ہاروکی مورا کامی
ہمارے پیٹ ہر لحاظ سے خالی تھے۔ نہیں، اصل میں ہم بھوک سے مر رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے ہم نے خلاء کے ’خالی پن‘ نگل لیا ہو۔ شروع میں تو یہ بہت چھوٹا تھا، ایک ننھا ’خالی پن‘ جیسے ’ڈونٹ‘ کا سوراخ ہوتا ہے لیکن جیسے جیسے دن گزرتا گیا، اس کا احساس ہمارے جسموں میں اس حد تک بڑھ کر اس نکتے پر پہنچ گیا جہاں سے بے پیندا ’عدم وجودیت‘ شروع ہوتی ہے۔ ہمارے معدوں کی گڑگڑاہٹ بھوک کے مقبرے سے ایک مقدس ’بی جی ایم‘ کا کام سر انجام دے رہی تھی۔
بھوک کیسے جنم لیتی ہے؟ سیدھی سی بات ہے کہ یہ اس وقت پیدا ہو گی جب ہم میں خوراک کی کمی ہو گی۔ ہمارے پاس خوراک کی کمی کیوں ہوئی؟ کیونکہ ہمارے پاس اس کے بدلے میں دینے کو ’زر‘ کی اکائیاں نہیں تھیں۔ ایسا کیوں ہوا کہ ہمارے پاس بدلے میں دینے کے لئے ’اکائیاں‘ نہ تھیں؟ شاید اس لئے کہ ہم میں سوجھ بوجھ کی کمی تھی۔ نہیں، ہماری بھوک نے شاید ہماری سوجھ بوجھ کو براہ راست متاثر کیا تھا۔
حقیقت میں اس سب سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
خدا، مارکس اور جان لینن سب مر چکے ہیں۔ ہم ہر لحاظ سے، بھوکے ہیں اور اس کے کارن ہم ایک جرم کرنے لگے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ بھوک کی وجہ سے جرم ہم سے سرزد ہونے لگا ہے، بلکہ یہ ’جرم‘ ہی تھا جس نے ہمیں بھوکا دوڑنے پر مجبور کیا۔ میں یہ کچھ زیادہ بہتر طور سمجھ نہیں پا رہا لیکن یہی ’وجودیت‘ تھی۔
”میں برا بندہ بن جاؤں گا‘‘، میرے دوست نے مختصراً کہا اور میں نے اس کی تائید کی۔
ہم نے دو دن سے پانی کے علاوہ اور کچھ نہ پیا تھا۔ میں نے ایک بار سورج مکھی کا ایک پتا کھایا تھا کہ دیکھوں یہ کیسا ہے لیکن تب سے مجھے اشتہا نہیں ہوئی کہ میں اسے دوبارہ کھانے کی کوشش کروں۔
یہی وجہ بنی کہ ہم باورچی خانے کی چھریاں لئے ’بیکری‘ کی طرف گئے۔ بیکری ’خریداری مرکز‘ کے وسط میں گدوں کے ایک سٹور اور سٹیشنری کی ایک دکان کے درمیان تھی۔ بیکری کا مالک پچاس سے اوپر کا ایک بوڑھا تھا، وہ گنجا اور کمیونسٹ پارٹی کا رکن بھی تھا۔
’خریداری مرکز‘ کے ماحول میں، چھریوں کو گرفت میں لئے، ہم آہستہ آہستہ بیکری کی طرف بڑھے۔ میرے احساسات فلم ’ہائی نون‘ جیسے تھے۔ جوں جوں ہم آگے بڑھتے گئے تنور میں پکتی روٹی کی خوشبو بھی تیز ہوتی گئی اور اس کے تیز ہونے سے مجرمانہ واردات کی ہماری خواہش میں بھی شدت آتی گئی۔ ہم میں جوش بڑھتا گیا کیونکہ ایک تو ہم بیکری لوٹنے جا رہے تھے دوسرے ہمارے عمل کا نشانہ کمیونسٹ پارٹی کا ایک رکن بھی بن رہا تھا، ایسے میں میرے جذبات کچھ ’ہٹلر جو گینڈ‘ یعنی ’ہٹلر یوتھ‘ جیسے گہرے تھے۔
