“سمجھتا کیا ہے خود کو یہ زارون کا بچہ، نایاب کے کچھ بھی کرے گا ابھی بتاتی ہوں اسے” ۔۔۔فروا آستینیِں اوپر کرتی غصے میں تن فن کرتی زارون کی تلاش میں نکلی تھی ۔۔۔ “آج تو نہیں چھوڑوں گی اسے ۔۔۔میری دوست کے ساتھ بدتمیزی کرنے کی کوشش کی، اسے رلایا” ۔۔۔تیز تیز زینے اترتی وہ خود سے بڑبڑا رہی تھی ۔۔۔۔ابھی اسنے آحری زینے پر قدم رکھا ہی تھا باہیں جانب کارنر کے کمرے سے کچھ آوازیں سناہیں دیں. ۔۔اسکے کان فورا کھڑے ہوئے تھے. ۔۔۔نچلا لب دانتوں میں دبائے داہیں باہیں دیکھتی وہ دبے پاوں اس کمرے کی جانب بڑھی ۔۔۔۔جوں ہی کمرے کے پاس پہنچی آوازیں بلند ہونے لگیں۔۔۔۔کمرے کے باہر پہنچ اسنے اپنا باہیاں کان دروازے سےلگایا تو آواز صاف سنائی دی ۔۔۔
“ممی مجھے کسی بھی صورت “نایاب” چاہیے ۔۔۔آپ آج ہی سریا ممانی سےبات کریں” ۔۔۔۔زروان غصے اور بے بسی سے دھاڑ رہا تھا ۔۔۔فروا کا دل یک دم کانپ گیا تھا ۔۔۔
“آواز آہستہ رکھوزارون کوئی سن لے گا تو کیا سوچے گا!! ۔۔۔شماہل پھپھو کی تنبہی بھری آوز سنائی دی تو فروا نے ایک آنکھ بند کر کے “کی ہول” سے اندر جھانکا ۔۔۔”پورے خاندان میں ایک سے ایک لڑکی ہے اور تم ہو کے اس نک چڑی کے پیچھے پاگل ہو ۔۔۔سمجھ نہیں آتا مجھے کیا جادو کر دیا ہے اسنے تم پر؟؟!” ۔۔۔
زروان “سرح چہرہ” لیے کھڑا تھا اور شماہل پھپھو اسے کندھے سے پکڑے بول نفرت سے بول رہیں تھی ۔۔انکی بات سن کر وہ ہتھے سے ہی اکھڑ گیا ۔۔۔انکا بازو زور سے جھٹکا ۔۔۔
“ہاں کیا ہے اسنے جادو ۔۔۔وہ میرے حواسوں پے چھائی ہے ممی ۔۔۔میں بتا رہا ہوں آپکو اگرآپ نے کچھ نہ کیا تو میں کچھ کر بیٹھوں گا! ۔۔۔۔
“میں کیا کروں؟؟”شماہل پھپھو نے تنک کے کہتے سر جھٹکا ۔۔۔۔”تمہاری حاطر اس سر پھری لڑکی کو سر آنکھوں پے بیٹھا رہی ہوں “۔۔۔ہاتھ سے اپنے سر کی طرف اشارہ کیا ۔۔۔مگر وہ اتنی زیادہ چلاک ہے ۔۔۔ہاتھ ہی نہیں آتی” ۔۔۔
“آپ سریا ممامی سے بات کریں ہمارے رشتے کی ۔۔۔وہ انکی بات نہیں ٹالے گی”! ۔۔۔وہ ایک دم انکے دونوں ہاتھ پکڑ کر منت سے کہنے لگا ۔۔۔(فروا کا تو دل بند ہونے کو تھا نایاب کی شادی زارون سے) ۔۔۔نہیں نہیں ایسا نہیں ہو گا ۔۔۔فروا نے بے احتیار نفی میں گردن ہلا کے جھرجھری لی ۔۔۔اور واپس کی ہول سے جھانکا ۔۔۔
“دیکھو زارون میری بات سمجھنے کی کوشش کرو ۔۔۔ہم ابھی ناہل کی شادی میں آئے ہیں یہ شادی آرام سے ہو لینے دو پھر میں” سریا” سے خود بات کروں گی بس کچھ دنوں کی ہی تو بات ہے،صبر کر لوں” ۔۔۔وہ اسے استفامیہ نظروں سے دیکھتی نرمی سے سمجھا رہیں تھیں ۔۔۔
نہیں ممی تب تک دیر ہو جائے گی” اس ناہل” کے ارادے مجھے ٹھیک نہیں لگتے ۔۔۔اگر اسنے نایاب سے شادی کر لی تو میں کیا کروں گا”۔۔( بولتے ہوئے اسکی آنکھوں یک دم ڈھیر ساری چھبن اتر آئی تھی ) ۔۔۔”میں تو مر جاوں گا” ۔۔۔۔وہ بے چینی سے نفی میں سر ہلاتا صوفے پے دھڑام سے بیٹھا تھا ۔۔”پاگل ہو گئے ہو خبردا جو آہیندہ مرنے کی بات منہ سے نکالی تو” ۔۔۔۔شماہل پھپھو نے دہل کے اسے دیکھا اور اسکے ساتھ بیٹھ کے اسکا سر اپنے کندھے سے لگایا ۔۔۔”ممی وہ “ناہل” اسے مجھ سے چھین لے گا!۔۔۔میں کیا کروں گا ممی؟ ۔۔۔۔وہ بچوں کی طرح انسے لپٹ کے رونے لگا تھا ۔۔۔
“زارون “میرے بچے” ناہل کی شادی ہو رہی ہے وہ کیسے نایاب کو تم سے چھینے گا؟؟!” ۔۔۔انہوں نے نرمی سے اسکا چہرہ ہاتھوں کے پیالوں میں بھر کے پوچھا تھا ” ۔۔ “نہیں ممی میں نے ناہل کی آنکھوں میں صاف اسکے لیے محبت دیکھی ہے ۔۔۔اور “نایاب” جو کسی اور کزن سے بات نہیں کرتی وہ صرف اسی سے بات کرتی ہے ۔۔۔میں نے خود دیکھا ہے ان دونوں کو ساتھ میں باتیں کرتے”۔۔۔اپنی ماں کے دونوں ہاتھ پکڑ کے جزب سے کہتا وہ کوئی “دیوانہ” لگتا تھا اسکی آنکھوں سے بہتے آنسوں اسکی دیوانگی کا پتہ دیتے تھے ۔۔۔
“زارون یہاں دیکھو میری طرف” ۔۔۔شماہل پھپھو نے اسکا چہرہ اپنی طرف موڑا ۔۔۔”تمہیں اپنی ماں پر بھروسہ ہے نا؟؟” ۔۔۔۔انہوں نے یقین سے کہتے اسکی آنکھوں میں دیکھا تو وہ یک دم پرسکون ہوہا ۔۔۔کچھ دیر انکی آنکھوں دیکھنے کے بعد اثبات میں سر ہلایا تو پھپھو نے گہری سانس لی ۔۔
