بے کار سا قصہ ہوں ،اک فرضی کہاوت ہوں
میں خاک کا ذرہ ہوں ، مٹنے کی علامت ہوں
لیکن جانے انجانے میں وہ یہاں فاطمہ حیدر کو مارنے آیا ہے ۔ وہ کھڑا ہوا تھا ۔
وہ یہاں فاطمہ حیدر کو نہیں ارسا ہاشم کو مارنے آیا ہے ۔ وہ چلائی تھی ۔
تو فاطمہ حیدر ؟ فاطمہ حیدر کون ہے ارسا ہاشم ؟ اس نے چلا کر پوچھا تھا ۔ ارسا نے بےبسی سے سر جھکایا تھا ۔
فاطمہ حیدر ارسا ہاشم ہے جو کہ اپنے بھائی کے جانے کے بعد یتیم خانے سے نکل کر اپنے باپ کے دوست کے پاس آئی تھی رائٹ ؟ اس نے طنزیہ لہجے میں کہا تھا ۔ ایک آنسو ارسا کے گال پر پھسلا تھا ۔ ہر چیز حیران ہوئی تھی ۔ تیز چلتی ٹھنڈی ہوا بھی رکی تھی ۔ یہ وہ کیا کہ رہا تھا ؟۔۔۔۔
اب مجھے بتاؤ ارسا جبکہ تمہارا بھائی تمہیں مارنے آرہا ہے تو تم کیا کرو گی ہاں ؟ وہ پوری قوت سے چلا رہا تھا۔ ہر وقت ہنستے مسکراتے حدید سے چلاتا ہوا یہ حدید بہت مختلف تھا۔
میں کیا کر سکتی ہوں حدید ؟ میں نے کہا تھا کہ وہ جانیں لیں گے تو ہم جانیں دیں گے ہمدانی سر بھی تو مارے گئے نا اب اگر میں۔۔۔
خبردار جو تم نے ایک لفظ بھی اور کہا ۔ اس نے اپنی شہادت کی انگلی اس کے سامنے کی۔
میں جانتا ہوں ارسا ہاشم کو مرنے کا بہت شوق ہے لیکن یہ نہیں پتا تھا کہ وہ اپنے سگے بھائی کے ہاتھوں مرنے کے لیئے بھی تیار ہے ۔ اس نے ارسا کو سرخ چہرے کے ساتھ گھورتے ہوئے کہا۔
ارسا نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا ۔ اپنی آنکھ سے گرتے آنسؤوں کو رگڑا ۔ ایک ہاتھ سے اسکارف کو سیٹ کیا ور راکنگ چیئر سے اٹھی ۔
تمہیں پتا ہے حدید ۔ مجھے لگتا ہے میں نے اپنا ذاتی معاملہ تمہیں دوست سمجھ کر تم سے شیئر کر کے بہت بڑی غلطی کی ہے ۔ کیونکہ تم اس لائق ہو ہی نہیں ۔ اس نے دھیمے لہجے میں اسے دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ سیکنڈ میں خود پر قابو پاگئی تھی ۔ پھر سے وہی رعب جھاڑتی ملکہ بن گئی تھی ۔حدید نے دونوں ہاتھ ٹیبل پر رکھ کر سر اٹھا کر بے بسی سے اسے دیکھا ۔
ارسا دیکھو میری بات سمجھنے کی کوشش کرو۔۔۔
بھاڑ میں گئے تم اور تمہاری باتیں ۔ اس نے تیز آواز میں کہا ۔
اب اس سے پہلے کہ میں غصے میں آکر کچھ ایسا بول دوں کہ بعد میں مجھے پچھتانا پڑے فورا یہاں سے چلے جاؤ فورا ۔ اس نے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔
ارسا تم زالان کو سچ بتادو پلیز۔ وہ منمنایا تھا۔
نہیں بتاؤں گی نہیں بتاؤں گی کیا کرلو گے تم؟ اس نے دونوں ہاتھ کمر پر رکھے ۔ حدید نے ایک نظر اسے دیکھا پھر سیدھا کھڑا ہوا ۔
