صبح بہت خوبصورت تھی۔مہر کی تو ویسے بھی ہر صبح خوبصورت تھی آج کل۔حویلی سے دور یہاں اسلام آباد میں اپنے محبوب شوہر کے گھر میں جو سکون اسے حاصل تھا شاید ہی کوئی اس کا اندازہ کر سکتا ۔یہ اٹھی تو اس کے سراہنے سرخ گلاب کی پتیاں بڑی تھی۔
“ہاں جی تو میری جان کی صبح ہوگئی۔”
شاہ بخت مہر کے پاس آیا اور اس کے سر پر پیار دیا۔شاہ بخت مہر کو بہت پیار سے چھوتا تھا۔
“جی ہاں میری صبح ہوگئی ہے ۔آپ کیوں اتنی جلدی اٹھ گئے شاہ بخت۔”
“میری جان اب شادی کو اتنے دن ہوگئے ہیں مجھے آفس بھی تو جانا ہے نہ بابا جانی کو اگر ابا نے بتا دیا کہ میں آفس پر دھیان نہیں دے رہا تو وہ مجھےآفس سے ہی نکال دیں گے۔تم بھی اب ہسپتال جائو مجھے امید ہے تم ایک بہت اچھی ڈاکٹر بنو گی۔”
“شاہ بخت ایک بات کہوں۔”
“میری جان کو مجھ سے اجازت کی ضرورت کب سے پڑ گئی۔”
“شاہ بخت وہ آیت۔۔۔۔۔وہ مجھ سے زیادہ لائک تھی۔اس نے میڈیکل بہت اچھے سے پاس کیا ہے۔میرا خیال ہے اسے آگے ہائوس جان کی اجازت دینی چائیے۔”
“میری جان اس کا شوہر نہیں چاہتا کہ وہ گھر آئے تو اس کی بیوی گھر موجود نہ ہو ۔وہ گائوں میں رہتے ہیں اور ان کا رہن سہن ہم سے الگ ہے۔اب دیکھو نہ اگر میں شام کو دیر سے آتا ہوں تو تم گھر ہوتی ہو کیونکہ تم جلدی آجاتی ہو۔نوکر ہیں کھانا بنانے کے لیئے مگر ولید کو شروع سے حویلی کی عورتیں گھر کے کام ہی کرتی ہوئی اچھی لگتی تھی۔”
“شاہ بخت یہ تو اس کے ساتھ زیادتی نہیں ۔”
“کون سے باتیں لے کر بیٹھ گئی ہو تم یار۔چلو اٹھو ناشتے تیار ہے پھر تیار رہنا ہم تمہارے ہسپتال کے لیئے نکلیں گے۔”
شاہ بخت مہر کی پیشانی پر بوسہ دے کر اٹھ گیا۔مہر کے کانوں میں ابھی بھی آیت کی کہی ہوئی باتیں گونج رہی تھی مگر وہ کہتے ہیں کچھ لوگ خود غرض ہوتے ہیں انہیں کسی کی خوشی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔مہر بھی ایسے ہی کچھ دیر میں سب بھول گئی یہ جانے بغیر کہ اس کی محبت کی کتنی بڑی قیمت جھکا رہی ہے آیت ۔
_________________________________
آیت کی آنکھ کھلی تو اسے احساس ہوا کہ اردگرد بہت گرمی ہے۔اس نے اپنے اوپر سے کمبل ہٹایا تو اسے پتا چلا کہ یہ ولید کے ساتھ سو رہی ہے۔ولید کی بازو اس کے پیٹ پر تھی جبکہ ولید نے اپنا چہرہ اس کے کندھے پر رکھا ہوا تھا۔اسے بخار محسوس ہورہا تھا۔وجود کے ہر حصے میں درد محسوس کرتے آیت کو یاد آیا کہ یہ تو رات کو باہر ہی سو گئی تھی۔رات کے کسی پہر ولید کو آیت کا خیال آیا تو یہ باہر نکلا۔