ولئد آیت کو لے کر جیسے ہی کمرے میں آیا آیت اس کے سینے سے لگ کر بہت سا روئی۔
” مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ آپ مجھے چھوڑ دیں گے۔خان میں بہت زیادہ ڈر گئی تھی۔”
ولید نے آیت کے آنسو صاف لیئے اور اس کی پیشانی پر بوسہ دیا ۔
“میں تمہیں چھوڑ سکتا ہونا بحالہ ۔مہر نے اپنی پسند سے شادی کی تھی۔ جس دن وہ اس حویلی سے گئی تھی تو اسے بہت زیادی غرور اور مان تھا خود پر کہ اس نے ایک بہت اچھے ہمسفر کا انتخاب کیا ہے ۔سب نے اسے سمجھایا تھا اور جب اس کی شادی ہو رہی تھی تو بابا اور میں نے اسے کہہ دیا تھا کہ اب اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ وہ ہمارے خاندان کی ہر روایت کو توڑ کر گئی ہے۔اب کیوں وہ آئی ہے واپس اور میں اتنا بھی پاگل نہیں ہوں گے اس کی باتوں میں آکر تمہیں چھوڑوں گا۔”
ولید آیت کے سامنے گھٹنوں کے پل بیٹھا گیا۔
“تم تو میری جان ہو آیت۔مجھے معاف کر دو آیت میں نے تمہارے ساتھ جو بھی کیا ہے۔تم جانتی ہو دادی صاحب کی بہت خواہش تھی کہ ان کے مر جانے کے بعد ان کا تخت کوئی ایسی عورت سنبھالے جو ان کے جیسی ہی ہو اور جب بھی وہ تمہیں دیکھا کرتی تھی تو وہ مجھے ہمیشہ کہتی کہ میری آیت کی شادی ولید سے ہوگی۔ان کے دماغ میں ایک بات تھی کہ جو عورت مرد سے بڑی ہوتی ہے نہ اسکا پورے گھر پر راج ہوتا ہے ۔وہ مرد کو بچہ ہی سمجھتی ہے اپنے آگے۔وہ بار بار مجھے کہہ کرتی تھی کہ میری آیت میری جگہ آئے گی۔تمہیں شروع سے پسند کرتا ہوں آیت میں مگر میرے دل میں ایک ڈر تھا کہ کہیں دادی صاحب کی طرح تم بھی مجھے بچہ نہ سمجھنے لگ جائو۔میں چاہتا تھا تم مجھے ایک مکمل انسان سمجھو ہمارا رشتہ برابری پر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر جانتی ہو سب نوکروں کے سامنے میری بہن نے تمہارے بھائی کے کہنے پر اظہار محبت کیا۔بابا کے وہ ملازم جو کبھی سر نہیں اٹھاتے تھے ان کی ہنسی آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے۔ بابا جانی نے میری شادی کی رات مجھے کہا تھا کہ تمہیں میں صرف شاہ بخت کی بہن سمجھوں جس کی وجہ سے پوری خاندان میں ان کی بے عزتی ہوئی ہے۔مہر کو تو وہ کچھ نہ کہہ پائے مگر اپنی انا کی تسکین کی خاطر تمہیں دکھ میں دیکھ کر وہ خوش ہوتے اور شاید میں بھی۔مگر مجھے آہستہ آہستہ احساس ہوگیا ہے کہ جن کی خاطر میں تمہیں سزا دے رہا تھا وہ تو اپنی زندگی میں خوش ہیں آیت۔تمہیں مار کر میں بھی راتوں کو نہیں سوتا تھا۔مجھے معاف کر دو آیت ہمارے بچوں کی خاطر مجھے معاف کر دو۔”
آیت نے اپنا ہاتھ ولید کے ہاتھ سے لیا ۔
“معافی کا لفظ کتنا آسان ہے نہ خان۔مگر وہ ذلت کیا آپ ساری زندگی کی مٹا پائیں گے جو میں نے برداشت کی ہے ۔میری شادی کی پہلی رات آپ نے کیا سلوک کیا تھا میرے ساتھ۔میرا خواب تھا میں ڈاکٹر بننا چاہتی تھی وہ خواب میرا ختم ہوگیا ۔میں قید ہوکر رہ گئی کیا میری کوئی زندگی نہیں تھی۔دراصل آپ بھی سب کی طرح ہی خود غرض ہیں۔آپ میں بھی ذرا سی انسانیت ہوتی تو آپ میری قدر کرتے مجھے محبت دیتے مگر آپ نے کیا کیا۔۔۔۔۔۔”