دوپہر، چونکہ، خاصی ہو چکی تھی اس لئے بیکری میں صرف ایک بندہ ہی موجود تھا، یہ ایک ناگوار بوڑھی عورت تھی جس نے ہاتھ میں ایک گندہ سا شاپنگ بیگ تھام رکھا تھا۔ اس عورت کے گرد ایک گندی باس بھی موجود تھی۔ جرائم پیشہ افراد کے منصوبوں کی راہ میں بھونڈی خواتین ہی رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں، جیسی کہ ایک وہاں موجود تھی۔ کم از کم کچھ ایسا ہی ’کرائم ڈراموں‘ میں دکھایا جاتا ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں کے اشارے سے اپنے ساتھی کو یہ پیغام دیا کہ جب تک یہ عورت یہاں سے چلی نہیں جاتی ہم کچھ نہیں کر پائیں گے، چنانچہ میں نے اپنی چھری کمر کی طرف کی اور ایسے ظاہر کرنے لگا جیسے میں وہاں روٹی خریدنے کے لئے موجود تھا۔ عورت نے اشیاء کا انتخاب کرنے میں خاصا وقت لگا دیا جیسے وہ اپنی ہوشیاری سے اپنی ’ٹرے‘ میں ’خربوزہ روٹی‘ اور ’بھنی روٹی‘ کی جگہ سہ رخی منعکس آڑھت سجانا چاہتی ہو۔ اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ وہ یہ سب خریدنا چاہتی تھی۔ شاید یہ خربوزے کے ذائقے اور بھنی ہوئی روٹیوں کے حوالے سے اس کے ’نظریے‘ کا ایک پہلو ہو یا پھر شاید اس کے بالکل الٹ، ایسے میں غالباً زیادہ وقت لگنے کی یہ وجہ ہو گی کہ اس کے لئے ضروری تھا کہ وہ اس وقت کی صورت حال کے مطابق تن آسانی کے ساتھ خود کو ڈھال سکے۔
اس کے ’نظریے‘ میں خربوزہ روٹی اپنی جگہ کھو رہی تھی۔ اس نے کچھ اس انداز سے اپنا سر ہلایا جیسے کہہ رہی ہو، ’’میں نے یہ کیوں پسند کی؟ یہ تو بہت میٹھی ہوتی ہے!‘‘
کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے خربوزہ روٹی کو شیلف میں واپس اس کی جگہ پر رکھ دیا اور احتیاط سے دو ’ہلالی‘ شکل والی پھولی روٹیاں ٹرے میں رکھیں۔
اب ایک اور نظریہ سامنے آ گیا تھا۔ بادلوں کے درمیان سے بہار کے سورج کی روشنی ابل کر نکلی اور اس نے ’آئس برگ‘ کو پگھلانا شروع کر دیا۔
’’کیا مصیبت ہے‘‘، میرے ساتھی نے دھیمی آواز میں کہا، ’’اب جبکہ ہم یہاں آ ہی گئے ہیں تو چلو اس بوڑھی کُتیا کو قتل کر دیں۔‘‘
’’ارے، تحمل سے کام لو‘‘، میں نے اسے اس کی جگہ پر واپس دھکیلتے ہوئے کہا۔
بیکری کے مالک نے ہماری بات پر دھیان نہ دیا کیونکہ وہ ریڈیو کیسٹ پلیئر میں سے نکلتی ’ویگنر‘ کی ایک دھُن سننے میں مگن تھا۔ مجھے یہ بات کچھ زیادہ سمجھ نہ آئی کہ کیا کمیونسٹ پارٹی کے ایک رکن کی یہ حرکت درست تھی کہ وہ ویگنر کی دھُن سن رہا تھا۔
عورت مسلسل ’ہلالی‘ شکل والی پھولی روٹیوں اور بھنی روٹیوں کو گھورے جا رہی تھی۔ وہ متذبذب نظر آ رہی تھی۔
’’یہ غیر طبعی اور غیر فطری ہے! ’ہلالی‘ شکل والی پھولی روٹیوں اور بھنی روٹیوں کو ایک ہی جگہ ساتھ ساتھ نہیں رکھا جا سکتا!‘‘
اس نے ضرور یہ محسوس کر لیا ہو گا کہ ان دونوں طرح کی روٹیوں کے پیچھے دو مختلف نظریے ہیں۔ عورت کے ہاتھ میں پکڑی ٹرے میں رکھی روٹی کچھ اس طرح سے کھڑکھڑاہٹ پیدا کرتی ہلی جیسے ایک خراب ریفریجیڑ کا ’تھرمو سٹیٹ‘ آواز پیدا کرتا ہے۔ یہ درست ہے کہ روٹی حقیقت میں نہیں ہل رہی تھی، اس کی کھڑکھڑاہٹ اور کھڑ، کھڑ صرف تمثیلی ہے۔