آیت لان کے پیچ میں برف میں لیٹی ہوئی تھی۔اس کے وجود اس وقت اکڑا ہوا تھا۔ولید نے اسے اٹھایا اور اندر لے آیا ۔اس کے کپڑے تبدیل کیئے اور اسے گرم دودھ دیا ۔ولید کے ہر ایک انداز سے بے حسی ظاہر ہوتی تھی شاہد وہ آیت کو اس لیئے اندر لے آیا کہ ابھی اس نے آیت کو اور بھی اذیت دینی تھی۔آیت کے ہونٹ نیلے پڑے ہوئے تھے ۔ولید نے اس کے پاس ہی ہیٹر آن گیا اور خود بھی آیت کے ساتھ ہی کمبل میں لیٹ گیا۔تھوڑی دیر بعد آیت کچھ بہتر ہوئی۔اب جب آیت کی آنکھ کھلی تو اسے گرمی لگ رہی تھی اور بخار محسوس ہورہا تھا۔اس کی آنکھوں سے کچھ خاموش
آنسو گرے جہنیں اس نے صاف نہیں کیا۔ولید کی آنکھ بھی کھل گئی۔
“جاگ گئی تم ۔”
آیت نے آگے سے کوئی جواب نہ دیا۔
“امید ہے کہ رات کی سزا کافی ہوگی۔ویسے بہت نازک ہو تم آیت اتنی سی سزا برداشت نہیں کر پائی تم۔ہم خود ٹھنڈے علاقے سے ہیں ۔مجھے تو لگا تھا کہ میں نے تمہیں ایک ایسی سزا دی ہے جو تم برداشت کرپائو گی۔خیر امید ہے اب آگے سے تم ایسا کوئی کام نہیں کروں گی جو میری باتوں کے خلاف ہوگا۔میں اٹھ رہا ہوں۔ابھی فضل کی بیوی آئے گی سارے کاٹیچ کو صاف کر دے گی اور دن کا کھانا بھی بنا دے گی۔تم آرام کر لو۔تمہیں بخار ہورہا ہے۔میں نے دوائی تمہیں رات کو بھی دی تھی ابھی بھی لے لینا ٹھیک ہو جائو گی۔”
“ولی تمہیں اپنا علاج کروانا چاہئیے۔تمہاری جو حرکتیں ہیں وہ ایک نارمل انسان کو ظاہر نہیں کرتی۔”
ولید کو آیت کا لہجہ اپنا مذاق اڑاتا ہوا محسوس ہوا۔
“کیا کہا تھا میں نے تمہیں کہ مجھے یہ تم کی زبان تمہارے منہ سے سخت زہر لگتی ہے ۔کیا رات کو تمہیں سبق حاصل نہیں ہوا تھا آیت۔تم کیا چاہتی ہو میں اور سختی کروں تمہارے ساتھ۔میرا خیال ہے تمہیں عقل نامی چیز کا پتا نہیں ہے۔”
آیت نے اپنی آنکھوں سے نکلا ہوا آنسو صاف کیا اور کروٹ بدل کر لیٹ گئی۔اس وقت اسے سکون چاہیئے تھا اور یہ ہرگز اس حق میں نہیں تھی کہ ولید سے اور بحث کرتی۔ولید اٹھ گیا۔آیت ولید کے گھر سے جانے کے بعد اٹھی۔فضل کی بیوی بہت اچھی تھی۔
“ہائے بی بی آپ کو تو بخار ہے۔”
“ارے نہیں میں ٹھیک ہوں۔”
“کیسے ٹھیک ہیں آپ دیکھیں تو چہرہ کتنا زیادہ سرخ ہورہا ہے آپ کا۔ ”
“ارے نہیں میں بلکل ٹھیک ہوں بس مجھے ناشتہ دے دو۔”
“جی بی میں ابھی لائی۔”
فضل کی بیوی اس کا ناشتہ لائی۔دوائی لینے کے بعد یہ لیٹ گئی۔فضل کی بیوی کھانا بنانے اور صفائی کرنے کے بعد اس کے کمرے میں ہی آگئی ۔
“بی بی جی میں آپ کے پاس بیٹھ جائوں ۔”
“ارے ہاں کیوں نہیں بیٹھ جائو۔”
فضیلہ سامنے صوفے پر بیٹھ گئی۔