۔۔”تو پھر مجھ پے بھروسہ رکھو کے نایاب صرف تمہاری ہے ۔۔۔”اوکے “۔۔۔اسنے بچوں کی طرح اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔اب وہ پرسکون تھا مگر کچھ پل کے لیے ہی ۔۔۔اگلے ہی پل وہ پھر سے بے چین سا ہو کے اٹھ کھڑا ہوہا ۔۔۔
“اب کیا ہوہا؟” ۔۔۔پھپھو اس نئی افتاد پر گھبرا کے کھڑی ہوہیں۔۔۔”مجھےاس سے آج کے رویے کی معافی مانگنی ہے ممی ۔۔۔پتہ نہیں مجھے کیا ہو گیا تھا؟ ۔۔۔اسکی آنکھوں میں جب اپنے لیے نفرت دیکھتا ہوں تو میرا سر پھٹنے لگتا ہے” ۔۔۔وہ اپنا سر پکڑے بے بسی سے بول رہا تھا ۔۔۔”مجھے اس سے معافی مانگنی ہے ہر حال میں” بے چینی سے بولتا وہ باہر کی جانب بڑھا تو فروا فورا سے پہلے ساہیڈ پے رکھے ٹیبل کے نیچے چھپی ۔۔۔وہ تیزی سے لبے لمبے قدم اٹھاتا باہر کہ جانب بڑھا ۔۔۔”زارون ایک منٹ بیٹامیری بات تو سنو!!”۔۔۔شماہل پھپھو بھی اسکے پیچھے چلاتی ہوئی باہر نکلیں تو فروا ٹیبل کے نیچے سے باہر آئی ۔۔۔اسکے لیے یہ سب دیکھنا ناقابل یقین تھا ۔۔۔وہ جلدی باہر بھاگی تھے سب سے پہلے ناہل کو آگاہ کرنا ضروری تھا ۔۔۔
****************************************
فروا باہرآئی تو ناہل کو صوفے پر بیھٹا پایا ۔۔۔اسکے ساتھ دادو بیٹھی تھیں ۔۔۔اور دادو نے نایاب کو اپنے پاس بیٹھا رکھا تھا ۔۔۔”زراون” تھوڑی دوری پے کھڑا نایاب کو بس گھور رہا تھا اپنی نانو کہ وجہ سے اس وقت وہ نایاب کے پاس نہیں جا سکتا تھا ۔۔۔شدید بے بسی اسکے چہرے سےعیاں تھی ۔۔۔۔فروا لڑکیوں کی ٹولی سے راستہ بناتی ناہل تک آئی تھی اور اسکے داہیں جانب بیٹھی” بسماء” کو زبردستی ہٹا کر اسکی جگہ بیٹھی تھی ۔۔۔ بسماء منہ بناتی کھڑی ہوئی تھی ۔۔۔
“ناہل مجهے بہت ضروری بات کرنی ہے تم سے !!۔۔۔وہ اسکے کان میں جھک کے بولی تو ناہل نے ماتھے پر بل ڈالے چونک کے اسے دیکھا وہ خد سے زیادہ سنجیدہ تھی ۔۔۔”بسماء نے بھی کان اسی جانب کیے ”
“اس وقت؟ “۔۔۔ناہل نےسوالیہ آبرو اٹھائی تھی۔۔۔
“نہیں اس وقت نہیں رات کو چھت پے آ جانا میں اور بسماء وہیں ملیں گے تمہیں” ۔۔۔وہ مصنوعی مسکراہٹ چہرے پے سجائے جھک کے اس سے کہہ رہی تھی ۔۔۔دور سے ایسا ہی لگتا تھا کے وہ ناہل کو چھیڑ رہی تھی ۔۔۔
“ایسی کیا بات ہے؟؟ ۔۔۔تم مجھے پریشان کر رہی ہو”۔۔۔ناہل پریشانی سے اسکی جانب گھوما ۔۔۔*بہت بڑی پریشانی ہے ناہل” ۔۔۔ فروا نے شرارت سے کہتے ایک رکھ کے اسکے سر پر چیڑ ماری ۔۔۔”منہ ٹھیک کرو اپنا کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے۔۔کے ہم کیا باتیں کر رہے ہیں” ۔۔۔فروا نے مسکرا کر سارے لان پر نظر دوڈائی ۔۔۔تو وہ بھی حود کو نارمل کرتا سیدھا ہو کے بیٹھا ۔۔
پورے فنگشن میں اپنے اوپر زارون کی “جلتی نگاہوں” کی تپش وہ محسوس کرتی رہی تھی ۔۔۔مگر پھر بھی ڈھیٹ بنی اسے اگنور کرتی رہی ۔۔۔اسے کمزور نہیں پڑنا تھا” ایک لمحے کے لیے بھی نہیں”۔۔۔۔اسکا فون بار بار بجتا رہا تھا جسے اسنے ایک بار بھی “زارون کا نام پڑھنے” کے بعد کھول کے نہیں دیکھا تھا وقفے وقفے سے کچھ میسیجز بھی موصول ہوتے رہے تھے ۔۔۔جو اسنے کالز کی طرح ہی نظر انداز کر دیے تھے ۔۔۔فنگشن جیسے ہی حتم ہوہا۔۔۔نایاب دادو ہو لیے انکے ساتھ انکے کمرے میں ہی آگئی ۔۔اس ساری سچویشن میں یہی ایک جگہ زارون سے محفوظ تھی ۔۔۔ ایسا نہیں تھا کے وہ ڈرتی تھی مگر وہ کسی قسم کا کوئی تماشہ نہیں چاہتی تھی ۔۔۔ دادو کو سلانے کے بعد وہ انکے ساتھ ہی بیڈ پر داہیں کروٹ لیٹ گئی تھی ۔۔۔اسکی سمجھ سے باہر تھا زارون کا رویہ ۔۔۔”آحر یک دم وہ کیوں اسکے پیچھے پڑ گیا؟؟” ۔۔۔اس سے پہلے بھی تو ۔۔۔”ایک منٹ”۔۔۔سوچتے سوچتے یک دم چونکی ۔۔۔ اس سے پہلے وہ کب کسی فیملی فنگشن میں گئی تھی ؟؟ زارون سے اسکی ملاقات بہت کم ہی ہوتی تھی ۔۔۔مگر اسکی آنکھوں ہمشہ کچھ “عجیب سا تاثر” ہوتا تھا ۔۔۔”شٹ ” میں پہلے کیوں نہیں سمجھی ؟؟ حود سے بولتی وہ اٹھ بیٹھی ۔۔۔دادو سو چکیں تھیں ۔۔۔اسنے دونوں ہاتھوں پے اپنا سر گرایا تھا ۔۔۔آگے کیا کم پریشانیاں تھیں کے یہ زارون بھی نہا دھو کے پیچھے پڑ گیا تھا ۔۔۔؟؟ وہ گہری سانس لیتی واپس چت لیٹ گئی ۔۔۔”کوئی بات نہیں جب اتنا سب اکلیے سہا ہے تو یہ ایک اور پرشانی سہی “۔۔ خود سے بڑ بڑاتی وہ آنکھیں موند گئی ۔۔۔