ٹھیک ہے تم اسے نا بتاؤ لیکن میری ایک بات یاد کرنا تمہیں اپنے ہی بھائی کے ہاتھوں مرنے میں بھی نہیں دوں گا ۔ اس نے جلدی جلدی کہا اور دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔ جبکہ پیچھے ارسا نے اپنا لانگ کوٹ اتار کر راکنگ چیئر پر لٹکایا اور واشروم کی طرف چلی گئی ۔ کھڑکی سے جھانکتا سورج حیران کھڑا تھا ۔ جن دوستوں کو اس نے ہمیشہ ہنستے دیکھا تھا آج زالان کی وجہ سے ایک دوسرے سے لڑ پڑے تھے ۔ جبکہ اپارٹمنٹ کے لاؤنچ میں بیٹھ کر حسیب کمانڈر کے آرڈر سنتے ہوئے زالان کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی کہ اس کی وجہ سے کورٹ میں کیا ہورہا تھا ۔
———– ———-
اس کائناتِ محبت میں ہم مثلِ شمس و قمر کے ہیں
اک رابطہ مسلسل ہے اک فاصلہ مسلسل ہے
آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے ۔ آج دوبارہ بارش کے امکانات تھے ۔ تیز ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی ۔ کورٹ کی پچھلی سائیڈ پر بنے گارڈن میں جاؤ تو خوبصورت پودوں اور پھولوں کے بیچ رکھی کرسی پر بیٹھ کر شیشے کی ٹیبل پر جھک کر رجسٹر پر وہ کچھ لکھ رہی تھی ۔ سیاہ لانگ کوٹ کرسی کی پشت پر لٹک رہا تھا ۔ ٹیبل کے کنارے پر اس کا خاکی ہینڈ بیگ رکھا تھا ۔ ٹیبل کے نیچے کچھ کاغذ مروڑ تروڑ کر پھینکے گئے تھے۔ اور کچھ پھینکے جارہے تھے ۔ رجسٹر کے برابر میں چاکلیٹس رکھی تھیں جنہیں وہ وقفے وقفے سے کھا رہی تھی ۔ نقاب سے جھانکتی بڑی بڑی آنکھیں بے زاریت ظاہر کر رہی تھیں ۔ وہ بار بار کچھ لکھ کر مٹا رہی ۔ آخر تنگ آکر اس نے کاغذ پھاڑ کر اسے مروڑ کر پیچھے کی جانب پھینکا ۔ جو گارڈن میں داخل ہوتے حدید کے قدموں میں گرا تھا ۔ اس نے مسکراتے ہوئے کاغذ کو دیکھا اور پھر ارسا کو ۔ نیچے جھک کر اس نے کاغذ اٹھایا اور اسے کھولا ۔ کاغذ پر ریاضی کے کچھ اعدادوشمار لکھے تھے جنہیں بار بار کاٹا گیا تھا ۔ اس نے تاثف میں سر ہلایا ۔ موت کے علاوہ ریاضی وہ واحد چیز تھی جو اس ظالم ملکہ کو مات دے سکتی تھی اور فی الوقت ملکہ ریاضی میں پھسی ہوئی تھی ۔
ارسا۔ حدید نے اس کے دائیں طرف کھڑے ہو کر کہا۔ ارسا نے بنا اس کی طرف دیکھے رجسٹر سے ایک کاغذ پھاڑا اور اس پر بڑا بڑا کر کے Don’t Disturb Me لکھ کر کاغذ اس کی طرف بڑھایا۔ پھر ہاتھ میں پکڑی پینسل سر پر مار کر کچھ سوچنے لگی ۔
ارسا ۔ اس کے دوبارہ مخاطب کرنے پر ارسا نے اس کاغذ کی طرف اشارہ کیا ۔
ارسا مجھے بات کرنی ہے تم سے ۔ اس نے بے چارگی سے کہا۔
کچھ لکھتے ہوئے ارسا نے زور سے پینسل ٹیبل پر پھینکج۔
بھاڑ میں گئی تمہاری بات ۔ دیکھ رہے ہو نا کام کر رہی ہوں ۔ کہا بھی ہے کہ ڈسٹرب مت کرو پھر بھی ارسا ارسا کی رٹ لگا رکھی ہے ۔ اس نے تیز آواز میں کہا
