے بیگم صاحبہ ، خدا آپ پر اپنا کرم رکھے، آپ نے ایک بوڑھے کہ سہارا دیا۔‘‘ بوڑھے کے جانے کے بعد صباحت نے دروازہ بند کیا ۔
’’اس بوڑھے کو کیا پتہ کہ ہم تو خود بے سہارا ہیں۔‘‘ صباحت نے دروازے کے کنڈی لگاتے ہوۓ کہا۔ صباحت صحن میں بچھی چار پائی پر بیٹھ گئی۔
’’اماں! آپ نے اس بوڑھے کو ملازم کیوں رکھا۔ گھر کا کام ہے ہی کتنا، میں کر لیتی ہوں، ویسے بھی ہم کسی کو جانے بغیر نئے شہر میں کیسے کسی پر بھروسہ کر سکتے ہیں ۔”
”نئے شہر میں اکیلی عورتوں کا بھی تو گزارہ مشکل ہے۔ باہر کے کام بھی کر لے گا تو ہمیں کافی سہارامل جاۓ گا۔ ویسے بھی ان بوڑھی آنکھوں میں اتنی صلاحیت تو ہے کہ بندےبکی پہچان کر سکے۔ وہ بوڑھا شخص اعتبار کے قابل ہے۔”
حجاب خاموش ہوگئی مزید وہ کچھ نہ کہہ سکی ۔
اگلے روز ہی شاہ جی نے اپنی ڈیوٹی سنبھال لی۔شاہ جی نے اپنا کام اتنے اچھے طریقے سے سنبھالا کہ چند ہی دنوں میں وہ گھر کے فرد کی طرح صباحت اور حجاب کی ضرورت بن گیا وہ بزرگ انتہائی عبادت گزار اور خدا کے کلام کا ورد کرنے والا نرم مزاج شخص تھا اس کی موجودگی میں صباحت کو عجیب سے تحفظ کا احساس ہوتا۔
سانسیں چل رہی تھی اس لیئے ماں بیٹی اپنی زندگی کی ضروریات میں مصروف ہو گئیں انہیں زندگی کو گزارنا تھا جیسے بھی ہو۔ جس زندگی میں نہ خوشیاں تھیں نہ امید اور نہ کچھ پانے کا جنون ۔
اپنوں کی ٹھوکروں کی اذیتیں دامن میں سمیٹ کر ماں بیٹی اس گھر میں چپ کر بیٹھ گئی تھیں۔ لوگوں سے بھی تعلقات کو محدود رکھا ،کام سے فارغ ہونے کے بعد حجاب کوئی نہ کوئی کتاب لے کر صحن میں بیٹھ جاتی تھی۔
وہ سلطان با ہو کا صوفیانہ کلام پڑھ رہی تھی ۔ شاہ جی اس کے لئے چاۓ لاۓ ۔ اس نے سرسری سی نظر کتاب پر ڈالی۔ ’’سلطان باہو کو پڑھ رہی ہیں ،لگتا ہے کہ آپ زندگی کی حقیقت جان گئی ہیں۔‘‘
”کیا مطلب……”حجاب نے سوالیہ نظروں سے شاہ جی کی طرف دیکھا۔
شاہ جی گھاس پر بیٹھ گئے اور دھیمے سے لہجے میں بولے۔ ’’یہ دنیا فانی ہے، سب کچھ یہاں رہ جائے گا ان مادی خواہشات کے پیچھے انسان اپنوں کے پیار کو ٹھکرا دیتا ہے اور ایک دن اسی مال و دولت کو چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملتا ہے۔آنسو لے کر ہی اس دنیا میں آتا ہے اور آنسو لے کر ہی اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔
حجاب جیسے کھوگئی۔
شاہ جی اگر زندگی ہی انسان کے لیئے بوجھ بن جائے جیسے شاعرہ وجیہہ سحر نے کہا ہے
میرے لہجے میں ہے موت جیسی خاموشی
اپنے مزار لر جیسے همیں دیا جلانا ہے
