کھانا کھانے کے کچھ دیر بعد ایمان اپنی ماں کے روم میں داخل ہوئی -ایمان بیٹی دروازے پر کیوں کھڑی ہو آجاؤ -امی جان آپ سو تو نہیں رہی تھیں وہ بیڈ پر اپنے ماں کے پاس بیٹھتی ہوئی بولی -نہیں ایمان بیٹی میں ویسے لیٹی ہوئی تھی -امی جان مجھے آپ سے ایک بات کرنی تھی -ہاں بیٹا بولو –
امی جان میں کوئی منگنی شادی نہیں کرنا چاہتی اس جنید سے وہ اپنے ماں کو دیکھتے ہوئے بولی –
کیوں ایمان بیٹا ؟
امی جان میں اس دن آپ کو جس جنید کا بتا رہی تھی یاد ہے آپ کو –
جی بیٹا یاد ہے –
تو امی جان یہی وہی جنید ہے اس لیے میں اس سے تو کبھی شادی نہیں کرنا چاہتی –
بیٹا اب تو وہ سب کچھ چھوڑ چکا ہو گا اس نے تو آفس جوائن کر لیا ہے وہ سمجھتے ہوئے بولیں -کیوں کہ ان کو بھی یہ رشتہ اچھا لگا تھا –
امی جان آپ اس سے ابھی ملی نہیں نہ ہی آپ اس کو جانتی ہیں اس لیے بول رہی ہیں –
کیا تم مل چکی ہو وہ بیٹی کو دیکھتے ہوئے بولیں –
امی جان میں نہیں ملی بلکہ وہ یونیورسٹی میں خود دو بار میرے راستے میں آچکا ہے یعنی میرا راستہ روکنے کی کوشش کر چکا ہے –
پھر تم نے ہمیں یا زوہیب کو بتایا کیوں نہیں ؟
امی جان میں آپ لوگوں کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی اور ویسے بھی میں نے اس کو اتنی باتیں سنائی ہیں کہ پھر اس نے میرے ساتھ بولنے کی بھی کوشش نہیں کی -وہ ماں سے نرم لہجے میں بولی
بس وہ اچھا لڑکا نہیں اس لیے میں اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی ہوں آپ بابا کو بھی بتا دیں
ٹھیک ہے بیٹا جیسے آپ کی مرضی ہمیں تو آپ کی خوشی عزیز ہے وہ پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے پیار سے بولیں –
امی جان آپ کتنی اچھی ہیں وہ خوشی سے گلے لگتے ہوئی بولی – اس کے انداز پر ان کے چہرے پر مسکراہٹ چھا گئی
یوں ہی میری پیاری بیٹی ہمیشہ مسکراتی رہو وہ پیار سے دعا دیتی ہوئی بولیں –
ٹھیک ہے امی جان اب آپ آرام کریں میں بھی چلتی ہوں مجھے بھی نیند آرہی
ٹھیک ہے بیٹا جاؤ آپ بھی آرام کرؤ-
**************
جنید اپنے کیبن میں بیٹھا آفس کی ایک فائل دیکھنے میں مصروف تھا کہ مسلسل بجنے والی سیل فون کی بیل نے اپنی طرف متوجہ کیا -بے ساختہ وہ کالنگ نمبر دیکھ کر مسکرا دیا – اور کال رسیوکی –
جانی یار کب سے میں کال کر رہا ہوں اٹھا کیوں نہیں رہا تھا –
سوری رضا یار ایک آفس کی فائل دیکھ رہا تھا –
ہاں میں نے بھی خبر اڑتی اڑتی سنی ہے کہ میرے آوارہ دوست نے آفس جوائن کر لیا وہ مسکراتے ہوئے بولا
ہاہاہاہاہا یار اب تو آوارہ نہ بول تیرا دوست اب تو ایک بزنس مین بن چکا ہے وہ مسکراتے ہوئے بولا –
اچھا میرے بزنس مین یہ معجزہ کیسے رونما ہوا مجھے تو بتایا بھی نہیں –
بس یار دل کیا جوائن کر لیا –
اتنا تو شریف نہیں یہ تو میں جانتا ہوں وہ مسکراتے ہوئے بولا –
ہاہاہاہاہا یار بس شادی کی شرط پاپا نے رکھی تھی آفس جوائن کرؤ-
