کچھ لمحوں میں وحیدصاحب آۓ اور گلے لگ گۓ حیدرشاہ کے اور سلام کیا اور پھر کہا ۔۔۔
“مبارک ہو یار , اللہ کے گھر کا بلاوا خوش نصیبوں کو اتا ہے وہاں جاکر ہمارے لیۓ بھی دعا کرنا اگلے سال ہمیں بھی وہاں جانے کی سعادت نصیب ہو ۔۔۔۔
سلام کا جواب دینے کے بعد انہوں نے کہا ۔
“انشاءاللہ بلکل دعاؤں میں یاد ہو اور وہان جاکر تمہارے لیۓ ڈھیر ساری دعائیں کروں گا ۔۔۔
پھر وہ صلاح الدین سے ملے , وہ اکثر موقعوں پر ان سے مل چکے تھے ۔۔۔ تھوڑی دیر باتوں کے بعد انشاء سر پر دوپٹا لیۓ آئی سلام کرکے اور وحید صاحب سے ملی انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی اور حال احوال پوچھا ۔۔
“کیسی ہے میری بیٹی ۔۔۔ ان کے لہجے میں اپنی اس پیاری بیٹی کے لیۓ محبت ہی محبت تھی ۔۔۔
“ٹھیک ہوں انکل ۔۔ انشاء نے جھکی نظروں سے کہا ۔۔ وحید صاحب کے دل میں درد سا اٹھا اس معصوم لڑکی کو دیکھ کر ۔۔۔ جو کم عمری میں اتنی بڑی تکلیف سے گزررہی ہے ۔۔۔ ملازم نے چاۓ اور لوزمات رکھے ان کے سامنے ۔۔۔
“میں ارام کروں گا کچھ دیر ۔۔۔ صلاح الدین نے کہا ۔۔
“ارے چاۓ پی کر پھر جاؤ ۔۔ حیدر صاحب نے کہا ۔۔
“نہیں یار بہت تھکا ہوں شام میں چاۓ پیوں گا ۔۔۔ ابھی بہت مھمان نوازی تم سے لوں گا فکر نہ کر یار ۔۔ صلاح الدین نے ہنستے پوۓ کہا انشاء کو دیکھ کر ۔۔۔ وہ مطئمن تھے اور ان کو یقین تھا ولید شاہ کے لیۓ انکار کر ہی نہیں سکتا حیدرشاہ ۔۔۔
صلاح الدیں کے مسکرانے پر حیدرشاہ پہلو بدل کر رہ گۓ وہ سہی سے مسکرا بھی نہ سکے ۔۔۔ ان کی اس کیفیت کو وحید صاحب نے خوب سمجھا ۔۔۔
“انشاء بیٹی چاچا کو ان کا کمرہ دکھاؤ ۔۔ جو ان کے لیۓ سیٹ کرنے کو کہا تھا میں نے ۔۔۔ حیدرشاہ نے کہا انشاء سے۔۔۔
“جی بابا جان ۔۔ انشاء نےان کے حکم پر کہا ۔۔۔
ان کے جانے کے بعد , وحید صاحب نے ان کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوۓ کہا ۔۔۔
“کیا بات ہے , جتنا خوش میں تمہیں دیکھنا چاہ رہا تھا اتنا لگ نہیں رہے , حج کرنے جارہے ہو اور چہرے پر اتنی مایوسی کیا بات ہے ۔۔۔
واقعی سچا دوست کسی نعمت سے کم نہیں کیسے لمحوں میں دوست کے دل کا حال محسوس کرگۓ تھے وہ۔۔۔
“اتنا بےچین کیوں ہو شاہ , بولو بھی ۔۔۔ وحید نے دوبارہ پوچھا۔۔
“سمجھ نہیں اراہا کیسے کہوں ۔۔۔ انہوں نے پرسوچ انداز میں کہا پھر لمحے بھر کو ٹھر کر دوبارہ بولے ۔۔
“صلاح الدین نے اپنے بیٹے ولید شاہ کا رشتہ مانگا ہے انشاء کے لیۓ ۔۔۔
“تو تم کیا کہتے ہو ۔۔۔ وحید صاحب نے پوچھا ۔۔ وہ پوری بات سنے بغیر تبصرہ کرنے کے قائل نہ تھے ۔۔
