اسکی بیسٹ فرینڈ تھی وہ دونوں آپس میں ہر چیز شیئر کیا کرتے تھے۔
آبھی بھی وہ۔صبا کو ڈھونڈ نے کیلئے کلاس جارہی تھی۔
تمہاری پروبلم کیا ہے ہر بار کیوں بے عزت ہونے آجاتے ہو۔
خود کے اندر کچھ سلف رسپیکٹ پیدا کرو یہ بار بار لڑکی سے بے عزتی اُٹھانا اچھی بات نہی ہے۔
امیمہ اسے کھری کھوٹی سنا کر جاچکی تھی وہ وہی کھڑا اسے جاتا دیکھنے لگا۔
دور کھڑا ازلان یہ سب دیکھ چکا تھا اسکے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی تھی۔۔۔۔
وہ اپنی کلاس میں چلا گیا تھا۔۔۔۔۔
صبا کی بچی کہاں ہوں میں تمہیں کب سے ڈھونڈ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔
امیمہ چھوٹتے ہی سیل پر کہنے لگی۔۔۔۔
تمہارے پیچھے۔۔۔۔۔۔صبا کھلکھلا کر ہنس دی تھی۔
کہاں تھی تم۔۔۔۔۔میں تو اوپر کھڑی ہماری ہٹلر صاحبہ یو بچارے فہد کی کلاس لیتے دیکھ رہی تھی۔
آچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ پاگل انسان ہے۔۔۔۔
میرا موڈ خراب مت کرو۔۔۔۔پہلے ہی میرا موڈ خراب ہے۔۔۔
ارے پھر سے تمہاری اپنے کزن سے لڑھائی ہوگئی ہے۔
کھڑوس کہی۔کا سمجھتا کیا ہے۔۔۔۔۔امیمہ پیر پٹکنے لگی۔
اتنا فاسٹ بائیک چلائی ہے نہ آج میں نے دوبارہ بائیک میں بیٹھنے سے توبہ کرلی ہے۔
امیمہ جھرجھری لیتے ہوئے کہنے لگی۔
اچھا چلو کلاس کا ٹائم ہوگیا ہے۔۔۔۔۔
ہاں چلو چلتے ہیں۔۔۔۔۔۔دونوں کلاس روم کی جانب چل دی تھی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ازلان اپنے دوستوں کے ساتھ کینٹین میں بیٹھا تھا جب اسکی کلاس میٹ روشنی چلی آئی تھی۔
ہائے ازلان ہائے سوہان کیسے ہو۔۔۔۔۔
ہائے روشنی کیسی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔
سوہان اسے دیکھ پوچھنے لگا۔۔۔۔
میں ٹھیک ہوں وہ ان کے پاس ہی ایک چیر پر بیٹھ گئی تھی۔۔۔۔ازلان کو وہ ایک آنکھ بھی نہی بھاتی تھی ساری کلاس روشن پر مرتی تھی لیکن ازلان شاہ ایک ایسا شخص تھا۔۔۔جو اسکی خوبصورتی بھی اسے اپنی طرف مائل نہی کرسکی تھی۔۔۔۔۔
وہ بکس کھولے جان بوجھ کر روشنی کو نظر انداز کرتے ہوئے بیٹھا تھا۔۔۔۔۔
روشنی اسکا لاپرواہ انداز دیکھ چڑھ گئی تھی اسکے ہاتھ سے بکس کھینچنے لگی۔۔۔۔
ازلان ناگواری سے اسے گھورنے لگا۔۔۔
روشنی مسکرانے لگی تھی۔۔۔۔ازلان اُٹھ کر کھڑا ہوگیا تھا۔
