جہانزیب کو فرح حسن کی بات بلکل اچھی نہیں لگی تھی۔ وہ زرمینہ کے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
وہ صبح بغیرناشتہ کئے چلا گیا۔ اور یونیورسٹی میں بھی پورے وقت لائبریری میں بیٹھا رہا۔
یونیورسٹی میں جہانزیب کے دوست اسے ڈھونڈ رہے تھے۔ وہ کسی سے بات کرنا نہیں چاہتا تھا۔
“لو تم یہاں چھپ کے بیٹھے ہو! ہم تمھیں کب سے ڈھونڈ رہے ہیں۔” فیضان نے کتاب اس کے سر پہ ماری۔
“آج میرا کلاس لینے کا موڈ نہیں تھا۔ اس لیۓ یہاں ہوں۔” وہ ساتھ کھڑی زرمینہ کو اگنور کر رہا تھا۔ وہ زرمینہ کو زہرا والی بات نہیں بتانا چاہتا تھا۔
واپسی میں زرمینہ نے اس سے پوچھ ہی لیا۔
“تم پریشان لگ رہے ہو۔ سب ٹھیک تو ہے نا؟” اس نے جاننا چاہا کہ آخر وہ آجکل کیوں اتنا پریشان تھا۔
“نہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔” وہ گھبرا کر بولا۔
“تم آجکل مجھے اگنور کر رہے ہو؟ کیا کوئی غلطی ہوگئی ہے؟” وہ بہت پریشان تھی۔
“ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ تم بلاوجہ پریشان ہورہی ہو۔” وہ بات کو گھومانا چاہ رہا تھا۔
زرمینہ عمران جہا نزیب کی کلاس فیلو تھی۔ دونوں کی کالج سے ہی کافی دوستی تھی۔ یونیورسٹی میں آکر دونوں ایک دوسرے میں دلچسبی لینے لگے۔ زرمینہ اپنے بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ باپ نہ ہونے کی وجہ سے اس کے بھائی اس سے بہت پیار کرتے تھے۔ اس لیۓ وہ لاڈ پیارمیں پلی بڑی تھی۔ مزاج بہت سلجھا ہوا تھا۔
یونیورسٹی میں بھی سب اسکو اس کے اخلاق کی وجہ سے پسند کرتے تھے اورجہانزیب تو اسے اپنا دل دے بیٹھا تھا۔
زرمینہ جہا نزیب کے مزاج سے واقف تھی اور جانتی تھی کہ کوئی بات تو تھی جو اسے پریشان کر رہی تھی مگر اسنے مزید کچھ پوچنے سے گریز کیا۔
•••
رات کو عباد حسن زہرا کے کمرے میں اس سے اہم موضوع پر بات کرنے آئے۔
“بیٹا آپ مصروف تو نہیں ہیں؟” انہوں نے زہرا سے پوچھا جو ناول پڑھ رہی تھی۔
“نہیں ڈیڈ آجائیں۔” اس نے ناول بند کرتے ہوئے کہا۔
عباد جو کھڑے تھے وہ صوفے پر آکر بیٹھ گئے۔
“بیٹا مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے۔” انہوں نے اسے بتایا۔ زہرا جانتی تھی کہ وہ یقینن جہانزیب والی بات کرنے آئے ہونگے۔
“جی ڈیڈ بولیں۔” اس نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
“ہم نے آپ کی زندگی کے بارے میں فیصلہ کیا ہے مگر آپ کی رائے کے بغیر ہم کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاھتے۔
آپ کے تایا نے آپ کا رشتہ مانگا ہے اپنے بیٹے سے۔ ہمیں تو کوئی اعتراض نہیں ہیں مگر آپ کی کیا رائے ہے؟ اگر آپ کو کوئی اعتراض ہے تو ہمیں ابھی بتا دیں ہم زبردستی کے قائل نہیں۔” وہ اس سے بتا رہے تھے۔
دل میں تو وہ بے انتہا خوش تھی کیونکہ وہ جہانزیب سے بچپن سے ہی محبت کرتی تھی اور اب وہ اسے مل رہا تھا بنا مانگے تو وہ کیسے انکار کرتی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ابھی اس بندھن میں بندھ جائے۔