“میرا دل نہیں مانتا , چالیس سالہ ولید شاہ ہی میری معصوم بیٹی کے لیۓ رہ گیا ہے وہ گاؤں کے رہنے والے جاگیردارانہ روایتی سوچ رکھتے ہیں۔۔۔ پر ۔۔۔
“پر کیا ۔۔۔ وحید صاحب نے پوچھا ۔۔۔
“پر حج پر جانے سے پہلے اپنے فرض سے سبکدوش ہوکر جانا چاہتا ہوں , میں اپنی بیٹی کو تاعمر ایمان کے نام پر نہیں بٹھانا چاہتا اور اتنی جلدی کرنا انشاء کے ساتھ زیادتی بھی ہوگی وحید ۔۔۔
ایک لمحے کے لیے سانس لینے کو رکے اور دوبارہ کہا ۔۔۔
” میں بہت مشکل میں ہوں دوست , اس طرح انشاء کو اکیلا چھوڑ کر میں اپنے فرض سے منہ موڑ کر , حج پر چلا جاؤں تو کیا میرا حج قبول ہوگا ۔۔۔
اس فکر اور پریشانی نے ان کے دل کا سکوں ہی لوٹ لیا تھا ۔۔۔
کتنا خوش تھے وہ حج پر جانے کے لئے , اب اس فکر نے , ان کی خوشی کو ملیا میٹ کردیا ۔۔۔ جس سکوں کے لیۓ وہ حج پر جارہے تھے شاید اب وہ سکوں وہاں بھی نہ ملے ۔۔۔
“حج قبول اور ناقبول اللہ کے ہاتھ میں ہے تم ایسا نہ سوچو شاہ ۔۔۔
“پر وحید , اب وہ دل کا سکوں بھی نہیں ملے گا جس کے لیۓ میں حج پر جانے کا پروگرام بنایا تھا ۔۔۔ وحید کی بات سن کر دکھ سے حیدر شاہ نے کہا ۔۔۔
“اس طرح کیوں سوچتے ہو , اب بھی چاہو تو انشاء کے فرض سے سبکدوش ہوکر جاسکتے۔۔۔
“میں ولید شاہ سے نہیں کروانا چاہتا وحید ۔۔۔ میں اپنی بیٹی کو خود سے دور نہیں کرنا چاہتا , ایک بیٹا کھو چکا ہوں اب بیٹی کو بھی اتنا جلدی جدا کردوں خود سے یہ ممکن نہیں میرے لیۓ ۔۔۔ انہوں نے فکر مندی سے کہا۔۔
“میں ولید شاہ کی بات نہیں کررہا , میں ہمارے بیٹے عیان کی بات کررہا ہوں ۔۔ اس سے بہتر کوئی نہیں انشاء بیٹی کے لیۓ , گھر کی بیٹی گھر میں ہی رہ جاۓ گی ۔۔۔ اس طرح سے تم بیٹے اور بیٹی دونوں کے فرض سے سبکدوش ہو جاؤ گے شاہ ۔۔۔ پھر تو سکوں ہی سکوں ہوگا تمہارے اندر ۔۔۔
وہ شاک ہوۓ وحید صاحب کی بات سن کر ۔۔۔
“کیا ۔۔عیان , وہ نہیں مانے گا ۔۔ اج تک نہیں مانا شادی کے لیۓ , اور اب تو وہ بلکل نہیں مانے گا انشاء کے لیۓ وہ اس طرح سوچ بھی نہیں سکتا , میں جانتا ہوں اپنے بیٹے کو ۔۔۔
حیدرشاہ نے کہا اور نفی میں سرہلایا ۔۔۔
“کیسے باپ ہو ۔۔۔ بیٹے کو منا نہیں سکتے , ہر وقت اس کی بات کو اہمیت دیتے ہو ۔۔۔
“میں زبردستی کا قائل نہیں , اور اگر میں زبردستی پر آیا تو میرا بیٹا مجھے انکار نہیں کر سکتا ۔۔ حیدرشاہ نے کہا ۔۔۔
” تو بس بات ہی ختم ۔۔۔ زبردستی کر کے منوالو عیان کو , کیونکہ انشاء کو کوئی نہیں سنبھال سکتا سواۓ اس کے , تمہارے خود کے یہ لفظ تھے کچھ دن پہلے , اس گھر کے علاوہ وہ کہیں نہیں رہ سکے گی ۔۔۔
