جیک حیرت سے بابا کی باتیں سن رہا تھا اسے یقین نہی آرہا تھا کے بابا اتنی معلومات رکھتے ہیں
اور تم نے جو آواز سنی تھی کہ
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا (9)
ترجمہ ؛ بے شک وہ کامیاب ہوا جس نے اپنی روح کو پاک کر لیا۔
مسند احمد میں بھی ہے کہ جس نے اپنے نفس کو پاک کیا وہ بامراد ہوا ، یعنی اطاعت رب میں لگا رہا نکمے اعمال رذیل اخلاق چھوڑ دئیے۔
جیسے اور جگہ ہے «دْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّىٰ» [87-الاعلیٰ:14-15] ” جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام یاد کیا پھر نماز پڑھی اس نے کامیابی پا لی اور جس نے اپنے ضمیر کا ستیاناس کیا اور ہدایت سے ہٹا کر اسے برباد کیا، نافرمانیوں میں پڑ گیا اطاعت اللہ کو چھوڑ بیٹھا یہ ناکام اور نامراد ہوا “۔
اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ ” جس کے نفس کو اللہ تعالیٰ نے پاک کیا اور بامراد ہوا اور جس کے نفس کو اللہ نے نیچے گرا دیا وہ برباد، خائب اور خاسر رہا “۔
یعنی کہ تمہارے خواب کا مطلب ہے کہ اللہ تمہارے نفس کو پاکیزگی کی ہدایت دے رہا ہے اور تم جلد از جلد تمام برے کاموں کو چھوڑ دو گے تمہاری روح کو سکون ملے گا تمہاری بے چینی ختم ہوگئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یاسر اور میکائیل شاپ میں کھڑے آنے جانے والوں کو اور شاپ کیپرز کو تنگ کر رہے تھے
اتفاق کی بات یہ ہے کہ ارحم اور زین کسی کام کے سلسلے میں وہاں آئے ہوئے تھے ۔۔
ارحم اپنے دوست کی طرف بڑھ رہا تھا جو یاسر اور میکائیل کے پیچھے سائیڈ پر کھڑا ہوا تھا
ار حم کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر یاسر اور زین کا رنگ فق ہوا اور دونوں نے بھاگ جانے میں ہی عافیت سمجھی
“دونوں لڑکے مجھے دیکھ کر بھاگ کیوں گئے ضرور کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہے“
ار حم کوانہونی کا احساس ہوا اور ان کا تعاقب کیا
وہ دونوں لڑکے ایک یونی کے اندر گیے
ار حم بھی ان کے پیچھے یونی میں انٹر ہوا اور اپنی پر تھی د کھا کر ارحم نے پیچھے سے ایک لڑکے کو دبوچ لیا
“بتاؤ کون ہو تم لوگ اور تو اس طرح چوروں کی طرف بھاگ رہے ہو“؟ ؟؟!!!