“ڈیڈ جیسا آپکو بہتر لگے۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔” اس نے سر جھکا کر بولا۔
“شاباش میری بیٹی۔” انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
•••
جب جاوید حسن نے جہانزیب سے زہرا کی بات کی تو وہ تو جیسے برس پڑا۔
“نہیں ابو! میں یہ شادی نہیں کر سکتا۔ آپ انہیں ابھی صاف منع کر دیں۔” اس نے ٹیبل پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
“آخر کیوں؟ کیا وجہ ہے؟ کیا برائی ہے اس میں؟” وہ بھی غصے میں بولے۔
آج زندگی میں پہلی بار جہانزیب نے جاوید حسن سے بلند آواز میں بات کی تھی اور انکی بات کو رد کیا تھا۔
“میں زہرا سے شادی کیسے کر سکتا ہوں؟ میں اسے جانتا تک نہیں۔ ہاں وہ ہوگی بہت اچھی مگر میں اس سے شادی نہیں کرسکتا اس لیۓ کیونکہ میں کسی اور کو پسند کرتا ہوں۔” اس نے جاوید حسن کو آخر کار اصل بات بتا ہے ہی دی۔
فرح حسن پیچھے ہی کھڑی تھیں۔ وہ اس وقت بہت پریشان تھیں۔ انہیں ڈر تھا کہ آج کچھ ایسا نہ ہوجائے کہ جہانزیب کو عمر بھر پچھتانا پڑے۔
“مگر میں اپنے بھائی سے زہرا کا رشتہ مانگ چکا ہوں۔ میں کیا جواب دونگا اپنے بھائی کو؟” وہ بولے۔ بات جہانز یب کے انکار سے بڑھ گئی تھی اب تو بات جاوید حسن کی عزت اور انا کی تھی۔ وہ اپنے بھائی کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا چاھتے تھے۔
“تو ابوآپ کو یہ بات مجھ سے پوچھ کار نکالنی چاہیئے تھی!” وہ زچ ہو کار بولا۔
“آہستہ بولو جہانز یب وہ لوگ یہیں ہیں۔” فرح بھی بیچ میں بول پڑیں۔
جاوید حسن مزید کچھ بولے وہاں سے غصّے میں نکل گئے۔ اور پیچھے کھڑے جہانزیب اور فرح بس خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
•••
حرا ملک نے ساری باتیں سن لیں تھی۔ انہوں نے عباد حسن کو سارے معملے سے آگاہ کر دیا تھا۔
“مجھے پہلے ہی لگتا تھا کہ وہ لڑکا کسی میں انٹرسٹڈ ہے۔ کیا ضرورت تھی جاوید بھائی کو یوں بنا پوچھے رشتہ مانگنے کی۔ یہ ہماری بےعزتی ہے۔ ابھی چلیں یہاں سے۔” حرا ملک نے غصّے سے کہا۔
عباد حسن خاموش رہے۔ انہیں جہانزیب کی بات پر خاصی حیرت ہوئی۔
وہ جواب میں کچھ نہیں بولے مگر بےعزتی تو انہیں بھی محسوس ہوئی۔
شام کو جب جاوید حسن اپنے کمرے میں اندھیرا کر کے بیٹھے تھے تو جہانزیب اندر آیا۔ اسے احساس ہوا تھا کہ اسنے اپنے باپ کے ساتھ کافی بدتمیزی کی ہے۔ وہ دبے دبے قدموں سے چلتا ہوا ان کی طرف بڑھا۔
ان کے ہاتھوں پر اس نے ہاتھ رکھ دئیے۔ جاوید حسن نے اسے دیکھ کر آنکھیں بند کرلیں تھی۔
