“فاروق تمہیں کیا لگتا ہے نایاب کیا جواب دے گی شماہل کو ؟”۔۔۔دادو بیڈ کراون سے ٹیک لگا کے بیھٹیں تھیں۔۔۔۔ انکے ساتھ اپنی وہیل چیر پر بیٹھے فاروق صاب نے جب انہیں ساری بات بتائی تو انہوں نے پریشانی سے ان سے استفار کیا ۔۔۔
“ارے اماں جانتی تو ہیں آپ نایاب کو جب وہ بولتی ہے کہاں کوئی بول پاتا ہے ۔۔۔آتی ہو گی دس منٹ میں تن فن کرتی یہیں ۔۔۔پھر پوچھ لیجیے گا اسکا جواب”” ۔۔۔فاروق صاب نے شرارت سے بول کر اماں کو دیکھا تو انہوں تاہید میں سر دھنا ۔۔۔”ہاں یہ بات تو ہے “گز بھر” لمبی زبان ہے اپنی نایاب کی۔۔۔کبھی کبھی تو مجھے شدید غصہ آتا ہے مگر اسکے سامنے بول کے کون حود کو پھنسائے “۔۔۔اماں نے جھرجھری لے کر سر جھٹکا ۔۔۔تو فاروق صاب کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی ۔۔۔”کیا کریں اماں وہ بولتی جو ہمشہ سچ ہے اور سچ تو ایسے ہی لاجواب کر دیا کرتا ہے “۔۔۔انہوں نے لاپرواہی سے بول کر شانے اچکائے تھے ۔۔۔
“ہاں میاں تم تو اسی کی طرف داری کرو گئے ۔۔۔بگاڑ کے بھی تو تم نے رکھا ہے ۔۔۔ارے میں پوچھتی ہوں اتنا بھی کیا سچ بولنا اب ۔۔کے دوسرا بندہ شرمندہ ہی ہو جائے “۔۔ اماں نے ناک بھوں چڑھاکر کہا تو فاروق صاب نے نفی میں سر ہلا کے اماں کو دیکھا ۔۔۔
“اماں سچ سن کے شرمندہ وہی ہوتا ہے جو جھوٹا ہو ۔۔۔ فاروق صاب بھی فل بحث کر موڈ میں آچکے تھے ۔۔۔
“ارے میاں رہنے دو تمہارے فلسفے ۔۔۔۔۔یہ دنیا تم دونوں باپ بیٹی کے اصولوں پر نہیں چلتی ۔۔۔یہاں جو اچھا جھوٹ بولتا ہے وہی دیر پا ٹکتا ہے ۔۔۔انہوں نے ہاتھ جھلا کر ناگورای سے سر جھٹکا ۔ ۔۔۔
“اور جھوٹےانسان پر اللہ کی جو لعنت ہوتی ہے اسکا کیا؟؟”” ۔۔۔فاروق صاب جھٹ سے بولے تو اماں نے چونک کر انہیں دیکھا ۔۔۔”کیا دنیا کی حاطر اللہ کی لنعت خود پر لگوا لینی چاہیے اماں؟؟” ۔۔۔قابل فہم نظروِں سے انہیں دیکھتے پوچھ رہے تھے (اماں نے گہری سانس لی تھی ان باپ بیٹی سے بخث کرنا ناممکن کام تھا )۔
“ہائے ہائے ۔۔۔بھلا میں نے یہ کب کہا کے جھوٹ بولنا شروع کر دو ۔۔۔میں تو اتنا کہہ رہی ہو کے پر جگہ سچ بولنا عقل مندی نہیں ہوتی بعض دفعہ چپ رہنے میں بھی بھلائی ہوتی ہے “۔۔۔۔ اماں نے کب ہار ماننی تھی ۔۔۔آحر انکی ماں تھیں ۔۔۔