ار حم نے سختی سے پوچھتے ہوئے اس کے دوسرے ساتھی کو بھی رکنے کا کہا
مجبورا ا سے بھی رکنا پڑا
“سر بے شک آپ تصدیق کروا لیں ہم اسی ہونی کے سٹوڈنٹ ہیں لیٹ ہو رہے تھے کیونکہ پروفیسر بہت سخت سزا دیتے ہیں اگر ہم نے اان کی کلاس وقت پر اٹینڈ نہ کی۔۔۔
یاسر نے بروقت بات سنبھالی
ارحم آفس گیا اور تصدیق کروا کے مطمئن واپسی جانے لگا لیکن۔۔۔۔۔۔۔
یہ تو دیا تھی آس کی ڈول جو اپنی کسی دوست کے ساتھ کھڑی ہنسی تھی اس کی ہنسی نے ارحم کو اس کی طرف بڑھنے پر مجبور کر دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“دیا کوئی بہانہ نہیں چلے گا تم میری واحد اکلوتی دوست ہو تمہیں میرا ساتھ نہیں دے رہی تمہیں آنا ہوگا ہر فنکشن میں ۔۔۔“
اچھا اوکے¡!! !! دیا نے ہار مانتے ہوئے کہا
“ویسے تو میری یہ بہن آری میرے ساتھ ہے ۔۔ہر بات میں لڑکیوں کی طرح گائڈ کرتا ہے لیکن تم ہو تو مزہ آئے گا۔۔۔۔۔۔۔
زا ئرہ نے شرا رت سے اریان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور اس بات پر مدیحہ ہنس پڑی
“زا ئرہ تم“ اس سے پہلے کہ آ ریان کچھ کہتا دو لڑکے ان کے پاس آئے جی دیکھ کر مدیحہ کا رنگ فق ہوا اور وہ اچانک کھڑی ہو گئی آریان اور زائرہ حیرت سے دیکھ رہے تھے کے لڑکا کون ہے ؟؟؟
د یاء میری بات سنو ار حم نے اسے اٹھتے ہوئے دیکھ کر کہا
کون ہو تم مدیحہ نے جلدی سے اپنے تاثرات چھپاۓ اور انجان لہجے میں سوال کیا …اس سے بڑھ کر رحم کے لیے اذیت کا مقام کیا ہو سکتا تھا
“دیاء پلیز میری بات سنو ““
دیا کو وہاں سے جاتے دیکھ کر ار حم م نے اسے پیچھے سے پکارا اور اس کے پیچھے جانے لگا لیکن زین نے اسے منع کر دیا کیونکہ وہ دیا کی آنکھوں میں آنسو اور بےبسی دیکھ چکا تھا
اب تو خوشی کا غم ہے نہ غم کی خوشی مجھے
بے حس بنا چکی ہے بہت زندگی مجھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال یہ ہے جو چیز جیسے دکھتی ہے
اسے ویسے ہی پیش کیوں نہ کیا جائے
اپنے اندر دبی آوازوں کو
باہر کیوں نہ لایا جائے
راہ سے بھٹک گئے ہیں انسان
انکے جذباتوں کو ابھارا جائے
کیوں حبس زدہ ماحول میں
خود کو یوں ہی مارا جائے
باطل کے خلاف سب کو ملا کر
ایک ہی آواز میں چیخا جائے
بہت تسکین مل رہی ہے آج کل
کیوں نہ زخموں کو کریدا جائے
بابا کی باتیں جیک کے دل پر بہت اثر کر رہی تھی اس نے اپنی حقیقت سب کے سامنے لانے کا سوچا اور کوئی فائنل فیصلہ سوچا سب سے پہلے وہ زائرہ سے ملنے کے لیے گیا تاکہ وہ د یا کے بارے میں بات کر سکے
جیسے ہی زائرہ کلاس سے باہر نکلی باہر جیک کھڑا اس کا انتظار کر رہا تھا جیک اسے اپنے ساتھ چلنے کا کہا
“میری کلاس ابھی ختم نہیں ہوئی“ زائرہ نے اس کو کہا
“تم کلاس کو رہنے دو اور چلو کیفے ٹیریا میں“
کیفے ٹیریا میں جاکر وہ دونوں نسبتا و یران گوشے میں بیٹھیں
to the point