شاہ جی نے حجاب کی طرف دیکھا۔ “اگر زندگی میں موت جیسے سنائے آ جائیں تو انہیں چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے دور کرنا چاہیے ۔‘‘
’’اگر نصیب میں خوشیاں نہ ہوں تو… ”
“ایی مایوسی بھری باتیں نہیں کرتے، خدا ناراض ہوتا ہے میری ایک بات یاد رکھو کتنی ہی پریشانیاں ہوں ،خدا کی عبادت کرتے رہو ۔ خدا ان پریشانیوں سے نپٹنے کی ترغیب خود دیتا ہے۔”
شاہ کی یہ باتیں سن کر حجاب نے شاہ جی سے پوچھا۔
”آپ نے کبھی ہم سے کوئی سوال نہیں کیا کہ ہم اس طرح اکیلی کیوں رہتی ہیں، ہمارا کوئی خاندان ہے یا نہیں کبھی ہمارے ابو کے بارے میں نہیں پوچھا اور نہ ہی یہ جاننے کی کوشش کی کہ میرا کوئی بھائی ہے یا نہیں۔‘‘ شاہ جی نے مسکراتے ہوئے سر جھکا لیا۔
“کچھ باتیں پوچھے بغیر معلوم ہو جاتی ہیں۔ ویسے بھی مجھے ان باتوں سے کیا لینا۔ میں بس یہ جانتا ہوں کہ آپ اور آپ کی والدہ اچھی انسان ہیں، اچھی مسلمان ہیں، خدا آپ دونوں کو اپنے امان میں رکھے اور آپ کی ساری پریشانیاں دور کرے ۔“
یہ کہہ کر شاہ جی اپنے گھٹنوں پر دونوں ہاتھ رکھ کے بہ مشکل اٹھے۔
’’آپ کو زمین پر بیٹھنے سے اتنی مشکل ہوتی ہے تو کرسی پر بیٹھ جاتے‘‘ حجاب نے کہا۔
شاہ جی نے انکساری سے جواب دیا ۔
’’ملازم مالکان کے سامنے بالمقابل نہیں بیٹھتے ‘‘
حجاب نے شاہ جی کی بات کو رد کرتے ہوۓ کہا۔
“نہیں شاہ جی ، ہم میں سے کوئی برتر یا افضل نہیں۔ کام کر نے والا اور کام لینے والا دونوں ہی ایک دوسرے کی ضرورت ہوتے ہیں۔ آپ کبھی اس طرح مت سوچنا آپ چائے بہت اچھی بناتے ہیں آپکے ہاتھ کی چاۓ پینے کے بعد مجھے اپنے ہاتھ کی چاۓ اچھی نہیں لگتی ۔‘‘
اگر آپ کہیں تو میں فجر کی نماز کے بعد آ جایا کروں گا ناشتے کے لیئے چائے بنا دیا کروں گا”
حجاب نے نفی کے انداز میں سر ہلایا۔
“نہیں آپ بزرگ ہیں، ہم آپ کو اتنی تکلیف نہیں دیں گے شام کی چائے تو آپ کے ہاتھ کی مل ہی جاتی ہے اماں کدھر ہیں”
”وہ اپنے کمرے میں ہیں ۔ میں نے انہیں چاۓ دے دی ہے”
حجاب کتاب پڑھنے کے ساتھ ساتھ چائے پیتی رہی پھر چائے پینے کے بعد وہ صباحت کے کمرے میں چلی گئی۔ اس وقت صباحت اٹیچی کیس کھولے بیڈ پر موتی ستارے کے کام والے فینسی سوٹ پھیلائے بیٹھی تھی۔ حجاب کو دیکھ کر وہ جلدی جلدی کپڑے سمیٹنے لگی۔
“یہ کپڑے پھیلاۓ کیوں بیٹھی ہیں۔”
صباحت کے بے ترتیب کپڑے سمیٹتے ہوئے ہاتھ وہیں رک گئے ۔اس کے چہرے پر اداسی چھا گئی۔ “یہ کپڑے میں نے تمہارے مکلاوے کی رسم کے لئے بنواۓ تھے ….”