“اماں سچ بولنے میں کبھی نقصان نہیں ہوتا یہ بات ہم اچھے سے جانتے ہیں ۔۔۔ہاں ہو سکتا ہے شروعات میں آپ کو پرشانی اٹھانی پڑے مگر بعد میں جیت ہمیشہ سچ کی ہوتی ہے” ۔۔۔فاروق صاب گردن اکڑا کر مصبوطی سے بولے تو اماں نے بے بسی سے آسمان کی جاب دیکھا ۔۔۔”اللہ تم دونوں کو ہداہت دے بھئی میرے بس کا تو نہیں تم باپ بیٹی سے کسی معاملے میں بات کرنا” ۔۔۔اپنا بڑبڑاتی ہوئی اپنی تسبی پر کچھ پڑھنے لگیں ۔۔۔تو کمرے میں کچھ دیر کے لیے حاموشی چھا گئی ۔۔۔جو دروازے کی اس “دہڑام” آواز سے ٹوٹی جسکو نایاب غصے سے کھولتی اندر آئی تھی ۔۔۔دادو اس زلزلے پر گھبرا کے اٹھ بیٹھیں اور حیرت سے غصے میں بھناتی نایاب کو دیکھا ۔۔۔
جو اب اپنے ابو کی گود میں سر رکھ کر فرش پر ہی بیٹھ گئی تھی ۔۔۔
“ہائے دیکھ اس لڑکی کو فاروق کیسےدروازہ توڑ کر اندر آئی ہے ۔۔۔دل ہول گیا میرا” ۔۔۔۔دادو نے دل پر ہاتھ رکھے صدمے سے دوہائی دی ۔۔۔مگر فاروق صاب نایاب کی طرف متوجہ تھے جو انکی گود میں سر رکھے ہچکیوں سے رو رہی تھی ۔۔۔”کیا ہوہا نایاب کیوں رہی ہو ؟؟ پریشانی سے انکے ماتھے پر بل پڑے تھے ۔۔۔ “نایاب میری جان اٹھو بتاو کیا ہوہا ہے؟۔۔۔کسی نے کچھ کہا ہے تم سے مجھے بتاو!!” ۔۔۔فاروق صاب تو گنگ رہ گئے تھے اسکے رونےپر ۔۔۔(کب روتی تھی وہ ۔۔۔شاید کبھی نہیں) ۔۔۔اسکی سسکیاں سن کر دادو کا بھی دل ہول گیا تھا ۔۔۔
“فاروق دیکھ کیا ہو گیا میری بچی کو کیوں رو رہی ایسے ۔۔۔”؟؟ غصہ بھلائے وہ بے چینی سے آگے ہو کر بولیں تو فاروق صاب نے اسکا چہرہ دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اوپر اٹھایا ۔۔۔”آنسوں سے بھرا چہرہ ،سرخ آنکھیں” ۔۔۔۔کب دیکھی تھی ان نے اپنی بہادر بیٹی کی یہ حالت انکا دل کٹ کے رہ گیا تھا ۔۔۔انہوں نے جھک کر اسکی پے شانی چومی اسکے آنسوں صاف کیے ۔۔۔کیا ہو گیا نایاب؟ ۔۔۔تم اتنی بہادر ہو کے بچوں کی طرح رو رہی ہو ۔۔۔اگر رشتے کی وجہ سے کر رہی ہو تو بے فکر ہو جاو ۔۔۔تمہارا باپ ابھی “معزور” ہوہا ہے مرا نہیں ہے جو تم چاہو گی ہی ہو گا” ۔۔۔انہوں نے بچوں کی پچکار کر اسے یقین دلایا تو اسکے آنسوں تھمے تھے ۔۔۔” مگر امی”!!۔۔وہ آنسوں پوچھنتی ہونٹ لٹکا کر بچوں کی طرح بولی تو فاروق صاب نے اسکی ناک دبائی ۔۔۔” کچھ نہیں کہے گی تمہاری ماں تم تو میری بیٹی ہو ۔۔۔اور میری بیٹی جو چاہے گی وہ ہو گا” ۔۔۔”اب حوش ۔”!۔۔۔وہ اسکے گال پکڑ کر کھینچ رہے تھے ۔۔”خوش” ۔۔وہ حوشی سے بولتی دوبارہ انکی گود میں سر رکھ کے بیٹھ گئی وہ اسکے سر میں انگلیاں چلانے لگے تھے ۔۔ ۔اور ناہل جو پریشان سا اسکے پیچھے ہی آیا تھا اب دروازے کی فریم سے ٹیک لگا کر کھڑا مسکر کر باپ بیٹی کے نحرے دیکھ رہا تھا ۔۔۔نایاب کا یہ روپ اسنے پہلی بار دیکھا تھا کہاں وہ سب کے سامنے شیرنی بنی ہوتی ہے اور کہاں یہ بچی ۔۔۔اسنے ایک نظر اپنی نانو کو دیکھا. ۔۔۔”جو ان دونوں باپ بیٹی کے ناٹک کبھی حتم نہیں ہوں گے” والی نظر ان دونوں پر ڈالتی منہ بنا کر دوبارہ لیٹ گئیں تھیں ۔۔۔۔ناہل آہستہ سے وہاں سے نکل آیا تھا ۔۔۔۔۔
****************************************
“سریا انٹی آپ ٹھیک ہیں. ؟؟” ۔سب کے جانے کے بعد فروا پریشان حال بیٹھی سریا کے پاس آ بیٹھی اور نرمی سے انکے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔۔۔وہ چونک کے سیدھی ہوہیں۔۔۔کچھ دیر فروا کی آنکھوں میں دیکھتی رہیں یہاں تک کے وہ یک دم زور سے ہنسیں ۔۔۔فروا پھدک کھڑی ہوئی ۔۔۔
“مجھے لگتا ہے آنٹی پاگل ہو گئی ہیں” ۔۔۔فروا نے بسماء کے کان میں جھک کے سرگوشی کی تو وہ اسے کہنی مارتی ہنستی ہوئی سریا کی جانب مڑی ۔۔۔
“کیا ہوہا آنٹی آپ ہنس کیوں رہی ہیں ؟؟”۔۔۔اسنے ڈرتے ہوئے پریشانی سے پوچھا تو سریا کی ہنسی مزید بلند ہوئی ۔۔۔وہ دونوں غش کھا کر گرنے کو تھیں کچھ پل بعد جب انکی ہنسی تھمی تو انہوں نے سر جھٹک کے پریشان حال کھڑی لڑکیوں کو دیکھا ۔
“تم دونوں کو لگ رہا ہے میں پاگل ہو گئی ہوں” ۔۔راہٹ؟؟ ۔۔۔مسکرا کے شرارت سے پوچھا تو دونوں نے قابل فہم نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھ کر اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔سریا نے بمشکل اپنی ہنسی کو بریک لگائی تھی ۔۔۔
“ارے میں ایسے ہی بلا وجہ نہیں ہنس رہی میرے پاس وجہ ہے ۔۔۔تم دونوں کو بتاوں؟؟”۔۔۔۔۔
“جی بتاہیں “۔۔ فروا تھوک نگل کر ہلکہ سا ممنائی ۔۔۔
“میں نے شماہل آپا کو نیچے وارن کیا تھا کے نایاب کچھ بھی بول سکتی ہے اسلیے ابھی بات مت کریں ۔۔۔مگر انہوں نے نہیں سنی میری اب دیکھو ۔۔۔کیا نایاب نے جھاڑا ہے انہیں!۔۔”واہ مزا آگیا “” ۔۔۔وہ مزے سے ہاتھ لہرا کر فحر سےبولیں تو بسماء اور فروا بے ہوش ہوتے ہوتے بچیں ۔۔
“آنٹی آپ کیا کہہ رہی ہیں نایاب نے انکی انسلٹ کی ہے اور آپ ہیں کے حوش ہو رہی ہیں” ۔۔۔بسماء آحر جل کر بول پڑی ۔۔۔