*********************”******************”
رات کے پھچلے پہر وہ تینوں چھت پر موجود تھے ۔۔۔بسماء “ادھ سوئی” سی ایک کرسی پے بیٹھی اونگھ رہی تھی ۔۔۔البتہ وہ دونوں پوری سے جاگ رہے تھے ۔۔۔ناہل چھت کی ریلنگ مصبوطی سے پکڑے صبط سے کھڑا تھا ۔۔۔فروا اسکے ساتھ کنہی ریلنگ سےٹکائے اسکی جانب مڑ کے کھڑی کہہ رہی تھی ۔۔۔۔
“ناہل وہ تو سچ میں پاگل ہے نایاب کے لیے ۔۔۔میں نے خود اپنی آنکھوں سے اسے بچوں کی طرح روتے دیکھا ہے” ۔۔ وہ شدید پریشان تھی ۔۔۔ مگر” ناہل ” بےحس و حرکت کھڑا تھا ۔۔۔”ناہل میں تم سے بات کر رہی ہوں سن رہے ہو تم ۔۔۔؟؟ “فروا نے اپنی کسی بات کا اثر ہوتے نہ دیکھا تو اسے کندھے پکڑ کر جھنجھوڑ کے چلائی ۔۔۔ وہ کچھ نہیں بولا تھا “سرح آنکھیں” لیے اسے دیکھتا رہا تھا ۔۔۔فروا کے دل کو کچھ ہوہا تھا ۔۔۔”ناہل پلیز یار تم تو ایسا مت کرو! ۔۔۔اگر تم بھی ہمت ہار جاو گے تو میں اکیلی کیا کروں گی ؟؟!!” وہ بے بسی سے بولتی اسکی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی ۔۔۔
“میں کیا کروں فروا؟ ۔۔۔اپنی شادی تو میں روک نہیں پا رہا ایسے میں کیسے میں نایاب کو پروٹیکٹ کروں اس ساہیکو سے ۔۔۔”” وہ بے بسی سے جھنجھلاتا بسماء کے پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گیا ۔۔۔ فروا بھی اسکے سامنے کرسی کھنچ کے بیٹھ گئی ۔۔۔”ہاں لگتا تو وہ ساہیکو ہی ہے” ۔۔۔فروا پر سوچ انداز میں بولتی آگے ہو کر بیٹھی ۔۔۔”مگر ناہل صرف تم ہی نایاب کو بچا سکتے ہو ۔۔۔میں نے خود سنا ہے” شماہل پھپھو” نایاب کی امی سے رشتہ مانگنے کی بات کر رہی تھیں” ۔۔۔
“رشتہ مائے فٹ “۔۔وہ یک دم مشتعل ہو کر چلایا تو بسماء گھبرا کے اٹھی ۔۔۔(اور آنکھیں پھاڑ کے ان دونوں کو دیکھا ۔۔ وہ دونوں پریشان تھے وہ بھی سیدھی کو کے بیٹھی). ۔۔۔”میں کسی قیمت پر نایاب کو اس پاگل کے حوالے نہیں کروں گا” ۔۔۔ناہل حتمی لہجے میں بولا تو فروا کو تھوڑی تسلی ہوئی ۔۔۔
“مگر کیسے ؟؟ تم اپنی شادی کیسے روکو گئے ؟؟ “اگلے ہی پل وہ پھر سے جھنجھلا اٹھی ۔۔۔ناہل کچھ دیر سوچتا رہا اور پھر اچانک کچھ یاد آنے پر “کرتے کی جیب” سے اپنا موبائل نکال کر کوئی نمبر ڈاہل کرنے لگا ۔۔۔فروا نےبےچینی سے کچھ کہنا چاہا تو اسنے ہاتھ سے “اشارہ کر کے منع کر دیا “۔۔۔
“ہاں فیاص میں نے تم سے جو کام کرنے کا کہا تھا وہ ہوہا؟؟” ۔۔۔دوسری جانب سے جیسے ہی کال اٹینڈ ہوئی تو وہ جلدی سے ماتھے پرنٹ بل ڈالے بولا ۔۔۔پھر دومنٹ وہ سنتا ہی رہا ۔۔۔ماتھے پر پڑتے بل بتاتے تھے کے بات کوئی “سیریس” ہی ہے ۔۔۔۔”ہمم ٹھیک ہے نظر رکھو دونوں پر اور اطلاع دیتے رہنا”۔۔ نارمل انداز سے بولتے اسنے فون کاٹ کے واپس جیب میں ڈالا اور منتظر سی بیٹھی فروا کو دیکھا. ۔۔۔ اور خود ہی بولنا شروع کیا “یہ فیاص تھا شہرین کے گھر کا ایک ملازم ۔۔۔میں نے اسے کچھ پیسے دے کر شہرین اور ناہید آنٹی پر نظر رکھنے کو کہا تھا ۔۔۔کیونکہ جتنی شریف وہ اس دن” بن” رہی تھیں مجھے دال میں کچھ کالا لگا تھا ۔۔۔اور آج اسکی کنفرمیشن بھی ہو گئی” ۔۔نفرت سے جھٹکتا وہ واپس پیچھے ہو کے بیھٹا ۔
“کیا مطلب ہے تمہارا ؟؟پوری بات بتاو مجھے ۔۔۔خوہ محواہ کا “سسپینس” کریٹ کر دیتے ہو””. ۔۔فروا ناک سکوڑ کر جھنجھلائی ۔۔۔تو وہ ہلکا سا مسکرایا. ۔۔
وہ ماں بیٹی مجھے حق مہر کی رقم میں پھسانا چاہتی ہیں ۔۔۔”فیاص کے مطابق” اسنے چھپ کے انکی باتیں سنیں ہیں۔۔۔وہ نکاح کے وقت حق مہر “پچیس کروڑ” رکھوانے کے منصوبے بنا رہی ہیں “۔۔فروا کی آنکھیں پچیس کروڑ پر پٹ سے کھلی تھیں۔۔۔”واٹ ؟؟” وہ شاک سے چلائی ۔۔۔”اتنا حق مہر ۔۔۔؟؟!”