کچھ لمحے کی خاموشی کے بعد وحید صاحب دوبارہ بولے ۔۔۔ وحید صاحب بولنے کے ساتھ ان کے چہرے کے تاثرات بھی بغور دیکھ رہے تھے ۔۔۔
” انشاء کے لیۓ تمہیں یہ کرنا ہے شاہ کیونکہ عیان کے سوا کوئی نہیں سمجھ سکتا انشاء کی حالت , اور اس کے احساسات ایمان کے لیۓ , ہم سب گواہ ہیں ان کی محبت کے , کوئی اور مرد انشاء بیٹی کی سوچوں میں بھی کسی کا دخل برداش نہیں کرے گا جبکہ عیان ایمان کا بھائی ہے وہ کبھی عام مردوں کی طرح انشاء کے لیۓ نہیں سوچے گا, یہی بہتر فیصلا ہوگا تم سب کے لیۓ ۔۔۔
وحید صاحب کی تفصیل سے کی بات نے حیدرشاہ کے دل پر گہرا اثر چھوڑا تھا ۔۔۔
” تم ٹھیک کہے رہے ہو ۔۔۔ حیدر شاہ نے کہا ۔۔۔
کافی دیر اسی ٹاپک پر بات کرتے رہے دونوں دوست ۔۔۔
@@@@@@@
رات کے کھانے کے وقت وہ جانے انجانے میں ان دونوں کو ایک ساتھ دیکھنے کی خواہش سے دیکھنے لگے اور ان کے اندر شدت پکڑی اس خواہش نے ۔۔ وہ اس نظر سے دونوں کو دیکھنے لگے ۔۔۔ ان جو وحید صاحب کا آئیڈیا بالکل ٹھیک لگا۔۔
رات کے کھانے کے بعد انشاء نے سب کو قہوہ دیا اور خود اپنے کمرے کی طرف چلی گئی ۔۔
“بابا جان مجھے آفس کا کام ہے میں چلتا ہوں آپ چاچو سے باتیں کریں ۔۔۔ عیان نے قہوہ ختم ہونے کے بعد کہا ۔۔
“ٹھیک ہے بابا اور چاچو , میں چلتا ہوں ۔۔۔ اس نے کھڑے ہوتے ہوۓ کہا بیک وقت دونوں سے کہا۔۔۔
“ٹھیک ہے بیٹا تم جاؤ ۔۔۔ اور عیان چلا گیا ۔۔۔
کچھ لمحے خاموشی کے نظر ہوۓ جسے حیدرشاہ کی آواز نے توڑا ۔۔
“صلاح الدین تمہارے احساس دلانے پر مجھے اپنی ذمہ داری کا احساس ہوا ۔۔ اس لئے بہت سوچنے کے بعد میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ میں حج پر جانے سے پہلے۔۔۔
صلاح الدین بہت غور سے حیدرشاہ کی بات سن رہے تھے اور اندر سے خوش بھی تھے کہ انہوں نے اس طرف ان کا دھیان دلوایا۔۔۔
” میں حج پر جانے سے پہلے عیان اور انشاء کا نکاح کروا کر اپنی ذمہ داری اور فرض پورا کروں گا تاکہ سکون سے اللہ کے گھر جاکر حج ادا کرسکوں ۔۔۔
اب کے شاک صلاح الدین کو لگا ۔۔ ایک لمحہ کو لگا کہ ان کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو پر غور کرنے پر احساس ہوا کہ انہوں نے جو سنا وہی حیدرشاہ کہے رہے ہیں ۔
” یہ تم کیا کہہ رہے ہو تم اپنی بیوہ بہو کی شادی اپنے کنوارے بیٹے سے کرواؤ گے ۔۔۔ حد ہے , کیا عیان کے لیۓ یہی ایک لڑکی رہ گئی ہے , کمال کرتے ہو تم حیدر یار , ایسی بھی کیا محبت اس یتیم لڑکی سے کہ اپنے کنوارے بیٹے کا خیال نہیں تمہیں ۔۔۔