“ابو؟ مجھے معاف کردیں۔ میں نے آپ سے بدتمیزی کی ہے۔ ابو میں آپ کو ہرٹ کرنا نہیں چاہتا تھا۔ مگر میں یہ رشتہ قبول نہیں کرسکتا۔ میرا دل کسی اور کو چاہتا ہے۔ جیسے آپ نے کسی سے وعدہ کیا ہے ویسے ہی میں نے بھی کسی سے وعدہ کیا ہے۔ اگر میں یہ رشتہ قبول کر بھی لوں تو زہرا کبھی میرے ساتھ خوش نہیں رہے گی۔” اس نے انکو سمجھانا چاہا۔ وہ ابھی تک یوں ہی خاموش تھے۔ اس کی بات بھی اپنی جگہ صحیح تھی وہ اس کی بات کو سمجھ گئے تھے۔آخر وہ ان کا ایک ہی بیٹا تھا، ان کی کل کائنات وہ اپنے بیٹے کی خواہش رد نہیں کرنا چاھتے تھے۔
جب جواب میں جاوید حسن نے کچھ نہ کہا تو وہ وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔
پھر ان سے بھی چپ نہ رہا گیا۔
“جہانزیب اگر تمہاری خوشی اس میں ہے تو تمہارے باپ کی بھی خوشی اس میں ہے۔” ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ جہانزیب کے قدم وہیں رک گئے۔ وہ خوشی سے اچھل گیا اور بھاگتے ہوئے ان کے قدموں میں جا پڑا۔
•••
“تمہاری بات صحیح تھی عباد میں نے جلد بازی میں آکر یہ بات کہہ دی۔مجھے پہلے جہا نز یب سے رائے لینی چاہیئے تھی۔” ان کا سر اپنے بھائی کے سامنے جھکا ہوا تھا۔
“بھائی صاحب بچوں سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا۔ ہمیں آپ سے کوئی شکایت نہیں۔” وہ بولے۔
“مجھے ہو سکے تو معاف کر دینا عباد۔” وہ شرمندہ تھے۔
“بھائی صاحب ہمیں آپ سے کوئی ناراضگی نہیں۔ اللّه ہم دونوں کے بچوں کو اپنی جگہ خوش رکھے۔ آمین۔” عباد حسن نے بولا۔
اس بات کی وجہ سے حرا ملک نے عباد سے واپسی کا کہا جس پر وہ راضی تھے اور آج یہ لوگ یہاں سے واپس جا رہے تھے۔
دانیال باہر گاڑی میں سامان رکھ رہا تھا اور زہرا بغیر ملے گاڑی میں بیٹھ گئی تھی۔ جہانز یب دوپہر میں ہی عباد کو خدا حافظ کہہ کر وہاں سے چلا گیا تھا۔
عباد حسن بھی نکل رہے تھے۔
“دعاؤں میں یاد رکھے گا آپ سب اپنا خیال رکھے گا۔” انہوں نے جاوید حسن کے گلے لگ کر کہا۔
“اللّه حافظ!” انہوں نے بھائی کو گیٹ تک چھوڑا۔ بھائی کو یوں جاتا دیکھ کار ان کا دل کٹ رہا تھا۔
•••
عباد حسن کے جانے کے بعد دونوں بھائیوں میں ایک دیوار سے کھڑی ہوگئی تھی۔ لڑائی تو نہیں ہوئی تھی مگر تعلقات کچھ خوش گوار نہیں تھے۔عباد حسن کے جانے کے بعد جاوید نے جہانزیب سے اس کی مرضی پوچھی۔
“جہانزیب اب تو آپ کی پڑھائی ختم ہونے والی ہے۔ ہم چاھتے ہیں کے اس کے بعد آپ ہمارا بزنس سنبھالیں۔ اور یہ بھی کہ یہ وقت مناسب ہے، ہم آپ کی مرضی سے آپ کی منگنی طےکرنا چاھتے ہیں۔” ان کا لہجہ خشک تھا۔
“ابو میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کے مجھے یونیورسٹی میں ایک لڑکی زرمینہ پسند ہے۔ وہ بہت سلجھی ہوئی خوش مزاج لڑکی ہے۔۔۔” اس سے پہلے وہ مزید بات کرتا جاوید نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا
“ٹھیک ہے آپ کی امی اور میں کل ہی ان کے گھر جا کر انکا رشتہ مانگ لیتے ہیں۔ پھر اگر ان لوگوں کو کوئی اعتراض نہ ہوا تو ہم منگنی کی تاریخ طے کر دیں گے۔” یہ کہہ کر وہ وہاں سے فوراً نکل گئے۔