“جتنا مرضی رکھواہیں، دے گا کون؟؟!” ناہل نے ناک سے مکھی اڑائی ۔۔۔تو فروا نے سوالیہ آبرو اٹھا کے اسے دیکھا.۔۔۔” تم کیا کرنا چاہ رہے ہو؟؟”
“اب سے کچھ دیر پہلے مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کے کیا کروں!!”۔۔۔اسنے گہری پرسکون سانس لیتے ہوئے داہیں ہاتھ کی انگلیوں سے ماتھے پر بکھرے بال پیچھے کیے۔۔۔ “مگر اب ساری بازی میرے ہاتھ میں ہے “۔۔اعتماد سے بولتا وہ ان دونوں کی جانب جھکا ۔۔ “میری بات غور سے سنو تم دونوں” ۔۔۔اسنے سرگوشی سے دبی آواز میں کہا تو وہ دونوں اسکی جانب جھکیں ۔۔۔
اور ٹھیک “آدھے گھنٹے” کے بعد وہ تینوں اطمینان سے سیڑھیاں اترتے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے تھے۔۔۔وہ تینوں کیا کرنےوالے تھے یہ تو “وقت” ہی بتا سکتا تھا ۔۔۔۔۔اور “وقت” کیا کرنےوالا تھا وہ تینوں سوچ بھی بھی نہیں سکتے تھے ۔۔۔
****************************************
اس صبح سمار کے گھر میں الگ ہی ہنگامہ مچا تھا سریا نے آج نایاب کو جاکنگ پے جا نے سے روک کر اپنے ساتھ کچن میں لا کھڑا کیا تھا ۔۔۔۔وہ بے چاری بمشکل سب کو ناشتہ سرو کر رہی تھی ۔۔۔۔”ایک تو یہ امی پتہ نہیں کون سی دشمنی نکالتی ہیں میرے ساتھ خود تو ہمشہ کسی “ناول” کی ہیروہن کی طرح لوگوں کی حدمتیں کرتی رہیں اب مجھ سے بھی یہی امید لگائے بیٹھی ہیں ۔۔۔وہ دل میں کھڑتی لگا تار کام میں لگی تھی.۔۔۔منہ سے کچھ کہتی تو امی کا “بیلن” لازمی پڑٹا ۔۔۔
“نایاب جاو یہ ناشتہ بڑی پھپھو کو کمرے میں دے آو” امی نے اسے ناشتے سے بھری ڈش تھمائی تووہ سخت بدمزہ ہوئی ۔۔۔
“امی مجھ سے نہیں دیے جاتے ناشتے کمروں میں جس کو کرنا ہے تو باہر آ کر کرے” ۔۔۔اسنے غصے ڈش انکے ہاتھ سے لے کر کاونٹر پے رکھی ۔۔۔(سریا کا تو خون ہی کھول گیا تھا ایسی بدتمیزی پر) ۔۔ ” کیا چاہتی ہو میری کام چور “بیٹی” کے سب کے سامنے تمہاری کٹ لگے؟؟” ۔۔۔وہ کاٹ کھانے والے لہجے میں بولتی اس تک آہیں تو وہ بے احیتیار ڈش اٹھاتی باہر کو بھاگی ۔۔ لیکن کچن کے دروازے میں کھڑے ہنسی دباتے ناہل پر جب نظر پڑھی تو دماغ ہی خراب ہو گیا ۔۔۔”ہٹو میرے راستے سے “۔۔غصے میں اسے گھور کر کہا تو جلدی سے ساہیڈ پر ہٹا ۔۔۔”تم ملو بعد میں بتاتی ہوں تمہیں” والی ایک نظر اس پر ڈالی اور گردن اکڑا کے شماہل پھپھو کے کمرے کی جانب بڑھی ۔۔۔
کمرے کے باہر جا کر امڈ آیا عصہ بمشکل دبایا اور دروازہ ناک کیا ۔۔۔۔”ارے آجاو بھئی،ناک کیوں کر رہے ہو “۔۔۔شماہل پھپھو کی آواز پر اسکا دل کیا کے ناشتے کی ٹرے انکے سر پر گرا دے مگر ۔۔۔”افف” ۔۔سر جھٹکتی مصنوعی مسکراہٹ چہرے پے سجاتی وہ دروازہ کھولتی اندر گئی تو انہیں بیڈ پر بیٹھا پایا زارون انکے ساتھ بیڈ کروان سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا ۔۔۔۔”السلام علیکم پھپھو ناشےہ لائی ہوں “! ۔۔۔اسنے مسکرا کر سلام کیا تو وہ دونوں چونک کے اسکی جانب مڑے ۔(زارون کو دیکھ جو دل پے گزری تو ناقابل بیاں تھی) ۔۔۔وہ اسے دیکھ کر کھل اٹھا تھا صبح صبح نایاب دکھ گئی تھی اسے اور کیا چاہیے تھا؟؟ ۔۔۔ وہ یک دم بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوہا ۔۔۔”وعلیکم سلام نایاب تم آو نا کھڑی کیوں ہو!۔اور یہ ناشتہ تم کیوں لائی سارے ملازم مر گئے ہیں کیا ؟۔۔۔حوشی اور غصے کے ملے جلے تاثرات سے کہتے اسنے آگے بڑھ کر نایاب کے ہاتھ سے ناشتے کی ڈش پکڑی اور صوفے کے آگے لگے ّمیز پر رکھی ۔۔۔
“ارے کیا ہو گیا زارون بچی اگر ہمارے ساتھ ناشتہ کرنے آئی ہے تو “۔۔۔پھپھو محبت سے بولتی اس تک آہیں اسے بازو سے پکڑ کے اپنے ساتھ صوفے پر بیٹھایا ۔۔۔
زارون آنکھوں میں ستارے لیے سٹول کھینچتا انکے سامنے بیٹھ گیا ۔۔۔وہ بری پھنسی تھی ۔۔۔”نہیں پھپھو آپ لوگ ناشتہ کریں ۔۔۔میں نے باقی سب کو بھی ناشتہ دینا ہے اگر غاہب ہوئی تو امی ڈانٹیں گی” ۔۔۔وہ بمشکل بہانے بناتی وہاں سے کھسک جانے کے چکر میں تھی ۔۔
“سریا کی تو بات ہی رہنے دو ۔۔۔پھول جیسی بچی کو ہر وقت ڈانٹتی ہے ۔۔۔میں بات کرتی ہوں آج اس سے تم بے فکر ہو کے ہمارے ساتھ ناشتہ کرو” ۔۔۔پھپھو جتنی محبت دکھا سکتیں تھیں دکھا رہی تھیں ۔۔۔اس سے پہلے وہ کچھ بولتی انہوں نے پراٹھے کے ساتھ آملیٹ کا نوالہ بنا کر اسکی جانب بڑھایا ۔۔۔ “میرے ہاتھوں سے کھائے گی میری بچی” ۔۔۔۔۔”افف اتنی مٹھاس آج تو یقینا مجھے ڈائیبیٹیز ہو گی” ۔۔اسنے دل میں سوچتے بمشکل نوالہ کھایا.۔۔۔