صلاح الدین کو حقیقتً شاک لگا تھا اسی لئے ان کو احساس ہی نہیں تھا کہ وہ کیا بولے جارہے ہیں ۔۔ جو ان کے منہ میں آ رہا تھا وہ کہہ رہے تھے اور حیدرشاہ حیران تھے کہ اس طرح کی سوچ وہ انشاء کے لیے رکھتے ہیں ۔۔۔ اب کے صدمہ حیدر شاہ کو لگاتھا ان کا بھائی , دوست اس طرح بات کرے گا ان کی بیٹی کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے ۔۔۔
اب ان کو ساری باتیں سمجھ آگئی تھی کہ وحید کیا سمجھانا چاہ رہا تھا ان کو ۔۔۔بلکل ٹھیک کہا تھا وحید نے جو اہمیت اس گھر میں مل سکتی ہے انشاء کو وہ کہیں بھی کبھی بھی نہیں مل سکتی ۔۔۔ اور وہ اپنی بیٹی کی بےقدری نہیں ہونے دے سکتے تھے اور اب تو بلکل بھی نہیں ۔۔۔
“انشاء میری بیوہ بہو بعد میں پہلے میری بیٹی ہے صلاح الدین , آئندہ کبھی اس طرح کی کوئی بات انشاء کے لیۓ مت کرنا ورنہ میں بھول جاؤں گا تم سے میرا کیا تعلق ہے ۔۔۔انہوں نے غصہ ضبط کرتے ہوۓ کہا ۔۔
شاید ہر باپ اپنی بیٹی کے لیۓ ایسا ہی جذباتی ہوتا ہے جس طرح اس وقت حیدرشاہ ہورہے تھے ان کے چند نفرت آمیز لفظ انشاء کے لیۓ ان سے برداش نہیں ہورہے تھے ۔۔۔
شام میں جو فیصلا کرکے وہ کشمکش کا شکار تھے اب وہ بلکل ختم ہوگئی تھی وہ کشمش کیونکہ اب ان کا فیصلا اٹل تھا انشاء ہر صورت میں عیان کی بیوی ہی بنے گی ۔۔
“تم اتنی بڑی بات کررہے ہو حیدر , سوچو عیان مانے گا بھی کہ نہیں۔۔۔ اتنا خوبرو ہے تمہارا بیٹا بلکل نہیں مانے گا اس بےجوڑ تعلق کے لیۓ ۔۔۔
انہوں نے فخریہ لہجے میں کہا۔۔۔
” پرسوں ہی جعے کے روز یہ نکاح ہوگا دیکھ لینا تم ۔۔۔ حیدرشاہ نے کہا ۔۔۔
“ہمممم دیکھ لیں گے ۔۔ دیکھتے ہیں آج کی اولاد کتنی فرمانبردار ہے اپنے باپ کی۔ ۔ صلاح الدین غصے سے کہے کر اٹھ کھڑے ہوۓ اور کمرے کی طرف بڑھے جو ان کے لیۓ سیٹ تھا …
@@@@@@@
حیدر شاہ کہنے پر اۓ تو چیلینج کر لیا پر اب دونوں کو منانا تھا ان کو ۔۔۔ اور وہ بھی جلد ہی ۔۔۔
کچھ سوچ کر وہ اٹھے اور عیان کے روم میں آۓ ۔۔۔
دروازہ کھول کر اندر آ گئے اور عیان نے فائل سے سر اٹھا کر دیکھا تو حیران ہوا بابا جان کو اپنے کمرے میں دیکھ کر ۔۔۔
” ارے بابا مجھے بلا لیتے میں آجاتا ۔۔۔
” بس بیٹا دل چاہا تو آ گیا سوچا شاید تم سو گئے ہو گے ۔۔۔ انہوں نے جو منہ میں کہے دیا ۔۔ جبکہ اندر سے پریشان جو تھے۔۔۔
” آپ کو پتہ ہے بابا میں دیر سے سوتا ہوں ۔۔۔ عیان نے مسکرا کر کہا ۔۔