جہانزیب جانتا تھا کے جاوید حسن اس رشتے کو دل سے قبول نہیں کریں گے۔ مگر وہ یہ جانتا تھا کے جب زرمینہ اس گھر میں آئے گی تو وہ یقینن سب صحیح ہوجائے گا۔
اسلام آباد میں وہاں حرا ملک نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا تھا۔
“یہ اہمیت ہے آپ کے بھائی کی نظر میں ہماری۔ کوئی بھلا اس طرح بھی مہمانوں کو بےعزت کرتا ہے!” وہ بہت زور سے چلائی تھیں۔
“انہوں نے رشتہ ہی منگا تھا نا؟ اور کون سا ہم نے ہاں کر دی تھی؟ اگر جہانزیب نہیں کرنا چاہتا تھا تو اس میں بھائی صاحب کا کیا قصور ہے؟” عباد حسن نے بھائی کی طرف داری کرتے ہوئےکہا۔
“وہ جہانزیب سمجھتا کیا ہے خود کو؟ وہ کیا ہمیں منع کرتا ہم خود اسے اپنی بیٹی کبھی نہ دیتے۔ دیکھیں کیسی خاموش ہوگئی ہے زہرا۔ کتنی انسلٹ محسوس کی ہوگی اس نے۔”
حرا ملک ایک بار پھر غصّے سے بولیں۔
“مما بس کر دیں! مت کریں اس بات پر فضول بحث۔” زہرا جو اب تک خاموش تھی وہ اپنے کمرے سے نکل آئی۔
“زہرا بیٹا میں خود تمہارے لئےایک بہترین شخص ڈھونڈوں گا۔ تم اس بات کو بھول جاؤ۔” عباد حسن چلتے ہوئے اس کے پاس آگئے۔
“ہاں ڈھونڈنے سے تو یوں ہزار مل جائیں گے ڈیڈ۔ مگر ان ہزاروں میں جہانزیب نہیں ہوگا۔”
یہ کہہ کر وہ وہاں سے آنسوں کو روکتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔ عباد حسن کے چہرے کا رنگ اڑ گیا، کیونکہ ان کو معلوم نہیں تھا کہ زہرا جہانزیب کو پسند کرتی ہے۔
•••
چند سال بعد ۔۔۔۔۔۔
تین سال بعد جہانزیب کی شادی زرمینہ سے ہوگئی تھی۔
شادی پر عباد کی فیملی سے صرف دانیال اور عباد آئے تھے جبکہ حرا اور زہرا نے شرکت تو کیا مبارکباد دینا تک گوارہ نہیں کیا۔
شادی کے بعد زرمینہ نے پورے گھر کو سنبھال لیا تھا۔ وہ ایک روایتی بہو ثابت ہوئی تھی۔ اس نے اپنے اخلاق سے فرح حسن کا دل جیت لیا تھا مگر جاوید حسن کے ساتھ ہمیشہ ایک اجنبییت سی ہی تھی۔
شادی کے ایک سال بعد جہانزیب کو اللّه نے مہرین جیسی بیٹی دی۔ پورا گھر ہی مہرین کی پیدائش کے بعد اسکے ساتھ لگا رہتا تھا۔ وہ پورے گھر کی لاڈلی تھی۔ جاوید حسن بھی اس سے بہت پیار کرتے تھے اور ہمیشہ اسکو اپنی گود میں لئے رہتے تھے۔
دوسری طرف زہرا کی شادی عباد حسن نے فراز احمد سے کردی تھی۔
فراز اپنے ماں باپ کا ایک ہی بیٹا تھا۔ ماں کے مرنےکے بعد اسنے اپنے بوڑھے باپ کو سنبھلا تھا۔ وہ پی ایچ ڈی کر کے لاہور کے کسی یونیورسٹی میں لیکچرارہوگیا تھا۔
اور یوں زہرا حسن کی شادی فراز احمد سے ہوئی۔ زہرا فراز کے ساتھ بظاہر تو خوش تھی مگر وہ دل میں انتقام کی آگ میں جل رہی تھی۔
اسے جہانزیب سے بدلہ لینا تھا۔
اور پھر وہ پاکسان سے ہمیشہ کے لئے چلی جانا چاہتی تھی۔
•••
دو سالہ مہرین کو جاوید حسن گود میں لئے کھیلا رہے تھے۔ گھر میں سب ہی موجود تھے۔ کچھ ہی دیر میں گھر کی ملازمہ بانو نے آکر بتایا کے دروازے پرعباد حسن آئے ہیں۔