“نایاب رات کو جو ہوہا مجھے بتایا زارون نے۔۔ اسنے بہت مس بی ہیو کیا تمہارے ساتھ اسے اگلا نولہ کھلاتی سرسری سا بولیں تو نوالہ نایاب کے گلے میں اٹکا ۔۔۔۔۔۔۔”ایک منٹ پھپھو” وہ انکی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی بیچ میں بول پڑی انکے ہاتھ سے نوالہ لے کے نیچے رکھا ۔۔۔اور زحمی نظروں سے انہیں دیکھا “اگر آپ نے مجھے یہاں اپنے بیٹے کی طرف سے معافی مانگنے بیٹھایا تو “سوری” ۔۔۔”میں اسے نہیں معاف کرنے والی ۔۔۔کیوں کے اسنے جو کیا وہ کسی بھی لڑکی کے لیے نا قابل برداشت ہے “۔۔۔اسنے قطیعیت سے سحت لہجے میں کہا تو وہ دونوں گھبرا گئے ۔۔۔۔
“نایاب میں معافی مانگتی ہوں اسکی طرف سے یہ نادان ہے ۔۔۔۔یقین مانو جب رات اسنے مجھے یہ بات بتائی تومیں نے اسے بہت ڈانٹا “۔۔۔پھپھو شرمندگی سے بول کر زارون کی جانب مڑیں ۔۔۔”چلو معافی مانگو تم نایاب سے ابھی” ۔۔۔۔
“نایاب پلیز مجھے معاف کر دو میں نے وہ سب جان کے نہیں کیا پتہ نہیں کیسے میں وہ سب کر گیا؟؟؟! ۔۔پلیز ایک بار معاف کر دو دوبارہ کبھی ویسا نہیں کرو گا “آئے سویر” ۔۔۔۔ وہ پریقین لہجے میں بولتا بے چین نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔
معافی “غلطیوں” کی ہوتی ہے زارون “گناہوں” کی نہیں ۔۔۔ اور تم نے جو کیا وہ کبیرا گناہ تھا “۔ایک کٹیلی نظر اس پر ڈال کے وہ اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔”اور آپ پھپھو اپنے بیٹے کو سمجھا دیں کے دوبارہ اسنے ایسی کوئی حرکت کی تو میں “خاموش* نہیں رہو گی ۔۔۔انگلی اٹھا کے انہیں سختی سے وارن کیا اور تیزی سے کمرے سے نکل گئی ۔۔۔زارون یک دم مشتعل ہوہا تھا سامنے رکھی ناشتے کی ڈش زور سے ہاتھ مار کے گرائی توشماہل فوراً اسکی جانب لپکیں۔۔۔”زارون کام ڈاون” ۔۔۔بمشکل اسے کندھوں اسے پکڑ کر سنبھالا ۔۔۔”میں نے کہا تھا نا ممی وہ مجھ سے دور ہو جائے گی ۔۔۔اور دیکھیں وہ مجھ سے دور ہو گئی” ۔۔۔ وہ جنونی کیفیت میں بول رہا تھا آنکھوں کی سرحی بڑھ رہی تھی ۔۔۔”یہ سب اس ناہل کی وجہ سے ہوہا ہے میں نہیں چھوڑوں گا اسے” ۔۔۔اسنے شاہل کے بازو جھٹکے اور جلدی سے اپنے کپڑوں کے بیگ کی جانب بڑھا ۔۔۔۔شماہل پھپھو کا داماغ بھک سے اڑا تھا ۔۔۔اسکے کپڑوں کے بیگ میں ایک “پسٹل” لازمی ہوہا کرتا تھا ۔۔۔وہ جلدی سے اٹھ کر اپنے ہینڈ بیگ کی جانب لپکیں ۔۔۔زارون کو پھر سے دورہ پڑا تھا ۔۔۔انہوں نے بیگ میں سے بھرا ہوہا “انجیکشن” نکالا ۔۔۔۔۔جو انہوں نے رات کو ہی بھر کے رکھ دیا تھا ۔۔۔وہ تیزی اسکی جانب آہیں ۔۔۔جو اب پسٹل نکال کر اسے لوڈ کر چکا تھا ۔۔۔اسکی آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہیں تھیں ۔۔۔اس سے پہلے وہ باہر نکلتا شماہل نے انجیکشن چپکے سے اسکے بازو میں لگا دیا ۔۔۔وہ یک دم انکی جانب مڑا جو آنکھوں میں آنسوں لیے اسے انجیکشن لگا چکی تھیں ۔۔۔زارون نے بے یقینی سے انہیں دیکھا اور اگلے ہی لمحے وہ پورے قد کے ساتھ فرش پے گرا ۔۔۔۔شماہل نے آنکھوں سے آنسوں پونچھے اور جلدی سے دروازہ بند کیا۔۔۔بمشکل زارون کو گھیسٹ کر بیڈ پرلٹایا ۔۔۔اس پر کمبل دے کر اسکے ہاتھ میں مصبوطی سے پکڑا پسٹل نکالا اور الماری میں ڈالا ۔۔۔فرش پر سے سارا سامان اٹھایا ۔۔۔ٹوٹے برتن ڈسٹ بین میں ڈالے ۔۔۔سارا کمرہ درست کرنے کے بعد تھک کے سانس لیتی وہ بے ہوش ہو چکے زارون کے سرہانے جا بیٹھیں ۔۔۔اب وہ پر سکوں تھا انہوں نے جھک اسے ماتھے کو چوما ۔۔۔اسکے بال پیچھے کیے ۔۔۔”کب ٹھیک ہو گے تم زارون؟؟۔۔۔۔بے بسی سے اسکے چہرے پر ہاتھ مارتی بولیں ۔۔۔اور اسے وہیں چھوڑتی باہر نکل آہیں ۔۔۔انہیں آج ہی سریا سے بات کرنی تھی ۔۔۔۔ایک “نایاب” ہی تھی جو اسے ٹھیک کر سکتی تھی ۔۔۔۔۔
****************************************
مہندی والے گھر میں جب صبح کے بعد دوپہر اتری تو ہنگامہ مزید بڑھ گیا تھا ہر کوئی اپنی اپنی تیاری میں لگا تھا ۔۔ ایسےمیں سریا کے کمرے میں دیکھو تو شدید تناو کا ماحول بنا تھا ۔۔۔سریا بیڈ کے کنارے سر پکڑے بیٹھی تھیں ۔۔۔انکے ساتھ انکے شانے پے ہاتھ رکھے جھک کے کچھ کہتی شماہل پھپھو کافی پر امید لگتی تھیں ۔۔۔فاروق صاب اپنی وہیل چیر پر ان دونوں کے بلکل سامنے بیٹھے تھے ۔۔۔(پیرالائززیشن کی وجہ سے انکی ٹانگیں ناکارہ ہو چکی تھیں) ۔۔۔۔ داہیاں ہاتھ کی مٹھی بنا کے منہ کے آگے رکھے وہ گہری سوچ میں لگتے تھے ۔۔۔
“دیکھو سریا نایاب کو میں بہو نہیں بیٹی بنا کے رکھوں گی ،زارون تو پہلے سے ہی بہت محبت کرتا ہے اس سے ۔۔۔تم اتنا مت سوچو بس ہاں کہہ دو “۔۔۔شماہل پھپھو نے ضدی لہجے میں کہتے انکا شانہ دبایا تو تو سریا نے سر اٹھا کے انہیں دیکھا ۔۔۔
“میں کیا کہوں آپا ،نایاب کا کوئی بھروسہ نہیں میں اس سے پوچھے بغیر کوئی جواب نہیں دے سکتی “۔۔۔سریا نے گہری سانس لیتے ہاتھ جھاڑ لیے تو شماہل پھپھو منہ بناتی اپنے بھائی کی جانب مڑیں ۔۔۔