“ہممم مجھے پتا ہے ۔۔۔ انہوں نے کہا ۔وہ ان کے چہرے کے تاثرات دیکھ رہا تھا ۔۔۔ جو کچھ عجیب سے ہو رہے تھے ۔ کہیں نہ کہیں والی کیفیت عجیب ہی ہوتی ہے ہمیشہ سے ۔۔ اس وقت یہی حال حیدرشاہ کا بھی تھا ۔۔۔ کیونکہ اگر عیان نے سختی سے انکار کیا اب کے تو وہ برداش نہیں کرپائیں گے ۔۔۔
” بیٹا تم سے کچھ مانگنا چاہتا ہوں, کیا مانگ سکتا ہوں ۔۔۔ حیدرشاہ نے سوالیہ انداز میں پوچھا ۔۔۔ عیان شرمندہ ہوا ان کے انداز پر ۔۔۔ وہ باپ ہوکر اس سے اجازت طلب کررہے تھے یہ افسوس کا مقام تھا ایک بیٹے کے لیے ۔۔۔ عیان کی کیفیت کچھ ایسی ہی ہورہی تھی ۔۔ اس لیے اس نے جلدی سے بابا جان سے کہا۔۔۔
“ہاں بابا جان , آپ پوچھ کیوں رہے ہیں آپ حکم کریں بابا ۔۔
“بس عیان میرے حج پر جانے سے پہلے شادی کرلو , مان جاؤ , میں فیصلا کرچکا ہوں ۔۔۔
وہ بات کو زیادہ طول نہیں دے رہے تھے سیدھا مدے کی بات پر اگۓ ۔۔ اب شاک ہونے کی باری عیان کی تھی ۔۔
وہ حیران ہی ہوا ابھی ایک جھٹکا وہ پہلے دے چکے تھے بنا اسے بتاۓ حج پر جانے کا ۔۔ اس سے ہی مشکل سے سنبھلا تھا عیان کہ اب دوسرا جھٹکا دے دیا تھا انہوں نے ۔۔۔
“بابا جان اتنا جلدی , ابھی ایمان کو گزرے وقت ہی کتنا ہوا ہے مجھ سے نہیں ہوگا ۔۔۔ عیان نے خود کو پرسکون کرکے کہا ۔۔۔
” عیان میں نے تم سے پوچھا نہیں میں حکم دے رہا ہوں ۔۔۔ میں نے پرسوں تمہارے نکاح کا فیصلا کرلیا ہے ۔۔
حیدرشاہ سخت دوٹوک لہجے میں کہا ۔
“بابا جان آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں , بغیر مجھ سے پوچھے اور لڑکی بھی اپ کو مل گئی اتنا جلدی ۔۔۔
” تم سے پوچھتا ہی رہا تھا ابھی تک , تو اتنی دیر ہوگئی ۔۔۔ اب اور دیر نہیں کروں گا ۔۔۔ تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں ۔۔
” حکم سنا کر پھر اعتراض کا کیسے اور کس طرح سے پوچھ سکتے ہیں آپ۔۔۔ جب آپ نے فیصلہ کر ہی لیا ہے تو میں کیا کہہ سکتا ہوں ۔۔
اس کے اندر غضب کا اعتراض تھا پر بروقت اسے یاد ایا کہ باباجان کے ڈاکٹر نے کہا تھا ان کو اسٹریس سے دور رکھا جاۓ اور اب تو وہ حج پر جارہے ہیں تو وہ کیسے ان کو کوئی دکھ تکلیف دے سکتا ہے ۔۔ اس لیۓ خاموش ہوگیا ۔۔
ویسے تو عیان نے سوچا تھا وہ بابا کے ساتھ حج پر چلا جاۓ پھر انشاء کو یہاں اکیلا چھوڑنا مناسب نہ تھا اس لیۓ اس نے ارادہ کینسل کردیا تھا ۔۔ اور ویسے بھی سعودی میں ان کے جاننے والے بہت تھے اسی لیۓ وہ بےفکر تھا ۔۔۔
“تم نے ہوچھا نہیں لڑکی کا ۔۔۔ انہوں نے پوچھا ۔۔ کیونکہ وہ جلد اسے بتانا چاہتے تھے ۔۔۔