“بات کرتے ہیں بس بہت ہوگیا اب جلد از جلد کوئی فیصلہ لینا ہوگا
دیا کو تم راضی کرو میرے لیے ““
“آپ کے لیے“ زائرہ نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا
“ہاں مجھ سے نکاح کے لیے“ جیک نے آرام سے کہا جیسے کوئی گڑیا کا کھیل ہو
“واٹ آپ سے نکاح دیا مان جائے گی اور آپ ہیں کون ؟؟؟؟ ““
“”دیا تو مان جائے گی اور تم اسے مناؤ گی نکاح کرنے میں کوئی برائی نہیں جو تم ایسے ریکٹ کر رہی ہو اور باقی زیادہ سوال مت پوچھو “
“جی او کے دیا کو منا لوں گی اور ا رحم آیا تھا آج یونیورسٹی میں ““
“وہاٹ ار حم آیا تھا۔۔۔۔ یونیورسٹی جیک نے شدید کشمکش کی حالت میں پوچھا
ارحم نے دیے سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن دیا نے بات نہیں کی اور وہاں سے چلی گئی د یا میرے ساتھ ہنس رہی تھی وہ بہت خوش تھی لیکن پھر ہم نے اسے پھر ڈسٹرب کر دیا وہ کیوں آ جاتا ہے بار بار بیع کو تکلیف دینے کے لیے ۔۔۔۔۔آپ دیا کو خوش رکھنا میں اسے منا لوں گی آپ سے نکاح کیلئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔““
جائے تو اسے بولنے سے منع کر رہا تھا لیکن زائرہ اپنی دھن میں بولتی جا رہی تھی
ز ائرہ تم۔۔۔۔۔۔۔د یا کی آواز سن کر اس کی چلتی ہوئی زبان کو بریک لگ گئی
زائرہ تم سے یہ امید نہیں تھی تم میری دوست تھیں اور ۔۔۔۔۔۔۔۔
دیا نفی میں سر ہلاتے ہوئے یونی سے نکل آئی
میرے ہم نفس میرے ہم نوا مجھے دوست بن کے دغا نہ دے
میں ہوں درد عشق سے جاں بلب مجھے زندگی کی دعا نہ دے
“بیوقوف لڑکی منع بھی کر رہا تھا تمہیں لیکن تم نان اسٹاپ busy کی طرح بولتی رہتی ہو۔۔۔۔۔ جاو اس کے پیچھے۔۔۔۔ جیک نے لب بھینجتے ہوئے زائرہ سے کہا اور خود بھی پارکنگ ایریا میں آگیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باجی باجی سنو ؟؟!
دیا بس اسٹاپ کھڑی انتظار کر رہی تھی ایک چھوٹی سی بچی اس کے پاس آئی وہ بہت کیوٹ سی لڑکی تھی دیا نے پنجوں کے بل بیٹھ کر اس سے پوچھا
جی بیٹا بولو۔۔۔۔۔۔۔!!!!
اور اچانک اس لڑکی نے اپنا ہاتھ آگے کیا اور اس کے ساتھ ہی دیا بےہوش ہوتی چلی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذرا سی بات پہ ناراضگی اگر ہے یہی
تو پھر نبھے گی کہاں دوستی اگر ہے یہی
تمہیں دعا بھی ہم آسودگی کی کیسے دیں
جو ہم نے دیکھی ہے آسودگی اگر ہے یہی
ہمیں بکھرنا تو ہے کل نہیں تو آج سہی
ہمارا کیا ہے تمہاری خوشی اگر ہے یہی
ابھی نہ جانے ہمیں کتنے دوست کھونے پڑیں
ہماری باتوں میں بے ساختگی اگر ہے یہی
یہ ایک بہت بڑا ہال نما کمرہ تھا جہاں ایک شخص نہایت غصے میں ادھر سے ادھر ٹہل رہا تھا اور اس کے ارد گرد آدمی سہمے ہوئے کھڑے تھے
میں نے تم لوگوں کو آرڈر دیا تھا کہ اس سالے کو ختم کردیا جائے لیکن وہ تم لوگوں سے کیسے بچ گیا ؟؟؟؟