سوہان میں گھر جارہا ہوں وہ یہ کہتا کینٹین سے نکلتا چلا گیا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔امیمہ ہاشم۔۔۔۔۔تین بھائیوں کی اکلوتی بہن اور ماں باپ کی سب سے لاڈلی تھی۔۔وہ بہت خوبصورت تھی اسکے ساتھ ساتھ اسکے ناک پر ہمیشہ غصہ رہتا تھا۔۔۔۔
جب بھی غصہ آتا وہ کسی سے بات نہی کرتی تھی چپ چاپ کمرا بند کرلیتی تھی۔پھر سب کے بہت منانے کے بعد مانتی تھی۔۔۔۔
چھوٹی ہونے کی وجہ سے گھر میں سب سے لاڈ اُٹھاتی پھرتی تھی۔۔۔اور اپنی ہر بات بھی منواتی تھی۔
اسکی سب کے ساتھ بنتی تھی ماسوائے ازلان شاہ کے اسکی چھوٹی پھو پھو رقیہ بیگم کی اکلوتا لڑکا تھا۔
جو بیوہ ہونے کے بعد سسرال چھوڑ کر الگ گھر میں اکر رہنے لگی تھی۔۔۔۔
اس وقت ازلان بی ایس سی کا سکینڈ ائیر کا اسٹوڈنٹ تھا۔۔۔۔جب اسکے بابا کا انتقال ہوا تھا۔۔۔۔
دونوں ماں بیٹے شوہر کی بچائی گئی پونجی لیکر ایک چھوٹاسا دوکمروں کا مکان لیکر رہنے لگے تھے۔
انکے بھائی ہاشم خان اور بھابی زرمینہ نے انہیں الگ رہنے سے منع کیا تھا۔۔۔۔
رقیہ اتنا بڑا گھر ہے ہمرا اگر تم دونوں رہ لوگے تو کچھ بھی کمی نہی آئیگی۔۔۔۔۔زرمینہ نرمی سے رقیہ بیگم کو سمجھانے لگی۔۔۔۔
معاف کیجئے گا بھابی میں تو رہ لوں لیکن ازلان کبھی نہی مانے گا۔۔۔۔
ازلان شاہ بچپن سے ہی بہت زہین اور سمجھ دار بچہ تھا۔۔۔۔پڑھائی میں بھی شروع سے تیز تھآ۔
باپ کی بھی کبھی کبھار کاروبار میں مدد کردی کرتا تھا۔لیکن بابا کے جانے کے اس نے پارٹ ٹائم جاب کرلیا تھا۔کالج سے آنے کے بعد وہ شام کو ٹیوشن انسٹیوٹ جاتا تھا۔ جہاں وہبچوں کو ٹیوشن لیا کرتا تھا۔ اسکے بعد ایک ہوٹل میں منیجمنٹ کیلئے چلا جاتا تھا۔
اب اسے اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ گھر کی بھی ساری زمیداری اٹھانی تھی۔
اس لئے ازلان نے اپنی ماں رقیہ بیگم کو کہدیا تھا کے وہ کسی کا ایک پیسہ نہی لیں گی۔کیونکہ وہ اپنے یا اپنی ماں پر کسی کا احسان نہی چاہتا تھا۔۔۔۔
اس لئے سب خود ہی سنبھالتا تھا۔۔۔۔۔اسکے ماموں ہاشم خان اپنے بچوں کو ازلان کی مثال دیا کرتے تھے۔
ازلان اور رقیہ بیگم کے علاحدہ گھر میں آجانے کے بعد امیمہ اپنی پھوپھو سے بہت اٹیچ ہوگئی تھی۔
جب بھی کچھ اچھا بنتا رقیہ بیگم فوراً ی تو امیمہ کو بلالیتی یاپھر ازلان کے ہاتھ سے ان کے گھر بھجوادیا کرتی تھی۔…….
