وہ گم سم سی لان میں بیٹھی سوچ رہی تھی۔ اس کے اور رانا مبشر کے رشتے میں کافی دوری بنتی جا رہی تھی۔ رانا مبشر ہر وقت آفس یا سفر میں ہوتے اور وہ اس دور دراز علاقے میں اکیلی بیٹھی ہوتی نہ کسی سے ملنا جلنا نہ بات کرنا۔ بس بنگلے کی چار دیواری ہی اس کا نصیب بن گیا تھا کہاں وہ ایک بزنس وومن تھی اور کہاں قید ہو کر رہ گئی تھی۔
اس کے سوچ کا تسلسل کسی کے قدموں کی چاپ سے ٹوٹا اس نے سر اٹھا کر دیکھا چوکیدار تہذیب سے سر جھکائے کھڑا تھا اور ان کے کزن کے آنے کی اطلاع دی۔
بیلا کو رانا مبشر کی تردید یاد آئی لیکن وہ اس طرح دروازے پر سے محمود کو واپس نہیں بھیج سکتی تھی۔
“اگر محمود نے کال کی ہوتی تو میں اسے گھر آنے سے منع کر دیتی” اس نے دل میں سوچا اور چوکیدار کو انہیں اندر بھیجنے کی اجازت دے کر خود لاؤنج میں چلی گئی۔
“ہائے بیلا۔۔۔۔۔۔ سوری بنا بتائے آگیا۔۔۔۔۔ تم نے مائنڈ تو نہیں کیا” محمود نے خوش دلی سے کہا۔
بیلا وہی لاؤنج میں کھڑی پھیکا مسکرائی اور موڈ کو ٹھیک کرتے ہوئے اس سے گویا ہوئی۔
“نہیں کوئی بات نہیں۔۔۔۔ تم بتاؤ اچانک کیسے آنا ہوا۔”اس نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔
محمود نے سوچا وہ اسے بیٹھنے کے لیے کہے گی چائے پانی کا پوچھے گی ہمیشہ کی طرح جوش و خروش سے ملے گی لیکن اس کے توقعات کے بر عکس بیلا صرف ہاتھ باندھے کھڑی رہی اور سیدھا اس کے آنے کی وجہ پوچھی۔ محمود کو اس کے رویہ میں کھٹک محسوس ہوئی۔
“میں تو۔۔۔۔۔۔ یہ کارڈ دینے آیا تھا۔۔۔ رمشا کی شادی طے ہوگئی ہے۔۔۔” اس نے بے دلی سے کارڈ آگے کر کے اپنی بہن کا نام لیتے ہوئے کہا۔
کارڈ دیکھ کر بیلا کے تاثرات بدل گئے۔ وہ آگے بڑھی اور محمود کے ہاتھ سے کارڈ لے کر دیکھنے لگی۔
“اووو یہ تو بہت اچھی خبر ہے۔۔۔۔۔ مبارک ہو۔۔۔۔۔ تائی کو میری طرف سے مبارکباد کہنا۔” بیلا نے خوشگوار مزاجی سے مصافحہ کرتے ہوئے مبارکباد پیش کی۔
“شکریہ۔۔۔۔ لیکن تمہیں سارے فنکشنز میں لازمی آنا ہے۔۔۔۔۔ میں کوئی بہانہ نہ سنوں۔” اس نے بیلا کا ہاتھ تھامے ہوئے تنبیہہ کیا۔
“ضرور آو گی “بیلا نے استحکام سے سر کو جنبش دیا۔
“اوکے۔۔۔۔ میں چلتا ہوں۔۔۔۔ مجھے اور بھی کارڈز بانٹنے ہے۔۔۔ بائے” محمود نے زیادہ وقت نہ لیتے ہوئے خدا حافظ کیا اور باہر نکل گیا۔
بیلا نے سر جھٹک کر کارڈ وہی میز پر رکھا اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔
****************&&&&&*************
رانا مبشر شام کو گھر آیا اور سنجیدہ انداز میں کارڈ اٹھا کر دیکھا۔
ملازمہ ڈنر بنا رہی تھی تو اس کے لیے پانی بیلا لے آئی۔
“یہ کارڈ کون لایا” رانا مبشر نے کارڈ کو الٹا پلٹا کر دیکھا۔
“وہ۔۔۔۔ محمود لایا تھا۔۔۔۔۔ ملازمہ نے لیا تھا اس سے۔۔۔۔ میں کمرے میں تھی۔” بیلا کو کوئی تماشا نہیں بنانا تھا اس لیے مصروف انداز میں جھوٹ گھڑ دیا۔