“تم دونوں ایک نمبر کی بے وقوف ہو” ۔۔۔انہوں افسوس بھری نظروں سے ان دونوں کو دیکھ کر ناگواری سے کہا تو ۔۔۔دونوں کا منہ ہی بن گیا ۔۔۔ (اچھی بھلی سمجھدرا تو تھیں وہ دونوں )
“دیکھو میں تم دونوں کو سمجھاتی ہوں” ۔۔۔وہ سنجیدہ ہو کی بولیں تو وہ دونوں بھی انکی جانب آہیں ۔۔۔۔فروا بیڈ کی پاہیتنی پر بیھٹی تو بسماء انکے ساتھ صوفے بیٹھی۔۔ “سمپل سی بات ہے شماہل آپا نے پہلے مجھ سے اور نایاب کے بابا سے رشتہ مانگا ۔۔۔ہم نے انکار کرنا چاہا تو انہوں نے ایموشنل بلیک کرنا شروع کر دیا ۔۔۔اب میں کچھ کہتی تو بری بنتی ۔۔۔اسلیے میں نے انہیں کہا کے نایاب کا جو فیصلہ ہو گا وہی میرا ہوگا ۔۔۔اور مجھے میری بیٹی کی صلاحیتوں پے پورا بھروسا تھا ۔۔۔مجھے پتہ تھا وہ شماہل کے ہرحملے کا جواب پوری طرح سے دے گی۔۔۔اور شماہل کچھ بھی نہیں کر پائے گی ۔۔۔اور دیکھو وہی ہوہا کے نہیں ؟؟””۔۔۔انہوں نے اترا کے اپنی بات مکمل کی اور ان دونوں لڑکیوں کو داد طلب نظروں سے دیکھا جنکو ساری بات سمجھنے میں چند سیکنڈ لگے ۔۔۔”آنٹی یو آر گریٹ”۔۔۔فروا اور بسماء جزیاتی ہو کر انکے گلے سے چمٹ گئی تو انہوں نے مسکرا کے ان دونوں کے گرد بازو حمائل کیے ۔۔۔اب وہ مطمہن تھی مگر کس کو پتہ تھا یہ خوشیاں محص چند پل کی تھیں ۔۔۔
****************************************
شام کو الگ ہی جنجال پورا بنا تھا گھر میں ۔۔۔سب تیار ہوکے شادی حال بھاگ رہے تھے.۔۔۔ملازم گاڑیوں سارا سامان رکھ رہے تھے ۔۔۔ کچھ لوگ جا چکے تھی کچھ ابھی گھر پر ہی تھے مہندی کا فنگشن چونکے کمباہن تھا اسلیے لڑکی والے بھی اسی حال میں آنے واکے تھے انکے استقبال کی تیاری نایاب فروا اور بسماء پر تھی اسلیے وہ جلدی سے تیار ہونے گئیں تھیں ۔۔۔بسماء اور فروا نے فل حال کوئی جیولری نہیں پہنی تھی ۔۔۔”راستے میں گاڑی رکوا کر جیولری لے لیں گی “۔۔۔یہ سوچ کر دونوں مطمین تھیں ۔۔۔بساء نے فیروزی رنگ کا جبکے فروا نے نارنجی رنگ کا کام دار لہنگا زیب تن کیا تھا ۔۔ دونوں نے ۔بالوں کی کھجوری چٹیا بنا کر داہیں طرف سے آگے کو ڈال رکھی۔۔ہلکے میک اپ میں وہ کافی اچھی لگ رہیں تھیں ۔۔۔۔
“تم دونوں زرا جلدی تشریف لاو ۔۔۔ایسے مٹک مٹک کر چلوں گی تو رات ہو جائے گئ “۔۔۔۔ناہل نے آرام آرام سے زینے اترتی ان دونوں کو غصے سے ڈانٹا تو وہ تن فن کرتی اسکے سر کو آہیں ۔۔۔