“فاروق تم تو بھائی ہو میرے تم سے مجھے مثبت جواب چاہیے!!” ۔۔۔۔ہڈدمری سے بولتی وہ انہیں خیالوں سے کھینچ لاہیں ۔۔”سریا ٹھیک کہہ رہی ہے آپا ۔۔۔پہلے نایاب سے پوچھ لیتے ہیں اگر اسنے ہاں کہہ دی تو ہمیں بھی کوئی اعتراض نہیں ہو گا” ۔۔۔۔انہوں کچھ سمجھ کر مصلحت والا جواب دیا تو شماہل بھڑک ہی گئیں ۔۔۔
“کیسے ماں باپ ہو تم دونوں ۔۔۔اپنی بیٹی کی زندگی کا ایک فیصلہ نہیں کر سکتے ؟”۔۔۔انکی آواز میں صدمہ سا تھا ۔۔۔”اور کیا برائی ہے میرے بیٹے میں جو وہ انکار کرے گی ۔۔۔شہزادہ ہے میرا بیٹا ۔۔۔پورے حاندان میں ایک سے ایک لڑکی ہے جس پر ہاتھ رکھو گی انکار نہیں کرے گا کوئی ۔۔۔مگر میں تو اپنے بیٹے کی محبت کے آگے مجبور ہو کے تم دونوں کےپاس آئی ہوں ۔۔۔اور تم دونوں ایسا بی ہیو کر رہے ہو جیسے میرا بیٹا کوئی مجرم ہو “۔۔۔انہوں سر جھٹک کر ناراضگی سے آخری بات کہی تِھی
“ایسی بات نہیں ہے آپا ۔۔۔میں مانتی ہوں کے زارون لاکھوں میں ایک ہے ۔۔”مگر” ۔۔۔سریا شدید بے بس ہو چکیں تھیں ۔۔۔زارون کے پاگل پن کا انہیں اندازہ تھا ۔۔۔
“اگر مگر کچھ نہیں مجھے تم دونوں سے جواب ہاں میں چاہیے “۔۔۔شماہل نے سریا کے بات کاٹ کرحتمی لہجے میں کہا تو فاروق صاب بھی جھنجھلا گے ۔۔۔”آپا آپ سمجھتی کیوں نہیں ہیں نایاب سے پوچھے بغیر ہم کیسے ہاں کہہ سکتے ہیں ۔۔۔مجھے میری بیٹی بہت پیاری ہے آپا اور میں اسکی مرضی کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرو گا” ۔۔۔فاروق صاب نے انکی ساری باتوں کو یکسر فراموش کر کے اپنا آحری فیصلہ سنایا ۔۔۔
شماہل کو آگ ہی لگ گئی تھی مگر اس وقت تحمل لازمی تھا ۔۔۔انکی کوئی بھی غلط بات ،”بات” مزید خراب کر سکتی تھی ۔۔”ہاں میں مانتی ہوں نایاب کی مرضی ضروری ہے ۔۔۔مگر تم دونوں اس سے بات کرو گئے تو لازمی مان جائے گی” ۔۔۔وہ ڈھیروں غصہ صبط کرتی نرمی سے بول رہی تھیں ۔۔۔”میں بہت امید لے کر تمہارے پاس آئی ہوں مجھے حالی ہاتھ مت لوٹانا”۔۔۔۔ آنکھوں میں مصنوعی آنسوں بھر وہ ہاتھ جوڑے ان دونوں سے منت کر رہیں تھیں ۔۔۔سریا بے چاری تو گھبرا کر رہ گئیں جلدی سے انکے بندھے ہاتھ نیچے کر کے انہیں گلے لگایا اور التجائی نظروں سے اپنے شوہر کو دیکھا ۔۔۔وہ آنکھیں بند کر کے شدید غصے کو اپنے اندر ہی اتار رہے تھے ۔۔۔
“ٹھیک ہے میں نایاب سے بات کرتی ہوں۔۔۔اور میں کوشش کرو گی کےوہ مان جائے “۔۔۔سریا انہیں کندھوں تھام کے یقین سے بولیں تو وہ نم آنکھوں سے مسکراہیں ۔۔۔جلدی سے اپنی آنکھوں میں آئے آنسوں صاف کیے ۔۔۔۔”تو ٹھیک ہے تم ابھی جا کر بات کرو بلکہ میں بھی ساتھ آتی ہوں “۔۔۔تیزی سے بولتی وہ انکا ہاتھ پکڑے کھڑی ہو چکیں تھیں ۔۔۔”مگر آپا اس وقت؟؟ ۔۔۔میرا مطلب ہے یہ شادی ہو لینے دیتے ہیں ۔۔۔پھر میں آرام سے بات کرو گی نایاب سے!!” ۔۔۔سریا جو نایاب کے ردعمل کا سوچ کر ڈر رہی تھیں ۔۔۔اس نئی افتاد پر تو گھبرا ہی گئیں. ۔۔۔۔
“ارے میں کون سا ابھی شادی کرنے کا بول رہی ہوں تم صرف نایاب سے بات کرنا. ۔۔کیا پتہ شادی میں اور کس کس نے نظر رکھی ہو میری بیٹی پر ۔۔۔بس سب کے کانوں تک یہ بات پہنچ جائے کے نایاب میری امانت ہے تو سکون آ جائے گا” ۔۔۔وہ انہیں بازو سے پکڑ کر خوشی سے بولیں تھیں۔۔سریا نے اک نظر سر جھکا کے بیٹھے اپنے شوہر کو دیکھا اور ایک گہری سانس لی ۔۔۔”ٹھیک ہے آج ہی بات کر لیتے ہیں ۔۔۔مگر اسکا ری ایکشن کافی سخت ہو سکتا ہے “۔۔۔سریا ہاتھ اٹھا کر آحری بار خبردار کرنا لازمی سمجھا ۔۔۔
“ارے نہیں کچھ کہتی وہ اتنے نرم دل کی تو ہے وہ” ۔۔۔۔شماہل پھپھو نے مسکرا کر ان بات ٹالی ۔۔۔۔تو سریا نے اثبات میں سر ہلا کر انکی تاہید کی اور انکے ساتھ کمرے سے باہر نکلی ۔۔۔فاروق صاب کچھ سوچنے کے بعد اب کافی پرسکون لگتے تھے ۔۔۔شاید وہ اپنی بیٹی کو اچھے سے جانتے تھے ۔۔۔جب وہ بولتی تھی تو کوئی کچھ نہیں بول پاتا تھا ۔۔۔وہ جانتے تھے” وہ نایاب ہے” جسے لوگوں کو اپنی باتوں سے قاہل کرنا آتا ہے ۔۔۔۔انہوں نے مسکرا کر سر جھٹکا اور وہیل چیر کر رح اماں کے کمرے کی جانب مؤڑا ۔۔۔۔۔۔
****************************************
شاہل پھپھو اور سریاجب ان لڑکیوں کے کمرے میں گئیں تو وہاں الگ ہنگامہ مچا تھا۔۔فروا اور بسماء بیڈ پر بیٹھی تھیں ۔۔۔انکے آگے جیولری کا ڈھیر سا لگا تھا اردگرد کپڑے ہی کپڑے پھلیے تھے ۔۔۔اور وہ دونوں پرشان سی بیھٹیں یہ سوچ رہیں تھیں کے آج رات مہندی میں کون سے جیولری پہنی جائے ۔۔۔( نایاب نے ان دونوں کے جھگڑے سے اکتا کر لیپ ٹاپ کھول لیا تھا ۔۔۔) فروا کا خیال تھا کے کچھ الگ کرنا چاہیے اسلیے “ہلکی “جیولری ہو ۔۔۔اور بسماء کا خیال تھا جیولری “ہیوی” ہو ۔۔۔دونوں ایک گھنٹے کی بحث کے بعد اس نتیجے پر پہنچی تھیں کے جیولری نا تو ہیوی ہو نہ ہی ہلکی بلکہ “پھولوں” کی ہو ۔۔مگر اب مسئلہ تھا کی ابھی پھول کون لا کر دے گا ۔۔۔ابھی وہ کچھ فیصلہ کر ہی نا پاہیں تھیں کے وہ دونوں آگئیں ۔۔۔۔فروا اور بسماء یک دم گبھراہیں ۔۔۔جس کا ڈر تھا کیا وہ دن تو نہیں آگیا تھا ؟؟۔۔۔ان دونوں کو جیولری بھول گئی تھی ۔۔۔