ملازمہ ڈائننگ ٹیبل پر برتن لگا رہی تھی بیلا کا جھوٹ سن کر ٹھٹک گئی اور سہم کر ہاتھ مڑوڑنے لگی۔
رانا مبشر مسرور ہوتے ہوئے آبرو اچکا کر مسکرائے اور رخ موڑ کر تعجب سے ملازمہ کو دیکھا وہ سر جھکا کر نظریں موڑ گئی۔
رانا مبشر نے ہاتھ گھماتے ہوئے بیلا کو زوردار تھپڑ لگایا۔ اس کے منہ سے کراہ نکلی اور لھڑکرا کر دو قدم پیچھے ہوگئی۔
“دو دفعہ کیا مل لی اس باسٹرڈ سے مجھ سے جھوٹ بولنے کی ہمت آگئی” رانا مبشر نے غراتے ہوئے کہا۔
بیلا آسنو صاف کرتے ہوئے سیدھی ہوگئی۔ دل ہی دل وہ خود کو کوسنے لگی۔
“یہی سوچ رہی ہوگی مجھے کیسے پتا چلا۔” انہوں نے بیلا کو خود کو گھورتے ہوئے دیکھا تو اندازہ لگایا۔ اپنا لیپ ٹاپ نکالا اور کچھ بٹن دبا کر سکرین اس کے سامنے کی۔
وہاں دن میں ہوئی اس کی اور محمود کی ملاقات کی ویڈیو چل رہی تھی۔
“اس کا ملطب۔۔۔۔۔ مبشر نے گھر میں خفیہ کیمرے لگائے ہیں۔۔۔۔۔ جس سے وہ ہر وقت مجھ پر نظر رکھے ہوئے ہے۔” بیلا نے بے یقینی سے بے بسی سوچا۔
“مبشر میں بحث نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔۔۔ تنگ آگئی ہوں روز روز کے لڑائی جھگڑوں سے۔۔۔۔۔ اس لئے جھوٹ بولنا پڑا۔” اس نے اپنی کیفیت ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
رانا مبشر آگے آیا اور اس کا دائیاں ہاتھ پکڑ کر مڑوڑ دیا۔
“یہی ہاتھ ملایا تھا نا۔” اس نے بیلا کے کان سے لگ کر سرگوشی میں کہا۔
بیلا تڑپ کر خود کو چھڑانے کی کوشش کرنے لگی۔ تکلیف اس کے برداشت سے باہر ہورہی تھی۔ رانا مبشر نے ایک جھٹکے سے اس کا ہاتھ چھوڑا وہ بل کھاتی گھٹنوں کے بل جا بیٹھی۔
اس رات وہ دوسرے کمرے میں رہی اپنے بیڈ روم میں نہیں گئی اور مبشر بھی اسے بلانے یا منانے نہیں گیا۔
صبح مبشر کی کار نکل جانے کے بعد وہ کمرے سے باہر آئی اور بنا کچھ کھائے پیئے اپنے بیڈ روم میں چلی گئی۔ پژمردہ سی چال چلتی وہ اپنے بیڈ پر آکر بیٹھ گئی اور اطراف کا جائزہ لینے لگی۔ رانا کے پرفیوم کی مہک اب تک کمرے میں موجود تھی۔
رات بھر روتے رہنے کے باوجود اس کا دل ہلکا نہیں ہوا تھا۔ وہ رخ موڑ کر دیوار پر فریم شدہ اپنی اور رانا مبشر کی شادی کی اور ہنی مون کی تصویریں دیکھنے لگی یادوں کی نکاشی اس کی ذہن کے پردے پر لہرائی اس کی آنکھیں بھر آگئی۔
بھیگی آنکھوں سے خود کو اناری رنگ کے لہنگے میں دلہن بنی دیکھ کر اسے اپنے پاپا کی نصیحت یاد آئی۔
(“پاپا مبشر اچھا انسان ہے۔۔۔۔ آپ بیکار پریشان ہورہے ہے۔۔۔۔۔ وہ مجھے بہت چاہتا ہے” بیلا نے اپنے پاپا شمس ڈار کے بازو پر سر رکھ کے انہیں سمجھانے کی کوشش کی۔
“بیٹا۔۔۔۔۔ مبشر جیسے لوگ صرف کسی چیز کو پا لینے تک اسے چاہتے ہے۔۔۔۔۔ ایک دفعہ وہ چیز ان کے ہاتھ لگ جائے۔۔۔۔۔ پھر وہ اسے پیروں تلے روند دیتے ہیں” پاپا نے اس کے رخسار پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے کہا۔