“بی بی لگتا ہے آپ کی پسند کی شادی ہوئی ہے خان جی سے۔”
“ارے نہیں وٹے سٹے کی شادی ہوئی ہے ہماری۔ولید مجھ سے چھ سال چھوٹے ہیں ۔”
“ہائے بی بی ایک بات کہوں اگر برا نہ لگے تو۔”
آیت نے سر ہلایا جس کا مطلب تھا کہ ہاں تم بات کر سکتی ہو۔
“بی بی جی یہ جو وٹے سٹے کی شادیاں ہوتی ہیں نہ جی کہاں چلتی ہیں یہ۔ہمارے اپنے خاندان میں دو گھر ایسے ہی خراب ہوئے۔ایک فریق نے اپنی بیوی کو طلاق دی تو دوسرے نے بھی طلاق دے دی۔پیچ میں ان کے بچے پس کر رہ گئے۔مگر آپ کو دیکھ کر تو نہیں لگتا کہ کچھ غلط ہے۔خان تو بڑے اچھے ہیں جی۔”
“اچھا ۔۔۔۔۔میرا بھائی کبھی بھی میری خاطر بھابھی کو کچھ نہیں کہے گا وہ ان سے بہت محبت کرتا پے۔ویسے بھی ہمارے خاندان میں آج تک کسی کو طلاق نہیں ہوئی ۔”
“بی بی جی اب تو زمانہ بدل گیا ہے۔ہم نے جب اپنی بیٹی کی شادی کی تھی نہ تو میرے مرد نے اس کو کہہ کر بھیجا تھا کہ یہ نہ سمجھیں کہ تیری شادی کر دی ہے تو ہمارا تجھ سے کوئی تعلق نہیں ۔ہمارے گھر کے دروازے تیرے لیئے ہمیشہ ہی کھلے ہیں ۔ہماری بیٹی تو جی بڑی سکھی رہ رہی ہے۔”
آیت کی آنکھوں میں اپنے ماں باپ کا سوچ کر آنسو نکل آئے۔بے شک ولید نے منع کیا تھا سب کو آیت سے ملنے تھے مگر سب ملنے تو آسکتے تھے نہ۔کیا آیت سب کے لیئے اتنی پرائی ہوگئی تھی۔اس سے بہتر تو یہ لوگ تھے کم کھاتے تھے مگر بیٹی کو عزت تو دیتے تھے۔
“اچھا سنو کیا یہ علاقہ خوبصورت ہے۔”
“بہت خوبصورت ہے بی بی جی آپ خان کے ساتھ جانا نہ باہر۔آپ کہیں تو باہر لے جائوں آپ کو۔دوپہر ہوگئی ہے آپ بہتر محسوس کریں گی۔”
“چلو چلتے ہیں اب تو بخار کم ہے۔”
دن کا کھانا کھا کر آیت نے فضیلہ سے کہا کہ تھوڑی دیر لے لیئے باہر چلتے ہیں اسے آس پاس کا علاقہ ہی دیکھا دے۔دھوپ نکلی ہوئی تھی جو برف پر پھیلی بہت پیاری لگ رہی تھی۔آیت نے لانگ کوٹ پہنا اور اس کے ساتھ باہر آئی۔یہ لان کی کرسیوں پر بیٹھی ہوئی تھی۔سامنے ویرانے کو دیکھ کر دو پل اسے خوف آیا مگر پھر اپنا رات کو اس ویرانے میں ہونا یاد آیا ۔ولید ابھی ابھی واپس آیا تھا۔اس کے ہاتھ میں پھولوں کے گجرے تھے۔ساتھ اور بھی کافی ساری چیزیں تھی۔
“خان جی ۔۔۔۔۔”
فضیلہ کی آواز پر آیت نے نظر اٹھا کر اوپر دیلھا۔ولید آگیا تھا۔
“تم جائو۔”فضیلہ فورا ہی چلی گئی۔
“اب کیسی طبیعت پے تمہاری۔”
“اب ٹھیک ہوں خان۔”
ولید اس کے سامنے گھٹنوں کے پل بیٹھا اور شاپر سے سفید پھولوں کے گجرے نکالے۔آیت کا ہاتھ تھام کر ولید نے سے گجرے پہنائے۔