نایاب نے بھی ان دونوں کو ساتھ دیکھ کر لیپ ٹاپ بند کر کے ساہیڈ پر رکھا.۔۔۔وہ دونوں اسکے داہیں باہیں آ کر بیٹھیں تو نایاب نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا ۔۔۔
سریا نے محبت سے اسکا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیا ۔۔
“دیکھو نایاب میں تمہاری ماں ہوں تمہارے بارے میں جو فیصلہ کروں گی وہ تمہاری بھلائی کا ہی ہو گا ۔۔۔اور مجھے امید ہے تم اسے قبول بھی کرو گی “۔۔۔نرمی سے اسکی آنکھوں میں یقین سے دیکھ کر کہا تو نایاب نے کوفت سے آنکھیں گئماہیں ۔۔۔۔(اتنی محبت امی تب ہی دکھاتی تھیں جب انہیں کوئی کام ہو )۔۔۔
“تمہید کو کٹ کریں امی اور اصل بات بتاہیں” ۔۔۔اسنے جل کر کہا تو سریا نے نفی میں سر ہلایا اس لڑکی سے وہ کیسے کچھ منوا سکتی ہیں ۔۔۔
“تو ٹھیک ہے پھر بلا تمہید کے سنوں” ۔۔۔ابکے وہ سپاٹ لہجے میں قطیعت سے بولیں نایاب نے چونک کے انہیں دیکھا.۔۔
“ہم نے تمہارا رشتہ زارون سے طے کر دیا ہے “۔۔۔سختی سے گردن اکڑا کر اپنا فیصلہ سنایا ۔۔۔وہ پھدک کے ایسے کھڑی ہوئی جیسے صوفے پر سے بچھو نے کاٹ لیا ہو ۔۔۔بسماء نے ناہل کو میسج کر کے فوراً اوپر آنے کا کہا تھا فروا دم سادھے ان تینوں کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔
“کس سے پوچھ کے آپ نے یہ رشتہ طے کیا ہے؟؟” ۔۔۔وہ اتنی اونچی آواز میں چیخی ۔۔۔ شماہل پھپھو حق دق رہ گئیں ۔۔
“آواز آہستہ رکھو اپنی مت بھولو کے تم اہنی ماں سے بات کر رہی ہو ” سریا نے غصے سے گھور کر کہا تو وہ مزید بھڑک گئی۔۔۔
“امی پلیز اس وقت میں آپ کا کوئی مورل لیکچر سننے کے موڈ میں نہیں ہوں ۔۔میں اس رشتے سے صاف انکار کرتی ہوں” ۔۔۔اسنے سر جھٹک کر حتمی لہجے میں کہا۔۔۔۔
“مجھے تمہارے انکار سے کوئی سروکار نہیں ۔ ۔۔۔آخر کیا خرابی ہے اس رشتے میں ۔۔زارون گڈ لکنگ ہے ۔۔اپنا کماتا ہے ۔۔۔اور سب سے بڑی بات تمہارا سسرال تمہاری پھپھو کا گھر ہو گا ۔۔۔۔
“امی آپکو پتہ ہے کے میں آپکی ان باتوں میں نہیں آوں گی پھر چاہے آپ ہزار حوبیاں بھی اس رشتے میں سے نکال کے دیکھا دیں مجھے، میرا جواب “انکار” ہی ہو گا۔۔۔وہ انکی آنکھوں آنکھیِں ڈالے بغیر کسی خوف کے اعتماد سے بولی تھی ۔۔۔
” کیوں ؟؟”آحر وجہ کیا ہے تمہارے انکار کی؟ ۔۔۔اتنا اچھاہیوں والا رشتہ کہاں ملے گا تمہیں؟” ۔۔۔سریا نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنی جانب موڑ کے مزید سحتی سے پوچھا. ..
نایاب نے گہری سانس لیتے اپنا بازو انکی گرفت سے نکالا اور انکے دونوں ہاتھ نرمی سے تھام کر قابل فہم نظروں سے انہیں دیکھا ۔۔۔”کیا آپ نہیں جانتی میں کیوں انکار کر رہی ہوں ؟؟ “کتنے مان سے اسنے پوچھا تھا ۔۔۔سریا نے بے احتیار نظر چرائی تھی۔۔”میں نہیں جانتی تم بتاو مجھے وجہ “۔۔۔ اسکے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ نکالے تھے ۔۔۔نایاب نے بےبسی سے اپنے خالی رہ گئے ہاتھوں کو دیکھا تھا ۔۔۔ایک زخمی نظر ششدر سی بیٹھی پھپھو پر بھی ڈالی جو سریا کا اچھے سے برین واش کر کے لائی تھیں ۔۔۔
“بولو اب چپ کیوں ہو؟” ۔۔۔سریا نے سینے پر بازو باندھے اجنبی لہجے میں اس سے پوچھا تو وہ سر جھٹکتی انکی جانب مڑی ۔۔۔۔
“وہ ایک نمبر کا مغرور اور گہمنڈی ہے..کسی سے بات کرنے کا طریقہ نہیں ہے اسے ۔۔۔ ۔۔۔اور سب سے بڑی وجہ اسکا پاگل پن ہے ۔۔۔وہ کب کیا کر جائے یو نیور نو!! ۔۔۔۔آنکھیں سکوڑ کر انہیں گہری نظروں سے دیکھتی بول رہی تھی۔۔۔۔پھپھو لفظ” پاگل” پر پھدک کر کھڑی ہوئی تھیں ۔۔۔”وہ پا گل نہیں ہے نایاب بس تھوڑا غصے کا تیز ہے ۔۔۔اسے کسی ایسے انسان کی ضرورت ہے جو اسے ٹھیک کر سکے “۔۔۔ بےتابی سے بولتیں نایاب کے پاس آہیں اسے کندھوں سے پکڑ کر اپنی جانب موڑا ۔۔۔”اور مجھے پورا یقین ہے تم اسے ٹھیک کر لو گی “۔۔۔۔امید سے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر کہا تو وہ ہلکے سے مسکرائی ۔۔۔