“پوچھ کر کیا کروں مجھے اندازہ ہے اپ نے وحید انکل کی بیٹی کےلیۓ من بنالیا ہوگا ۔۔ اپ کو ویسے بھی چینا بہت پسند جو ہے ۔۔۔ عیان نے چڑ کر کہا اور دوبارہ فائل دیکھنے لگا ۔۔۔
” عیان تم غلط سمجھ رہے ہو۔۔۔ انہوں نے دھیمے لہجے میں کہا ۔۔۔
“کیا مطلب ۔۔
“میں نے تمہارا نکاح انشاء کے ساتھ کرنے کا فیصلا کرچکا ہوں مجھے تمہاری رضامندی۔۔۔۔ وہ اپنی بات مکمل بھی نہ کرپاۓ تھے ایک دم عیان نے ان کی بات کاٹ کر جلدی سے کہا۔۔۔
“نہیں بابا جان ایسا کچھ مجھ سے کرنے کو نہ کہیں جو میں کر نہ سکوں , یہ ممکن نہیں باباجان , نہیں ہوگا مجھ سے , اتنا نہ ازمائیں مجھے ۔۔۔ میں نہیں کرسکتا بابا جان میں نہیں کروں گا ۔۔۔
وہ بےچین ہوگیا تھا ان کا فیصلا سن کر پر ماننا اس کے بس سے باہر تھے ۔۔۔
وہ ان کے ہاتھ تھام چکا تھا ” پلیز بابا مجھے ایسے نہ آزمائیں ۔۔۔ عیان کے لہجے میں التجا تھی ۔۔۔
“بابا وہ میرے بھائی کی ۔۔۔ حیدر شاہ نے اپنے ہاتھ چھڑاۓ ان سے اور اس کی بات کاٹ کر سرد لہجے میں کہا ۔۔۔
“بس عیان ایک لفظ اور نہ کہنا , ایمان نہیں رہا وہ اس کی بیوی نہیں بیوہ ہے جس سے تمہارا نکاح جائز ہے ۔۔
“پر بابا پھر بھی ۔۔۔ عیان نے کچھ کہنا چاہا اس کے ہر انداز میں انکار تھا اس رشتے کے لیۓ ۔۔۔ پھر اس کی بات کاٹ کر حیدرشاہ نے کہا ۔۔
“بس عیان , اولاد بڑی ہو جائے تو پھر ماں باپ کے فیصلے کبھی نہیں مانتی صحیح کہا تھا صلاح الدین نے ۔۔۔ میرا بیٹا نہیں مانے گا میری بات ۔۔۔ بہت فخر تھا اس کے چہرے پر اپنی بات کا , وہ صحیح تھا میں ہی غلط تھا ۔۔۔ جو مجھے مان تم پر تھا وہ بھی غلط تھا ۔۔ آج کے بعد کبھی نہیں کہوں گا تم سے شادی کا ۔۔۔
ان کے لہجے کی مایوسی پر وہ تڑپ ہی اٹھا تھا ۔۔۔
” صلاح الدین نے فخر سے ولید شاہ کا رشتہ مانگا تھا , میں نے انکار دیا کیونکہ اپنی بیٹی ایسے بےقدروں میں دے کر رولنا نہیں چاہتا تم پر مان تھا سو فخر سے تمہارا نام لے بیٹھا , غلطی ہوگئی مجھ سے ۔۔۔
اس سے زیادہ عیان کی برداش سے باہر تھا ایک دم اچانک بولا ۔۔
“بس کریں باباجان , ایسے نہ کہیں , مجھے کوئی اعتراض نہیں , میں تیار ہوں , مجھے اپ کا ہر فیصلا منظور ہے ۔۔۔
“واقعی تمہیں کوئی اعتراض نہیں ۔۔۔ انہوں نے یقین بےیقین سی کیفیت میں پوچھا ۔۔
“بلکل نہیں باباجان , اپ کی خوشی میری خوشی ہے , اپ خوش ہوکر حج کرنے جائیں گے ۔۔ عیان نے یہ لفظ کس کرب سے کہے تھے یہ صرف وہی جانتا تھا ۔۔۔
“عیان تم نے مجھے بہت بڑی خوشی دی ہے ۔۔ انہوں نے خوشی سے اسے گلے لگالیا ۔۔۔ وہ مسکراۓ اور وہ پھیکی ہنسی ہونٹوں پر لایا ۔
@@@@@