امیمہ کالج میں کل ٹیسٹ شروع ہونے والے ہیں تم پلیز پڑھائی کیلئے میری تھوڑی مدد کردینا۔۔۔
تم جیسی نالائق لڑکیوں کی یہی حالت ہوتی ہے۔۔۔۔جب تک ٹیسٹ اور ایگزام شروع نہی ہوجاتے تب تک بکس کھولتی نہی ہو لاسٹ مومنٹ پر کھولتی ہوتو کہاں سے سمجھ آئے گا۔ ۔۔
بس بس اپنی پڑھائی پر زیادہ گھمنڈ مت کرو۔۔۔
صبا چڑھ کر کہنے لگی۔۔۔۔امیمہ کو ہنسی چھوٹ گئی تھی۔
چلو لائیبریری چلتے ہیں۔۔۔وہاں بیٹھ کر پڑھائی کرتے ہیں۔
دونوں لائیبریری کی جانب چل دی تھی۔ لائیبریری کے ڈور پر صبا اور ازلان کا ٹکرائو ہوگیا تھا۔
امیمہ ازلان کو دیکھ منہ کے زاویہ بناتی اندر چلی گئی تھی۔ جبکہ صبا وہی کھڑی ازلان کی بیگ سے گری ڈائری کو دیکھنے لگی۔۔۔۔وہ جب تک اسے آواز دیتی وہ جاچکا تھا۔ ۔۔۔۔صبا نے وہ ڈائری اُٹھالی تھی۔
اسکو کھول کر دیکھا تو اس میں ایک تصویر تھی۔صبا اس تصویر کو حیرانی سے دیکھتے ہوئے جلدی سے اپنی بیگ میں ڈائری رکھ لی تھی۔
دوبوں کچھ دیر پڑھائی کرنے کے بعد گھر چلی گئی تھی۔
صبا دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد اپنے کمرے میں بیٹھ کر پڑھائی کرنے کا سوچ رہی تھی۔
وہ اپنی بیگ اے بکس نکالنے لگی۔جب اسکے ہاتھ ازلان کی ڈائری بھی آگئی تھی۔
صبا نے ڈائری کھولا تو اس میں رکھی تصویر پھسل کر نیچے گرگئی تھی۔
صبا اس تصویر کو اٹھا کر دیکھتے ہوئے مسکرانے لگی۔
یہ تصویر امیمہ کی تھی۔
صبا تصویر کو ڈائیری میں رکھتے ہوئے صفہ پلٹنے لگی۔
پہلے صفہ پر لکھا تھا۔
مجھے اچھا سا لگتا ہے۔
تمہارے سنگ سنگ چلنا
تمہیں ناراض کردینا
آور خود ہی منالینا
تمہاری بے رخی پر
تمہارے ناز اُٹھالینا
بہت گہرے خیالوں میں
محبت کے حوالوں میں
تمہارا نام آجانا
مجھے اچھا سا لگتا ہے
تمہاری آرزو کرنا
خود اپنے دل کی دھڑکن سے
تمہاری گفتگو کرنا
مجھے اچھا سا لگتا ہے۔
محبت کے خیالوں میں
تمہارا ہاتھ پکڑنا
راہ میں ہم دونوں کا چلنآ
تمہارا ساتھ ہونا
مجھے اچھا سا لگتا ہے۔
آخری مصرعہ پڑھ کر صبا حیران تھی۔۔۔۔کیا بات ہے۔
دوسرا صفہ پلٹا تو دیکھا۔
آج امیمہ نے گرین کلر کا ڈریس پہنا تھا۔۔۔بہت پیاری لگ رہی تھی جی چاہ رہا تھا۔۔۔۔اسے اپنے ساتھ آیک ایسی دنیا میں لے کر جائوں جہاں یوئی نہی ہو بس میں اور وہ ہو۔ ۔۔۔اور میں اسے اپنے سامنے بٹھا کر جی بھرکے دیکھتا رہوں اور وقت وہی تھم سا جائے۔
وہ غصہ بلکل بچوں کی طرح کرتی ہے۔
آج بھی میری اس سے بحث ہوگئی۔۔۔۔گھر آئی تھی اور کہنے لگی مجھے آئسکریم کھلا کر لائو۔
میں نے صاف منع کریا تو غصہ سے پیر پٹکتی ہوئی اندر چلی گئی تھی۔
کچھ دیر بعد میں آئسکریم لیکر آیا تو اس نے ایک نظر بھی نہی ڈالی تھی۔
کہنے لگی مجھے یہی کھانا تو میں خود منگوالیتی میں تو بائیک پر جانا چاہتی تھی۔
پتہ نہی اس یو میری بائیک سے اتنی محبت کیوں تھی۔
مجھے اچھا نہی لگتا تمہیں اپنے ساتھ بائیک پر لیکر جانا۔راستے میں لوگ عجیب نظر سے تمہیں دیکھیں مجھے یہ منظور نہی۔