دنیا میں پاؤں گیلے کیۓ بنا سمندر کو پار کیا جاسکتا ہے مگر آنکھیں گیلی کیۓ بنا محبت کو پار نہیں کیا جاسکتا
اب چاہئے وہ محبت اللّٰہ سے ہو یا انسان سے___
مگر عارش کو اسکی محبت بنا کسی سمندر کو پار کیۓ ہی ملی تھی___بے شک یہ اسکے رب کی طرف سے ایک قیمتی احسان کیا گیا تھا___بن مانگے محبت ملنا ایک معجزه ہے___
*محبت ایک معجزه ہے*
*اور معجزے کب عام ہوتے ہیں*
اس بات کا اندازه صرف عارش کر سکتا تھا___اسی لیۓ وه آئی سی یو سے باہر آنے کے بعد شکرانے کے نفل ادا کرنے گیا تھا___
دوسری طرف سیمل بھی نفل ادا تو کرنے گئ تھی مگر شکرانے کے نہیں حاجات کے____
“بے شک ماں باپ دونوں انمول رشتے ہیں، کوئی رشتہ اسکا ردوبدل نہیں ہے___”
سیمل اپنے اللّٰه کے حُضور اپنے باپ کی لمبی عمر اور خیر و عافیت والی زندگی کی دعا مانگ رہی تھی___مگر اسکو کیا پتہ تھا باہر ایک قیامت اسکے اِنتظار میں ہے_____
زینب ، سلمان صاحب اور یاسمین عرف بیگم اکرام آئی سِی یو کے باہر کی طرف موجود تختی کرسیوں پر براجمان تھے___ جب ڈاکٹر صاحب باہر آئے___
تقریباً دوپہر کے 3 بج گئے تھے مگر کسی کو کھانے کا ہوش نہیں تھا ___ سیمل نے تو رات کا کھایا تھا مگر اب کسی کو کیا معلوم تھا کہ اب کب کھانا پڑے__ ان سب کی جان تو اندر موجود ایک شخص میں تھی____جو ایک کے لیۓ بھائی سے بھی بڑھ کر ، ایک کے لیۓ اسکے مَجازی خُدا، اور ایک انکی بیٹی کی دوست تھی جو خود بیٹی کی طرح تھی___
باقی دو اہم رشتے نوافل کی ادایگی کے لیۓ پرئیر ہال کی جانب گئے ہوئے تھے___فضا میں عجیب سی اُداسی تھی___جیسے کہیں قسمت کی دیوی کھڑی رو رہی ہو___ ان سب کے حالات کو دیکھ کر کون جانے اب کب تک کا رونا لکھا جاچکا تھا انکی تقدیر میں____
*کسی کی چلتی نہیں ربِ تعالٰی کے آگے__*
*بادشاه بھی فقیر ہے بس تقدیر کے آگے___*
پرئیر ہال کی جانب سے عارش آتا دیکھائی دیا___وه اس خبر سے انجان تھا___ جب سب کو زاروقطار روتے دیکھا تو فوراً بھاگ کر انکے پاس آیا___
اتنی دیر میں اچانک ایک نرس آئی سی یو سے برامد ہوئی___
“سر___آپ لوگ اپنی ڈیڈ باڈی لے جاسکتے ہیں___وی نیڈ بیڈ فور اینادر پیشنٹ___پلیز بی کویک___تھینک یو___”
وه بھی گویا ننھا منھا بمب پھوڑ کر جاچکی تھی___
عارش کو اپنے گال گیلے ہوتے ہوئے محسوس ہوئے___پھر اسے اپنی شریکِ حیات کا خیال آیا___
اس نے زینب سے پوچھا تو اس نے کہا کہ وه پرئیر ہال گئ تھی___ابھی بھی وہیں ہوگی وه___میں دیکھ کر بلا کر لاتی ہوں ___آخر کو اسے بھی بتانا تھا___