اب چپ کر کے کھڑے رہو۔ اس نے پینسل اٹھائی اور دوبارہ کاغذ پر لکھنا شروع ہوگئی۔ حدید نے تنگ آکر بیٹھنے کے لیئے کرسی کھینچی ۔
میں نے کہا کھڑے رہو ۔ اس نے حدید کو گھورا۔ اپنی معصومیت کو برقرار رکھتے ہوئے وہ سیدھا کھڑا ہو گیا ۔ پندرہ منٹ کے بعد اس کی ٹانگیں شل ہونے لگیں تھیں ۔ ٹیبل کے نیچے کاغذوں کے ڈھیر میں اضافہ ہوچکا تھا ۔
ارسا آخر مسئلہ کیا ہے ؟ تنگ آکر اس نے پوچھا تھا ۔
اسمگلنگ کیس ہے سزا کے طور پر مجرموں کو کچھ سالوں کی قید اور کچھ جرمانہ دینا ہوگا ۔ اب اس جرمانے کو تقسیم کرنا ہے کہ کتنا پیسہ گورنمنٹ کو دینا ہے اور کتنا اسمگل شدہ چیزوں سے متاثر افراد کے علاج کے لیئے دینا ہے ۔ اس نے ایک اور کاغذ نیچے پھینکا۔
حدید نے اس کے ہاتھ سے پینسل کی اور ٹیبل پر جھک کر کر کاغذ پر کچھ لکھنے لگا۔ پانچ منٹ بعد اس نے کاغذ ارسا کو تھمایا ۔
ہوگیا ۔ ارسا مسکرائی ۔
اچھی بات ہے ۔ خیر تم نے یہاں آنے کی تکلیف کیوں کی ؟ میرے جنازے پر آتے نا۔ اس کے انداز سے ناراضگی جھلک رہی تھی ۔
میں سوری کہنے آیا ہوں ارسا۔حدید نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا
تو کہو ۔ اس نے کندھے اچکائے ۔
سوری ظالم ملکہ۔
کیا کہا ؟ ارسا نے زور سے کہا۔
سوری۔
آواز نہیں آئی؟ اس نے تھوڑی اور تیز آواز میں کہا
میں نے کہا سوری ۔
حدید تھوڑا اونچا بولو میرے کانوں کو کچھ ہوگیا ہے ۔ اس نے کانوں پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
آئی ایم سو سورری ارساااا۔۔۔ وہ اس کے کانوں کے قریب آکر چلایا تھا ۔
اوکے اوکے آرام سے میں بہری نہیں ہوں ۔ بیٹھ جاؤ ۔ اس نے سنجیدگی سے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔حدید کرسی پر بیٹھ گیا۔
ہاں اب بولو کیا کہ رہے تھے؟ حدید نے اپنے سر پر ہاتھ مارا تھا ۔
آئی ایم سو سوری ارسا مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئی ہے مجھے معافی مل سکتی ہے پلیز ۔ اس نے معصوم شکل بنا کر کہا تھا۔
تم مجھ پر چلائے ۔ اس نے کرسی کی پشت پر ٹیک لگایا۔
لیکن تم بھی چلائیں تھیں ۔ وہ منمنایا
نہیں نہیں ۔ سوری بولتے وقت بہانے نہیں بناتے ۔اس نے نفی میں سر ہلایا ۔
اوکے ہاں میں تم پر چلایا۔ اس نے ہار مانی
تم نے مجھے دھمکی دی رائٹ؟ اس نے سوالیہ نظروں سے حدید کو دیکھا ۔ حدید نے اثبات میں سر ہلایا ۔
اب بتاؤ میں کون ہوں؟ وہ مسکرائی۔
ظالم ملکہ۔
اور ظالم ملکہ معاف کرتی ہے؟ سوال آیا
نہیں وہ یا تو سزا دیتی ہے یا ڈیل کرتی ہے ۔حدید نے آنکھیں جھپکائیں
گڈ ۔ ارسا نے اسے شاباشی دی۔
تو پھر کوئین ارسا ہاشم حدید سے ڈیل کرے گی۔ وہ اس کی طرف جھکی۔