’’میں اسے قتل کرنے لگا ہوں‘‘، میرے ساتھی نے کہا۔ شدید بھوک، ویگنر اور عورت کی وجہ سے پیدا ہوئی کوفت نے صورت حال کو، آڑو کے چھلکے جیسا، نازک کر دیا تھا۔ میں خاموش رہا اور صرف سر ہلانے پر ہی اکتفا کیا۔
بوڑھی عورت، ابھی بھی، ہاتھ میں ٹرے کو بلا مقصد تھامے ایسے کھڑی تھی جیسے وہ اس عذاب میں ہو جس میں دوستوفسکی تھا۔ لگتا تھا کہ ’بھنی روٹی‘ نے منبر پر کھڑے ہو کر روم کے باشندوں کے سامنے ایسی تقریر کی تھی جس نے ان کے دل موہ لئے تھے۔ اس کے الفاظ خوبصورت، شاندار اور بھڑکیلے تھے جنہیں بلند بانگ سریلی آواز میں یوں کہا گیا تھا کہ سب نے ایک ساتھ تالیاں بجائیں۔ اب ہلالی پھولی روٹی کی باری تھی۔ اس نے ٹریفک کے اشاروں کے بارے میں ایک بے ربط تقریر کی۔ اس نے کہا، کاریں جنہوں نے بائیں مڑنا ہے، بتی کے سبز ہونے پر پہلے سیدھا آگے جائیں اور جب انہیں یقین ہو جائے کہ وہاں کوئی اور کار نہیں تو پھر بائیں مڑیں۔ روم کے باسیوں کو اس کی تقریر کچھ زیادہ نہ سمجھ آئی لیکن چونکہ اس کی کتھا کچھ زیادہ ہی مشکل تھی اس لئے انہوں نے تالیاں بجائیں اور زیادہ دیر تک بجائیں۔ ہلالی پھولی روٹی کے لئے بجی زیادہ تالیاں وجہ بنی کہ بھنی روٹی کو واپس شیلف میں اپنی جگہ واپس رکھ دیا گیا۔ اب عورت کی ٹرے پر دو ہلالی پھولی روٹیاں پڑی تھیں جو ایک سادہ کاملیت کا مظہر تھیں۔
عورت مطمئن ہو کر دکان سے باہر نکل گئی۔
’’ہم شدید بھوکے ہیں‘‘، میں نے بے تکلفی سے، اپنی چھری کو پیچھے ہی چھپائے رکھتے ہوئے، مالک سے کہا، ’’اور یہ کہ ہمارے پاس آپ کو دینے کے لئے ایک پائی بھی نہیں ہے۔‘‘
’’اچھا تو یہ بات ہے‘‘، مالک نے اپنا سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ہم دونوں کی نظر ایک ہی وقت میں کاؤنٹر پر پڑے ایک ناخن کاٹنے والی قینچی پر پڑی۔ یہ ایک بڑے سائز کا قینچا تھا جسے شاید گدھ کے پنجے کاٹنے کے استعمال کیا جاتا ہو گا یا شاید اسے اس لئے اتنا بڑا بنایا گیا تھا کہ لوگ اسے دیکھ کر محظوظ ہوں۔
’’اگر آپ بھوکے ہو تو تمہیں کچھ روٹی کھانی چاہیے‘‘، مالک نے کہا۔
’’لیکن ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔‘‘
’’میں نے یہ پہلے ہی سن لیا تھا‘‘، مالک نے اکتاہٹ کے ساتھ کہا، ’’تمہیں اس کے لئے ادائیگی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آگے بڑھو اور جو کچھ کھانا چاہتے ہو کھا لو۔‘‘
میں نے ایک بار پھر ناخن کاٹنے والی قینچے کی طرف دیکھا۔ ’’واقعی؟ ہم تو سڑک پر کچھ الٹی حرکت کرنے جا رہے تھے۔‘‘
’’ہاں، ہاں‘‘
’’ہمیں لوگوں سے اس اچھائی کی توقع نہیں اور ہم اس خیر خواہی کو قبول نہیں کر سکتے۔‘‘