“نہیں آیت ایسا مت کرو مجھے جو چاہے سزا دینا چاہو دے دو مگر مجھے معاف کر دو ۔آیت بچوں کی خاطر۔میں نہیں چاہتا میرے بچے میرے جیسے ہوں یا میری بیٹی کا نصیب تم جیسا نکل آئے۔”
آیت ولید کی بات پر ہنسنے لگ گئی۔
“بات اولاد کی آئی ہے نہ اس لیئے آپ کو درد ہورہا ہے۔ایسے ہی آپ نے بھی کسی کی بیٹی کو بہت ستایا ہے خان میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔”
“نہیں آیت پلیز تم کہتی ہو نہ تو میں تمہارے پائوں پکڑ لیتا ہوں ۔”
ولید نے آیت کے پائوں تھام لیئے ۔
“چھوڑیں میرے پائوں ضرورت نہیں اب آپ کو میری طرف لوٹ آنے کی۔”
“پیلز آیت ایک بار ایک موقع دے دو مجھے۔”
“میری کمر میں سخت درد ہورہا ہے خان۔مجھے سونے دیں کہیں ایسا نہ ہو کہ جن بچوں کی خاطر آپ نے اس رشتے کو بہتر بنانے کا سوچا ہے وہ ہی نہ رہیں ۔”
“نہیں آیت ایسی باتیں مت کرو۔ تمہیں سونا ہے نہ سو جائو ہم کل بات کر لیں گے۔” ولید نے آیت پر کمبل ڈال اور اس کے بال سہلانے لگا۔آیت اس سے وقت ہر چیز سے فرار چاہتی تھی اسی لیئے تھوڑی ہی دیر میں اس کی آنکھیں بند ہوگئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہر تو سب کے ساتھ ہی بدتمیزی کر رہی تھی۔اس نے اپنی ساس کا جینا حرام کر رکھا تھا۔شاہ بخت آخر کار آہی گیا۔
“شاہ بخت تم دونوں نے کیا تماشا بنا رکھا ہے۔ہمارے خاندان کا نام خراب کر دیا ہے دونوں نے۔”
بابا جانی شاہ بخت کو ڈانٹ رہے تھے۔
“بابا جانی اسے ویسے ہی شک ہوگیا ایسا کچھ بھی نہیں ہے جیسا یہ سوچ رہی ہے۔آپ جانتے تو ہیں نہ ہم جس کلاس سے تعلق رکھتے ہیں وہاں ایسی دوستیاں عام ہیں ۔میں نے اسے کبھی کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی۔یہ بہت عیش میں رہ رہی ہے ہمارے گھر میں ۔اس کے پاس ہر چیز پے پوچھیں میں نے کون سی چیز کی کمی رکھی یے۔”
“جھوٹ مت بولیں شاہ بخت میں نے خود اس لڑکی کو بے ہودہ حرکتیں کرتے ہوئے دیکھا آپ کے ساتھ۔آپ مجھے چپ نہیں کروا سکتے۔میں کوئی عام لڑکی نہیں ہوں خان خاندان کی بیٹی ہوں ۔اگر اپنی مرضی سے شادی کرسکتی ہوں تو آپ کو سیدھا بھی کر سکتی ہوں۔”
“مہر جب ہم نے شادی کی تھی تو ہم میں یہ بات طے ہوئہ تھی کہ نہ میں تمہیں تمہاری زندگی گزارنے سے رکوں گا اور نہ تم مجھے ۔اب تم اپنی بات سے مکر رہی ہو۔میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے۔ تم گھر چلو یوں سب کے سامنے میری ذات کا تماشہ بنا کر تم نے اچھا نہیں کیا۔”
“میں نہیں جائوں گی انکے ساتھ بابا کہہ دیں اپنے پوتے سے کہ اپنی سیکرٹری کو آفس سے باہر نکال دیں ۔”
“ٹھیک ہے میں اسے نکال دوں گا مگر تم میرے ساتھ چل رہی ہو اب۔بہت ہوگیا تماشا ہر کوئی ہمارے بارے میں ہی بات کر رہا ہے میرے لیئے بہت زیادہ شرم کا مقام ہے۔”
“بابا جانی سمجھا دیں انہیں میں ان کے سامنے کوئی عام لڑکی نہیں ہوں آپ ہر لمحہ میرے ساتھ ہیں ۔”
“مہر ہم تمہیں بیاہ چکے ہیں تو اب یہ مت سمجھنا کہ ہر غلط اور سہی میں ہم تمہارا ساتھ دیں گے۔اس حویلی میں اب تم بہو کی حیشیت سے آیا کرو یہاں اب اس حویلی میں کسی بیٹی کی جگہ نہیں کیونکہ ہم تینوں کو رخصت کر چکے ہیں ۔”