حدید کو اس کے ارادے خطرناک لگ رہے تھے۔
میں تمہیں معافی دوں گی لیکن بدلے میں مجھے کچھ چاہئیے۔ حدید نے بے بسی سے اسے دیکھا۔
کیا؟
ایک کپ کافی ود آوٹ شگر اورررر۔۔۔۔۔ اور تمہاری گولڈن پسٹل۔وہ کھل کے مسکرائی ۔
میں وہ تمہیں نہیں دوں گا۔اس نے کہا تھا
تو تمہیں معافی بھی نہیں ملے گی ۔ اس نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
سنو صرف کافی پر بات نہیں ختم ہوسکتی۔
نو چانس ۔ اس نے کندھے اچکائے ۔
اوکے ۔ وہ کھڑا ہوا ۔
کل صبح واک کے بعد پسٹل تمہارے گھر دے جاؤں گا ۔لیکن اس میں مجھے کیا فائدہ ہوگا ۔ارسا نے ایک آئبرو اچکائی۔
تمہیں میری معافی ملے گی ۔
اور معافی کے ملتے ہی حدید تباہ ہوگا۔ وہ بڑبڑایا۔
ارسا نے گھور کر اسے دیکھا ۔ اور مڑتے ہوئے حدید کے گھٹنے کی پچھلی سائیڈ پر جاگر مارنے کے لیئے پاؤں اٹھایا ۔ اس کے اس وار کو حدید نے اپنا جاگرز میں مقید پاؤں اس کے جاگرز پر مار کر ناکام بنایا ۔ وہ لڑکھڑائی۔ غصے سے اس نے حدید کو دیکھا ۔ وہ مسکرایا ۔
میں کافی پینے جارہی ہوں بل دے دینا ۔ گھورتے ہوئے کہا گیا۔حدید نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا ۔ اس نے غصے سے ہینڈ بیگ ہٹایا اور اس کی طرف مڑی ۔ ہاتھ کا مکا بنا کر پوری قوت سے اس کے کندھے پر مارا ۔ وہ اس حملے کے لیئے تیار نہیں تھا اسی لیئے پیچھے کی جانب لڑکھڑایا۔
تم ہمیشہ پنگا بھی تو کوئین ارسا ہاشم سے لیتے ہو بچے۔ جاتے جاتے وہ اسے سہی کا تپا گئی تھی۔
———- ———–
ابھی ضد نہ کر، دل بے خبر
کہ پس ہجوم ستمگراں!
ابھی کون تجھ سے وفا کرے؟
ابھی کس کو فرصتیں اس قدر
کہ سمیٹ کر تیری کرچیاں
تیرے حق میں رب سے دعا کرے
I’m so lonely broken angel
I’m so lonely listen to my heart
I’m so lonely broken angel
I’m so lonely listen to my heart
One n’ only, broken angel
Come n’ save me before I fall apart
لاونچ میں فل والیوم میں سونگ چل رہا تھا ۔ اور وہ ٹانگیں صوفے کے اوپر رکھ کر ہاتھ میں موبائل پکڑ کر لیٹی ہوئی تھی ۔ کانوں میں ہینڈفری لگے تھے ۔ عبایا ابھی تک نہیں اترا تھا ۔ البتہ نقاب ٹھوڑی پر ٹکا تھا ۔ ایک ہاتھ میں چاکلیٹ تھاما ہوا تھا ۔ ٹیبل پر پڑا ہینڈ بیگ اب قالین پر گر چکا تھا ۔ ساتھ ہی کچھ ریپر پھینکے ہوئے تھے ۔ کچھ کشن گود میں رکھے تھے جبکہ کچھ کہ اوپر اس نے ٹانگیں رکھی ہوئی تھیں ۔
I’m so lonely broken angel
I’m so lonely listen to my heart
One n’ only, broken angel
Come n’ save me before I fall apart
La la Leyli, la la Leyli, la la la la la