رات وہ انشاء سے بات نہ کرسکے کیونکہ بہت لیٹ ٹائم ہوگیا تھا ۔۔۔ صبح ہوتے ہی سویرے عیان نکل گیا آفیس کے لیۓ ۔۔۔
اگلے دن سب کا انا جانا لگا تھا ۔۔۔ کیونکہ سب مبارکباد کے لیۓ ارہے تھے جیسا کہ اج کل کا رواج تھا ۔۔۔ حج پر جانے سے پہلے سب ملنے والے اتے رہتے تھے ۔۔۔
حویلی والے بھی پہنچ چکے تھے ۔۔۔ بڑی بی بھی آئیں تھیں حویلی سے ۔۔ کافی کچھ لائیں تھیں فروٹس کے ٹوکرے وغیرہ ۔۔
“بس حیدر تم نے جلدبازی کردی عیان کے رشتے میں ہم نے بہت کچھ سوچ رکھا تھا پر کوئی بات نہیں ۔۔۔ بڑی بی نے کہا ۔۔۔
انشاء اور زینب بی حیران تھیں وہ کیا کہے رہی ہیں ۔۔۔
“بس بی جان اچانک خیال ایا تو سوچا نیک کام میں دیر کیسی ۔۔۔ حیدرشاہ نے کہا ۔۔۔
صلاح الدین سخت تاثر لیۓ اپنی مان کو دیکھ رہے تھے ان کو برا لگ رہا تھا وہ عیان کے لیۓ کیوں اتنا خوش ہورہی ہیں جبکہ ان کا خیال تھا انشاء ولید کے لیۓ مانگ لیں پھر اپنی چھوٹی بیٹی کے لیۓ عیاں کا کہیں گے یوں دوہرا تعلق بنائیں گے پر یہاں تو قصہ ہی الٹ گیا تھا ۔۔
صلاح الدین جذباتی تھا پر بڑی بی اب خاندان کی واحد بزرگ تھیں اس لیۓ انہوں نے سمجھداری سے ساری بات کو سنبھال گئیں ۔۔ کیونکہ وہ اچھی طرح سمجھتی تھیں کہ حیدر شاہ اپنی سے ہٹے گا نہیں پہلے بھی ایمان کے وقت بھی اپنی مرضی سے فیصلا کرکے صرف انفارم کرنے کی فارمیلیٹی پوری کی تھی ۔۔۔ اب کے بھی اپنی مرضی کرچکا تھا تو کیا فائدہ اس بحث کا ۔۔۔
جب بڑوں سے فیصلہ مانگا نہ جائے تو پھر بڑوں کا بھی فرض ہے کہ وہ چپ چاپ چھوٹوں کے مناسب فیصلے میں ان کا ساتھ دیں ۔۔۔ یہی بی جان نے کیا تھا ۔۔۔
“بلکل نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہیۓ ۔۔۔ ادھر آو انشاء ۔۔۔ بی جان نے بات کی تصدیق کرنے کے ساتھ ساتھ انشاء کو اپنے پاس بلایا پیار سے ۔۔
انشاء سادے سفید اور گلابی جوڑے میں ملبوس سر پر دوپٹا لیۓ گھر کے کام نبٹارہی تھی ۔۔ وہ ہر بات سے بےخبر ان کے بلاوے پر آئی اور انہوں نے اپنے پاس بیٹھنے کو جگہ دی ۔۔۔ ان کے انداز پر وہ حیران ہی ہورہی تھی ۔۔۔
“یہ میری عیان کی دلہن کے لیۓ خاص بنوایا ہے میں نے حیدر ۔۔۔ انہوں نے سونے کی بھاری چین میں بھاری پینڈنٹ تھا خوبصورت سا ۔۔ وہ ہاتھ میں لے کر لہرایہ انشاء کے سامنے وہ نارمل انداز میں وہ دیکھتی رہی ۔۔۔ سب ان کی طرف متوجہ تھے اور حیدرشاہ پریشان ہوۓ کیونکہ اب تک انشاء بےخبر جو تھی ۔۔۔
اچانک سے انہوں نے وہ ہار اس کے گلے میں ڈالا اور کہا ۔۔۔
“اللہ سلامت رکھے تم دونوں کی جوڑی کو ۔۔۔ کل نکاح کا جوڑا بھی ہماری طرف ہوگا عیان کی دلہن کا ۔۔۔۔