آج تین سال بعد عباد حسن بھائی سے ملنے کراچی آئے تھے۔ آخری مرتبہ دونوں بھائیوں کی ملاقات زہرا کی شادی پر اسلام آباد میں ہوئی تھی۔
عباد کو دیکھ کر وہ فوراً بولے
“ارے! عباد تم! آجاؤ۔” مہرین کو گود سے اتار کے وہ عباد حسن سے ملنے کھڑے ہوگئے۔ زرمینہ نے انہیں دیکھ کر سلام کیا۔ وہ انکو دیکھ کر پہچان گئی تھی کے وہ جہانزیب کے چچا ہیں۔ گھر میں انکا کافی ذکر ہوتا تھا۔
عباد حسن سفر کی وجہ سے تھک گئے تھے۔ فرح نے انہیں پانی دیا اور ڈرائنگ روم میں لے گئیں۔
زرمینہ مہرین کو لے کر چلی گئی اور فرح حسن رات کا کھانا تیار کرنے لگی۔
“زہرا اب کیسی ہے؟ عاشرکا خیال کون رکھتا ہے؟” جاوید حسن نے پریشانی سے پوچھا۔
“زہرا کہاں ٹھیک ہے بھائی صاحب۔ اتنا بڑا غم ہے، اس کو بھلانا آسان کہاں۔ عاشرابھی پانچ ماہ کا ہے مگر زہرا مجال ہے جواسے گود لےلے۔ زہرا کا رویہ دن بہ دن برا ہوتا جارہا ہے۔ ابھی تو اسکی پوری عمر باقی ہے۔ کیسے گزرے گی زندگی۔”
انہوں نے افسردہ لہجے میں کہا۔
“اللّه خیر کرے گا۔ تم پریشاں مت ہو۔ دعا کرو بس۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔” انہوں نے دلاسہ دیا۔
فراز اور زہرا کی شادی کے تین سال ہی ہوئے تھے کہ ایک دن آفس سے واپسی پر اسکا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ زندگی کی بازی ہار گیا۔ زہرا تو کم عمری میں ہی بیوہ ہوگئی تھی۔ اورعاشر زہرا کا ایک بیٹا تھا۔ وہ دو ماہ کا تھا جب اس کا باپ دنیا سے چلا گیا۔ اس بچے کو زہرا نے سینے سے بھی کبھی لگانا گوارہ نہ کیا۔ اور باپ کے مرنے کے بعد ایک بار بھی پیار نہیں کیا۔ اس سانحہ نے زہرا کو توڑ دیا تھا۔ اس کو اپنی قسمت سے ہی نفرت ہوگئی تھی۔ عاشرکوپیار کرنے کے بجائے وہ اس نے نفرت کرنے لگی تھی۔ عاشر سارا دن روتا تھا مگر زہرا کو کبھی اسکی پروا نہیں تھی۔
اس واقع نے عباد کو اندر سے توڑ دیا تھا۔ اولاد کا غم تو انسان کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے۔ اسی لئے کچھ دنوں سے انکی طبعیت خراب رہنے لگی تھی۔
عباد اسی پریشانی کی وجہ سے جاوید سے ملنے آئے تھے۔
جاوید حسن سے بھائی کی پریشانی دیکھی نہیں جارہی تھی۔ اس پریشانی کا ایک ہی حل تھا کہ جتنی جلدی ہوسکے زہرا کی دوسری شادی کروا دی جائے۔
تا کہ عاشرکو باپ اور مہرین کو شوہر مل جائے۔
یہ بہت جلدی ضرور تھا مگر وہ چاھتے تھے کہ وہ کہیں مزید پاگل نہ ہوجائے۔
جاوید حسن کو ایک ہی راستہ سمجھ آیا تھا جہاں عاشرکو باپ اور زہرا کو سہارا مل سکتا تھا۔ اور وہ یہ تھا کہ جہانزیب کی دوسری شادی زہرا سے۔
“ڈیڈ آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ آپ جانتے ہیں کہ میری ایک بیٹی ہے۔ زرمینہ میری بیوی ہے۔”
اس نے جاوید حسن کی بات سنتے ہی غصّے سے کہا۔
“میں یہ بات جانتا ہوں مگر مجھے اس وقت اپنے بھائی کی خوشی سب سے زیادہ عزیزہے۔ اگر تم نے میری بات نہ مانی تو میں بھول جاؤں گا کہ میرا کوئی بیٹا بھی ہے۔” یہ بات سن کرجہانزیب کے ہوش اڑ گئے۔ یہ کس آزمائش میں لا کر وقت نے اسے کھڑا کر دیا تھا۔