’’ہاں، کچھ ایسا ہی ہے۔‘‘، میرا ساتھی بولا۔
’’اچھا‘‘، مالک نے پھر سے کہا، چلو ایسا کرتے ہیں۔ میں تمہیں اتنی روٹیاں کھانے دیتا ہوں جتنی تم کھا سکتے ہو پھر میں تم کو ایک بد دعا دوں گا۔ کیا یہ درست رہے گا؟‘‘
’’بددعا؟ اس سے تمہاری کیا مراد ہے؟‘‘
’’بددعا بہت غیر متوقع اور غیر یقینی ہوتی ہے کب اثر کر جائے پتہ نہیں ہوتا۔ یہ بس کے شیڈول کی طرح نہیں ہوتی۔‘‘
’’ارے، ایک منٹ رکو! مجھے بددعا نہیں چاہیے!‘‘ میرے ساتھی نے مداخلت کی، ’’مجھے اس سے نفرت ہے! میں تمہیں ابھی قتل کر دوں گا!‘‘
’’ٹھہرو، ٹھہرو“، مالک نے کہا، ’’میں قتل نہیں ہونا چاہتا۔‘‘
’’ٹھیک ہے، لیکن میں بددعا لینا نہیں چاہتا‘‘، میرے ساتھی نے جواباً کہا۔
’’یہ بات اہم ہے کہ ہم کسی قسم کا تبادلہ کریں‘‘، میں نے کہا۔
ہم نے اور کچھ نہ کہا، صرف ناخن کاٹنے والی قینچے کو گھورتے رہے۔
’’اس بارے میں کیا خیال ہے‘‘، مالک نے کہنا شروع کیا، ’’کیا تمہیں ویگنر پسند ہے؟‘‘
’’نہیں‘‘، میں نے جواب دیا۔
’’مجھے بھی نہیں‘‘، میرے ساتھی نے کہا۔
’’اچھا تو، پہلے تم ویگنر کو پسند کرنا شروع کرو، پھر میں تمہیں کھانے کے لئے اتنی روٹیاں دوں گا جتنی تم کھا سکو۔‘‘
ہمیں، اس کے یہ الفاظ اِس تاریک براعظم پر ایک راہب کے منہ سے نکلی ایک کہانی کی طرح لگے لیکن ہم اس کی طرف فوری طور پر متوجہ ہوئے۔ بدعائے جانے سے تو یہ بہرحال بہتر تھا۔
’’مجھے پسند ہے‘‘، میں نے کہا۔
’’اور مجھے بھی“، میرا ساتھی بھی بولا۔
چنانچہ، ہم ویگنر کو سنتے اور اپنے پیٹ روٹیوں سے بھرتے رہے۔
بیکری کے مالک نے ریکارڈ کی ’جیکٹ‘ نکالی اور اس پر لکھے الفاظ پڑھنے لگا’۔
’’ٹریسٹن اور ازول‘‘ موسیقی کی تاریخ میں ایک شاندار اور نمایاں دھُن ہے۔ یہ 1859ء میں عوام کے سامنے پیش ہوئی تھی۔ ویگنر کے بعد کے کام کو سمجھنے کے لئے اس دھُن کو سننا لازم ہے۔‘‘
میرا ساتھی اور میں اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے قاصر تھے کیونکہ ہمارے منہ روٹی سے ٹھسے ہوئے تھے اور ان سے چبائے جانے کی آواز کے علاوہ اور کچھ نہ نکل رہا تھا۔
’’کارنے وال کے بادشاہ کے بیٹے کو اپنے چچا کی منگیتر، شہزادی ازول، سے ملنے کے لئے بھیجا گیا تھا لیکن جب جہاز سفر ختم کر کے واپس لوٹا تو وہ ازول کی محبت میں گرفتار ہو چکا تھا۔ موسیقی کی اس دھُن کا آغاز ’چیلو اور اوبئی‘ سازوں کا امتزاج اس جوڑے کی محبت کے خدو خال وضع کرتا ہے۔‘‘
دو گھنٹے تک ہم اسے سنتے اور کھاتے رہے اور پھر ہم بیکری کے مالک سے رخصت ہوئے۔ چلتے چلتے ہم نے سنا’۔
’’کل میں ’تنہوسار‘ کو سنوں گا۔‘‘، مالک نے کہا تھا۔
ہم، جب، اپنے کمرے میں واپس آئے تو ہمارے اندر کا خالی پن، اپنا نشان چھوڑے بنا، غائب ہو چکا تھا اور ہماری سوجھ بوجھ کی توانائی ایسے متحرک ہو چکی تھی جیسے ایک ہموار ڈھلوان پر نیچے پھسل رہی ہو۔
٭٭٭