“پاپا۔۔۔۔۔ مبشر انسانوں اور چیزوں میں فرک سمجھتا ہے۔۔۔۔۔۔ مجھے پتا ہے وہ میرے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔۔۔۔۔ مجھے اس کی محبت پر اعتبار ہے” بیلا مبشر کی طرفداری کرتی رہی۔
“وہ اس لیے کیونکہ اب تک تم اس کی جاگیر نہیں ہو۔۔۔۔۔۔ جس دن تم اس کی بیوی بن گئی اس کے تحویل میں آگئی۔۔۔۔۔ تب وہ تمہیں اپنا اصلی چہرہ دکھائے گا۔۔۔۔۔ میں مبشر جیسے آدمیوں سے خوب واقف ہوں۔۔۔۔۔ جو اصل چہرے پر فریب کاری کا نقاب لگائے پھرتے ہے۔” پاپا نے سنجیدگی سے کہا
“اووفففووو۔۔۔۔ پاپا۔۔۔۔۔ آپ مبشر کے لیے اپنا دل صاف کر لیں۔” بیلا نے التجا کرتے ہوئے کہا۔
“اتنا اچھا رشتہ لایا تھا تمہارے لیے۔۔۔۔۔۔ آخر کیا خرابی ہے محمود میں۔۔۔۔۔ کہی سے بھی مبشر سے کم ہے کیا۔۔۔۔۔ بلکہ اس سے تو بہتر ہی ہے۔”پاپا نے اس کی بات سے قائل ہوئے بغیر منہ بھسورتے ہوئے اپنی شکایت ظاہر کی۔
“پاپا۔۔۔۔ آپ کی بات اپنی جگہ بلکل صحیح ہے۔۔۔۔۔ لیکن میں نے کبھی محمود کو اس نظر سے نہیں دیکھا۔۔۔ وہ میرا کزن ہے اور اچھا دوست رہا ہے بس۔۔۔۔۔ پیار میں مبشر سے کرتی ہوں اور شادی بھی اسی سے کروں گی” بیلا نے حتمی فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔
“بہت بڑی غلطی کر رہی ہو بیلا۔۔۔۔۔ ایک دن تمہیں میری باتیں ضرور یاد آئے گی” بابا نے غصہ میں کہا اور کمرے سے باہر نکل گئے۔)
بیلا نے کرب سے آنکھیں بند کر لی آنسو جاری ہوچکے تھے اس نے لب کاٹتے ہوئے پچھتاوے سے سر جھٹکا۔
اسی لیے کہتے ہے والدین ہم سے بہتر سمجھتے ہیں ہمیں ان کی بات مان لینی چاہیے۔ انہوں نے ہم سے زیادہ زندگی دیکھی ہوتی ہے انسان کو پرکھنے کا تجربہ زیادہ ہوتا ہے ان کے پاس۔ وہ جو بھی فیصلہ کرتے ہے اولاد کی بہترین کے لیے کرتے ہے۔ اس وقت تو جذباتی ہوکر ہم جلد بازی کر دیتے ہے لیکن جب اپنے غلط فیصلے کی وجہ سے منہ کی کھانی پڑتی ہے تب احساس ہوتا ہے لیکن اکثر جب تک بات سمجھ آتی ہے بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔
بیلا کو یہ مثال آج سمجھ آرہی تھی۔ اس نے دل گرفتگی سے دل میں ہی اپنے والدین سے معذرت کی اور اٹھ کر سائیڈ ٹیبل کے دراز کے پاس آئی۔ وہ اپنی حالات کے بارے میں اپنے گھر والوں کو بتا کر ان کے اندیشے سچ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ مبشر جیسا بھی تھا پر اس نے تو اس سے سچی محبت کی تھی وہ دنیا کے سامنے اپنے شادی شدہ زندگی کا مذاق بنا کر اپنے محبت کی توہین بھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔
مبشر پہلے ہی اپنے والدین کے طلاق سے ڈسٹرب تھا اب بیلا اسے پھر سے طلاق کا صدمہ نہیں دینا چاہتی تھی لیکن بلفرض وہ اس سے طلاق کر لیتی تب بھی اس کے لیے مبشر کے بغیر رہنا مشکل تھا۔ حالات ایسے ہوگئے تھے کہ وہ اس کے ساتھ گزارہ بھی نہیں کر پا رہی تھی اور اس سے الگ بھی نہیں ہوسکتی تھی اس لیے مبشر کے ہاتھوں گھٹ گھٹ کر مرنے سے اچھا اس نے ایک ہی دفعہ میں اپنی زندگی ختم کرنا آسان سمجھا۔ بیلا نے لرزتے ہاتھوں سے دراز کھولا اور پسٹل نکال کر اپنے ماتھے پر ٹکائی تصویر میں مبشر کا چہرہ دیکھتے ہوئے اس نے ٹریگر دبایا اور خود کو شوٹ کر دیا۔
*************&&&&*************
رانا مبشر آفس میں اپنے سٹاف کے ہمراہ رعب و دبدبہ سے میٹنگ روم کی طرف گامزن تھا جب اس کا فون بجا۔ وہ اپنے سٹاف سے معذرت کرتا کونے میں گیا اور کال اٹھائی۔
کال پر موجود انسان کی بات سن کر اس کی سانس رکنے لگی دھڑکن بے ترتیب ہوگئی چہرے کا رنگ فق سے اڑ گیا اور موبائل اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر فرش پر گر گیا۔ وہ روہانسی ہوکر الٹے قدم کوریڈور سے باہر بھاگا۔ اس کے انتظار میں کھڑے سٹاف ممبران نے انہیں ایسے بھاگتے دیکھا تو گڑبڑا گئے ان کو پکارنے پر بھی جواب ندارد رہا۔ رانا مبشر کو اس وقت کسی چیز کا ہوش نہیں رہا تھا وہ جلد از جلد گھر پہنچنا چاہتے تھے۔
گھر کے گیٹ تک پہنچ کر اس سے پہلے کہ باڈی مین اترتا رانا مبشر نے خود دروازہ دکھیلا اور اچھلتا ہوا کار سے اتر کر گھر کے اندر بھاگا۔ کمرے کے دروازے پر پہنچ کر اس کے قدم جم گئے وہ اس سے آگے نہیں جا سکا۔ اس کے قدم ڈگمگانے لگے خود کو گرنے سے بچانے کے لیے اس نے کمرے کا در پکڑ کر سہارا لیا۔ بھاگتے ہوئے آنے سے اس کی سانس چڑھ گئی تھی وہ اپنی سانس بحال کرنے لگا اور گھٹنوں کے بل وہی بیٹھ گیا۔
کمرے سے گولی چلنے کی آواز سن کر ملازمہ گھبرا گئی اور تیزی سے اس کے کمرے میں داخل ہوئی اور سامنے بیلا کی خون سے لت پت جان نکلتا جسم دیکھ کر اس کی چیخ نکل گئی اور لاؤنج میں بھاگ کر رانا صاحب کو کال ملانے لگی۔
جس وقت رانا صاحب پہنچے بیلا کی روح پرواز کر چکی تھی۔
رانا صاحب نے کرب سے آنکھیں میچ لی اور لمبی آہ بھری
اسے بیلا کی موت سے بہت ٹھیس پہنچی تھی پر وہ اس وقت اپنے کیریئر کے نازک موڑ پر تھا اس حال میں اس کے چھوٹی سی بھول سے بھی بہت وسیع سکینڈل بنتا پھر یہ تو بیوی کی خودکشی تھی اس لیے اس وقت اسے جوش سے نہیں ہوش سے کام لینا تھا اس نے جذبات میں بہنے کے بجائے تحمل کرنا مناسب سمجھا۔ گیلی سانس اندر کھینچ کر آنسو اپنے اندر اتارے اور لڑکھڑاتے ہوئے اٹھا اور بیلا کی بے جان باڈی کے پاس آیا جیب سے رومال نکال کر اس کے ہاتھ سے پسٹل اٹھائی اور اسی رومال میں چھپا دی۔
بیلا کے گھر جب اس کی وفات کی خبر پہنچی تو ان سب پر مانو آسمان ٹوٹ پڑا تھا۔ بیلا صرف 28 سال کی تھی۔ بے بس ماں باپ سے جوان بیٹی کے موت کا غم برداشت نہیں ہو پا رہا تھا۔ محمود کو بھی اتنا ہی دھچکا لگا تھا اسے چاہ کر بھی یقین نہیں ہو پا رہا تھا۔