مہر کو ابھی بھی شاہ بخت پر بہت غصہ تھا مگر حقیقت میں یہ شاہ بخت کو دیکھانا چاہتی تھی کہ یہ کمزور نہیں ہے۔اسے بہت زیادہ غصہ تھا آیت پر جس کی وجہ سے سب کے سامنے ولید نے اس کی اتنی بےعزتی کر دی تھی اور تھپڑ بھی مارا تھا ۔کوئی کچھ بھی نہیں بولا تھا ۔اس کی نظر میں آیت اپنا ماں بننا کیش کروا رہی تھی اس نے بھی سوچ لیا تھا کہ یہ بھی جلدی ہی ماں بنے گی تاکہ آیت کے بچوں کو اس حویلی میں تنگ کر پائے۔یہ اس بات کو نہیں سوچتی تھی کہ آیت کے بچے ولید کے بچے بھی تو ہیں نہ۔
_______________
فاریہ واپسی پر ایت سے ملنے دوبارہ آئی تھی۔اس نے فاریہ کو مہر کے مطلق سب کچھ پتا دیا کہ کیسے مہر چاہتی تھی یہ اس حویلی سے نکل جائے اور ولید سب کے سامنے اسے مارے۔
“یہ تو بہت اچھا ہوا ولید بھائی نے سب کے سامنے اس کو ہی مارا ۔اسے اپنی اوقات پتا چل گئی ہو گی نہ۔تم بتائو ولید بھائی کا رویہ کچھ بہتر ہوا تم سے۔”
“بہت حد تک۔جب سے انہیں بچوں کا پتا چلا ہے سختی کرنا چھوڑ دی ہے انہوں نے۔کل انہیں نے میرے پائوں پکڑ لیئے تھے معافی کی خاطر۔”
“تو تم نے کیا کیا۔”
“میں انہیں معاف نہیں کر پا رہی فاریہ۔مجھے بار بار ان کا رویہ یاد آجاتا ہے جو انہوں نے میرے ساتھ کیا۔”
” میں تمہیں نہیں کہوں گی کہ فورا سے ہی اسے معاف کر دو۔مگر ایک بات کہوں تمہارے ماں باپ بھی نہیں ہیں تمہارے ساتھ تم کیا کرو گی پھر۔اگر فلمی ہیروئن کی طرح یہ سوچو گی کہ اپنے بچوں کو لے کر سب کو چھوڑ کر چلی جائوں گی تو میری بہن باہر بھوکے بھیڑیے بیٹھے ہیں جہنیں کسی انسان سے کوئی غرض سے نہیں ہوتا۔تم اگر خان کو چھوڑ بھی دو تو کوئی تمہاری اولاد کو وہ پیار نہیں دے گا جو خان کر سکتے ہیں۔سب سے بڑی بات تم تو خان بیگم ہو کچھ بھی نہیں چھوڑ سکتی۔گزرا وقت گزر گیا۔ہماری مائوں نے بھی بہت کچھ برداشت کیا مگر ہمارے والد نے تو معافی نہیں مانگی۔مرد کے لیئے معافی مانگنا وہ بھی اپنی بیوی سے پائوں پکڑ کر اس کی آنا کا مسئلہ ہوتا ہے۔سوچ لینا آیت کچھ بھی کرنے سے پہلے تمہارے لیئے ہر طرف کھائی یے۔تمہارے دادا نے تمہیں پوتی نہیں سمجھا۔اگر وہ اتنے اچھے پوتے تو مہر کو سزا دیتے ولید کو نہ کہتے کہ تمہیں سزا دیں ۔مت کرو تم معاف ولید خان بھائی کو مگر میری ایک بات مان سنو۔مرد کو کسی عورت کی طرف جھکنے میں دیر نہیں لگتی۔اپنے بچوں سے اپنے باپ کو مت واپس لینا۔”
فاریہ نے آیت کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا ۔یہی ہر تیسرے گھر کی کہانی تھی اور فاریہ جانتی تھی کہ ولید میں کم از کم بدلنے کی خواہش تو ہے ورنہ شاید آیت سوچ نہیں سکتی تھی کہ جو مہر چاہتی تھی اگر وہ ہوجاتا تو۔
“میری خان کے ساتھ رہنے کے لیئے کچھ شرائط ہوں گی۔”
“رکھ لو شرائط مگر ایسی رکھنا جو ان کے بس میں ہوں۔میں چلتی ہوں مجھے دیر ہو رہی ہے۔”
فاریہ کے جانے کے بعد آیت بہت دیر ہر پہلو پر غور کرتی رہی۔کہاں جاتی یہ اپنے بچوں کو لے کر کہیں بھی نہیں ۔اس کے لیئے ایک ہی راستہ تھا اب ولید کو اپنا بنا لینا ۔
___________________
ولید کے پیپر چل رہے تھے جو ختم ہوگئے تھے۔یہ گھر آیا تو آیت اسے کمرے میں بہت زیادہ اداس نظر آئی۔اس نے لائٹ آن کی۔