زینب جب وہاں پھنچی تو دیکھا وه رو رو کر اپنے بابا کی صحت یابی کی دعا مانگ رہی ہے___پر اسے نہیں پتا تھا کہ کچھ دعائیں بن مانگے قبول ہوتیں ہیں اور کچھ مانگ کر بھی ادھوری ره جاتیں ہیں____اسکی بھی ادھوری ره گئ تھی ایک دعا ___جو اسکا سب کچھ تھے وه اپنے حقیقی خدا سے جا ملے تھے___
زینب نے آتے ہی اسے اٹھایا اور باہر کی طرف لے کر چلنے لگی___سیمل کو عجیب خدشے کا احساس ہورہا تھا مگر وه ایسا سوچنا نہیں چاہتی تھی___آنکھیں رو رو کر بے حد متورم تھیں ___ناک پہ الگ سرخی مقرر تھی___
اسے لگ رہا تھا ایک ایک قدم من من بھر کا ہورہا ہے___اس نے شاید اتنی لمبی مسافت کبھی نہ طے کی تھی___آئی سی یو کے سامنے آکر وه گیٹ کھول کر سیمل کو اندر کی جانب لے گئ جہاں سلمان صاحب اکرام کے داہنی طرف سر کے پاس کھڑے تھے___انھیں کے ساتھ عارش بھی تھا ___دوسری طرف اسکی والده محترم کھڑی تھیں___
وه سمجھی کے اسکی دعا قبول ہوگئ ہے مگر ایسا کچھ نہیں تھا__
وه سب کا رونا نظر انداز کر کے آگےکی جانب بڑھی___ عارش نے ہٹ کر اسے جگہ دی___ وه اب عارش کے آگے کھڑی اپنے بابا جانی کو دیکھ رہی تھی___ جنکی آنکھیں بند تھیں ___ھمیشہ کے لیۓ بند تھیں__”بابا___” سیمل نے بے اختیار ہلکے سے آواز دی__مگر اسکے بابا ابدی نیند سو چکے تھے___ “مما دیکھیں بابا میری آواز نہیں سن رہے___”سیمل نے اپنی قسمت پہ بین کرتی ماں کو مخاطب کیا مگر وه بھی کہاں ہوش میں تھیں___جو اسکا جواب دیتی____
“انکل بابا اٹھ کیوں نہیں رہے ___”انتہائی معصومانہ سوال آیا___
انھوں نے سیمل کو گلے لگانا چاہا مگر وه کرنٹ کھا کر پیچھے ہوئی___
“میں کچھ پوچھ رہی ہوں شاید آپ سب سے___” دھیمے لہجے میں وه سب سے مخاطب تھی___اسکی یہی بات سب سے اچھی تھی وه غصے میں میں دھیما ہی بولتی تھی___
اب بھی دھیمی آواز میں ہی بول رہی تھی___
“وه اب ہم میں نہیں رہے___اللّٰه انھیں جنت نصیب کرے دعا کرو انکے لیۓ بس انھیں دعاؤں کی ضرورت ہے اب___”سلمان صاحب نے جیسے ایک قیامت برپا کی سیمل پہ___
“نہیں بابا مجھے چھوڑ کر نہیں جاسکتے ایسے__ابھی انہیں اپنی بیٹی کی کامیابی دیکھنی تھی__ بابا اٹھیے نا دیکھیں انکل کیا غلط غلط بول رہے ہیں___”
بولتے بولتے ہی وه انہیں جھنجھوڑنے لگی___جب وه تھک گئ تو گرنے کے انداز میں پیچھے ہونے لگی___ عارش سمجھا کہ وه پیچھے جانا چاه رہی ہے لیکن وه گرتی چلی گئی___سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اسنے اسے پکڑا جو اپنے ہوش و حواس سے بیگانہ اپنے محرم کی بانہوں میں جھول رہی تھی___زینب بھی بروقت آگے بڑھی مگر اس وقت تک سیمل اپنا سر کو دونوں کنپٹیوں سے پکڑے بےہوش تھی___