یوں کہہ ناں شادی آفس میں لے کر آئی رضا مسکراتے ہوئے بولا ویسے مجھے بھی تیری سمجھ نہیں آتی شادی کا خیال کہاں سے تجھے آگیا اور تو کس سے کر رہا ہے میں گاؤں کیا گیا ایگزامز کے بعد تو مجھے بھول گیا کچھ بتایا بھی نہیں –
وہ یونیورسٹی والی لڑکی کا جو تجھ سے پتہ لیا تھا میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں اور پاپا وغیرہ ان کے گھر گئے تھے ان لوگوں نے کہا ہے سوچ کر بتائیں گئے –
تو اس کو بھولا نہیں ابھی پیار تو نہیں ہو گیا –
ہاہاہاہاہا مجھے پیار وہ بھی اس لڑکی سے مجھے جانتا تو ہے تو –
تو پھر اس سے شادی کیوں کرنا چاہتا ہے
وہ میں اس سے اپنا بدلہ لینا چاہتا ہوں جو یونیورسٹی کے سامنے اس نے میرا تماشا بنایا تھا اب کی بار وہ غصے سے بولا –
یار چھوڑ اس میں تیری بھی غلطی تھی اس شریف لڑکی کو چھوڑ دے یار کیوں ایسا کر رہا ہے -رضا سمجھتے ہوئے بولا –
“بس بس رضا خاموش ہو جا تجھ پر تو آج کل ہمدردی کا بھوت سوار ہے ”
وہ غصے سے بولا سارا موڈ خراب کر دیتا ہے رضا یار -رضا اب کی بار خاموش رہا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ وہ اپنی کرنے پر آجائے تو کسی کی نہیں سنتا –
چل یار سوری-
اچھا رضا میرے آفس آ جاؤ لنچ کا ٹائم ہو گیا ایک ساتھ جاتے ہیں لنچ کرنے اس بہانے مل بھی لیں گے –
چل ٹھیک ہے میں ابھی آیا –
******************
یہ لیں چائے پی لیں اور اب تو یہ آفس کا کام بند کر دیں کب سے لگے ہوئے ہیں
جو حکم بیگم صاحبہ یہ لیں بس وہ رائٹنگ ٹیبل سے اٹھتے ہوئے بولے –
مجھے آپ سے ایمان کے سلسلے میں بات کرنی تھی وہ ان کے سامنے صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولیں –
جی کجیئے
ایمان نے اس رشتے سے انکار کر دیا اسے یہ رشتہ پسند نہیں –
مگر کیوں کوئی وجہ تو ہو گی –
جی وجہ یہ ہے کہ وہ لڑکا ایمان کے یونیورسٹی میں ہی پڑھتا تھا دو بار اس نے ایمان کا راستہ روکنے کی بھی کوشش کی ہے ایسے لڑکیوں کو تنگ کرنا اس کا کام ہے اس لیے ایمان اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی –
چلو ٹھیک ہے ہماری بیٹی کو نہیں پسند تو ہمیں بھی نہیں پسند ہمیں تو اپنی بیٹی کی خوشی عزیز ہے وہ چائے کا کپ رکھتے ہوئے بولے میں جاوید کو کال کر کے بتا دؤں گا –
جی ٹھیک کہہ رہے ہیں
****************
پاپا کافی دن ہو گئے ان لوگوں نے کوئی جواب نہیں دیا ہے وہ لان میں اپنے پاپا کے پاس بیٹھتے ہوئے بولا -بیٹا جی ان لوگوں نے جواب دے دیا ہے میں آج تمہیں بتانے والا تھا –
کیا کہا ہے پاپا پھر ان لوگوں نے
بیٹا جی ان لوگوں نے تو انکار کر دیا –
کیا وہ حیرانگی سے بولا اسے یہ امید نہیں تھی –
اس میں حیران ہونے والی کوئی بات نہیں ہے ان لوگوں نے پہلے ہی کہا تھا ہم سوچ کر بتائیں گئے اور بیٹی کی مرضی بھی ہمارے لیے ضرور ہے -تو
تو یہ کہ ان کی بیٹی کو اعتراض تھا ان لوگوں نے انکار کر دیا بس بات ختم –