“آیت یہ کیا حال بنایا ہوا ہے اپنا۔طبیعت تو ٹھیک ہے نہ۔”
ولید آیت کی گردن پر ہاتھ رکھ کر دیکھ رہا تھا کہ کیا سچ میں یہ ٹھیک ہے کہ نہیں ۔
“میں بلکل ٹھیک ہوں خان۔مجھے کیا ہونا ہے ۔”
“آیت جانو ایسی باتیں نہیں کیا کرو۔بچوں کا خیال۔کر لیا کرو جو اس وقت ماما کے اداس ہونے سے پریشان ہوگئے ہیں ۔”
“خان ایک بات کہنی تھی آپ سے۔میں آپ کے ساتھ رہنے کو تیار ہوں مگر ایک شرط ہے میری۔”
“بولو آیت کیا شرط ہے تمہاری۔”
“میں اس حویلی سے چلی جانا چاہتی ہوں۔آپ مجھے جہاں رکھیں گے جیسا رکھیں گے میں رہ لوں گے۔چچی اور چچا بھی ہمارے ساتھ آجائیں مگر میں چاہتی ہوں میں سب چیزوں سے دور چلی جائوں ۔میں جب بھی اپنے ماں باپ کو دیکھتی ہوں تو مجھے بہت کچھ یاد آجاتا ہے جو میں یاد نہیں کرنا چاہتی۔پلیز آپ مجھ پر رحم کریں اور مجھے یہاں سے لے جائیں ۔”
“آیت یہ سب کچھ بہت زیادہ مشکل ہے ۔تم جانتی ہو نہ دستار میرے پاس ہے اور اگر میں نے یہ سب کچھ چھوڑ دیا تو بابا جانی ناراض ہوجائیں گے۔”
“آپ کو میری خوشی عزیز ہے یا نہیں مجھے بتا دیں آپ کیا چاہتے ہیں روز روز میں اس حویلی میں مر کے جیوں۔اب نہیں ہوتا مجھ سے کچھ بھی۔مجھے یہاں نہیں رہنا ۔”
“آیت ایسی باتیں نہیں کرتے۔”
“ولید آپ میرے درد کا انصاف نہیں کر سکتے۔میں عورت ہونا میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں اس لیئے میں نے آپ کو معاف کر دیا ہے مگر آپ کو پھر بھی تکلیف نظر نہیں آتی میری ۔آپ کی نام نہاد محبت کہاں گئی یا وہ بھی ایک فریب تھا۔”
“پلیز آیت ایسا مت کہو۔ٹھیک ہے کرتا ہوں میں بابا جانی سے بات۔ہمارا گھر جو گائوں میں ہی ہے دادی صاحب کو شادی میں تحفہ ملا تھا وہ مجھے دیا تھا میری پیدائش پر دادی نے وہاں جائیں گے ہم لوگ۔مجھے وقت دے کر تم نے مجھ پر بہت بڑا احسان کر دیا ہے آیت۔”
“خان یاد رکھیں میں وہ عورت نہیں ہوں جو روتے دھوتے شوہر کی شکایتیں لے کر میکے چلی جائے۔میں نے برف میں گزری ہوئی رات بھی بھلا دی مگر اس کے زخم ہمشیہ باقی رہیں گے ۔یہ سب اس لیئے بھول گئی میں کہ میں اپنے بچوں کو آپ کا پیار لیتے ہوئے دیکھنا چاہتی تھی ۔کوئی لڑکی اگر آپ کی زندگی میں میرے بغیر آئے گی تو اسے اپنے ہاتھوں سے مار دوں گی میں یاد رکھنا۔”
“ویسے ایک لڑکی آ تو چکی ہے ہمارے درمیان۔”
“کون ہے وہ ۔”
ہماری بیٹی ۔مجھے پورا یقین ہے ایک بیٹا ہے اور ایک بیٹی ہمارا۔میں نے اپنی ڈول کے لیئے بہت سی چیزیں لے رکھی ہیں۔”
“بس اس کے اچھے نصیب کی دعا بھی کر لینا کہیں ایسا نہ ہو اسے بھی کوئی ولید خان مل جائے۔”
“آیت پلیز ایسا مت کہو۔تم سے پھر معافی مانگتا یوں میں مجھے معاف کر دو ۔میں نے جو کیا وہ میرا عمل ہے میری بیٹی کو مت سزا دو۔میں ساری عمر کچھ نہیں کہوں گا تمہیں بس میری بیٹی کو بد دعا مت دینا ۔”
آیت کو احساس ہوا کہ جب تک خود پر نہیں نہ گزرتی تو دوسروں کا خیال نہیں آتا ۔آیت جان گئی تھی کہ بیٹی لوگوں کو اپنی ہی اچھی لگتی ہے حالنکہ بیٹی تو رحمت ہوتی ہے سب کے لیئے ۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...