“وہ ھم نے اسے مار دیا تھا لیکن شاید ار حم نے پھر سے کوئی چال چلی اور ہمیں چاروں شانے چت کر دیا ۔۔۔ملک شہباز کو کہیں اور چھپا دیا تھا اور کھوٹری میں اس کی جگہ کوئی اور انسان تھا ہم پہچان نہیں سکے تم نے اسی کو گولی مار دے ۔۔۔۔۔“
“اس ارحم کی تو ایسی کی تیسی ابھی اس کا مزہ چھکا تا ہوں مجھ سے ٹکر لینے کا انجام ۔۔۔۔“
“با س کام ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک آدمی نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا
“اب پتہ چلے گا اس ار حم کو ۔۔۔۔یہ خود کو بہت زیادہ ہوشیار سمجھتا ہے لیکن اب میں اسے بتاتا ہوں کہ اس سالے کی اوقات کیا ہے ۔۔۔
اس لڑکی کو زنان خانے میں عورتوں کے حوالے کردو اور جیسے اس لڑکی کو ہوش آ ئے مجھے بتانا ۔۔۔۔۔۔۔
وہ آدمی جسکا نام ڈیو ڈ تھا حکم دیتا ہوا وہاں سے چلا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زائرہ جیسے ہی یونی سے باہر نکلی مدیحہ کا کہیں بھی اتا پتہ نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
“ارے اتنی جلدی چلی گیئی دیا گھر ۔۔۔“زا ئرہ خود كلامی کرتے ہوۓ بڑ بڑا ئ
“چلو آ ریان اسکے گھر چلتے ہیں ۔۔و ہ مجھ سے ناراض ہو گیئی ہے ۔۔۔““
“کیوں ناراض ہوئی ہے تم سے ،۔۔۔ضرو ر تم نے ہی کچھ کیا ہوگا ۔۔۔۔۔۔“ آ ری نے اسے ڈ ا نٹتے ہوۓ کہا
چپ کر جاؤ آر يان ۔۔اسے بس غلط فهمی ہوئی ہے ““
زا ئرہ نے سیریس لهجے میں کہا
زا ئرہ کے موڈ کو دیکھ کر آر يان سمجھ گیا کے ضرور کوئی خاص بات ہے ۔۔۔۔لیکن اس وقت کچھ پوچھنا منا سب نہ سمجھا
۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے ہی جیک یو نی سے باہر آیا اسنے نے دیکھ لیا کے دیا کو بیہوش کر کے کسی نے گاڑ ی میں ڈالا اور اپنے ساتھ لیکر گیے ۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کے جیک انکی طرف بڑھتا ۔۔ان نقاب پوش میں سے ایک آدمی کی آنکھوں کو دیکھ کر وہ جان گیا کے یہ لوگ کون ہیں ۔۔اسکے ہونٹوں پر مسکرا ہٹ آئ
اور اگلے ہی پل غصے کی ایک لہر اسکے بدن میں سرایت کر گیئی لیکن اسنے گا ڑی اپنے اپاڑ ٹمنٹ کی طرف موڑ دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیا کے گھر پہنچ کر زا ئرہ بے صبری سے گھر میں انٹر ہوئی اور دیا کو پکار نے لگی
سلام بیٹا ۔۔خیریت ۔۔بوا نے زائرہ کو اس طرح بوکھلا تے ہوۓ بغیر سلام و دعا کے دیا کو پکا رتے دیکھا تو تشویش سے پوچھنے لگیں ۔۔۔،۔۔
۔۔۔اور دیا کہاں ہے
“”وعلیکم سلام بیٹا ۔۔۔میں ٹھیک لیکن دیا تو ابھی تک یو نی سے واپس نہی آ ئ۔۔۔۔کہاں ہے میری دیا ؟؟؟
بوا نے پریشانی سے کہا
”
بوا آپ پریشان مت ہوں و ہ پبلک ٹرا نسپو رٹ میں آ رہی ہے اور آپ جانتی ہیں کے ٹا ئم لگتا ہے ….,…““
زا ئرہ نے اونہیں دلاسہ دیتے ہوے کہا لیکن حقیقت میں و ہ خود بھی بہت گھبرائ ہوئی تھی ۔۔۔