“شکل اچھی نہ ہو تو بندا بات اچھی کر لیتا ہے” ۔۔۔فروا دونوں ہاتھ کمر پے رکھے تیکھی نظروں سے ناہل کو گھور رہی تھی ۔۔۔جو کریم رنگ کے کرتا شلوار میں کافی ڈیشنگ لگ رہا تھا ۔۔۔
“ایگزیکٹلی” ۔۔یہں بات میں تم سے کہہ رہا ہو چڑیل کے شکل تو تم تمہاری زرا بھی اچھی نہیں ہے اسلیے تھوڑا بہت کام کر لو شاید کسی گھویلو مزاج رکھنے والی آنٹی کو تم پسند آ جاو” ۔۔۔وہ بھی تپ کر بولا تو فروا نے غصے سے آستین پیچھے کیں ۔۔۔
“تم حود کیا ہو بندر کہیں کے ۔۔۔شکر کرو لڑکی دے دی کسی نے ورنہ کنوارے مر جاتے”.۔۔۔وہ دوبدو بولی
“مجھے تو چلو پھر کسی نے دے دی ۔۔۔تمہارا کیا ہو گا ۔۔۔تم سے تو کسی نے نہیں کرنی شادی “۔۔ناہل تنظریہ انداز میں بولتے شانے اچکاتا بولا تو فروا کا بی پی ہی شوٹ کر گیا. ۔۔
“کیا ہو رہا پے یہاں؟؟” ۔۔۔اس سے پہلے کے وہ دونوں یہیں لڑ مرتے نایاب کی آواز پر -چونک کے پیچھےمڑے ۔۔۔وہ زینے اترتی نیچے آرہی تھی ۔۔۔ہلکے سبز رنگ کے کام دار لہنگے کو اوپر اٹھا رکھا تھا ۔۔۔ڈوپٹہ آج بھی سر پر تھا بالوں کی فرنچ ناٹ بنی تھی ۔۔کانوں میں چھوٹے چھوٹے پرل ٹاپس تھے ۔۔۔بلکل ہلکے سے میک اپ میں وہ کافی اچھی لگ رہی تھی ۔۔۔ناہل فروا کو بھول چکا تھا ۔۔۔۔آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہا تھا جو اب ینے اتر کر انکے پاس آ رہی تھی. ۔۔”کوئی اس قدر بھی خوبصورت کیسے ہو سکتا ہے ۔۔۔۔اسکے چہرے پر الگ ہی نور تھا” ۔۔۔”کیا ہوہا تم بت بنے کیوں کھڑےہو ؟؟” نایاب نے اسکے بلکل سامنے آکر اسکی آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہرایا تو وہ چونک کے سیدھا ہوہا ۔۔”۔بیوٹی فل “۔۔۔ہلکی سی سرگوشی اسکے لبوں سے نکلی تو نایاب نے اپنی سبز آنکھوں سے اسے دیکھا ۔۔۔”افف قیامت تھیں آج وہ سبز آنکھیں ۔۔۔ان میں لگا وہ کالا کاجل” ۔۔۔۔وہ پھر سے کھو گیا تھا ۔۔۔بسماء اور فروا مسکراہٹ دباتیں اسے دیکھ رہیں تھیں ۔۔۔
نایاب نے کوفت سے آنکھیں گماہیں ۔۔۔”اسے تو نہ جانے کون سا دورہ پڑا ہے تم دونوں تو چلو ۔۔۔۔گاڑی میں سامان رکھو سارا ۔۔۔میں اسکو لے کے آتی ہوں” ۔۔۔۔اسکے نئے حکم پر وہ دونوں شانے اچکاتی باہر کی جانب بڑھیں ۔۔۔
“ناہل تم ٹھیک ہو ؟”۔۔۔ان دنوں کے جاتے اسنے تشویش سے اسے جھنجھوڑ کے پوچھا ۔۔۔تو وہ بے احتیار مسکرایہ ۔۔۔۔انگلی کی نوک سے اسکی سبز آنکھوں کے کنارے سے کاجل چرایہ ۔۔۔اسکی آنکھیں بے احتیار بند ہوہیں تھیں ۔۔۔ناہل نے جھک کے کاجل اسکی تھوڑی کے نیچے لگایا تو وہ چونک کے سیدھی ہوئی ۔۔۔اور سوالیہ نظروِں اسے دیکھا ۔۔۔