عارش اسے اپنی مضبوط بازوؤں میں اٹھا کر باہر آکر ایمرجنسی روم کی طرف آیا___
اسکو ایمر جنسی روم میں ڈاکٹر کے پاس چھوڑ کر وه باہر آگیا___
تھوڑی دیر میں ڈاکٹر نے آکر ایک اور چھوٹا بمب پھوڑا___
“سر انکا نروس بریک ڈاؤن ہوا ہے___ ابھی وه ہوش میں نہیں آئی ہیں___بی پی لو ہونے کے باعث انھیں کوئی دوا نھیں دے سکتے___جیسے ہی بی پی نارمل ہوگا ___ ہم انہیں ہوش میں لانے کی پوری کوشش کریں گیں___جب تک آپ دعا کریں___”
“پلیز ڈاکٹر میں مل سکتا ہوں ایک بار اور یہ بھی____”عارش نے اپنے ساتھ کھڑی زینب کی طرف اشاره کیا___
“یس___آپ مل سکتے ہیں___بٹ میک شیور ڈونٹ میک نوایس____”ڈاکٹر نے اجازت دے دی___
“اوکے سر ___ وی ٹرائی اوور بیسٹ___”عارش نے اتنا کہا اور اندر کی جانب بڑھ گیا جہاں اسکی محبت اور کچھ دیر پہلے بنی منکوحہ موجود تھی___
زینب بھی ساتھ ہی اندر آگئی___
اپنی بہن جیسی دوست کو اس ہال میں دیکھتے ہی اسکے آنکھوں سے گرم پانی نکل آیا___
دوسری طرف سلمان صاحب اور بیگم اکرام میت کو گھر لے جانے کی تیاری کر رہے تھے__اور عارش اور زینب سیمل کے پاس تھے___
زینب سے اسکو اس حال میں نہیں دیکھا جا رہا تھا___وه لڑکی جو ایک انجکشن سے بے انتہا ڈرتی ہو وه آج اس میں اتنی سویاں پیوست ہونگی___
وه اسکو دیکھ کر باہر نکل گئی تھی___
عارش جو کافی دور سے کھڑا اسکو دیکھ رہا تھا دراصل آگے بڑھتے ہوئے ڈر رہا تھا____ابھی تو اسے اسکی محبت مل تھی اور ابھی ہی ہجر دستک دینے کی کوشش کر رہا تھا___ مگر وه ایسا کچھ نہیں ہونے دے گا آخر کو سیمل کیپٹن عارش کی منکوحہ تھی___ایسے کیسے بیچ راه میں اسے چھوڑا جاسکتا تھا___
آگے بڑھ کر اسنے سیمل کے کیۓ دل سے دعا کی___وه ابھی اسکی مرضی کے بغیر اسکا ہاتھ بھی نہیں پکڑسکتا تھا___گو کہ انکا نکاح ھو چکا تھا___مگر عارش اسکی دل سی عزت کرتا تھا وه تنہائی کا فائده اٹھا کر اپنے اللّٰه کو اور اسکے بعد اپنی جان سے عزیز منکوحہ کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا___وه دو بار پہلے بھی تنہائی میں مل چکے تھے پر تب حالات اور رشتہ دونوں مختلف تھے___وه اسے نظر بھر کر دیکھنے کے بعد باہر آگیا جہاں زینب اور یاسمین آنٹی تھیں___
“زینب آپ یہی سیمل کے پاس رک جائیے___ہم سب کو گھر جانا ہوگا تدفین کے لیۓ___ پھر رات تک میں آجاونگا___”عارش نے بے بسی سے بس اتنا کہا__آخر کو وه اس گھر کا داماد تھا اور بڑا بھی تو اسے ہر کام دیکھنا تھا___
“جی بہتر___”زینب فوراً راضی ھوگئی___
باقی سب میت کے کر گھر چلے گئے___
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...