ٹھیک ہے پاپا وہ وہاں سے اٹھتے ہوئے اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے بولا -کیوں کہ یوں انکار پر اسے غصہ آرہا تھا –
ہوں اس لڑکی کی ہمت کیسے ہوئی وہ بھی مجھے انکار کرنے کی میں اب تک اس سے نرمی سے پیش آرہا تھا لیکن یہ لڑکی ایسے نہیں ماننے والی ہے اب تو کوئی اور طریقہ تلاش کرنا پڑے گا شادی تو میں اس لڑکی سے کرؤں گا اس کے لیے تو میں کسی بھی حد تک جا سکتا ہوں وہ اس وقت بیڈ پر لیٹا اس کے بارے میں سوچ رہا تھا –
**************
اگلی صبح وہ ڈائننگ ٹیبل پر ناشتہ کرنے میں مصروف تھا -پاپا میں آج آفس نہیں آرہا اب چلے جایئے گا –
کیا جی بھر گیا یا ان لوگوں کے انکار پر
وہ طنز کرتے ہوئے بولے –
اب تو شروع ہو جاتے ہیں انکار پر میرا بیٹا کیوں آفس چھوڑ دے گا اسے کوئی لڑکیوں کی کمی ہے –
وہ اپنے بیٹے کی حمایت کرتے ہوئے بولیں –
پاپا میری پوری بات تو سن لیں میں کچھ دیر تک آفس آجاؤں گا کیوں کہ اب رضا کو کوئی کام ہے تو اس کے پاس جارہا ہوں –
ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی
اور آپ ایسے شروع ہو جاتے ہیں دیکھا آپ نے میرے بیٹا تو کام سے جارہا تھا –
ٹھیک ہے بھئی تم ماں بیٹا ٹھیک میں غلط اب راضی وہ مسکراتے ہوئے بولے –
وہ دونوں نہیں جانتے تھے کہ ان کا بیٹا صبح صبح رضا کے بجائے اس لڑکی سے ملنے یونیورسٹی جارہا ہے –
****************
وہ کار کو لاک کرتے ہوئے یونیورسٹی میں داخل ہوا وہ اس وقت جینز شرٹ اور کوٹ میں ملبوس تھا کیوں کہ اس کے بعد اسے آفس جانا تھا –
اس کا رخ اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کی طرف تھا -اسے اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے باہر ہی ایمان کسی کا انتظار کرتی ہوئی نظر آگئی -السلام علیکم جی کیسی ہیں آپ وہ اس کے پاس پہنچتے ہوئے بولا –
ایمان بے ساختہ سامنے اس کو دیکھ کر حیران ہو گی –
آپ یہاں ؟ جی
یہ بھی آپ نے آنے پر مجبور کیا –
کیا میں نے ؟ جی بالکل آپ نے
آپ ہی نے انکار کیا ناں مجھے سے شادی کرنے سے وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا –
اچھا تو آپ ہی نے ہی اپنے والدین کو میرے گھر بھیجا وہ غصے سے اسے دیکھتے ہوئے بولی –
ہاں میں نے ہی ان کو بھیجا تھا آپ نے انکار کیوں کیا ؟
میں آپ جیسے شخص سے کبھی بھی شادی نہ کرؤ سمجھے آپ اور آپ سے تو کبھی نہیں –
اچھا کیوں ؟
یہ تم خود بہتر جانتے ہو اور اب یہاں سے جاسکتے ہو –
اتنی بھی جلدی کیا ہے جی میری مکمل بات تو سن لیں -وہ مسکراتے ہوئے بولا
یہ انکار جو آپ نے کیا ناں اب خود اقرار میں بدل لیں تو بہتر ہے ورنہ اور بھی میرے پاس بہت سے طریقے ہیں ابھی تک تو صرف نرمی سے بات کر رہا ہوں لیکن اگر آپ نے میری بات نہ ماننی تو میں پھر کسی حد تک بھی جاسکتا ہوں -اس بار وہ سختی سے بولا –
آپ مجھے دھمکی دے رہے ہیں –
نہیں صرف بتا رہا ہوں وہ اس کی کوئی بات سننے بغیر وہاں سے جاتے ہوئے بولا-
**************