رانا مبشر نے کسی بھی طرح کے سکینڈل سے بچنے کے لیے بیلا کی خودکشی کو ناگہانی طور پر سیڑھیوں سے پھسل کر جان بحق ہونا قرار دیا۔ اپنی طاقت اور پاور کا استعمال کر کے اس نے پوست مارٹم رپورٹ میں بھی یہی لکھوایا تا کہ بیلا کی فیملی یقین کر لے اور کوئی کیس نہ بنائے۔ اس کے والدین تو یقین کر گئے لیکن محمود نے کافی واویلا کیا اسے لگتا تھا کہ یا تو مبشر نے بیلا کو قتل کیا ہے یا اس کے ظلم سے تنگ آکر اس نے خودکشی کی ہے لیکن یہ کوئی ناگہانی حادثہ نہیں ہوسکتا ۔
روحان کو جب خبر ہوئی تو ایمرجنسی فلائٹ سے واپس آگیا اس تکلیف دہ اوقات میں اپنے بھائی کو دلاسہ دینے۔ وہ بیلا کے سوئم کے دن پہنچا اور رانا بھائی سے لیپٹ کر بہت رویا حلانکہ بیلا کے ساتھ اسے زیادہ وقت گزارنے کا موقع نہیں ملا لیکن اپنے دل عزیز رانا بھائی کو شدید صدمہ کے باعث چپ چاپ دیکھ کر اسے بہت تکلیف ہورہی تھی۔ بیلا کی فیملی کی طرح اسے بھی یہی بتایا گیا کہ سیڑھیوں سے پھسل کر موت واقع ہوئی ہے۔
معاملہ کچھ ٹھنڈا ہوا زندگی معمول پر آنے لگی لیکن محمود نے رانا مبشر کا پیچھا نہیں چھوڑا اس نے اپنے تعلقات استعمال کر کے انویسٹیگیشن شروع کروا دی۔ رانا مبشر نے اس کے تحقیقات سے کوئی اثر نہیں لیا کیونکہ وہ پہلے ہی سارے ثبوت ساری نشانیاں نست و نابود کر چکے تھے۔ وہ پسٹل جس سے بیلا نے خود کو شوٹ کیا رانا صاحب نے تیزاب ڈال کر پہلے اس کی شکل بگاڑ دی اور پھر جلا دیا۔ اپنے گھر کے سارے ملازمین کو اچھے خاصے پیسے دے کر شہر سے غائب ہونے کی ہدایت کی اور وہ ڈاکٹر جس نے بیلا کی پوسٹ مارٹم رپورٹ بنائی تھی اس کا بھی کسی دور قصبے میں تبادلہ کروا دیا۔
مبشر بیلا سے پیار کرتا تھا بس اس کا انداز مختلف تھا۔ اس کی یہ سوچ تھی کہ اس کے والد رانا نذیر نے کبھی اس کی ماں ایمن پر سختی نہیں کی اسے ضرورت سے زیادہ آذادی دے رکھی تھی اس لیے وہ کہی اور افیر چلانے لگی اور اس کے ڈیڈ سے طلاق لے لی۔ اس لیے اپنے نوبت پر وہ ہر وقت اپنی بیوی پر نظر رکھے ہوئے تھا اور اسے کسی سے ملنے نہیں دیتا تھا اس پر سختی برتا تھا لیکن زیادہ سختی اور تشدد نے اس کا رشتہ بچا کر رکھنے کی بجائے اس کا دم توڑ دیا۔ اپنے جنون کے باعث وہ اپنی بیوی کو گنوا بیٹھا۔
محمود نے سچائی تک رسائی حاصل کرنے کی بہت کوشش کی لیکن کچھ ہاتھ نہ لگا۔ ثبوت نا ہونے کے باعث پولیس نے کاروائی بند کروا دی اور رانا مبشر کے خلاف کوئی کیس نہ بن سکا تب سے ان دونوں کی ناپسندیدگی ایک دوسرے کے لیے نفرت میں بدل گئی۔
############## موجودہ دن ############
رانا صاحب نے آنکھیں کھولی تو وہ ہال کے ریسٹ روم میں کھڑا تھا جہاں اس کے ولیمہ کی پارٹی جاری و ساری تھی۔ محمود نے اس کے برسوں پرانے زخم پھر سے تازہ کر دئیے تھے۔ اس نے آہ بھری اور انگلیوں سے بال برابر کئے کوٹ کی شکن درست کرتے ہوئے سگریٹ نوشی کرنے لگے۔ آدھی سگریٹ پی کر باقی کوڑا دان میں پھینکی اور تاثرات نارمل بنا کر باہر آگیا۔