’’اب یہ کپڑے دیکھ کر ان منحوس گھڑیوں کو یاد کر رہی ہیں۔ اچھا ہوتا کہ آپ اپنی بیٹی کے لیے ایک جوڑا کفن بھی سی لیتیں۔‘‘
حجاب بے اختیار روتے ہوئے منہ پر ہاتھ رکھے کمرے سے باہر چلی گئی اور چارپائی کے پاس بیٹھ کر اونچی آواز میں رونے لگی
وہ اس بات سے بے خبر اپنے زخموں پر رونے لگی کہ اس کی بوڑھی ماں پر کیا گزرے گی ۔ اس کی آنکھوں سے وہ خواب تو کوئی نہیں چھین سکتا جو ہر ماں اپنی بیٹی کے لیے دیکھتی ہے۔
حجاب اپنی سوچوں میں کھوئی چارپائی پر بیٹھی رہی جب مغرب کی آذان ہوئی تو اسے معلوم ہوا کہ اتنا وقت گزر گیا ہے اسے صباحت کا خیال آیا اور خود پر ندامت ہوئی کہ وہ ماں سے کس طرح یہ سب کہہ گئی
وہ اماں کے کمرے میں گئی ۔ ’’اماں، مغرب کی آذان ہو رہی ہے اٹھیں نماز پڑھ لیں”
حجاب صباحت کے پاس بیٹھ گئی صباحت تھکی تھکی بستر سے اٹھی
“اماں آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے۔”
حجاب نے ماں کا ہاتھ پکڑ کر زو دبانا شروع کر دیا اور سر جھکا کر ایک بار پھر سے گویا ہوئی
’’آپ مجھے معاف کر دیں۔ مجھے آپ سے اس طرح بات نہیں کرنی چاہیئے تھی”
صباحت تاسف بھرے لہجے میں بولی ۔
“تم اپنے کفن کی بات کیوں کرتی ہو میرے کفن کی تیاری کرو جانے کا وقت تو میرا ہے نا”
حجاب ماں سے لپٹ گئی۔
“اماں میری زندگی بھی آپ کو لگ اس طرح کی باتیں مت کیا کریں میں آئندہ کبھی بھی ایسی بات نہیں کروں گی۔‘‘
صباحت نے شفقت سے حجاب کے سر پر ہاتھ پھیرا اور وضو کرنے کے لیے چلی گئی ۔ وہ نماز پڑھ کر فارغ
ہوئی تو شاہ جی نے دروازے پر دستک دی۔
’’آ جاؤ شاہ جی۔‘‘ صباحت نے جائے نماز اکٹھا کرتے ہوۓ کہا۔
شاہ جی اندر کمرے میں داخل ہوۓ ۔
“بیگم صاحبہ میں جارہا ہوں، اگر کوئی کام ہے تو بتاد میں ‘‘
’’بیٹھو‘‘ صباحت نے شاہ جی سے کہا۔
شاه جی زمین پر بیٹھ گئے ۔ صباحت نے شاہ جی کی طرف دیکھا۔
”تم سامنے صوفے پر بیٹھ جاؤ۔‘‘
“نہیں میں یہی ٹھیک ہوں آپ نے کچھ کہنا ہے مجھ سے کام میں کوئی غلطی ہو گئی ہے کیا”
“نہیں شاہ جی ہم تو شرمندہ ہیں تم جتنا کرتے ہو ہم تمہیں اتنی اجرت نہیں دیتے ۔ میں تو تم سے آج کچھ اور بات کرنا چاہتی ہوں۔”
’’ آپ کہیں میرے لائق کیا خدمت ہے؟”
کچھ کہنے سے پہلے صباحت کی آنکھیں بھیگ گئیں ۔
“تم تو جانتے ہو میں اکثر بیمار رہتی ہوں پتہ نہیں کب یہ زندگی ساتھ چھوڑ جائے تم سے یہ کہنا چاہتی ہوں کہ حجاب کا خیال رکھنا تم غیر ہو مگر میرا دل چاہا تم سے یہ بات کہوں کہ حجاب کا میرے علاوہ کوئی نہیں ہے ”
“بیگم صاحبہ ، خدا آپ کی عمر دراز کرے۔آپ سب ہر وقت ایسی مایوسی والی باتیں نہ کیا کریں باقی ہم سب ایک دوسرے کا سہارا ہیں۔ یہ باتیں خود فریبی کی باتیں ہیں اصل سہارا تو وہ رب ہے جو سب سنبھالتا ہے۔ آپ اس رب پر بھروسہ رکھیں۔ باقی رہی میری بات تو جب تک اس جسم میں دم ہے میں آپ کا اور حجاب کا خدمت گزار ہوں گا۔” یہ کہہ کر وہ کھڑے ہو گئے ۔
’’اس جگ میں جینا مجبوری ہے، جہاں وفا کے بدلے حقارت اور خلوص کے بدلے ٹھوکریں ملتی ہیں۔” وہ یہ کہتے ہوئے دروازے سے باہر نکل گئے ۔ باہر سے بھی ان کے اکیلے باتیں کرنے کی آوازیں آتی رہیں۔
’’لگتا ہے یہ بھی ہماری طرح زمانے کا ٹھکرایا ہوا ہے۔‘‘ صباحت بھی اٹھ کر کمرے سے باہر چلی گئی ۔