“میں نے سوچا میری بیوی بھی کہتی ہوگی ہم یہاں شادی کے بعد آئے ہیں تو میں نے اسے کچھ لے کر ہی نہیں دیا ۔”
آیت کو کوئی خوشی نہیں کررہی تھی ولید کے اس رویے سے کیونکہ وہ ثابت کر چکا تھا کہ آیت کی کیا اہمیت ہے اس کی نظر میں ۔آیت کی چھوٹی پر بھی ولید بھی گجرے لگائے تھے۔
“بہت پیاری ہو تم ۔تیار ہوکر رہا کرو مجھے اچھا لگتا ہے جب تم تیار ہوتی ہو۔ان ہاتھوں پر مہندی اچھی لگتی ہے۔فضیلہ کی بیٹیوں سے کہوں گا تمہیں مہندی لگا جائیں ۔ہم نے یہاں پندرہ دن رہنا ہے۔میں چاہتا ہو تم میری ہر ضرورت کا خیال رکھو۔اس رشتے نے ساری زندگی اب رہنا ہے۔”
“خان رشتے احساس سے بنتے ہیں عزت اور احترام سے بنتے ہیں ۔اگر آپ میری عزت نہیں کریں گے تو میں کیسے اس رشتے کو آگے بڑھا پائوں گی ۔”
“تم میری نیچر سے واقف ہو آیت۔میں غصے کا تیز یوں۔بچپن میں دادی صاحب میرے سارے لاڈ اٹھاتی تھی۔ان کی وجہ سے میں نے کوئی کام خود کیا ہی نہیں ہے۔اب مجھے عادت بھی نہیں رہی کہ میں کچھ بھی خود کروں۔مجھے بچپن سے ہمیشہ لینا سیکھایا گیا ہے میری فطرت میں کچھ خامیاں ہیں ۔امید ہے وقت کے ساتھ ساتھ سب بہتر ہوگا۔چلو آئو تمہیں علاقہ دیکھاتا ہوں”
آیت اس لمحے خاموش ہوگئی ۔کبھی کبھی خاموشی بہترین ہوتی ہے اس لیئے آیت نے بھی خاموشی اختیار کر لی کیونکہ ابھی کچھ بھی کہنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔نجانے ولید نے بدلنا تھا یا نہیں اور آیت کی زندگی نے کیا موڑ لانا تھا۔
_____________________________
آیت کی والدہ کمرے میں بیٹھی اپنی بیٹی کو یاد کر رہی تھی۔آیت جو مرضی کہہ دیتی یہ تھی تو یہ ماں ہی نہ۔ان کے دل کو کیا نہیں پتا چلتا تھا جب آیت کو تکلیف ہوتی تھی۔شادی کے اگلے روز اپنی بیٹی کے چہرے پر انگلیوں کے نشان اور کسی نے دیکھے ہوں یا نہ دیکھے ہوں مگر انہوں نے ضرور دیکھے تھے اور اپنی بیٹی کا درد بھی محسوس کیا تھا۔ماں تھی نہ اور ماں تو اپنی اولاد کے لیئے کچھ بھی کر سکتی ہے۔مگر اس حویلی میں رہتے ہوئے ان کی کبھی نہیں سنی گئی تھی۔چھوٹی سے عمر میں یہ شادی کر کے اس حویلی آئی تھی پھر تین بچوں کے بعد انہیں لگتا تھا کہ سب کچھ بدل جائے گا مگر ان کی ساس کے آگے ان کی کہاں چلتی تھی۔وہ بہت عجیب عورت تھی ساری زندگی تخت پر بیٹھ کر انہوں نے بہوں پر حکم چلایا تھا۔اس حویلی کے مرد ان کے آگے نہیں بولتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد بھی انہیں ایک پل اس حویلی میں چین سکون نصیب نہیں ہوا تھا۔ان کا بیٹا تو مہر کو لے کر چلا گیا۔وہ بہت خوش قسمت تھی کہ اسے ان کا بیٹا ملا تھا مگر ان کی بیٹی کے نصیب اچھے نہیں تھے۔