بڑی بی نے محبت سے اس کی پیشانی چومی وہ کا بکا ہوکر یہ سب دیکھ رہی تھی ۔۔۔ وہ ہار نہیں اسے کسی سانپ یا بنچھو سا لگا جو اس کے گلے میں ڈالا گیا وہ ہکا بکا ہوکر سب کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔ سب کے نارمل تاثرات اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ سب اس بات کو جانتے ہیں صرف وہی بے خبر تھی ۔۔۔
سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں مفلوج ہوتی محسوس ہو رہی تھیں انشاء کو اپنی ۔۔
اس کا شاک ہونا تین لوگوں نے شدت سے محسوس کیا بابا جان زینب بی بی اور دروازے سے اندر داخل ہوتے عیان نے ۔۔۔
وہ سرد نگاہ ڈالتا اس منظر پر , سب کو اگنور کرتا ہوا جانے لگا اپنے کمرے کی طرف , یہ سب اس کی برداشت سے باہر تھا۔۔۔ پر بی جان کی نظر اس پر پڑی چکی تھی اور انہوں نے عیان کو آواز دی ۔ ۔
وہ چاہ کر بھی ان کے بلاوے کو اگنور نہ کر سکا اسی لیے ان کے پاس آیا سلام کیا اور سر جھکایا ۔ انہوں نے اس کے سلام کا جواب دے کر سر پر پیار دیا ۔۔۔
اسے اور انشاء کو ساتھ بٹھایا ۔۔۔ دونوں خاموش ایک دوسرے کو اگنور کیۓ الگ سمت دیکھ رہے تھے ۔۔
کچھ دیر بعد آخر انشاء اٹھ کر چلی گئی ۔۔۔
باقی سب نے اس کی شرم و حیا سمجھا جبکہ باباجان اس کا درد اچھی طرح سمجھ رہے تھے ۔۔۔
@@@@@@@@
روتے روتے اس کی انکھ لگ گئی اچانک دروازہ کھلا ۔۔۔ ان قدموں کی آہٹ تو اچھی طرح پہچانتی تھی وہ ۔۔اس نے انکھیں بند کر کے سونے کا تاثر دینا چاہا ۔۔۔
” میں جانتا ہوں میری بیٹی جاگ رہی ہے ۔ وہ اس کے پاس اکر بیٹھے ۔۔۔
وہ ایک دم اٹھی اور ان کے ہاتھ تھام لیۓ اور کہا ۔۔۔
“نہیں بابا جان یہ ممکن نہیں میرے لیۓ مجھے اس آزمائش میں نہ ڈالیں ۔۔۔ میں نہیں کرسکتی شادی ان سے میں ان کو بھائی سمجھتی ہوں ۔۔۔
وہ سسکی ۔۔۔
“بیٹا اسلام میں منہ بولے رشتوں کی اہمیت نہیں ۔۔ مان جاؤ میری بات , یہ دیکھو میرے بوڑھے ہاتھ انہیں جوڑ کر التجا کرتا ہوں مان جاؤ میری بات , میں سکون سے اپنے رب کے روبرو ہونا چاہتا ہوں اور یہ سکون مجھے تب ملے گا جب میں اپنے فرض سے سبکدوش ہو جاؤں گا , میری ذمہ داری ہو تم مجھے پورا کرنے دو اپنا فرض ورنہ نہ یہاں سکون سے رہ پاؤں گا نہ وہاں , پلیز بیٹا مان جاؤ ۔۔۔
وہ جو کبھی اتنے ہینڈسم لگتے تھے لوگ ماننے سے انکاری ہوجاتے تھے وہ دو بیٹوں کے باپ ہیں , اج وہ شخص ایک بوڑھا اور ضعیف لگ رہا تھا ۔۔۔ وقت نے بھی کیسا پلٹا کھایا تھا ۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...