ایک گھنٹہ ۔۔۔دوسرا گھنٹہ بھی گزرا لیکن دیا کا کچھ بھی اتا پتہ نہی تھا ۔۔۔
بوا پریشانی سے ارد گرد ٹہل رہی تھی ۔۔۔اور وظائف پڑھ رہی تھی ۔۔۔۔
“یا اللّه میری بچی کو اپنے حفظ و امان میں رکھنا ۔۔۔““
۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“مجال ہے جو یہ لڑکی کبھی کوئی کام وقت پر بھی کر لے ۔۔۔آج اسکی بہن کی مهندی کا فنکشن ہے اور و ہ غائب ہے ۔۔۔اور اسکے ساتھ وہ آريان بھی ۔۔۔احساس تک نہی دونو ں کو ۔۔۔۔یہاں میری جان هلكان ہورہی ہے اور وہ دونو ں غائب ……منع بھی کیا تھا کہ مت جاؤ یو نی لیکن ایک دن میں کون سے پھا ڑ سر کرنے تھے ان دونو ں کو ۔۔۔۔۔
مسز ذکیا کو زا ئرہ اور آریا ن کی لا پرواهی پر شدعید غصہ آ رہا تھا ۔۔۔
“ارے ماما ۔۔۔آرام سے ۔۔۔کیوں خود کو هلكان کر رہی ہیں ۔۔وہ دونوں آ جائےنگے آپ پریشان مت ہو ۔۔میں ہوں نہ یہاں ۔۔جو کام ہے وہ میں کر لنگی ۔۔““
زارا نے اونہیں پیار سے سمجھا تے ہوۓ کہا
نہ نہ میری بچی ۔۔۔بہت کر لئے تم نے کام ۔۔اللّه تمھیں ہمیشہ خوش رکھے ۔۔۔۔مسز ذکیا نے زارا کو گلے لگا تے ہوۓ پیار کیا ۔۔۔۔۔۔انکی آنکھوں سے ایک آنسوں بہ کر زارا کے بالوں میں جزب ہو گیا
پھُول جب شاخ سے کٹتا ہے،بِکھر جاتا ہے
پتّیاں سُوکھتی ہیں، ٹُوٹ کے اُڑ جاتی ہیں
بیٹیاں پھُول ہیں
ماں باپ کی شاخوں پہ جنم لیتی ہیں
ماں کی آنکھوں کی چمک بنتی ہیں
باپ کے دِل کا سکوں ہوتی ہیں
گھر کو جنت سا بنا دیتی ہیں
ہر قدم پیار بِچھا دیتی ہیں
جب بِچھڑنے کی گھڑی آتی ہے
غم کے رنگوں میں خُوشی آتی ہے
ایک گھر میں اُترتی ہے اُداسی لیکن
دُوسرے گھر کے سنورنے کا یقیں ہوتا تھا
بیٹیاں پھُول ہیں
ایک شاخ سے کٹتی ہیں مگر
سُوکھتی ہیں نہ ٹُوٹتی ہیں
ا،ک نئی شاخ پہ کچھ اور نئے پُھول
کھِلا دیتی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ار حم اپنے آفس میں بیٹھا ہوا تھا جب اسے کال آ ئ
ار حم نے کال ریسیو کی اور دوسری طرف سے جو کہا گیا اسے سن کر ار حم کے پیروں تلے زمین نہ رہی ۔۔۔۔۔
“تم ہو کون“ ار حم کو اپنی آواز کھائی سے آتی ہوئی محسوس ہوئی
“میں جو بھی ہوں لیکن اتنا جان لو تم خود کو بہت ہوشیار سمجھتے ہو ۔۔ملک شہباز کو چھپا کر رکھا پھر ملک شہباز کے توسط سے گروہ کو پکڑا ۔۔۔۔۔گریٹ آئ ایم امریسڈ فرام یو ۔۔۔۔۔بٹ یاد رکھنا و ہ لڑکی ہمارے پاس ہے ۔۔۔۔ “،
“تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی خبیث انسان ۔۔۔مرد ہے تو سامنے آ کر وار کرو ۔۔پیٹھ پیچھے وار بز دل لوگ کرتے ہیں ۔۔۔۔اور یہ جنگ ہمارے بیچ میں ہے اس لڑکی کو چھوڑ دو ۔۔۔“، ار حم نے غصے سے مٹھیاں بھینچی ۔۔۔۔۔
ہاہا ہا ۔۔۔۔۔بزدیل کون ہے یہ بھی پتہ چل جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔اور اسکے ساتھ ہی کال کٹ ۔۔۔۔۔۔
دیا کہاں ہو تم ۔۔۔۔ار حم بہت بے بسی محسوس کر رہا تھا