“ابو پلیزایسا امتحان مت لیں میرا!” وہ روہانسی ہوا۔
“کچھ سال پہلے تم نے میرا امتحان لیا تھا جہانزیب اور میں نے تمہاری خوشی کی خاطر اپنے بھائی کو منع کیا تھا۔ اب تمہارے اوپر ہے کہ تم یہ بات مانتے ہو یا نہیں۔” اس سے پہلے وہ آگے سے کچھ کہتا وہ وہاں سے چلے گئے اور جہانزیب اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔
•••
اسلام آباد پہنچ کرعباد حسن نے اس بات سے زہرا کو آگاہ کیا تو اس پر تو جیسے قیامت ٹوٹ پڑی۔
“وہ شادی شدہ ہے ڈیڈ۔ کیا ہوگیا ہے آپ کو؟ اگر آپ کو یاد ہو تو ماضی میں اس نے مجھے ٹھکرایا تھا۔” یہ بات اس کو سخت بری لگی تھی۔
“ہم بہت سن چکے آپکی۔ آپ اپنی ذمداری سمبھالیں اور تیاری کریں شادی کی۔” وہ زور سے چیخے اور وہاں سے چلے گئے۔ حرا ملک ویسے تو کبھی جہانزیب کے لیۓ راضی نہ ہوتی مگر اب بات زہرا کے مستقبل کی تھی اور اسکا بیٹا جیسے زہرا نے چھوڑ رکھا تھا۔
دوسری طرف جہانزیب بھی پریشانی کا شکار تھا۔ وہ اور کرتا بھی کیا۔ اسے جاوید کی بات ماننے ہی تھی۔ وہ اپنے فیصلے سے کبھی نہیں ہٹتے۔
زرمینہ کو یہ بات معلوم ہو چکی تھی اور سب کچھ جاننے کے بعد بھی وہ چپ تھی۔ وہ حالات کی نزاکت کو سمجھنے والی لڑکی تھی۔ جہانزیب زرمینہ سے بہت پیار کرتا تھا۔ اسے تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا۔ اس نے جب زرمینہ کو یہ بات بتائی تو وہ راضی ہوگئی۔
“میں تمہارا ساتھ دوں گی جیسے میں نے ہمیشہ دیا ہے۔ تم ابو کی بات مان لو۔” اس نے اسکے ہاتھوں پہ اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
“اور ہماری بیٹی؟ کیا وہ یہ بات محسوس نہیں کرے گی؟” وہ دھیمے سے لہجے میں بولا۔
“وہ ابھی چھوٹی ہے بڑے ہونے تک آدھی ہوجائے گی۔ تم فکر مت کرو میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔” اس نے پیار سے اسے تسلی دی۔ زندگی میں کبھی کچھ اسے فیصلے کرنے پڑ جاتے ہیں جو انسان کی زندگی کو بدل دیتے ہیں۔ شاید جہانزیب کا یہ فیصلہ اسکے لیۓ غلط ثابت ہونے والا تھا۔
بستر سے اٹھنے سے پہلے اسکی نظر مہرین پر پڑی جس کی وجہ سے وہ مزید پریشان ہوگیا تھا۔
•••
آخرکاربہت لڑائی اور بحث کے بعد دو ماہ کے بعد سادگی سے جہانزیب اور زہرا کا نکاح ہوگیا تھا۔ آج دونوں ہی بھائی خوش تھے۔ آنسوں جیسے تھم نہیں رہے تھے۔ آخر کار جاوید حسن کا وعدہ پورا ہو ہی گیا تھا۔ نکاح میں سب ہی موجود تھے۔ حرا ملک کے چہرے پر خوشی تھی کہ ان کی بیٹی اب سکون سے رہے گی۔ نکاح میں زرمینہ اور ننھی مہرین بھی تھیں۔ اپنا شوہر کسی اور کا ہوتے دیکھنا ہر عورت کے بس کی بات نہیں۔ مگر زرمینہ نے اسے قدرت کی آزمائش سمجھ کر قبول کر لیا تھا۔
•••