وہ فنکشن ہال میں داخل ہوئے تو ان کی کم سن بیگم کرن ان کی سیکرٹری سیم کے ساتھ کھڑی تھی۔ سیم نے رانا صاحب کو ان کی جانب آتے دیکھا تو احترام سے سر کو خم دیا اور وہاں سے روانہ ہوگئی۔ کرن نے رخ موڑ کر رانا صاحب کو دیکھا اور خوش دلی سے مسکرائی۔ رانا صاحب بھی جوابی مسکرائے اور اس کے بغل میں کھڑے ہوگئے۔
ویٹر شام کو رنگین بنانے مسلسل مشروبات کی ٹرے پکڑے ہال میں گردش کر رہے تھے۔ ایک ویٹر ان کے پاس آیا تو کرن نے no thanks کہتے ہوئے انکار کیا جبکہ رانا صاحب ایک گلاس اٹھا کر پینے لگے۔ کرن نے سپاٹ تاثرات سے انہیں دیکھا اسے یہ تو معلوم تھا کہ رانا صاحب سموکنگ کرتے ہے لیکن وہ ڈرنک بھی کرتے ہے اس کا انکشاف اب ہوا تھا۔ کرن نے اپنی زندگی کے آزمائشوں پر چونکنا چھوڑ دیا تھا اس کے لیے یہ سب اب روزانہ کے معمولات بن گئے تھے اس لئے رخ موڑ کر جعلی مسکراتے ہوئے سامنے دیکھنے لگی اور پارٹی ختم ہونے کا انتظار کرنے لگی۔
رات کے کسی پہر سوتے ہوئے اچانک سے ان کی آنکھ کھلی اور ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔ کرن نے ہانپنے کی آواز سنی تو اٹھ گئی اور رانا صاحب کے کندھے کو سہلانے لگی۔
“کیا ہوا رانا صاحب۔۔۔۔۔۔۔کوئی برا خواب دیکھ لیا” اس نے نرمی سے پوچھا اور سائیڈ ٹیبل سے پانی کا گلاس لے کر رانا صاحب کو پکڑایا۔ وہ پوری طرح پسینہ سے بھیگ چکے تھے گلا خشک ہو رہا تھا اس لیے گلاس پکڑا اور سارہ پانی پی گئے۔
کرن ان کو دلاسہ دیتی سمجھانے لگی پر رانا صاحب اس کے بات کو نظر انداز کر کے بیڈ سے اٹھے اور بالکونی میں کھڑے ہوگئے۔ بیلا کے وفات کے دنوں میں بھی وہ اکثر نیند میں گھبرا جاتے اور اٹھ کر بیٹھ جاتے۔ تب انہیں لگا تھا کہ یہ شاید کمرے کا اثر ہو اس لیے انہوں نے اپنا کمرہ بدل دیا بیلا کے خودکشی والا کمرہ ہمیشہ کے لیے لاک کر کے دوسرے کمرے میں شفٹ ہوگئے لیکن آج ایک مرتبہ پھر ان کی یہ کیفیت ابھر رہی تھی جس نے ان کی نیند اوجھل کر دی تھی۔
******************&&&&&****************
کرن روز مرہ زندگی کے ساتھ چلنے لگی تھی۔ چچی کے دھوکے کو اس نے درگزر کر دیا تھا۔ وہ گھر کے کاموں میں پھر سے دلچسپی لینے لگی۔
موسم سرما کے اس دن پُر امید انداز میں اس نے صبح کا آغاز کیا۔ اس کا ناشتے میں آلو کے پراٹے کھانے کا دل کر رہا تھا وہ سادہ کرتا پاجاما پہنے اور شال کندھے پر ڈالے گیلے بال کمر پر جھولتے چھوڑے نیچے آئی اور شمائلہ کو پراٹے بنانے کی ہدایت دے کر خود بھی ساتھ مدد کرنے لگی۔
وہ کاونٹر پر ہاتھ جمائے ملازمہ سے باتوں میں مصروف تھی جب دروازے پر دستک ہوئی۔ چونکہ موسم سرما تھا تو لاؤنج کا دروازہ بند رکھا جاتا۔ دستک سننے پر ملازمہ آٹے سے ہاتھ جھاڑنے لگی تو کرن نے اسے روک لیا۔