اعتبار بھی آ ہی جائے گا
´
دھوپ میں کھڑا جل رہاں ہوں میں
سایہ دو مجھے
یہ میراجنوں
یہ میری جلن
ہے میری سزا
´
میری یہ تھکن
کہہ رہی ہے کیا
سنو تو سہی، سنو تو سہی
´
اعتبار بھی آ ہی جائے گا، آ ہی جائے گا
´
کیاہوا اگر زندگی ذرا بھول سی گئی
سوچو تو ذرا
جنگلوں میں بھی راستے تو ہیں
ہمیں بھی کوئی مل ہی جائے گا
چلو تو سہی، چلو تو سہی
´
´
اعتبار بھی آ ہی جائے گا
ملو تو سہی
´
کیاہوا اگر زندگی ذرا بھول سی گئی
سوچو تو ذرا
جنگلوں میں بھی راستے تو ہیں
ہمیں بھی کوئی مل ہی جائے گا
ملو تو سہی ۔۔۔۔۔۔۔
کہاں ڈھونڈوں میں ۔۔۔۔۔
نمبر ٹر یس یس ۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“آؤ آ و میرے شیر میرے بازو ۔۔۔لگتا ہے ہمیں بھول ہی گیے ہو ۔۔۔۔۔
اپنی مونچھوں کو تا ؤ دیتے ہوےڈ یو ڈ آ نے والے نو جوان سے بغل گیر ہوا
)اس منظر کو دیکھ کر دور سے دو آنکھیں شدید غصے میں آ ئ …….)
لیکن سامنے نو لفٹ کا بورڈ صاف نظر آ رہا تھا ۔۔۔۔یہ اس نو جوان کی خوش قیسمتی تھی کے ڈ یو ڈ جیسا انسان جو کسی کو خاطر میں نہ لاتا تھا اسکی ہر بات برداشت کرتا تھا
یہ پہلی بار ایسا ہوا کے یہاں آ کر اس نو جوان کو اولجھن ہو رہی تھی ۔۔۔۔
“”تم لوگ یہاں کسی لڑکی کو لا ۓ ہو ؟؟؟“
“کیا لڑکی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کے ڈیوڈ کچھ اور کہتا ۔۔۔۔۔ایک زور دار تھپڑ اسکے منہ پر لگا ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیا کی جیسی ہی آنکھیں کھلی ۔۔اس نے خود کو ایک انجان جگہ میں پایا ۔۔۔آہستہ آہستہ اسے یاد آیا کے اسکے ساتھ کیا ہوا تھا ۔۔۔تکلیف کی شدت سے دیا نے اپنی آنکھیں بند کرلی لیکن پھر کچھ سوچ کر كمرے کا جائزہ لیا
یہ ایک کشادہ کمرہ تھا ۔۔۔۔حیرت کی بات یہ تھی کے دروازہ بھی کھلا ہوا تھا اور کھڑ کی بھی ۔۔۔
دیا بجلی سی تیزی کی طرح اٹھی اور اس کھڑ کی کے پاس آ کر ارد گرد ماحول کا جائزہ لینے لگی ۔۔۔۔۔
یہ ایک عجیب سی جگہ تھی جہاں بڑے بڑے ہا ل نما کمرے تھے اور ایک کمرے سے دوسرے کمرے کا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا
د یاء نے ایک کمرے میں دیکھا وہاں پر بہت سارے مرد بیٹھے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔
ا تنے میں ایک نوجوان لڑکا اس کمرے میں داخل ہوا ۔جسے دیکھ کر بھی د یا کی آنکھیں حیرت سے کھلی رہ گئیں
یہ تو وہی لڑکا تھا یونی کا ۔۔۔لیکن یہاں کیا کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
کیا اسی نے مجھے کڈنیپ کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
لیکن جب اس نے ایک آدمی کو تھپڑ مارا تو دیا کو ایک امید ہوئی کہ شاید یہ لڑکا اس سے بچانے آیا ہے اور پھر خود ہی اپنے خیال پر طنزیہ ہنس پڑی ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...