“کیا ہوا اداس کیوں بیٹھی ہوں خان بیگم۔”
“بڑے خان جی وہ آیت ہم سے ملنے نہیں آئی۔بابا جان نے بھی ولید کو نہیں کہا کہ آیت کو آنے دیں ہم سے ملنے کے لیئے ۔”
“دیکھو خان بیگم اب وہ بیٹی اس گھر کی ہے۔اگر ولید ساری زندگی بھی اسے ہم سے نہ ملنے دے تو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔وہ اب اس کی بیوی ہے اور بلکل ٹھیک ہے۔اچھا خاصا تو ہے ولید ۔گائوں کا سب کچھ تو اس کا ہے ۔”
مگر خان جی۔”
“بس ہم زیادہ باتیں نہیں سننا چاہتے ۔آپ جائیں اور کھانے کا انتظام کروائیں بابا جان بھی انتظار کر رہے ہیں کھانے کا۔”
آیت کی والدہ خاموشی سے اٹھ گئی انہیں کہاں اجازت تھی شوہر کے سامنے کچھ بولنے کی۔
___________________________
آیت ولید کے ساتھ ہی بیٹھی ہوئی ٹی وی پر چلتے ہوئے پروگرام کو دیکھ رہی تھی۔ہاتھوں میں پہنے ہوئے گجرے ابھی بھی کھلے ہوئے تھے۔ولید نے آیت کی غائب دماغی نوٹ کی۔
“آیت آیت کیا ہوا۔”
“ہاں ہاں ۔۔۔
۔کچھ نہیں وہ بس کالج کی دوستیں یاد آگئی۔وہ شادی پر نہیں نہ آپائیں مجھے یاد ہی رہا انہیں بلانا۔شادی اتنی جلدی ہوئی کہ اتنا وقت بھی نہیں تھا کہ میں انہیں بلاتی۔
“کبھی بلا لینا تم انہیں حویلی۔پتا ہے میری یونیورسٹی میں بھی دوست کہہ رہے تھے کہ وہ ہماری دعوت کریں میں نے کہا کہ ذرا ٹہر جائو واپس جائیں کہ تو پھر کر لینا۔”
“کتنے دوست ہیں آپ کے خان۔”
“بس ایک ہی دوست ہے اور ایک اور بھی ہے مگر اس سے کم ہی ملاقات ہوتی ہے وہ ہمارے ساتھ نہیں پڑھتا سکول کا دوست ہے۔”
“کیا پڑھ رہے ہو آپ خان۔”
“تمہیں نہیں پتا میں کیا کر رہا ہوں آیت۔”
“نہیں خان۔”
“میں ماسٹرز کے فرسٹ سسٹر میں ہوں۔اکریکلچر میں کر رہا ہوں ماسٹرز میں ۔ہمارے گائوں سے یونیورسٹی جاتے ہوئے مجھے ڈیڑھگھنٹہ لگ جاتا ہے مگر واپسی پر آفس جانا میرے لیئے پھر آسان ہوتا ہے اس لیئے میں شہر نہیں آیا ۔”
“خان ایک بات کہوں کیا میں کبھی ہائوس جاب۔۔۔۔”
“نہیں جتنا پڑھنا تھا پڑھ لیا۔میں کما رہا ہوں نہ۔میرے بچوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔تمہاری ہر ضرورت میں پوری کر دوں گا مگر تم ہرگز حویلی سے باہر یوں نہیں جائو گی۔اچھا میں روم میں جارہا ہوں تم بھی آجائو۔” ولید اٹھ گیا۔آیت کو معلوم تھا اب یہی اس کی زندگی ہے۔وہ پانچ سال دن رات کی محنت ضائع گئی تھی۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...