“تم جلدی جلدی پراٹے بناو۔۔۔۔۔۔ رانا صاحب آفس کے لیے تیار ہو کر بس آتے ہونگے۔۔۔۔ تب تک ناشتہ بن جانا چاہیے۔۔۔۔۔۔ دروازے پر میں دیکھتی ہوں۔ ” اس نے کچن سے باہر جاتے ہوئے کہا۔
ملازمہ کچھ جھجک گئی لیکن واپس اپنے کام کی طرف متوجہ ہوئی۔
کرن نے دروازے کے آوٹ سے دیکھا ایک نوجوان 27 سالہ لڑکا پیر تھپتھپاتے ہاتھ میں فائل جھلاتے ہونٹ گول کر کے سیٹی بجاتا ہوا نظریں گھما کر بنگلے کے بیرونی حصے کا جائزہ لے رہا تھا۔ کرن نے شال سر پر ڈالی اور دروازہ پورا کھول دیا۔
“Yes”
کرن نے نرمی سے کہا۔
لڑکے نے دروازہ کھل کر ایک نوجوان لڑکی کو نمودار ہوتے دیکھا تو پیر کی حرکت رک گئی ہونٹ سیدھے کر لیے اور فائل جھلاتا ہاتھ تھم گیا۔ اس روشن صبح میں اس نے جیسے آبشار میں سے ہو کر آئی حور دیکھ لی ہو وہ بنا پلک جھپکائے اسے دیکھ رہا تھا۔
“جی۔۔۔۔ کس سے کام ہے آپ کو۔” کرن نے اسے پھر مخاطب کیا۔
اس دفعہ کرن کی آواز پر وہ جھٹکے سے ہوش میں آیا اور جذبات قابو کرتے ہوئے کنکارا۔
“ہیلو میم۔۔۔۔۔ میرا نام آرین خان ہے۔۔۔۔۔۔ میں مسٹر رانا مبشر کے آفس آیا ہوں۔۔۔۔۔ اس فائل پر ان کے دستخط درکار ہے۔۔۔” آرین خان نے اپنا تعارف کرایا اور فائل آگے کر کے کرن کو دکھائی۔
رانا صاحب بنا چاپ سیڑھیاں اترتے ہوئے اپنی بیوی کو غیر مرد کے ساتھ دروازے پر بات کرتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔
“کون ہے۔” انہوں نے کف کے بٹن لگاتے ہوئے رعب دار آواز میں کہا۔
کرن ان کی آواز پر پلٹی اور تیزی سے کچن میں چلی گئی۔
آرین لاؤنج میں داخل ہوا اور رانا صاحب کے سامنے آ رکا۔
“گڈ مارننگ سر۔۔۔۔۔۔ میں آرین۔۔۔۔ editing برانچ سے آیا ہوں۔۔۔۔ یہ فائل آپ سے دستخط کروانا تھا۔۔۔۔۔ آج ڈیڈ لائن ہے ۔۔۔۔ 11 بجے تک اسلام آباد بھجوانا ہے تو۔۔۔۔۔۔ MD سر نے گھر پر سائن کروانے کا کہا۔ “آرین نے سرکاری انداز میں ان سے اپنی بات کہی۔
رانا صاحب نے سر کو جنبش دیتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھایا تو آرین نے فائل تھمائی اور تہذیب سے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا۔
رانا صاحب کھڑے کھڑے ہی ایک نظر فائل پر لکھے مطالبے پڑھنے لگے۔ آرین کبھی رانا صاحب کو دیکھتا کبھی نظریں گھماتا ہوا کرن کو دیکھتا جو معظم طریقہ سے ٹیبل لگاتے ہوئے کبھی بال کانوں کے پیچھے اڑھستی کبھی ملازمہ سے کوئی بات کہہ کر مسکرا دیتی۔ آرین اسے معصومیت سے کام کرتے دیکھ کر مسرور ہورہا تھا۔
رانا صاحب نے اپنے کوٹ سے قلم نکالا اور فائل پر سائن کرنے لگے۔ آخری صفحہ پر سائن کرتے ہوئے انہوں نے نظریں اٹھا کر آرین کو دیکھا اس کا دھیان کہی اور تھا رانا صاحب نے ضبط کرتے ہوئے اس کے نظروں کے سمت میں رخ موڑ کر دیکھا تو وہاں کرن کو پایا۔ رانا صاحب نے واپس آرین کی طرف رخ کر کے اسے مخاطب کیا۔