“بہت اچھی لگ رہی ہو کسی کی بری نظر نہ لگے اسلیے کالا ٹیکا لگایا پے” ۔۔۔ناہل نے مسکرا کر کہا تو نایاب نے مسکرا کر نفی میں سر ہلایا ۔۔۔”تم میں بھی کبھی کبھی میری امی کی روح آ جاتی ہے ۔۔۔اب چلو دیر ہو رہی ہے” ۔۔۔مصنوعی غصے سے اسے گھورتی وہ آگے بڑھی تو پیلر کے پیچھے چھپی مزے سے سارا سین دیکھتیں لڑکیاں فوراً باہر بھاگی۔۔۔شکر ہے نایاب نے انہیں نہیں دیکھا تھا ۔۔۔مگر نایاب نے تو اپنے کمرے کی کھڑکی سے یہ منظر جلتے دل کے ساتھ دیکھتے زارون کو بھی نہیں دیکھا تھا ۔۔۔
ناہل گنگنتا ہوہا اسکے پیچھے گیا تھا ۔۔۔ وہ بھی اب مطمئن تھا ۔۔۔”مگراسے کیا پتہ تھا کےبری نظر کالہ ٹیکا لگانے سے نہیں ٹلا کرتی “۔۔۔۔۔۔
****************************************
وہ تینوں شادی حال کی مین دروازے پر کھڑیں مہمانوں کا استقبال کر رہیں تھیں۔۔۔۔لڑکی والے بھی پہنچ چکے تھے ۔۔۔سبز اور پیلے رنگ کے لہنگے میں ہیوی جیولری اور میک میں شہرین ہمیشہ کی طرح لا جواب لگ رہی تھی ۔۔۔جہاں فروا کا منہ اسے دیکھ کے” بنا” تھا وہیں سب کی ستائش بھری نظریں اس مغرور شہزادی کا جانب اٹھیں تھیں ۔۔۔نایاب نے آگے بڑھ کر اسکی بلاہیں لیں تھیں ۔۔۔اور خود اسے اسٹیج تک چھوڑنے گئی تھی۔۔۔ ناہل کو ابھی نہیں لایا گیا تھا۔۔۔
نایاب نے اسے خوبصورت صوفہ پر آرام سے بیٹھا کر گھونگھٹ اوڑھایا تھا ۔۔۔اور آیت الکرسی پڑھ کر اس پر پھونکی تھی ” واٹ دا ہیل از دس گھونگھٹ ۔۔۔” ڈوپٹے کے اندر سے شہرین کی جھنجھلائی ہوئی آواز سنائی دی تو نایاب اسکے قریب جھکی ۔۔”۔شہرین بس تھوڑی دیر کے لیے ہی رکھ لو رسم ہے” ۔۔۔نایاب ریکویسٹ کی تو اسنے گہری سانس لی ۔۔۔”تھوڑی دیر کے لیے ہی” ۔۔۔سر جھٹک وہ ڈوپٹے کو چہرے کے آگے کر کے بیٹھ گئی ۔۔۔تھوڑی سے مستی شہرین کے ساتھ کر لینے کے بعد وہ سب لڑکیاں ناہل کو لینے اندر گئیں تھیں ۔۔۔نایاب صرف شہرین کے پاس رکی تھی ۔۔۔
“مجھے پیاس لگی ہے ۔پانی لا کر دو مجھے” ۔۔تھوڑی دیر میں شہرین کا نیا حکم جاری ہوہا تو وہ گہری سانس لیتی اسکے لیے پانی لینے اندر کی جانب گئی تھی ۔۔۔
” تمہاری وجہ سے وہ مجھ سے دور ہو گئی ہے میں تمہیں آج نہیں چھوڑوِ گا ناہل” ۔۔۔