“آپ کو اتنا یقین کیوں ہے کے میں اسے ٹھیک کر لوں گی ۔۔۔اگر میں ٹھیک نہ کر سکی تو؟؟!” ۔۔۔۔سوالیہ آبرو اٹھا کر انہیں دیکھا وہ اسکےشانے چھوڑ کر اسکا ہاتھ پکڑ چکیں تھیں ۔۔۔”تم کر لو گی ٹھیک مجھے پتہ ہے” ۔۔۔لہجے میں محبت مزید بڑھی ۔۔۔۔نایاب نے اپنا ہاتھ انکے ہاتھ سے نہیں چھڑاوایا ویسے ہی کھڑی رہی ۔۔۔”اور اگر “جسٹ امیجن” میں اسے ٹھیک نہ کر سکی تو آپ کیا کریں گی پھپھو ؟؟ “وہ انتی سحتی سے بولی کے شماہل نے چونک کے اسے دیکھا ۔۔۔انکے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا ۔۔۔تب نایاب نے اپنا ہاتھ انکے ہاتھ سے نکالا ۔۔۔”کیوں کوئی جواب نہیں ہے” ۔۔۔تنظریہ مسکرائی ۔۔۔سینے پر بازو باندھے ۔۔۔”مگر میرے پاس جواب ہے ۔۔۔سننا پسند کریں گی “۔۔۔جھک کے انکی آنکھوں میں دیکھا وہ سٹپٹا گئیں ۔۔۔”ہاں تم ہی بتا دو” ۔۔۔دل میں اپنے بیٹے کی عقل پر ماتم کرتیں وہ بمشکل بولیں (زارون کو بھی یہی ملی تھی محبت کرنے کے لیے) ۔۔۔انکا جواب سن کر وہ سر جھٹکتی واپس پیچھے ہٹی ۔۔۔۔” تو سنیں پھر “اگر شادی کے بعد میں آپکے بیٹے کو ٹھیک نہ کر پائی تو جو آج آپ اتنی محبت دکھا رہیں ہیں سب بدل جائے گا ۔۔۔آپ کی زبان پر طغنے ہوں گے دن رات مجھے کوسیس گی ۔۔۔ہر ایک کے آگے کہیں گی کے میرے بیٹے کو خراب کر کے رکھ دیا ۔۔۔کسی کام کی نہ نکلی” میرے بھائی کی بیٹی” ۔۔۔مجھ میں ہزار کیڑے نکال لینے کے بعد آپ پھر سے کوئی لڑکی ڈھونڈیں گی پھر سے اپنے بیٹے کی شادی کرواہیں گی ۔۔۔ کیوں کے” basically” آپکو بہو نہیں چاہیے ایک “ری ہیلبٹیشن سنڑ” چاہیے ۔۔۔جو آپکے بیٹے کو ٹھیک کر سکے” ۔۔۔ وہ انہیں دیکھتی ناگورای سے بول رہی تھی ۔۔۔
“نایاب کیا بکواس کر رہی ہو یہ تم”۔۔۔حد ہو گئ ہے بدتمیزی کی” ۔۔۔سریا کی یہاں بس ہوئی تھی ۔۔۔انہوں نے کبھی بھی اپنے سے بڑوں سے بدتمیزی کی اجازت نہیں دی تھی ۔۔۔۔مگر یہ نایاب ۔۔۔افف ۔۔۔ “اتنی امید لیے تمہارے پاس آئی ہیں تو تمہارا فرص بنتا ہے تم انکی مدد کرو یہ تم بھی جانتی ہو کے تم انکی مدد کر سکتی ہو “۔۔۔۔۔جھڑک کر اسے کہا ۔۔۔
“میں انکی مدد ضرور کرتی مگر جب یہ مدد مانگنے آئی ہوتیں تو ۔۔۔یہ تو مجھے ہمیشہ کے لیے اپنے بیٹے کا غلام بنا کر اسکی بیماری کا علاج کروانا چاہتی ہیں” ۔۔۔نایاب مزید بھڑک کر بولی تو سریا کا ہاتھ اٹھتے اٹھتے رہ گیا ۔۔۔اس قدر بد تمیزی کی انہیں امید نہیں تھی ۔۔۔بمشکل انہوں نے خود کو روکا تھا ۔۔
“چلو مان لیا کے وہ یہی چاہتی ہیں ۔۔۔تو اسمیں برائی کیا ہے؟ ۔۔۔اگر تم کسی انسان سے شادی کر کے اسکی زندگی سنوار سکتی ہو ،اس سے بڑی نیکی کیا ہو گی !!؟”۔۔۔۔شدید غصے کو صبط کرتی وہ اسے کنوینس کرنے کی کوشش کر رہیں تھیں ۔۔۔۔۔انکی یہ بات سن کے نایاب کی آنکھوں چھن سے کچھ ٹوٹا تھا بےیقینی سے اپنی ماں کو دیکھا ۔۔۔۔
“واہ امی مجھے یہی امید تھی آپ سے” دونوں ہاتھ اٹھا کر جیسے انہیں داد دی ۔۔۔۔”آپ پاکستانی ماہیں یہی تو کرتی ہیں۔۔۔۔اپنی بگڑی ہوئی اولاد کو ٹھیک کرنے کی ساری ذمہ داری اسکی بیوی کر سر تھونپ کر خود کو بری اذمہ کر لیتی ہیں ۔۔۔آخر آپ سب کو کب سمجھ میں آئے گا کے کسی کی جان سے پیاری بیٹی آپ کے بگڑے ہوئے نواب زادے کے لیے “rehabilitation center” نہیں ہوتی ۔۔۔۔جو بیٹا آپ سے پچیس تیس سال کی عمر تک نہ سدھرا وہ کل کی آئی انجان لڑکی کیسے سدھارے گی ۔۔۔۔ملامت بھری نظروں سے ان دونوں کو دیکھتی اونچا بول رہی تھی ۔۔۔لہجے میں چھبن تھی ۔۔۔سریا لاجواب کو کے رہ گی تھیں ۔۔۔
“مگر وہ تم سے محبت کرتا ہے نایاب ۔۔۔تمہارے لیے پاگل ہے وہ “۔۔۔۔شماہل پھپھو نے اسکے چپ ہونے کے بعد کمزور سی دلیل پیش کی تھی ۔۔۔وہ کاٹ کھانے والے انداز میں انکی جانب مڑی ۔۔۔
“کون سا پیار؟ ۔۔۔کیسا یپار؟ ۔۔۔وہی جو آپ کے بیٹے کا ہر مہینے بدلتا ہے ۔۔۔۔سال کے ہر مہینے تو آپ کے بیٹے کو ہر لڑکی سے شدید غشق ہو جاتا” ۔۔۔۔وہ تلحی سے مسکرا کر انہیں دیکھتی ہوئی بولی تو ۔۔۔وہ بلکل چپ ہو کے رہ گئیں تھیں ۔۔۔ بسماء اور فروا ساکن سی سب سن رہیں تھیں۔۔۔۔ناہل جو ابھی ابھی وہاں آیا تھا اسکی آحری بات سن کر اسے بھی حیرت ہوئی تھی ۔۔۔مگر وہ کسی کی بھی پرواہ کیے بغیر آج سچ بول رہی تھی جو بے انتہا کڑوا تھا ۔۔۔۔
“یہ آپ بھی اچھی طرح جانتی ہیں کے اسے مجھ سے کوئی محبت نہیں ہے ۔۔۔میں بس ایک “چیلنج” ہوں اسکے لیے ۔۔۔پتہ ہے کیوں ؟؟ تندھی نظروں پھپھو کو گھورا ۔۔۔۔”کیوں کے میں ہر لڑکی کی طرح اسکے آگے بچھ نہیں گئی ۔۔۔وہ مجھے بس تسحیر کرنا چاہتا ہے ۔۔۔مگر آپ ایک بات میری غور سے سن لیں پھپھو “۔۔۔۔انگلی اٹھا کر انہیں وارن کیا اور انکے تھوڑا نزدیک گئی ۔۔۔وہ ویسے ہی پٹھی آنکھوں سے اسے دیکھ رہیں تھیں ۔۔۔”دنیا کے بلند ترین پہاڑ “تسحیر” کرنا آسان ہیں ، مگر کسی انسان کو تسحیر کرنا ناممکن ہے ۔۔۔انسانوں کے” دل ” جیتے جاتے ہیِں ۔۔۔اور دل صرف “محبت” سے جیتے جاتے ہیں ۔۔۔جو “آئے ایم سوری ٹو سے” ۔۔۔آپ کے بیٹے کو نہیں آتی” ۔۔قطیعت سے اپنی بات حتم کی اور بنا کسی پر نظر ڈالے تیزی سے کمرے سے نکل گئی ۔۔۔ٹھاہ سے دروازہ بند ہونے کی آواز پر وہ لوگ چونکے تھے ۔۔۔سب سے پہلے ناہل کو ہوش آیا تھا وہ بھی اسکے پیچھے نکلا تھا ۔۔۔۔سریا سر پکڑ کر صوفے پے دھپ سے گریں تھیں ۔۔۔شماہل پھپھو بمشکل خود کو گھیسٹتی وہاں سے باہر آہیں تھیِں ۔
__________________________
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...