اگلی صبح حجاب بستر سمیٹنے لگی تو اسے صباحت کے تکیے کے نیچے سے البم ملی ۔ وہ جانتی تھی اس البم میں اس کی فیملی کی تصویریں ہیں۔ اس نے وہ البم کھولی نہیں ۔ وہ سوچ کے دریچوں سے اپنے ماضی میں جھانکنا نہیں چاہتی تھی جس کی یاد اس کی روح کو تار تار کر دیتی تھی ۔ اس نے بھیگی ہوئی آنکھوں سے صباحت کی طرف دیکھا جو کچن کی طرف جارہی تھی۔
’’اماں سب کو بہت مس کرتی ہیں۔ میری وجہ سے اماں سب سے دور ہوگئیں ۔ کچن سے صباحت کی آواز آئی ۔
’’حجاب ! جلدی سے تیار ہو جاؤ، سکول سے لیٹ ہو جاؤ گی۔”
حجاب البم لے کر کچن میں چلی گئی ۔صباحت چولہے پر چاۓ چڑھارہی تھی ۔ حجاب شانے پر ہاتھ رکھا ۔
”اماں آپ ثانیہ اور تحریم کو بہت یاد کرتی ہیں۔”
’’دماغ خراب ہو گیا ہے تمہارا، یہ صبح صبح کیسی باتیں کر رہی ہو۔‘‘
“تو پھر یہ کیا ہے…” جب نے البم صباحت کے سامنے کیا
صباحت نے ندامت سے آنکھیں جھکا لیں حجاب نے ماں کے گلے میں بانہیں حائل کر لیں
“امی ضد چھوڑو ثانیہ اور تحریم کو ایڈریس بھجوا دیتے ہیں وہ مجھ سے نہیں ملنا چاہتیں مگر آپ سے تو مل سکتی ہیں۔”
صباحت نے غصے سے حجاب کے بازو پیچھے کئے۔
“یہ بات بار بار کہہ کر مجھے اذیت کیوں دیتی ہو میں اپنی زندگی میں ان سے نہیں ملوں گی کان کھول کر سن لو۔ اگر میں مر گئی نا تو تم نے بھی کسی کو خبر نہیں دینی ۔ اگر ایسا کیا تو میں تمہیں اس نافرمانی کے لیے معاف نہیں کروں گی ۔‘‘ صباحت روتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی ۔
’’اس کا مطلب ہے کہ اماں اپنا فیصلہ کبھی نہیں بدلے گی اور یہ اماں اپنی موت کی بات بار بار کیوں کرتی ہیں ۔‘‘ حجاب خودکلامی کرتی ہوئی اندر کمرے میں چلی گئی، اس کے تیار ہونے تک صباحت نے ناشتہ میز پر لگا دیا۔
حجاب صباحت کے قریب آئی اور اس سے لپٹ گئی۔ ’’ آپ کو میری ان باتوں سے تکلیف پہنچتی ہے تو آئندہ میں اس موضوع پر آپ سے بات نہیں کروں گی اور آپ آئندہ اپنی موت کی بات نہ کرنا ۔”
صباحت نے حجاب کے سر پر تھپکی دی۔
”چلواب ناشتہ کرو ۔‘‘
حجاب کے جانے کے بعد صباحت اپنے کمرے میں بستر پر جا کر لیٹ گئی ۔
تھوڑی دیر کے بعد دروازے کی بیل بجی صباحت اٹھنے لگی تو چکرا کر رہ گئی اس نے خود کو بمشکل سنبھالا پھر آہستہ آہستہ چلتے ہوئے دروازے تک پہنچی
صباحت نے دروازہ کھولا ۔
”آ جاؤ ، میں تمہاری ہی راہ دیکھ رہی تھی”
وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی باہر چار پائی پر ہی بیٹھ گئی
’’ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے ۔‘‘ شاہ جی نے پوچھا
”میری طبیعت تو ٹھیک ہے بس ذرا سا سر میں درد ہے ۔ ” صباحت اپنی کنپٹی پر ہاتھ رکھ کر ہلکا سا دبانے لگی۔
“آپ مجھے نسخہ لا دیں میں دوا لا دیتا ہوں”
“نہیں میرے پاس دوا ہے کھا لوں گی یہ گھر کے سودے کی پر چی ہے، بازار سے سودا لا دو۔‘‘
صباحت نے پرچی شاہ جی کو دی تو انہوں نے پرچی پڑھ کر کہا
’’آج دو پہر کا کھانا تو حجاب نے کل شام کو بنالیا تھا تو یہ سامان تو شام کی ہنڈیا کا ہے۔ یہ سامان کچھ دیر تک لے آتا ہوں۔
صباحت نے اپنے دوپٹے کی گرہ کھولتے ہوئے دو کاغذ نکالے۔ ’’ جب بھی بازار جاؤ گے تم نے یہ ٹیلی فون کا اور بجلی کا بل جمع کرانا ہے۔‘‘
•●•●•●•●•●•●•●•●•
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...