زہرا شادی کر کہ آئی تو اس نے کسی سے بات نہیں کی۔ یہاں تک کے جہانزیب سے بھی کوئی تعلق نہیں رکھا۔ عاشر کو تو وہ پلٹ کہ دیکھتی تک نہیں تھی۔ اسنے کسی سٹوڈیو میں کام کرنا شروع کردیا تھا۔
زرمینہ اورجہانزیب کے رشتے پر کوئی فرق نہیں پڑا تھا وہ لوگ ویسے ہی خوش تھے۔ اس دن عشر زور زور سے رو ررہا تھا اور زرمینہ فوراً وہاں پہنچی تو دیکھا وہ بخار میں تھا۔ وہ اسے لے کر ڈاکٹر کے پاس چلی گئی۔
جہانزیب کو جب پتا چلا کہ زہراس حد تک لا پروا عورت ہے تو اس سے رہا نہ گیا۔
“حد ہوتی ہے زہرا! تمھیں اس گھر میں ہماری پروا نہیں ٹھیک ہے، مگر اولاد کو کون یوں چھوڑتا ہے؟” وہ اس کا بازو کھینچ کر بولا۔
“زیادہ ہمدرد بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ ویسے بھی تم کون سے کبھی کسی کے ہمدرد رہے ہو؟ سوتیلابیٹا ہے وہ سگا نہیں۔” وہ طنزیہ بولی۔
“ہاں وہ سوتیلا ہے مگر انسانیت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔” وہ دھڑا۔
“تم کیا جانتے ہو رشتوں کے بارے میں! جہانزیب حسن تم ایک خودغرض انسان ہو۔ اپنی بیوی سے دل بھر گیا تو مجھ سے شادی کرلی؟” آج پھر دونوں کی لڑائی ہونے والی تھی۔
جہانزیب کا دل کر رہا تھا کہ ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پر دے مگر یہ اس کا شیوا نہیں تھا۔
“کیا ہورہا ہے یہاں!” دروازہ کھولا اور جاوید حسن اور فرح حسن دونوں اندر آگئے۔
“اپنی لاڈلی بہو سے پوچھیں۔” وہ غصّے سے بولا۔
“میں کیا بولوں تایا ابو۔ جہانزیب خوش نہیں ہے اس رشتے سے مجھے یہاں سے چلے جانا چاہیئے۔” وہ روتے ہوئے بولی۔
جاوید حسن نے جہانزیب کی طرف دیکھا۔
“جو بات ہے وہ بتاؤ زہرا ڈرامے نہ کرو۔” اس کا صبر کا پیمانہ ختم ہو چکا تھا۔
“دیکھ لیں تایا ابو طرح بات کر رہا ہے یہ مجھ سے۔” وہ پھر رونا شروع ہوگئی۔ زرمینہ مہرین کو گود میں لیۓ سب سن رہی تھی۔
“جہانزیب یہ کیا طریقہ ہے بات کرنے کا۔” وہ بھی زہرا کے ساتھ ہوگئے۔
جہانزیب مزید کچھ بولے بغیر وہاں سے نکل گیا۔ یہ اس کی زندگی کی بربادی کی شروعات تھی۔
•••
زہرا اس گھر میں نہ خود خوش رہتی تھی اور نہ کسی اور کو رہنے دیتی تھی۔ وہ روز زرمینہ کے خلاف جاوید حسن کو بھڑکاتی تھی۔ عاشرکا خیال تو کیا دیکھنا تک گوارہ نہیں کرتی تھی۔ اور عاشر زیادہ تر یا تو زرمینہ کے پاس ہوتا تھا یا بانو کے پاس۔ چند مہینے بعد ہی عباد حسن کا انتقال ہوگیا تھا۔ اس دکھ نے جاوید حسن اور سب گھر والوں کو توڑ دیا تھا۔ جاوید حسن زہرا کو مزید پیار کرنے لگے۔ جہانزیب نے بھی زہرا سے اچھا سلوک کرنا چاہا مگر اسکا مقصد صرف جہابزیب کو برباد کرنا تھا۔ اپنی بے عزتی کا بدلہ لینا تھا جو وہ لے رہی تھی۔ مہرین چاہے چھوٹی ہی تھی مگر اسے سمجھ آتا تھا کہ کس طرح زہرا زرمینہ کے ساتھ سلوک کرتی ہے۔ بچے جب چھو ٹے ہوتے ہیں تو اثرات انکے ذہن پر پڑتے ہیں۔ روز باتیں سنانا اور سب گھر والوں کو زہر بھرنا جیسے اسکی عادت بن گئی۔
گھر میں ہر روز لڑائی ہوتی تھی اور جاوید حسن آخر زرمینہ کو ہی باتیں سناتے تھے۔