واٹر ڈسپنسر سے پانی نکال کر وہ جیسے ہی مڑی تھی اسکی سماعت سے زارون کی کرجت آواز ٹکرائی تھی ۔۔۔اسکا دل ایک دم زور سے ڈھڑکا ۔۔۔پانی کا گلاس تھامے وہ آواز کی سمت بڑھی تھی ۔۔۔
“دیکھوں زارون میری بات سنو! ۔۔۔پستول نیچے کرو ۔۔۔ہم بیٹھ کے بات کرتے ہیں” ۔۔۔ناہل کی آواز تھی ۔۔۔”وہ اسے پستول” ۔۔۔اس سے آگے اس سے سوچا نہیں گیا تھا ۔۔۔پانی کا گلاس اسکے ہاتھ سے چھوٹا تھا ۔۔۔وہ بھاگتی ہوئی اس سمت آئی تھی ۔۔۔اس ساہیڈ پے بنے کمرے میں وہ دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے تھے ۔۔۔ناہل اپنے ڈیفینس میں ہاتھ اٹھائے اس سے کچھ کہہ رہا تھا ۔۔۔دروازے کی جانب اسکی پشت تھی ۔۔۔اسلیے وہ نایاب کو اندر آتے نہیں دیکھ سکا تھا ۔۔۔مگر زارون جو سرح چہرہ لیے ۔۔۔اس پر بندوق تانے کھڑا تھا نایاب کو بدحواسی میں اندر آتے دیکھ چکا تھا ۔۔۔اسکی آنکھوں کے سامنے کچھ دیر والا لمحہ لہرایا تھا ۔۔۔ٹریگر پر اسکی گرفت مصبوط ہوئی تھی ۔۔۔
“I am not going to leave you Nahil “”
شدت سے کہتے اسنے گولی چلائی تھی ۔۔۔ ایک دھماکے سی آوز چاروں سمت گونجی تھی ناہل نے بےیقین نظروں سامنے آچکی نایاب کو دیکھا ۔۔۔۔”گولی اسے ہی لگی تھی “۔۔۔وہ پورے قد کے ساتھ فرش پر گری تھی ۔۔۔
ساری کاہنات بس ایک پل کے لیے تھمی تھی ۔۔۔ بس چل رہی تھیں تھیں تو فرش پر گری اسکی لڑکی کی کچھ ‘ٹوٹتی سانسیں” ۔۔۔ناہل نے پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھتا گھٹنوں کے بل گرا تھا ۔۔۔زارون کے ہاتھ سے پسٹل گر چکا تھا ۔۔۔وہ بھاگ کر اس تک آیا تھا ۔۔۔ناہل کے دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا ۔۔۔زارون بے ہوش ہو چکی نایاب کو تھپتھپا کر جگانے کی کوشش کر رہا تھا ۔
تھوڑی ہی دیر میں وہاں سب آچکے تھے ۔۔۔اسکے ادگرد بہت کچھ ہو رہا تھا. اسے سب سنائی دے رہا تھا مگر وہ کچھ سمجھ نہیں سکتا تھا ۔۔۔سریا ممانی رو رہیں تھیں۔۔۔۔نانو کی فریاد الگ تھی ۔۔فروا بے یقینی سے اسے جھنجھوڑ رہی تھی ۔۔۔اسے کچھ یاد نہیں تھا بس اتنا پتہ تھا کے نایاب کو گولی لگی تھی ۔۔۔جانے کس نے ایمبولینس کو کال کی تھی ۔۔۔جانے کب وہ سب وہاں سے ہسپتال آئے تھے ۔۔۔اسنے بس حود کو ICU کے باہر بیٹھا پایا تھا ۔۔۔سب چل رہا تھا صرف وہی ساکت تھا ۔۔۔”بلکل ساکت” ۔۔۔۔
“”””””””””””””””””””””””””””””””””””'””””””””””””
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...