“آرین۔۔۔۔۔۔ سائن ہوگئے۔”انہوں نے سنجیدگی سے کہا۔
آرین پھرتی سے سیدھا ہوا اور فائل پکڑ لی۔
“تھینکیو سر” اس نے احترام سے سر کو جنبش دیتے ہوئے کہا۔
رانا صاحب نے مسکراتے ہوئے اشارہ کر کے اسے قریب بلایا۔ آرین تجسس میں پڑ گیا اور جھجکتے ہوئے ان کے قریب ہوا۔
“بیوی ہے وہ میری۔۔۔۔” رانا صاحب نے اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے۔
آرین سمجھ گیا رانا صاحب کس کی بات کر رہے ہے اس کی مسکراہٹ سمٹ گئی اسے شرمندگی محسوس ہوئی اور حیرانگی سے تاثرات سنجیدہ بنائے۔
“سوری سر۔۔۔”اس نے ایک جھوٹی نظر کرن پر ڈالتے ہوئے سر جھکا دیا۔
رانا صاحب نے ہاتھ پیچھے باندھے اور آبرو اچکا کر اسے رخصت ہونے کا اشارہ کیا۔ آرین الٹے قدم واپس پلٹا اور گیٹ سے باہر نکل گیا۔
آرین کے جانے کے بعد رانا صاحب اسی انداز میں ڈائننگ ٹیبل تک آئے جہاں کرن ان کے انتظار میں کھڑی تھی۔ دل فریبی سے کرن کے گیلی لٹو کو پیچے کیا۔ کرن ملازمہ کے سامنے ان کے اس روئیے پر بلش کرنے لگی۔ اسی طرح اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ان کی پکڑ بہت مظبوط ہوگئی۔ کرن کے تاثرات بدل گئے اس نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اسے درد ہونے لگا تھا۔
“اتنے سارے ملازمین ہے گھر میں۔۔۔۔ پھر تم دروازے پر کیوں گئی۔” انہوں نے دبے دبے لفظوں میں غصے سے کہا۔
“وو وہ۔۔۔۔۔۔ سیعد چاچا چھٹیوں پر گئے ہے اور رر۔۔۔۔۔۔۔ شمائلہ کے ہاتھوں میں آٹا لگا تھا تو۔۔۔۔۔” اس نے ہلکے آواز میں وضاحت پیش کی۔
“آٹا لگا تھا نا۔۔۔۔۔۔ کٹے تو نہیں تھے” اس کے بالوں کو چھوڑ کر انہوں نے تنے ہوئے اعصاب سے ملازمہ کی جانب دیکھا اس نے سہم کر اپنے ہاتھ دوپٹے کے پلو میں چھپا لئے۔
“اور تم۔۔۔۔۔ اپنا بوریاں بستر باندھوں اور نکلو یہاں سے۔” انہوں نے انگلی اٹھا کر حکم صادر کیا۔ ملازمہ رونے والی ہوگئی اور کرن پریشان۔
“رانا صاحب۔۔۔۔۔ جانے دیجیئے۔۔۔۔۔ پھر نہیں ہوگا۔”کرن نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے حاکمیت کے چلتے کسی کی نہیں سن رہے تھے۔
“کیا شاہی سواری منگواوں تمہارے لیے۔۔۔۔۔۔ تمہیں نوکری سے نکال دیا ہے میں نے۔۔۔۔۔ اب چلتی بنو” انہوں نے طیش میں چلاتے ہوئے کہا تو ملازمہ خوفزدہ ہو کر اپنے کواٹر میں بھاگ گئی۔
کرن کو بہت افسوس ہورہا تھا کہ اس کی وجہ سے شمائلہ کی ملازمت ختم کر دی گئی۔
رانا صاحب نے سرد سانس خارج کی اور کرسی پر بیٹھ کر ناشتہ کرنے لگے۔ کرن کا دل بد مزہ ہوگیا تھا اس کا ناشتہ کرنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا پر رانا صاحب کی نظریں خود پر پائی تو دھڑکتے دل کے ساتھ بیٹھ گئی اور ناشتہ کرنے لگی۔
*************&&&&*************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...