•••
“مجھے طلاق چاہیئے! میں مزید اس گھر میں نہیں رہوں گی۔” وہ آج پھرجہانزیب کے ساتھ لڑنا چاہتی تھی۔ جہانزیب اس کو جواب دینا نہیں چاہتا تھا۔ شادی کو ایک سال گزر چکا تھا مگر اس نے سب کا جینا مصیبت کر دیا تھا۔
“مسلہ کیا ہے تمھیں؟ کیوں اسے مطالبے کر رہی ہو؟” وہ بھی برس پڑا۔
“میں تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔ آدھی بٹی ہوئی زندگی نہیں چاہیئے مجھے۔” وہ بولی۔
“تمھیں جو کرنا ہے کرو مگر میری جان چھوڑ دو!” وہ چلایا۔
حرا ملک کو پتا چلا تھا کہ وہ وہاں پر بھی یہی حرکتیں کر رہی ہے۔ جہانزیب نے حرا سے کہا تھا کہ وہ اسے سمجھائیں۔ مگر وہ کسی کی نہیں سن رہی تھی۔ اور ایک دن وہ ہوا جس کی امید کسی کو نہیں تھی۔ زہرا گھر چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ وہ ایک خط چھوڑ کر گئی تھی جس پر اسنے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیاں اور ظلم بیان کیۓ تھے۔ سب نے اسے بہت ڈھونڈا مگر وہ نہیں ملی۔ جاوید حسن نے اس سب کا قصور وار جہانزیب کو ٹھرایا۔
عاشر کو وہ چھوڑ کر گئی تھی اور دانیال کے بہت زور کے بعد بھی جہانزیب نے عاشر کو اپنے ساتھ رکھنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ تو ویسے ہی زرمینہ سے مانوس ہوگیا تھا۔ اس لیۓ ڈیڑھ سالہ بچہ ان کے پاس رہنے لگا۔ جہا نزیب نے عاشر کو اپنی اولاد سے زیادہ چاہنے لگے۔ اور یوں عاشر جہانزیب کا بیٹا بن گیا۔
آج پھر برف باری ہو رہی تھی۔ اسے لندن کا موسم کبھی اچھا نہیں لگا تھا۔ وہاں کی ٹھنڈ برداشت کرنا اس کے لیئے محال تھا۔
آج وه نہ ہی آفس گیا تھا اور نہ ہی فلیٹ میں رکنے کا اسکا کوئی ارادہ تھا بلکہ وه آج لندن کی مہشور جگہ “River Thomas ” گھومنے نکل گیا تھا۔ یہ لندن کی خوبصورت جگہوں میں سے ایک هے۔ 215 میل لمبائی پر محیت یہ دریا نہایت د لکش اور پر سکون معلوم ہوتا ہے۔ رات میں تو یہ جگہ آنے والوں کو اپنے فسوں میں لپیٹ لیتی ہے۔ عاشر بھی آج اس جادوئی جگہ کا مہمان تھا۔ ا س نے دو جیکٹوں میں خود کو لپیٹا ہوا تھا۔ برفباری رک چکی تھی اور وه پهر سے اپنے ہاتھ میں کافی لیۓ اس بہتے دلکش دریا کو دیکھ رہا تھا۔
نہ چاہتے ہوئے بھی اسے ماضی کی باتیں پهر یاد آگیئں۔ کس طرح اس گھر میں جہاں وه پلا بڑھا تھا اسکا رہنا مشکل ہو گیا تھا۔ اپنی زندگی کی تلخ یادیں وه فراموش نہیں کر سکتا تھا۔ ہاں وه بہت پیار کرتا تھا سب سے پر اس عورت نےاس سے سب کچھ چھین لیا تھا۔ بابا جان کے بغیر وه ایک پل نہیں گزار سکتا تھا اور کس طرح وہ ایک سال پردیس میں گزار چکا تھا، یہ عاشر سے بہتر کون جان سکتا تھا۔ آنسو اب اسکی آنکھوں سے بہنے لگے تھے۔ وه چاه کر بھی اس تکلیف سے نجات نہیں پا سکتا تھا جو اسے ملی تھی۔
***********************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...