La la Leyli, la la Leyli, la la la la la
ارسا آواز کم کرو۔ عائشہ جھنجلائی ہوئی لاونچ میں آئی تھیں ۔ اور یہاں کی حالت دیکھ کر سر پکڑ کر بیٹھ گئیں ۔
لڑکی عبایا تو اتارو ۔ دو گھنٹے ہوگئے ہیں تمہیں آئے ہوئے ۔ عائشہ کشن سمیٹتے ہوئے بولیں ۔ پھر اس کی طرف دیکھا تھا جو اب بھی ویسے ہی موبائل پر لگی تھی ۔ انہوں نے آگے بڑھ کر اس کے کان سے ہینڈ فری نکالا ۔
ارسا اٹھو ۔ انہوں نے تیز آواز میں کہا
اللہ اللہ کیوں چلا رہی ہیں ۔ آرام سے بولیں ۔ وہ گڑبڑا کر اٹھ بیٹھی ۔
حالت کیا بنائی ہوئی ہے تم نے اپنی ۔ عبایا اتارو ۔ تمہارے ابو آچکے ہیں اور تمہیں ہوش ہی نہیں ہے ۔ وہ اب ریپر اٹھا کر ڈسٹ بن میں ڈال رہی تھیں ۔
اچھا جی اٹھتی ہوں اور کوئی حکم ۔ اس نے کشن سائیڈ پر رکھے ۔
اب جلدی سے فریش ہوکر آو ۔
دو منٹ میں آئی ۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔ عجیب لڑکی تھی ۔ کچھ وقت پہلے چلا رہی تھی اور اب پرسکون تھی ۔ اس دنیا کو منافقت کی دنیا ایسے ہی تو نہیں کہتے ۔ یہاں لوگ پل پل میں رنگ بدلتے ہیں ۔۔ اس نے بھی رنگ بدلنا سیکھ لیا تھا ۔خود کو اپنی ذات کے خول میں بند کردیا تھا ۔ مختلف جگہوں پر مختلف وقت میں مختلف رنگوں کے ساتھ جینے والی لڑکی پراسرار شخصیت کی مالک تھی ۔
———— ———
وہ جو سفر کا جنون تھا ، وہ جو منزلوں کی تلاش تھی
وہ جو تڑپ تھی مجھ میں کہاں گئی ، مجھے کس کمی نے بجھا دیا
سورج غروب ہورہا تھا ۔ اندھیرا آہستہ آہستہ پھیل رہا تھا ۔ سردیوں کے دنوں میں راتیں ویسے بھی لمبی ہوتی ہیں ۔ اسی لیئے چھ بجے کے بعد ہی سورج غروب ہوجاتا تھا ۔ لاونچ میں لائیٹیں جل رہی تھیں ۔ ہادی صوفے پر بیٹھا اپنی پسٹل صاف کر رہا تھا ۔ پسٹل صاف کر کے اس نے پسٹل کے اندر گولیاں ڈالی پھر اسے سائیڈ پر رکھ دیا ۔ ٹانگ پر لگی پٹی کو دیکھا ۔ پھر گہری سانس لے کر لیپ ٹاپ پر کسی کی لوکیشن ٹریس کرنے لگا ۔ اپنی کمرے میں کھڑکی کے پاس کھڑے زالان نے مڑ کر لاونچ میں بیٹھے ہادی کو دیکھا پھر اس کی پسٹل کو ۔ ایک آنسو اس کی آنکھ سے نکل کر گال پر پھسلا تھا ۔
ہے عجب کیفیت زندگی
نہ گزر رہی نہ ٹھہر رہی
نہ تھا کل میرا نہ ہی آج ہے
نہ ہی ماضی ہوں نہ میں حال ہوں
بے قراری ہوں نہ ہی تشنگی
نہ میں شور ہوں نہ ہی خاموشی
نہ کسی کا فخر و غرور ہوں
نہ وہم ہوں میں نہ خیال ہوں
نہ کلام میں زیر گفتگو
نہ ہوں آرزو نہ ہی جستجو
نہ کسی کے حرف دعا میں ہوں
نہ کسی کا رنج و ملال ہوں
پس آئینہ جو وجود ہے
وہ ہے کرچی کرچی جڑا ہوا
سر آئینہ میرا عکس ہے
باکمال ہوں باجمال ہوں
———— ———
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...